Wedding Songs; Dholki is an Important instrument to sing.

شادی بیاہ کے گیت- Wedding Songs. قسط نمبر 2

شادی بیاہ کے گیت
Wedding Songs
قسط نمبر 2

شادی بیاہ کے گیت کی قسط نمبر 1 آپ نے پڑھ لی. دوسری قسط حاضر خدمت ہے. ان گیتوں میں ہنسی مذاق کے گیت بھی ملتے ہیں. ایسے گیت صرف اور صرف شادی بیاہ کے موقعوں پر ہی گاےُ جاتے ہیں. اس کے علاوہ انہیں گایا نہیں جاتا.

:عنوانات

– مزاحیہ گیت
– شادی میں کام کرنے والے.
– بارات کی آمد پر گاےُ جانے والے گیت

:مزاحیہ گیت

مزاح سے بھر پُور گیت بھی سُننے میں آتے ہیں. جیسے یہ گیت ہے :

لوک تے پاندے سُرم سلایُاں
میں لپ بھر پاندی سُرم سلایُاں
میں نکّا نہیں سر کھولیا
میرا پیُو قبراں وچّوں بولیا
دانہ پھکّا تُوں ونڈ لے سایاں
رانجھے نے مُندراں پایُیاں

میں چڑھ کوٹھے تے ہسّی
تیری ماں چکڑے وچ پھاہتی
دانہ پھکّا تُوں ونڈ لے سایُیاں
رانجھے نے مُندراں پاییُاں

تیری ماں نے پکایا ساگ وے
میں منگیا تے چٹّا جواب وے
دانہ پھکّا تُوں ونڈ لے سایاں
رانجھے نے مُندراں پاییُاں

میں پیکیوں آندیاں سیویاں
تیری ماں منگیاں نہیں دینیاں
دانہ پھکّا تُوں ونڈ لے سایاں
رانجھے نے مُندراں پاییُاں

میں پیکیوں آیُ چل کے
اگّے بیٹھا موہاٹھاں مل کے
دانہ پھکّا تُوں ونڈ لے سایاں
رانجھے نے مُندراں پاییُاں

:اردو ترجمہ

لوگ تو آنکھوں میں سُرمہ کی ایک آدھ سلایُ ہی لگاتے ہیں.
میری آنکھیں اتنی بڑی ہیں کہ میں ان میں چلّو بھر سُرمہ ڈالتی ہُوں.
میں نے اپنے بال کھول کر انہیں کھُلا چھوڑ دیا
میرے باپ نے قبر سے آواز دی بیٹا! جو کام بھی کرو، اس میں شرم و حیا کو ملحوظ رکھو.
تم اناج کا اپنا حصّہ لے کر الگ ہو جاوُ.
رانجھے نے بھی تو اپنے کانوں میں مُندریں ڈال لی تھیں.( اس مصرع کا باقی مصرعوں سے کویُ تعلق نہیں، صرف شعر کو ہم وزن بنانے کے لیےُ ہے).

میں مکان کی چھت پر گییُ ، تو یہ دیکھ کر میری ہنسی نکل گیُ کہ تمہاری ماں کیچڑ میں پھنسی ہُویُ ہے اور وہ کیچڑ سے باہر نکل نہیں پا رہی.

تمہاری ماں نے سرسوں کا ساگ پکایا
میں نے ساگ مانگا تو اُس نے کورا جواب دیا.

میں اپنے میکے اسے سویاں لایُ ہُوں.
تمہاری ماں نے مانگیں تو میں بھی نہیں دُوں گی.

میں میکے سے پیدل چل کر آیُ.
یہ کیا ! میرے انتظار میں تم مکان کی دہلیز پر بیٹھے ہو.
تم اناج کا اپنا حصّہ لے کر الگ ہو جاؤ،
رانجھے نےبھی کانوں میں مُندریں ڈال لی تھیں.

