Category: پنجابی لوک گانے

  • شادی بیاہ کے گیت- Wedding Songs. قسط نمبر 2

    شادی بیاہ کے گیت- Wedding Songs. قسط نمبر 2

    شادی بیاہ کے گیت
    Wedding Songs
    قسط نمبر 2

    شادی بیاہ کے گیت کی قسط نمبر 1 آپ نے پڑھ لی. دوسری قسط حاضر خدمت ہے. ان گیتوں میں ہنسی مذاق کے گیت بھی ملتے ہیں. ایسے گیت صرف اور صرف شادی بیاہ کے موقعوں پر ہی گاےُ جاتے ہیں. اس کے علاوہ انہیں گایا نہیں جاتا.

    :عنوانات

    – مزاحیہ گیت
    – شادی میں کام کرنے والے.
    – بارات کی آمد پر گاےُ جانے والے گیت

    :مزاحیہ گیت

    مزاح سے بھر پُور گیت بھی سُننے میں آتے ہیں. جیسے یہ گیت ہے :

    لوک تے پاندے سُرم سلایُاں
    میں لپ بھر پاندی سُرم سلایُاں
    میں نکّا نہیں سر کھولیا
    میرا پیُو قبراں وچّوں بولیا
    دانہ پھکّا تُوں ونڈ لے سایاں
    رانجھے نے مُندراں پایُیاں

    میں چڑھ کوٹھے تے ہسّی
    تیری ماں چکڑے وچ پھاہتی
    دانہ پھکّا تُوں ونڈ لے سایُیاں
    رانجھے نے مُندراں پاییُاں

    تیری ماں نے پکایا ساگ وے
    میں منگیا تے چٹّا جواب وے
    دانہ پھکّا تُوں ونڈ لے سایاں
    رانجھے نے مُندراں پاییُاں

    میں پیکیوں آندیاں سیویاں
    تیری ماں منگیاں نہیں دینیاں
    دانہ پھکّا تُوں ونڈ لے سایاں
    رانجھے نے مُندراں پاییُاں

    میں پیکیوں آیُ چل کے
    اگّے بیٹھا موہاٹھاں مل کے
    دانہ پھکّا تُوں ونڈ لے سایاں
    رانجھے نے مُندراں پاییُاں

    :اردو ترجمہ

    لوگ تو آنکھوں میں سُرمہ کی ایک آدھ سلایُ ہی لگاتے ہیں.
    میری آنکھیں اتنی بڑی ہیں کہ میں ان میں چلّو بھر سُرمہ ڈالتی ہُوں.
    میں نے اپنے بال کھول کر انہیں کھُلا چھوڑ دیا
    میرے باپ نے قبر سے آواز دی بیٹا! جو کام بھی کرو، اس میں شرم و حیا کو ملحوظ رکھو.
    تم اناج کا اپنا حصّہ لے کر الگ ہو جاوُ.
    رانجھے نے بھی تو اپنے کانوں میں مُندریں ڈال لی تھیں.( اس مصرع کا باقی مصرعوں سے کویُ تعلق نہیں، صرف شعر کو ہم وزن بنانے کے لیےُ ہے).

    میں مکان کی چھت پر گییُ ، تو یہ دیکھ کر میری ہنسی نکل گیُ کہ تمہاری ماں کیچڑ میں پھنسی ہُویُ ہے اور وہ کیچڑ سے باہر نکل نہیں پا رہی.

    تمہاری ماں نے سرسوں کا ساگ پکایا
    میں نے ساگ مانگا تو اُس نے کورا جواب دیا.

    میں اپنے میکے اسے سویاں لایُ ہُوں.
    تمہاری ماں نے مانگیں تو میں بھی نہیں دُوں گی.

    میں میکے سے پیدل چل کر آیُ.
    یہ کیا ! میرے انتظار میں تم مکان کی دہلیز پر بیٹھے ہو.
    تم اناج کا اپنا حصّہ لے کر الگ ہو جاؤ،
    رانجھے نےبھی کانوں میں مُندریں ڈال لی تھیں.

    مندرجہ ذیل گیت بھی اسی طرح کا ہے

    میری مُندری دے دے ماہیا
    ماہیا وے ڈھول سپاہیا
    کیہی تاہنگ دلے نون لایُ آ

    ایہہ مُندری میری اٹیاں گٹیاں
    ٹھنڈی سڑک تے پھردیاں جٹیاں
    سر تے گاگر چایُ آ

    ایہہ مُندری میری پیُ پڑوپی
    لاہ چھڈ چیرا پا لے ٹوپی
    رُت گرمی دی آیُ آ

    ایہ مُندری میری اٹڑے پٹڑے
    وڈّے صاحب دے مر گیےُ بچڑے
    میم مُکانی آیُ آ

    ایہہ مُندری میری پییُ بھڑولے
    گڈّی کنک تے جم پیےُ چھولے
    ہولاں دی رُت آیُ آ

    ایہ مُندری میری لے گیا چڑا
    لاہور دیاں مہڈیاں، پشور دا کڑا
    جالندھروں گُت کرایُ آ

    : اردو ترجمہ

    تم نے میری جو انگوٹھی چھینی تھی وہ واپس کر دو.
    میرے ساجئن ! میرے سپاہی ساجن.
    تم نے میرے دل میں محبت کی جوت جگا دی ہے

    میری یہ انگوٹھی تو اٹیاں گٹیاں ہے
    ٹھنڈی سڑک پر جٹیاں سیر کر رہی ہیں.
    ان کے سروں پر پانی سے بھری پیتل کی گاگریں ہیں.

    میری انگوٹھی پڑوپی میں پڑی ہے.
    اپنے سر سے ریشم سے بنی پگڑی اُتار کر ٹوپی پہن لو
    گرمی کا موسم ہے، پگڑی باندھے رکھنے سے سر پر پسینہ آےُ گا.

    میری یہ انگوٹھی اٹڑے پٹڑے ہے.
    بڑے صاحب کے بچّے فوت ہو گیےُ ہیں.
    ایک میم ان کے ہاں تعزیّت کے لیےُ آیُ ہے.

    میری یہ انگوٹھی بھڑولے میں پڑی ہے.
    گندم کا بیج بویا تھا، قسمت دیکھو، چنے اُگ آےُ.
    اب تو ہولوں کا موسم آیا ہے.

    میری انگوٹھی چڑیا لے گییُ.
    اپنے بال لاہور کے بیوٹی پارلر سے سنوارے ہیں، ہاتھ کا کڑا پشاور سے خریدا ہے.
    بالوں کی چوٹی جالندھر سے گندوایُ ہے.

    اس گیت میں کچھ خالص پنجابی زبان کے الفاظ ہیں، گیت سے پُوری طرح لطف اندوز ہونے کے لیےُ ان الفاظ کی تشریح ضروری معلوم ہوتی ہے.

    ڈھول = پنجابی زبان کے گیتوں میں لفظ ” ڈھول ” کا استعمال عام ہے.اردو زبان میں ساجن، محبوب، پیارا اوردلبر کا ہم معنی ہے.

    تاہنگ = اردو زبان کا لفظ ” طلب ” اس کے معنی کے قریب تر ہے.

    اٹیاں = کچّے سُوت کا جب گولا سا بنا لیا جاےُ تو اُسے ” اٹّی ” کہتے ہیں.

    گاگر = پُختہ متّی کا گھڑا تو آپ نے دیکھا ہوگا، اگر یہی گھڑا پیتل کا بنایا جاےُ تو اُسے گاگر کہیں گے.

    پڑوپی = دیہات میں اناج کو ناپنے کا ایک پیمانہ ہوتا ہے جسے ” ٹوپہ ” کہتے ہیں. جو تقریبآ 2 کلو کا ہوتا ہے. توپے کے چوتھے حصّہ کو پڑوپی کہتے ہیں.

    چیرا = سر پر باندھنے کی پگڑی عمومآ سفید ململ کی ہوتی ہے. سُوت اور ریشم سے بُنا ہُوا پگڑی کی چوڑایُ میں کپڑے کو “چیرا ” کہلتے ہیں. آج کل اس کا رواج بہت کم ہے. بعض بُوڑھے پٹھانوں کے سر پر یہ کبھی کبھی نظر آ جاتا ہے.

    بھڑولا = اناج کو عمومآ سن کی بوریوں میں بھر کر ذخیرہ کیا جاتا ہے. گھروں میں سال بھر کے استعمال کے لیےُ اناج کو بھڑولوں میں رکھا جاتا ہے. آج سے ساٹھ ستّر سال پہلے یہ بھڑولے مٹّی سے بناےُ جاتے تھے. آج کل یہ ٹین سے بناےُ جاتے ہیں. بھڑولا عمومآ 4 فُٹ قطر کا گول اور لمبُوترا ہوتآ ہے. گولایُ اور لمبایُ میں کمی بیشی ہو سکتی ہے. اونچایُ عمومآ 6 فٹ ہوتی ہے. اوپر والے حصّہ کو کھولا اور بند کیا جا سکتا ہے. پیندے والے حصے کے نیچے 4 پاےُ لگاےُ جاتے ہیں. تا کہ یہ زمین سے 4 یا 5 انچ اونچا رہے. کسی ایک طرف پیندے سے 3 انچ اوپر ایک چھوٹا سا دروازہ رکھا جاتا ہے. جسے بند کرنے کے لیےُ ڈھکنا لگا ہوتا ہے. اناج کو بھڑولے کے اوپر والے حصہ سے بھڑولے میں ڈالا جاتا ہے. جسے حسب ضرورت نچلے سوراخ سے نکالا جا سکتاہے.

    ہولاں = چنے کی فصل کو جب ابھی سبز ہو، لیکن اس میں دانہ نشو و نما پا چکا ہو، کاٹ لیتے ہیں. شہروں میں اسے ” چھولیا ” کے نام سے بیچا جاتا ہے. یہ سبز چنےکے دانے غذاییُت سے بھر پور ہوتے ہیں. انہیں سالن کی طرح پکا کر کھاتے ہیں. دیہات میں ڈھور ڈنگر چراتے ہوےُ یا کنویُیں پر ہانڈی کون پکاےُ. اس کا حل یہ نکالا گیا کہ آگ جلا کر اس میں سبز چھولیا کا پودا پتوں سمیت ڈال دیتے ہیں. سبز چھولیےُ کو آگ پوری طرح جلا نہیں سکتی. آگ کی گرمی سے چھولیے کے اندر کا دانہ پک کر نرم ہو جاتا ہے. آگ بجھا کر چھولیےُ کے دانے کھا لیےُ جاتے ہیں. آگ میں پکے ہُوےُ چھولی کو ” ہولاں ‘ کہتے ہیں. یہ ایک قوت بخش قدرتی خالص خوراک ہے. جسے بڑے شوق سے کھایا جاتا ہے. یہ الگ بات ہے کہ دانے کو خول سے نکالتے وقت ہاتھ اور مُنہہ تھوڑے سے کالے ہو جاتے ہیں. جنہیں بعد میں پانی سے دھویا جا سکتا ہے.

    مُکان = کسی کی فوتیدگی پر لوگ، رشتہ دار تعزیت کے لیے آتے ہیں، اسے ” مُکان ” کہتے ہیں. تفصیل دیکھیےُ “ پنجابی اکھان-ردیف “ک” نمبر 16-7 “.

    مہڈیاں = شہروں میں عورتیں اپنے بالوں کو کھُلا رکھتی ہیں. بلکہ اپنے سر کے بالوں کو دوپٹّہ کا نعم البدل سمجھ کر دوپٹّہ اتار دیتی ہیں. دیہات میں ابھی بھی بعض عورتیں کانوں کے اوپر والے بالوں کو رسّی کی طرح گوندھ کر سر کے پچھلے بالوں کے ساتھ ملا لیتی ہیں. ایسے گُندھے ہُوےُ بالوں کو ” مہڈیاں ” کہتے ہیں.

    گُت = عورتیں اپنے لمبے بالوں کوپیچھے کی طرف کر کے رسی کی طرح گُوندھ لیتی ہیں. گوندھے ہُوےُ یہ بال کمر کے نیچے تک آ جاتے ہیں. گوندھے ہوےُ ان بالوں کو پنجابی زبان میں ” گُت ” کہتے ہیں . گُت کے متعلق پنجابی زبان کی ایک بولی بہت مشہور ہے، یہ بولی دلچسپ ہونے کے ساتھ کچھ نہ کہتے ہُوےُ بھی بہت کُچھ کہہ جاتی ہے. اسے پڑھبے کے لیےُ ” لوک ورثہ-بولیاں-قسط نمبر4″ وزٹ کیجیےُ.

    شادی والے گھر میں یہ گیت شادی والے دن یا بارات کے آنے تک گاےُ جاتے ہیں.

    : شادی میں کام کرنے والے

    آج سے ساٹھ ستّر سال پہلے جب شادی گھروں کی وبا ابھی پھیلی نہیں تھی.شادی کے سارے انتظامات گاؤں میں ہی کیےُ جاتے تھے. مختلف کام گاؤں کے کمیوں کے ذمہ ہوتے تھے. ان کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے :

    درزی = شادی والے دن سے تقریبآ ایک ہفتہ پہلے درزی اپنی مشین لے کر شادی والے گھر آ جاتا تھا. یہاں وہ گھر کے سارے افراد کے نیےُ کپڑے سیتا تھا.

    نایُ = نایُ کے ذمہ کھانا پکانا ہوتا تھا. اُسے ساری مطلوبہ اشیا مہیّا کر دی جاتیں. سالن تقسیم کرنا بھی اسی کی ذمہ داری ہوتی تھی.

    کمہار = کمہار کے ذمہ روٹیاں پکانے کے لیےُ آٹا گوندھنا ہوتا تھا. کمہار کے پاس پختہ مٹّی کے بنے ہوےُ بڑے بڑے ٹب ہوتے تھے، جنہیں ” کُنال ” کہتے تھے. ان کُنالوں میں بہ یک وقت دو من آٹا گوندھا جا سکتا تھا.

    ماچھی = روٹیاں پکانے ، دیگ پکانے کے لیےُ آگ جلانا، آگ کے لیےُ لکڑی تیار رکھنے کے علاوہ پانی مہیا کرنا ماچھی کی ذمہ داری ہوتی تھی.

    ترکھان = کھانا اور روٹیاں پکانے کے لیےُ آگ جلانے کی لکڑی کو چھوٹا چھوٹا کر کے دینا ااس کے فرایُض میں شامل تھا.

    مصلّی = آگ جلانا اور اسے جلاےُ رکھنا اس کا فرض تھا.

    موچی = شادی والے گھر کے افراد کے لیےُ نیےُ جوتے بنانا، خصوصآ دولہا یا دلہن کے لیے سنہری زری والا کھُسّہ بنا کر دینا اس کی ذمہ داری تھی.

    دھویُیں والا = مہمانوں کے لیےُ حُقہ تیار کر کے رکھنا ، اور حقوں کے لیےُ آگ ہر وقت تیار رکھنا اس کی ذمہ داری تھی.

    مراثی = مہمانوں کو چاےُ، دودھ ، پانی پلانا اس کے فرایُض میں شامل تھا.

    امام مسجد = روٹیاں، چاول، حلوہ، کھیر پکا کر ایک کمرے میں رکھ دیےُ جاتے، امام مسجد حسب ضرورتب تقسیم کرتا رہتا.

    لوہار = لوہے کی کویُ چیز مرمت طلب ہو تو اس کی مرمت کرنا.

    ہر شخص اپنا اپنا کام کرتا یہ گویا امداد باہمی کی ایک عمدہ شکل تھی. شادی کے بعد تمام کمیوں کو ان کے کام کا معاوضہ دیا جاتا، جسے ” لاگ ” کہتے تھے.

    آج کل زمانہ ترقی کر گیا ہے. ہر گھر میں سے کویُ نہ کویُ بھایُ یا بیٹا بیرون ملک گیا ہے. وہ وہاں سے ڈھیروں پیسے بھیج رہے ہیں. نیےُ نیےُ عمدہ مکان بن رہے ہیں. گھروں میں موٹر کاریں کھڑی ہیں. اب شادیاں گاؤں میں نہیں ہوتیں، شادی گھروں کی بہتات ہے. کسی بھی شادی گھر میں فی آدمی نرخ طے کر لو، وقت مقررہ پر شادی ہال پہنچ جاوُ . کسی کام کے کرنے کی ضرورت نہیں. پیسہ سنوارے کام. اور رہے نام اللہ کا.

    بارات کی آمد پر گاےُ جانے والے گیت

    دُولہا کی بارات تیار ہے، باراتی اپنی اپنی گھوڑیوں پر بیٹھے ہیں. ( آج کل گھوڑیوں کی جگہ موٹر کاروں نے لے لی ہے ) بارات دلہن کے گاؤں پہنچتی ہے. وہاں ان کے استقبال کے لیےُ لڑکیاں تیار بیٹھی ہیں. اس موقع پر زبانی مذاق کو فراخ دلی سے سہا جاتا ہے. لڑکیاں مکانوں کے بنیروں پر بیٹھ کر گا رہی ہوتی ہیں. ان گیتوں کو ” سٹھنیاں ” کہتے ہیں :

    آن لتھّے ساڈے دوارے وے
    کُڑیاں لینے دے مارے وے
    آن وڑے سآڈی رڑی تے
    کُڑیاں دیندے نے چڑی تے

    : اردو ترجمہ

    ہمارے دروازے پر آ اُترے ہو.
    یہ تم دلہن کو لینے آےُ ہو
    ہمارے میدان میں آ اُترے ہو.
    تم تو لڑکیاں ضد میں آ کر دے دیتے ہو.

    اب لڑکیوں کے دوسرے گروہ کی باری آتی ہے.

    نو ویہاں اساں کلّا ٹھکایا
    جنج دے نال گھوڑا اک نہ آیا
    ماواں ڈھنگایؤ سہی
    وے لجیو لج تُہانوں نہیں

    لج پایُ اساں اپنےپاڑچھے
    دھی دتّی اساں اللہ دے واسطے
    پھتّے دی پوش پوش کہی
    وے لجیو لج تہانوں نہیں

    ادھّی جے راتیں جھکھڑ گھُلیا
    پھاتو دا ماں پیُو کاییُں تے بھُلیا
    اسی نہ بھُلّے سانوں لیکھاں بھُلایا
    بھاییُاں دا میلہ ساڈے بُوہے تے آیا
    دھی دتّی اساں میلہ اُٹھایا
    میلہ تے موڑنا نہیں
    وے لجیو لج تہانوں نہیں

    کوری کُنّی وچ ردھّے بٹیرے
    لاڑا سُنیدا صاحب دے ڈیرے
    چھُتّی تے ملدی نہیں
    وے لجیو لج تُہانوں نہیں

    کوری کُنّی وچ ردھیاں رہڑکاں
    ایس مہاراجے نوں دیہو نہ جھڑکاں
    پیُو تے جیوندا نہیں
    وے لجیو لج تُہانوں نہیں

    کوری کُنّی وچ سریوں دا ساگ اے
    ڈٹھّا نی داراں تیرا ویہاج اے
    لاڑا تے سوہنا نہیں
    وے لجیو لج تہانون نہیں

    ساڈی جے روہی وچ بینڈے پیےُ چیکدے
    لاڑے دی ماں نوں کُتّے دھریکدے
    جانجیاں ہا ہا پایُ
    وے لجیو لج تُہانوں نہیں

    : اردو ترجمہ

    ہم نے باراتیوں کے گھوڑوں کو باندھنے کے لیے 180 کھُونٹے گاڑے.
    مگر بارات میں ایک بھی گھوڑا نہ تھا.
    باراتیو! ایسا کرو، ان کھونٹوں کے ساتھ تم اپنی اپنی ماں کو باندھ دو.
    شرم والو ! تمہیں شرم نہیں آتی.

    ہم نے اپنے پرنالے کے ساتھ رسی باندھی.
    ہم نے اپنی بیٹی تمہیں خُدا کے نام پر دے دی.
    پھتّا ( فتح محمد کا عُرف نام ) تو سفید پوش آدمی ہے.
    شرم والو! تمہیں شرم نہیں آتی.

    آدھی رات کو زور کی آندھی آیُ.
    پھاتو ( فاطمہ کا بگڑا ہُؤا نام. یہ دلہن کا نام ہے) کے ماں باپ نے کیا دیکھا جو رشتہ منظور کر لیا؟
    ہم نہیں بھُولے، ہماری قسمت میں یہ بھول لکھی تھی ( ماں باپ کا جواب ).
    چار بھاییُوں کا میلا ہمارے گھر آیا تھا.
    ہم سے ان بھاییُوں کی ناراضگی سہی نہ جا سکی. ہم نے بیٹی کا رشتہ دے دیا.
    بھلا ہم میلا میں آےُ ہُوےُ بھاییُوں سے انکار کیسے کر سکتے تھے.

    نیُ ہانڈی میں بٹیرے پکاےُ ہیں.
    سُنا ہے دُولہا کسی بڑے صاحب کا نوکر ہے.
    اُسے چھُٹّی نہیں ملی.

    نیُ ہانڈی میں گُٹھلیآں پکایُ ہیں.
    دولہا کو کسی بھی بات پر نہ جھڑکنا.
    اس کا باپ زندہ نہیں ہے.

    نیُ ہانڈی میں سرسوں کا ساگ پکایا ہے.
    سردار بیگم ! ( دلہن کی ماں ) ہم نے دیکھ لیا ہے جو تُم نے اپنی بیٹی کے لیےُ چُنا ہے.
    دُولہا تو خوش شکل نہیں ہے.

    ہمارے گاؤن کے پاس سے گزرنے والے روہی نالے میں جھینگر شور مچا رہے ہیں.
    دولہے کی ماں کو بہت سارے کُتّے گھسیٹ رہے ہیں.
    باراتی کُتّوں کو بھگانے کے لیےُ شور مچا رہے ہیں.
    شرم والو! تمہیں شرم نہیں آتی.

    مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ” میلا ” کی تشریح کر دی جاےُ.

    جب دو گروہوں یا خاندانوں میں کسی بات پر ناچاقی ہو، اور یہ خدشہ ہو کہ یہ ناچاقی یا رنجش مزید بڑھے گی، تو خاندان یا ارد گرد کے سمجھ دار لوگ اکٹھے ہو کر زیادتی کرنے والے کے گھر جاتے ہیں. اور انہیں یہ رنجش ختم کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں. ان سرکردہ آدمیوں اور رشتہ داروں کے جانے کو” میلا ” کہتے ہیں. یہ وُہ میلا نہیں جیسے     .شاہ چراغ کا میلا یا مادھو لال کا میلا، جس میں ڈھول ڈھمکے بجتے ہیں

    آپس کی ناچاقی یا رنجش مٹانے کے علاوہ ایک اور مقصد کے لیےُ بھی میلا کیا جاتا ہے.میلا میں عمومآ خاندان کے بزرگ، بہت قریبی رشتہ دارشامل ہوتے ہیں. ان لوگوں میں    ایک            دو عورتیں بھی شامل کر لی جاتی ہیں، کہ ان کی عزّت زیادہ کی جاتی ہے.  

    فرض کریں الف نے اپنے بیٹے کے لیےُ ب سے اس کی بیٹی کا رشتہ مانگا. ب نے بعض وجوہات کی بنا پر انکار کر دیا. الف یہ رشتہ ہر حالت میں لینے کے لیےُ ب کے گھر میلا لے کر جاےُ گا.
    میلا کے کچھ اصُول مقرر ہیں:

     میلا میں جانے والے حضرات اس وقت تک نہ کچھ پییُں گے نہ کھاییُں گے جب تک کہ میلا کا کویُ فیصلہ نہیں ہو جاتا.
    میلا کا جواب مُثبت ہونے کی شکل میں پانی بھی پییُں گے، اور کھانا بھی کھاییُں گے.
    میلا کا جواب نفی کی صورت میں سب لوگ بغیر کھاےُ پیےُ اُٹھ جاییُں گے.
    میلا میں باتیں شروع ہو جاییُں اور رنجشیں، شکوے ظاہر کیےُ جاییُں، تو یہ امید کی جا سکتی ہے کہ میلا کا جواب مُثبت میں ہوگا.
    اگر الف میلا کرنے والوں کی بات نہ ماننے کا فیصلہ کر چکا ہو، تو وہ نہ کویُ رنجش ظاہر کرے گا نہ کویُ شکوہ کرے گا.
    میلا کو نہ میں جواب دیا جا سکتا ہے، اس صورت میں الف کو میلا میں آےُ ہُوےُ تمام لوگوں کے خاندانوں سے بایُکاٹ کے لیےُ تیار رہنا چاہیےُ. ( یہ کافی مشکل ثابت ہوتا ہے ).

