Category: مجھے سنو

  • میری آواز سُنو – پارلیمانی یا صدارتی طرز حکومت

    میری آواز سُنو – پارلیمانی یا صدارتی طرز حکومت

    میری آواز سُنو.
    پارلیمانی یا صدارتی طرز حکومت.

    ملک عزیز میں آج کل یہ بحث چل نکلی ہے کہ ملک میں صدارتی طرز حکومت ہونی چاہیےُ. یہ شوشہ حکومتی پارٹی کے ارکان کی طرف سے عوام کی توجّہ بڑھتی ہُویُ مہنگایُ ، خراب ملکی حالات ، فروغ پاتے گالی گلوچ کے کلچر اور غیر محفوظ زندگی کے طوفان سے ہٹانے کے لیےُ چھوڑا گیا ہے. اس سے پہلے ہم صدارتی طرز حکومت کا تجربہ کر چکے ہیں. یہ آرٹیکل اسی تناظر میں لکھا گیا ہے .

    عنوانات ::
    نمبر 1 — موجودہ پارلیمانی طرز حکومت –
    نمبر 2 — مجوزہ مجوزہ طرز حکومت.

    یہ کہنا کہ پارلیمانی طرز حکومت ہمارے ملک کے لیےُ اچھا ہے اور صدارتی طرز حکومت اچھا نہیں صحیح نہیں. دونوں طرز حکومت میں اچھایُاں ہیں اور بُراییُاں بھی. در ااصل براییُاں چلانے والوں میں ہوتی ہیں. ہمیں وہ طرز حکومت اپنانا چاہیےُ جو ہمارے ملک کے لیےُ فایُدہ مند ہو.نہ کہ کسی فرد یا ٹولے کے لیےُ.
    پالیمانی طرز حکومت کسی طرح بھی 100 % پرفیکٹ نہیں. ہم اس میں خرابیوں کو دور کر کے اسے قابل عمل بنا سکتے ہیں دونوں طرز حکومت آسمانی صحیفہ نہیں کہ ان میں رد و بدل نہ کیا جا سکے.
    دونوں طرز حکومت میں سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ ” ان میں بندوں کو گنا جاتا ہے، تولا نہیں جاتا ” ایک ان پڑھ اور ایک پی ایچ ڈی پروفیسر دونوں کا ایک ایک ووٹ ہے. اور یہی چیز سوچنے والی ہے.

    موجودہ پارلیمانی طرز حکومت “

    اس وقت ہمارے ملک میں پارلیمانی طرز حکومت ہے. اس میں صوبایُ اسمبلی اور قومی اسمبلی کے ممبران کو عوام چنتے ہیں، اس کے بعد ان کا کام ختم ہو جاتا ہے . انہیں دوبارہ عام انتخابات یا کسی ممبر کی وفات یا کسی وجہ سے نا اہل ہونے کی صورت میں ووٹ دینے ہوتے ہیں.

    صوبایُ اور قومی اسمبلیوں کے ممبران مل کر وزیر اعظم کا انتخاب کرتے ہیں. اس کے علاوہ سینٹ کے ممبران کو قومی اسمبلی میں پارٹی کی بنیاد پر منتخب کیا جاتا ہے. ( یہاں ووٹوں کی خرید و فروخت اب قابل مذمت نہیں سمجھی جاتی)

    ملک کے چاروں صوبایُ اسملیوں کے ممبران، قومی اسمبلی کے ممبران اور سینٹ کے ممبران ملک کے صدر کا انتخاب کرتے ہیں.

    منتخب وزیر اعظم اپنی صواب دید پر صوبوں کے گورنروں کا تقرر کرتا ہے.
    وزیر اعظم اپنے وزراُ کا تقرر کرتا ہے، ( آج کل وزیر اعظم کے وزرا اور مشیروں کی تعدا 53 کے لگ بھگ ہے ).

    صوبوں کے گورنروں کو اپنے وزرا چننے کا قانونآ حق ہے لیکن گورنر اس کے لیےُ وزیر اعظم سے مشورہ ضرور کرتے ہیں.

    موجودہ حالات میں عوام 4 یا 5 سال کی مدت میں صرف ایک دفعہ ہی ووٹ ڈالتے ہیں، باقی چیزوں سے وہ لا تعلق ہو جاتے ہیں .

    پارلیمانی نظام میں ، موجودہ دور کو دیکھتے ہوےُ، ھارس ٹریڈنگ اور کرپشن کی بہت گنجایُش ہے . ہم اسی نظام کے اندر رہتے ہوےُ اسے بہتر بنا سکتے ہیں. جیسے میں نے پہلے کہا ہے کہ پارلیمانی یا صدارتی نظام آسمانی صحیفہ نہیں ہیں. ہم دونوں نظام سے اچھی چیزیں لے کر اپنے ملک کو ترقی یافتہ، خوشحال اور مضبوط بنا سکتے ہیں اس کے لیےُ کچھ تجاویز پیش خدمت ہیں :

    مجوزہ طرز حکومت:

    نمبر 1 : ملک میں سب سے پہلے مقامی حکومتیں قایُم ہوں. انہیں ٹیکس لگانے کے اختیارات ہوں. ان ٹیکسوں سے حاصل ہونی والی آمدنی اسی علاقے کے ترقیاتی کاموں پر خرچ ہو. ان کی اپنی پولیس فورس ہو، جسے پولیس کے اختیارات حاصل ہوں.

    نمبر2. صوبایُ اسمبلی کے امیدوار کی تعلیم کم از کم بی اے پاس ہونی چاہیےُ. کامیاب ہو کر یہ صوبہ کے لیےُ قانون بناےُ گا، یا قانونی بحث میں حصہ لے گا. اسے کچھ تو سمجھ ہونی چاہیےُ. انگوٹھا چھاپ امیدوار قابل قبول نہیں. کسی ادارے یا محکمہ میں اگر چپڑاسی رکھنا ہو اس کے لیےُ میٹرک تک یعلیم یافتہ ہونا ضروری ہوتا ہے. صوبایُ اسمبلی کے امیدوار کے لیےُ ، جو منتخب ہونے کے بعد صوبے کے لیےُ قانون بنانے میں حصہ لے گا ، اسے تو زیادہ تعلیم یافتہ ہونا چاہیےُ.

    نمبر 3 : عام انتخابات ” متناسب نمایُندگی : کے اصول پر ہونے چاہییُں. یعنی عوام اپنا ووٹ کسی فرد کی بجاےُ کسی سیاسی پارٹی کو دیں. اس بارے میں اصول وضع کیےُ جا سکتے ہیں.

    نمبر 4 : قومی اسمبلی کے امیدوار کو کم از کم ایم اے پاس ہونا چاپیےُ. یہان زیادہ تعلیم یافتہ اور سمجھدار ممبران کی ضرورت ہوتی ہے. امیدوار صرف اس حلقہ سے انتخاب لڑ سکے، جہاں اس کا ووٹ ہو . اور وہ صرف ایک ہی حلقہ سے امیدوار ہو. ایک سے زیادہ سیٹوں پر الیکشن لڑنا ممنوع ہو. یہ رعایت قطعآ نا انصافی پر مبنی ہے. اور عوام پر مسلط رہنے کی ایک چال ہے.

    نمبر 5 : . وزیر اعظم کا عہدہ ختم کر دیا جاےُ. اس طرح بے بہا اخراجات کی بچت ہوگی.

    نمبر 6: صوبے کا گورنر عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب ہو. اس طرح غیر مناسب جوڑ توڑ اور صوبے کے لیےُ مناسب گورنر چننے میں آسانی ہوگی. گورنر کے لیےُ ایم اے تک تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہو. اس سے زیادہ تعلیم یافتہ ہونا صوبے کے لیےُ فایُدہ مند ہو گا.

    صوبے کا انتظام گورنر چلاےُ. وزیر اعلے نہیں ہو گا. اس طرح اخراجات میں بچت ہو گی.اور ھارس ٹریڈنگ نہیں ہو گی.

    صوبہ کا انتظام چلانے کے لیےُ گورنر 12 سے زیادہ وزیر نہیں رکھ سکے گا. کویُ مشیر نہیں رکھا جاےُ گا. وزیروں کو اپنے اپنے محکموں کے متعلق مہارت اور علم ہونا چاہیےُ. یہ نہ ہو کہ خزانہ کی وزارت کسی کھلاڑی کو دے دی جاےُ.گورنر اپنے وزیر چنے ، اور ان وزرا کے تقرر ایک کمیٹی دے.