مندرجہ ذیل گیت بھی اسی طرح کا ہے

میری مُندری دے دے ماہیا
ماہیا وے ڈھول سپاہیا
کیہی تاہنگ دلے نون لایُ آ

ایہہ مُندری میری اٹیاں گٹیاں
ٹھنڈی سڑک تے پھردیاں جٹیاں
سر تے گاگر چایُ آ

ایہہ مُندری میری پیُ پڑوپی
لاہ چھڈ چیرا پا لے ٹوپی
رُت گرمی دی آیُ آ

ایہ مُندری میری اٹڑے پٹڑے
وڈّے صاحب دے مر گیےُ بچڑے
میم مُکانی آیُ آ

ایہہ مُندری میری پییُ بھڑولے
گڈّی کنک تے جم پیےُ چھولے
ہولاں دی رُت آیُ آ

ایہ مُندری میری لے گیا چڑا
لاہور دیاں مہڈیاں، پشور دا کڑا
جالندھروں گُت کرایُ آ

: اردو ترجمہ

تم نے میری جو انگوٹھی چھینی تھی وہ واپس کر دو.
میرے ساجئن ! میرے سپاہی ساجن.
تم نے میرے دل میں محبت کی جوت جگا دی ہے

میری یہ انگوٹھی تو اٹیاں گٹیاں ہے
ٹھنڈی سڑک پر جٹیاں سیر کر رہی ہیں.
ان کے سروں پر پانی سے بھری پیتل کی گاگریں ہیں.

میری انگوٹھی پڑوپی میں پڑی ہے.
اپنے سر سے ریشم سے بنی پگڑی اُتار کر ٹوپی پہن لو
گرمی کا موسم ہے، پگڑی باندھے رکھنے سے سر پر پسینہ آےُ گا.

میری یہ انگوٹھی اٹڑے پٹڑے ہے.
بڑے صاحب کے بچّے فوت ہو گیےُ ہیں.
ایک میم ان کے ہاں تعزیّت کے لیےُ آیُ ہے.

میری یہ انگوٹھی بھڑولے میں پڑی ہے.
گندم کا بیج بویا تھا، قسمت دیکھو، چنے اُگ آےُ.
اب تو ہولوں کا موسم آیا ہے.

میری انگوٹھی چڑیا لے گییُ.
اپنے بال لاہور کے بیوٹی پارلر سے سنوارے ہیں، ہاتھ کا کڑا پشاور سے خریدا ہے.
بالوں کی چوٹی جالندھر سے گندوایُ ہے.

اس گیت میں کچھ خالص پنجابی زبان کے الفاظ ہیں، گیت سے پُوری طرح لطف اندوز ہونے کے لیےُ ان الفاظ کی تشریح ضروری معلوم ہوتی ہے.

ڈھول = پنجابی زبان کے گیتوں میں لفظ ” ڈھول ” کا استعمال عام ہے.اردو زبان میں ساجن، محبوب، پیارا اوردلبر کا ہم معنی ہے.

تاہنگ = اردو زبان کا لفظ ” طلب ” اس کے معنی کے قریب تر ہے.

اٹیاں = کچّے سُوت کا جب گولا سا بنا لیا جاےُ تو اُسے ” اٹّی ” کہتے ہیں.

گاگر = پُختہ متّی کا گھڑا تو آپ نے دیکھا ہوگا، اگر یہی گھڑا پیتل کا بنایا جاےُ تو اُسے گاگر کہیں گے.

پڑوپی = دیہات میں اناج کو ناپنے کا ایک پیمانہ ہوتا ہے جسے ” ٹوپہ ” کہتے ہیں. جو تقریبآ 2 کلو کا ہوتا ہے. توپے کے چوتھے حصّہ کو پڑوپی کہتے ہیں.

چیرا = سر پر باندھنے کی پگڑی عمومآ سفید ململ کی ہوتی ہے. سُوت اور ریشم سے بُنا ہُوا پگڑی کی چوڑایُ میں کپڑے کو “چیرا ” کہلتے ہیں. آج کل اس کا رواج بہت کم ہے. بعض بُوڑھے پٹھانوں کے سر پر یہ کبھی کبھی نظر آ جاتا ہے.

