Category: ہنسنا مجاز

  • ہنسنا منع نہیں ہے – آدھا تیتر ، آدھا بٹیر

    ہنسنا منع نہیں ہے

    آدھا تیتر، آدھا بٹیر
    شعرا کی روح سے معذرت کے ساتھ.

    شاعر حضرات نے زندگی کے میدان میں طبع آزمایُ کی ہے. زندگی کے تجربات اور مشاہدات کو اپنے اشعار میں بیان کیا ہے. بعض نے کھل کر اور بعض نے لطیف پیراےُ میں طنز و مزاح کے تیر برساےُ ہیں. ھجر و فراق کی باتیں کی ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ہم ان کے اشعار میں چھپی طنز، درد، حقایُق کو سمجھتے ہیں ، یا ان کی بات ہمارے سر سے گزر جاتی ہیے.
    آج میں آپ کے سامنے ایسے اشعار پیش کر رہا ہوں جو ” آدھا تیتر، آدھا بٹیر ” کی عمدہ مثال ہیں. ان اشعار میں آدھا شعر کسی دوسرے شاعر کا ہے ، اور دوسرا مصرع میری کاوش ہے. میں یہ دعوے تو نہیں کرتا کہ یہ مصرعے شاعری کی اعلے مثال ہیں، لیکن اتنے برے بھی نہیں. تو لیجیےُ اشعار سنیےُ؛

    نمبر 1 – جانتا ہوں زر پرستی اچھی نہیں
    پر طبیعت ادھر نہیں آتی
    نمبر 2 – پہلے آتی تھی ان کے وعدوں پہ ہنسی
    اب کسی بات پر نہیں آتی
    نمبر 3 – یہ کرتوت، پھر عمرے پہ عمرہ
    شرم تم کو مگر نہیں آتی
    نمبر 4 – رشوت، کمیشن اور کک بیکس
    مفت ہاتھ آےُ تو برا کیا ہے
    نمبر 5 – اٹھارویں ترمیم سے آیُین ہؤا بحال
    دل خوش کرنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
    نمبر 6 – یہ معززین اور جعلی ڈگریاں
    اب کسے راہنما کرے کویُ
    نمبر 7 – تو وزیر ہے تو کیا جانے لوڈ شیڈنگ کا عذاب
    کسی روز میرے گھر میں تو آ شام کے بعد
    نمبر 8 – سیاست میں آ کے عاقبت خراب ہو گیُ
    چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافرلگی ہویُ
    نمبر 9 – بجلی نہیں، پانی نہیں، جیب ہے خالی
    بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں
    نمبر 10 – بر طرف شدہ دوست کو ریٹایُرمنٹ دے دی
    جو بات کی خدا کی قسم لا جواب کی
    نمبر 11- یوں تو وزیر بھی ہو، مشیر بھی ہو، حساب دان بھی ہو
    تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو
    نمبر 12 – بجلی نہیں ، پانی نہیں ، باغ میں جا کر وقت گزارو
    شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
    نمبر 13 – اس قدر ٹوٹ کے ملک پہ پیار آتا ہے
    اپنی جیبیں بھریں، پھر بیچ ہی ڈالیں تم کو
    نمبر 14 – جب سے بجلی نے آنا جانا لگا رکھا ہے
    فین ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے
    نمبر 15 – حکومت سے علیحدہ نہ ہوگی ایم کیو
    یہ بازو میرے آزماےُ ہوےُ ہیں
    نمبر 16 – ریت کے بت نہ بنا اے میرے اچھے فنکار
    لہسن، انڈے، دال روٹی کی کویُ سبیل کر
    نمبر 17 – گم ہوےُ زندگی کے سب اسباب
    ایک مرگ ناگہانی اور ہے
    نمبر 18 – آےُ کچھ چرس، ایک چٹکی، کچھ شراب آےُ
    اس کے بعد آےُ جو عذاب آےُ
    نمبر 19 – آنکھ میں پانی رکھو، ہونٹوں پہ چنگاری رکھو
    ظلم سے نجات کے لیےُ سب تیاری رکھو
    نمبر 20 – یوں تو ہیں دنیا میں ہیں سخن ور بہت اچھے
    لیکن تیرے اشعار میں بکواس بہت ہے
    نمبر 21 – تو کہاں جاےُ گی کچھ اپنا ٹھکانا کر لے
    میں تو دریا میں ، سمندر میں کود جاؤں گا
    نمبر22 – مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
    مسلم ہیں ہم ، وطن نہیں ہندوستاں ہمارا
    نمبر23 – کروڑوں نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر
    کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک
    نمبر 24 – کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں
    جھوٹے وعدوں پہ ٹرخایا گیا ہوں
    نمبر 25 – حفیظ اہل وطن کب مانتے تھے
    بڑے جھرلو سے منوایا گیا ہون
    نمبر 26 – دو ہی لڈو پاس تھے میرے، میں نے کھا لیےُ وہ
    اک تیرے آنے سے پہلے ، اک تیرے جانے کے بعد
    نمبر 27 – انڈے ،چینی، دال، روٹی ڈھونڈنے جاتا توہوں
    خشک پتوں کی طرح ہر روز بکھر جاتا ہوں
    نمبر 28 – جب دیکھتا ہے اپنے عظیم محلات
    سمجھتا ہے کہ عوام کا حال اچھا ہے
    نمبر 29 – عمر ساری تو کٹی نایُٹ کلبوں میں ناچتے
    آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے
    نمبر 30 – چینی آٹا ڈھونڈتے ہو گیُ یہ حالت میری
    جیسے صحرا سے چلا آتا ہو دیوانہ کویُ

  • ہنسنا منع نہیں ہے. یقین نہیں آتا

    ہنسنا منع نہیں ہے

    عنوانات.

     ، یقین نہیں آتا2. بات تو ٹھیک ہے، 3 ، مسواک اور اُونٹ ، 4، پیغمبر اور جو کی روٹی. .5 ، جنت میں حقّہ
    .

    یقین نہیں آتا

    استاد بچوں کو کلاس روم میں حساب پڑھا رہے تھے. وہ یہ ثابت کر رہے تھے کہ 2+2  چارہوتے ہیں. اور حساب کبھی غلط نہیں ہوتا. ایک لڑکا کھڑا ہو گیا ” سر، میں کچھ پوچھنا چاہتا ہوًں “. استاد نے اجازت دے دی. لڑکے نے سوال کیا کہ اگر 10 مستری اور 10 مزدور روزانہ آٹھ گھنٹے کام کر کے ایک مکان 180 دنوں مین بنا دیتے ہیں تو کیا 9000 مستری اور 9000 مزدور وھی مکان 8 گھنٹوں میں بنا دیں گے ؟”. استاد صاحب کہنے لگے “حسابی طور پر تو ایسا ہو جانا چاہیےُ. لیکن یقین نہیں آتا.