    نمبر 7 : سینٹ ممبران کا انتخاب بھی عوام کریں. چاروں صوبوں سے ممبران کی تعداد مساوی ہو.

    نمبر8 : مرکزی اور صوبایُ حکومتوں کا صرف ایک ایک ترجمان ہو.

    نمبر 9 : دوہری شہریت کے حامل اشخاص کسی صوبایُ، قومی اسبلی اور سینٹ ممبرکا انتخاب لڑنے کے نااہل ہونے چاہییُں. کسی بھی غیر ملکی کو کویُ بھی عہدہ نہ دیا جاےُ. پنے ملک میں ذہین لوگوں کی کمی نہیں.

    نمبر 10 ..صوبایُ، قومی اسمبلی یا سینٹ کا کویُ بھی ممبر لگاتار 3 اجلاس سے غیر حاضر ہو تو اس کی رکنیت منسوخ کر دی جاےُ.

    ملک کے صدر کا انتخاب براہ راست عوام کریں. صدر ہی ملک کا انتظام چلاےُ. وزیر اعظم کی ضرورت نہیں. اس طرح بہت زیادہ بچت ہوگی. صدر کو شتر بے مہار نہیں ہونا چاہیےُ . اس پر بھی کچھ پابندیاں ہونی چاہییُں . جیسے:
    نمبر 1 … صدر کے نامزد وزرا کی تقرری ایک کمیٹی کی منظوری سے مشروط ہو. .
    نمبر 2 .. صدر کو کسی بھی ممبر کو ترقیاتی فنڈ دینے کی اجازت نہ ہو. بلکہ ترقیاتی فنڈ دینے کو قطعآ ممنوع قرار دیا جاےُ. یہ ایک طرح کی سیاسی رشوت ہے. ممبران اپنے حلقوں میں ترقیاتی کام کروانا چاہیں تو وہ اس کی تجاویز دیں. کام متعلقہ نحکمہ سے کروایا جاےُ.
    نمبر 3 .. صدر کی غیر حاضری کی صورت میں سپیکر قومی اسمبلی قایُم مقام صدر ہو.
    نمبر 4 : .. صدر کویُ متنازعہ قانون لانا چاہے تو وہ ریفرنڈم کروا سکتا ہے.
    نمبر 5 . . کویُ بھی مسلمان پاکستانی دو دفعہ صدر چنا جا سکتا ہے، اس سے زیادہ نہیں.

    یہ چند تجاویز ہیں. ان پر عمل پیرا ہو کر اپنے ملک کا بہت سا غیر ضروری خرچ بچایا جا سکتا ہے. ان تجاویز پر عمل پیرا ہونا بہ ظاہر مشکل نظر آتا ہے. لیکن ملک کی ترقی کے لیےُ سختیوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے. آییےُ ! ہمت کریں. خدا ہماری مدد کرے گا. ان تجاویز میں مناسب رد و بدل کیا جا سکتا ہے.
    آیک انتہایُ ضروری کام جو کرنے والا ہے وہ یہ ہے کہ آیُین کے مطابق وزیر اعظم کے لیےُ ” صادق اور امین ” ہونا بنیادی شرط ہے. یہ شرظ ایسی ہے کہ موجودہ دور میں کویُ فرد صادق اور امین نہیں. صادق اور امین صرف اور صرف اللہ تعالے کے آخری رسول تھے. اور یہ لقب صرف انہی کے لیےُ ًمخصوص ہے. موجودہ لوگوں کو یہ لقب دینا والا سخت گنا ہ گار ہے. اس شق کو فوری طور پر ختم کر دیا جاےُ.
    دوسری انتہایُ ضروری بات یہ ہے کہ ہمارا ملک بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہے. مرکزی کابینہ جب اور جہاں سے چاہے قرض لے لیتی ہے، ایسا قانون بننا چاہیےُ کہ اندرونی یا بیرونی قرض لینے کے لیےُ قومی اسمبلی کی منظوری لازمی ہو. حکومت قرض لے کر اس کا بوجھ آنے والی حکومت پر ڈال دیتی ہے. حکومت جتنا قرض لے اپنی حکومت ختم ہونے سے پہلے وہ لیا ہُوا قرض واپس کرے.

    موجودہ حکومت کے دور میں گالی گلوچ ، عزتیں اچھالنے اور مخالفین کو بدنام کرنے کے لیےُ وزرا کو کھلی چھُٹی دی گییُ ہے. کابینہ کو مہزب وطیرہ اختیار کرنا چاہیےُ. ہم زمانے میں ” تلنگے اور بدزبان ” مشہور ہو چکے ہیں. اس کا تدارک ہونا چاہیےُ.
    یہ تجاویز حتمی نہیں ہیں. ان میں ردوبدل یا انہیں بہتر بنایا جا سکتا ہے. نیےُ آیُین میں تمام شقوں کا اصل مدعا ملک کی ترقی اور بہتری ہونی چاہیےُ. اللہ تعالے ہمیں ملک کی بہتری ، ترقی اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرماےُ. آمین.

  • میری  آواز سنو  –    اجارہ داری  یا  غنڈہ  گردی

    میری آواز سنو – اجارہ داری یا غنڈہ گردی

    میری آواز سنو – اجارہ داری یا غنڈہ گردی

     

    میں گلبرگ 3، لاہور کے علاقہ فردوس مارکیت کے علاقہ میں رہتا ہوں. یہ علاقہ جے بلاک اور ایچ بلاک کے درمیان ایک پرانی آبادی ہے. جسے تھینہ ذیلداراں کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے. یہان کچھ عرصہ پہلے اس علاقہ کے ذیلداروں کی رہایُش تھی، جو اب اچھرہ، لاہور کے علاقہ میں رہایُش پذیر ہیں. کافی عرصہ پہلے فلم سٹار فردوس نے اس آبادی میں ایک مارکیٹ بنایُ، جس کا نام فردوس مارکیٹ رکھا گیا. آہستہ آہستہ لوگ تھینہ ذیلداراں کو بھول گےُ . اور اب اس علاقہ کو فردوس مارکیٹ کے نام سے پہچانا جاتا ہے. اس آبادی کے زیادہ تر لوگوں نے مکانوں کی تعمیر میں بطور مستری کام کر کے بہت پیسہ کمایا. اس پیسہ سے انہوں نے اپنے پرانے مکان گرا کر نےُ کیُ منزلہ عمارتیں بنا لیں . ان عمارتون میں طلباُ کے ھوستل بنا دیےُ
    آبادی بڑھنے کے ساتھ نیُ آسایُشیں بھی زندگی کا حصہ بن گیُںً. ان میں ایک “کیبل نیٹ ورک” بھی ہے. اس علاقہ میں کیبل نیٹ ورک صرف دو گروہ چلا رہے ہیں،
    نمبر 1 – رانا ساجد نیٹ ورک – فون نمبر ؛ 5622 945 0300
    نمبر 2 – بگُو پی سی او اینڈ کیبل نیٹ ورک
    دونوں گروہؤں کے پاس اپنے ریسیور نہیں ہیں. بلکہ یہ کیبل کا کنیکشن کسی اور جگہ سے لیتے ہیں. اور پھر گھروں میں کیبل کا کنیکشن دیتے ہیں. ان گھروں سے وہ ماہوار کچھ رقم لیتے ہیں. آغاز میں یہ 100 روپیہ ماہوار لیتے تھے آج کل زیادہ لے رہے ہیں.
    میرے گھر میں کیبل کا کنکشن ” رانا ساجد کیبل نیٹ ورک ” کا ہے. پچھلے چار پانچ ماہ سے ان کی کیبل سے نشریات شام کے نعد اچانک بغیر کسی اطلاع کے بند ہو جاتی ہیں، جو رات 12 بجے تک تو نہیں آتی. اس کے بعد کا پتہ نہیں، کیونکہ 12 بجے تک ہم سب گھر والے سو جاتے ہیں. یہ واردات ایک ہفتہ میں تین سے چار بار ضرور ہوتی ہے. شام کے بعد ہر 15 یا 20 منٹ کے لیےُ کیبل سے نشریات بند ہو جاتی ہیں اور تقریباُ آدھا گھنتہ کے بعد پھر آ جاتی ہے اور یہ سلسلہ مسلسل چلتا رہتا ہے.
    ًمیں نے تنگ آ کر “رانا ساجد کیبل نیٹ ورکس” کے مسٹر ساجد اور اس کے ساتھی مسٹر نفیس سے کہا کہ آپ لوگوں کی کیبل سروس اکثر بند ہو جاتی ہے اس لیےُ مین دوسرے کیبل نیٹ ورک (بگُو پی سی او اینڈ کیبل نعٹ ورک) سے کنیکشن لے لیتا ہوں. اس نے جواب دیا کہ میں ایسا نہیں کر سکتا. یعنی میں کسی دوسرے کیبل نیٹ ورک سے کنیکشن نہیں لے سکتا. میں حیران ہؤا اور پوچھا کیوں ؟. جواب ملا ” رانا ساجد کیبل نیٹ ورک اور بگو پی سی او اینڈ کیبل نیٹ ورک کے درمیان معاپدہ ہے کہ جہاں ہمارا کنیکشن لگا ہے، بگو وہاں اپنا کنیکشن نہیں دے سکتا. اسی طرح جہاں بگو کیبل کا کنیکشن لگا ہے وہاں ہم اپنا کنیکشن نہیں دے سکتے”.
    یہ ایک انتہانیُ ظالمانہ فعل ہے. اور ہماری آزادی سلب کرنے کے مترادف ہے. کیا ہم ان دونوں کے غلام ہیں ؟ اگر کسی کیبل نیٹ ورک کی نشریات صحیح نہ آ رہی ہوں تو ہم دوسرے کیبل نیٹ ورک سے کنیکشن نہیں لے سکتے !. اس دور میں یہ اجارہ داری اور غنڈہ گردی !.
    میرے گھر میں کیبل کا جو کنیکشن لگا ہے اس نشریات کا صرف تیسرا حصہ ٹھیک ہوتا ہے باقی دو تہایُ حصہ دیکھنے کے قابل نہیں ہوتا. ٹی وی سکریں پر ایسے لگتا ہے جیسے برف باری ہو رہی ہو. نہ تصویر صاف اور نہ ہی آواز صاف.
    حیران ہوں کہ اس دور میں بھی ہم غلام ہیں. کیا کویُ طریقہ ہے کہ ہمیں ان غلامانہ زنجیروں سے آذاد کرایا جا سکے ؟.