بھڑولا = اناج کو عمومآ سن کی بوریوں میں بھر کر ذخیرہ کیا جاتا ہے. گھروں میں سال بھر کے استعمال کے لیےُ اناج کو بھڑولوں میں رکھا جاتا ہے. آج سے ساٹھ ستّر سال پہلے یہ بھڑولے مٹّی سے بناےُ جاتے تھے. آج کل یہ ٹین سے بناےُ جاتے ہیں. بھڑولا عمومآ 4 فُٹ قطر کا گول اور لمبُوترا ہوتآ ہے. گولایُ اور لمبایُ میں کمی بیشی ہو سکتی ہے. اونچایُ عمومآ 6 فٹ ہوتی ہے. اوپر والے حصّہ کو کھولا اور بند کیا جا سکتا ہے. پیندے والے حصے کے نیچے 4 پاےُ لگاےُ جاتے ہیں. تا کہ یہ زمین سے 4 یا 5 انچ اونچا رہے. کسی ایک طرف پیندے سے 3 انچ اوپر ایک چھوٹا سا دروازہ رکھا جاتا ہے. جسے بند کرنے کے لیےُ ڈھکنا لگا ہوتا ہے. اناج کو بھڑولے کے اوپر والے حصہ سے بھڑولے میں ڈالا جاتا ہے. جسے حسب ضرورت نچلے سوراخ سے نکالا جا سکتاہے.

ہولاں = چنے کی فصل کو جب ابھی سبز ہو، لیکن اس میں دانہ نشو و نما پا چکا ہو، کاٹ لیتے ہیں. شہروں میں اسے ” چھولیا ” کے نام سے بیچا جاتا ہے. یہ سبز چنےکے دانے غذاییُت سے بھر پور ہوتے ہیں. انہیں سالن کی طرح پکا کر کھاتے ہیں. دیہات میں ڈھور ڈنگر چراتے ہوےُ یا کنویُیں پر ہانڈی کون پکاےُ. اس کا حل یہ نکالا گیا کہ آگ جلا کر اس میں سبز چھولیا کا پودا پتوں سمیت ڈال دیتے ہیں. سبز چھولیےُ کو آگ پوری طرح جلا نہیں سکتی. آگ کی گرمی سے چھولیے کے اندر کا دانہ پک کر نرم ہو جاتا ہے. آگ بجھا کر چھولیےُ کے دانے کھا لیےُ جاتے ہیں. آگ میں پکے ہُوےُ چھولی کو ” ہولاں ‘ کہتے ہیں. یہ ایک قوت بخش قدرتی خالص خوراک ہے. جسے بڑے شوق سے کھایا جاتا ہے. یہ الگ بات ہے کہ دانے کو خول سے نکالتے وقت ہاتھ اور مُنہہ تھوڑے سے کالے ہو جاتے ہیں. جنہیں بعد میں پانی سے دھویا جا سکتا ہے.

مُکان = کسی کی فوتیدگی پر لوگ، رشتہ دار تعزیت کے لیے آتے ہیں، اسے ” مُکان ” کہتے ہیں. تفصیل دیکھیےُ “ پنجابی اکھان-ردیف “ک” نمبر 16-7 “.

مہڈیاں = شہروں میں عورتیں اپنے بالوں کو کھُلا رکھتی ہیں. بلکہ اپنے سر کے بالوں کو دوپٹّہ کا نعم البدل سمجھ کر دوپٹّہ اتار دیتی ہیں. دیہات میں ابھی بھی بعض عورتیں کانوں کے اوپر والے بالوں کو رسّی کی طرح گوندھ کر سر کے پچھلے بالوں کے ساتھ ملا لیتی ہیں. ایسے گُندھے ہُوےُ بالوں کو ” مہڈیاں ” کہتے ہیں.