    بارات تھوڑا سا آگے بڑھتی ہے، لڑکیوں کا دوسرا گروہ تیار ہے ؛

    ماں تیری دا سر وے
    جیوں چھولیاں دا پڑ وے
    ماں تیری دیان ہڈیاں وے
    ہواییُاں کتھّے چھڈیاں وے

    ماں تیری دے لنگ وے
    جیوں بھوری مجھّی دے سنگھ وے
     ماں تیری دے گوڈے وے

    انار کتھّے چھوڈے وے
    ماں تیری دیاں باہیں وے
    جیوں ڈیرے اُتّے پھُلاہیں وے

    اردو ترجمہ

    تیری ماں کا سر ایسا پہے جیسے وہ جگہ جہاں چنے پودوں سے علیحدہ کیےُ جاتے ہیں. ( چنے کے خُشک پودوں کو ایک جگہ ڈھیر کر دیا جاتا ہے.پھر انہیں لکڑی کے ڈنڈوں سے کُوٹتے ہیں تاکہ چنے الگ ہو جاییُں ، ایسی نجگہ جہاں یہ کام کیا جاےُ اُسے “پڑ ” کہتے ہیں ).
    تمہاری ماں کی ہڈیاں، آتش بازی میں چلنے والی ہواییُاں کہاں کہاں چھوڑ آےُ؟
    تمہاری ماں کی ٹانگیں ایسی ہیں جیسے بھُورے رنگ کی بھینس کے سینگھ ( جو عمومآ گول چکر کی صورت میں ہوتے ہیں ).
    تمہاری ماں کے گھُٹنے، آتش بازی میں چلاےُ جانے والے انار کہاں ہیں ؟
    تمہاری ماں کی باہیں، جیسے کسی ڈیرے پر پھُلاہی کے درخت کی ٹہنیاں.

    یاد رہے ،ان سب باتوں کا ہدف دُولہا ہوتا ہے.

    اب لڑکیوں کے تیسرے گروہ کی باری آتی ہے

    ساڈے بُوہے تے مدینہ وے
    کیوں دُھکیوں بے یقینا وے
    ساڈے بُوہے تے گُجرات وے
    کیوں پایُ آ ادھی رات وے
    ساڈے بوہے تے کُنجاہ وے
    کیوں ٹُریوں ڈنگے راہ وے
    لا حول ولا حول وے
    نہ کنجریاں نہ ڈھول وے
    ہکّی ملّا ہکّی وے
    تیری جنج چُپاتی ڈھُکّی وے
    پیسہ نہ چھُپایا آہیں
    کنجریاں نچایا آہیں
    پیسے ٹکے دی ریت نہیں
    کنجریاں توفیق نہیں

    : اردو ترجمہ

    ہمارے گھر کے باہر مدینہ ہے.
    بات پر یقین نہ رکھنے والے! تم بارات لے کر کیوں آےُ ؟
    ہمارے گھر کے باہر گُجرات ہے.
    تم نے آتے آتے آدھی رات کیوں بتا دی ؟
    ہمارے گھر کے باہر کُنجاہ کا شہر ہے.
    تم نے آنے کے لیےُ ٹیڑھا راستہ کیوں اختیار کیا ؟
    لا حول ولا قُوۃ.
    تمہاری بارات کے ساتھ نہ ناچنے والی ہیں، اور نہ کویُ ڈھول بجانے والا ہے.
    ہکّی بھایُ ہکّی.
    تمہاری بارات تو بڑی خاموشی سے آیُ ہے.
    روپیہ خرچ کرنے کے لیےُ ہوتا ہے. بارات کے ساتھ ناچنے والیاں لے آتے.
    ہمارے ہاں روپیہ یُونہی خرچ کرنے کی روایت نہیں.
    ہم میں اتنی توفیق نہیں کہ پیسے دے کر ناچنے والیاں لاتے.

    بارات میں اگر کویُ گنجے سر والا نظر آ جاےُ ( جو اکثر نظر آ جاتے ہیں ) تو پھر کیا. اللہ دے اور بندہ لے. فورآ آوازیں آتی ہیں :

    گنجیاں نوں نہیں رکھنا پنڈ وچ
    ہکے تے گنجیو گنج چھُپاؤ،
    ہکے تے وڑ بوہ ٹنڈ وچ
    گنجیاں نوں نہیں رکھنا پنڈ وچ

    : اردو ترجمہ

    ہم گنجے آدمی کو گاؤں میں نہیں رکھیں گے.
    یا تو تم اپنا گنج چھُپاؤ.
    یا کسی ٹنڈ میں داخل ہو جاؤ.
    ہم گنجوں کو گاؤں میں نہیں رکھیں گے.

    باراتیوں اور لڑکیوں کی آپس میں نوک جھونک چلتی رہتی ہے. حتّے کی باراتی کھانا کھانے کے لیےُ مقررہ جگہ پر جمع ہو جاتے ہیں. لڑکیاں بدستُور ان کا مذاق اُڑا رہی ہیں .

    تھوڑا تھوڑا کھایا اے
    گلیاں نہ ترکایا اے
    نکّے نکّے ہتھ نے
    ماردے گڑپھ نے
    نکّے نکّے مُنہ نے
    ڈھڈ نے کہ کھُوہ نے
    میں ڈر گیُ میرا بھایُ
    ہور تے کھاندے پا پڑوپی
    پھتّا ( دولہا کا باپ فتح محمد ) کھاندا پایُ

    : اردو ترجمہ

    باراتیو ! تھوڑا تھوڑا کھانا.
    ایسا نہ ہو زیادہ کھانے سے تمہارا پیٹ خراب ہو جاےُ، اور ہمارے گاؤں کی گلیوں میں گندگی پھیلاتے پھرو.
    تم لوگوں کے ہاتھ تو چھوٹے چھوٹے ہیں.
    لیکن لُقمہ تو بہت بڑے سایُز کا لے رہے ہو.
    تمہارے مُنہ تو چھوٹے چھوٹے نظر آتے ہیں.
    لیکن تمہارے پیٹ! جیسے کنواں ہو، جسے بھرنے کے لیےُ بہت سا اناج چاہیےُ.
    تمہیں نادیدوں کی طرح کھاتے دیکھ کرمیں ڈر ہی گیُٰ.
    لوگ تو کویُ ایک چیز ایک پاؤ یا زیادہ سے زیادہ ایک پڑوپی کے برابر کھانا کھا سکتے ہیں.
    لیکن پھتّا ( فتح محمد) تو سولہ پڑوپی کے برابر کھانا کھا جاتا ہے.

    شادی بیاہ کے موقع پر دولہا اور اس کے والدین کو خاص طور پر مزاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے ، اور اس پر بُرا نہیں منایا جاتا.

    آج کل ان گیتوں کی جگہ فلمی گیتوں نے لے لی ہے. شادیاں شادی ہالوں میں ہو رہی ہیں. جہاں اس قسم کے گیت نہیں گاےُ جاتے. ذمانہ ترقی کر گیا ہے .

  • شادی بیاہ کے گیت، Wedding songs، قسط نمبر 1

    شادی بیاہ کے گیت، Wedding songs، قسط نمبر 1

    شادی بیاہ کے گیت
    Wedding songs
    قسط نمبر 1

    شادی بیاہ کے گیت کویُ نیےُ نہیں ہیں.آج سے پچاس ساٹھ پہلے شادی ایک حوبصورت اور رنگین تہوار کا سماں پیش کرتی تھی. شادی پر ہر کویُ نیےُ کپڑے پہنتا تھا. ہر قسم کا سامان پہلے سے تیار ہوتا تھا. لڑکے یا لڑکی کو ” مایوں ” بٹھایا جاتا. آج کل اسے “رسم مہندی ” کہتے ہیں. دُولہا یا دُلہن کو رنگین چوکی پر بٹھایا جاتا. ان کے ہاتھوں پر مہبدی لگایُ جاتی. اس رسم کو “کھارے بہنا ” کہتے ہیں. اس وقت لڑکیان یہ گیت گاتیں:
    جے تُوں چڑہیوں کھارے وے
    تیری ماں پتاسے وارے وے
    جے تُوں چڑہیوں گھوڑی وے
    تیرے نال بھراواں دی جوڑی وے

    :اردو ترجمہ

    جب تُم مایوں بیٹھے.
    اس خوشی میں تمہاری ماں تمہارے سر سے وار کر بتاسے بانٹ رہی ہے.
    دُلہن کو بیاہ کر لانے کے لیےُ تم گھوڑی پر بیٹھ رہے ہو.
    تمہارے ساتھ تمہارے بھایُوں کی جوڑی ہے.

    :عنوانات

    1 – شادی سے پہلے والے گیت
    2 ، مزاحیہ گیت

    :شادی سے پہلے والے گیت

    مایوں کے تین چار دن بعد شادی ہوگی. دولہا یا دلہن کے والدین ، بھایُ، بہنیں، چاچے، چاچیاں، ماموں اور پھُوپھیاں جی بھر کر اپنے ارمان نکالتے ہیں. نکاح والے دن سے ہفتہ دس دن پہلے ہی لڑکیاں گھڑا اور تھال لے کر بیٹھ جاتی ہیں ساتھ ایک چھوٹی سی ڈھولک بھی ہوتی ہے. یہ محفل شادی والے گھر کے صحن میں سجتی ہے. ایک لڑکی تھال پر ایک ردھم میں ہاٹھ مارتی ہے، جس سے تھال بجتا ہے. دیسی ساخت کی جُوتی کو اُلٹا پکڑ کر مٹّی کے پُختہ گھڑے کے مُنہ پر مارا جاےُ تو اس سے طبلہ جیسی آواز پیدا ہوتی ہے. یہ گویا طبلہ کا نعم البدل ہے. ( خود انحصاری کی عُمدہ مثال ) تیسری لڑکی چھوٹا سا کنکر یا ٹھیکری گھڑے پر مارتی رہتی ہے، جس سے ٹن ٹن کی آواز پیدا ہوتی ہے. یہ ساری چیزیں مل کر موسیقی کے ضروری سازوں کی کمی پُوری کر دیتی ہیں.

    اس موقع پر ہر قسم کے گیت گاےُ جاتے ہیں. ایسی محفلوں میں بعض دفعہ ہنسی مزاق کے گیت بھی سُننے میں آتے ہیں درج ذیل گیت اس کی ایک مثال ہے . ایسا لگتا ہے یہ دیور بھابھی کی آپس میں نوک جھونک ہے . دیور اپنے لیےُ ایک لڑکی پسند کرتا ہے ، اس کی بھابھی اس میں کویُ نہ کویُ نقص نکال دیتی ہے. پہلی لڑکی جو دیور کو پسند آیُ، وہ تھوڑی سی گنجی تھی. بھابی نے تبصرہ کیا:

    گنجی وے پرناں دیا کھوجیا گنج کتھّے چھُپاوے
    60 ست سو دا صابن آندا ، اکّو ملنی نہاوے
    بھر دیہو سلایُاں
    شابا شاہ جوانی
    جوانی بڑی مستانی
    بُڑھاپا بڑا لعنتی
    میں کویُ جھُوٹ بولیا
    نہیں، بھایُ نہیں
    میں کویُ کُفر تولیا
    نہیں بھایُ نہیں.

    بھٹ پیُ رن گنجی وے ہُن کانی لیجو
    کانی وے پر ناں دیا کھوجیا، کان کتھے چھپاوے
    ست سو دا کجلا آندا اکّو اکھ سنوارے
    بھر دیہو سلایُاں
    شابا شاہ جوانی

    بھٹ پیُ رن کانی وے، ہُن لمّی لیجو
    لمّی وے پرناں دیا کھوجیا، لم کتھّے چھُپاوے
    ست سو دا کپڑا آندا اکّو سُتھن سنواوے
    بھر دیہو سلایُاں
    شابا شاہ جوانی

    بھٹ پیُ رن لمّی وے، ہُن مدھری لیجو
    مدھری وے پرناں دیا کھوجیا، چھکّے ہتھ نہ اپڑاوے
    چاتک پوتک ٹُکّر منگدے، کوٹھے چھڑھ ارڑاوے
    بھر دیہو سلایُاں
    شابا شاہ جوانی

    بھٹ پیُ رن مدھری وے، ہُن گوری لیجو
    گوری وے پرناں دیا کھوجیا، جیوں مکھّن دا پیڑا
    گوری چڑھ چُبارے سُتّی، عاشق چوتھا پھیرا
    بھر دیہو سلایُاں
    شابا شوہ جوانی

    بھٹ پیُ رن گوری وے، ہُن کالی لیجو
    کالی وے پرناں دیاکھوجیا، جیوں وہنی دا چکّڑ
    کالی چڑھ چوبارے سُتّی، عاشق چوتھا لتّر
    بھر دیہو سلایاں
    شابا شوہ جوانی

    بھٹ پیُ رن کالی وے ،ہُن پتلی لیجو
    پتلی وے پرناں دیا کھوجیا، کاغذ وانگوں کھڑکے
    پتلی چڑھ چوبارے سُتّی، مچھلی وانگوں پھڑکے
    بھر دیہو سلایُاں
    شابا شاہ جوانی
    جوانی بڑی مستانی
    بُڑھاپا بڑا لعنتی
    میں کویُ جھُوٹ بولیا
    نہیں بھایُ نہیں
    میں کویُ کُفر تولیا
    نہیں بھایُ نہیں.

    :اردو ترجمہ

    تُم نے بڑی تلاش کے بعد جس لڑکی کو شادی کے لیُے چُنا ہے ، وہ تو سر سے گنجی ہے.
    سات سو روپے کا صابن لاؤ گے تو وہ اس کے ایک دفعہ نہانے پر ختم ہو جاےُ گا.
    سُرمہ کی سلایُاں بھر کر دو
    جوانی کی بلّے بلّے
    جوانی تو مستانی ہوتی ہے.
    بُڑھاپا تو ایک لعنت ہے
    میں نے کویُ جھوٹ بولا ہے ؟
    نہیں بھیُ نہیں.
    کُفر کا کویُ کلمہ کہا ہے ؟
    نہیں بیُ نہیں.

    لعنت بھیجو گنجی لڑکی پر، اب تم نے وُہ لڑکی ڈھونڈی جو ایک آنکھ سے کانی ہے.
    ارے کانی لڑکی ! خوب تلاش کی. یہ اپنا کانا پن کیسے چھپاےُ گی؟
    ساٹھ سو روپے کا سُرمہ لاؤ گے تو وہ اُس کی اکلوتی آنکھ کو ہی سنوار سکے گا.

    لعنت بھیجو کانی پر، اب کویُ قد کی لمبی دُلہن تلاش کرو.
    دُلہن کے متلاشی! اتنی لمبی لڑکی دھونڈی. یہ اپنا اتنا لمبا قد کیسے چھپاےُ گی.
    سات سو روپے کا کپڑا لاؤگے تو اس کی صرف ایک شلوار ہی بن سکے گی.

    اچھا، لعنت بھیجو لمبی لڑکی پر، اب چھوٹے قد کی کویُ دلہن ڈھونڈو.
    اے! اتنا چھوٹا قد، یہ ہے تمہاری تلاش، چھکّو تک تو اس کا ہاتھ نہیں پہنچتا.
    بچّے روٹی مانگیں گے، جو چھکّو میں پڑی ہے. یہ مکان کی چھت پر جا کر آوزیں دے گی ” ہے کویُ جو چھکّو سے روٹی نکال دے “.

    چھوڑو چھوٹے قد والی کو، اب کویُ گورے رنگ کی دلہن تلاش کرو.
    گورے رنگ کی دلہن خوب تلاش کی. اس کا رُوپ ، جیسے مکھن کا سفید پیڑا.
    ایسی گورے رنگ کی دلہن کا کویُ نہ کویُ پہلے سے عاشق ہوگا.
    گوری دُلہن جب چوبارے میں سو رہی ہو گے تو گلی میں اس کا عاشق پھیرے لگا رہا ہوگا.

    اچھا چھوڑو گورے رنگ والی کو، کویُ کالے رنگ کی لڑکی تلاش کرو.
    ارے یہ کالی ! اس کا رنگ تو ایسا ہے جیسے گلی کی نالی کا سیاہ کیچڑ.
    کالی جب چوبارے میں سو رہی ہوگی تو اس کا کویُ پچھلا عاشق گلی میں جُوتے کھا رہا ہوگا.

    چلو لعنت بھیجو کالی پر، اب کویُ پتلی دلہن تلاش کرو.
    ارے تمہاری دُلہن اتنی پتلی ! اس کے جوڑ توکاغذ کی طرح کڑ کڑ کرتے ہیں.
    تمہاری پتلی دلہن جب چوبارے میں سوےُ گی تو کروٹ بدلتے وقت ایسے لگے گا جیسے کویُ مچھلی تڑپ رہی ہے.

    درج ذیل گیت کا پس منظر کچھ یُوں ہے کہ لڑکی کی شادی بڑی عُمر کے بُوڑھے سے ہو جاتی ہے. جسے وُہ بُڈھا کہہ کر پُکارتی ہے. یہاں پر اس کی ذ ہنی کشمکش عجیب طرح سے آشکارا ہوتی ہے. ایک طرف تو وہ اپنے بے جوڑ بندھن کی شکایت کرتی ہے، دوسری طرف اپنے ماں باپ کے فیصلے کو قبول بھی کرتی ہے. اس گیت میں ” بُڈھا بر دیند یےُ ” کے الفاظ میں اس کا سارا دُکھ، کرب، خاموش احتجاج ، ارمانوں کا خون، بے قراری ، اپنی بے بسی اور والدین کے فیصلے پر سر تسلیم خم کرنے کے ساتھ ان کے غلط فیصلے پر اپنی ڈھکی چھُپی ناراضگی کا اظہار بیان کر رہے ہیں.

    چھولے پاےُ سُکنے نی ماےُ میریُے
    بُڈھے نوں بہایا کول ، بُڈھا بر دیندیےُ
    چڑا تے دانہ لے گیا نی ماےُ میریےُ
    بُڈھے نوں ڈنڈیاں دی مار بڈھا بر دیندیےُ
    ہور تے چلّے نوکری نی ماےُ میریےُ
    بڈھا وی تُر پیا نال، بڈھا بر دیندیےُ
    ہورناں آندے پاوے، نی ماےُ میریےُ
    بڈھے لیاندی بھیڈ، بڈھا بر دیندیےُ
    بھیڈ مُنڈیاں دی کھیڈ نی بُڈھا بر دیندیےُ

    :اردو ترجمہ

    میں نے چنوں کے دانے سُوکھنے کے لیےُ دھُوپ میں ڈالے.
    بوڑھے کو ان کی رکھوالی کے لیے بٹھایا. مجھے بُوڑھے کے پلّے باندھنے والی امّاں ! میں کیا بتاؤں.
    چڑیاں بہت سے دانے چُگ گییُں ،
    بڈھے کو اس کی کوتاہی پر ڈنڈے پڑ گیےُ.
    دوسرے لوگ اپنے اپنے روزگار کے لیےُ جانے لگے.
    بڈھا بھی اُن کے ساتھ چل پڑا.
    روزگار سے واپسی پر دوسرے لوگ چارپایُوں کے پاوے لاےُ.
    بڈھا ایک بھیڑ لے آیا.
    بھیڑ کے ساتھ تو چھوٹے بچے کجیلتے ہیں. میری ماں، بڈھا اس بھیڑ کا کیا کرے گا

    بر پنجابی زبان کا ایک لفظ ہے جس کے معنی ہیں شوہر یا خاوند. بر کے لفظ سے مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا. کسی جگہ اپنے قومی شاعر اقبال کی یاد میں ایک تقریب منعقد ہو رہی تھی. ایک مقرر نے اپنی تقریر کے دوران اقبال کا یہ شعر پڑھا :
    ہزاروں سال نرگس اپنی بے نُوری پہ روتی ہے
    بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
    تقریب میں بیٹھے ایک سردار صاحب یہ شعر بار بار پڑھتے اور اپنا سر دُھنتے. ساتھ والے بیٹھے شخص نے سردار سے کہا ” آپ کو یہ شعر کچھ زیادہ ہی پسند ہے.” سردار نے جواب دہا ” جی ہاں، دیکھے نا، اقبال صاحب نے کیا ہی سچّی بات کہی ہے.
    ہزاروں سال نرگس اپنی بے نُوری پہ روتی ہے
    بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دھی دا بر پیدا
    بعد میں پتہ چلا کہ سردار کی ایک نرگس نامی بیٹی کی عمر کافی ہو چکی ہے اور اس کی شادی نہیں ہو رہی.

    ااس کے علاوہ بے شمار گیت ہیں ، اور ان گیتوں میں ہر طرح کے موضوع شامل ہوتے ہیں.مندرجہ ذیل گیت کو پڑھیےُ، جو کیُ موضوعات پر مُحیط ہے.

    الف آ میاں ڈھولا، چٹیاں چولاں دیاں کنیاں
    ساڈی الھڑ جوانی، گلّاں مشکل بنیاں
    الف آ میاں ڈھولا ، وے چُبارے دی پوہڑی
    ماہی نظر نہ آوے، پھراں میں لٹ بوری
    الف آ میاں ڈھولا، تیری خاکی اے وردی
    میں تے ٹور سنجھاتی، کُھوؤں پانی بھردی
    الف آ میاں ڈھولا، سُرمہ پیہنی آں سل تے
    وے میں بال انجانی، گلّاں دھرنی آں دل تے
    الف آ میاں ڈھولا، بیٹھی موتی پروواں
    لکھیا پے گیا جھولی، بیٹھی چھم چھم روواں
    الف آ میاں ڈھولا، رتّے پلنگاں دے پاوے
    سادی الھّڑ جوانی، جیوں بھخدے نے آوے
    الف آ میاں ڈھولا، چُناں چولاں دے نکّے
    ماپے رکھدے وی نہیں،سوہرے دیندے نے دھکّے
    الف آ میاں ڈھولا، ہریاں ناکھاں دے گُچھّے
    سسّی تھل وچ رووے، پُنّوں وات نہ پُچھّے

    ؛اردو ترجمہ

    میرے ساجن! آؤ، سفید چاولوں کے باریک ٹُکڑے ہیں .
    میری الہڑ جوانی نے کیُ مشکلوں میں ڈال دیا.
    میرے ساجن آؤ، چوبارے کی سیڑھی ہے.
    تم نظر نہیں آتے، میں پاگلوں کی طرح ماری ماری پھرتی ہُوں.
    میرے ساجن!، تمہاری وردی کا رنگ خاکی ہے.
    میں نے تمہارے چلنے کے انداز سے پہچان لیا کہ یہ تم ہو. میں اس وقت کنؤیں سے پانی بھر رہی تھی.
    میرے ساجن آؤ، میں پتھر کی سل پر سُرمہ پیس رہی ہُؤں.
    میں ابھی پُوری طرح سیانی نہیں ہُویُ ہُوں، کیُ باتوں کا بہت اثر لے لیتی ہُوں.
    میرے ساجن، میں موتی پرو رہی پُوں.
    تقدیر میں جو لکھا تھا وُہی ہُؤا، اب میں ہر وقت روتی رہتی ہُوں.
    میرے ساجن، پلنگوں کے سُرخ رنگ کے پاوے ہیں،
    میری جوانی، توبہ، جیسے اینٹوں کے بھٹھّے آگ سے دہک رہے ہوں.
    میرے ساجن، چاولوں کے باریک دانے چُن رہی ہُوں.
    ماں باپ کہتے ہیں، اپنے سُسرال جاوَ سُسرال والے رکھتے نہیں، میں کہاں جاؤں ؟
    میرے ساجن، سبز ناشپاتیوں کے گُچھّے ہیں.
    سسّی تھل میں رو رہی ہے، پُنّوں اس کا حال بھی نہیں پُوچھتا.