  • میری آواز سنو – lesco کی اندھیر نگری

    .میری آواز سنو

    لاہور الیکٹرک سپلایُ کمپنی کی اندھیر نگری

    دنیا میں کیُ قسم کی حکومتیں ہیں.موروثی بادشاہت، ڈکٹیٹر شپ، جمہوری بادشاہت، فوجی حکومت، جمہوری حکومت، زبردستی کی حکومت وغیرہ. سب سے اچھی حکومت وہی ہے جو عوام کی فلاح و بہبود کے کام کرے، عوام کی تکالیف دور کرے یا دور کرنے کی کوشش کرے.
    ایک فلاحی ریاست عوام کی سہولت کے لیےُ مختلف محکمہ جات بناتی ہے. ان محکموں کے سربراہ ” اصولی طور ” پر وہ لوگ ہونے چاہیُں جو اس فیلڈ میں مہارت رکھتے ہوں. کسی پی ایچ ڈی پروفیسر کو جنگلات کے محکمے کا وزیر بنا دیا جاےُ، تو اس کی کارگردگی کیسی ہو گی ؟ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں. وقت کی ضرورت کے مطابق حکومتیں محکموں میں ردّ و بدل کرتی رہتی ہیں. لیکن اصل مقصد ” عوام کی فلاح ” کو آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتیں. ہمارے ملک پاکستان میں وزات پانی و بجلی نے ایک علیحدہ شعبہ بنایا ، جس کا نام ” واٹر اینڈ پاور ڈیویلمینٹ ” رکھا گیا. اسے عرف عام میں “واپڈا” کہتے ہیں. اس کے ذمہ پانی کے وسایُل کو بہتر بنانا، بجلی پیدا کرنے اور اس کی تقسیم تھی. واپڈا اپنا کام بہتر طریقے سے سر انجام دے رہا تھا. اور منافع میں جا رہا تھا. پھر اچانک سب کچھ اتھل پتھل ہو گیا.

    دسمبر 2007 میں بے نظیر قتل ہو گیُں، تو پاکیستان پیپلز پارتی نے ان کی موت کو کیش کرانے کا فیصلہ کیا. اور عام الیکشن میں کامیابی حاصل کی آصف علی زرداری صدر پاکستان بن گیےُ . ( 2013 – 2008) تو محکموں میں اکھاڑ پچھاڑ شروع ہو گیُ. پاکستان پیپلز پارتی کے ورکرز کو کھپانے کے لیےُ واپڈا کا پوسٹ مارٹم کیا گیا. اس سے پہلے الیکٹرک جنریشن اور تقسیم کا کام واپڈا کے سپرد تھا ، جو اپنا کام احسن طریقے سے سر انجام دے رہا تھا. واپڈا میں مزید بھرتیوں کی گنجایُش نہ تھی. اس لیےُ واپڈا سے لیکٹرک ڈسٹری بیوشن ( تقسیم) لے کر مختلف نیُ بنایُ گیُ الیکٹرک سپلایُ کمپنیوں کو دے دیا گیا. یہ کمپنیاں ہر ڈویژن میں بنایُ گیُن . ملک میں کل 36 انتظامی ڈویژن ہیں، ہر ڈویژن میں ایک الیکٹرک سپلایُ کمپنی بنایُ گیُ. جس کا نام ڈویژن کے نام پر رکھا گیا، جیسے لاھور الیکٹرک سپلایُ کمپنی. پشاور الیکٹرک سپلایُ کمپنی وغیرہ. ان کمپنیوں میں نیا عملہ بھرتی کیا گیا. جیسے :
    نمبر 1- بورڈ ہف دایُرکٹرز نمبر 2 – ٹیکنیل ڈایُٰپرکتر
    نمبر3 – کستمر سروسز ڈایُرکٹر نمبر4 – آپریشن ”
    نمبر5 – ایڈمنسٹریشن ” . نمبر 6 – ہیومن ریلیشن ڈایُریکٹر
    نمبر 7 – فانانس ڈایُریکٹر نمبر8 – لایُن سپریُندینٹ
    نمبر9 – اسسٹنٹ لایُن سپیُندنٹ نمبر 10 – لایُن مین اور دیگر دفتری عملہ
    بڑی پوسٹوں کے لیےُ علیحدہ دفاتر، ان کا عملہ، گاڑیاں، عملہ کی تنخواہیں، مراعات وغیرہ پر اخراجات بہت بڑھ گیےُ،دیگر اشیا بھی مہنگی ہو گیُں مگر آمدنی تو وہی پہلے والی تھی. کمپیاں خسارے میں جانے لگیں. اس خسارہ کو پورا کرنے کے لیےُ بجلی کی قیمت بڑھایُ گیُ، جو آج تک ہر ماہ بڑھ رھی ہیں. کیُ پاور ہاؤس جو منافع میں جا رہے تھے انیہیں نجّی شعبہ کو بیچ دیا گیا اور ان سے مہنگی بجلی خریدی جانے لگی.

    بجلی کی قیمت بڑھنے سے ضرورت کی عام اشیا کی قیمتیں بھی بڑھ گیُں. عوام مہنگایُ تلے پسنے لگے. ُ پاکستان پیپلز پارتی نے عوام کی خدمت اور سہولت کی بجاےُ ان پر مزید مالیاتی بوجھ ڈال دیا اور اگلا الیکشن ہار گیُ ( ہے کویُ سنق سیکھنے والا ؟ )

    الیکٹرک سپلایُ کمپنیاں اپنے بے تحاشہ اخراجات پورا کرنے کے لیےُ ہر ماہ فی یونٹ بجلی کی قیمت بڑھا دیتی ہیں. اس کے ساتھ ہر ماہ ” فیول ایڈجسٹمنٹ” کے تحت اپنی مرضی کا اظافہ کر دیتی ہیں. جس کی تفصیل صارف کو مہیّا نہیں کی جاتی. اس کے ساتھ ٹی وی فیس، سر چارج، ایدجسٹمینٹ، جنرل سیلز ٹیکس، نیلم جہلم ٹیکس اور متفرق اخراجات کی مد میں ہر ماہ اضافہ کیا جاتا ہے. حکومت جب چاہتی ہے کویُ نہ کویُ تیکس بجلی کے ماہانہ بل میں ڈال دیتی ہے. اگر بجلی کا بل 1000 روپیہ ہو تو اس پر 40 سے 45 فی صد مزید رقم ٹیکس کی صورت میں دینے پڑتے ہیں.