گُت = عورتیں اپنے لمبے بالوں کوپیچھے کی طرف کر کے رسی کی طرح گُوندھ لیتی ہیں. گوندھے ہُوےُ یہ بال کمر کے نیچے تک آ جاتے ہیں. گوندھے ہوےُ ان بالوں کو پنجابی زبان میں ” گُت ” کہتے ہیں . گُت کے متعلق پنجابی زبان کی ایک بولی بہت مشہور ہے، یہ بولی دلچسپ ہونے کے ساتھ کچھ نہ کہتے ہُوےُ بھی بہت کُچھ کہہ جاتی ہے. اسے پڑھبے کے لیےُ ” لوک ورثہ-بولیاں-قسط نمبر4″ وزٹ کیجیےُ.

شادی والے گھر میں یہ گیت شادی والے دن یا بارات کے آنے تک گاےُ جاتے ہیں.

: شادی میں کام کرنے والے

آج سے ساٹھ ستّر سال پہلے جب شادی گھروں کی وبا ابھی پھیلی نہیں تھی.شادی کے سارے انتظامات گاؤں میں ہی کیےُ جاتے تھے. مختلف کام گاؤں کے کمیوں کے ذمہ ہوتے تھے. ان کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے :

درزی = شادی والے دن سے تقریبآ ایک ہفتہ پہلے درزی اپنی مشین لے کر شادی والے گھر آ جاتا تھا. یہاں وہ گھر کے سارے افراد کے نیےُ کپڑے سیتا تھا.

نایُ = نایُ کے ذمہ کھانا پکانا ہوتا تھا. اُسے ساری مطلوبہ اشیا مہیّا کر دی جاتیں. سالن تقسیم کرنا بھی اسی کی ذمہ داری ہوتی تھی.

کمہار = کمہار کے ذمہ روٹیاں پکانے کے لیےُ آٹا گوندھنا ہوتا تھا. کمہار کے پاس پختہ مٹّی کے بنے ہوےُ بڑے بڑے ٹب ہوتے تھے، جنہیں ” کُنال ” کہتے تھے. ان کُنالوں میں بہ یک وقت دو من آٹا گوندھا جا سکتا تھا.

ماچھی = روٹیاں پکانے ، دیگ پکانے کے لیےُ آگ جلانا، آگ کے لیےُ لکڑی تیار رکھنے کے علاوہ پانی مہیا کرنا ماچھی کی ذمہ داری ہوتی تھی.

ترکھان = کھانا اور روٹیاں پکانے کے لیےُ آگ جلانے کی لکڑی کو چھوٹا چھوٹا کر کے دینا ااس کے فرایُض میں شامل تھا.

مصلّی = آگ جلانا اور اسے جلاےُ رکھنا اس کا فرض تھا.

موچی = شادی والے گھر کے افراد کے لیےُ نیےُ جوتے بنانا، خصوصآ دولہا یا دلہن کے لیے سنہری زری والا کھُسّہ بنا کر دینا اس کی ذمہ داری تھی.

دھویُیں والا = مہمانوں کے لیےُ حُقہ تیار کر کے رکھنا ، اور حقوں کے لیےُ آگ ہر وقت تیار رکھنا اس کی ذمہ داری تھی.

مراثی = مہمانوں کو چاےُ، دودھ ، پانی پلانا اس کے فرایُض میں شامل تھا.

امام مسجد = روٹیاں، چاول، حلوہ، کھیر پکا کر ایک کمرے میں رکھ دیےُ جاتے، امام مسجد حسب ضرورتب تقسیم کرتا رہتا.

لوہار = لوہے کی کویُ چیز مرمت طلب ہو تو اس کی مرمت کرنا.

ہر شخص اپنا اپنا کام کرتا یہ گویا امداد باہمی کی ایک عمدہ شکل تھی. شادی کے بعد تمام کمیوں کو ان کے کام کا معاوضہ دیا جاتا، جسے ” لاگ ” کہتے تھے.