    اس گیت میں ایک لفظ ہے ” لٹ بوری ” . لٹ بوری یا لٹ بورا کیُ معنوں میں استعمال ہوتا ہے. اپنے آپ سے بے خبر، ارد گرد سے بے خبر، نیم پاگل، مدہوش، آوارہ پھرنے والااور جسے کسی کی پرواہ نہ ہو ، یہ سب لٹ بوری ہا لت بورا کے معنوں میں استعمال ہوتے ہیں. مندرجہ ذیل شعر شاید لٹ بورے کا مفہوم سمجھنے میں مددگار ہو :

    اسی لیےُ قتل عاشقاں سے منع کرتے تھے
    اب پھرتے ہو کیسے لٹ بورے سے لٹ بورے سے

    آپ نے پنجابی ڈھولے تو پڑھے ہوں گے اگر نہیں تو ابھی “ پنجابی ڈھولے-تعارف ” کے بعد ” پنجابی ڈھولے- قسط نمبر 1 ” پڑھیےُ

    مندرجہ ذیل گیت کو ڈھولا اس لیےُ کہتے ہیں کہ اس کے ہر مصرعے کے بعد لفظ ” ڈھولا ” آتا ہے. ویسے آپ اسے ” زنانہ ڈھولا ” بھی کہ سکتے ہیں؛

    جٹّی نہاتی ماہی وے، لے ٹُریوں راتیں ڈھولا
    ٹُریوں راتیں ڈھولا، میں ٹور پچھاتی ڈھولا
    لک تیرا پتلا ماہی وے، چوڑی چھاتی ڈھولا
    تیرے جال اندر ماہی وے، میں پھاتی ڈھولا
    نکّا نکّا باجرا ماہی وے، میں چلی آں راکھی ڈھولا
    چلّی آن راکھی ماہی وے، مت کریں چالاکی ڈھولا
    راکھیوں آیُ آں ماھی وے، میں چلّی آں پانی ڈھولا
    پانی بھریندیاں ماہی وے، میری بینی رنجانی ڈھولا
    سدّو سیانا ماہی وے، میرے دل دا بھانا ڈھولا
    دیہو سو پیڑھی ماہی وے، میری ویکھے بینی ڈھولا
    کُجھ نہیں دسدا ماہی وے، من پیا رکھدا ڈھولا
    دیہو سو پیڑھی ماہی وے، میں دلوں ترکڑی ڈھولا
    کھاہدا چڑیاں ماہی وے، تقدیراں بھڑیاں ڈھولا
    کھاہدا لالیاں ماہی وے ، تقدیراں جالیاں ڈھولا
    کھاہدا کاواں ماہی وے، میں کت ول جاواں ڈھولا
    کھاہدا طوطیاں ماھی وے، میرے کول کھلوتیاں ڈھولا
    سُوہا میرا چرخہ ماہی وے، کویُ لال مجھیرُو ڈھولا
    کل پُے وسدے ساں، اج کھیرُو کھیرُو ڈھولا
    سُوہا میراچرخہ ماہی وے، رنگ پایا مُنیاں ڈھولا
    آپ ٹُر چلیا ایں ماہی وے، کی بندا رُنیاں ڈھولا
    سُوہا میرا چرخہ ماہی وے، پٹ دیاں ماہلاں ڈھولا
    آپ ٹُر چلیا ایں ماہی وے، کون چاندا ای وہلاں ڈھولا
    بول بھنبیریا ماہی وے، ٹینڈے دی ول تے ڈھولا
    رکھی جوانی ماہی وے ، سجناں دی گل تے ڈھولا
    بول بھنبیریا ماہی وے ، ککرے دی ٹیشی ڈھولا
    رکھی جوانی ماہی وے، سجناں دی نیتی ڈھولا
    بول بھنبیریا ماہی وے، ککرے دے ساہنگے ڈھولا
    رکھی جوانی ماہی وے، سجناں دے تاہنگے ڈھولا
    سُوہا میرا چرخہ ماہی وے، ول پیا ترکلے ڈھولا
    میری نازک جندڑی ماہی وے، وس پیُ کُلکڑے ڈھولا

    :اردو ترجمہ

    جتّی نے آج ہی غُسل کیا، تم اُسے رات کو اپنے ساتھ لے چلے.
    گو رات تھی، لیکن مین نے تمہارے چلنے کے انداز سے پہچان لیا کہ یہ تم ہو..
    تمہاری کمر پتلی اور چھاتی چوڑی ہے.
    میں تمہاری محبت کے جال ًیں بُری طرح پھنس چُکی ہُوں.
    میں باجرے کی فصل میں لگے سٹّوں کی حفاضت کے لیےُ جا رہی ہُوں. ( یہ گویا ڈھکا چھُپا پیغام ہے کہ تم بھی وہیں آ جاؤ ).
    دیکھنا! وہاں کویُ چالاکی نہ کرنا، میں تمہیں خبردار کر رہی ہُوں.
    گھر واپس آ کر اب میں کنؤیں سے پانی بھرنے جا رہی ہُوں.
    پانی سے بھرا گھڑا کیسے اُٹھاؤں؟. میری کلایُ تو نازک ہے.
    میں بیمار ہُوں، کسی حکیم کو بُلاؤ، وُہی حکیم جو میرے دل کو بھاتا ہے.
    بیٹھنے کے لیے اُسے پیڑھی دو، تا کہ وہ میری نبض دیکھ سکے.
    یہ تو دل رکھنے کے لیےُ ایسے ہی تُسلیاں دے رہا ہے.
    جو بھی بیماری ہے، صاف بتا دو، مُجھ میں سُننے کا حوصلہ ہے.
    چڑیاں دانے چُگ گییُں ، ہماری قسمت ہمیں یہ دن دکھا رہی ہے.
    لالیاں ( ایک پرندہ) دانے چُگ گییُں، ہم قسنت کے جال میں پھنسے ہُوےُ ہیں.
    کوے دانے چُگ گییےُ، مجھے بتاؤ، اب میں کدھر جاؤں ؟
    طوطے دانے چُگ گییےُ، وہ بھی میرے سامنے .
    میرے چرخے کا رنگ سُرخ ہے، اس کا پایہ بھی سُرخ ہے.
    کل تک ہم اکٹھّے ہی زندگی بسر کر رہے تھے، آج میں کہاں ہُوں اور تُم کہاں ہو.
    میرے چرخے کا رنگ سُرخ ہے، اس کے پاوے بھی سرخ ہیں.
    تم تو مجھے چھوڑ کر چلے گییےُ، اب رونے کا کیا فایُدہ ؟
    میرے سُرخ رنگ کے چرخے کی ماہل ( ڈور) سُرخ ریشم کی ہے.
    تم تو جا رہے ہو، کویُ دُوسرا کسی کا بوجھ کہاں اُٹھاتا ہے.
    اے بھنبیرے، تم ٹینڈے کی نیل پر اپنا راگ الاپو.
    میں نے ساجن کے وعدے پر اپنی جوانی سُنبھال رکھی ہے.
    بھنبیرے، تم اپنا راگ کیکر کی سب سے اونچی چوٹی پر بیٹھ کر الاپو.
    میری جوانی ساجن کی امانت ہے، اُسی کے لیےُ سنبھال کر رکھی ہے.
    میرے چرخی کا رنگ سرخ ہے، اس کے ترکلے میں بل پڑ گیا ہے (ٹیڑھا ہو گیا ہے )
    میری جان تو نازک سی ہے، کس مورکھ کے ساتھ باندھ دی گیُ.

    درج ذیل گیت میں کُچھ مزاحیہ ٹُکڑے بھی ہیں:

    واہندی آ راوی ماہیا، رُڑھ آییاں بھیڈاں ڈھولا
    مرے منگیتر ماہیا، میں گلییُں کھیڈاں ڈھولا
    واہندی آ راوی ماہیا، رُڑھ آییاں بطخاں ڈھولا
    مرے منگیتر ماہیا، میں گلیُیں لٹکاں ڈھولا
    واہندی آ راوی ماہیا، رُڑھ آییُاں ہییُاں ڈھولا
    پیا وچھوڑا ماہیا، مانواں دھیاں ڈھولا
    واہندی آ راوی ماہیا، رُڑھ آیُ ترکڑی ڈھولا
    مُکھاں دے پینڈے ماہیا، میں مر کے اپڑی ڈھولا
    واہندی آ راوی ماہیا، ہڑ واہندا دکھنوں ڈھولا
    دکھنوں ہوڑیا ماہیا، نہیں رہندا ہسنوں ڈھولا
    واہندی آ راوی ماہیا، وچ ڈنڈا پھُلاہی دا ڈھولا
    میں نہ ہوندی ماہیا، تینوں کتھّے ویاہی دا ڈھولا
    واہندی آ راوی ماہیا، وچ رتیاں ڈھیریاں ڈھولا
    تُوں نہ ہوندیوں گوریےُ ، مینوں ہور بہتیریاں ڈھولا

    :اردو ترجمہ

    دریاےُ راوی بہہ رہا ہے، اس کے پانی میں بھیڑیں بہہ کر آیُ ہیں.
    جہنم میں جاےُ منگیتر، میری عُمر تو ابھی کھیلنے کی ہے.
    دریاےُ راوی بہہ رہا ہے، اس کے پانی کے ساتھ بطخیں آیُ ہیں.
    جہنم مین جاےُ منگیتر، میری عُمر تو ابھی گلیوں میں مٹکنے کی ہے.
    دریاےُ راوی بہہ رہا ہے، اس میں چارپاییُوں کی لکڑی بہہ کر آیُ ہے.
    ماں اور بیٹی جُدا ہو رہی ہیں، ( یہ دن بھی آنا تھا ).
    دریاےُ راوی کے پانی میں ایک ترازُو بہہ کر آیا ہے.
    بڑا لمبا سفر تھا، میں بڑی تکلیف اور مُشکل کے بعد تم تک پہنچی ہُوں.
    راوی دریا کا ایک حصّہ دکھّن کی طرف بہہ رہا ہے.
    بہت دفعہ منع کیا، لیکن مجھے دیکھ کر ہنسنے سے باز نہیں آتا.
    راوی کے پانی میں پُھلاہی کے درخت کا ٹہنا بہتا آ رہا ہے.
    اگر میں نہ ہوتی تو سوچو، تمہارے ساتھ کوں شادی کرتی.
    راوی کے پاٹ میں کہیں کہیں ریت کی ڈھیریاں ہیں.
    اگر تم نہ ہوتیں تو کیا فکر تھی، اور بہت سی ہیں جن کے ساتھ بیاہ رچایا جا سکتا ہے.

    آپ نے دیکھا کہ ان گیتون میں ہر طرح کے موضوع شامل ہیں. خاص بات یہ ہے کہ مقامات زیادہ تر دیہات کے ہیں. یہ گیت عمومآ دیہات میں گاےُ جاتے ہیں یہ بہت عرصہ پہلے بھی گاےُ جاتے تھے، اور آج بھی اُسی برح مقبُول ہیں. جوان لڑکیاں انہیں اپنے دل کی آواز سمجھتی ہیں .، بڑی عُمر کی عورتیں انہیں سُن کر اپنی جوانی کے خوابوں میں پہنچ جاتی ہیں.

    ایسے گیتوں کی ایک لمبی فہرست ہے جنہیں لڑکیاں گاتی ہیں. ان سب کو اکٹھا کرنا نا ممکن نہیں تو مُشکل ضرُور ہے. ہر علاقہ میں گیت تھوڑے سے بدل جاتے ہیں، اور ان میں نیُ باتیں شامل ہو جاتی ہیں.

    جاری ہے

  • چھوٹی بچیوں کے گیت.  Songs of little girls

    چھوٹی بچیوں کے گیت. Songs of little girls

    چھوٹی بچیوں کے گیت
    Songs of little girls.

    آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے جب کہ دیہات میں بھایُ چارہ کی فضا عروج پر تھی، گاؤں میں ایک دوسرے کی عزت تھی. لوگ چھوتی بچیوں کو اپنی بیٹیوں کی طرح سمجھتے تھے ، اور ان کی حفاظت کرتے تھے، اس زمانے میں لوگ مغرب کی نماز کے بعد جلد ھی کھانا کھا لیا کرتے تھے. یہی وقت ہوتا تھا جب چھوٹی بچیاں گاؤں سے باہر کسی کھُلی جگہ پر بیتھ کر اپنے معصُومانہ گیت گاتی تھیں. ان گیتوں میں کسی موسیقی کا دخل نہیں ہوتا تھا. بچیاں اپنی مدھم آواز میں گیت گاتی تھیں. یہ گیت عموُمآ بھایُ بہن کے پیار کے گرد گھوُمتے ہیں. بعض گیتوں میں بھابی سے چھیڑ چھاڑ بھی نظر آتی ہے.  مجمعُوعی طور پر یہ معصُومانہ گیت بھایُ اور بہن کے پیار کے گرد گھُومتے ہیں. چھوٹی بچیوں کے گیت اب یاد رفتہ بن گیےُ ہیں. اس کے برعکس مردوں کے لیےُ لوک گیت آج بھی بڑے شوق سے گاےُ اور سُنے جاتے ہیں. آپ چاہیں تو آپ اسی ویب سایُٹ پر ماہیا، دوہے، جگنی، جگّا، دُلاّ بھٹّی ، ہیر رانجھا، مرزا صاحباں بولیاں،چھلّا، ڈھولے وغیرہ پڑھ سکتے ہیں. میں آپ کو مشورہ دُوں گا کہ سب سے پہلے پنجابی ڈھولوں سے شروع کریں. ” پنجابی ڈھولے ، قسط نمبر 1 ” سے شروع کریں اور آگے پنجابی ڈھولوں کے اختتام تک پڑھ لیں.

    عنوانات :

    نمبر 1 بُلاوا.
    نمبر 2 – ککلی.
    نمبر 3 – دیگر موضوعات کے گیت:

    بُلاوا

    دیہات میں لوگ شام ڈھلے ہی کھانا کھا لیتے ہیں. کھانا کھا چُکنے کے بعد چھوٹی عمر کی دو چار بچیاں گلی میں کھڑی ہو کر آواز لگایُں گی.

    چھنّا چھنک دا
    موتی میرے نک دا
    جھانجر میرے پیر دی
    جیہڑی کُڑی شہر دی
    آ جاؤ نی کُڑیو.

    اردو ترجمہ:

    چھنک کی آواز پیدا کرنے والا میرا زیور
    میرے ناک کا موتی
    میرے پاؤں کی جھانجر
    شہر کی تمام لڑکیاں سُن لیں
    آ جاؤ، مل کر گیت گانے کا وقت ہو گیا ہے.

    یہ گویا ایک بُلاوا ہے کہ چھوٹی بچیاں ایک جگہ بیٹھ کر گیت گاییُں گی. جب ارد گرد کے گھروں سے بچیاں اکٹھّی ہو جاتی ہیں، تو گاؤں سے باہر کسی صاف جگہ پر بیٹھ کر بچیاں گیت گاییُں گی. کچھ لڑکیاں “ککلی ” ڈالنے لگ جاییُں گی. دو لڑکیاں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر ایک دایُرے میں گھوُمتی ہیں. ساتھ ہی اُچھلتی ہیں، اسے ککلی ڈالنا کہتے ہیں. ساتھ ہی ککلی کا گیت گاتی ہیں.

    ککلی

    ککلی کا گیت چھوٹی بچیوں کا پسندیدہ گیت ہے. ذرا ککلی کا گیت سُنیےُ :

    ککلی کلیر دی
    پگ میرے ویر دی
    دوپٹّہ میرے بھایُ دا
    شیر سپاہی دا
    اُچّی شان چاچے دی
    لڑیاں والے کاکے دی
    کاکڑا توتانی آں
    چار چھلّے پانی آں
    چار چھلّے کایُں دے
    ویرے دے وہاہے دے
    بھابو میری پتلی
    جیہدے نک مچھلی
    مچھلی دے دو مامے آےُ
    میرا آیا جیٹھ
    جیٹھے دی میں روٹی پکّی
    نال پکیاں توریاں
    جیُوہن بھراواں دیاں جوڑیاں

    اردو ترجمہ :

    کلیر کی ککلی ہے.
    میرے بھایُ کے سر کی پگ ہے.
    اُس کے کاندھے پر رکھا جانے والا رُومال ہے.
    یہ رومال شیر کی مانند دلیر اور بہادر سپاہی کا رومال ہے.
    میرا چچا اُونچی شان والا ہے.
    وُہی چچا جسے لوگ پیار سے ” لڑیوں والا کاکا ” کہتے ہیں.
    میں کاکے کی شان میں قصیدہ پڑھتی ہُوں.
    میری اُنگلیوں میں چار چھلّے ہیں.
    تم پوچھتی ہو یہ چھلّے کس خُوشی میں پیہنے تھے.
    یہ چھلّے میں نے اپنے بھایُ کی شادی پر پہنے تھے.
    میری بھابھی پتلی سی ہے.
    اُس کی ناک میں پہنا ہُؤا زیور مچھلی کی شکل کا ہے.
    مچھلی سے ملنے اُس کے دو مامُوں آےُ،
    ساتھ میں میرا جیٹھ بھی آیا. (خاوند کے چھوٹے بھایُ کو دیور اور بڑے بھایُ کو جیٹھ کہتے ہیں ).
    میں نے جیٹھ کے لیےُ روٹی پکایُ.
    روٹی کے ساتھ توریوں کا سالن بنایا.
    اللہ کرے، بھایُٰوں کی جوڑی سدا سلامت رہے.

    غور کیجییےُ، بچیوں کے اس معصوم گیت کا موضُوع ماں باپ، چاچے، بھایُ اور بھابھیاں ہیں، جو اس عمر کی بچیوں کے پیار کا محور ہوتے ہیں. اور ان کے گیتوں میں انہی کا ذکر آتا ہے.

    دیگر موضُوعات کے گیت

    اب چھوٹی بچیاں ایک دایُرے میں بیٹھ کر گیت گاتی ہیں.

    میں نکّا نکّا کتنی آں ویر دے پگّے، بھین گھولی وے ویرا
    وچ نو سو ( 900 ) موتی لگّے، وے بھین گھولی وے ویرا
    دُھپ چڑہی تے چمکن لگّے، وے بھین گھولی وے ویرا
    موٹا موٹا کتنی آں دیورے دی پگّے، وے بھین گھولی وے ویرا
    جتھّے نو سو ( 900 ) ڈیہمُوں لگّے، وے بھین گھولی وے ویرا
    دُھپ چڑہی تے کھوہن کھاہن لگّے، وے بھین گھولی وے ویرا

    اردو ترجمہ

    بھایُ کی پگ کے لیےُ میں سُوت کو بہت باریک کاتتی ہُوں، بہن بھایُ پر صدقے جاےُ.
    سُوت کے دھاگوں میں 900 موتی ٹانگ دیتی ہُوں.
    دھُوپ میں یہ موتی چمکتے ہیں، میرے بھایُ کی پگ کی کیا شان ہے.
    اپنے دیور کی پگ کے لیےُ میں سُوت کو موٹا موٹا کاتتی ہُوں.
    اس پگ کے اندر 900 بھڑ بیتھے ہیں.
    دھوپ نکلنے پر جس کے سر پر یہ پگ ہوگی ، اُسے خوب کاٹیں گے.

    ؤضاحت ” بھین گھولی وے ویرا ” ہر مصرے کے آخر میں مصرعے کے وزن کو برابر کرنے کے لیےُ لگاتے ہیں.
    خاوند کے بڑے بھایُ کو ” جیٹھ ” اور چھوٹے بھایُ کو ” دیور ” کہا جاتا ہے. لڑکیاں اپنے جیٹھ کی اپنے بڑے بھایُ کی طرح عزّت کرتی ہیں.اور دیور سے چھوٹے بھاٰیُ کی مانند پیار کرتی ہی. دیور بھابھی کا مذاق ، ایک حد کے اندر، چلتا رہتا ہے.

    لڑکیاں اپنے والدین سے بہت پیار کرتی ہیں. اپنے میکے پر انہیں پڑا فخر اور مان ہوتا ہے.

    تاریا وے تیری لو ، پیکے ماواں نال
    ماواں ٹھڈیاں چھاواں، مان بھراواں نال

    اردو ترجمہ:

    ستارے کی روشنی ہے، میکہ اُس وقت تک میکہ رہتا ہے ، جب تک ماں زندہ ہے.
    ماییُں تو درخت کی گھنی چھاؤں کی مانند ہوتی ہیں. میکے پر فخر اور دعوے بھاییُوں کی وجہ سے ہوتے ہیں.
    پنجابی کا لفظ ” مان ” اپنے اندر وسیع معنی رکھتا ہے. کسی کی لاج رکھ لینا، فخر، دعوے، اُمید، عزّت بڑھانا وغیرہ سبھی اس کے معنی میں آتے ہیں.

    یہ گیت بھی سُنیےُ، اس میں بھایُ اور بھابھی کا ذکر ہے “

    توتڑا توتایُ دا
    نیلا گھوڑا بھایُ دا
    اُچّی شان چاچے دی
    لڑیاں والے کاکے دی
    کاکڑا کھڈانی آں
    چار چھلّے پانی آں
    اک چھلّا پتلا
    بھابھو جوڑا اُتلا
    رتّے دی رتایُ
    میری نویں نویں بھرجایُ
    منجے پیڑھے تے بہایُ
    منجا پیڑھا گیا ٹُٹ
    میری بھابھو گییُ رُس

    اردو ترجمہ :

    میں توتڑا نامی کھیل کھیلتی ہُوں.
    میرے چھوٹے بھایُ کے گھوڑے کا رنگ نیلا ہے.
    میرا چچا بڑی اُونچی شان والا ہے.
    وُہی چچا جسے لوگ پیار سے ” لڑیوں والا کاکا ” کہتے ہیں.
    کاکڑا نامی کھیل کھیلتی ہُوں.
    میری اُنگلیوں میں چار چھلّے ہیں.
    ان میں ایک چھلّا دُوسروں کی بہ نسبت باریک پے.
    میری بھابو کے کپڑوں کا رنگ سُرخ ہے.
    سُرخ رنگ کی سُرخی دیکھو.
    میری بھابھی نییُ نییُ آیُ ہے.
    اُسے بڑے شوق سے پیڑھے پر بٹھایا .
    پیڑھا ٹؤٹ گیا.
    اس بات پر میری بھابھی رُوٹھ گییُ..

    چھوٹی بچیاں جب اپنے چھوٹے بھاییُوں، بھتیجؤں یا بھتیجیوں کو روتے ہُوےُ چُپ کرانے کی کوشش کر رہی ہوتی ہیں تو اُن کے لبوں پر عمُومآ یہ گیت ہوتا ہے . یہ گویا ایک قسم کی معصومانہ لوری ہے :

    الڑُ ّ بلڑّ باوے دا
    باوا کی لیاوے دا
    باوا کنک لیاوے دا
    باوی بہہ کے چھٹّے دی
    باوی روٹیاں پکاےُ دی
    باوا چھوہر کھڈاےُ دا

    اردو ترجمہ

    بابے کا الڑّ بلڑّ ہے. ( باپ کے بڑے بھایُ کو بابا کہتے ہیں. یہاں غالبآ شعری ضرورت کے تحت اُسے باوا کہا گیا ہے ).
    باوا کیا لاےُ گا.
    باوا گندم لاےُ گا.
    بڑی امّاں ( تایُ ) گندم کو صاف کرے گی.
    پھر اس کی روٹیاں پکاےُ گی.
    بابا چھوٹے پوتے پوتیوں کے ساتھ کھیلے گا.
    پنجابی زبان میں چھوتے لڑکے کو ” چھوہر ” کہ کر بھی بُلایا جاتا ہے.

    آج سے چھے سات دہایاں پہلے دیہات کی فضا بڑی پُر امن اور مہزّب ہُؤا کرتی تھی. ہر شخص ایک دوسرے کی عزّت کرتا تھا. جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، تہزیب بدل گیُ. لوگ بدل گیےُ. ایک مسیاسی جماعت نے وُہ طوفان بد تمیزی مچایا ہے کہ الامان. اب نہ وہ چھوٹی بچیوں کے گیت سُنایُ دیتے ہیں نہ لوگوں کا اکٹھے بیٹھ کر قصّے کہانیاں سُننا رہا. لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف کر دیا گیا ہے. قتل و غارت اور ڈاکہ زنی ّعام ہو گیی ہے. لوگ سڑکوں پر راہ جاتے لُت رہے ہیں. بد اخلاقی اور بد زبانی کے کلچر کو ایک منصوبے کے تحت پھیلایا جا رہا ہے. مہذب لوگ پریشان ہیں ہیں کہ ہم کدھر جا رہے ہیں.