    لاہور الیکٹرک سپلایُ کمپنی کی اندھیر نگری
    لیسکو نے عوام کی جیبوں سے پیسہ نکالنے کا ایک اور گر نکالا ہے. بجلی کے نےُ میٹروں کی ساخت اس طرح کی ہے کہ وہ صبح 7 بجے سے 11 بجے تک، اور پھر شام 7 بجے سے رات 11 بجے تک اصل ریڈنگ کو دگنا ظاہر کرتے ہیں. یعنی اگر ان اوقات میں بجلی کے 10 یونٹ خرچ ہوےُ ہوں تو میٹر میں 20 یونٹ کا اضافہ ہو جاےُ گا. یعنی ایک ماہ میں 300 یونٹ کا مزید بوجھ پڑ جاتا ہے. جو کہ صارف نے خرچ ہی نہیں کےُ. یہ ایک کھلی بد دیانتی اور زبردستی کی ایک مثال ہے. پوری دییا میں اس طرح کی اندھیر نگری کہیں بھی نہیں.

    سپریم کورٹ آف پاکستان سے بصد احترام گزارش ہے کہ وہ اس دھاندلی پر از خود نوٹس لے کر “پیک ہاور” میں زبردستی کے اضافے کو روکنے کا حکم دے کر عوام کو اس ظلم سے بچاےُ، اور ڈبل یونٹ اضافہ کرنے والے میٹروں کو تبدیل کرنے کا حکم صادر فرماےُ.

  • میری آواز  سنو  –  لا علمی    یا   جہالت

    میری آواز سنو – لا علمی یا جہالت

    میری آواز سنو

    لا علمی یا جہالت
    پاکستان کے قومی جھنڈے پر چاند اور ستارہ بنا ہوتاہے. یہ چاند اور ستارہ ہمارے قومی تشخّص کا نشان ہے. لیکن ہم میں سے اکثر اپنی لا علمی یا جہالت کی وجہ سے اس کی توہین کر رہے ہیں. میں اس بات کو ذرا تفصیل سے بیان کرتا ہوں .

    آپ نے کبھی 3 یا 4 دن کے چاند کو دیکھا ہے ؟.

    3rd days' moon
    3rd days’ moon

    یکم سے 14 یا 15 تاریخ تک چاند کی دونون نوکیں بایُں طرف ہوتی ہیں. یہ گویا چاند کے عروج کی نشانی ہے. ان تاریخوں میں چاند بڑھوتڑی کی طرف جا رہا ہوتا ہے. 15 یا 16 تاریخ کے بعد جب اسے زوال شروع ہوتا ہے تو اس کی دونوں نوک یا کنارے داہنی طرف ہوتے ہیں. یہ فرق ذہن میں رکھیں.

    waning moon
    waning moon

    پاکستان کی پہلی قومی اسمبلی میں اپنے قومی جھنڈے پر سیر حاصل بحث ہویُ. اور اس میں یہ نقطہ بھی اٹھایا گیا کہ قومی جھنڈے میں چاند کے عروج کی شکل دکھایُ جاےُ گی. یعنی چاند کی دونوں نوک بایُں طرف ہوں گی. یہ ایک ایسا نقطہ تھا کہ جس پر قومی اسمبلی میں اتفاق راےُ تھا. یہ گویا ااس خواہش کے اظہار کی علامت تھی کہ پاکستان عروج کی طرف جا رہا ہے. آپ دکومت پاکستان یا کسی صوبے کی حکومت کا کویُ خط دیکھ لیں اس میں چاند کی دونوں نوک بایۃں طرف ہیں. یعنی لاشعوری خواہش کہ پاکستان ترقّی کرے.

    phases of moon
    Lunar phases vector illustration. Moon phase cycle, new moon, full moon, waxing and waning moon icons.

    آج کل معاملہ الٹ چل رہا ہے. لوگ اپنی گاڑیوں ، دیوارون پر جب پاکستان کا قومی پرچم بناتے ہیں تو چاند کی دونوں نوک دایُں طرف بناتے ہیں. کیوں ؟ لاعلمی یا جہالت ؟. قومی پرچم پر چاند کی دونوں نوک دایُں طرف بنانے کا مطلب ہے کہ ملک زوال کی طرف جاےُ یا جا رہا ہے. کیا یہ خواہش صحیح ہے ؟.

    اپنے ملک مین تقریبآ ہر سیاسی پارٹی نے اپنے لیٹر ہیڈ پر چاند اور ستارہ بنایا ہؤا ہے. جس میں چاند کی دونوں نوکیں دایُں طرف دکھایُ گیُ ہیں . چاند کی یہ شکل زوال کی طرف جانے والی ہے.
    کیا ان کا مقصد یہ ہے کہ وہ پارٹی پاکستان کو زوال کی طرف لے جاےُ گی یا لے جانے کی کوشش کرے گی ؟. سیاسی پارٹیوں کو اپنے لیٹر پیڈ پر چاند کی دونوں نوک بایُں طرف دکھانا چاہیےُ. اگر وہ پاکستان کو عروج کی طرف ترقّی کرتا ہؤا دیکھنا چاہتی ہیں.

    بات صرف سیاسی پارٹیوں تک محدود نہیں رہی. یہاں بڑے بڑے بزجمہر اس باریک نقطے سے بے خبر ہیں. ذرا سٹیٹ بینک آف پاکستان کے 5000 روپے، 1000 روپے اور 500 روپے کے کرنسی نوٹ پر بنے چاند ستارہ کو دیکھیہں. ان پر چاند کی دونوں نوک دایُں طرف ہیں. یعنی زوال کی طرف مایُل چاند. میں توہمات پر یقین نہیں رکھتا، لیکن بعض باتوں کا اثر ضرور پڑتا ہے. ذرا سوچیےُ قیام پاکستان سے لے کر اب تک وطن عزیز پر کیا نہیں گزری !. ہم عروج کی بجاےُ زوال کی طرف جا رہے ہیں. اور اس کا اظہار ہم اپنے قومی پرچم پر بناےُ چاند کے ذریعے کر رہے ہیں.

    5000 rs note
    pakistani currency

    یہ ایک قومی فریضہ ہے کہ ہم اس بات کو یقینی بنایُں کہ جہاں کہیں بھی قومی پرچم بنایا جاےُ ، اس میں چاند کی نوک بایُں طرف ہوں. یعنی چاند عروج کی طرف جا رہا ہو. حکومت کو چاہیےُ کہ وہ ؛
    نمبر 1 . – اخبارات اور ٹی وی چینلز کے ذریعے بھر پور تحریک چلاےُ کہ قومی پرچم بناتے وقت چاند کو عروج کی طرف مایُل دکھایا جاےُ.
    نمبر 2. – حکومت اخبارات کو حکم دے کہ وہ اپنے اخبار کی ہر اشاعت میں قومی پرچم بناےُ اور اس پر چاند کی نوک بایُں طرف دکھایُں. اس کے نیچے یہ لکھّا جاےُ ” صحیح قومی پرچم یہ ہے :
    بنمبر 3.- سیاسی پارٹیان فوری طور پر اپنے لیٹر پیڈ اور بینرز پر زوال پزیر چاند کی بجاےُ عروج کی طرف مایُل چاند دکھایُں. جن سیاسی پارٹیوں کے لیٹر پیڈ پر زوال پذیر چاند ہے اگر وہ اسے تبدیل نہ کریں ، تو یہ سمجھا جاےُ کہ وہ پارٹی ملک کو زوال پزیر دیکھنا چاہتی ہے.
    نمبر 4. – قیام پاکستان کا دن، 14 اگست نزدیک آ رہا ہے اور چھوٹے چھوٹے قومی پرچموں کی بڑی تعداد میں پرنٹنگ کی جاےُ گی. ابھی سے اخبارات اور ٹی وی چینلز کے ذریعے مشتہر کیا جا ےُ کہ ایسے پرچموں پر چاند کی نوک بایُں طرف دکھایُ جاےُ.
    نمبر 5.- زیر گردش کرنسی نوتوں پر چاند کے رخ کو تبدیل کرنا خاصا مشکل کام ہے. اس کا حل یہ ہے کہ آیُندہ چھپنے والے کرنسی نوٹوں پر چاند کی پوزیشن صحیح ہونی چاہیےُ. موجودہ زیر گردش کرنسی نوٹوں کو سٹیٹ بینک آف پاکستان واپس لینا شروع کر دے اور ان کی جگہ چاند کی صحیح پوزیشن والے نوٹ چھاپے.