آج کل زمانہ ترقی کر گیا ہے. ہر گھر میں سے کویُ نہ کویُ بھایُ یا بیٹا بیرون ملک گیا ہے. وہ وہاں سے ڈھیروں پیسے بھیج رہے ہیں. نیےُ نیےُ عمدہ مکان بن رہے ہیں. گھروں میں موٹر کاریں کھڑی ہیں. اب شادیاں گاؤں میں نہیں ہوتیں، شادی گھروں کی بہتات ہے. کسی بھی شادی گھر میں فی آدمی نرخ طے کر لو، وقت مقررہ پر شادی ہال پہنچ جاوُ . کسی کام کے کرنے کی ضرورت نہیں. پیسہ سنوارے کام. اور رہے نام اللہ کا.

بارات کی آمد پر گاےُ جانے والے گیت

دُولہا کی بارات تیار ہے، باراتی اپنی اپنی گھوڑیوں پر بیٹھے ہیں. ( آج کل گھوڑیوں کی جگہ موٹر کاروں نے لے لی ہے ) بارات دلہن کے گاؤں پہنچتی ہے. وہاں ان کے استقبال کے لیےُ لڑکیاں تیار بیٹھی ہیں. اس موقع پر زبانی مذاق کو فراخ دلی سے سہا جاتا ہے. لڑکیاں مکانوں کے بنیروں پر بیٹھ کر گا رہی ہوتی ہیں. ان گیتوں کو ” سٹھنیاں ” کہتے ہیں :

آن لتھّے ساڈے دوارے وے
کُڑیاں لینے دے مارے وے
آن وڑے سآڈی رڑی تے
کُڑیاں دیندے نے چڑی تے

: اردو ترجمہ

ہمارے دروازے پر آ اُترے ہو.
یہ تم دلہن کو لینے آےُ ہو
ہمارے میدان میں آ اُترے ہو.
تم تو لڑکیاں ضد میں آ کر دے دیتے ہو.

اب لڑکیوں کے دوسرے گروہ کی باری آتی ہے.

نو ویہاں اساں کلّا ٹھکایا
جنج دے نال گھوڑا اک نہ آیا
ماواں ڈھنگایؤ سہی
وے لجیو لج تُہانوں نہیں

لج پایُ اساں اپنےپاڑچھے
دھی دتّی اساں اللہ دے واسطے
پھتّے دی پوش پوش کہی
وے لجیو لج تہانوں نہیں

ادھّی جے راتیں جھکھڑ گھُلیا
پھاتو دا ماں پیُو کاییُں تے بھُلیا
اسی نہ بھُلّے سانوں لیکھاں بھُلایا
بھاییُاں دا میلہ ساڈے بُوہے تے آیا
دھی دتّی اساں میلہ اُٹھایا
میلہ تے موڑنا نہیں
وے لجیو لج تہانوں نہیں

کوری کُنّی وچ ردھّے بٹیرے
لاڑا سُنیدا صاحب دے ڈیرے
چھُتّی تے ملدی نہیں
وے لجیو لج تُہانوں نہیں

کوری کُنّی وچ ردھیاں رہڑکاں
ایس مہاراجے نوں دیہو نہ جھڑکاں
پیُو تے جیوندا نہیں
وے لجیو لج تُہانوں نہیں

کوری کُنّی وچ سریوں دا ساگ اے
ڈٹھّا نی داراں تیرا ویہاج اے
لاڑا تے سوہنا نہیں
وے لجیو لج تہانون نہیں

ساڈی جے روہی وچ بینڈے پیےُ چیکدے
لاڑے دی ماں نوں کُتّے دھریکدے
جانجیاں ہا ہا پایُ
وے لجیو لج تُہانوں نہیں

: اردو ترجمہ

ہم نے باراتیوں کے گھوڑوں کو باندھنے کے لیے 180 کھُونٹے گاڑے.
مگر بارات میں ایک بھی گھوڑا نہ تھا.
باراتیو! ایسا کرو، ان کھونٹوں کے ساتھ تم اپنی اپنی ماں کو باندھ دو.
شرم والو ! تمہیں شرم نہیں آتی.