    اللہ تعالے ہم سب پر اپنا رحم کرے اور ہمیں اس فتنہ سے بچاےُ آمین.

  • قصّہ ہیر رانجھا ، قسط نمبر 2 – Story of Heer Ranjha

    قصّہ ہیر رانجھا ، قسط نمبر 2 – Story of Heer Ranjha

    قصّہ ہیر رانجھا ، قسط نمبر 2
    Story of Heer Ranjha

    قصّہ ہیر رانجھا ، قسط نمبر 1 میں ہم نے دھیدُو رانجھا کے پیدایُشی مقام تخت ہزارہ کے متعلق تفصیل سے بیان کیا تھا.( دیکھیےُ تخت ہازرا کا نقشہ ) دھیدُو کے باپ کے مرنے کے بعد بھایُوں میں گھر بار اور زمینوں کا بٹوارہ ہو گیا. دھیدُو اپنے بھاییُوں ، بھابھیوں سے ناراض ہو کر گھر سے نکل کھڑا ہُؤا.

    عنوانات

    (more…)

  • قصّہ ہیر رانجھا   ،  قسط نمبر 1،  Story of  Heer Ranjha

    قصّہ ہیر رانجھا ، قسط نمبر 1، Story of Heer Ranjha

    قصّہ ہیر رانجھا . قسط نمبر 1
    Story of Heer Ranjha

    عنوانات:

    نمبر 1 = تعارف
    نمبر 2 = تخت ہزارہ
    نمبر 3 = دھیدو کی بھاییُوں بھابیوں سے کشیدگی

    تعارف

    پنجابی زبان میں لکھے گیےُ قصّوں کو دُنیا کی عظیم شاعری میں شمار کیا جا سکتا ہے. ان قصّوں کے مصنف پڑھے لکھے بزرگ تھے، جنہوں نے فن کے ہر مطالبہ کا لحاظ رکھا. ان شعرا کا اپنا اپنا اصلوب ہے، اپنی زبان ہے، اپنا انداز ہے. انہوں نے لکھتے وقت خیالات و جذبات کے انتخاب کو ضرُوری سمجھا. اور ایسے ایسے فن پارے تخلیق کر گیےُ ، جنہیں پڑھ کر ہم اس وہم میں مبتلا نہیں رہ سکتے کہ پنجابی ایک مُردہ اور مضمحل زبان ہے. وارث شاہ کی تصنیف ” ہیر رانجھا ” میاں محمد بخش کی تصنیف ” سیف الملُوک ” دایُم اقبال دایُم کا “شاہ؛ نامہ کربلا ” کے علاوہ مرزا صاحباں، سوہنی مہینوال، سسّی پُنوں، لیلے مجنُوں، ڈھول شمس وغیرہ کتنے ہی قصّے ہیں جو پنجابی زبان کے زندہ ہونے کا ثبُوت ہیں.
    یُوں تو پنجابی زبان میں سبھی قصّوں کی اپنی اپنی مقبُولیت ہے ، مگر جس قدر مقبُولیت ہیر رانجھا اور مرزا صاحباں کے قصّوں کو حاصل ہُویُ ہے ، دوسرے قصّوں کو حاصل نہیں ہُویُ. اس کی وجہ غالبآ یہ ہے کہ ان قصّوں کے کردار ہمیں اہنے ارد گرد نظر آتے ہیں. یا یُوں کہیےُ کہ کویُ بھی کردار خصُوصآ ہیرو امپورٹڈ نہیں ہے. رانجھا کا کردار ایک دیہاتی نوجوان کا ہےاس کے ہر قول اور فعل میں اس کا کردار بالکُل ہمارے ماحول جیسا ہے. ان قصّوں کے کرداروں کی زبان سے نکلے ہُوےُ الفاظ ہمارے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ یہ دو قصّے دُوسرے قصّوں کی بہ نسبت زیادہ مقبُول ہیں.

    ہیر وارث شاہ پڑھتے ہُوےُ بعض اشعار یا مصرعے ایسے بھی ملتے ہیں جنہیں پڑھ کر یہ ماننا مشکل ہو جاتا ہے کہ آیا یہ اشعار یا مصرعے واقعی وارث شاہ نے لکھے ہیں. بھلا ہو ہیر وارث شاہ پر تحقیق کرنے والے جاوید اقبال صاحب کا جنہوں نے ثابت کیا ہے کہ کیُ لوگوں نے ہیر وارث شاہ میں اپنے اشعار یا مصرعے شامل کیےُ ہیں. جاوید آقبال صاحب اپنی کتاب ” ہیر وارث شاہ وچ ملاوٹی شعراں دا ویروا ” میں ان لوگوں کے اشعار کی تفصیل کُچھ یُوں دیتے ہیں
    نمبر 1 ؛
    ہدایت اللہ نے 1887 سن عیسوی میں 1785 مصرعے شامل کیےُ.
    نمبر 2 :
    پیراں دتّہ ترگڑ نے 1892 سن عیسوی میں 1816 مصرعے شامل کیےُ.
    نمبر 3 :
    محمد دین سوختہ اور ہاشم علی نے 1913 سن عیسوی میں 847 مصرے شامل کیے.
    نمبر 4 :
    تاج الدین تاج نے 1920 سن عیسوی میں 406 مصرعے شامل کیےُ.
    نمبر 5 :
    مولوی محبُوب عالم نے 1920 سن عیسوی میں 874 مصرے شامل کیےُ.
    نمبر 6 :
    مولوی اشرف علی گُلبانوی نے 1920 سن عیسوی میں 550 مصرعے شامل کیےُ.
    نمبر 7 :
    عزیزالدین قانُوں گو نے 1929 سن عیسوی میں 2530 مصرعے شامل کیےُ.
    نمبر 8 :
    مولوی نواب دین سیالکوٹی نے 1930 سن عیسوی میں 543 مصرعے شامل کیےُ.
    نمبر 9 :
    محمد شفیع اختر نے 1932 سن عیسوی میں 100 مصرعے شامل کیےُ.

    اس طرح ” اصلی تے وڈّی ہیر ” پڑھتے ہُوےُ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ ملاوٹی ہیر نہیں ہے. اس طرح یہ مغالطہ بھی دُور ہر جاتا ہے کہ موجودہ ہیر وارث شاہ میں تہزیب سے گرے ہُوےُ بعض اشعار وارث شاہ نے لکے تھے.

    دامُودر پہلا شاعر تھا جس نے ہیر رانجھا کے عشق کی داستان کو نظم کیا. اس کے بعد اور شاعروں نے بھی اس قصہ کو نظم کیا، مگر ان سب میں سے وارث شاہ کے لکھے ہُوےُ قصّہ کو زیادہ مقبُولیت حاصل ہُویُ.
    وارث شاہ کی تصنیف تصوف اور طریقت کے اسرار و رمُوز کی آیُنہہ دار ہے. اس قصّہ کے تمام کردا مسلک طریقت کے مظاہر ہیں. وارث شاہ نے قصّہ کی ابتدا میں ان کا ذکر اس طرح کیا ہے :

    ہیر رُوح تے پاک قلبُوت جانوں، بالناتھ ایہہ پیر بنایا ای
    پنج پیر نے پنج حواس تیرے، جنہاں تھاپڑا تُدھ نوں لایا ای
    قاضی حق جنبیل نے عمل تیرے، خیال مُنکر نکیر ٹھہرایا ای
    کوٹھا گور تے عزرایُیل کھیڑا، جیہڑا لیندیاں رُوح وہایا ای
    بیڑی پتّن والی پُل صراط جانیں، جس وچ دہکو دوہڑا کھایا ای
    کیدُو لنگاں شیطان ملعُون جانوں، جس نے وچ دیوان پڑھایا ای
    سیّاں ہیر دیاں گھر بار تیرا، جنہاں نال پیوند بتایا ای
    وانگ ہیر دے بنھ لے جان تینوں، کسے نال نہ ساتھ لدایا ای
    دُکھاں رات مُسافری ہے جیہڑی، اوہ حساب کتاب لکھایا ای
    جیہڑا بولدا ناطقہ ونجھلی دا، جس ہوش دا راگ سُنایا ای
    سسّی موت تے جسم ہے یار رانجھا ، انہاں دوہاں نے بھیڑ مچایا ائی
    جس اینہاں پہلواناں دی بھیڑ ڈٹھّی، کویں اپنا آپ بچایا ای
    شہوت بھابھی تے بھُکھ ربیل باندی، جنہاں جنتوں باہر کڈھایا ای
    جوگ عورت اے پاڑ کے کن جس نے، سبھ انگ بھبُوت رمایا ای
    دُنیا جان جویں جھنگ پیکے، گور کالڑا باغ بنایا ای
    ترنجن ایہہ بد اعمالیاں تیریاں نی، کڈھ قبر تییُں دوزخیں پایا ای
    اوہ شیر اے نفس ہنکار تیرا، جس راجے دی جُوہ ڈرایا ای
    اُس نوں ماریاں مُشکلاں دُور ہویاں، رانجھا ہیر نوں فیر ملایا ای
    ایہ مزدُوری سیالاں دیاں مجھیاں نے، جیڑا میلڑا کسب اُٹھایا ای
    اوہ مسیت ہے ماں دا شکم بندے ،جس وچ شب و روز لنگھایا ای
    عدلی راجہ ہے نیک اعمال تیرے ، جس ہیر ایمان دوایا ای
    بھایُ بھابیاں ساک پیوند تیرے، جنہاں نال تُوں جھنجٹا پایا ای
    اوڑک ہو ٹُریوں بے وطن ہو کے، تینون لسے نہ مُول منایا ای
    کُجھ کھٹ لے وقت ہے مُورکھا اوےُ، ویلا کھُتڑا ہتھ نہ آیا ای

    اردو ترجمہ :

    ہیر رُوح ہے جو جسم کے اندر بند ہے، بالناتھ مُرشد ہے جو راستہ بتاتا ہے.
    پانچ حواس گویا پانچ پیر ہیں جو ہر وقت تمہاری ہمّت بڑھاتے رہتے ہیں.
    قصّہ میں قاضی ہمارے اعمال ہیں، اہل و عیال گویا منکر نکیر ہیں جو ہمارے اعمال لکھتے رہتے ہیں.
    مکان قبر ہے، کھیڑا عزرایُٰیل ہے، جو روح کو قبض کر کے لے جاتا ہے.
    کشتی کو پُل صراط جانو، جہاں دھکّے کھانے پڑیں گے.
    لنگڑا کیدُو گویا شیطان ہے، جو لگایُ بجھایُ کرتا رہتا ہے.
    ہیر کی سہیلیاں ہمارا گھر باار ہے ، جو زندگی میں تو ساتھ رہتے ہیں ، مرنے پر کویُ ساتھ نہیں جاتا.
    جیسے ہیر اپنے ماں باپ کے گھر سے اکیلی گیُ تھی ، اسی طرح ہمارے ساتھ
    بھی کویُ نہیں جاےُ گا.
    مُسافری کی رات ہمارا نامۃُ اعمال ہے
    بنسری کی آواز ہوش کا راگ ہے
    سہتی کو موت اور رانجھے کو جسم سمجھو، ان دونوں کی آپس میں جنگ ہوتی ہے.
    جس کسی نے ان دونوں پہلوانوں کی جنگ دیکھی، وہ اپنے آپ کو کیسے بچاےُ گا.
    بھابھی کو شہوت اور ربیل نوکرانی کو بھُوک سمجھو، جنہوں نے آدم کو جنّت سے نکالا.
    عورت گویا جوگ ہے جس کی وجہ سے کان چھدوا کر جسم پر راکھ ملنی پڑتی ہے.
    جھنگ کے میکے کو دُنیا سمجھو، جہاں سے آخر کار کالا باغ یعنی قبر کی طرف جانا ہے.
    سہیلیوں کا ترنجن ہماری بد اعمالیاں ہیں، جن کی بدولت دوزخ میں جاییُں گے.
    راجہ کے مُلک میں جس شیر نے ڈرایا، وہ ہمارا نفس ہے.
    اس نفس کو مارنے سے مشکلات ختم ہوں گی، اور رُوح اور جسم کا ملاپ ہوگا.
    دُنیا میں ہم جو کام کاج یا سخت مزدوری کرتے ہیں، وہ سیالوں کی بھینسیں چرانے کے مترادف ہیں.
    مسجد گویاماں کا پیٹ ہے، جہاں مقررہ وقت گزارتے ہیں.
    منصف راجہ گویا نیک اعمال ہیں، جنہوں نے ایمان ( ہیر ) سے ملاپ کرا دیا.
    بھایُ، بھابیاں، رشتہ دار یہ سب تمہارے پیوند ہیں، جن کے ساتھ تم جھگڑتے رہتے ہو.
    آخر کار تم بے وطن ہو کر راہی ملک عدم ہُوےُ، تمہیں نہ جانے کے لیےُ کسی نے بھی نہ کہا.
    مُورکھ ! ابھی وقت ہے کچھ نیک کام کر لو، گیا وقت ہاتھ نہیں آےُ گا.

    وارث شاہ نے ایک جگہ وجودۃ الوجُود کے فلسفے کو بڑی خوبی سے بیان کیا ہے :

    مالا منکیاں وچ جیوں اک دھاگا، جلوہ سرب کے بیچ سما رہیا
    سب جیُوندیاں وچ ہے جان وانگوں، نشہ بھنگ افیم وچ آ رہیا
    جویں پتریں مہندی دے رنگ رچیا، تویں جان جہان وچ آ رہیا
    جویں رگت سریر جو جان اندر، تویں جان جہان وچ ا رہیا

    اردو ترجمہ:

    جس طرح مالا کے دھاگے کے ذریعے سب دانے پروےُ ہُوےُ ہُوتے ہیں، اسی طرح ذات ربّی کا جلوہ ہر ایک مخلوق میں موجود ہوتا ہے.
    بھنگ اور افیم کو دیکھنے سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ ان کے اندر نشہ ہے، اسی طرح ہر زندہ جاندار میں اس کی قُدرت موجود ہے.
    یا جس طرح مہندی کے پتّے کو دیکھنے سے اس میں مہندی کا رنگ نظر نہیں آتا، اسی طرح وہ ہر جان دار مخلوق میں موجود تو ہے، لیکن ہمیں نظر نہیں آتا.
    جس طرح جسم کے اندر جان تو ہے، لیکن ہمیں دکھایُ نہیں دیتی.

    وارث شاہ کی ہیر کا قصہ پنجابی زبان کی شاعری کا ایک لا فانی شاہکار ہےجس سے ہر پڑھنے والا اپنے مزاج کے مطابق معانی اخذ کر لیتا ہے. وارث شاہ کو پنجابی زبان پر پُورا عبُور حاصل ہے. فارسی اور عربی زبان پر مہارت نے اس کے کلام کو بہت نکھار دیا ہے. ہیر وارث شاہ کو تمام صوبہ پنجاب میں نہایت اہتمام سے گایا اور سُنا جاتا ہے. اس کی دھُن عام شاعری سے مختلف ہے. اسے گانے کے لیےُ آواز پر بے انتہا عبُور کی ضرورت ہوتی پے.

     

    تخت ہزارہ
    صوبہ پنجاب کے ضلع سرگودھا میں دریاےُ چناب کے کنارے ایک گاؤں تخت ہزارہ میں ایک بڑا زمین دار ” موجُو راہنجھا ” رہتا تھا. اُس کے آٹھ بیٹوں میں سب سے چھوٹے بیٹے کا نام ” دھیدُو ” تھا . دھیدو بڑا خوبصورت تھا. ماں باپ کا لاڈلا تھا. دوسرے بھایُ اس سے جلتے تھے. دھیدو کویُ کام نہ کرتا تھا. بس دارے میں بیٹھ کر حُکم چلاتا. بانسری بڑے شوق سے بجاتا. یہی دھیدو بعد میں رانجھا کے نام سے مشہور ہُوا.

    دھیدُو کی بھاییُوں، بھابیوں سے کشیدگی

    موجو رانجھا فوت ہو گیا. دھیدُو کے بُرے دن آ گیےُ. بھاییُوں نے زمین بانٹ کر اُسے الگ کر دیا. دھیدو نے اپنے حصہ کی زمین پر ہل جوتنے شروع کر دیےُ. کبھی کام نہ کرنے والا جلدی تھک گیا. اس کی بھابی کھانا لے کر آیُ،دھیدو نے اُسے اپنا دُکھڑا سنانا شروع کر دیا. باتوں باتوں میں دونوں ایک دوسرے سے ناراض ہو گیےُ. دھیدو نے اپنی بھابی سے جو کُچھ کہا شاعر اللہ دتّہ اُسے اس طرح بیان کرتا ہے :

    کُڑیاں دا کم کڈھن کشیدہ، کد ن ک بُوٹے ٹاپے نی
    جاؤ بھیناں بھرجاییُاں گھراں نوں، ٹاپ لیساں میں آپے نی
    چھوٹی عُمرے مینوں وخت پیا، میری توڑ چڑھے تاں جاپے نی
    سکیاں بھاییُاں مینوں وکھ چا کیتا، میرے جمدیاں مر گیےُ ماپے نی
    دارے کھس لے سکیاں بھاییُاں ،تخت ملّے سرداراں نی
    بابل دا گھر بھاییُاں لُٹیا، بھابیو کرو بہاراں نی
    ہتھّی تے میں ہتھ نہ دھریا، کون کرے میری واہی نی
    پٹکا بنھدیاں چھالے پوندے، ہلّاں دی اٹکل ناہیں نہ

    اردو ترجمہ:

    لڑکیوں کا کام تو یہ ہے کہ گھر کا کام یا کشیدہ کاری کریں. انہیں یہ زیب نہیں دیتا کہ بُوٹے درخت پھلانگتی پھریں.
    بھابی ! تم گھر جاؤ، میں یہ کام خود ہی کر لوں گا.
    چھوٹی عمر میں یہ مصیبت گلے پڑ گییُ، اس میں سر خرو ہو کر نکلوں تو بات بنے.
    سگے بھاییُوں نے مجھے علیحدہ کر دیا، میرے تو جیسے پیدا ہوتے ہی والدین مر گیےُ.
    بھاییُوں نے دارے ، چوپال ہتھیا لیےُ، باپ کا تخت بھی لے لیا.
    باپ کا گھر بھی بھاییُوں نے لے لیا، تم سب عیش کر رہی ہو.
    میں نے تو آج تک ہل پر ہاتھ بھی نہیں رکھا، بھلا میری کاشت کاری کیسے چلے گی.
    سر پر پگڑی باندھتے ہوےُ میرے ہاتھوں میں چھالے پڑ جاتے ہیں. کاشت کاری کا یہ مشکل کام کیسے ہوگا.
    بھابی دھیدو کو طعنہ دیتی ہے :

    کچّا کنوارا رُس رُس بہنا ایں، اسی ست تیری بھرجایاں وے
    ست بھرجایاں خدمت گارن، میلا بن کر آیاں وے
    ساڈے آکھے لگ جا دیورا، ہوڑ رہیاں تینوں لالہ وے
    ساڈی پکّی کھاندا نہیں، جا ویاہ لیا ہیر سیالاں وے

    اردو ترجمہ :

    دیکھو ! تم ابھی کنوارے ہو اور رُوٹھ رُوٹھ جاتے ہو. ہم تمہاری سات بھابیاں ہیں.
    ساتوں بھابیاں تمہاری خدمت کے لیےُ تیار رہتی ہیں. یہ تمہیں منانے آیُ ہیں.
    بھاُٰٰیُ ! ہماری بات مان جاؤ، تمہیں ناراض ہونے سے منع کر رہی ہیں.
    اگر تم ہمارے ہاتھ سے پکی روٹی نہیں کھاتے، تو جاؤ ،سیالوں کی ہیر بیاہ کر لے آؤ جو تمہارا کھانا بناےُ.

    دھیدو اپنی بھرجاییُوں کو جواب میں کہتا ہے :

    مایُیاں دی سانوں لوڑ نہ کویُ، کیہڑا گل وچ پا لے پھاہی نی
    دھیاں بیگانیاں اوہ پرناندے، جیہڑے کر کے کھاہن کمایُ نی
    طعنے مارو ساڑو ہڈیاں، کرنے توں چت چایا نی
    تُساں نے مینوں طعنے دے کے، میرا جگر جلایا نی
    ایہہ پیےُ سب مال ٌ خزانے، ایہہ پیےُ سب ڈیرے نی
    نہ متھّے بھاییُاں دے لگنا، نہیں وڑنا گھر تیرے نی

    اردو ترجمہ :

    مجھے شادی کرنے کی ضرورت نہیں، شادی کر کے کون اپنے گلے مین پھانسی کا پھندا ڈالے.
    بیگانوں کی لڑکیاں تو وُہ بیاہ کر لاتے ہیں، جو کچھ کر کے کھاتے ہیں.
    تم بھابیوں نے طعنے دے دے کر میرا جگر چھلنی کر دیا ہے، اب تو کویُ بھی کام کرنے کو جی نہیں چاہتا.
    تمہارے طعنوں نے میرا جگر چھلنی کر دیا ہے.
    یہ رہے تمہارا مال ،خزانے اور ڈیرے، انہیں سنبھالو.
    آج کے بعد نہ تو بھاییُوں سے ملوں گا، اور نہ ہی تمہارے گھر آؤں گا.

    ؤضاحت : مندرجہ بالا اشعار شاعر اللہ دتّہ کے ہیں. وارث شاہ اسے اس طرح بیان کرتا ہے :

    ساڈا حُسن تُوں پسند نہ لیاویں، جا ہیر سیال ویاہ لیاویں
    واہ ونجھلی پریم دا گھت جال، کویُ نڈھڑی سیالاں دی پھاہ لیاویں
    تینوں ول اے رنّاں ولاونے دا ، رانی کُوکاں محل توں لاہ لیاویں
    دنے گھر بوہوں کڈھنی ملے ناہیں، راتیں کندھ پچھواڑیوں ڈھاہ لیاویں
    دن رات پھریں اوہدے مگر لگّا، بیڑی پریم دی اوس تے پا لیاویں
    وارث شاہ نوں نال لے جا کے تے، جویں دا لگّے تویں لا لیاویں

    وضاحت : میرے اہنے خیال میں مندرجہ بالا اشعار وارث شاہ کے نہیں ہیں. بلکہ یہ اُن اشعار میں سے ہیں جو بعض لوگوں نے اپنی طرف سے گھڑ کر ہیر وارث شاہ میں شامل کر دیےُ.

    اردو ترجمہ :

    تم ہمیں پسند نہیں کرتے، تو جاؤ حُسن کی پری ہیر سیال کو بیاہ لاؤ.
    پریم بانسری کے ذریعے کسی لڑکی کو پھانس لاؤ.
    تم عورتوں کو پھانسنے کا ہُنر جانتے ہو، کوشش کرو رانی کُوکاں کو اس کے محل سے لے آؤ.
    دن دیہاڑے اگر داؤ نہ لگے تو، کسی رات کو پچھواڑے کی دیوار پھلانگ کر اُسے اپنے ساتھ لے آؤ.
    اس کی محبت میں اس کا پیچھا کرتے رہو، اُسے اپنی محبت کا یقین دلا کر اپنی طرف مایُل کرنا.
    آسانی کے لیےُ وارث شاہ کو ساتھ لے جانا، جو بھی داؤ لگے لگا کر اُسے لے آنا.

    آج کی محفل یہاں ختم کرتے ہیں. اگلی محفل میں قصہ کو وہاں سے شروع کریں گے جہان دھیدو اپنی بھابیوں سے لڑ کر گھر بار چھوڑ دیتا ہے.

    پنجاب کے دوسرے مشہور قصے مرزا صاھباں کو پڑھنے کے لیےُ اس لنک پر کلک کریں ” مرزا صاحباں، قصہ ناکام محبت کا

    جاری ہے.