    حیرانگی کی حد تک ایک روپیہ، دو روپیہ اور پانچ روپیہ کے سکّوں پر چاند (ارادی یا غیر ارادی طور پر ) صحیح پوزیشن میں ہے. یہ بات سمجھ میں نہیں آیُ کہ سکّوں پر چاند عروج کی طرف مایُل ہے اور کرنسی نوٹوں پر زوال پزیر. سٹیٹ بینک آف پاکستان شاید کچھ وضاحت کر سکے.

    پاکستان انٹرنیشنل ایُر لایُن کے جہازوں کی دم پر قومی جھنڈا نبا ہوتا ہے. ان میں زیادہ تر چاند کو صحیح بنایا گیا ہے . بعض جہازون کی دم پر زوال پزیر چاند بنا ہے. اسے درست کر دینا چاہیےُ. قومی پرچم ہمارے وقار اور توقیر کی علامت ہے. اس پر چاند کو عروج پزیر دکھایا جانا چاہیےُ

    بات چھوٹی سی ہے، لیکن تاثر بہت گہرا ہے. باقی دنیا ہماری طرح جاہل یا لا علم نہیں. وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی غور کرتے ہیں. ہمارے قومی پرچم یا کرنسی نوٹوں پر زوال پزیر چاند کو دیکھ کر وہ کیا خیال کرتے ہوں گے ؟. یا ہمین کس قدر لا علم یا جاہل خیال کرتے ہوں گے ؟.

  • میری آواز سنو – آنٹی ! آپ کا دوپٹّہ کدھر ہے ؟. قسط نمبر 6

    میری آواز سُنو.

    آنٹی! آپ کا دوپٹّہ کدھر ہے ؟ – قسط نمبر – 6

     

    اسلامی حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ بے حیایُ روکے اور نیک کاموں کا حکم دے. لیکن یہاں گنگا الٹی بہ رہی ہے. یہاں تو کنجروں کو تمغے دےُ جا رہے ہیں.

    آیےُ، ہم سب مل کر بے حیایُ کے خلاف آواز اٹھایُں. جس کے لیےُ سب سے پہلے یہ کام کرتے ہیں.
    نمبر 1 – ہم سب ہی فیس بک پر روزانہ یا تو اپنی کہانی یا مضمون پوسٹ کرتے ہیں ، یا دوسروں کی پوسٹ پڑھتے ہیں. ایسی ہی کسی پوسٹ پر اگر آپ کسی عورت کو بغیر دوپٹّہ یا چادر کے دیکھیں تو وہاں کمنٹس میں صرف اتنا لکھ دیں :
    ” آنٹی! آپ کا دوپٹّہ کدھر ہے ؟.
    اس سے زیادہ کچھ نہ لکھیں. ہم کسی پر زبردستی نہیں کر سکتے. جب خواتین ایسے بہت سارے کمنٹس دیکھیں گی تو امید کی جا سکتی ہے کہ اللہ انہیں ہدایت دے دے. ہمارا کام صرف سمجھانا ہے. اگر کویُ نہ سمجے تو اللہ اس سے سمجھے گا.

    نمبر 2 – کسی ٹی وی ٹاک شو میں شامل کسی محترمہ کو بغیر دوپٹّہ یا چادر دیکھیں تو فوراّ اس تی وی سٹیشن کو میسج بھیجیں
    ” آنٹی! آپ کا دوپٹّہ کدھر ہے ؟ ”
    یہ میسج ٹی وی سکرین پر نظر آنا چاہیےُ. ایسے ٹاک شو پر ناظرین عموماّاپنی راےپ کا اظہار کرتے رہتے ہیں، جو ناظرین کو نظر اتا رہتا ہے. یہ ابتدایُ کام ہے . عین ممکن ہے ٹاک سو والے ہمرا پیغام نشر نہ کریں، تو پھر ؟
    بہتر ہوگا آپ کویُ دوسرا چجینل دیکھنا شروع کر دیں. اگر بہت سارے ناظرین ایسے چینل کو دیکھنا بند کر دیں گے تو تو چینل کی مقبولیّت کم ہو جاےُ گی. ہو سکتا ہے وہ سبب ڈھونڈنے کی کوشش کریں.

    آج کل ااخبارات کی بھرمار ہے .اخبارات میں ” ایڈیتر کے نام ” کا کالم آتا ہے. ان کالموں میں اہنی راےُ کا اظہار کریں کہ فلان ٹاک شو میں موجود عورت کے سر پر دوپٹّہ نہیں تھا. جو ایک مسلم عورت کی تعریف کے خلاف ہےآخر میں پوچھ سکتے ہیں کہ ” آنٹی ! آپ کا دوپٹّہ کہان ہے ؟ “.

    یہ انتدا ہو گی. اس میں بہت سے طعنے بھی سننے کو ملیں گے کہ کیا ہم خدایُ فوجدار ہیں ؟ اس سے گھبرانا نہیں. یہ بھی سننے کو مل سکتا ہے کہ ہم ان کی نجّی زندگی میں دخل اندازی کر رہے ہیں. پھیلتی ہویُ بے حیایُ ایک اجتما عی معاملہ ہے آنہیں سمجھانا پڑے گا کہ ان کا یہ طرز عمل امت مسلمہ میں بے حیایُ پھیلانے کا سبب بن رہا ہے جس کی سخت سزا انہیں قیامت کے دن ملے گی. شاید وہ سمجھ جایُں.

    اگر آپ اس تجویز سے متفق ہیں تو اپنی راےُ کا اظہار کریں. مختلف تجاویز پر بحث ہو سکتی ہے. اور قابل عمل منصوبہ بنایا جا سکتا ہے.

    آیےُ اس کار خیر کی ابتدا کریں. اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو.

    آخر میں اللہ کا فرمان ایک دفعہ پھر سنےُ:
    ” حرام کیا گیا ہے تم پر، مردار، خون، خنزیر کا گوشت اور وہ جانور کہ جس پر پکارا گیا ہو غیر اللہ کا نام ، اور جو مرا ہو گلا گھٹ کر، یا چوٹ سے، یا بلندی سے گر کر، یا سینگ لگنے سے، اور وہ جسے درندے نے کھایا ہو، مگر جسے تم نے ذبح کر لیا ہو، اور وہ بھی حرام ہے جو کسی آستانے پر ذبح لیا گیا ہو. اور یہ کہ تم جوےُ کے تیروں سے قسمت (کا حال)معلوم کرو. یہ سب کچھ گناہ ہے . آج مایوس ہو چکے ہیں کافر، تمہارے دین کی طرف سے. پس تم ان سے مت ڈرو، اور مجھ سے ہی ڈرو. آج میں نے تمہارے لےُ تمہارا دین مکمل کر دیا ہے ، اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی، اور تمہارے لےُ اسلام کو بطور دین پسند کر لیا ہے. جو (کویُ) بھوک سے مجبور ہو کر کھاےُ رغبت گناہ کے نغیر)، تو بے شک اللہ معاف فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے،” سورہ المایُدہ—-آیت نمبر 3.

  • میری آواز سنو – آنٹی ! آپ کا دوپٹّہ کدھر ہے ؟ – قسط نمبر 5

    میری آواز سنو.

    آنٹی! آپ کا دوپٹّہ کدھر ہے ؟ قسط نمبر – 5

     

    نمبر 5 – ستیج ڈرامے

    ستیج ڈرامے جہاں مزاح کا سامان پہیّا کرتے ہیں وہیں پر ( بعض اوقات ) بہت حد تک لچّر پن کی حدود کو چھو رہے ہوتے ہیں. خصوصاّ جب کویُ لڑکی سٹیج پر ڈانس کرتی ہے. بعض اداکاروں کے مکالمے ذو معنی اور اخلاق کی حد کو پار کر جاتے ہیں. لڑکیوں کے سر سے دوپٹعہ تو کبھی دیکھنے میں نہیں آیا.