ہم نے اپنے پرنالے کے ساتھ رسی باندھی.
ہم نے اپنی بیٹی تمہیں خُدا کے نام پر دے دی.
پھتّا ( فتح محمد کا عُرف نام ) تو سفید پوش آدمی ہے.
شرم والو! تمہیں شرم نہیں آتی.

آدھی رات کو زور کی آندھی آیُ.
پھاتو ( فاطمہ کا بگڑا ہُؤا نام. یہ دلہن کا نام ہے) کے ماں باپ نے کیا دیکھا جو رشتہ منظور کر لیا؟
ہم نہیں بھُولے، ہماری قسمت میں یہ بھول لکھی تھی ( ماں باپ کا جواب ).
چار بھاییُوں کا میلا ہمارے گھر آیا تھا.
ہم سے ان بھاییُوں کی ناراضگی سہی نہ جا سکی. ہم نے بیٹی کا رشتہ دے دیا.
بھلا ہم میلا میں آےُ ہُوےُ بھاییُوں سے انکار کیسے کر سکتے تھے.

نیُ ہانڈی میں بٹیرے پکاےُ ہیں.
سُنا ہے دُولہا کسی بڑے صاحب کا نوکر ہے.
اُسے چھُٹّی نہیں ملی.

نیُ ہانڈی میں گُٹھلیآں پکایُ ہیں.
دولہا کو کسی بھی بات پر نہ جھڑکنا.
اس کا باپ زندہ نہیں ہے.

نیُ ہانڈی میں سرسوں کا ساگ پکایا ہے.
سردار بیگم ! ( دلہن کی ماں ) ہم نے دیکھ لیا ہے جو تُم نے اپنی بیٹی کے لیےُ چُنا ہے.
دُولہا تو خوش شکل نہیں ہے.

ہمارے گاؤن کے پاس سے گزرنے والے روہی نالے میں جھینگر شور مچا رہے ہیں.
دولہے کی ماں کو بہت سارے کُتّے گھسیٹ رہے ہیں.
باراتی کُتّوں کو بھگانے کے لیےُ شور مچا رہے ہیں.
شرم والو! تمہیں شرم نہیں آتی.

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ” میلا ” کی تشریح کر دی جاےُ.

جب دو گروہوں یا خاندانوں میں کسی بات پر ناچاقی ہو، اور یہ خدشہ ہو کہ یہ ناچاقی یا رنجش مزید بڑھے گی، تو خاندان یا ارد گرد کے سمجھ دار لوگ اکٹھے ہو کر زیادتی کرنے والے کے گھر جاتے ہیں. اور انہیں یہ رنجش ختم کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں. ان سرکردہ آدمیوں اور رشتہ داروں کے جانے کو” میلا ” کہتے ہیں. یہ وُہ میلا نہیں جیسے     .شاہ چراغ کا میلا یا مادھو لال کا میلا، جس میں ڈھول ڈھمکے بجتے ہیں

آپس کی ناچاقی یا رنجش مٹانے کے علاوہ ایک اور مقصد کے لیےُ بھی میلا کیا جاتا ہے.میلا میں عمومآ خاندان کے بزرگ، بہت قریبی رشتہ دارشامل ہوتے ہیں. ان لوگوں میں    ایک            دو عورتیں بھی شامل کر لی جاتی ہیں، کہ ان کی عزّت زیادہ کی جاتی ہے.  