  • مرزا صاحباں – قصہ ناکام محبت کا- قسط نمبر 4 ،   Story of unsuccessful affection,

    مرزا صاحباں – قصہ ناکام محبت کا- قسط نمبر 4 ، Story of unsuccessful affection,

    مرزا صاحباں – قصہ ناکام محبت کا
    Story of unsuccessful affection
    قسط نمبر 4

    مرزا صاحباں، قصہ ناکام محبت کا، قسط نمبر 3 میں ہم وہاں تک پہنچے تھے جہاں مرزا اور صاحباں ساری رات گھوڑی پر سفر کرتے کے بعد سورج نکلنے کے بعد جنڈ کے ایک درخت کی چھاؤں تلے آرام کرنے کو ٹھہر گیےُ تھے. صاحباں یہاں ٹھہرنے کے حق میں نہ تھی ، مگر مرزا کو اپنے آپ پر کچھ زیادہ ہی بھروسہ تھا کہ وہ اکیلا ہی بہت سارے حملہ آوروں کا مقابلہ کر سکتا ہے. وہ صاحباں کے آرام نہ کرنے کے اصرار کے باوجُدود سو گیا. یہاں سے ہم کہانی کو آگے بڑہاتے ہیں.

    عنوانات :

    نمبر 1 = صُوبہ کی دُہایُ
    نمبر 2 = کھیوے خاں کی چڑھایُ
    نمبر 3 = مرزا کا جواب
    نمبر 4 = صاحباں کی کشمکش
    نمبر 5 = لڑایُ شروع
    نمبر 6 = شمیر کی احتیاط اور نیلی کا بھاگ جانا
    نمبر 7 = نیلی کی دانا آباد آمد
    نمبر 8 = راےُ رحمُوں کا انکار
    نمبر 9 = راےُ رحمُوں کی غیرت جاگ اُٹھی

    اُدھر مہر فیروز کے بھایُ ” صُوبہ ” کا گزر مہر فیروز کے پاس سے ہوتا ہے، مہر فیروز اُسے بتاتا ہے کہ مرزا صاحباں کو لے گیا ہے. اور لڑایُ میں مجھے زخمی کر گیا ہے. صُوبہ اُسی وقت گھر جا کر سب کہ خبر دیتا ہے :

    دھمّی صُوبہ کُوکیا یارو، دھیاں چھڈّو مار
    سر تے پہن لوہ ٹوپیاں، لاہ چھڈّو دستار
    مرزا صاحباں لے گیا، نیلی دا اسوار
    بار ملّو پیادیو، نکّہ ملّو اسوار

    اردو ترجمہ :

    سحری کے وقت صُوبہ نے سب سے کہا کہ اپنی اپنی بیٹیوں کو قتل کر دوتاکہ تُم ہماری طرح بے عزتی سے بچ جاؤ.
    بہتر ہے تم اپنی چودھراہٹ کی پگڑی اُتار کر ٹوپیاں پہن لو ( اُس زمانے میں شاید لوگ اپنے نوکروں کو ٹوپیاں پہناتے تھے ).
    گھوڑی پر سوار مرزا صاحباں کو لے گیا ہے.
    حکم دیا کہ پیادہ فوج بار کی طرف جاےُ اور گھوڑوں پر سوار دستے نکّا کی طرف جاییُں اور مرزا کو چاروں طرف سے گھیرا جاےُ .

    وضاحت ‘ جو لڑکیاں والدین کی عزّت کی پرواہ نہ کرتے ہُوےُ کسی کے ساتھ بھاگ جاتی ہیں، ان کے والدین اور رشتہ داروں کی جتنی بے عزتی ہوتی ہے ، اس وقت انہیں جو خیال آتا ہے اُسے ” دھیاں چھڈّو مار ” ( اپنی بیٹیاں قتل کر دو ) کے تین الفاظ بہت خُوبی سے ادا کرتے ہیں. ان تین الفاظ میں ایسے والدین کا کرب صاف عیاں ہے.

    کھیوے خاں کی چڑھایُ

    کھیوے خاں کے لڑکے شمیر اور سمیر اپنی اپنی فوجوں کے ساتھ بڑھے. شمیر نے اپنے شکاری کُتّے بھی ساتھ لے لیےُ. اُدھر مرزا آرام سے سویا ہُوا تھا. اُس سے تھوڑی دُور قال ( تقدیر ) اور نارد ( تدبیر ) آپس میں جھگڑ رہے تھے.

    قال تے نارد جھگڑ دے، دوویں گھُورم گھُور
    قال پیُ آہندی ناردا، کیوں جانا ایں دُورو دُور
    اساں سر پر مرزا مارنا ، اساں پینی رت ضرُور

    اردو ترجمہ ؛

    تقدیر اور تدبیر آپس میں گھُورتے ہُوےُ جھگڑنے لگے.
    تقدیر نے کہا تم دُور کیوں جاتے ہو، ہمارا شکار ہمارے سامنے ہے .
    ہم نے مرزا کو مار کر اس کا خُون لازمی پینا ہے.

    قال اور نارد آپس میں جھگڑنے لگے :نارد (تدبیر) نے قال ( تقدیر ) سے کہا :

    راضی ہو جا رضا تےبھیڑییےُ، ایہو چنگی جا
    ویکھ جٹ کیڈیاں چاواں وچ، ایہدی رکھّے شرم خُدا
    قا ل آکھیا ناردا، میرے پبّاں تے پب ٹکا
    .طُوبا ای  اک رُکھ عرش تے، اُس تے ہر بندے دا ناں
    جس پتّے تے ناں اس کھرل دا، اوہ پتّہ گیا کُڑما
    اساں سر پر مرزا مارنا، ساڈی رکھّے شرم خُدا

    تشریح : پاآوں کے اگلے حصّے یعنی انگلیوں اور انگُوٹھے کے مجمُوعے کو پنجابی زبان میں ‘ پب ” کہتے ہیں.
    پنجابی زبان کے لفظ ” سرپر ” کا مطلب ہے انتاہی ضرُوری.

    اردو ترجمہ:

    تدبیر نے تقدیر سے کہا کہ تم اللہ کی رضا پر راضی ہو جاؤ.
    ذرا دیکھو ، یہ جٹ اس وقت کتنا خوش ہے، اللہ اسے اسی طرح خُوش رکھے . تقدیر نے کہا تُم ذرا میرے پاؤں پر اپنا پاؤں رکھ کر اوپر کی طرف دیکھو.
    عرش پر ظُوبےآ نامی ایک درخت ہے، جس کے ہر ایک پتّے پر دُنیا میں پیدا ہونے والے ہر شخص کا نام لکھّا ہوتا ہے.
    جس پتہ پر اس کھرل کا نام درج ہے، وُہ پتّہ کملا چکا ہے.
    اب اسے موت سے کویُ نہیں بچا سکتا. اس کی زندگی ختم ہو چکی ہے.

    شمیر کی فوج نزدیک آ گییُ. کچھ فاصلے پرشمیر کے شکاری کُتؤں نے ایک جوہڑ سے پانی پیا. اور اپنے کان کھڑے کر لیےُ. یہ اس بات کی نشانی تھی کہ انہوں نے کسی آدمی کی بُو پا لی پے. صاحباں نے دُور سے آتے ہُوےُ آدمیوں کو دیکھ لیا اور مرزا کو جگایا :

    کُتّے خان شمیر دے، چھپڑی آن وڑے
    اُنہاں پانی پیتا رج کے ، کیتے کن کھلے
    یا ڈھڈاؤ آپ دے، یا کویُ میر شکار چڑھے

    اردو ترجمہ:

    خان شمیر کے کُتّے جوہڑ میں داخل ہو گیےُ.
    انہون نے جی بھر کر پانی پیا. تازہ دم ہوکر اپنے کان کھڑے کر لیےُ، جیسے شکار کی بُو سُونگھ لی ہو.
    صاحباں کہنے لگی کہ یا تو یہ لوگ ہمیں ڈھُونڈتے ہُوےُ آےُ ہیں ، یا کویُ امیر شکار کھیلنے نکلا ہے.

    مرزا کا جواب

    صاحبان کو تسلّی دیتے ہُوے مرزا نے کہا :

    جنڈ جنڈورا بار دا صاحباں، کیوں ہویُ ایں دلگیر
    میں جُوہ پچھاتی اپنی، میری دانا آباد جاگیر
    جس دن دا پگڑا بنھیا، میرا کنبیا نہیں سریر
    میرے ہتھ وچ کانی سار دی، جیہڑی جاوے چیر سریر
    میں رکھّان حُب چروکنی، تیرے ویکھاں ویر شمیر

    اردو ترجمہ :

    صاحباں ! تُم فکر کیوں کرتی ہو، مجھے آرام سے سونے دو.
    میں اپنی دانا آباد جاگیر کی سمت کو اچھّی طرح جانتا ہُوں ، اور ہم وہاں ضرور پہنچیں گے.
    میں نے جب سے اپنے سر پر پگڑی باندھی ہے نہ کبھی کسی سے خوف کھایا ہے اور نہ ہی میرا دل ڈولا ہے.
    ًیرے پاس ایسے تیر ہیں جو دُشمن کے جگر کے پار ہو جاتے ہیں.
    مُدّت سے میری یہ خواہش ہے کہ میں تمہارے بھایُ شمیر وغیرہ سے دو دو ہاتھ کر کے دیکھوں کہ وُہ کتنے بہادر ہیں.

    صاحباں کی کشمکش :

    مرزا صاحباں کو تسلّی دے کر پھر سو گیا. شمیر کے آدمی مرزا کو ڈھُونڈتے ڈھُونڈتےنزدیک آ نے لگے. صاحباں کے لیےُ یہ وقت بڑا کڑا تھا. وہ دیکھ چُکی تھی کہ مرزا کا نشانہ کتنا سچّا ہے. اگر وہ مرزا کو سوتے سے اُٹھا دے تو وہ ان سب کو چُن چُن کر کر تیروں سے چھلنی کر دے گا. مگر وُہ کسے مارے گا ؟ میرے بھایُیوں کو ! اسے یہ خیال بار بار آیا “کیا میں اپنے بھاییُوں کو مرتا دیکھ سکُوں گی ؟ ” ایک طرف مرزا کا پیار، دُوسری طرف اس کے ماں جاےُ بھایُ. وہ سوچتی رہی ” میں مرزا کی محبُت ہُوں یا خان کھیوے کی بیٹی ؟ “. آخر خان کھیوے کی جیت ہُویُ. صاحباں نے مرزے کے ترکش سے تیر نکال کر توڑنے شروع کر دیےُ. مرزا کے مرنے کے خیال سے اس کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے. گرم گرم آنسو مرزا کے چہرے پر پڑے تو وہ اُٹھ بیٹھا. پوچھا ” کیا بات ہے ؟ ” صاحباں نے اپنے بھاییُوں کی طرف اشارہ کیا جو نزدیک آ چُکے تھے. مرزا نے جلدی سے اپنی کمان سُنبھالی اور ترکش سے تیر نکالے. ترکش میں صرف تین تیر صحیح سلامت تھے. باقی سارے تیر انیوں سے ٹُوٹے ہُوےُ تھے. مرزا سمجھ گیا کہ یہ کارستانی صاحباں کی ہے. وہ اپنے بھاییُوں کو مرتا ہُؤا نہیں دیکھ سکتی ، اس لیےُ اُس نے مرزا کے تیر بیکار کر دیےُ.

    بعض محققین کہتے ہیں کہ صاحباں نے مرزا کا تُرکش درخت کی کسی اونچی شاخ کے ساتھ لٹکا دیا تھا ، تاکہ ترکش اور تیر مرزا کی دسترط سے دُور رہیں.

    لڑایُ شروع :

    مرزا بہادر اور دلیر جوان تھا. یُوں ماراجانا اُسے گوارہ نہ تھا. وہ ان تیروں سے کم ازکم تین آدمیوں کو تو مار سکتا تھا. اُس نے پہلا تیر نکالا ؛

    بھال کے بھیتوں کڈھیا، مرزے وڈّا تیر سنجھان
    اُس پڑھ بسم اللہ ماریا، اوہ اُڈیا وانگ طُوفان
    اُس دونویں ہنیوں لاہ لے، صاحباں دے ویر جوان
    ڈگدے بھایُاں نوں ویکھ کے، اوہدی کربل آ گیُ جان
    آہندی ہور نہ ماریں مرزیا، تیری اکّو سٹ پردھان

    اردو ترجمہ :

    مرزا نے ترکش سے دیکھ بھال کر ایک لمبا تیر نکالا .
    اُس نے اللہ کا نام لے کر تیر کا نشانہ لے کر چھوڑا جو طوفان کی طرح اپنے نشانے کی طرف بڑھا.
    تیر نے صاحباں کے دونوں بھاییُوں کوگھایُل کر دیا ، دونوں گھوڑوں سے نیچے گر پڑے.
    اپنے بھاییُوں کو گھوڑوں سے گرتے دیکھ کر صاحباں گویا بے جان سی ہو گییُ .
    کہنے لگی مرزا ! مزید تیر نہ مارنا، تمہارا ایک ہی حملہ بڑا زبر دست ہے

    .صاحباں کے بھاییُوں کی فوجوں نے چاروں طرف سے گھیرا ڈال لیا. چاروں طرف سے تیروں کی بارش ہونے لگی. مرزا زخمی ہو کر گر پڑا. اس وقت اُسے اپنے بھایُ یاد آےُ :

    میں باہج بھراواں ماریا، میری ننگی ہو گیُ کنڈ

    میرے سر توں پگڑا ڈھیہہ پیا، میری ننگی ہو گییُ جھنڈ

    اج بھایُ ہوندے تے بوہڑدے، لیندے پیڑاں ونڈ:

    اردو ترجمہ

    آج میں اس حالت میں مر رہا ہُوں کہ میرے پااس میرے بھایُ نہیں، گویا میری پیٹھ کی

    طرف کویُ محافظ نہیں.
    میرے سر سے میری پگڑی گر پڑی، اور میرے بال نظر آنے لگے.
    اگر اس وقت میرے بھایُ میرے پاس ہوتے تو میرا دُکھ درد بانٹ لیتے.

    مرزا نے مرتے وقت جو بات کہی وہ یہ تھی :

    گلّی ککھّیں نہ ساڑیو، میں مرزا مسلمان
    حُوراں بنھ لے سندلے، پریاں دیہن مُکان

    اردو ترجمہ:

    ہندوؤں کی طرح میری لاش کو گیلی لکڑیوں میں رکھ کر نہ جلانا، میں مسلمان ہُوں ، مجھے دفن کرنا.
    مرزا کی لاش پر حُوریں ماتم کرنے ، اور پریاں افسوس کرنے آییُں،

    تشریح : آج سے ساٹھ ستّر سال پہلے دیہات میں کسی جوان موت پر عورتیں اپنے دوپٹّے اپنی کمر کے گرد باندھ کر ماتم کرتی تھیں. دوپٹّوں کو اپنی کمر کے گرد باندھ لینے کو ” سندلے باندھنا ” کہتے ہیں. آج کل اس کا رواج نہیں ہے

    مُکان کی تشریح کے لیےُ ” پنجابی اکھان، ردیف ک،نمبر 16-7 ” کا اکھان نمبر 11 پڑھیےُ.

    شمیر کی احتیاط اور نیلی کا بھاگ جانا :

    مرزا مارا گیا. مرزا کی گھوڑی شمیر اپنے ساتھ لے گیا ، اور اس پر کڑا پہرہ لگا دیا. اس کا خیال تھا کہ اگر مرزا کی گھوڑی ایک دفعہ ان کے ہاتھ سے نکل گییُ، تو وُہ سیدھی دانا آباد جاےُ گی. اور خالی گھوڑی دیکھ کر کھرل سمجھ جاییُں گے کہ مرزا قتل ہو چُکا ہے اور وُہ بدلہ لینے کے لیےُ ہم پرچڑھایُ کر دیں گے.
    کچھ دنوں بعد شمیر نے اپنے نوکر سے کہا کہ گھوڑی کو پانی پلا لاؤ :

    شمیر کی آہندا نفر نوں نیلی زین لیا
    ایہدا کھیس تاہرُو تے گردنی، لیاویں خُوب ٹکا
    ایہدے کُنڈے میل لگام دے ، کریں نہ جھٹ وساہ
    جے گیُ ایہہ نیلی چھُٹ کے، لیاوسی کھرل چڑھا
    موےُ مرزے دے ویر تے، چڑھ سی رحمُوں را
    اوتھے لڑ لڑ مرسن سُورمے، پوسی تیغ دا گاہ
    نیلی پانی پیتا رج کے، لیندی شُکر بجا
    اوہ کھیڈے پیُ نال شوق دے، دتّی گرد دھُما
    ہتھّوں نفر دے واگاں چھُت گییُاں، اوہ بھویُیں تے مارے چا
    نیلی پڑھیا کلمہ شُکر دا، پیُ دانا آباد دے راہ

    اردو ترجمہ :

    شمیر نے نوکر سے کہا، نیلی کی زین لاؤ.
    گھوڑی پر تاہرو ڈالو، اور لگام دینا نہ بھُولنا.
    اس کی لگام کے کُنڈے بند کرنا نہ بھُولنا، ہاتھ سے لگام نہ چھوڑنا.
    اگر یہ تم سے بھاگ گییُ تو تو سیدھی دانا آباد جاےُ گی اور کھرل ہم پر چڑھایُ کر دیں گے.
    قتل کیےُ جانے والے مرزا کا بدلہ لینے کے لیےُ راےُ رحمُوں ہم پر چڑھ دوڑے گا
    لڑایُ میں بڑے بڑے بہادر سُورما مارے جاییٰں گے، بڑی تیغ زنی ہو گی .
    نوکر نیلی کو پانی پلانے لے گیا. نیلی نے جی بھر کر پانی پیا اور خدا کا شکر ادا کیا.
    پانی پینے کے بعد نیلی بڑے شوق سے ناچنے کودنے لگی. گرد اُڑا دی.
    نوکر کے ہاتھ سے نیلی کی لگام چھُوٹ گیُ، گھوڑی نے اُسے زمین پر پٹخ دیا.
    گھوڑی نے آزاد ہونے پر شکر ادا کیا اور دانا آباد کی سمت دوڑ پڑی.

    نیلی کی دانا آباد آمد :

    مرزا کی گھوڑی ” نیلی ” جب دانا آباد کے قریب پہنچی تو تو سب سے پہلے اُسے مرزا کے باپ ” راےُ ونجل ” نے دیکھا . وہ سمجھ گیا کہ گھوڑی خالی آ رہی ہے ، مرزا مارا گیا ہے.

    سکھنی نیلی ویکھ کے ، را دے سروں ڈھہہ پیُ پگ
    میرے پچھلے پہر دیےُ ٹہنیےُ، اج وچّوں گیُ ایں بھج
    کولوں شریک پیےُ مارن بولیاں، را ونجل لُٹیا اج

    اردو ترجمہ

    خالی گھوڑی دیکھ کر راےُ ونجل کے سر سے اس کی پگڑی گر گیُ.
    کہنے لگا میری پچھلی عُمر میں پیدا ہونے والی ٹہنی ، آج درمیان سے ٹُوٹ گیُ ہے.
    میرے شریک طعنے مار رہے ہیں کہ آج ونجل لُٹ گیا ہے.

    مرزا کے بھایُ سردول خالی گھوڑی کے گلے لگ کر رونے لگا :

    سکھنی نیلی ویکھ کے، لگّا گل سردُول
    کتّھے مرزا ماریا ای، گھتیا ای قہر نزُول
    ہُن لگ لگ بہن کچہریان، سانوں مرزے والا سُول

    اردو ترجمہ

    گھوڑی کو مرزا کے بغیر دیکھ کر سدُول اُس کے گلے لگ کر رونے لگا.
    نیلی ! تم مرزا کو کہاں قتل کروا آیُیں ؟ .ہم پر بڑا ہی ظلم ڈھایا .
    لوگ بیٹھ کر باتیں بنا رہے ہیں، اور ہم غم سے نڈھال ہیں.

    مرزا کا دوسرا بھایُ ” سرجا ” بھی خالی نیلی کو دیکھ کر رونے لگا ؛

    سکھنی نیلی ویکھ کے ، جٹ سرجےماری ڈھاہ
    سچ دس کھاں نیلیےُ، کتھّے آیُ آیں لعل کوہا
    کتھّے مرزا ماریا ای، میرا لاڈلا ویر بھرا
    کون بہہ گا تیری پٹھ تے، لے پُرے دی وا
    کون پاسی کھنڈ نہاریاں، کون ہریا گھاہ
    نیویں دسدے چوترے، رُکھّاں باہج گراں
    بھایُ مرن باہواں بھجدیاں، پُتّر مرن تے جاندا ناں
    چارے گُٹھّاں سُنجیاں، جدوں مردا پیُو تے ماں
    رسیاں دھر دھر ونڈدے یارو، اوتر گیاں دی تھاں

    اردو ترجمہ :

    گھوڑی کو خالی دیکھ کر سرجا کی چیخ نکل گییُ.
    کہنے لگا سچ بتاؤ تم ہمارے لعل کو کہاں ذبح کرا آییُں ؟ .
    مجھے بتاؤ میرا پیارا بھایُ کہاں مارا گیا.
    اب تمہاری پیٹھ پر بیٹھ کر صُبح کے وقت کون سواری کرے گا.
    تُمہیں اب دانہ، نہاری ا ور سبز گھاس کون کھلاےُ گا.
    آج ہمیں گھر کے صحن نیچے دکھایُ دیتے ہیں ، ایسا لگتا ہے جیسے چاروں طرف کویُ درخت نہیں، جس کی چھاؤں میں بیتھیں.
    بھایُ کے مرنے پر جیسے دُوسرے بھاییُوں کے بازُو ٹُوٹ جاتے ہیں. بیٹے مر جاییُں تو نام لینے والا کویُ نہیں رہتا.
    ماں باپ مر جاییُں تو چاروں طرف اُجاڑ ہی اُجاڑ دکھایُ دیتا ہے.
    لاولد مر جانے والے کی وراثت اور زمین کو اُس کے رشتہ دار آپس میں بانٹ لیتے ہیں.

    تشریح : لاولد کو عربی زبان میں ” ابتر ” کہتے ہیں. اس ابتر کو پنجابی زبان میں ” اوتر ” کہتے ہیں. اوتر کے ساتھ ایک اور لفظ ” نکھتّر ” ملا کر اوتر نکھتّر کہ کر پکارا جاتا ہے. جس کا مطلب یہ ہوتا ہے ” ایسا شخص کس کی کویُ اولا د نہ ہو”، خصُوصاٌ اولاد نرینہ کہ اس سے ہی نسل آگے چلتی ہے.

    مرزا کی چھوتی بہن ” چھتّیی ” خالی گھوڑی دیکھ کر غش کھانے لگی. بہنوں کی بھاییوُں سے محبت ویسے بھی زیادہ ہوتی ہے. چھتّی غم سے نڈھال ہو گییُ.

    سکھنی نیلی ویکھ کے چھتّی ماری ڈھاہ
    میں دُکھّیں پیپل پالیا، چُلییں پانی پا
    اج پپلے لگراں چھڈیاں، لے گیا شمیر وڈھا
    میرا بلدا دیوا بُجھ گیا، گیا شمیر بُجھا

    اردو ترجمہ

    خالی گھوڑی دیکھ کر چھتّی کے منہ سے پیخیں نکل گییُں.
    کہنے لگی میں نے بڑی محنت اور پیار سے پیپل کے درخت کو اپنے ہاتھوں سے پانی دے دے کر اُسے بڑا ہونے دیا.
    اب جب کہ پیپل کی ٹہنیاں نکل آییُں، اور اس قابل ہُوییُں کہ ہم اس کی چھاؤں میں بیٹھ سکیں تو شمیر نے اس درخت کو ہی کاٹ دیا.
    ہمارا چراغ جل رہا تھا، شمیر نے اُسے بُجھا دیا.

    راےُ رحمُوں کا انکار

    ااُس وقت کھرل خاندان کا سربراہ راےُ رحمُوں تھا ، جو مرزا کے دادا کا بڑا بھایُ تھا. مرزا کی بہن چھتّی اُس کے پاس گییُ کہ مرزا کے قتل کا بدلہ لو.

    چھتّی واگاں موڑیاں، را رحمُوں دے دربار
    آہندی بابا میرے سچ دیا، میرے ویر دا گھر سنوار
    آہندا شُکر کیتا میں چھتیےُ ، جدوں مویا مرزا چور
    میری مجھّیں نوں ڈانگاں ماردا، پاندا راوی دے وچ شور
    میں کیوں چڑھاں شریک تے، مینوں بنی کیہڑی لوڑ

    اردو ترجمہ :

    مرزا کی بہن اپنے دادا را رحمُوں کے پاس گییُ.
    اُسے کہا آپ میرے سگے دادا ہیں، میرے قتل ہو جانے والے بھایُ کا بدلہ لو.
    راےُ رحمُوں نے کہا ” مرزا کے مرنے پر میں نے اللہ کا شکر ادا کیا.
    وُہ میری بھینسوں کو لاٹھیاں مارتا تھا، اُس نے علاقہ میں اُدھم مچا رکھا تھا.
    میں اُس کے قتل کا بدلہ کیوں لُوں ؟ مجھے کیا مصیبت پڑی ہے.

    خاندان والے راےُ رحمُوں کا یہ جواب سُن کر بڑے مایُوس ہُوےُ. اُس وقت چھتّی نے راےُ رحمُوں کو طعنہ مارا

    بینی بنھ لے گانا رحموں، ہتھّاں تے مہندی لا
    سد کے نُور دین قاضی نوں ،میرا پڑھ لے حق نکاح
    چڑھ محلّاں سواں دے، لاہاں دے پُرے دی ہوا
    جگ وچ دُھمّاں پوسن، دادے پوتری لییُ ویاہ
    اگّے مرزا سیالاں ماریا، میں وی سیال کریساں جا

    اردو ترجمہ :

    دادا ! تم میرے بھایُ مرزا کے قتل کا بدلہ لینا نہیں چاہتے، تو ہاتھ میں گانا باندھ لو اور مہندی لگا لو.
    نُور دین قاضی کو بُلا کر میرے ساتھ نکاح کر لو.
    ہم محلوں میں آرام سے سویُیں گے، اور صُبح کی پیاری پیاری ہوا کے مزے لُوٹیں گے.
    آس پاس مشہُور ہو جاےُ گا کہ دادا نے اپنی پوتری سے شادی کر لی.
    اس سے پہلے سیالوں نے مرزا کو قتل کیا، میں بھی کسی سیال مرد کے ساتھ شادی کر لُوں گی.

    راےُ رحمُوں کی غیرت جاگ اُٹھی

    چھتّی کا یہ طعنہ سُن کر راےُ رحمُوں کی غیرت جاگ اُٹھی،اُس نے خان کھیوہ پر چڑہایُ کر دی. کھرل تعداد میں زیادہ تھے. خان کھیوہ نے محسُوس کیا کہ وہ کھرلوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا. اُس نے اپنے بیٹے شمیر کو مشورہ دیا کہ وُہ مرزا کے قتل کے عوض اپنی بہن بختاں کا رشتہ کھرلوں کو دے دے. مگر شمیر نہ مانا. اُس نے کہا

    میرا نام شمیر اے، کُل وچّوں نام ودھیک
    میں بانہہ کچہری لا کے، میرے پاوے پھڑن شریک
    ڈولا دیاں میں پکھّی واس نوں، میری جد نوں لگدی لیک

    اردو ترجمہ :

    میرا نام شمیر ہے جو دُنیا میں تمام ناموں میں بڑا ہے.
    میں روزانہ کچہری لگاتا ہُوں، جہاں میرے شریک میرے تخت کے پاےُ پکڑتے ہیں.
    میں ایک بنجارہ سے اپنی بہن بیاہ دُوں ! یہ میرے خاندان اور قوم کی بے عزتی ہے.

    کھرلوں اور شمیر کی فوجوں میں لڑایُ شروع ہو جاتی ہے. شمیر اور اس کے خاندان کا ہر شخص قتل کر دیا جاتا ہے. کھرلوں نے کھیوا شہر کی اینٹ سے ینٹ بجا دی، صرف اُس مسجد کو گزند نہیں پہنچایا ، جہاں مدرسے میں مرزا بچپن میں پڑھا کرتا تھا. وُہ مسجد آج بھی صحیح سلامت موجُود ہے.

    آپ نے ساری کہانی پڑھی. میرے خیال میں اس کے تمام اشعار پیلو شاعر کے نہیں ہیں. یہ اشعار تو زمانہ قریب کے لگ رہے ہیں. پیلو کے زمانہ اور آج کل کی عام بول چال میں کافی فرق آ چُکا ہے. ایسا لگتا ہے جیسے یہ اشعار کسی چرواہے کے ہیں. کہانی بھی جابجا ٹوٹتی ہے، کیُ ایک سوالات کا جواب نہیں ملتا.

    کھرل اور سیال دونوں ہی مرزا اور صاحباں کا ذکر کرنے سے اجتناب کرتے ہیں . غیرت کا تقاضا بھی یہی ہے. مرزا اور صاحباں کا مقبرہ یُونین کونسل دانا آباد کی حدُود میں موضع چک نمبر 484 ج ب. جھنڈ والی میں نہایت خستہ حالت میں موجۃود ہے. جس کی دیکھ بھال کا کویُ انتظام نہیں. مقامی آبادی اپنی عورتوں کو مقبرہ پر حاضری کی اجازت نہیں دیتی. انہیں یہ خوف لاحق ہے کہ اُن کی عورتیں کہیں مرزا صاحباں کی تقلید نہ کر لیں.

    کہانی کے کرداروں کے رشتوں مہیں بھی اختلاف ہے. بعض علاقوں میں صاحباں کے ایک بھایُ کا نام شبّیر آتا ہے اور بعض میں شمیر. اب صحیح نام کیا ہے ، اسا کا پتہ نہیں چلتا. اسی طرح مرزا کے باپ کے بارے میں بھی اختلاف ہے. بعض کا خیال ہے کہ راےُ ونجل مرزا کے بچپن میں فوت ہو گیا تھا . بعض میں یہ بتایا گیا ہے کہ مرزا کی قتل ہونے کے بعد اُس کی گھوڑی ” نیلی ” جب دانا آباد پہنچی تو سب سے پہلے اُسے مرزا کے باپ راےُ ونجل نے دیکھا. اسی طرح کے کیُ شُبہات کہانی میں موجُود ہیں.

  • مرزا صاحباں- قصہ ناکام محبت کا. قسط نمبر 3 – Story of Unsuccessful Affection

    مرزا صاحباں- قصہ ناکام محبت کا. قسط نمبر 3 – Story of Unsuccessful Affection

    مرزا صاحباں – قصہ ناکام محبت کا –
    Story of Unsuccessful Affection.
    قسط نمبر 3

    مرزا صاحباں – قصہ ناکام محبت کا – قسط نمبر 2  میں پم اُس جگہ تک پہبچے تھے جہاں مرزا صاحباں کے گاؤں جاتے ہُوےُ راستے میں ایک برہمن سے پوچھتا ہے کہ میں جس کام سے جا رہا ہُوں ، میں اُس میں کامیاب ہوں گا یا نہیں. برہمن اُسے ڈھکے چھُپے الفاظ میں بتاتا ہے کہ ” ٹنڈاں کرم کیریاں بھر بھر ڈوہلن نیر “. اب ہم اس سے آگے چلتے ہیں.

    عنوانات :

    نمبر 1 = مرزا کی گھوڑی
    نمبر 2 = رقاصہ کی تنبیہ
    نمبر 3 = صاحباں کا دوپتّہ
    نمبر 4 = توہم پرستی
    نمبر 5 = مہر فیروز سے ٹاکرا
    نمبر 6 = جنڈ کا درخت

    اب ہم وہاں سے شروع کرتے ہیں جہاں مرزا صاحباں، قصہ ناکام محبت کا، قسط نمبر 2 تک پہنچے تھے :

    مرزا برہمن یا شاعر کی تنبیہہ کو نظر انداز کر دیتا ہے اور شام ڈھلے صاحباں کے گاؤًں میں اپنی خالہ ” بیبو ” کے گھر پہنچ جاتا ہے. اپنی خالہ کو سارا ماجرا سُناتا ہے. اُس وقت صاحباں کی بارات آ چکی ہوتی ہے. مرزا کی خٌآٌٌلہ صاحباں کو مرزا کے آنے کی اطلاع دیتی ہے . اُس وقت صاحباں نہا نے جا رہی ہوتی ہے :

    اوہدے ہتھ کٹورا دہی دا ، چلّی نہون تلا
    اوہ مل مل دھوندی مہڈیاں، چُلییُں پانی پا
    مٹّی ہووے تے اُگّل جاوے، عشق نہ اُگّل دا
    اندروں نکلی صاحباں ، لُنگی لک ولا

    اردو ترجمہ:

    صاحباں دہی کا کٹورا ہاتھ میں لیےُ نہانے کے لیےُ چلی.
    وہ اپنے بالوں کو اچھی طرح دھوتی رہی. اپنے سارے بدن کو مل مل کر دھویا.
    اُس کے جسم پر مٹّی ہوتی تو اتر جاتی ،مگر یہ تو عشق تھا، کیسے اُترتا.
    نہا کر اس نے کپڑے پہنے اور غُسل خانے سے باہر آ گییُ.

    مرزا کی گھوڑی

    بیبو نے صاحباں کو سارا پروگرام سمجھایا کہ جب آتشبازی چل رہی ہوگی تُم فُلاں جگہ آ جانا. مرزا گھوڑی سمیت وہاں موجُود ہو گا. صآحباں مقررہ جگہ پر آ گییُ. مرزا اپنی گھوڑی سمیت وہاں موجود تھا. صاحباں نے گھوڑی کو دیکھا کہ یہ پتلی سی گھوڑی دو آدمیوں کو لے کر اتنا فاصلہ کیسے طے کرے گی. اس نے مرزا سے اپنے اندیشے کا ذکر کیا :

    چُوہے رنگلی دُنبلی، آندی آ کتھّوں ٹور
    ایہدا لک سُکّا، لنگ کانیاں، ایہدی نکلی ہویُ کنگوڑ
    اس نہیں دوبیلا کڈھنا، ایہدی پٹھ وچ ہے نہیں زور
    خاناں گھر جے باپ دے نہیں سی، کویُ منگ لیادوں ہور

    اردو ترجمہ :

    تُم یہ دُبلی پتلی چُوہے رنگ والی گھوڑی کہاں سے لے آیےُ.
    اس کی کمر پتلی، ٹانگیں سُوکھی ہُویُ، اس کی پیٹھ کی ہڈیاں تک نظر آ رہی ہیں.
    اس کی کمر میں طاقت تو ہے نہیں، یہ دو آدمیوں کو اپنے اُوپر بٹھا کر اتنی دُور تک کیسے لے جاےُ گی.
    اگر تمہارے باپ کے گھر کویُ اچھی گھوڑی نہ تھی، تو کسی سے مانگ کر ہی لے آتے.

    مرزا کو اپنی گھوڑی پر بڑا ناز اور اعتماد تھا. وہ اپنی گھوڑی کی توہین برداشت نہ کر سکا اور صاحباں سے کہا :

    صاحباں چڑھنا ای اپنے شوق نوں، میری نیلی نند نہ جا
    چار نیایاں دا کھٹیا، میری نیلی گیُ آ کھا
    میری نیلی توں ڈردے پنچھی، چوگ نہ چُگدے آ
    میری نیلی توں ڈرن فرشتے، میتھوں ڈرے اجل
    جتھّے جا کے بہہ جاواں، اوتھئ تھر تھر پوندی تھل

    اردو ترجمہ:

    صاحباں تم میری گھوڑی پر بیٹھو یا نہ بیٹھو، تمہاری مرضی، لیکن میری گھوڑی کی ہتک نہ کرو.
    گاؤں کے ساتھ والی زمین کے چار قطعوں کی آمدنی اس گھوڑی پر خرچ کر دیتا ہُوں.
    میری گھوڑی کی ہیبت اور ڈر سے پرندے بھی اس کے پاس نہیں پھٹکتے. میری گھوڑی سے فرشتے اور مجھ سے موت ڈرتی ہے.
    میں جس جگہ جا بیٹھُوں، وہاں میری ہیبت سے تھرتھلّی مچ جاتی ہے.

    رقاصہ کی تنبیہ

    مرزا صاحباں کو اپنی گھوڑی پر بٹھا کر چل پڑتا ہے.اس وقت صاحباں کی بارات میں ایک رقاصہ ناچ رہی ہوتی ہے. وہ مرزا کو پہچان لیتی ہے اور اُسے اشاروں میں سمجھاتی ہے :

    رات چنّے دی چاننی، تاریا تیری لو
    اتنے ویری ہوندیاں ، کیوں سر تے رہیا ایں کھلو
    پندھ سُنبھال پاندھیا، نیناں دتّا رو

    اردو ترجمہ :

    چاندنی رات ہے، چاند کے ساتھ ایک چمکتا ستارہ ہے.
    تمہارے اتنے دُشمن اکٹھّے بیٹھے ہیں، اور تم ان کے پاس کھڑے ہو.
    مسافر ! اپنا راستہ لو، تمہارے دشمنوں کو پتہ چل گیا تو تُمہاری کیا دُرگت بناییں گے، یہ سوچ کر میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑتے ہیں.

    مراز اقاصہ کی تنبیہ پر دھیان نہیں دیتا. اور رقاصہ کا رقص دیکھتا رہتا ہے. اُسے اپنی گھوڑی پر بڑا اعتماد ہے کہ یہ پلک جھپکنے میں بڑی دُور نکل جاےُ گی. رقاصہ اُسے پھر سمجھاتی ہے :

    خان کھیوے دے جھانجرے، ودھ ودھ ہوےُ نی جھنگ
    پان نہ دیندے کاٹھیاں، چھکن نہ دیندے تنگ
    ہیٹھ جنہاں دے تازی، بھُورے جنہاں دے رنگ
    بھجیاں جان نہ دیندے، لاہ دلے دی سنگ

    اردو ترجمہ :

    جھنگ کے خان کھیوہ کی گھوڑیوں کے ایال بڑے لمبے ہیں.
    ان گھوڑیوں کے سوار اپنے دُشمن کو گھوڑی پر زین بھی کسنے نہیں دیتے اور اُسے پکڑ لیتے ہیں. یہ گھوڑیاں سوار کو “تنگ” بھی کسنے نہیں دیتیں. ( گھوڑی کی زین کے دونوں طرف 4 انچ چوڑی 8 سے 10 فٹ لمبی علیحدہ علیدہ بیلٹ ہوتی ہیں، جنہیں گھوڑی کا سوار سوار ہونے سے پہلے گھوڑی کے پیٹ کے گرد مضبُوطی سے باندھ دیتا ہے. ان دونوں بیلٹوں کو ” تنگ ” کہتے ہیں. یہ تنگ زین کو گھوڑے یا گھوڑی کی کمر سے مضبوطی سے باندھےرکھتا ہے. )
    ان سواروں کے لیےُ بھورے رنگ کی گھوڑیاں ہر وقت تیار رہتی ہیں. بھاگتا ہُؤا آدمی ان سے بچ نہیں سکتا.تم یہ خیال اپنے دل سے نکال دو کہ تُمہاری گھوڑی بہت تیز دوڑتی ہے ، اور تم اُن کے ہاتھ نہیں ا سکو گے.

    صاحباں کا دوپٹّہ

    مرزا کی سمجھ میں رقاصہ کے اشارے آ گیےُ ، اور وہ وہاں سے چل پڑا.. حویلی کی چار دیواری پھلانگتے وقت صاحباں کا دوپٹّہ ایک درخت کی ٹہنیوں کے کانٹوں میں پھنس گیا. صاحباں اپنے دوپٹے کو کانٹوں سے نہ نکال سکی. مرزا سے کہتاہے:

    ساویا ون ونوتیا ! تیرے نال اک کُنگی بیر
    سالُو دا لڑ اڑ گیا، تیری قسمت دے وچ پھیر
    صاحباں ! اڑ گیا ای تے رہن دیہہ، راوی سالُو، بھوچھن ڈھیر

    اردو ترجمہ:

    ون کے درخت، تمہارے ساا تھ بیری کا ایک درخت ہے.

    صاحباں کے دوپتّہ کا ایک پلُّو اس درخت کی ٹہنی کے کانٹوں میں پھنس گیا ہے، شاید تمہاری قسمت میں پھیر ہے.
    صاحباں ! چھوڑو دوپتّے کو، میری رہایُش راوی کے کنارے ہے، وہاں دوپٹّے بہت مل جاییُں گے.

    توہم پرستی

    دُنیا میں سب سے زیادہ توہم پرست ہندُو قوم ہے. وہ ہر کام شروع کرنے سے پہلے کام کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں نجومی سے پُوچھتے ہیں. کسی کام کو جاتے ہُوےُ اگر کالی بلّی راستہ کاٹ جاےُ تو وہ اسے بُرا شگُون جانتے ہیں اور واپس مُڑ جاتے ہیں اور اس کام کو کسی اور وقت پر ٹال دیتے ہیں. اگر مرزا ہندُو ہوتا تو وہ ماں کے منع کرنے، برہمن کے اشاروں کنایوں ، پھر صاحباں کے دوپٹّہ کا درخت کے کانٹوًں میں پھنس جانے سے بُرا شگُون لیتا ، اور یہ کام کسی اور وقت کے لیےُ اُٹھا رکھتا. لیکن مرزا ہندُو نہ تھا. اُسے اپنے زور بازو پر بھروسہ تھا . اس نے ان سب اشاروں کی پرواہ نہ کی.

    مہر فیروز سے ٹاکرا

    مرزا نے ان سب اشاروں کی پرواہ نہ کی اور وہاں سے صاحباں سمیت چل دیا. راستہ میں اُسے صاحباں کا چچا مہر فیروز ملا. اُسے کچھ شک ہُوا کہ مرزا کے ساتھ کویُ لڑکی ہے. اس نے مرزا سے پُوچھا ” گھوڑی پر تمہارے ساتھ کون بیٹھا ہے ” مرزا نے اُسے بتایا کہ یہ ایک مراثی لڑکا ہے :

    ایہہ مراثی چھوکرا ماماں، پینڈے پیا ای تھک
    ایہ گوکے مکھّن پالیا، ایدا جھُوہٹے کھاندا لک
    ایہ را ستاریاں دا سنتری، ایہدا ودّھا کن تے نک
    تینوں دلوں یقین نہیں ماماں، میں گل آکھاں سچ
    اگیرے ہو کے ویکھ لے، جے دل وچ گُزری شک

    اردو ترجمہ 

    مامُوں 1 یہ ایک مراثی لڑکا ہے ، راہ چلتے تھک گیا تھا میں نے اسے اپنی گھوڑی پر بٹھا لیا .
    یہ بچپن سے ہی گاےُ کا مکھن کھا کر پلا ہے، اس لیےُ اس کی کمر پتلی ہے.
    یہ راےُ یا را خاندان کے گھر کا چوکیدار ہے، اس لیےُ اس کے کانوں میں جھُمکے اور ناک میں نتھ ہے. ( یعنی خواجہ سرا ہے ).
    مامُوں ! میرا یقین کرو، میں سچ کہہ رہا ہُوں.
    اگر تمہیں کچھ شک ہے کہ میں جھوٹ بول رہا ہُوں تو نزدیک آ کر تسلّی کر لو.

    تشریح : لفظ ” را ” دراصل راےُ یا راؤ کا مخفف ہے جسے شعری ضرورت کے پیش نظر مخفف کر دیا گیا ہے. یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عام لوگ کھرل خاندان کے آدمیوں کو راےُ یا راؤ کہنے کی بجاےُ صرف ” را ” ہی کہتے ہوں.

    مہر فیروز کو مرزا کی بات کا یقین نہیں آتا. وہ نزدیک ہو کر دیکھتا ہے تو اُس پر اصل بات کھُل جاتی ہے. مرزا اور مہر فیروز آپس میں لڑ پڑتے ہیں اور مرزا ، مہر فیروز کو زخمی کر کے دانا آباد کی طرف اپنا سفر جاری رکھتا ہے.

    جنڈ کا درخت

    مرزا نے ساری رات گھوڑی دوڑاتے اپنا سفر جاری رکھا. سورج نکل آیا. اس وقت وہ کھیوا خان کی حدود حکمرانی سے تقریبآ باہر نکل آیا تھا. اُسے یہ بھی گمان تھا کہ کھیوا خان اپنی حدود سے نکل کر اس پر حملہ نہیں کرے گا. چنانچہ اُس نے جنڈ کے ایک درخت کے ساےُ تلے تھوڑی دیر آرام کرنے کا فیصلہ کیا. صاحباں کا اصرار تھا کہ یہاں نہ ٹھہرا جاےُ اور اپنا سفر جاری رکھنا چاہیےُ.
    . اس پر مرزا نے کہا:

    جنڈ جنڈورا بار دا صاحباں، کلّر وچ نشان
    آایتھے جھٹ اک موجاں مانیےُ، جگ وچ رہسی ناں

    اردو ترجمہ

    صاحباں ! اُجاڑ جگہ پر اس جنڈ کے درخت کی چھاؤں تلے ذرا دم لیتے ہیں.
    تھوڑی دیر یہاں بیٹھ کر پیار محبت کی باتیں کریں گے.

    صاحباں کو مرزا کی اس بات سے اتفاق نہ تھا کہ یہاں ٹھہرا جاےُ. وُہ اپنے خاندان اور بھاییُوں کو جانتی تھی کہ وُہ اس واقعہ پر چُپ نہ بیٹھیں گے. اور وُہ ضرور ان کا پیچھا کریں گے. اگر وہ ایک دفعہ یہاں پہنچ گیےُ تو …………. صاحباں اس سے آگے نہ سوچ سکی. اس کا دل ہول گیا. اس نے اپنے اندیشے کا ذکر مرزا سے کیا. مرزا کو اپنی جوانمردی، تیر اندازی اور پکّے نشانے پر ناز تھا. اتفاقآ اس درخت کی ایک شاخ پر ایک طوطا بیٹھا کویُ پھل کھا رہا تھا. مرزا نے صاحباں کا خوف دُور کرنے اور اپنے سچّے نشانے کے ثبُوت کے طور پر اس پھل کا ، جو طوطا کھا رہا تھا، نشانہ لے کر تیر چلایا .

    بھال کے بھیتو کڈھیا مرزے، وڈّا تیر سنجھان
    اُس بھار پبّاں دے ماریا، اُڈیا وانگ طُوفان
    اُس طوطے توں پھاڑی کھوہ لییُ، بچ گیُ طوطے دی جان
    ترے سو کرُو دا فاصلہ ، ڈٹھّا وچ میدان
    صاحباں ویکھ دلیریاں، بیٹھی ہو حیران

    اردو ترجمہ :

    مرزا نے ترکش سے پہچان کر ایک لمبا تیر نکالا.
    اس نے اپنے پنجوں کے بل بیٹھ کر تیر چلایا. جو طوفان کی طرح اپنے نشانے کی طرف بڑھا.
    طوطا جو پھل کھا رہا تھا ، تیر اس پھل کو لگا اور طوطے کو کویُ نقصان نہ پہنچا.
    تیر درخت سے تین سو قدم دُور، پھل سمیت ، میدان میں جا گرا.
    صاحباں مرزے کی اس مہارت پر دنگ رہ گییُ.

    مرزا نے صاحباں کو یقین دلایا کہ وہ اکیلا ہی بہت سارے جوانوں کا مقابلہ کر سکتا ہے. اور یہ کہ صاحباں کو ڈرنے کی ضرورت نہیں. وہ صاحباں کے زانُو پر سر رکھ کر سو گیا.

    آج کی نشست لمبی ہو گییُ ہے. اسے یہاں ختم کرتے ہیں،
    مرزا صاحباں- قصّہ ناکام محبت کا، قسط نمبر 4 کا انتظار فرمایےُ.

    جاری ہے.

  • مرزا صاحباں- قصہ ناکام محبت کا، قسط نمبر 2 –  Story of unsuccessful affection.

    مرزا صاحباں- قصہ ناکام محبت کا، قسط نمبر 2 – Story of unsuccessful affection.

    . مرزا صاحباں – قصّہ ناکام محبت کا،

    Story of unsuccessful affection.
    قسط نمبر 2

    اسلام علیکم ، مرزا صاحباں، قصہ ناکام محبت کا، قسط نمبر 1 میں قصہ کے متعلق  ضروری معلومات دی گییُ تھیں. مرزا صاحباں کی کہانی کو سمجھنے کے لیےُ ان معلومات کا علم میں آنا ضروری ہے. امید کی جاتی ہے کہ آپ نے ان معلومات کو پسند کیا ہو گا. ان معلومات میں اگر کویُ کمی بیشی ہو تو ادارہ کو مطلع کریں. جسے آپ  . پوسٹ کے آخر میں کمنٹس میں لکھ سکتے ہیں. پیشگی شکریہ.

    مرزا صاحباں کے قصّے کی ایک منفرد شان ہے. آپ نے یہ بات محسوس کی ہوگی کہ تقریبآ تمام مشہور رومانی داستانوں میں عورت کا نام پہلے اور مرد کا نام بعد میں آتا ہے. جیسے ہیر رانجھا، لیلے مجنوں، سسی پۃنّوں، سوہنی مہینوال، شیریں فرہاد وغیرہ. لیکن مرزا صاحباں کے قصّے میں مرد کا نام پہلے آتا ہے. یہ گویا اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ مرد کا نام بہر حال پہلے آنا چاہیےُ.

    عنوانات =

    نمبر 1 = صاحباں کی منگنی.
    نمبر 2 = مرزا کی روانگی.

    اب ہم ” مرزا صاحباں، قصہ ناکام محبت کا ” کو وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں پر سلسلہ ٹُوٹا تھا.

    صاحباں کی منگنی.

    مرزا اپنے گاؤں آ چکا تھا. مختلف مشاغل میں مشغول ہونے کے باوجود وہ صاحباں کی یاد کو اپنے دل سے نکال نہ سکا. ادھر صآحباں جوان ہو چکی تھی. صاحباں کی سوتیلی ماں نے صاحباں کے باپ کو راضی کر لیا کہ صاحباں کی شادی جلد کر دی جاے . چنانچہ ساندل بار کے ایک اور مشہور قبیلہ ” چدھڑ ” کے طاہر خان سے صاحباں کی منگنی کر دی گییُ.

    ایک بیٹی ہونے کے ناطے صاحباں اہنے والدین کے آگے کچھ نہ بولی. اور کچھ دنوں کے بعد شادی کی تاریخ مقرر کر دی گییُ، صاحباں نے کمّوں برہمن کو مرزا کے پاس بھیجا تا کہ وہ مرزا کو سارے حالات بتلا آےُ. کمّوں برہمن کے ذریعے دونوں میں یہ طے ہُوا کہ جس رات صاحباں کی بارات آےُ گی، اسی رات مرزا بھی وہاں آےُ گا اور دونوں چوری چھُپے صاحباں کے گاؤں سے بھاگ کر دانا آباد چلے جاییُں گے.

    نمبر 2 = مرزا کی روانگی.

    صاحباں کی شادی کا دن آ گیا. مرزا نے اپنی گھوڑی پر زین کسی. مرزا اس گھوڑی کو ” نیلی ” کہ کر پُکارتا تھا. کیونکہ اس کے رنگ میں ہلکے نیلے رنگ کی آمیزش تھی. گھر سے نکلتے وقت اُس کی ماں نے پُوچھا ” کہاں جا رہے ہو ؟‌” مرزا نے جواب دیا ” صاحباں کو لینے جا رہا ہُوں “. اُس کی ماں کو مرزا اور صاحباں کی محبت کا پتہ تھا. اور وہ اس بارے میں بڑی فکرمند رہتی تھی. چند ہی روز پہلے اس نے ایک خواب دیکھا تھا. وہ مرزا کو نصیحت کرتے ہُوےُ کہتی ہے :

    چڑھدے مرزے خان نوں ، بھٹ وگایا ماں
    کی کرنا ایں مرزا مُنڈیا، پان لگوں کی ناں
    ساڈا ون مُڈھوں پٹ سٹیا، جیہدی وچ ویہڑے دے چھاں
    میرے ہتھّوں گاگر ڈگ پییُ، اوہدی بُگھنیوں تُت گییُ لاں
    میرے سر تے صحنک روٹیاں دی، اُتّوں اُڈ گیا دسترخواں
    الّاں جھراٹاں ماریاں ، اوہ لے چڑھیاں اسمان
    میں ول ول پلُّو پھیر دی، اوہ کر کر ٹُکڑے کھان
    خان کھیوے دیاں ٹاہلیاں، ٹھنڈی اونہاں دی چھاں
    ساڈا شیر بیٹھا چُپ وٹ کے، اونہوں وہر کھلوتی گاں

    اردو ترجمہ =
    مرزا کی ماں اُسے ناراض ہونے لگی .
    لڑکے ! تم اپنے خاندان کو بدنام کرنے پر کیوں تُلے ہو.
    یہ کام کر کے تم گویا اپنے صحن میں لگے درخت کو اُکھاڑ رہے ہو. جس کی چھاؤں تلے ہم بیٹھتے ہیں.
    مین نے خواب میں دیکھا کہ میرے ہاتھ میں پکڑے پانی کے برتن کی رسّی ٹوٹ گییُ اور برتن زمین پر گر پڑا، اور سارا پانی زمین پر بہ گیا.
    میری سر پر روٹیوں سے بھری چنگیر ہے ، جس کا دستر خوان ہوا سے اُڑ گیا. چیلوں نے جھپٹ جھپٹ کر روٹیاں اُٹھا لیں، اور آسمان کی طرف پرواز کر گییُں
    میں اپنے دوپٹّہ کے پلّو انہیں ہٹاتی رہی،وہ ان روٹیوں کے ٹکڑے کر کے کھاتی رہیں.
    (پھر میں نے دیکھا) کھیوے خآن کی زمینوں میں لگے شیشم کے درخت ہیں جن کی چھاؤں بڑی گھنیری ہے.
    ان درختوں کی چھاؤں میں ہمارا شیر چُپ بیٹھا ہے، اور ایک گاےُ اُسے دلیری سے آنکھیں دکھا رہی ہے.

    مرزا کی بہن چھتّی نے مرزا سے پوچھ ” بھایُ کہاں جا رہے ہو ؟ ” اتفاق سے مرزا کی بہن چھتّی کی بارات بھی دوسرے روز آ رہی تھی . چھتّی نے مرزا سے کہا :

    چڑھدے مرزے خان نوں ، چھتّی کرے سوال
    ہٹ کے بیٹھیں مرزیا، گھر وچ کریں صلاح
    پلنگ دے اُتّے بہہ کے ، ہتھّں میرے کاج سنوار
    بھلکے آون دے بھتّی سندل بار دے ، صاحب سندی یار

    اردو ترجمہ:

    مرزا خان کو اس کی بہن چھتّی رُک جانے کا کہہ رہی ہے .
    ہم گھر میں بیٹھ کر صلاح مشورہ کریں گے.
    پلنگ پر بیٹھ کر تم میری شادی کے کپڑوں کے کاج اپنے ہاتھوں سے بنانا.
    کل سندل بار کے بھٹّی میری دولی لے جانے آ رہے ہیں. اس موقع پر تم کہاں جا رہے ہو.

    مرزے کی ماں اُسے مزید سمجھاتی ہے :

    چڑھدے مرزے خان نوں، متّاں دیوے ماں
    بُرے سیالاں دے معاملے، بُری سیالاں دی راہ
    بُریاں سیالاں دیاں عورتاں، جادُو دیندیاں پا
    کڈھ کلیجے کھاندیاں ، میرے سر وچ کھیہہ نہ پا
    رن دی خاطر چلیا ایں، آویں جان گنوا

    اردو ترجمہ :

    جاتے ہُوےُ مرزا کو اُس کی ماں نصیحت کر رہی ہے.
    سیالوں کے معاملات بہت بُرے ہیں، یہ بُرے راستے پر چلتے ہیں.
    سیال عورتیں نُری ہوتی ہیں ، جادو کر کے قبضہ میں کر لیتی ہیں.
    ان کی عورتیں مردوں کا کلیجہ نکال کر کھا جاتی ہیں، میری مانو میرے سر میں خاک نہ ڈالو.
    تُم ایک عورت کی خاطر اپنی جان نہ گنواؤ.

    نوٹ ؛ کہانی کا یہ حصہ شاعر کی اپنی راےُ ہے ، ادارہ اس سے متفق نہیں.

    مرزا کے سر پر عشق کا بھُوت سوار تھا.اُس نے اپنی ماں کی بات نہ مانی اور گھوڑی پر بیٹھ کر چل دیا. تھوڑی دُور چلا تو اُسے اپنا بھایُ سرجا ملا، مرزا نے اُسے بتایا کہ وہ صاحباں کو لینے جا رہا ہے. سرجا بھی اُسے نصیحت کرتا ہے :

    چڑھدے نرزے خان نوں سرجا دیندا مت.
    بھٹ رنّاں دی دوستی، ماری جنہاں دی مت
    ہس ہس کر لانی یاریاں، رو کے دیندیاں دس
    سامنے یار کُہاندیاں، دھون تے دے کے لت
    لکھّیں ہتھ نہ آوندی، عزّت منداں دی پت

    اردو ترجمہ :

    مرزا کو اس کا بھایُ سرجا نصیحت کرتا ہے کہ
    بھاڑ میں جاےُ عورتوں کی دوستی، یہ تو عقل سے پیدل ہوتی ہیں. پہلے تو ہنس ہنس کر پیار جتاتی ہیں، بعد میں روتی ہُویُ کہتی ہیں ، میں مجبُور ہُوں، کچھ کر نہیں سکتی.
    اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے محبُوب کو قتل کرا دیتی ہیں.
    صاحباں کا خیال اپنے دل سے نکال دو، بے عزّت ہو گے، اور گیُ ہُویُ عزّت لاکھوں خرچ کر کے بھی واپس نہیں ملتی.

    مرزا اس کی بات بھی نہیں مانتا. راستے میں اُسے ایک برہمن ملتا ہے یہ برہمن مندروں میں پُوجا پاٹ کے علاوہ نجُوم اور دست شناسی میں بھی کچھ شُد بُد رکھتے تھے. عام لوگ ان سے فال نکلواتے اور قسمت کا حال پُوچھتے تھے. بعض روایات کے مطابق یہ شخص پیلو شاعر تھا. لیکن یہ بات وثُوق سے نہیں کہی جا سکتی. مرزا نے اس سے کہا ” میں ایک کام سے جا رہا ہُوں، حساب لگا کر بتاؤ کہ میں اس میں کامیاب ہوُں گا یا نہیں . برہمن نے اُسے اشاروں کناؤں میں بتایا :

    کانجن بدّھا تکلا، تکلا بدھّا تیر
    لٹھ پلانا میلیا ، کرڑے گھت زنجیر
    کمیاں مُڈھ دھتُوریاں جیوں بادشاہ مُڈھ وزیر
    کُتّا ہٹ ہٹ کر رہیا، جویں در وچ کھڑا فقیر
    ٹنڈاں کیرم کیریاں، بھر بھر ڈوہلن نیر

    اردو ترجمہ:

    کانجن کو تیر نے چھید ڈالا.
    لٹھ اور ڈھول ایسے بندھے ہیں جیسے زنجیر سے جکڑے ہوں.
    ڈھول کے ساتھ دھتوریاں ( دندانے ) ایسے اکٹھے رہتے ہیں جیسے بادشاھ اور وزیر اکٹھے رہتے ہیں.
    کُتّا ہٹ ہٹ کر رہا ہے جیسے دروازہ پر کویُ فقیر کھڑا ہے.
    رہٹ کی ٹنڈیں چکر میں بندھی ہُویُ اپنے اندر پانی بھر بھر کر لاتی ہیں اور اُنڈیل دیتی ہیں اور پانی لانے کے لیےُ پھر نیچے چلی جاتی ہیں.

    یہاں واقعے کی نسبت سے صرف پانچ مصرعے درج کیےُ ہیں اصل میں یہاں بہت سے مصرعے ہیں جو یہ ہیں؛

    چنّے آمنے سامنے ، کانجن سدھّی تیر
    کانجن نوں وہن گیا مکڑا، مکڑے نوں وھن گیا تیر
    بھرونّی وچاری کی کرے، جیہدی دُھنّی تے وہندا تیر
    ڈھگیاں گل ہل پنجالی، جیوں شیراں گل زنجیر
    ڈھول تے چکلی انج ملدے، جیوں بھیناں نوں ملدے ویر
    کُتّا ہٹ ہٹ کر رہیا جیوں در وچ کھڑا فقیر
    لتھ تے پڑانا انج ملدے ، جیوں کُڑیاں وچ کھیڈے ہیر
    گاہدی والا انج بیٹھا، جیوں بیٹھا تخت امیر
    ٹنڈاں کرم کیریاں ، بھر بھر ڈوہلن نیر
    پاڑچھا پانی انج جھپدا، جیوں بہمن جھپدا کھیر
    نسار پانی انج چھکدی، جیوں نکّو چھُتّے نکیر
    آڈاں ڈنگ پھڑنگیاں ، پانی سدھّا تیر
    پانی والا انج پھردا، جیوں در در پھرے فقیر

    اردو ترجمہ :

    چنّے آمنے سامنے کھڑے ہیں . ان پر کانجن تیر کی طرح سیدھی رکھی ہُویُ ہے.
    کانجن میں مکڑے کی طرح سوراخ ہے، جس میں سے تیر نکلا ہُوا ہے. ( کانجن کے درمیان میں سوراخ کر کے تقریبآ 5 فُٹ لمبی لکڑی ڈالی جاتی ہے جو ایک طرف سے موٹی ہوتی ہے، جس میں سُوراخ کرکے ڈھول سے جُڑا ہُوا تیر آرپار کیا جاتا ہے. اس 5 فٹ لمبی لکڑی کی شکل مکڑے جیسی ہونے کی وجہ سے اسے مکڑا کہتے ہیں. )
    بھرونّی بیچاری کیا کرے جس کی ناف پر تیر چلتا رہتا ہے. ( ڈھول اور تیر کا وزن وزن سہارنے کے لیےُ ایک مضبوط اور موٹی لکڑی رکھی جاتی ہے ، اسے ” بھرونّی ” کہتے ہیں . تیر کو اپنی جگہ پر قایُم رکھنے کے لیےُ بھرونّی میں ایک چھوٹا سا گڑھا بنایا جاتا ہے جو اُوپر سے کھُلا اور اور نیچے سے تنگ ہوتا ہے . تیر کا مخرُوطی سرا اس میں پھنسا دیا جاتا ہے. ناف کی شکل والے اس گڑھے کو ” چُوتھی ” کہتے ہیں ) .

    بیلوں کے گلے میں ” پنجالی ” ہے جیسے شیر کے گلے میں پٹا اور زنجیر ہو.
    ڈھول اور چکلی آپس میں اس طرح ملتے ہیں جیسے بھایُ اپنی بہنوں سے مل رہے ہوں.
    رہٹ کا کُتّا ہٹ ہٹ کی آواز پیدا کر رہا ہے ، جیسے دروازے پر کھڑے فقیر کو ہٹ جانے کا کہا جا رہا ہو.
    لٹھ اور پڑانا، جیسے سہیلیوں میں ہیر کھیل رہی ہو.
    گاہدی پر بیٹھا آدمی ، تخت پر بیٹھا امیر لگتا ہے.
    پانی سے بھری ٹنڈیں پانی ایسے اُنڈیل رہی ہیں جیسے آنکھوں سے چھم چھم آنسُو بہ رہے ہوں.
    پاڑچھا پانی کو مُنہ میں اس طرح لیتا ہے جیسے کویُ برہمن منہ بھر کر کھیر کھا رہا ہو.
    نسار میں پانی اس طرح بہتا ہے جیسے ناک سے نکسیر پھوٹنے پر خُون بہتا ہے.
    آڈیں ٹیڑھی میڑھی ہیں ، لیکن ان میں بہنے والا پانی تیر کی ظرح سیدھا ہے.( کنویُیں کے پانی کی گزرگاہ کو ” آڈ ” کہتے ہیں ) .
    کھیتوں کو پانی لگانے والا کبھی ادھر جاتا ہے، کبھی اُدھر. جیسے مانگنے والا فقیر ہر گھر کے دروازے پر جاتا ہے.

    مندرجہ بالا اشعار کو سمجھنے کے لیےُ کیویُں اور رہٹ کی بناوت کو مد نظر رکھیےُ.
    رہٹ میں تقریبآ 10 فُٹ اونچی اور 10 فٹ لمبی دو دیواریں بنایُ جاتی ہیں ، جن کا درمیانی فاصلہ تقریبآ 30 فت ہوتا ہے. ان دیواروں کو ” چنّا ” کہتے ہیں.
    ان دیواروں کے اُوپر درمیان میں ایک مضبوط اور موٹی لکڑی ( عمومآ شیشم ) رکھی جاتی ہے، اسے ” کانجن ” کہتے ہیں. کانجن کے درمیان میں گول سوراخ کر لیا جاتا ہے .
    ایک مضبوط 10 فت لمبی لکڑی کے اوپر والا ھصہ گول، درمیان میں چوکور اور نیچے والا حصّہ مخروطی ہوتا ہی اسے ” تیر ” کہتے ہیں.
    6 سے 8 فٹ قطر کا ایک گول پہیّہ جس کی موتای 3 سے 4 فٹ ہوتی ہے ، اسے ” ڈھول ” کہتے ہیں.
    ڈھول کے چاروں طرف 4 سے 4 – 6 انچ کے مستطیل سوراخ ہوتے ہیں. جن میں ” چکلی ” کے دندانے پھنستے ہیں.
    ڈھول کے درمیان ایک چوکور سوراخ میں سے تیر کو اس طرح گزارا جاتا ہے کہ ڈھول زمین پر نہیں گرتا. اس کے ساتھ ایک گول پہیّہ ہوتا ہے جس کے ایک طرف 6 – 8 انچ لمبے اور تقریبآ 3-4 انچ موٹے دندانے ہوتے ہیں. جنہیں دھتُوریاں کہتے ہیں. اس گول پہیّہ اور دھتُوریوں کے مجموعہ کو ” چکلی ” کہتے ہیں. یہ دھتوریاں ڈھول میں بنے سوراخوں میں پھنستی ہیں. یہ چکلی اس طرح رکھی جاتی ہے کہ اس کا نصف حصّہ زمین کے اندر ہوتا ہے. اور اس کے دندانے ڈھول میں بنے سوراخوں میں بآسانی داخل اور نکل سکیں.
    اس چکلی کے درمیاں گول، مضبوط اور لمبی لکڑی ہوتی ہے جسے ” لٹھ ” کہتے ہیں. یہ لٹھ کنؤیں کے اوپر بنے ہُوےُ پہییُے ، جسے ” بیڑ ” کہتے ہیں، کے ساتھ جُڑی ہوتی ہے.
    بڑے ڈھول اور تیر کے ساتھ ایک چوکور لمبی لکری باندھی جاتی ہے، جس کے آخری سرے پر بیٹھنے کے لیےُ جگہ بنایُ جاتی ہے. اسے ” گادھی ” کہتے ہیں. اس گادھی کے آگے بیل جوتتے ہیں.
    گادھی چونکہ ڈھول کے ساتھ بندھی ہوتی ہے ، بیلوں کے چلنے سے گادھی کے ساتھ بندھا ہُوا ڈھول گھومتا ہے، ڈھول کے سوراخوں میں چکلی کے دندانے داخل ہوتے ہیں اور ڈھول کے ساتھ چکلی بھئی گھُومتی ہے، جو کنویُیں کے بیڑ کو چلاتی ہے
    بیڑ کے اوپر ” ماہل ” چلتی ہے جس کے ساتھ ” ٹنڈیں ” ( مٹّی سے بنے اور پکاےُ ہوےُ ڈول ) بندھی ہوتی ہیں جو رہٹ کے چلنے پر کنویُیں سے پانی لاتی ہیں اور اُوپر آ کر ناند میں اُنڈیل دیتی ہیں.
    چکلی کے ساتھ زمینی سطح کے برابر انگریزی ہندسے 4 کی طرح کی ایک روک لگایُ جاتی ہے اُسے ” کُتّا ” کہتے ہیں. یہ رہٹ کو اُلٹا پھرنے سے روکتا ہے.

    سارے ماحول کو مدنظر رکھتے ہُوےُ اس تنبیہ کو دیکھیےُ جو برہمن یا پیلو شاعر نے مرزا کو ڈھکے چھپے الفاظ میں دی. اس نے مرزا کو صاف الفاظ میں تو نہ کہا کہ تمہاری موت تمہیں وہاں لے جا رہی ہے اور صاف کہ دیا کہ ” ٹنڈاں کرم کیریاں بھر بھر ڈوہلن نیر ” .

    بعض لوگوں کو ان اشعار میں ہندوؤں کے مسُلہ تناسخ کا فلسفہ نظر آتا ہے. وہ پہلے چار اشعار کو دُنیا، رشتہ داروں اور دنیا کے دیگر ہنگاموں سے تشبیہ دیتے ہیں. اور آخری پانچویں شعر سے یہ مراد لیتے ہیں کہ انسان دنیا میں آتا ہے ، اپنی عُمر گزارتا ہے اور سب کچھ چھوڑ کر مر جاتا ہے. اور دوبارہ جنم لے کر دنیا میں آتا ہے. جس طرح ٹنڈیں اپنا سارا پانی ناند میں گرا کر گویا مۃردہ ہو کر کنوییں میں چلی جاتی ہیں اور وہاں سے پانی لے کر یا دوسرے لفظوں میں دوبارہ جنم لے کر اُوپر آتی ہیں اور اپنا پانی گرا کر پھر کنویُں میں چلی جاتی ہیں اور اس طرح یہ چکّر چلتا رہتا ہے.

    مرزا صاحباں، قصّہ ناکام محبت کا، قسط نمبر 2 کو یہاں ختم کرتے ہیں. قسط نمبر 3 کا انتظار فرمایےُ.

    جاری ہے.

  • مرزا صاحباں – قصّہ ناکام محبت کا.  قسط نمبر 1 – Story of unsuccessful Affection

    مرزا صاحباں – قصّہ ناکام محبت کا. قسط نمبر 1 – Story of unsuccessful Affection

    مرزا صاحباں – قصّہ ناکام محبت کا. قسط نمبر 1
    Story of unsuccessful Affection

    عنوانات :

    نمبر 1 = تعارف
    نمبر 2 = مرزا جٹ کی پیدایُش اور بچپن.
    نمبر 3 = صاحباں کی پیدایُش اور بچپن.
    نمبر 4 = جوانی دیوانی

    نمبر 1 = تعارف

    مرزا صاحباں – قصہ ناکام محبت کا   , کو پوری طرح سنجھنے کے لیےُ درج ذیل معلومات ضروری ہیں.

    صوبہ پنجاب میں دریاےُ چناب کے دایُیں طرف کا علاقہ ” چج دوآبہ ” کہلاتا ہے. دریاےُ چناب کا شروع کا حرف ” چ ” اور دریاےُ جہلم کا شروع کا حرف ” ج ” دونوں مل کر ” چج ” کا لفظ بنا تے ہیں.
    دریاےُ چناب کے دایُیں طرف دریاےُ جہلم بہتا ہے. اور بایُیں طرف دریاےُ راوی بہتا ہے. دریاےُ چناب اور دریاےُ راوی کے درمیانی علاقے کو ” رچنا دوآبہ ” کہتے ہیں، لفظ رچنا دریاےُ راوی کا پہلا  اور دریاےُ چناب کے ابتدایُ تین حروف سے مل کر بنا ہے.

    رچنا دوآبہ کے ایک علاقے کو ” ساندل با ر” کہا جاتا ہے. یہ علاقہ شرقآ غربآ 80 کلو میٹر لمبا اور شمالآ جنوبآ 40 کلو میٹر چوڑا ہے. اسے پنجاب کے ایک ہیرو دُلّا بھٹّی کے دادا ” ساندل ” کے نام پر ساندل بار کہا جاتا ہے. ساندل اسی علاقے کا رہنے والا تھا. شروع میں ساندل بار کا تمام علاقہ ضلع جھنگ میں شامل تھا. اب یہ فیصل آباد، جھنگ، کمالیہ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے اضلاع پر مشتمل ایک علاقہ ہے.

    ساندل بار کے علاقے میں درجنوں پنجابی قبایُل آباد ہیں. ان کی زبان اور ثقافت تقریبآ ایک جیسی ہے. ان کی آپس میں رشتہ داریاں بھی ہیں. اسی ساندل بار کے علاقہ کا ایک راجپوت قبیلہ ” کھرل ” ہے. کھرل اپنے آپ کو اگنی وشی پنہور کی اولاد بتاتے ہیں. ( نام میں تھوڑا بہت فرق ہو سکتا ہے. اگر یہ نام غلط ہے تو ادارہ معذرت خواہ ہے. براہ کرم ادارہ کو صحیح نام سے مطلع فرمایُیں. پیشگی شکریہ. )

    اس کہانی کے مرکزی کردار ” مرزا جٹ ” کا تعلق اسی کھرل قبیلے سے ہے.

    کھرلوں کا دعوے ہے کہ ان کا جد امجد مہا بھارت ( ہندوؤں کی مشہور رزمیہ داستان ) کا مرکزی کردار راجا کرن ہے. جو انگہ ( موجودہ بھاگل پُور ) کا بادشاہ تھا. اس کرن کا ایک جانشین 13ویں عیسوی صدی میں اپنے بیٹے کھرل کے ہمراہ اُچ شریف آیا اور مخدُوم جھانیاں شاہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا. یہاں سے کھرل دریاےُ راوی کے کنارے پھیل گیےُ . اب وہ ضلع وہاڑی، فیصل آباد، ساہی وال، حافظ آباد، اوکاڑہ، ننکانہ صاحب، شیخوپورہ، گوجرانوالا، بہاول نگر اور چشتیاں میں آباد ہیں.

    کھرل شروع میں خانہ بدوش تھے. چودہویں صدی میں کمال خاں نے ایک قدیم قصبے کو آباد کیا . اسے اب کمالیہ کہتے ہیں. کمالیہ اور اس کے ارد گرد کھرلوں کے پڑوسی ” سیال قبیلہ ” کے لوگ تھے. جن کا آبایُ وطن جھنگ سیال ہے. کھرل اور سیالوں نے مخصوص علاقوں میں آباد ہو کر اپنی اہنی ریاستیں قایُم کر لیں.

    محققیں سیال قبیلے کو نو مسلم قبایُل میں شمار کرتے ہیں. سیال اُس وقت مسلمان ہُوےُ جب پنجاب میں اسلام کو آےُ ہُوےُ کچھ عرصہ گزر چکا تھا.

    سیال قبیلہ جاٹ برادری کی ایک ذیلی شاخ ہے. اس طرح سیال سکھوں اور عیسایُیوں میں بھی پاےُ جاتے ہیں. بلوچستان کے اضلاع جعفر آباد، نصیر آباد اور بولان میں بھی سیال آباد ہیں. بلوچستان کا ” رند ” قبیلہ بلوچی زبان بولتا ہے. سیالوں نے اپنے مخالف قبایُل سے جنگ کی اور ساندل بار کے علاوہ چج دوآبہ کے ایک بڑے حصّے پر قبضہ کر لیا.
    مرزا صاحباں کی داستان کی مرکزی کردار صاحباں انہی سیالوں کی بیٹی تھی.

    مرزا صاحباں کا قصّہ پنجابی زبان میں 30 سے زیادہ شاعروں نے لکھا ہے لیکن کسی شاعر نے نہیں لکھا کہ یہ قصّہ کس زمانے کا ہے. نعض لوگ یہ مانتے ہیں کہ مرزا صاحباں کا قصّہ ایک شاعر ” پیلو ” نامی شاعرکا لکھا ہُؤا ہے. مگر پیلو کے متعلق کچھ پتہ نہیں کہ وہ کس زمانے میں حیات تھا. سکھوں کے پانچویں گرو ارجن دیو کے زمانے میں ایک پیلو نامی شاعر تھا ، مگر وہ ہندُو تھا. اندازہ ہے کہ مرزا صاحباں کا وجود لودھیوں کے آخری عہد یا مغلوں کے ابتدایُ زمانے کا ہے. یہ عرصہ 1520 عیسوی سے 1540 عیسوی کا درمیانی عرصہ بنتا ہے. بعض محققّین نے اسے مغل بادشاہ اکبر کے زمانہ 1556 عیسوی سے 1605 عیسوی تک کے درمیانی عرصہ کی ایک سچّی کہانی قرار دیا ہے.

      سن 1884 عیسوی میں میں ایک انگریز مستر آر سی کیمپل نے اسے اپنی انگریزی کتاب ” د ی  لیجنڈ آف پنجاب ” میں اس قصے کو نقل کیا تھا . مگر یہاں کہانی جگہ جگہ سے ٹوٹتی ہے.

    نمبر 2 = مرزا جٹ کی پیدایُش اور بچپن

    مرزا کا تعلق کھرل قبیلہ سے تھا. جس کی حکمرانی دریاےۃ راوی کے دایُیں کنارے پر تسلیم کی جاتی تھی . موجودہ تحصیل جڑانوالا کا گاؤں ” دانا آباد ” مرزا کی جاےُ پیدانش تھی. مرزا کے باپ کا نام راےُ ونجل تھا. ماں کا نام فتح بی بی تھا. بعض لوگ مرزے کی ماں کو صاحباں کے باپ خان کھیوہ کی رضایُ بہن کہتے ہیں- واللہ عالم.

    مرزا کا باپ مرزا کے بچپن میں ہی فوت ہو گیا. مرزا کو بچپن میں ہی اُس زمانے کے رواج کے مطابق پڑھنے کے لیےُ اس کے ماموں کے پاس بھیج دیا گیا. جہاں وہ اور صاحباں ایک ہی مسجد میں اکٹھے پڑھنے لگے.

    نمبر 3 = صاحباں کی پیدایُش اور لڑکپن.

    موجودہ جھنگ – چنیوٹ روڈ پر جھنگ سے آٹھ دس میل کے فاصلہ پر ” کھیوا ” نام کا ایک گاؤں آباد ہے. اس زمانے میں یہ کافی بڑا قصبہ تھا .اس قصبہ کا حاکم ، قبیلے کا سردار خان کھیوا کہلاتا تھا. جس کا تعلق ماہنی سیال قبیلے سے تھا. صاحباں اسی خان کھیوا کی بیٹی تھا. صاحباں کی پیدایُش پر بڑا جشن منایا گیا.

    گھر کھیوے دے صاحباں، جمّی منگل وار
    ڈُوم سوہلے گاؤندے ، خان کھیوے دے بار

    اردو ترجمہ = کھیوے خان کے ہاں صاحباں منگل وار کو پیدا ہُویُ.
    مراثیوں نے خان کھیوے کی تعریفوں کے پُل باندھ دیُے.

    صاحباں کا لڑکپن کھیوا کی گلیوں میں کھیلتے گُزرا. ذرا بڑی ہُویُ تو رواج کے مطابق پڑھنے کے لیےُ مرزا کے ہمراہ کھیوا کی مسجد میں جانے لگی. یہیں سے دونوں کے دلوں میں پیار نے ڈیرہ جمانے شروع کیےُ. ایک دفعہ سبق یاد نہ کرنے پرقاضی صاحب نے دونوں کو اپنی چھمک سے مارا تو صاحباں نے کہا

    نہ مار قاضی چھمکاں، نہ دے تتّی نوں تا
    پڑھنا ساڈا رہ گیا، لے آےُ عشق لکھا

    اردو ترجمہ = قاضی صاحب ! ہمیں چھمکوں سے نہ مارو، نہ غصّہ دلاؤ
    ہماری پڑھایُ تو پیچھے رہ گیُ، ہم تو قسمت میں عشق لکھا کر آےُ
    ہیں.

    قاضی صاحب نے پہچان لیا کہ دونوں کے دلوں پر پیار کا تیر چل چُکا ہے اور اب یہ مزید نہیں پڑھ سکیں گے. ان کے سمجھانے پر خان کھیوا نے دونوں کو مسجد کے مدرسے سے اُتھا لیا. مرزا کو اُس کے اپنے گاؤں بھیج دیا.

    نمبر 4 = جوانی دیوانی

    مرزا واپس اپنے گاؤں آ گیا. دن رات صاحباں کی یاد میں ڈُوبا رہنے لگا. کچھ عرصہ بعد خُود کو سمجھایا اور اس زمانہ کے سرداروں کی طرح گھُڑ سواری، نیزہ بازی خصوصآ تیر اندازی میں مہارت حاصل کر لی. انہی مشاغل میں مشغول ہونے کے باوجود صاحباں کی یاد کو اپنے دل سے بھُلا نہ سکا.

    صاحباں جوان ہو چکی تھی. اس کے حُسن بے مثال کے چرچے چاروں طرف پھیل گیےُ . مرزا اور صاحباں کا رشتہ ہو سکتا تھا ، لیکن صاحباں کی سوتیلی ماں آڑے آ گییُ.

    صاحباں مرزے کے عشق میں دیوانی تھی. وہ پیروں فقیروں کے مزاروں پر جا کر دُعایُیں مانگنے لگی . مشہور ولی شاھ مقیم کے حُجرے پر جا کر دُعا مانگی :

    حُجرہ شاہ مقیم دے اک جٹّی عرض کرے
    بکرا دیواں میں پیر دا، جے میری عرض سُنے
    کُتّی مرے فقیر دی، جیہڑی چوں چوں نت کرے
    ہٹّی سڑے کراڑ دی، جتھّے دیوا نت بلے
    پنج ست مرن گواڈھناں ، رہندیاں نوں تاپ چڑھے
    سُنجیاں ہو جاہن گلیاں، تے وچ مرزا یا پھرے

    اردو ترجمہ: شاہ مقیم کے حُجرے پر جا کر ایک جٹّی ( صاحباں) نے عرض کی.
    اگر میری مراد بر آےُ تو میں مرشد کے حضور ایک بکرا نذر کروُں گی. ّ
    عرض یہ ہے کہ گاؤں سے تھوڑی دۃور ایک فقیر کی جھُگّی ہے . جس میں موجود ایک کتّی ساری رات بھونک بھونک کر سب کو جگاےُ رکھتی ہے. دُعا کریں وہ مر جاےُ اور لوگ آرام سے سوےُ رہیں.
    گاؤں مین موجُود ہندُو کی دُکان ( جہاں ساری رات دیا جلتا رہتا ہے ) کو آگ لگ جاےُ. دیا بجھ جاےُ اور اندھیرے میں مرزا کو کویُ پہچان نہ سکے.
    اڑوس پڑوس کی پانچ سات پڑوسن مر جایُں ، باقی رہ جانے والیوں کو بُخار چڑھ جاےُ. ارد گرد سب خاموشی ہو جاےُ.
    گاؤں کی ساری گلیان سُنساں ہو جاییُں اور ان میں مرزا بے خوف و خطر پھرے.

    ایسا لگتا ہے کہ یہ دُعا اصل قصّے میں شامل نہیں تھی. اسے کسی مسخرے نے بعد میں اس قصّے میں گھسیڑ دیا.

    مرزا صاحباں – قصّہ ناکام محبت کا ، کی پہلی قسظ یہاں پر ختم ہوتی ہے، قسط نمبر 2 کا آںٹطآر فرمایےُ.

    جاری ہے.

  • پنجابی لوک گیت  ماہیا – Mahia –  قسط نمبر 3

    پنجابی لوک گیت ماہیا – Mahia – قسط نمبر 3

    پنجابی لوک گیت ماہیا – Mahia –
    قسط نمبر 3

     ماہیا کی تیسری قسم میں چار مصرعے ہوتے ہیں. پہلے دو مصرعے ہم قافیہ اور ہم ردیف ہوتے ہیں. اور بعض اوقات دونوں ٹکڑوں کا موضوع ایک ہی ہوتا ہے. جو ماہیا کا لطف دو بالا کرنے میں مدد گار بن جاتے ہیں. تیسرے اور چوتھے مّصرعے کا ہم وزن ہونا ضروری ہوتا ہے. پہلے دو اور آخری دو مصرعوں کا ہم قافیہ ہونا ضروری نہیں. اگر ہو جاییُں تو واہ. چارون ٹکڑے مل کر اردو زبان کی رُباعی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں. آصل مطلب یا زور ماہیا کے آخری ٹُکڑے میں ہوتا ہے. اس آخری ٹکڑے میں جیسے تمام موضوع کو سمیٹ لیا جاتا ہے. ماہیا کی یہ تیسری قسم آج کل زیادہ مقبول ہے کیونکہ اس کے ساتھ مدہم آواز میں ڈھولک یا طبلے کی تھاپ سماں باندھ دیتی ہے.
    پنجابی لوک گیت ماہیا قسط نمبر 2  پڑھنے کے لیےُ اس لنک پر کلک کریں.
    تیسری قسم کے ماہیےُ کی کچھ مثالیں یہ ہیں :

    ماہیا نمبر 1

    لگا جانا این سرکے سرکے وے
    تیرے پلّے دوانی کھڑکے وے
    اُڈ ونج طوطا خبراں لیا دے لمّے دیاں
    کھلی اُڈیکاں تاہنگاں تیرے دمّے دیاں
    اردو ترجمہ: تم سڑک پر جا رہے ہو
    تمہاری جیب میں دونّی کھڑک رہی ہے.
    اے طوطے! اُڑو اور دُور دیس کے باسیوں کی کچھ خبر لاؤ.
    میں تمہارے انتظار میں کھڑی ہُوں. تمہیں دیکھنے اور ملنے کی شدید خواہش ہے.

    ایوب خان کے زمانے سے پہلے ایک روپیہ میں سولہ آنے ہوتے تھے، دو آنے کے سکّے کو ” دوانی ” کہتے تھے.‌

    ماہیا نمبر 2
    میں ایتھے تے ماہی میرا بھیرے
    سڑ گیاں ہڈیاں سُک گیےُ بیرے
    کلا ہلا درزی کویُ چولے نوں لا گھیرا
    آ بوہ سامنے، لگّے ٹھکانے رُوح میرا
    اردو ترجمہ: میں یہاں ہُوں اور میرا محبوب بھیرہ میں رہ رہا ہے.
    جُدایُ میں ہڈیاں تک جل گییُ ہیں اور سارا جسم سُوکھ گیا ہے.
    اے درزی ! تم مشین سے میرے کرتے کے گھیر کو درست کر دو.
    میرے محبوب ! میرے سامنے آ ؤ ، تا کہ میری رُوح کو آرام ملے.

    ماہیا نمبر 3

    میں ایتھے تے ماہی میرا دھُنّی وے
    ماریا کُوڑ تے سچ کر منّی وے
    جھلّی دیا وے ڈھولا، اک کھکھڑی دا بیں پولا
    ہاےُ میری توبہ، اک واری رُٹھّا منیں ڈھولا
    اردو ترجمہ: میں یہاں ہُوں اور میرا محبوب ڈھُنّی میں ہے ( دھُنّی تحصیل پھالیہ، ضلع منڈی بہاؤلدین کا ایک گاؤں ہے )
    میں نے تو وہ باٹ جھُوٹ مُوٹ میں کہی تھی، تم نے سچ مان لیا.
    میرے محبوب ! ایک دفعہ مان جاؤ، آیُندہ کے لیےُ میری توبہ، ایسی بات کبھی نہیں کہوں گی.

    ماہیا نمبر 4

    میں ایتھے تے ماہی میرا کھایُ وے
    نکی ساری بدلی جھڑ کر آیُ وے
    منڈی دی گُجری دُدھ پییُ پیوے گلاسے نال
    مندا نہ تھیویں، اساں گل کیتی آ ہاسے نال
    اردو ترجمہ : میں یہاں ہُوں اور میرا محبوب موضع کھایُ میں رہ رہا ہے.
    بادل کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے نے سایہ کر رکھا ہے.
    منڈی کی گُجری گلاس میں دُودھ پی رہی ہے. (گھر گھر دودھ بیچنے والی عورت کو گُجری کہتے ہیں )
    میری بات سے دل چھوٹا نہ کرنا. میں نے تو یُوں ہی مذاق میں یہ بات کہہ دی تھی.

    ماہیا نمبر 5

    میں ایتھے تے ڈھول سوہاوے وے
    راتیں سُتیاں نیند نہ آوے وے
    رات ڈراوے وے ماہی ، رتّے لال سرہانے نی
    نویاں دے لڑ لگ کے بھُلّے یار پُرانے نی
    اردو ترجمہ ؛ میں یہاں ہُوں اور میرا ساجن موضع سوہاوہ میں رہتا ہے ( موضع سوہاوہ منڈی بہاؤالدین سے کچھ فاصلے پر واقع ہے‌).
    ساجن کے فراق میں رات کو نیند نہیں آتی.
    رات ڈراؤنی لگتی ہے، میرے پاس سُرخ رنگ کے تکیے ہیں.
    نیُ دوستیوں کے خمار میں تُم پُرانے یاروں کو بھُول گیےُ.

    ماہیا نمبر 6

    میں ایتھے تے ڈھولا ساڈا پنڈ وے
    تیرے بُتے وچ ساڈی جند وے
    کُوڑ مرینا ایں اک لاٹو بھیں ویندا
    بُرا وچھوڑا اندر بندے دا کھا ویندا
    اردو ترجمہ ؛؛ میں یہاں ہُوں اور میرا محبوب اپنے گاؤں میں ہے.
    مت بھُولو، میرے جان تمہارے جسم میں ہے،
    جھُوٹ مت بولو، جُدایُ بہت بُری چیز ہے، یہ انسان کو اندر سے بالکل کھوکھلا کر دیتی ہے.

    ماہیا نمبر 7

    بازار کھڈیندا گتکا وے
    لنگھ گیوں کنواریا وقتا وے
    ڈٹھا پرنیواں ، کویُ کُنڈے کڑاہیاں دے
    حُسن کنواریاں دا مندے حال وواہیاں دے
    اردو ترجمہ : بازار میں گتکا کھیلا جا رہا ہے.
    کنوار پنے کا زمانہ بیت گیا.
    پھر شادی کے بعد کا زمانہ بھی دیکھ لیا.
    حُسن تو کنواری لڑکیوں کا ہی ہوتا ہے. شادی کے بعد تو حُسن جیسے اُجڑ جاتا ہے.

    ماہیا نمبر 8

    اسی ایتھے تے ماہی ساڈا پنڈ وے
    دو بُت تے اکّو ساڈی جند وے
    جھلّی دیا وے ڈھولا، کویُ نوبت وگ گییُ آ
    کچ دیاں ہڈیاں ، ٹھوکر ظُلم دی لگ گییُ آ
    اردو ترجمہ: میں ہیاں ہُوں اور میرا ساجن اپنے گاؤں میں ہے.
    بظاہر ہمارے دو علیحدہ علیحدہ جسم ہیں. لیکن جان دونوں کی ایک ہی ہے.
    پگلی کے محبوب! نقارہ بج گیا ہے.میری ہڈیاں کانچ کی طرح نازک تھیں ، جنہیں جُدایُ کی بڑی زبردست ٹھوکر لگی ہے.

    ماہیا نمبر 9

    بازار وکیندی برفی وے
    میری نکیّ ساری رانگلی چرخی وے
    میریا وے ماہیا، کویُ ساگت گھوڑے دی
    دُکھاں دیاں پُونیاں تند پییُ کڈھااں وچھوڑے دی
    اردو ترجمہ : بازار میں برفی فروخت ہو رہی ہے.
    میں اپنے چھوٹے سے رنگیلے چرخے پر سُوت کات رہی ہُوں.
    میرے محبوب ! گھوڑے کی زین کا سامان ہے.
    مین چرخے پر دُکھوں کی رُویُ سے ہجر کے تار نکال رہی ہُوں.

    آخری مصرعہ میں ” دُکھوں کی رُویُ ” نے گیت گانے والی کی ساری کیفیت ، اس کا ماضی، حال، اس کے آنسُو اور اضمحال کو اُجاگر کر دیا ہے

    ماہیا نمبر 10

    بازر وکیندی تختی وے
    سوہنی رن جنے دی سختی وے
    کنجر سدیناں وے کویُ سونے دیان کاتا ں نی
    ذات نہیں رلدی ، دل رلنے دیاں باتاں نی
    اردو ترجمہ : بازار میں تختیاں فروخت ہو رہی ہیں.
    خوبصورت بیوی ، اپنے سے کم خوبصورت خاوند کو بہت ذلیل کرتی ہے.
    روزانہ کا جھگڑا، خاوند “کنجر” مشہور ہو جاتا ہے، سونے کی تاریں ہیں.
    دونوں کی ذات ( قبیلہ) ایک نہیں ہوتی مگر دل ایک ہو جاتے ہیں.

    ماہیا نمبر 11

    میں ایتھے تے ڈھول دھریکیں
    گھُنڈ لاہ کے مُکھ میرا ویکھیں
    کانگ بنیرے دیا کویُ دوہنی دُودھ جوگی
    نہ پرنیساں، بیٹھی رہساں تُدھ جوگی
    اردو ترجمہ : میں یہاں ہُوں، اور میرا محبوب مجھ سے دور موضع دھریکاں میں رہتا ہے. ( موضع دھریکاں ، تحصیل پھالیہ، ضلع منڈی بہاؤالدین کا ایک گاؤں ہے ).
    میں اس انتظار میں ہُوں کہ تم شادی کے بعد میرا گھونگت اُٹھا کر میرا چہرہ دیکھو،
    مُنڈیر پر بیٹھے کوّے!، یہ برتن دُودھ کے لیےُ ہے
    میں تمہارے سوا کسی اور سے شادی نہیں کروں گی، تمہارے لیےُ کنواری بیٹھی رہُوں گی.

    ماہیا نمبر 12

    میں ایتھے تے ڈھول کُنجاہ وے
    میرا سُکیا رہندا ساہ وے
    بابی دیان باغاں وچ کویُ پترا پان دیا
    دلاں دیا کھوٹیا، ڈھولُو مٹھّی زبان دیا
    اردو ترجمہ ؛ میں یہاں رہتی ہُوں اور میرا ساجن موضع کنجاہ میں رہتا ہے. ( کنجاہ ضلع گجرات کا مشہور قصبہ ہے ).
    تمہاری جُدایُ میں میرا سانس اُکھڑا اُکھڑا رہتا ہے.
    بابی کے باغوں میں سے پان کا ایک پتّہ لیا.
    میرے محبوب ! تم زبان کے تو بڑے میٹھے ہو، لیکن تمہارے دل میں کھوٹ ہے.

    ماہیا نمبر 13
    اسی ایتھے تے ڈھولا بھیرے وے

    اُچیاں ماڑیاں تے ڈُوہنگے ویہڑے وے
    کُوڑ مریناں ایں، کویُ کنکاں چُگایُ وتدے
    تیرے پچھّے ڈھولا دل مسکین کھڑایُ وتدے
    اردو ترجمہ: میں یہاں ہُوں اور میرا ماہی بھیرہ میں رہتا ہے. ( بھیرہ ضلع سرگودھا کا مشہور قصبہ ہےجہاں سے لاہور-اسلام آباد موٹروے بھی گزرتی ہے )،
    بھیرہ میں اونچی اونچی عمارتیں ہیں ، جن کے صحن گہرے ہیں.
    تم جھوٹ بول رہے ہو، گندم کی فصل کٹ جانے کے بعد وہاں مویشی چر رہے ہیں.
    میرے محبوب ! تم جانتے ہو کہ ہم تم پر اپنا دل نچھاور کر چُکے ہیں.

    پنجابی لوک گیت ماھیا کی دُنیا اتنی وسیع ہے کہ اسے احاطہ تحریر میں لانا مشکل ہے اوپر دی گییُ ہویُ چند کلیان بطور نمونہ سمجھی جاییُں .

    پنجابی لوک گیتوں کی محفل یہاں پر ختم ہو رہی ہے. اگلی ًمحفل میں پنجابی زبان میں لکھے گیےُ قصّوں پر بات ہو گی.