    نمبر 6 – ٹاک شو
    ہر ٹی وی سٹیشن روزانہ ” ٹاک شو ” منعقد کراتے ہیں، جن کے شرکاُ میں ایک یا دو خواتین ضرور ہوتی ہیں. ( کیا یہ ضروری ہے ؟ ) یہ عورتین اپنے مکمل میک اپ کے ساتھ بغیر دوپٹّہ یا چادر کے آتی ہیں. میں نے جن خواتین کو دوپٹّہ اور چادر میں دیکھا ہے ان میں سے کچھ کے نام یہ ہیں :
    نمبر 1- محترمہ ڈاکٹر یاسمین راشد : ہمیشہ سر پر دوپٹّہ اور چادر اوڑھے نظر آیُں.
    نمبر 2- محترمہ ڈاکٹر غزالہ رومی : ایکپریس تی وی شو میں دوپٹّہ ا ور چادر اوڑھے ہوےُ تھیں.
    نمبر3- محترمہ تاشفین صفدر: کیپیٹل تی وی ٹاک شو میں دوپٹّہ اور چادر اوڑھے ہوےُ تھیں.
    نمبر 4 – محترمہ عظمی بخاری : ڈان ٹی وی شو میں دوپٹّہ اور چادر مین تھیں.
    نمبر 5 – محترمہ نفیسہ شاہ سما ُ تی وی ٹاک شو میں دوپٹّہ اور چادر اوڑھے باوقار نظر آیں
    .نمبر 6 – سماُ تی وی سٹیشن اسلام آباد کی اینکر پرسن دوپٹّہ اور چادر اوڑھے حقیقی پاکستانی مسلم عورت دکھایُ دے رہی تھیں.
    نمبر 7 – ملیکہ بخاری بھی دوپٹّہ اور چادر مین تھئں.

    مندرجہ بالا خواتین ( کچھ اور بھی ہو سکتی ہیں. میں سارے تی وی ٹاک شو نہیں دیکھتا ) قابل احترام ہیں کہ انہوں نے اپنا تشخّص برقرار رکھا ، اور ثابت کیا کہ خواتین اپنی عزّت خود کرواتی ہیں.
    وقت کی یہ اہم ضرورت ہے کہ ہر تی وی ٹاک شو میں حصّہ لینے والی خواتین پر واضح کر دیا جاےُ کہ وہ دوپٹّہ اور چادر اوڑھ کر آیُں. ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باسی ہین . کسی غیر مسلم ملک کے شتر بے مہار باسندے نہیں.
    اور اس بات پر یقین رکھتے ہین کہ ہمیں ایک دن اللہ کے حضور پیش ہونا ہے.

    مندرجہ بالا شّعبہ جات میں ( بد قسمتی سے ) کرداروں کو کثیر معاوضہ دیا جاتا ہے، ور اس لالچ میں آ کر بہت ساری لڑکیاں اندھیروں میں گم ہو جاتی ہیں، یا انہیں کام کرنے کے لےُ بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے.
    آپ نے دیکھا کہ ان شعبہ جات میں اسلامی لباس کی کویُ جگہ نہیں، اور ان شعبہ جات کے لوگ ( کچھ لوگوں کو چھوڑ کر )اسلامی اقدار کو اپنانے مین کویُ دلچسپی نھی نہیں رکھتے. یہ ان کا ایسا فعل ہے جو قوم کو بے حیایُ کی طرف مایُل کر رہا ہے.اسلامی تعلیمات کے مطابق ، جو کویُ برایُ پھیلاےُ گا، جب تک وہ برایُ قایُم رہے گی، اس کا گناہ برایُ شروع کرنے والے کے نامہُ اعمال مین درج ہوتا رہے گا.

    بھایُو، ہم اس دنیا میں کتنا جیُں گے ؟. ہم یہ حرام پیسہ یہیں چھوڑ جایُں گے ، صرف اس کا گناہ ساتھ لے جایُں گے. ذرا سوچےُ ! اس اعمال نامہ کے ساتھ ہمارا کیا حشر ہوگا !.

    جاری ہے.

  • میری آواز سنو – آنٹی آپ کا دوپٹّہ کدھر ہے ؟ قسط نمبر 4

    میری آواز سنو.

    آنٹی! آپ کا دوپٹّہ کدھر ہے ؟. قسط نمبر – 4

     

    آیےُ ان شعبہ جات پر ذرا تفصیل سے بات ہو جاےُ :

    نمبر 1 – فلم سازی
    یہ وہ شعبہ ہے جس نے بے حیایُ پھیلانے میں سب سے زیادہ حصّہ ڈالا ہے، خصوصاُ رقص نے. فلموں میں رقص اتنے بے ہودہ ہوتے ہیں کہ آدمی اپنی فیملی کے ساتھ فلم نہیں دیکھ سکتا. ذرا سوچیےُ ، آج کل کی پنجابی فلموں میں جو ڈانس شامل کیےُ جاتے ہیں کیا ہمارے معاشرے میں واقعی ایسے ڈانس کیےُ جاتے ہیں ؟. خصوصاُ دیہاتی معاشرہ میں تو کسی ڈانس کی اجازت نہیں.کہا جاتا ہے فلم کی کہانی معاشرے کے اقدار کی نمایُندگی کرتی ہے. کیا ہمارہ معاشرہ ایسا ہے جیسے فلموں میں دکھایا جاتا ہے ؟.
    یہاں فلم ساز یہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ اگر فلموں میں دانس نہ ڈالے جایں تو فلمیں فلاپ ہو جایںً گی اور فلموں میں لگایا ہؤا ہمارہ سرمایہ ڈوب جاےُ گا. فلم ساز سرمایہ بڑھانے کے لیےُ فلم میں بے ہودہ ڈانس شامل کرتا ہے. اس کا سرمایہ تو بڑھ جاُ گا لیکن اس کے ساتھ وہ معاشرے میں پھیلنے والی بے ہودگی کا ذمہ دار بھی ہوتا ہے .
    دیکھیےُ . ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے یا سمجھتے ہیں. اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ قیامت کے دن ہمارا حساب کتاب ضرور ہوگا. آپ کسی عالم دین سے پوچھ لیں کہ فلم کی کمایُ حلال ہے یا حرام. اگر حرام ہے توآخرت میں یہ ہمارے گلے پڑے گی. سیدھی سی بات ہے سرمایہ لگانے کے لیےُ اور بھی شعبہ جات ہیں جہاں آپ کا منافع حلال ہو گا.
    آج کل کی فلموں مین کیا ہوتا ہے ؟. عورتوں کے جسم کی نمایُش کی جاتی ہے. فلم کا شعبہ ویسے ہی بدنام ہے. تو بدنامی کے کیچڑ میں کیوں کودا جاےُ ؟. پیسہ جایُز طریقہ سے کمایا جا سکتا ہے اور ناجایُز طریقہ سے بھی. ناجایُز طریقہ سے آنے والا پیسہ قیامت کے دن ہمیں دوزخ میں لے جاےُ گا جو بہت ہی بری اور خوفناک جگہ ہے.

    نمبر 2 – فیشن شو
    دوسرے نمبر پر بے حیایُ پھیلانے میں فیشن شو کا نام آتا ہے. فیشن ڈیزایُنرز عورتوں، مردوں کے پہناووں کے لیےُ ہر سال نیےُ نیےُ ڈیزایُن تیار کرتے ہیں. پھر فیشن شو منعقد کرا کر وہ کپڑے ماڈل لڑکیوں اور لڑکوں کو پہنانتے ہیں . اور یہ ماڈلز حاضرین کے سامنے ریمپ پر ان کی نمایُش کرتے ہیں. حسینایُں ان کپڑوں میں اپنے جلووں کی نمایُش کرتی ہیں . تا کہ لوگ ان کپڑوں کو خریدیں.
    کیا ہم نے عورتون کو اپنی کمایُ کا زریعہ بنایا ہؤا ہے ؟.

    نمبر 3 – اشتہار
    بڑے شہروں میں جگہ جگہ بڑے بڑے اشتہاری بورڈ لگے ہیں. جن پر مختلف مصنوعات کے ساتھ عورتوں کی تصاویر ہوتی ہیں. کیا یہ ضروری ہے ہر اشتہار پر کویُ عورت ہی ہو ؟.

    نمبر4 – ڈرامے
    مختلف ٹی وی سٹیشن پر روزانہ مختلف ڈرامے پیش کیےُ جاتے ہیں. آپ نے کبھی کسی ڈرامے میں کسی لڑکی کے سر اور سینہ پر دوپٹّہ دیکھا ہے ؟. اوّل تو دوپٹعہ لینے یا اوڑھنے کا تکلف ہی نہیں کیا جاتا، اگر دوپٹّہ نظر آ بھی جاےُ تو گلے میں ڈال کر پیچھے کمر کی طرف پھینکا ہؤا ہوتا ہے. کوشش کی جاتی ہے کہ درامہ کی کردار لڑکیاں زیادہ سے زیادہ پر کشش نظر آیُن. جس کے لیےُ مختلف طریقے اختیار کیےُ جاتے ہیں :
    نمبر 1 – سر اور سینہ سے دوپٹّہ غایُب کر کے سینے کے ابھار کو زیادہ دکھایا جاتا ہے.
    نمبر2 – قمیض عموماُ بازو کے بغیر ( سلیو لیس ) ہوتی ہیں تاکہ بازو ننگے نظر آیُں – ہندوستانی فلموں میں عورتوں کے کپڑے بہت ہی مختصر ہو گیےُ ہیں. یہاں بھی اسی ڈگر پر چلنے کی کوشش کی جا رہی ہے. میں نے ایک ڈرامے میں ایک لڑکی کو نیکر پہنے ہوےُ دیکھا ہے،. یعنی یہاں بھی بے حیایُ اپنے عروج کی طرف جا رہی ہے. اس کی ایک مثال 11 جون 2020 ، رات 9 بج کر 45 منٹ پر ” پلے” تی وی پر نشر ہونے والے ایک ڈرامے میں نظر آیُ. جس میں ایک لڑکی نے ایسا لباس پہن رکھا تھا جس سے وہ تقریباّ تین چوتھایُ حصہ ننگی نظر آ رہی تھی. ( ایسے ڈریس کو ریپ اراؤنڈ کہتے ہیں.). استغفراللہ. کیا ٹی وی پر نشر ہونے والے ڈرامے سنسر نہیں ہوتے ؟. اگر ہوتے ہیں تو یہ بے ہودگی کیسے نشر ہو گیُ ؟.کیا یہ قوم میں بے ہودگی پھیلانے کی دانستہ کوشش ہے ؟، اگر ہے تو اس کے پیچھے کون ہے ؟. ہمارا معاشرہ مسلم معاشرہ ہے اور ہم ہندووں اور یہودیوں والی بے ہودگی برداشت نہیں کر سکتے.

    جاری ہے

  • میری آواز سنو – آنٹی ! آپ کا دوپٹّہ کدھر ہے ؟ قسط نمبر 3

    میری آواز سنو.

    آنٹی ! آپ کا دوپٹّہ کدھر ہے ؟ قسط نمبر 3

     

    عورتوں کے لیےُ : آج کل بے پردگی کا عام رواج ہے. عورتیں پردے کو اپنی آزادی میں حایُل ایک عنصر خیال کرتی ہیں . اس بے پردگی کے رجحان میں بہت سارے عوامل کارفرما ہیں:

    ہمارے ملک کی شہری عورتیں مغربی معاشرت سے بہت متاثر ہیں ہمارے قومی شاعر اقبال نے مغربی تہزیب کے متعلق یوں کہا ہے :
    تمہاری تہزیب خود اپنے خنجر سے خود کشی کرے گی
    شاخ نازک پہ جو بنے گا آشیانہ ناپایُدار ہوگا
    مغرب میں پردہ کا رواج ہی نہیں. بلکہ ان کی عورتیں تو آدھی ننگی ہوتی ہیں. لباس سکڑ کر آدھے میٹر کے کپڑے تک آ گیا ہے. اور عورت بالکل ہی بے توقیر ہو کر رہ گیُ ہے.
    آپ لفظ ” عورت ” کے معنی دیکھیں . ” عورت” عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ” چھپایُ جانے والی چیز ” یہاں گنگا الٹی بہ رہی ہے. عورتوں نے پردہ کو خیر باد کہ دیا ہے . اسے اکبر الہ آبادی نے یوں بیان کیا ہے :
    بے پردہ نظر آیُں کل جو چند بیبیاں
    اکبر زمیں میں غیرت ملّی سے گڑ گیا
    پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہؤا
    کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا
    بات تو صحیح ہے. اگر مرد چاہے (باپ ہو یا خاوند) تو وہ اپنی عورتوں کو پردہ کرنے کی تلقیں کر سکتا ہے.

    اسلام نے عورت کے لباس اور پردے کے متعلق کچھ حدود مقرر کی پیں :
    نمبر 1 : عورت کے لیےُ سارے جسم کو ڈھانکنا ضروری ہے، صرف چہرہ اور ہاتھ ننگے رہ سکتے ہیں.

    عورت کا لباس

    نمبر 1 ؛ لباس اتنا باریک نہ ہو کہ اس کے اندر سے اس کا جسم نظر
    آےُ.
    نمبر 2 : اتنا تنگ نہ ہو کہ جسم کی بناوٹ نظر آےُ.
    نمبر3 : بہت بھڑکیلے رنگ کا نہ ہو. جو جنس مخالف کے جزبات کو
    ابھارے.
    نمبر4 : جنس مخالف کے کپڑے نہ پہنے.یعنی وہ کپڑے نہ پہنے جو
    مرد پہنتے ہیں.

    آپ نے ملاحظہ کیا ہوگا کہ مندرجہ بالا ممنوعات پر بہت کم عمل کیا جا رہا ہے. جس کے نتیجے میں ؛

    نمبر 1 – عورتوں کے سر اور سینے سے دوپٹہ غایُب ہو گیا ہے، اور
    چھاتیوں کی نمایُش کرنا فیشن سمجھا جا رہا ہے.
    نمبر 2 – خواتین جسم سے چپکا ہؤا لباس (سکن ٹایُٹ ) پہننے لگی ہیں. ایسا
    لباس عموماُ جسم سے چپکی ہویُ پینٹ یا پاجامہ اور قمیض کی
    جگہ ٹایُٹ بلاؤز یا بنیان پہنی ہوتی ہے. جس سے ان کے جسم کی
    نمایُش ہوتی ہے. استغفراللہ. اس پر طرّہ یہ کہ سر پر دوپٹّہ ہی نہیں.
    ننگا سراور سینہ دعوت عام دے رہا ہوتا ہے. ( خواتین سے معذرت
    لیکن وہ ایسا کیوں کرتی ہیں ).
    نمبر 3 – ایک نہیایت ہی بے ہودہ فیشن چل نکلا ہے. عورتوں کی قمیض یا
    اس کی جگہ جو بھی پہنا ہو، اس کا گلا بہت نیچے تک کھلا ہوتا ہے
    جس سے ان کی چھاتیوں کا ابتدایُ حصّہ نظر آ رہا ہوتا ہے. آخر یہ
    ایسا کیوں کرتی ہیں ؟ اگر ایسا کرنے والی عورتیں مسلمان ہیں تو
    انہیں سوچنا چاہیےُ کہ بے حیایُ پھیلانے والوں اور والیوں کے لیےُ
    اللہ نے بڑا درد ناک عذاب تیار کر رکھّا ہے. اس دنیا میں وہ کب تک
    رہیں گی ؟. 70 سال، 80 سال !. اس کے بعد ؟ ذرا سوچیےُ.
    نمبر 4 – بہت سی عورتیں پینٹ پہننے لگی ہیں. جو مردانہ لباس ہے. آج کل تو
    پینٹ کا سٹایُل بھی سکن ٹایُٹ ہو گیا ہے. جسے مردوں اور عورتوں
    کو پہننے سے منع کیا گیا ہے.
    اسلام در اصل ایسا معاشرہ چاہتا ہے جس میں بے حیایُ بالکل نہ ہو. لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے ؟. بے حیایُ پھیل رہی ہے جسے پھیلانے میں مندرجہ ذیل شعبہ جات نے اپنا اپنا حصّہ ڈالا ہے.

    جاری ہے.

  • میری آواز سنو – آنٹی! آپ کا دوپٹّہ کدھر ہے ؟ قسط نمبر – 2

    میری آواز سنو.