فرض کریں الف نے اپنے بیٹے کے لیےُ ب سے اس کی بیٹی کا رشتہ مانگا. ب نے بعض وجوہات کی بنا پر انکار کر دیا. الف یہ رشتہ ہر حالت میں لینے کے لیےُ ب کے گھر میلا لے کر جاےُ گا.
میلا کے کچھ اصُول مقرر ہیں:

 میلا میں جانے والے حضرات اس وقت تک نہ کچھ پییُں گے نہ کھاییُں گے جب تک کہ میلا کا کویُ فیصلہ نہیں ہو جاتا.
میلا کا جواب مُثبت ہونے کی شکل میں پانی بھی پییُں گے، اور کھانا بھی کھاییُں گے.
میلا کا جواب نفی کی صورت میں سب لوگ بغیر کھاےُ پیےُ اُٹھ جاییُں گے.
میلا میں باتیں شروع ہو جاییُں اور رنجشیں، شکوے ظاہر کیےُ جاییُں، تو یہ امید کی جا سکتی ہے کہ میلا کا جواب مُثبت میں ہوگا.
اگر الف میلا کرنے والوں کی بات نہ ماننے کا فیصلہ کر چکا ہو، تو وہ نہ کویُ رنجش ظاہر کرے گا نہ کویُ شکوہ کرے گا.
میلا کو نہ میں جواب دیا جا سکتا ہے، اس صورت میں الف کو میلا میں آےُ ہُوےُ تمام لوگوں کے خاندانوں سے بایُکاٹ کے لیےُ تیار رہنا چاہیےُ. ( یہ کافی مشکل ثابت ہوتا ہے ).

بارات تھوڑا سا آگے بڑھتی ہے، لڑکیوں کا دوسرا گروہ تیار ہے ؛

ماں تیری دا سر وے
جیوں چھولیاں دا پڑ وے
ماں تیری دیان ہڈیاں وے
ہواییُاں کتھّے چھڈیاں وے

ماں تیری دے لنگ وے
جیوں بھوری مجھّی دے سنگھ وے
 ماں تیری دے گوڈے وے

انار کتھّے چھوڈے وے
ماں تیری دیاں باہیں وے
جیوں ڈیرے اُتّے پھُلاہیں وے

اردو ترجمہ

تیری ماں کا سر ایسا پہے جیسے وہ جگہ جہاں چنے پودوں سے علیحدہ کیےُ جاتے ہیں. ( چنے کے خُشک پودوں کو ایک جگہ ڈھیر کر دیا جاتا ہے.پھر انہیں لکڑی کے ڈنڈوں سے کُوٹتے ہیں تاکہ چنے الگ ہو جاییُں ، ایسی نجگہ جہاں یہ کام کیا جاےُ اُسے “پڑ ” کہتے ہیں ).
تمہاری ماں کی ہڈیاں، آتش بازی میں چلنے والی ہواییُاں کہاں کہاں چھوڑ آےُ؟
تمہاری ماں کی ٹانگیں ایسی ہیں جیسے بھُورے رنگ کی بھینس کے سینگھ ( جو عمومآ گول چکر کی صورت میں ہوتے ہیں ).
تمہاری ماں کے گھُٹنے، آتش بازی میں چلاےُ جانے والے انار کہاں ہیں ؟
تمہاری ماں کی باہیں، جیسے کسی ڈیرے پر پھُلاہی کے درخت کی ٹہنیاں.

یاد رہے ،ان سب باتوں کا ہدف دُولہا ہوتا ہے.

اب لڑکیوں کے تیسرے گروہ کی باری آتی ہے

ساڈے بُوہے تے مدینہ وے
کیوں دُھکیوں بے یقینا وے
ساڈے بُوہے تے گُجرات وے
کیوں پایُ آ ادھی رات وے
ساڈے بوہے تے کُنجاہ وے
کیوں ٹُریوں ڈنگے راہ وے
لا حول ولا حول وے
نہ کنجریاں نہ ڈھول وے
ہکّی ملّا ہکّی وے
تیری جنج چُپاتی ڈھُکّی وے
پیسہ نہ چھُپایا آہیں
کنجریاں نچایا آہیں
پیسے ٹکے دی ریت نہیں
کنجریاں توفیق نہیں