    بات تو ٹھیک ہے
    ایک برطانوی، ایک امریکی اور ایک پاکستانی ایک جگہ بیٹھے تھے. برطانوی کہنے لگا ہمارے ملک میں کھدایُ ہویُ تو زیر زمین لوہے کے کھمبے نکلے. اس سے آپ سمجھ سکتے ہین کہ ہمارے بزرگ پیغام رسانی کے لیےُ لوہے کے کھمبوں پر تاروں کے ذریعے پیغام رسانی کرتے تھے. امریکی کہنے لگا ہمارے ہاں کھدایُ پویُ تو زیر زمین مختلف جگہوں سے تیلیفون کیبل جیسی تاریں نکلیں. اس کا مطلب ہے کہ ہمارے بزرگ پیغام رسانی کے لیےُ زیر زمین کیبل بچھا کر پیغام رسانی کرتے تھے.
    پاکستانی نے دونوں کی طرف دیکھا اور کہا ” ہمارے ملک میں کھدایُ ہویُ اور کچھ بھی نہ نکلا. اس کا مطلب سمجھتے ہو ؟. اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے بزرگ اتنے ترقی یافتہ تھے کہ وہ انترنیٹ کے ذریعے پیغام رسانی کرتے تھے”.

    مسواک اور اونٹ
    مولوی صاحب نے اپنے شاگرد سے کہا ” جاؤ ، میرے لیےُ کیکر کے درخت کی ایک مسواک لے آؤ”. شاگرد چلا گیا. تھوڑی دیر بعد وہ ایک اونٹ لیےُ مدرسہ کے باہر کھڑا تھا.مولوی صاحب نے کہا ” ارے میں نے تمہیں ایک مسواک لانے کا کہا تھا، تم اونٹ لے آےُ ” شاگرد نے جواب دیا ” استاد جی ! ساری مسواکیں اس اونٹ کے پیٹ میں ہیں. جتنی چاہیُیں ، نکال لیں “.

    پیغمبر اور جو کی روٹی
    ایک شخص نے ایک مشہور مولوی صاحب کو جمعہ کے دن واعظ کے مدعو کیا. مولوی صاحب نے وعظ میں پیغمبروں کے حالات بیان کیےُ اور فرمایا کہ تمام پیغمر سادہ غذا کھاتے تھے اور جو کی روٹی ان کی پسندیدہ خوراک ہوتی تھی. اس شخص نے یہ سوچ کر کہ جو کی روٹی پیغمبروں کی خوراک تھی ، مولوی صاحب کے لیےُ بھی جو کی روٹی بنایُ اور کھانے کے لیےُ مولوی صاحب کے آگے رکھ دی. مولوی صاحب کہنے لگے ” ارے یہ کیا میرے سامنے رکھ دیا “. وہ
    شخص گھبرا کر کہنے لگا ” حضور، آپ ہی وعظ میں فرما رہے تھے کہ جو کی روٹی پیغمبروں کی پسندیدہ خوراک تھی . میں نے سوچا آپ بھی اسے پسند کریں گے ” مولوی صاحب جلال میں آ گےُ ، فرمایا ” آرے نامعقول، تم نے ہمیں پیغمبروں میں شامل کر دیا “.

    جنّت میں حقہ
    حقہ دیہات کے کلچر کا ایک لازمی حصہ ہے. مہمان کی آپ لاکھ خاطر مدارت کریں، اگر پینے کے لیےُ حقہ نہیں دیا ، تو ساری خاطر مدارت کھوہ کھاتے چلی گیُ. وہ مہمان آپ کی تعریف اس طرح کرے گا ” اس نے حقہ پانی بھی نہیں ہوچھا ” ایک گاؤں کی مسجد میں مولوی صاحب لوگوں کے سوالات کا جواب دے رہے تھے . ایک شخص نے پوچھا ” مولوی صاحب! کیا جنت میں حقہ بھی ملے گا ؟’ مولوی صاحب نے جواب دیا ” ضرور ملے گا، لیکن حقے کے لیےُ آگ جہنم سے لانی پڑے گی “.

    جاری ہے.

  • ہنسنا منع نہیں ہے – آرزو

    ہنسنا منع نہیں ہے

    عنوانات

    1- آرزو
    2- خریداری
    3- اعتراض
    4- کورا کاغذ
    5 – پیر صاحب اور ہوٹل
    6< strong>میرا چن اُٹھیا
    7پنجابی زبان اور گورمکھی رسم الخط.

    پاکستان اور ہندوستان کے موسم تقریبآ ایک جیسے ہیں. گرمیوں میں بہت گرمی اور سردیوں میں جما دینے والی سردی ہوتی ہے. گرمیوں میں گوبند سنگھ کام کرتے کرتے پسینے میں نہا گیا. ایک درخت کے ساےُ میں بیٹھ کر کہنے لگا ” میریا ربّا ! اگر تو گرمیوں میں سردی کر دے اور سردیوں میں گرمی کر دے تو مزہ ہی آ جاےُ “.

    خریداری

    ایک شخص حلوایُ کی دکان پر آیا . حلوایُ سے جو گفتگو ہویُ وہ کچھ اس طرح تھی
    خریدار : ایک کلو لڈّو تول دو. حلوایُ نے ایک کلو لڈّو تول دیےُ
    خریدار : ایک کلو برفی تول دو. حلوایُ نے ایک کلو برفی تول دی
    خریدار : ایک کلو جلیبی تول دو. حلوایُ نے ایک کلو جلیبی تول دی
    خریدار : ایک کلو پیٹھے کا حلوہ تول دو. حلوایُ نے ایک کلو پیٹھے کا حلوہ تول دیا
    خریدار : اب ان سب کو آپس میں اچھّی طرح ملا دو. حلوایُ نے ان سب کو آپس میں ملا دیا
    خریدار : اب اس آمیزے میں سے مجھے 100 گرام دے دو
    حلوایُ نے اپنا سر پیٹ لیا. لیکن خریدار تو آخر خریدار ہی ہوتا ہے

    اعتراض

    ایک آدمی نے کسی جاؤں جانا تھا لیکن راستہ بھول گیا. سامنے آتے ہوےُ ایک دوسرے شخص سے پوچھا ” بھایُ صاحب ! میں نے چونیاں ( فرضی نام ہے ) جانا ہے” وہ شخص کہنے لگا ” چلے جاؤ. مجھے کویُ اعتراض نہیں “.

    کورا کاغذ

    مراثی کا لڑکا رنگ کا کچھ سفید تھاجبکہ مراثی خود کالے رنگ کا تھا. کسی نے اس سے پوچھا ” تمہارا رنگ تو کالا ہے، تمہارے بیٹے کا رنگ سفید ہے، اس کی وجہ کیا ہے ” ؟. مراثی نے جواب دیا ” سفید کاغذ پر آپ کالی سیاہی سے لکھیں تو وہ کاغذ کالا ہو جاتا ہے. میری بھی ایسی ہی حالت ہے. وقت نے کالی سیاہی سے لکھ لکھ کر میرا رنگ کالا کر دیا ہے. میرا بیٹا ابھی کورا کاغذ ہے. اس لیےُ اس کا رنگ سفید ہے “.

    پیر صاحب اور ہوٹل

    ایک پیر صاحب رات ٹھہرنے کے لیےُ ایک ہوٹل پہنچے. ہوٹل کے کلرک نے کہا ” اپنا نام بتایُں تا کہ میں رجسٹر میں اندراج کر سکوں ” . پیر صاحب کے چیلے نے کہا ” پیر ظریقت، رہبر انسانیّت، مجموعہ اخلاق، ظل سبحانی، حضرت ًحترم سجّادہ نشین، ظل الہی، پیر و مرشد ٍظل الہی صاحب، نقشبندی، سہروردی، گیلانی، سرحدی…” کلرک نے اپنا رجسٹر بند کیا اور کہا ” بس بس، ہمارے پاس اتنے آدمیوں کے لیےُ کمرے نہیں ہیں “.

    میرا چن اٹھیا

    مراثی عمومآ صبح جلدی نہیں اٹھتے. مقولہ مشہور ہے ” مراثیوں کی طرح دوپہر تک سوتے رہتے ہو “. مراثی کا لڑکا صبح 8 بجے اٹھ بیٹھا اس کی ماں بڑی خوش ہویُ ، ” بسم اللہ، بسم اللہ، میرا چاند آج جلدی اٹھ گیا ہے. ” لڑکا کہنے لگا ” ًماں! اتنی خوش نہ ہو، یہ چاند تو پیشاب کر کے پھر سونے جا رہا ہے “.

    ولی اللہ

    جولاہے عمومآ بہت بھولے ہوتے ہیں. ایک جولاہے کا خاندان شام کو اکٹھے کھانا کھانے لگے، تو جولاھے کی جوان بیٹی کہنے لگی ” کل ہم میں سے ایک آدمی کم ہو جاےُ گا “. رات کو وہ اپنے آشنا کے ساتھ بھاگ گیُ. صبح ناشتہ کرتے ہوےُ لڑکی کا باپ کہنے لگا ” ہماری بیٹی تو کویُ ولی اللہ تھی. اسے پہلے ہی پتہ چل گیا کہ آج ہم میں سے ایک آدمی کم ہو جاےُ گا “.

    پنجابی زبان اور گورمکھی رسم الخط

    پنجابی زبان کے الفاظ کو آپ اردو رسم الخط میں لکھ سکتے ہیں مثلآ پنجابی میں کانوں سے بہرے کو” بولا” کہتے ہیں. آپ جب اسے پڑھیں گے تو “بولا” یعنی “کہا” کا مطلب لیا جاےُ گا. جب یہی لفط “بولا” بمعنی بہرہ گورمکھی رسم الخط میں لکھا جاےُ گا تو پڑھتے وقت صحیح تلفظ ادا ہو گا. یہ خوبی صرف گورمکھی رسم الخط میں ہے کہ الفاظ کی ادایُگی کے لحاظ سے علیحدہ علیحدہ حروف موجود ہیں. جو صحیح مفہوم ادا کرتے ہیں. اس کے ساتھ ساتھ اس مین یہ خرابی بھی ہے کہ کہ ایک شخص کی گورمکھٰی رسم الخط میں لکھّی ہویُ تحریر جب کویُن دوسرا پڑھتا ہے تو وہ کچھ اور ہی مطلب نکال سکتا ہے. میں اسے ایک واقعہ کے ذریعے بیان کرتا ہوں.
    رنجیت سنگھ ( پنجاب کا حکمران) ایک سیانا حکمران تھا. اس کی دفتری زبان فارسی تھی. اس کے چیف سیکٹری کا نام عزید الدین تھا. جو ایک قابل آدمی تھا. کچھ سکھ رنجیت سنگھ کے سامنے پیش ہوےُ اور عرض کیا کہ پنجابی ہماری قومی زبان ہے . ہماری مذہبی کتاب پنجابی میں ہے. جو گورمکھی رسم الخط میں لکھی ہویُ ہے. فارسی مسلمانوں کی زبان ہے. سکھوں کی حکمرانی میں ہماری قومی زبان پنجابی کو سرکاری دفتری زبان قرار دیا جاےُ اور سارے سرکاری احکام گورمکھی رسم الخط میں لکھّے جایُں. رنجیت سنگھ نے اپنے چیف سیکریٹری عزید الدین کو بلایا اور اسے سکھوں کا مطالبہ بتایا. عزید الدین نے ان سکھوں سے کہا کہ آپ لوگ کسی ایسے سکھ کو بلایُں جو گورمکھی رسم الخط میں لکھایُ کرنے میں ماہر ہو. ایک سکھ کو بلایا گیا عزید الدین نے اس سے کہا ” گورمکھی رسم الخط میں لکھو، ” قطب الدین سلم اللہ تعالے ” سکھ نے لکھ دیا. جسے عزید الدین نے رنجیت سنگھ کے پاس رکھوا دیا. لکھنے والے کو باہر بھیج دیا مطالبہ کرنے والے گروہ سے کہا گیا کہ اب تم ایسا سکھ بلاؤ جو گورمکھی پڑھنے میں ماہر ہو. چنانچہ ایک مانے ہوےُ قابل سکھ کو لایا گیا . رنجیت سنگھ نے اسے وہ لکھا ہؤا کاغذ پڑھنے کو دیا. اس نے یوں پڑھا ” کتّا بے دین ” پھر چپ ہو گیا. رنجیت سنگھ نے کہا پڑھو. اس نے عرض کیا ” جان کی امان پاوُن تو پڑھوں’. رنجیت سنگھ نے کہا ‘ تھیک ہے تم پڑھو ، تمہیں کچھ نہیں کہا جاےُ گا” اس نے جو کچھ پڑھا وہ کچھ یوں تھا ” کتّا ،بے دین، توں میرا سالا ، میں تیرا سالا “.
    عزید الدین نے رنجیت سنگھ سے کہا ” آپ جو فرمان گورمکھی میں لکھوایُں گے، اسے پڑھنے والے کچھ سے کچھ بنا دیں گے “. رنجیت سنگھ نے فارسی زبان ہی اپنی دفتری زبان برقرار رکھی.

    سکھ بھایُ ناراض نہ ہوں. ہربولی جانے والی زبان کی لکھایُ اور اس کے تلفظ میں کچھ فرق ہوتا ہے. جیسے میں نے اوپر کی مثال میں واضح کیا ہے. یہ فرق بیان کرنے میں کسی کی دل آزاری مطلوب نہیں.

    جاری ہے.

  • خیال اپنا اپنا – ہنسنا منع نہیں ہے

    ہنسنا منع نہیں ہے.

    عنوانات
    نمبر 1. خیال اپنا اپنا.
    نمبر 2 . ہرنام سنگھ اور بحری جہاز.

    خیال اپنا اپنا.

    مختلف پرندے مختلف آوازیں نکالتے ہیں کوّا کایُیں کایُٰیں کرتا ہے، کبوتر غٹرغوں غٹرغوں کی آواز نکالتا ہے، چڑیا چوں چوں کرتی ہے. سب سے خوبصورت یا سریلی آواز کویُل کی ہوتی ہے. جو اکثر برسات کے موسم میں ہی سنایُ دیتی ہے. بھورے تیتر کی آواز میں تسلسل پایا جاتا ہے. تیتروں کی ایک نسل کالے تیتر کہلاتی ہے. اور ان کی آواز بھورے تیتروں سے بہت مختلف ہوتی ہے. پرندوں کے شوقین کالے تیتروں کو بھاری قیمت پر خرید کر انہیں پنجروں میں رکھتے ہیں. کالے تیتر عمومآ صبح اور شام کو زیادہ بولتے ہیں. اور ان کی آواز کو کیُ معنی پہناےُ جا سکتے ہیں.
    نمبر1: کالا تیتر بول رہا تھا ایک مولوی صاحب کا اس کے پاس سے گزر ہوُا تیتر کی آواز سنی ، کہنے لگے ” سبحان اللہ، تیتر کہ رہا ہے ” سبحان تیری قدرت”.
    نمبر 2: پھر ایک پنڈت کا گزر ہؤا، اس نے اپنی سمجھ کے مطابق کہا تیتر کہ رہا ہے “سیتا رام دسرتھ ” .
    نمبر 3: پھر ایک قصایُ کا گزر ہؤا، تیتر کی آواز سن کر کہنے لگا ، تیتر کہتا ہے ” سری کھروڑے کج رکھ”.

    ہرنام سنگھ اور بحری جہاز
    میں بحری جہاز پر سیلر تھا . کمپنی نے ایک نیا بحری جہاز خریداجو جاپان کی بندرگاہ فاکوکا” پر کھڑا تھا. کمپنی نے ایک دوسرے بحری جہاز سے ھم سب پاکستانیوں کو جاپان بھیج دیا. ان دنوں پاکیستانیوں کے لےُ جاپان کے لےُ ویزا نہیں تھا، ایُر پورٹ پر ہی انٹری لگ جاتی تھی. ہم ایک ہفتہ فاکوکا میں ٹھہر کر بحری جہاز کے ذریعہ ساؤتھ کوریا کی بندرگاہ انچن پہنچے. وہان سے چینی لے کر اسرایُل کے لیےُ چل پڑے. راستہ میں یونان کی ایک بندرگاہ پر ٹھہرے .کھانے پینے اور جہاز کے لیےُ ایندھن وغیرہ لیا. اس کے ساتھ عملہ کے کچھ مزید ممبر بھی آےُ. ان میں 3 سری لنکن اور دو انڈین تھے. دونوں پنجاب کے ان پڑھ کسان تھے. ایک کا نام راجندر سنگھ اور دوسرے کا نام ہرنام سنگھ تھا. دونوں ” مونے سکھ” تھے. مونے سکھ داڑھی مونچھ نہیں رکھتے. بعض کلین شیو ہوتے ہیں اور نعض نے صرف مونچھیں رکھّی ہوتی ہیں . راجندر کا اپنے گاؤں میں اپنا ٹریکٹر تھا اور اسے انجن کی کچھ سوجھ بوجھ تھی. اسے ایجن روم میں “وایُپر ” لگا دیا گیا. ہرنام کو میس بواےُ کی ڈیوٹی ملی. جہاز روانہ ہؤا موسم کاعتبار نہیں ہوتا . کسی بھی وقت تیز ہوایُیں چلنے لگتی ہیں. جو جہاز کو بری طرح ہلاتی رہتی ہیں. ایسے وقت میں جہاز کی حرکت دو طرح کی ہو سکتی ہے :
    1 – جہاز کا اگلا سرا اونچا ہو جاتا ہے اور پچھلا سرا نیچے ہو جاتا ہے. اور پانی کی لہر گزرنے پر اگلا سرا نیچا اور پچھلا سرا اوپر اتھ جاتا ہے. جہاز کی یہ حرکت بڑی خطرناک تصّور کی جاتی ہے. اس میں جہاز کے درمیان سے دو ٹکڑے ہونا کا خدشہ رہتا ہے.
    2 – دوسری صورت میں جہاز کبھی دایُں اور پھر بایُں طرف جھولے کی طرح جھولتا ھے. یہ حرکت اتنی خطرناک نہیں ہوتی.
    جو آدمی پہلی دفعہ بحری جہاز میں سفر کرے یا ملازمت کے لیےُ آےُ، تو اسے زبردست قسم کی الٹیاں شروع ھو جاتی ہیں،. ھرنام سنگھ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہؤاوہ اپنے کیبن میں جا کر لیٹ گیا، اور الٹیان کرتا رہا. میں اسے تسلّی دینے کے لیےُ اس کے پاس گیا. اسے تسلّی دی کہ شروع میں ایسا ہوتا ہے، آنُدہ سے تم اس کے عادی ہو جاؤ گے. وہ اس ایجنٹ کو گالیان دینے لگا جس کے زریعے اسے بحری جہازپر نوکری ملی تھی. ہرنام کے الفاظ یہ تھے :
    ” حرامزادے ایجنٹ نے ہمیں دھوکا دیا. وہ کہتا تھا بحری جہاز کے بڑے بڑے پہیے ہوتے ہیں . واہ گورو کی قسم، اگر مجھے پتہ ہوتا کہ  جہاز نے سمندر         میں چلنا ہے ، تو میں کبھی بھی یہ ملازمت قبول نہ کرتا” .

  • ہنسنا منع نہیں ہے. شراکت

    ہنسنا منع نہیں ہے،
    عنوانات :
    نمبر 1 – شراکت
    نمبر 2 – تشریح

    شراکت.

    دیہات میں مویشیوں میں شراکت عام ہے. جس کے کچھ اصول ہیں. مثلا ایک شخص کے پاس بہت سی بھینسیں ہیں . تو بھینسوں والا اپنے ایک بھینس اپنی پڑوسی یا کسی ایسے شخص کو دے دیگا جس کے پاس اپنی بھینص نہ ہو. وہ شخص بھینس کو اپنی بھینس سمجھ کر اسے چارہ وغیرہ ڈالے گا. بھینس کے حاملہ ہونے کے بعد اس کا بچہ کٹی یا کٹا پڑوسی کی ملکیت تصوّر ہوگی. بھینس جب تک دودھ دیتی رہے گی، وہ پڑوسی کا ہوگا. اس طرح یہ سلسلہ چلتا رہے گا. وقت کی میعاد باہمی رضامندی سے طے ہوتی ہے. مقررہ وقت کے بعد مالک اپنی بھینس واپس لے سکتا ہے. دیہات میں ایک دوسرے کی مدد کی ایک عمدہ مثال ہے.
    لوگ گھروں مین مرغیاں پالتے ہیں، ان سے انڈے حاصل کرتے ہیں. مہمانوں کی تواضع کے لےُ انہیں ذبح بھی کر لیتے ہیں. ان مرغیوں میں بھی شراکت ہوتی ہے. لیکن تھوڑے سے مختلف اصولوں پر. مرغی کو شراکت پر لینے والا مرغی کو دانہ دنکا کھلاےُ گا. اسے اپنے گھر میں حفاظت سے رکھے گا. مرغی کے انڈوں سے جب بچےّ نکلتے ہیں تو ان میں سے آدھے بچّے مرغی کے اصل مالک کی ملکیت تصوّر ہوتے ہیں. اور وہ انہیں کسی وقت بھی لے سجتا ہے.
    غلام محمد ترکھان کی پڑوسن کے پاس بہت ساری مرغیاں تھیں. غلام محمد نے اس سے ایک مرغی نصف نصف کے معاہدے پر لی. ایک ہفتہ بعد اس نے مرغی کو ذبح کر کے اس کا نصف گوشت اپنی پڑوشن کو دیا. پڑوشن نے پوچھا ” گوشت کس خوشی میں دے رہے ہو ” غلام محمد نے جواب دیا ” وہ مرغی نصف نصف کے معاہدہ پر تم سے لی تھی . یہ آدھا حصہ تمہارا ہؤا. ” .

    تشریح
    آپ نے بعض موٹے سے آدمیوں کو دیکھا ہو گا. جن کے کپڑوں پر مختلف رنگوں کے کپڑوں کے پیوند لگے ہوں گے. ( ویسے یہ پیوند ضروری نہیں ) ، بڑے بڑے بال کاندھوں تک، گلے میں مختلف رنگوں کی مالایُں اور ہاتھ میں تقریباّ 4 فٹ کا ایک ڈنڈا ہوتا ہے. جو نیچے سے موٹا اور اوپر سے بتدریج پتلا ہوتا جاتا ہے. اس ڈنڈے پر مختلف رنگوں کی دھاریاں ہوتی ہیں. اسے یہ لوگ ” مطہر” کا نام دیتے ہیں یہ لوگ اپنے آپ کو ” ملنگ ” کہتے ہیں. مذہبی احکام تو شاید ہی بجا لاتے ہوں لیکن ہلکا نشہ ضرور کرتے ہیں. میں نے ایک ایسے ہی ملنگ سے پوچھا ” تم ہر وقت یہ مطہر اپنے ساتھ کیون رکھتے ہو ؟ کیا تمہیں کسی سے خطرہ ہے ؟’ اس نے مجھے اپنی لال لال آنکھوں سے گھورا ، جیسے میں نے کویُ غلط سوال پوچھ لیا ہو. پھر کہنے لگا ” بچّہ، یہ مطہر بڑی متبرک چیز ہے” میں حیران ہؤا اور پوچھا ” یہ مطہر متبرک کیسے بن گیا ” ملنگ نے ناصحانہ انداز میں کہا ” اس مطہر کا ذکر اللہ نے اپنے کلام قرآن میں کیا ہے ” میری حیرانگی دوچند ہو گیُ. میں نے پوچھا ” قرآن میں اس کا ذکر کہان پر ہے ” ملنگ ہنسا جیسے میری لا علمی پر اسے افسوس ہؤا ہو. پھر اس نے کہا ” قرآن پڑھو، اس میں اللہ نے کیُ جگہ فرمایا ہے ” ازواج مطہرۃّ ” .

  • ہنسنا منع نہیں ہے – دعا

    ہنسنا منع نہیں ہے.

    عنوانات

    نمبر 1 – دُعا.

    نمبر 2 – وجہ. نمبر 3 ناشکرےنمبر 4 . خوش آمدید نمبر 5 – اختصار .نمبر 6 . آحتیاط 

    دُعا

    ہم ہر وقت اللہ سے دعا کرتے رہتے ہیں ، اس یقین کے ساتھ کہ اللہ ہماری دعایُں قبول کرتا ھے. وہ دعا ضرور قبول ہوتی ہے جسے صدق دل اور یقین کامل سے مانگی جاےُ. ہماری دعایُں قبول کیوں نہیں ہوتیں؟ کیونکہ ہم دعا یکسویُ سے نہیں مانگتے. ہماری زبان سے دعا کے الفاظ تو نکل رہے ہوتے ہیں لیکن دماغ میں کچھ اور باتیں چل رہی ہوتی ہیں.
    مسجد میں نماز کے بعد لوگ اپنی اپنی دعایُں مانگ رہے تھے. ایک شخص دعا مانگ رہا تھا ” مجھے ایمان کی سلامتی عطا فرما”. اس کے ساتھ ایک مراثی بیٹھا تھا جو یہ دعا مانگ رہا تھا ” یا اللہ مجھے بہت ساری دولت عطا فرما” ( عمومآ مراثی مسجد میں کم ہی جاتے ہیں ). ساتھ والے آدمی نے مراثی کو ٹھونکا مارا اور کہا ” یہ کیا دعا مانگ رہے ہو. اللہ سے اس کی بخشش اور ایمان کی سلامتی کی دعا مانگو.” مراثی نے جواب دیا. ” بھایُ صاحب ! جس کے پاس جو چیز کم ہو وہی مانگی جاتی ہے.”

    وجہ

    بعض لوگ پیداشُی طور پر رونی صورت والے لگتے ہیں. وہ لاکھ چاہیں کہ چہرے پر مسکراہٹ سجا کر رکھیں لیکن ان کے لےُ یہ ممکن ہی نہیں. ایسے ہی ایک شخص کو ایک اجنبی ملا جو اس کی اس بیماری سے ناواقف تھا. اس نے اس سے پوچھا ” بھایُ ! آپ نے رونی شکل کیوں بنا رکھی ہے ؟. اس شخص نے جل بھن کر یہ جواب دیا ” میں محرم کے مہینے میں پیدا ہوُا تھا”.

    ناشکرے

    اللہ کی دی ہویُ نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیُے . اللہ شکر کرنے والوں کو اور دیتا ہے. مگر کچھ لوگوں کا اس بارے میں فلسفہ کچھ اور قسم کا ہے.
    ایک پٹھان کہ رہا تھا ” یہ پنجابی لوگ بھی عجیب ہیں . دال کھاتے ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں. اللہ سمجھتا ہے یہ دال پر ہی خوش ہیں اور انہیں دال ہی دیتا رہتا ہے. ہماری طرف دیکھو، ہم گوشت کھاتا ہے پھر بھی شکر ادا نہیں کرتا، اور مجھے کھانے کو روزانہ گوشت مل جاتا ہے “.

    خوش آمدید

    کرتارپور راہداری کے کھولنے کے دن انڈیا کے سابق وزیر اعظم جناب من موہن سنگھ کو بھی مدعو کیا گیا ہے. بڑی اچھی بات ہے. انہیں خوش آمدید کہنے کے لےُ میری ایک تجویز ہے.
    جس دن جناب من موہن سنگھ کرتار پور کے نزدیک آ چکیں ، تو وینا ملک ایک پنجابی فلم کے مشہور گانے کے یہ بول گانا شروع کر دے :

    وے سب توں سوہنیا
    ہاےُ وے من موہنیا

    تو امید کی جاتی ہیں من موہن سنگھ اپنے اس بے نظیر استقبال پر بہت خوش ہوں گے. لیکن ایک احتیاط بہت ضروری ہے. اس گانے کے اگلے بول نہ گاےُ جایُں جو کچھ یوں ہیں :

    میں تیری ہو گیُ
    پیار وچ کھو گٰیُ

    ایسا نہ ہو کہ من موہن سنگھ چوڑے ہو جایُں اور لینے کے دینے پڑ جایُں.

    اختصار

    مختلف علاقہ جات کی اپنی اپنی روایات ہوتی ہیں. مثلآ لاہور کے ویگن ڈرایُور دور سے ہی پہچان لیتے ہیں کہ فلاں شخص کسی ویگن میں سفر کرے گا . وہ شخص ابھی دور ہی ہو گا کہ ویگن ڈرییُور اس سے پوچھے گا ” بھایُ جی، جانا جے “. یہ رویّہ تقریبآ ہر ویگن ڈرایُور کا ایک جیسا ہوتا ہے.
    راولپیندی والے اس معاملے میں بڑے اختصار پسند ہوتے ہیں. وھاں کا ڈرایُور صرف ایک لفظ بولے گا “جلسو‌”.
    یہ رویّہ صرف ہمارے ملک میں ہی نہیں .کسی یونانی سے پوچھا جاےُ کہ کھانا کھاؤ گے ؟ اگر اس نے کھانا نہ کھانا ہو تو وہ زبان سے کچھ نہیں کہے گا . اپنے ابرواور سر کو تھوڑا سا اوپر اٹھا دے گا. بعض منہ سے مدھم سی چچ کی آواز بھی نکال دیتے ہیں.

    احتیاط

    یہ اس زمانے کی بات ہے جب ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت تھی. اس وقت حکومت کے پاس موٹر کاریں بہت کم ہوتی تھیں . اور حکومتی افسراں گھوڑوں پر بیٹھ کردوروں پر جایا کرتے تھے. ایک تحصیلدارنے کسی جگہ کا دورہ کرنا تھا . تیار ہو کر گھوڑے پر بیٹھا اور اپنے اردلی سے پوچھا ” میرا ہیٹ کہاں ہے ؟ ” اردلی نے کہا ” سر، ہیٹ تو آپ نے سر پر پہنا ہوُا ہے ” . تحصیلدار نے سر پر ہاتھ لگا کر ہیٹ کی موجودگی کو یقینی بنایا اور کہا ” احتیاط لازمی ہے ”
    یہ سارا قصّہ سنانے کا اصل مقصد یہ ہے کہ دوسرے ملکوں میں آپ کو چھوٹی چھوٹی باتوں میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہو گی. چند مثالیں یہ ہیں ؛
    1 –
    ہمارے ملک میں کھانا کھانے یا لسّی پینے کے بعد زور سے ڈکار لینے کو معیوب نہیں سمجھا جاتا. لیکن یورپ میں زور سے ڈکار لینے کو نہت معیوب سمجھا جاتا ہے. اگر کسی محفل میں آپ نے زور سے ڈکار لیا تو حاضرین محفل منہ سے شاید کچھ نہ کہیں ، لیکن وہ محفل سے اٹھ جایُں گے. وہ سمجھتے ہیں کہ ڈکار غلط راستے سے آیا ہے.
    2 –
    ہمارے ہاں یار دوست چلتے ہوےُ ایک دوسرے کے کاندھوں پر ہاتھ رکھ لیتے ہیں .اور اسے دوستی کی علامت سمجھا جاتا ہے. اگر آپ سپین میں ہیں تو کبھی بھی کسی سپینش کے کاندھے پر ہاتھ نہ رکھےُ گا. ان کے ہاں اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ آپ ہم جنس پرست ہیں اور کسی مفعول کی تلاش میں ہیں.
    3 –
    یونان کے لوگ کسی محفل میں کسی کے رقص پر خوش ہو کر کرنسی نوٹ کو آگ لگا کر رقاص پر نچھاور کرتے ہیں. ایسا ہی ایک واقعہ ہمارے ساتھ برازیل میں پیش آیا. ایک بار میں ہمارا ایک یونانی ساتھی ترنگ میں آ کر رقص کر رھا تھا. ان کا رقس بھی عجیب طرح کا ہوتا ہے. کھڑے کھڑے دونوں ہاتھ سامنے 90 ڈگری پر رکھ کر دایُں بایُں تھرکیں گے پھر اپنی داہنی ٹانگ کو اوپر اٹھا کر پاوُں کے انگوٹھے کو ہتھیلی سے مس کریں گے. یہ ذرا مشکل کام ہے . یونانی کے رقص سے خوش ہو کر دوسرے یونانی نے برازیل کے کرنسی نوٹ کو آگ لگا کر رقاص پر نچھاور کر دیا. وہاں پر موجود برازیلی لوگوں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا کہ ہماری کرنسی کو آگ لگا کر ہمارے ملک کی توہین کی ہے. کافی تگ و دو کے بعد ہم انہیں یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوےُ کہ یونانی نے کسی توہین کی خاطر یہ کام نہیں کیا. ان سے معافی مانگ کر معاملہ رفع دفع ہوُا.
    آپ ایسے معاملوں میں حد درجہ احتیاط کو ملحوظ رکھیں.

  • Adhoora Sawal – Pehchan – ہنسنا منع نہیں ہے.

    ہنسنا منع نہیں ہے.

    عنوانات :
    نمبر 1 : ادھُورا سوال
    نمبر 2 : پہچان

    ادھورا سوال

    بعض لوگوں میں ایک اچھی یا بری عادت ھوتی ہے کہ وہ صرف اسی بات کا جواب دیتے ہیں جو پوچھی جاےُ. یا ادھورا سوال پوچھتے ہیں ، جبکہ اس کے ساتھ جڑے ہؤےُ دوسرے سوال کا پوچھنا بھی ضروری ہوتا ہے. میں اپنا مدعا ایک مثال کے ذریعہ واضح کرتا ہوں :
    یونانی فلسفی بقراط اپنے مکان سے تھوڑی دور چہل قدمی کر رہا تھا. اس سے ایک آدمی نے پوچھا ” بھایُ صاحب، بقراط کا گھر کس طرف ہے ” بقراط نے جواب دیا ” سیدھے چلے جایُے ، اگلے چوک سے دایُں طرف مڑ جایُں، اپنے داہنے ہاتھ مکان گنتے جایُں ، آتھواں گھر بقراط کا ھے. ” . وہ شخص بتاےُ ہوےُ پتہ پر پہنچا اور کہا میں نے بقراط سے ملنا ہے. گھر والوں نے بتایا کہ بقراط گھر سے باہر نکلا ہوا ہے تھوڑی دیر تک آ جاےُ گا. آپ انتظار کر لیں. تھوڑی دیر بعد بقراط گھر آ گیا. اس آدمی نے کہا کہ میں نے بقراط سے ملنا ہے. بقراط نے کہا ” فرماٰیےُ ، میں ہی بقراط ہوں “. وہ آدمی بولا ” اگر آپ بقراط ہیں ، تو جب میں آپ سے ملا ، اس وقت آپ نے کیوں نہ بتایا کہ میں بقراط ہوں ” بقراط نے جواب دیا ” بھایُ، آپ نے بقراط کے گھر کا پتہ پوچھا ، وہ میں نے آپ کو بتا دیا، اگر آپ پوچھتے بقراط کہاں ملے گا تو میں آپ کو بتاتا کہ میں ہی بقراط ہوں”.

    ہمارے گاؤں میں بھی کچھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا.
    رحمت خاں عرف رحماں کی بھینس بیمار ہو گیُ، وہ غلام ً محمد عرف گاماں کے پاس آیا اور اس سے پوچھا ” تمہاری بھینس بیمار ہویُ تھی ، تم نے اسے کون سی دوایُ دی تھی ؟ ” گاماں نے جواب دیا ” میں نے ایک پاؤ کالا نمک، ایک پاؤ پرانا گڑ، ایک چھٹانک ادرک، ایک پاؤ گلقند ، ایک پاؤاجوایُن دیسی، ایک پاؤ سونف کو کوٹ چھان کر ایک پاؤ دیسی گھی میں اچھی طرح ملا کر اس کے لڈو بناےُ اور بھینس کو کھلا دےُ ”
    رحماں نے سب دوایُں لیں اور بتاےُ ہوےُ طریقہ کے مطابق بھینس کو کھلا دیں. دوسرے دن اس کی بھینس مر گیُ.
    رحماں، گاماں کے پاس آیا اور کہا ” میں نے تمہاری بتایُ ہویُ دوایُاں بھینس کو کھلایُں اور میری بھینس مر گیُ”
    گاماں نے جواب دیا ” بھینس تو میری بھی مر گیُ تھی “

    پہچان

    ایک لڑکا امام مسجد ، جو کہ نا بینا تھے، کے پاسس کھیر کی ایک پلیٹ لایا. حافظ صاحب اور لڑکے کے درمیان گفتگو کچھ اس طرح کی ہویُ :
    حافظ صاحب ؛ ہاں بیٹا، یہ کیا ہے ؟
    لڑکا : حافظ صاحب، یہ کھیر ہے، آپ کی لیےُ لایا ہوں.
    حافظ صاحب: اچھا ، کھیر ہے. بتاؤ کھیر کس رنگ کی ہوتی ہے ؟.
    لڑکا : جناب ، کھیر کا رنگ سفید قمیض کی ظرح ہوتا ہے.
    حافظ صاحب: اچھا اچھا، سمجھ گیا. سفید قمیض کا رنگ ایسا ہوتا ہے جیسے نیلے تہ بند کا ھوتا ہے.

  • آکسیجن

    آکسیجن

    آکسیجن

    اوپر دی گیُ تصویر ایک ھونہار نوجوان عبد الرحمان راجپوت کی ہے. ان کی ایک چھوٹی سی تحریر فیس بک میں پوسٹ ھؤیُ. مجھے یہ تحریر بہت پسند آیُ.میں نے راجپوت صاحب سے خصوصی اجازت لی کہ میں اسے اپنی ویب سایُٹ کے کالم ” ہنسنا منع نہیں ہے ” میں اپ لوڈ کر لوں. راجپوت صاحب نے اس کا عنوان نہیں لکھا . میں نے اہنی طرف سے اس کا عنوان ” آکسیجن ” تجویز کیا ہے. تحریر یہ ہے :
    ” اس نے کہا – میرے بغیر جی لو گے…………..
    میں نے کہا- آہو… ایڈی توں آکسیجن ………..”

    بظاہر 13 الفاظ پر مشتمل یہ ایک چھوٹی سی تحریر ہے لیکن لڑکے کا جواب عام جوابات کی بہ نسبت بہت ہٹ کر ہے.اور یہی اس کی انفرادیت ہے. پتھر کو پتھر تو سبھی کہتے ہیں ، اگر آپ اسے قلب کوہسار کی قاش کہ دیں پورا ہجوم جھوم اٹھے گا. یہی نکتہ اس تحریر میں ہے.
    جدایُ کا دکھ اور غم ضرور ہوتا ہے ، لیکن اسے روگ بنا لینا کہاں کی عقلمندی ہے .ناصر کاظمی نے کہا تھا :
    بچھڑ چکے ہیں بہت لوگ ایک تم بھی سہی
    اب اتنی بات پہ کیا زندگی حرام کریں
    یہی بات راجپوت صاحب نے اپنے 4 لفظوں پر مشتمل جواب میں نہیایت خوبصورت اور “ڈاکٹرانہ ” انداز میں بیان کی ہے. ایک اور بات جو ان کی تحریر میں پوشیدہ ہے وہ ہے اپنی خودانحصاری کا اظہار. یعنی ” کیا تم کویُ آکسیجن ہو جو اپنی زندگی کے لےُ تمہارا محتاج رہوں گا ” اور یہ جواب کامیاب ازدواجی زندگی کا راز ہے. ایک مشہور لکھاری کا ایک انٹرویو ٹی وی پر دیکھا( ان کا نام بھول گیا ہوں ) انہوں نے بتایا کہ ” شادی کی پہلی رات کو ہم میاں بیوی باتیں کر رہے تھے. اچانک بیوی نے فرمایُش کر دی ” ایک گلاس پانی تو لا دیجےُ ” میں نے جواب دیا ” بھلیےُ لوکے، وہ سامنے میز پر پانی کا جگ اور گلاسس پڑا ہے ، اٹھو جا کر پانی پیُو اور میرے لےُ بھی پانی کا ایک گلاسس لیتے آنا ” بیوی نے اٹھ کر پانی پیا اور میرے لےُ بھی پانی لے آیُ. پھر میری بیوی نے مجھ سے پوچھا ” آپ کو پتہ ہے میں نے آپ سے پانی لانے کی فرمایُش کیوں کی تھی ” میں نے کہا نہیں. کہنے لگی ” میری ماں نے مجھے کہا تھا کہ شادی کی پہلی رات کو اپنے خاوند سے پانی لانے کی فرمایُش کرنا. اگر وہ اٹھ کر تمہارے لےُ پانی لے آیا تو وہ ساری عمر تمہارا تابعدار رہے گا. اگر وہ پانی نہ لایا تو تم اپنی حدود میں رہنا ” لکھاری کے مطابق اس ایک بات نے میاں بیوی کی حدود متعین کر دیں اور ان کی ازدواجی زندگی نہایت کامیاب ہے.
    راجپوت صاحب نے بھی یہاں حدود مقرر کر دی ہیں اور یہی چیز ان کی تحریر کو منفرد بناتی ہے.

  • Logic – Extremity – ہنسنا منع نہیں ہے.

    ہنسنا منع نہیں ہے.

    عنوانات

    نمبر 1 – منطق
    نمبر 2 – انتہا

    منطق

    فلسفہ کی ایک شاخ کو منطق کہتے ہیں. منطق اصل میں الفاظ یا واقعات کے الٹ پھیر کا نام ہے. چلےُ ، میں آپ کو منطق کی ایک مثال دیتا ۃوں ؛

    پروفیسر اکرم صاحب ایک کالج میں منطق پڑھایا کرتے تھے. کالج جاتے ہوےُ راستہ میں شیدے حلوایُ کی دکان تھی ، جسے یہ پتہ تھا کہ پروفیسر صاحب کسی کالج میں منطق کا مضمون پڑھاتے ہیں. وہ انہیں آتے جاتے کہتا ” پرہفیسر صاحب
    مجھے بھی منطق سکھا دیں ” پرہفیسر ساحب کہتے ” اچھا یار سکھا دو‌ں گاا”

    شیدے حلوایُ کے روزانہ منطق سکھانے کے مطالبے سے تنگ آ کر پروفیسر صاحب نے کہا ” اچھا ، آج سے میں منطق سکھانا شروع کر دیتا ہوں” یہ کہ کر وہ اپنے گھر کو چل دےُ. تھوڑی دور جا کر واپس آےُ اور شیدے سے کہا ”
    شیدے پہلوان، ایک کلو جلیبی تو دے دو. پیسے تنخواہ ملنے پر دے دوں گا ”
    شیدے نے ایک کلو جلیبی تول کر دے دی. پروفیسر صاحب جلیبی لے کر چل دےُ
    تھوڑی دور جا کر واپس آ گےُ اور شیدے سے کہا ” یہ جلیبیاں رکھ لو اور اس بدلے مجھے ایک کلو برفی دے دو. شیدے نے جلیبیاں واپس لے لیں اور ایک کلو برفی دے دی. پروفیسر صاحب برفی لے کر چل دےُ. تھوڑی دور جا کر واپس آےُ
    اور برفی کے بدلے لڈو لے کر چلے گےُ.
    مہینہ گزر گیا پروفیسر صاحب نے پیسے نہ دےُ. شیدے نے پیسوں کا پوچھا . ان کی آپس میں گفتگو کچھ اس طرح ھویُ ؛
    شیدا — پروفیسر صاحب، آپ کی طرف کچھ پیسے نکلتے ہیں.
    پروفیسر صاحب. — بھایُ ، کون سے پیسے ؟
    شیدا —-وہ آپ ایک کلو لڈو لے گےُ تھے.
    پرہفیسر صاحب. – وہ لڈو تو میں نے برفی کے بدلے لےُ تھے.
    شیدا — اچھا ، برفی کے پیسے دے دیں.
    پروفیسر صاحب – برفی تو میں نے جلیبیوں کے بدلے لی تھی.
    شیدا — اچھا. آپ جلیبیوں کے پیسے دے دیں.
    پروفیسر صاحب .– بھیُ، جلیبیاں تو میں نے لی ہی نہیں. پیسے کس بات کے دوں.

                                                                انتہا

    آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے

    پنجاب کے تقریبآ ھر گاوُں میں ایک دوسرے کی دشمن دو پارٹیاں ہوتی تھیں. یہ دشمنی قتل    تک بھی پہنچ جاتی تھی. اور اس طرح دشمنی کی بنا پر نسل در نسل قتل ھوتے رہتے. یہ دشمیاں کیسے شروع ہویُں ؟ پتہ چلتا ہے کہ ہر دشمنی کا بیج زر، زن اور زمین کے بطن سے ہی پھوٹتا ہے. اب وہ پہلے والی بات نہیں رہی. لوگ پڑھ لکھ کر سمجھدار ہو گےُ ہیں     اور   پرانے زمانے کی دشمنیاں بھی کم ہو گیُ ہیں

    میں پچاس ساٹھ سال پہلے والے ماحول کی بات کر رہا ہوں.

    ضلع سرگودہا کے ایک گاوُں میں ایسی ہی دو پارٹیاں تھیں جو ایک دوسرے کے خون کی پیاسی تھیں. ایک پارٹی گاوُں کے مشرق اور دوسری مغرب کی طرف رہتی تھی. پرانے رواج کے مطابق گاؤں میں ایک ہی مسجد تھی جو مشرقی حصہ میں تھی. جو مغربی پارٹی کے لےُ شجر ممنوعہ بن گیُ. انہوں نے مغرب کی طرف ایک نیُ مسجد بنا لی.

    اذان کے بعد ایک خاص دعا پڑھی جاتی ہے، جو اکثر لوگوں کو یاد نہیں . وہ اذان کے نعد کلمہ شہادت پڑھ لیتے ہیں. ایک دن مغربی پارٹی کا ایک آدمی مغرب سے پہلے گھر آ گیا. اتنے میں مشرقی مسجد میں اذان ہونے لگی. اذان ختم ہونے پر اس کی بوڑھی ماں نے کلمہ شہادت پڑھا. اس آدمی کو غصہ آ گیا. اس نے ماں کو مارا اور کہا ” تم نے ہمارے دشمنوں کی مسجد کی اذان پر کلمہ کیوں پڑھا. کیا ہماری مسجد میں اذان نہیں ہونی تھی ؟”

  • Aameen – Laughing Allowed

    ہنسنا منع نہیں ہے.

      :عنوانات

    .  1          ہنسی علاج غم ہے.

    2. آمین.

    ہنسی علاج غم ہے

     

    انسانی زندگی مین خوشی اور غم ساتھ ساتھ چلتے ہیں. بعض خوشیوں کے زایُل ہونے پر انسان پر غمگینی طاری ہو جاتی ہے. یہ حالت دیر تک رہے تو نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے. اس حالت میں اگر کسی بات پر ہنسی آ جاےُ تو انسان کو ، چاہے تھوڑی دیر کے لےُ ، غم  سے نجات مل جاتی ہے.

     ادارہ نے” ہنسنا منع نہیں ہے” کے زیر عنوان ایک نیا سلسلہ شروع کیا ہے۔ امید کی جاتی ہے غمگین حضرات کو، کچھ وقت کے لےُ ہی سہی، غم کو بھلانے کا ذریعہ بنے گا۔

    اگر آپ کے پاس بھی کویُ ایسی بات، لطیفہ ہے جو لوگوں کو ہنسا سکے، تو آپ یہ ہمیں ای میل کر دیں . یہ لطیفہ :
    – کسی کی دل آزاری کا باعث بننے والا نہ ہو.
    – کسی کی ذات پر حملہ نہ ہو.
    – تہذیب کے دایُرے میں ہو.
    – لطیفہ کے ساتھ متعلقہ تصویر بھی بھیج سکتے ہیں.
    یہ لطیفہ اس سے پہلے کہیں شایُع نہ ہوُا ہو. لطیفہ آپ کے نام ( اور تصویرکے ساتھ، اگر آپ پسند کریں ) شایُع کیا جاےُ گا. ادارہ کسی بھی لطیفہ کو رد کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے.

    آمین

    ہم بہ حیثیت قوم تھوڑے سے جاہل واقع ہوےُ ہیں. کویُ بھی شعلہ بیان زور دار تقریروں اور جھوٹ سے ہمیں اپنے پیچھے لگا سکتا ہے. ہم نے کیُ لیڈر آزماےُ ، لیکن بہ قول مرزا غالب :

    چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہ رو کے ساتھ
    پہچانتا نہیں ہوں ابھی رہبر کو میں

    مندرجہ بالا حقیقت کا مظاہرہ کل مسجد میں جمعہ کی نماز کے بعد ہؤا. مسلمان عمومآ جمعہ کی نماز لازمی پڑھتے ہیں، چاہے باقی نمازیں نہ پڑھتے ہوں. اس
    لےُ جمعہ کے دن مسجدوں میں کافی نمازی ہوتے ہیں. پچھلے جمعہ کو امام صاحب نماز کے بعد بلند آواز سے دعا مانگ رہے تھے ، اور نمازی زور سے
    آمین کہ رہے تھے. منظر کچھ یوں تھا :
    امام صاحب ؛ یا رحیم ہم پر رحم فرما.
    نمازی حضرات: آمین
    امام صاحب : یا رب، یا غفار، ہمارے گناہوں کو بخش دے.
    نمازی : آمین
    امام صاحب ؛ یا رب، امت مسلمہ پر رحم فرما.
    نمازی : آمین
    امام صاحب: یا غفار، ہم سب گنہگار ہیں ہم پر نظر کرم فرما. اور پھر یہ
    مصرعہ پڑھا
    خوار ہیں بدکار ہیں، ڈوبے ہوےُ ذلت میں ہیں
    ںمازی بلند آواز سے بولے :   آمین