    آنٹی ! آپ کا دوپٹہ کدھر ہے ؟ قسط نمبر – 2

    عورتوں کے لےُ حکم ہے ( ترجمہ )
    اور مومن عورتوں سے کہو کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں. اور اپنے بناؤ سنگھار ظاہر نہ کریں مگر جو خود ہی ظاہر ہو جاےُ. اور اپنی اوڑھنی کی بکل اپنے سینوں پر مارے رکھّیں. اور ظاہر نہ کریں اپنا بناؤ سنگھار مگر اپنے شوہروں کے سامنے، یا اپنے باپون کے یا شوہروں کے باپون سے، یا بیٹوں سے، یا شوہروں کے بیٹوں سے، یا اپنے بھایُوں سے، یا اپنے بھتہجوں سے، یا اپنے بھانجوں سے، یا اپنی عورتوں سے ، یا ان کے سامنے جو ان کی ملک یمین میں ہوں، یا ان خادموں کے سامنے جنہیں (عورتوں کی ) خواہش نہ ہو، خواہ مرد ہی کیوں نہ ہو، یا ان بچّوں کے سامنے جو ابھی عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے واقف نہ ہوےُ ہوں، اور نہ زمین پر پاؤں مار کر چلیں اس طرح کہ ظاہر ہو وہ زینت جو انہوں نے چھپا رکھی ہے. اور اے مومنو ! اللہ کے حضور سب مل کر توبہ کرو ، تا کہ تم فلاح پا جاؤ. ” سورہ النور – آیت نمبر 31.

    اب ذرا اللہ تعالے کے اس حکم کو دوبارہ پڑھیں :
    مردوں کے لیےُ = ” کہو مومن مردوں سے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنے شرم گاہوں کی حفاظت کریں “.

    عورتوں کے لیےُ : ” اور کہو مومن عورتوں سے کہ اپنی نظریں نیچی رکھّیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں. اور اپنا بناو سنگھار ظاہر نہ کریں مگر جو خود ظاہر ہو جاےُ. اوراپنے سینے پر اپنی اوڑھنیوں کی بکل مارے رکھیں. 

    بے حیایُ پھیلانے والے : “ بے شک وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ ان لوگوں میں بے حیایُ پھیلے جو ایمان والے ہیں، ان کے لیےُ درد ناک عذاب ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی. اور اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے “.

    اب ہم ان پر علیحدہ علیحدہ بحث کرتے ہیں :

    مردوں کے لیےُ ؛ ایمانداری سے بتایُں کیا ہم اپنی نظریں نیچی رکھتے ہیں ؟ میرا خیال ہے کہ ہم میں سے 2 یا 3 فی صد لوگ اس حکم پر عمل کرتے ہیں. ہماری عادت ہے کہ ہم عورتوں کو آتا دیکھیں تو دور سے انہین دیکھنا شروع کریں گے اور اور جب تک وہ دور نہ چلی جایُں ہماری نظریں ان کا پیچھا کرتی رہتی ہیں. یہ ایک گناہ بے لذّت ہے اور گناہ کبیرہ بھی. ایک حدیث کے مطابق کسی عورت پر مرد کی پہلی بلا ارادہ نگاہ معاف ہے ، مگر یہ پہلی نظر ایک دو لمحات کی ہونی چاہیےُ. یہ نہ ہو کہ پہلی نظر 10 یا زیادہ منٹ کی ہو جاےُ. یہاں ایک مسُلہ پیدا ہوتا ہے. آج کل کی خواتین اپنا میک اپ اس لیےُ کرتی ہیں کہ لوگ انہیں دیکھیں اور ان کے حسن کی تعریف کریں. اکثر عورتیں بناؤ سنگھار کر کے پبلک مقامات یا بازاروں میں اس لیےُ جاتی ہیں کہ لوگ انہیں دیکھیں .( خواتین سے معزرت ). خود نمایُ انسانی جبلّت میں داخل ہے. لیکن میک اپ اس سوچ کے ساتھ کرنا کہ لوگ ہمیں دیکھیں ایک غلط سوچ ہے ، جو آجکل عام ہے. اس کا حل یہ ہے کہ عورتیں پردہ میں باہر نکلین.

    جاری ہے.

  • میری آواز سنو. آنٹی ! آپ کا دوپٹّہ کدھر ہے ؟ قسط نمبر 1

    آنٹی ! آپ کا دوپٹّہ کدھر ہے ؟ قسط نمبر 1

     

    کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک انسان کے لیےُ اللہ کی عطا کردہ سب سے بڑی نعمت کیا ہے ؟. جی ہاں آپ کا خیال بالکل صحیح ہے . ایک انسان کے لیےُ اللہ تعالے کی سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ اسے صراط مستقیم پر چلنے کی ریہنمایُ اور توفیق عطا فرماےُ. ہم پر اللہ تعالے کی یہ بڑی نعمت ہے کہ اس نے ہمیں مسلمانوں کے گھر میں پیدا کیا.

    اللہ تعالے اپنے آخری پیغام قرآن میں فرماتا ہے :

    ( ترجمہ)
    ” آج میں نے مکمل کر دیا تمہارے لیےُ تمہارا دین. اور پوری کر دی تم پر اپنی نعمت، اور پسند کر لیا ہے تمہارے لیےُ اسلام کو بطور دین ” سورہ المایُدہ ، آیت نمبر 3.

    یعنی دین اسلام مکمل ہو چکا ، اور اب کویُ اور شریعت نہیں آےُ گی. اس کے ساتھ یہ حکم بھی دیا . ( ترجمہ
    ” یہ کامیابی اان کے لیےُ : جو توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، اس کی حمد و ثنا کرنے والے، روزے رکھنے والے، رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے، نیکیوں کا حکم دینے والے، برایُوں سے منع کرنے والے اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں. اور مومنوں کو جنّت کی خوشخبری دے دو. ” سورہ التوبہ . آیت نمبر 112.

    سورہ احزاب میں اللہ کا حکم ہے : ” اے نبی! کہو اپنی بیویوں سے، اور اپنی بیٹیوں سے ، اور اہل ایمان کی عورتوں سےکہ وہ لٹکا لیا کریں اپنے اوپر، اپنی چادر کے پلّو، یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جایُں، اور ستایُ نہ جایُں، اور اللہ معاف کرنے والا اوررحم فرمانے والا ہے “. سورہ احزاف، آیت نمبر 59.

    اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کیا ہم، جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، کیا ہم اللہ تعالے کی مقرر کردہ حدود کی حفاظت کر رہے ہیں ؟.کیا ہم مندرجہ بالا احکام پر عمل کر رہے ہیں ؟. اگر ہم اپنا محاسبہ کریں تو نتیجہ کچھ اچھّا نہین نکلے گا. بے شک ہم میں سے بہت سارے لوگ یہ احکام بجا لاتے ہیں یا حتے الوسع بجا لانے کی کوشش کرتے ہیں، اور اللہ تعالے سے اپنی کوتاہیوں کی معافی مانگتے رہتے ہیں. یقیناّ یہ لوگ فلاح کی امید رکھ سکتے ہیں. لیکن کیا ،ہم جو صرف نام کے مسلمان ہیں ، فلاح کی امید رکھ سکتے ہیں ؟ بیشک اللہ تعالے نڑا غفور الرحیم ہے وہ جسے چاہے بخش دے ، جسے چاہے سزا دے. لیکن کیا صرف یہی یقین رکھنے سے ، اور اللہ تعالے کے دیگر احکام نہ ماننے سے ہمیں روز قیامت فلاح ملے گی ؟.

    اللہ کا وہ حکم جس پر ہم عمل نہیں کر رہے

    مین آج اللہ تعالے کے صرف اس حکم کے متعلق بات کروں گا جس پر عمل بالکل نہیں ہو رہا. سورہ النّور میں اللہ کا ارشاد ہے : ( ترجمہ
    ” بے شک وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ بے حیایُ پھیلے ان لوگوں میں ، جو ایمان والے ہیں، ان کے لیُ درد ناک عذاب ہے ، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی. اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ” سورہ النّور ، آیت نمبر 19.

    اس کے ساتھ یہ حکم بھی دیا ( ترجمہ
    ” کہو مومن مردوں سے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں ، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاضت کریں یہ طریقہ ان کے لیےُ زیادہ پاکیزہ ہے. بے شک اللہ پوری طرح با خبر ہے ان باتوں سے جو یہ کرتے ہیں ” سورہ النّور آیت نمبر 19.

    جاری ہے.