: اردو ترجمہ

ہمارے گھر کے باہر مدینہ ہے.
بات پر یقین نہ رکھنے والے! تم بارات لے کر کیوں آےُ ؟
ہمارے گھر کے باہر گُجرات ہے.
تم نے آتے آتے آدھی رات کیوں بتا دی ؟
ہمارے گھر کے باہر کُنجاہ کا شہر ہے.
تم نے آنے کے لیےُ ٹیڑھا راستہ کیوں اختیار کیا ؟
لا حول ولا قُوۃ.
تمہاری بارات کے ساتھ نہ ناچنے والی ہیں، اور نہ کویُ ڈھول بجانے والا ہے.
ہکّی بھایُ ہکّی.
تمہاری بارات تو بڑی خاموشی سے آیُ ہے.
روپیہ خرچ کرنے کے لیےُ ہوتا ہے. بارات کے ساتھ ناچنے والیاں لے آتے.
ہمارے ہاں روپیہ یُونہی خرچ کرنے کی روایت نہیں.
ہم میں اتنی توفیق نہیں کہ پیسے دے کر ناچنے والیاں لاتے.

بارات میں اگر کویُ گنجے سر والا نظر آ جاےُ ( جو اکثر نظر آ جاتے ہیں ) تو پھر کیا. اللہ دے اور بندہ لے. فورآ آوازیں آتی ہیں :

گنجیاں نوں نہیں رکھنا پنڈ وچ
ہکے تے گنجیو گنج چھُپاؤ،
ہکے تے وڑ بوہ ٹنڈ وچ
گنجیاں نوں نہیں رکھنا پنڈ وچ

: اردو ترجمہ

ہم گنجے آدمی کو گاؤں میں نہیں رکھیں گے.
یا تو تم اپنا گنج چھُپاؤ.
یا کسی ٹنڈ میں داخل ہو جاؤ.
ہم گنجوں کو گاؤں میں نہیں رکھیں گے.

باراتیوں اور لڑکیوں کی آپس میں نوک جھونک چلتی رہتی ہے. حتّے کی باراتی کھانا کھانے کے لیےُ مقررہ جگہ پر جمع ہو جاتے ہیں. لڑکیاں بدستُور ان کا مذاق اُڑا رہی ہیں .

تھوڑا تھوڑا کھایا اے
گلیاں نہ ترکایا اے
نکّے نکّے ہتھ نے
ماردے گڑپھ نے
نکّے نکّے مُنہ نے
ڈھڈ نے کہ کھُوہ نے
میں ڈر گیُ میرا بھایُ
ہور تے کھاندے پا پڑوپی
پھتّا ( دولہا کا باپ فتح محمد ) کھاندا پایُ

: اردو ترجمہ

باراتیو ! تھوڑا تھوڑا کھانا.
ایسا نہ ہو زیادہ کھانے سے تمہارا پیٹ خراب ہو جاےُ، اور ہمارے گاؤں کی گلیوں میں گندگی پھیلاتے پھرو.
تم لوگوں کے ہاتھ تو چھوٹے چھوٹے ہیں.
لیکن لُقمہ تو بہت بڑے سایُز کا لے رہے ہو.
تمہارے مُنہ تو چھوٹے چھوٹے نظر آتے ہیں.
لیکن تمہارے پیٹ! جیسے کنواں ہو، جسے بھرنے کے لیےُ بہت سا اناج چاہیےُ.
تمہیں نادیدوں کی طرح کھاتے دیکھ کرمیں ڈر ہی گیُٰ.
لوگ تو کویُ ایک چیز ایک پاؤ یا زیادہ سے زیادہ ایک پڑوپی کے برابر کھانا کھا سکتے ہیں.
لیکن پھتّا ( فتح محمد) تو سولہ پڑوپی کے برابر کھانا کھا جاتا ہے.

شادی بیاہ کے موقع پر دولہا اور اس کے والدین کو خاص طور پر مزاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے ، اور اس پر بُرا نہیں منایا جاتا.

آج کل ان گیتوں کی جگہ فلمی گیتوں نے لے لی ہے. شادیاں شادی ہالوں میں ہو رہی ہیں. جہاں اس قسم کے گیت نہیں گاےُ جاتے. ذمانہ ترقی کر گیا ہے .


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *