Category: ارد گرد

  • ہمارے سُلگتے مسایُل # 18 –   سیلاب  -Our burning Issues # 18 – Floods

    ہمارے سُلگتے مسایُل # 18 – سیلاب -Our burning Issues # 18 – Floods

    ہمارے سُلگتے مسایُل # 18- سیلاب
    Our burning Issues # 18 – Floods

    سیلاب ٍ
    Floods.

    گو کہ ہم خود سیلاب نہیں لا سکتے، اور نہ ہم میں یہ طاقت ہے کہ ہم اپنی مرضی سے جہاں چاہیں ، سیلاب لے آیُیں، لیکن پچھلے تین چار سال سے ملک میں بارشوں کی کثرت سے سیلانوں کی تباہ کاریوں میں بہت اضافہ ہُؤا ہے. بعض علاقوں سے پچھلے سال آنے والے سیلابوں کا پانی ابھی تک خُشک نہیں ہُؤا، کہ اس سال سیلابوں نے مزید تباہی مچا دی . سیلابوں کا زیادہ تر زور صوبہ بلوچستان اور سندھ میں ہوتا ہے ، صوبہ سندھ اس لیےُ زیادہ  متاثر ہوتا ہے کہ بارشوں اور سیلابوں کا بہاؤ صوبہ سندھ سے گزرتا ہُؤا سمندر میں جا گرتا ہے.

    .عنوانات

    سیلاب کیوں آتے ہیں ؟
    سیلابوں سے تباہی.
    سیلابوں سے بچاؤ

    سیلاب کیوں آتے ہیں ؟

    اپنے ملک میں برسات کا موسم عمومآ 15 جون سے لے کر 15 اگست تک ہوتا ہے. لیکن پچھلے چند سالوں سے ان تاریخوں میں تبدیلی آ چُکی ہے. آج سے 6 یا 7 سال پہلے تک اتنی زیادہ بارشیں نہیں ہوتی تھیں. اب کچھ موسمی تغیرات کی وجہ سے پہلے کی نسبت بارشیں بہت زیادہ ہو رہی ہیں. ایسا کیوں ہو رہا ہے ؟ صحیح وجوہات تو سایُنس دان یا محکمہ موسمیات کے ماہرین ہی بتا سکتے ہیں. ہمیں تو اتنا پتہ ہے کہ اپنے ملک کی آب و ہوا پچھلے سالوں کی بہ نسبت بہت گرم ہو چکی ہے. پچھلے سالوں کی بہ نسبت بارشیں بہت زیادہ ہو رہی ہیں، اور اسی وجہ سے سیلابوں کی تُندی اور تباہی بھی بڑھ چُکی ہے. اب یہ تبدیلیاں انسانی بس میں نہیں. آج سے پچیس تیس سال پہلے سعودی عرب میں شازو نازر ہی بارش ہوتی تھی. آج کل وہاں کییُ علاقوں میں برف باری ہُوتی ہے. یہ سب کچھ اُس قادر مطلق کے ہاتھ میں ہے جو سب جہانوں کا خالق ہے.

    بعض پڑھے لکھے لوگ ان تبدیلیوں کی وجہ یہ بتاتے ہیں ، کہ ہماری زمین بہت آہستگی سے اپنی بایُیں طرف سرک رہی ہے. زمین کی یہ حرکت کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ زمین کا موجودہ شمالی قطب ہزاروں سال بعد جنوبی قطب بن جاےُ گا اور موجودہ جنوبی قطب شمالی قطب بن جاےُ گا. سایُنس دانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ زمین کی اس تبدیلی میں 10 ہزار سال کا عوصہ لگتا ہے.

    اندازہ لگایا گیا ہے کہ موجودہ موسمیاتی تبدیلیاں بھی شاید زمین کی اسی حرکت کی وجہ سے وقوع پزیر ہو رہی ہیں. واللہ اعلم . ہمیں تو یہ پتہ ہے کہ آج کل کا موسم آج سے 100 سال پہلے کی نسبت زیادہ گرم ہے. اور پچھلے سالوں کی بہ نسبت بارشیں زیادہ ہو رہی ہیں . جس کی وجہ سے سیلاب   بھی زیادہ آ رہے ہیں.

    سیلابوں سے تباہی

    جب پہاڑوں اور میدانوں میں بارشیں زیادہ عرصہ تک اور زور دار ہوں ، تو خُشک زمین کچھ پانی اپنے اندر جذب کر لیتی ہے. لیکن اس جذب ہونے والے پانی کی مقدار ہہت کم ہوتی ہے. ذیادہ بارشوں کی صورت میں پانی اپنی ڈھلان کی طرف بہنے لگتا ہے. زیادہ پانی جب سیلاب کی شکل اختیار کرتا ہے ، تو اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوت کو تباہ کر دیتا ہے. صوبہ بلوچستان اور سندھ کے علاقوں میں زیادہ تر لوگوں کے مکانات کچّی مٹّی سے بنے ہوتے ہیں، جو بارش میں زمین بوس ہو جاتے ہیں. سیلابوں کا پانی نسبتآ نیچی جگہ جمع ہو جاتا ہے. صوبہ سندھ کے کییُ علاقوں میں پچھلے سال کے سیلابوں کا ہانی اب تک نکالا نہیں جا سکا. لوگوں کے کچّے مکان جو سیلابوں میں گر چکے تھے، اب تک بناےُ نہیں جا سکے. اور بارشوں کا موسم دوبارہ آ چکا ہے. لوگوں کی زمینوں میں پانی کھڑا ہے، وہاں کویُ فصل کاشت نہیں کی جا سکتی. سیلابوں اور بارشوں سے اتنی تباہی ہُویُ ہے ،جس کا اندازہ عام لوگوں کو نہیں ہے. سیلاب زدہ لوگ اب تک جھونپڑیوں میں گزارہ کر رہے ہیں. حکومت کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں، کہ سیلاب زدہ لوگوں کو مکان بنا کر دے.

    سیلابوں سے بچاؤ

    بارش اللہ تعالے کی ایک نعمت ہے. لیکن زیادہ بارش بعض دفعہ زحمت بن جاتی ہے. ایسے ہی کسی موقع پر کسی نے کہا تھا ؛

    رب نعمتاں دا مینہہ کی وسایا
    ماڑیاں دی چھت ڈگ پییُ

    اس زحمت سے بچا جا سکتا اور اس سے فایُدہ اُٹھایا جا سکتا ہے.

    اپنا ملک ایک زرعی ملک ہے، جس میں فصلیں اُگایُ جا سکتی ہیں . زیادہ فصل لینے کے لیےُ فصل کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے. بارانی فصلوں کی نشوونما اتنی زیادہ نہیں ہوتی، اس لیےُ وہ زیادہ پیداوار نہیں دیتیں. اگر زمیندار اپنی بارانی فصلوں سے زیادہ پیداوار لینا چاہتے ہوں تو اس کے لیےُ دو طریقے ہیں.

    نمبر 1 – بارانی فصلوں کو پانی مہیا کرنے کےلیےُ بارانی رقبے میں ڈیزل آیُل سے چلنے والے ٹیوب ویل لگا لیےُ جاییُں. ٹیوب ویل لگانے میں کچھ خرچ تو کرنا پڑے گا، یہ خرچ صرف ایک دفعہ ہی کرنا پڑے گا. اس کے بعد صرف ڈیزل کا خرچ پڑے گا. اس انتظام سے فصلوں کو پانی وقت پر مل سکے گا اور فصل زیادہ منافع دے گی.
    ٹیوب ویل لگانے اور پھر ڈیزل کے خرچہ سے بچنے کے لیےُ ایک دیسی طریقہ استعمال کیا جا سکتا ہے.

    نمبر 2 – بارانی رقبے میں ایک یا دو جگہوں پر تالاب بنا لیےُ جایُیں ، جن میں بارش کا پانی اکٹھا کیا جا سکتا ہے. یہ پانی بارش نہ ہونے کی صورت میں فصلوں کے کام آےُ گا.

    یہ تو تھا چھوٹی سطح پر کرنے کا کام. ملکی سطح پر مختلف مقامات پر سہولت کے مطابق پانی کے چھوٹے یا بڑے ڈیم بناےُ جاییُں. جن میں بارش یا سیلابوں کا پانی جمع کیا جا سکے. اس وقت ایسے ڈیم نہ ہونے کی وجہ سے بارش اور سیلابوں کا سارا پانی سمندر میں جا گرتا ہے. دُنیا کی سمجھدار قوموں نے اسی طریقے سے پانی کے ڈیم بنا کر سیلابوں سے اپنی جان چھڑایُ ہے ، اور بارشوں اور سیلابوں کے پانیوں سے فایُدہ اُٹھایا ہے.

    اب ایسا بھی نہیں ہے کہ حکومت کو اس طریقے کا علم نہیں ہے یا احساس نہیں ہے. ایسا کیا جا سکتا ہے کہ بہت بڑے ڈیم نہ بناےُ جاییُں، جنہیں بنانے میں خرچ زیادہ آتا ہے. مناسب مقدار میں پانی جمع کرنے کے لیےُ کسانوں کے مشورے سے مناسب جگہوں پر چھوٹے ڈیم بنا لیےُ جاییُں. ایسے ڈیم بنانے پر سیاست نہ کھیلی جاےُ. اس طریقے پر عمل کر کے کسان زیادہ خوشحال اور ملک معاشی طور پر زیادہ مظبُوط ہوگا.

    حکومتی ماہرین کے پاس ایسی سکیمیں ہو سکتی ہیں ، جس سے اپنا مُلک سیلابوں کی تباہ کاریوں سے ، اگر مکمل طور پر نہ سہی، کافی حد تک قابُو پا سکتا ہے. اس کے لیےُ اپنے اختلافات بھُلا کر ، صرف اور صرف اپنے مُلک کی ترقی اور خوشحالی کو مد نظر رکھا جاےُ. مُلک ہے تو ہم ہیں.

    آگے بڑھیےُ، ملکی ترقی کے لیے ہر اختلاف بھُلا دیجیےُ. اللہ تعالے ان کی مدد کرتا ہے ، جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں.

    آللہ آپ کا حامی و ناصر ہو.
    پاکستان زندہ باد.

  • ہم کدھر جا رہے ہیں ؟ Where are we  going

    ہم کدھر جا رہے ہیں ؟ Where are we going

    ہم کدھر جا رہے ہیں ؟
    Where are we going ?

    ہم کدھر جا رہے ہیں ؟ یہ سوال ہر اُس شخص کے ذہن میں کلبلا رہا ہے ، جو اپنے وطن کا خیر خواہ ہے. جسے اپنے وطن سے محبت ہے اور جو اپنے وطن کو صحیح سمت میں ترقی کرتا ہُؤا دیکھنا چاہتا ہے. بد قسمتی سے اپنے ملک کی بیشتر آبادی اُن افراد پر مشتمل ہے ، جو قیام پاکستان کے بہت بعد پیدا ہُوےُ. یہ پود اُن قربانیوں سے کما حقہ واقف نہیں جو مسلمانوں نے قیام پاکستان سے پہلے دیں، اور اعلان آزادی کے بعد دیں. ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آنے والے لاکھوں مرد، عورتوں اور بچوں کو راستے میں ہی شہہید کر دیا گیا. جو لُٹے پُٹے مرد اور خواتین پاکستان پہنچے ، انہیں بسانے اور نییُ زندگی کا آغاز کرنے کا مرحلہ بڑا مشکل تھا. ان سب تکالیف کا ادراک نییُ پود کو نہیں

    عنوانات

    دُنیا کی سب سے بڑی ہجرت

    ہم ٹیکس دینا بوجھ سمجھتے ہیں
    ہم کدھر جا رہے ہیں ؟
    اشتہارات
    موبایُل فون کا غلط استعمال
    شیطان کے چیلے
    پاکستان کا قومی پرچم
    کرنے کا ایک کام

    دُنیا کی سب سے بڑی ہجرت

    دنیا کو فتح کرنے کی خواہش تو ابتداےُ آفرینش سے ہی بعض حکمرانوں کے دلوں میں رہی ہے ، ہلاکو خاں اور سکندر کی مثالیں تو تقریبآ سبھی لوگ جانتے ہیں. لیکن ان کے ادوار میں بھی اتنی بڑی ہجرتوں کا سراغ نہیں ملتا. اللہ کے آخری رسوُل جناب محمد صل اللہ علیہ و سلم اور اُن کے صحابہ کرام نے بھی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی تھی. لیکن قیام پاکستان کے وقت ہندوستان سے پاکستان کی طرف ہجرت کرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں تھی. بنگال کے قریب رہنے والے مسلمان بنگا ل کی طرف ہجرت کر گیےُ. بعض مسلمان گھرانوں نے ہندوستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا. اور اب ان پر جو بیت رہی ہے، وہ پچھتا رہے ہیں کہ ہم نے قیام پاکستان کے وقت پاکستان کی طرف ہجرت کیوں نہ کی

    ہندو کبھی بھی مسلمانوں کے دوست یا ہمدرد نہیں رہے. ہندو گاےُ کو اپنے خدا کا درجہ دیتے ہیں اور اس کی پوجا کرتے ہیں. مسلمان گاےُ کو ذبح کر کے اس کا گوشت کھاتے ہیں. ہندوؤں کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہُویُ ہے کہ مسلمان اُن کے خُدا کا گوشت کھاتے ہیں. اسی بات کی بنا پر ہر ہندو مسلمانوں کے خلاف دل میں نفرت رکھتا ہے. آج کل ہندوستان میں ہندو مسلم فسادات روز مرہ کا معمول ہیں، جس میں مسلمانوں کو شہید کرنا اور ان کے مکانوں کو آگ لگانا کار ثواب سمجھا جاتا ہے. مسلمانوں کے لیےُ مشکل یہ ہے کہ ہندو حکومت انہیں کسی مسلم ملک میں ہجرت کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتی. ہندوستان کے مسلمانوں کو کسی مسلمان ملک میں ہجرت کر جانے کا مسُلہ اقوام متحدہ میں اُٹھایا جاےُ تو شاید کویُ راستہ نکل آےُ.

    ہم ٹیکس دینا بوجھ سمجھتے ہیں.

    قیام پاکستان سے پہلے تک مسلمانوں کے ہر جلسہ اور جلوس میں ایک ہی نعرہ گُونجتا تھا. ” پاکستان کا مطلب کیا —- لا الہ الل اللہ ” . جب پاکستان بنا ، اُس وقت میں 13 سال کا تھا. مجھے لوگوں کا جوش و خروش آج تک یاد ہے. ًمہاجرین کی آمد ، مقامی عوام کی مہاجرین کی خدمت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ابھی تک میرے ذہن میں تازہ ہے. مہاجرین نے ہندوؤں کے چھوڑے ہُوےُ مکانات میں رہنا شروع کر دیا. اس طرح ان کے سر چھپانے کا مسُلہ حل ہو گیا. گاؤں کے کھاتے پیتے گھرانوں نے مہاجرین کو وقت پر کھانا دینے کا ذمہ لے لیا. آہستہ آہستہ مہاجرین نے محنت مزدوری کر کے اپنا کھانا خود پکانا شروع کر دیا. پھر مہاجرین کو کلیم میں زرعی زمینیں الاٹ ہو گییُں، اور وہ ان زمینوں پر کاشت کاری کرنے لگے. وہ زمانہ ایک دوسرے کا دُکھ بانٹنے کا تھا. آج کل جیسا نفسا نفسی کا زمانہ نہیں تھا. قایُد اعظم کی وفات کے بعد اقتدار کی جنگ چھڑ گییُ. لوگ عہدوں کے پیچھے اپنا ایمان بیچنے لگے. کسی وزیر اعظم کو ٹک کر کام کرنے نہیں دیا گیا. اس وقت انڈیا کا وزیر اعظم کہتا تھا کہ میں اتنی جلدی اپنی دھوتی نہیں بدلتا جتنی جلدی پاکستان کا وزیر اعظم بدل جاتا ہے. عوام روز روز کی تبدیلیوں سے مایوس ہونے لگے، اور یہ مایوسی آج تک اپنے پنجے گاڑے ہُوےُ پے. ملک پر چند خاندانوں کا قبضہ ہے، جو ادل بدل کر آتے ہیں. ان خاندانوں میں ایسے خاندان بھی ہیں جو اکیلے ہزاروں ایکڑ زرعی زمین کے مالک ہیں. یہی لوگ ہمیشہ اسمبلیوں میں آتے ہیں. اور ملک کے لیےُ قانون بناتے ہیں. اپنا ملک 77 سالوں کا ہو چکا ہے. آج تک زرعی پیداوار پر تیکس نہیں لگ سکا. وجہ ؟ اپنی زمینوں سے آمدنی پر تیکس کون لگاتا ہے ؟. زرعی زمینوں کے مالک اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں. اپنی خوشی سے ٹیکس کون دیتا ہے

    ہم کدھر جا رہے ہیں ؟

    قیام پاکستان کے بعد مجموعی طور پر عوام اچھے عادات و اطوار کے مالک تھے. اس سے پہلے تجارت پر غیر مسلمانوں کی اجارہ داری تھی. جو زیادہ تر ہندو ہوتے تھے . قیام پاکستان کے وقت اور بعد میں تجارت پیشہ لوگ ( ہندو) ہندوستان چلے گیےُ. جس سے تجارتی ماحول میں ایک خلا پیدا ہو گیا. جسے آہستہ آہستہ مسلمانوں نے پُر کرنا شروع کر دیا. جس سے ان دکانداروں کی زہنیت بھی بدل گیُ. وہ ہر کام میں ” نفع ” کو مقدم رکھتے. اور اس طرح ان میں ہمدردی کم اور لالچ کا عُنصر زیادہ ہو گیا. یا صحیح الفاظ میں ان کی زہنیت میں زر پرستی داخل ہو گییُ، اور ایک دوسرے سے ہمدردی غاٰ یُب ہونے لگی. آج کل یہ رُجحان کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے. لوگ پیسہ کمانے کے چکر میں جایُز اور نا جایُز کو نہیں دیکھتے. بس پیسہ آنا چاہییےُ. اس کے لیےُ لوگوں نے کیُ جال بچھا رکھے ہیں. جو کچھ اس طرح کے ہیں :

    نمبر 1 ؛ سٹیج ڈرامے

    ان سٹیج ڈراموں میں اداکار انتہایُ ذو معنی الفا ظ ادا کرتے ہیں. جن میں مزاح کا عُنصر پایا  .جاتا ہے. تماشایُ ایسے الفاظ پردل کھول کر ہنستے ہیں.یعنی ” جیسے ذبح کرنے والے، ایسے ہی کھانے والے. “اس کے علاوہ ستیج پر بڑے ہی بےہُودہ اور فُحش ڈانس دیکھنے کو ملتے ہیں. یہ سارا سیٹ اپ ہی اخلاق بگاڑنے میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے.

    نمبر 2 ؛ پنجابی فلمیں

    ایک زمانہ تھا، پنجابی فلموں میں گانے ضرور ہوتے تھے ، لیکن گانوں میں لچّر پن نہیں تھا.، جیسے آج کل کی پنجابی فلموں میں دکھایا جا رہا ہے. کویُ بھی خود دار آدمی آج کل کی پنجابی فلموں کو اپنی فیملی کے ہمراہ دیکھنا پسند نہیں کرتا. فلموں کی کہانی کو اپنے معاشرہ کی عکاسی کرنی چاہیےُ. لیکن آج کل کی پنجابی فلمیں کسی اور ہی معاشرہ کو پیش کرتی ہیں، آج کل کی فلموں میں جو لباس صنف نازک کو فلموں میں پہنے ہُوےُ دکھایا جاتا ہے ، یہ لباس پہن کر اگر کویُ لڑکی یا عورت بازار میں آ جاےُ، تو اس کے لباس کے متعلق عوام کے تبصرے سُن کر شرم سے ڈوب مرنے کو چاہے گی. فلمیں بنانے والوں نے پیسہ بٹورنے کے لیےُ عورت کو تماشہ بنا دیا ہے. فلمساز اس طرح کی فلموں سے جو پیسہ اکٹھا کرتا ہے ، اس کے بارے میں کسی صحیح عالم دین سے یہ ضرور پوچھے کہ آخرت میں یہ پیسہ اسے کتنا آرام دے گا

    ٹیلی ویژن

    آج کل ٹیلی ویژن اشتہار بازی کا سب سے بڑا مقبول ذریعہ ہے. ٹی وی پر دکھاےُ جانے والے ہر اشتہار میں مخلوط ڈانس ضرورت بن گیا ہے. ان اشتہارات میں خیر سے بڑی عمر کی امّاں جان بھی تھرکتی نظر آتی ہیں. یہ زمانہ بھی دیکھنا تھا. موجودہ ٹیلی ویژن نیُ پود کے ذہنوں میں اسلامی اقدار کو مٹا کر مغربی مادر پدر آزاد معاشرہ کی طرف لے جا رہا ہے، جسے یہ ترقی کا خوبصورت نام دے کر ذہنوں کو اُلجھا رہا ہے. حکومت کو چاہیےُ کہ وہ ایسے اداروں کو نکیل ڈالے ، ان کے لیےُ ایک ضابطہ اخلاق بناےُ، جس میں مستورات کے لیےُ مہذب لباس  لازمی قرار دیا جاےُ. موجودہ ٹیلی ویژن نے عورت کے سر سے دوپٹہ اُتار پھینکنے میں بڑی محنت کی ہے. آپ کویُ بھی ٹی وی چینل دیکھ لیں، یُوں محسوس ہوتا ہے کہ ان ٹی وی چینلز کے پاس مردانہ سٹاف کی کمی ہے ، خبریں عورتیں پڑھتی ہیں، 90 فی صد پروگراموں کی میزبان عورتیں ہوتی ہیں، کسی میزبان عورت کے سر پر دوپٹہ نہیں ہوتا. صوبہ پنجاب کی حکومت میں تمام وزرا عورتوں کے سر پر دوپٹہ ہوتا ہے. ان کے لباس بھی شریفانہ ہوتے ہیں، یہ پاکستانی عورتوں کے لیےُ ایک مثال ہے ،کہ ایک مسلمان عورت اپنے لباس میں مغربی تہذیب کی تقلید نہیں کرتی. مغربی تہذیب کے بارے میں اپنے قومی شاعر اقبال نے کیا خُوب کہا تھا ؛

    تمہاری تہذیب خود اپنے ہی خنجر سے خودکشی کرے گی
    شاخ  نازک پہ جو بنے  گا  آشیانہ  نا پایُدار  ہوگاا

    اشتہارات

    ٹاجر لوگ اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لیےُ اشتہارات کا سہارا لیتے ہیں. عوام ان اشتہارات کو دیکھ کر مختلف مصنوعات کو خریدتے ہیں. اس طرح اشتہارات کسی چیز کی فروخت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں. اشتہاری کمپنیاں اشتہارات کو پُر کشش اور دیدہ زیب بنانے کے لیےُ کیُ ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں. ان ہتھکنڈوں میں اشتہارات میں عورت کو مختلف انداز میں دکھایا جاتا ہے. آج کل ” صاف چھُپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں ” والا معاملہ چل رہا ہے.آج کل عورت کی تذلیل جس طرح اشتہارات کے ذریعے کی جا رہی ہے، اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گییُی . اشتہاری کمپنیاں اشتہارات کو مٍغربی تہذیب کی طرز پر لیےُ جا رہے ہیں. ٹی وی پر دکھاےُ جانے والے اشتہارات میں ماڈل لڑکیاں دوپٹہ سے بے نیاز اپنے سینے کی نمایُش کرتی نظر آتی ہیں. اس قسم کے اشتہارات نوجوانوں میں بے راہ روی کے رجحانات کو اُبھار رہے ہیں، بے راہ روی کے واقعات اخبارات میں روزانہ رپورٹ ہو رہے ہیں. ایسے واقعات کی روک تھام کے لیےُ مُجرم کو صرف سزا کے طور پر قید یا صرف جُرمانے کی سزا کافی نہیں. ہمیں اُس نالی کو بند کرنا چاہیےُ جہاں سے اس بدی کا اخراج ہو رہا ہے.

    موبایُل فون کا غلط استعمال

    موبایُل فون کے جہاں فایُدے ہیں، وہیں اس کے نقصانات بھی ہیں. آج کل انٹر نیٹ کا زمانہ ہے. موبایُل فون کے ذریعے ہم دُنیا بھر میں جس جگہ چاہیں بات چیت کر سکتے ہیں. ہمارے ارد گرد دُنیا میں  جہاں اچھے لوگ ہیں وہیں پر شیطان کے چیلے بھی کافی تعداد میں موجود ہیں. یہ لوگ انٹر نیٹ کے ذریعے ندی کے کاموں کو بھی پھیلا رہے ہیں. فُحش فلموں کو انٹر نیٹ پر چلانا ایسا ہی ایک کام ہے . جو پُوری دُنیا میں پھیلا ہُؤا ہے. اُن کی نظروں میں یہ ایک کاروبار ہے. جس سے کافی دولت کمایُ جا سکتی ہے. موبایٌل فون نے ایسی جگہوں تک رسایُ ممکن بنا دی ہے .اپنے ملک کی نوجوان پود موبایُل فون پر یہ فُحش فلمیں دیکھتے ہیں ، اور پھر عملی قدم اُٹھا کر اس دلدل میں پھنس جاتے ہیں. مسُلہ یہ ہے کہ حکومت ایسے فُحش چینل بند کس طرح کرے ! ان میں بعض چینل معلوماتی بھی ہیں. جن سے طلباُ فایُدہ اُٹھاتے ہیں. کاروباری حضرات بھی انہیں استعمال کرتے ہیں.

    ان فُحش چینلز کو بلاک کرنے کا ایک طریقہ شاید کام کر جاےُ. پچھلے دنوں پی ٹی اے نے غلط خبروں اور پراپوگنڈا کو بلاک کرنے کے لیےُ  فایُر والو قسم کے کچھ آلات لگاےُ تھے ، جو کافی کار آمد ثابت ہُوےُ. کچھ اس قسم کے انتضامات ان فُحش چینلز کو بلاک کرنے لیےُ بھی کیےُ جا سکتے ہیں. کوشش کرنے سے ان فُحش چھینلز کو بلاک کیا جا سکتا ہے. اگر ایسا ہو جاےُ تو انسانیّت کی بہت بڑی خدمت ہو گی.

    شیطان کے چیلے

    ایسا لگتا ہے کہ شیطان ملعون نے اپنے سارے چیلے ہمارے ملک میں بھیج دیےُ ہیں. آپ کویُ بھی اخبار پڑھ لیں . ہر اخبار میں شیطانی کاموں کے بے شمار واقعات پڑھنے کو ملیں گے. سب سے زیادہ ہولناک ان چھوٹی بچیوں کی خبریں ہوتی ہیں، جنہیں درندگی کا نشانہ بنایا گیا ہو. بات یہیں تک نہیں رہتی، بلکہ پکڑے جانے کے خوف سے شیطان کے پُجاری انہیں گلہ گھونٹ کر مار دیتے ہیں. ایسے درندے یقینآ اپنی زندگی میں ہی اپنی سزا پاییُں گے، اور آخرت میں ان کے ساتھ جو کچھ ہوگا اس کا تصور ہی رُونگٹے کھڑے کر دیتا ہے. ایسے مجرم کو پھانسی کی سزا ملنی چاہیےُ. ایسے مجرم کی لاش کو کسی چوراہے میں سات دن تک لٹکا رہنا چاہیےُ.

    پاکستان کا قومی پرچم

    پاکستان کا قومی پرچم کیسا ہو ؟ اس پر اپنے ملک کی پہلی قومی اسمبلی میں بحث ہوُیُ. سب ممبران نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پاکستان کا قومی پرچم کا رنگ سبز ہو گا ، جس کے باییُں طرف سفید رنگ کی پٹی ہوگی، جو پرچم میں اقلیتوں کی نمایُندگی ظاہر کرے گی. پرچم کے سبز رنگ کے حصہ میں چاند اور ستارہ ہوگا. چاند کی دونوں نوکیں باییُں طرف ہوں گی ، چاند کی یہ کیفیت چاند کی پہلی تاریخ سے لے کر چودھیں یا پندھرویں تک ہوتی ہے، ان دنوں میں چاند عروج کی طرف جا رہا ہوتا ہے . یعنی چاند ہلال سے بڑھتا ہُؤا مکمل چاند تک ( بدر تک ) پہنچتا ہے. قومی اسمبلی ممبران نے اس بات پر خصوصآ توجہ دی کہ پرچم میں چاند کو مکمل ہونے کی طرف بڑھتا ہُؤا دکھایا جاےُ. مرکزی یا کسی صوبایُ ھکومتوں کے لیٹر ہیڈ پر چاند کی نوک باییُں طرف ہیں اور بیچ میں ستارہ ہوتا ہے.

    اب آپ ذرا ہر جگہ لہرانے والے قومی پرچم کو دیکھیں. اس میں چاند کی دونوں نوکیں داییُں طرف ہیں، چاند جب گھٹنا شروع ہوتا ہے تو اس کی دونوں نوکیں داییُں طرف ہوتی ہیں. یہ اس کے زوال کی نشانی ہے. پاکستان کے قومی پرچم پر چاند کی پوزیشن یہ ظاہر کرتی ہے کہ گویا ( نعوذ باللہ ) جس ملک کا یہ پرچم ہے ، وہ زوال کی طرف جا رہا ہے.

    میں نے 23 جولایُ 2020 کو ایک آرٹیکل “ میری آواز سُنو- لا علمی یا جہالت ” اسی ویب سایُٹ پر پبلش کیا تھا ، جس میں تصاویر کے ساتھ یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ پاکستان کے قومی پرچم میں چاند کو رو بہ زوال دکھایا جا رہا ہے. اس سے ذہن میں یہ تصور اُبھرتا ہے کہ ہم لا علمی میں یا جہالت میں دُنیا کو یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جس ملک کا یہ پرچم ہے ، وہ زوال کی طرف جا رہا ہے . ہو سکتا ہے کہ میری یہ تاویل صحیح نہ ہو. لیکن مجھے یوں محسوس ہوتا ہے اپنے ملک کی نمایُندگی کرنے والا زوال پذیر چاند ہم پر اپنا بُرا اثر ڈال رہا ہے.

    ہم نے بہت عرصہ زوال پذیر چاند کو اپنا قومی نشان بنا رکھا ہے. اب ذرا اس کی سمت کو بدل کر دیکھنا چاہیےُ. یعنی اپنے قومی پرچم میں چاند کی دونوں نوک بایُیں طرف ہوں، جس سے یہ تاثر اُبھرے کہ چاند عروج کی طرف جا رہا ہے.

    کرنے کا ایک کام

     آپ نے بھی محسوس کیا ہوگا کہ ملک میں عُریانی بڑھ رہی ہے. صنف نازک نے حیا کے محافظ، اللہ کے حُکم ، سر اور سینے کو چادر یا دوپٹہ سے ڈھانکے رکھنے کو ، محدود تعداد کو چھوڑ کر، رد کر کے اللہ کی نافرمانی کی ہے. ٹی وی پر عورتیں اپنے سینے کی نمایُش کر رہی ہیں، استغفراللہ، اس رجحان کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے.

    اللہ تعالے سے دُعا ہے کہ وہ ہم سب کو سیدھے راستے پر چلنے کی ہدایت اور توفیق عطا فرماےُ، آمین، ثم آمین.

  • ہمارے سُلگتے مسایُل نمبر 17،  مہنگایُ- Our burning issues # 17- Dearness

    ہمارے سُلگتے مسایُل نمبر 17، مہنگایُ- Our burning issues # 17- Dearness

    ہمارے سُلگتے مسایُل نمبر 17- مہنگایُ
    Our burning Issues # 17 – Dearness

    Our burning issues- dearness

    ہمارا ملک امیر ممالک میں شمار نہیں ہوتا. اس کی بہت ساری وجوہات ہیں. جو ہم ذرا تفصیل سے بیان کرنے کی کوشش کریں گے. یہاں میں صرف یہ بتانے کی کوشش کروں گا کہ مہنگایُ کا رونا رونے سے کچھ نہیں ہوگا. مہنگایُ صرف حکومت ختم نہیں کر سکتی. ٰیہ صحیح ہے کہ مہنگایُ کم کرنے کے لیےُ حکومت کچھ اقدامات کر سکتی ہے. جسے ہم تھوڑی دیر میں زیر بحث لاییُں گے. اس کے ساتھ کچھ ذمہ داری عوام پر بھی پڑتی ہے . دونوں کی کوششوں سے ہی مہنگایُ پرقابو پایا جا سکتا ہے.

    عنوانات

    خود کشی مہنگایُ کا حل نہیں ہے .
    حکومت کے کرنے کے کام.
    مہیگی سبزیاں
    یہاں ہم مجبور ہیں.
    اشیا کی قیمتوں پر کنٹرول
    مرکزی مارکیتیں
    جان چھُڑا لیں

    خودکُشی مہنگایُ کا حل نہیں ہے.

    کون نہیں جانتا کہ اس وقت ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی منہ زور مہنگایُ سے تنگ ہے. بعض بُزدل لوگ اس مہنگایُ سے چھُٹکارہ پانے کے لیےُ انتہایُ قدم اُٹھاتے ہُوےُ خود کُشی کر رہے ہیں. خودکُشی مہنگایُ کا حل نہیں ہے. کسی کو زندگی دینا یا موت دینا یہ صرف اور صرف اللہ تعالے کا اختیار ہے. خود کُشی کرنے والا اپنی زندگی کو ختم کر کے گویا اللہ تعالے کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے، جو شرک ہے اور اللہ تعالے سب گناہ بخش سکتا ہے، لیکن شرک کے گناہ کو نہیں بخشے گا. اسی لیےُ خودکُشی کرنا حرام ہے ، اور اس کی بڑی سخت سزا کی وعید دی گییُ ہے. یہ درست کہ مہنگایُ بہت ہے ، اس کا مقابلہ جواں مردی سے کرنا ہوگا. چلییےُ ، ہم دیکھتے ہیں کہ مہنگایُ کیسے کم کی جا سکتی ہے.

    حکومت کے کرنے کے کام

    مہنگایُ کو ختم کرنے کے لیےُ حکومت اور عوام دونوں کو کام کرنا ہوگا. حکومت کے کرنے کام یہ ہیں

    کفایت شعاری

    مہنگایُ کم کرنے کے لیےُ کفایت شعاری پہلا اور لازمی قدم ہے. اپنی حکومت کے اخراجات بڑے شاہانہ ہیں. چھوٹے سے چھوٹا افسر بھی نیےُ ماڈل کی نییُ گاڑی چاہتا ہے. ہمارا ملک 1947 سن عیسوی میں جب آزاد ہُؤا تو قایُد اعظم کی وفات کے بعد اقتدار کی رسہ کشی شروع ہو گییُ. پاکستان بنانے کا مقصد پس پشت چلا گیا. عہدہ حاصل کرنے کا مقصد آسایُشوں کا حصول تھا. اس کے برعکس انڈیا میں کفایت شعاری کی مہم شروع ہویُ. اُس زمانے میں سوزوکی موٹر کمپنی ایک کار بناتی تھی، جس کا نام ” ماروتی ” تھا. انڈیا کے وزیر اعظم سے لے کر تمام افسروں کو، جنہیں گاڑی مہیا کرنا ضروری تھا، صرف ماروتی گاڑی ہی دی جاتی تھی. اس وقت ماروتی گاڑی کی قیمت بہت کم تھی. انڈیا والوں نے اس طرح بہت پیسہ بچایا. ادھر ہماری طرف نیےُ ماڈل کی گاڑیوں کی بہتات سے بہت سارا پیسہ ضایُع کر دیا گیا. یہ چلن آج تک جاری ہے. پچھلے دنوں قومی اسمبلی کی ایک قایُمہ کمیٹی کے چیُرمین نے نیُ گاڑی کی فرمایُش کی تھی. اس وقت قومی اسمبلی کے تمام اراکین کے پاس اپنی اپنی ذاتی گاڑیاں ہیں. کیا وہ اپنے مُلک ، پاکستان کے لیےُ اتنی قربانی نہیں دے سکتے کہ حکومت سے نییُ گاڑی لینے کی بجاےُ اپنی ذاتی گاڑی استعمال کریں ! اس ملک نے آپ کو بہت عزّت دی ہے. کیا آپ اپنے وطن عزیز کے لیےُ اتنی قربانی بھی نہیں دے سکتے

    حکومت ایک قانون بنا لے کہ کسی بھی مجاز افسر کو 1300 سی سی طاقت کی گاڑی ہی دی جاےُ گی. اسی طرح ماہانہ پٹرول کی مقدار بھی کم کر دی جاےُ. دیکھا گیا ہے کہ جو گاڑیاں افسران کو حکومتی فرایُض انجام دینے کے لیےُ دی جاتی ہیں، وہ گاڑیاں ان افسران ( چند ایک کو چھوڑ کر ) کے بچوں کو سکول چھوڑنے اور انہیں واپس گھر لانے کے لیےُ استعمال ہوتی ہیں. اس کے بعد افسران کی بیگمات اور ان کے بچوں کی شاپنگ پر جانے کے لیےُ پابند ہوتی ہیں. گاڑیوں کا یہ استعمال ” امانت میں خیانت ” کے زُمرے میں آتا ہے. کچھ دن پہلے کی بات ہے، ایک ٹی وی چینل کا نمایُندہ دفتری اوقات کے بعد سبز رنگ کی پلیٹ نمبر کی گاڑیوں کے ڈراییوروں سے یہ سوال کر رہا تھا کہ کیا آپ اس وقت کسی سرکاری ڈیوٹی پر ہیں ؟ جو یہ سرکاری گاڑی استعمال کر رہے ہیں؟ بعض لوگوں نے اقرار کیا کہ وہ اپنے ایک نجّی کام کے لیےُ اس گاڑی پر آےُ ہیں. بعض نے صرف گھُور کر دیکھا. جواب نہیں دیا. اکثریت کا جواب تھا کہ وہ اپنے ایک چھوتے سے نجی کام کے لیےُ اس گاڑی پر آےُ ہیں. ایک آدھ نے جواب دیتے ہوُےُ شرم بھی محسوس کی. افسران جب سرکاری گاڑی کو اپنے ذاتی استعمال کے لیےُ کہیں لے جاتے ہیں ، تو گاڑی کی لاگ بُک ( اگر کویُ ہو ) میں کیا لکھتے ہیں، وہ جانیں اور ان کا خُدا جانے.

    کفایت سعاری کے کییُ طریقے اپناےُ جا سکتے ہیں.

    نمبر 1 = ھکومتی افسران کے کمرے عمومآ ایُر کنڈیشنڈ ہوتے ہیں. دفتر میں کام کرتے ہُوےُ اگر کہیں باہر جانا پڑ جاےُ، تو ایُر کندیشنرز کو آف کر دیا جاےُ.

    نمبر 2 = کمرہ اگر کافی دیر تک خالی رہنا ہو تو کمرہ کی تمام لایُٹس بند کر دی جایُیں.

    نمبر 3 = ًمحکمہ تعلیم میں ہزاروں گھوسٹ ٹیچرز کا سراغ لگایا گیا ہے، جو گھر بیٹھے محکمہ سے تنخواہ وصول کر رہے ہیں. یہ ایک سخت قسم کی بے ایمانی ہے. ایسے لوگوں کو اور اُن کے پُشت پناہوں کو کڑی سزا دی جاےُ.

    نمبر 4 = ایسی اطلاعات بھی اخبارات میں شایُع ہُوی ہیں کہ کچھ حکومتی افسران کی بیگمات ” بے نظیر انکم سپورٹ ” سے ماہانہ امداد وصول کرتی رہی ہیں یا وصول کر رہی ہیں. ایسی اطلاعات کی سخت تفشیش ہونی چاہیےُ. اور قصورواروں کو نوکری سے نکال دینا چاہیےُ. چور چوری چھوڑ دیتا ہے، ہیرا پھیری سے باز نہیں آتا.

    نمبر 5 = حکومت کے مُختلف ٹھیکوں میں کرپشن کے مختلف طریقے ایجاد ہیں. ایسے کرپشن زدہ ٹھیکوں میں ٹھیکیدار میٹیریل کی منظور شدہ کوالٹی سے گھٹیا کوالٹی کا سامان لگاتا ہے. جس سے تیار شدہ منصوبہ جلد ہی مرمت طلب ہو جاتا ہے. واپڈا کا ایک پاور پلانٹ ایسے ہی کمالات کا ایک مظہر ہے جو ہر چھ ماہ بعد کسی نہ کسی خرابی سے بند ہو جاتا ہے. ماہرین نے سارے معاملے کو کھوج کر یہ اندازہ لگایا ہے کہ جہاں پاور پلانٹ لگایا گیا ہے وہان کی مٹّی بھُر بھُری ہے جو پاور پلانت کا بوجھ سہار نہیں سکتی . سارا پیسہ ضایُع ہو گیا.

    نمبر 6 = بعض اطلاعات کے مطابق پنجاب اسمبلی کے حال ہی میں تیار شدہ چھت بارش میں ٹپکنے لگی. یہ ہے کمال تھیکہ پر کام کروانے کا ، اور پھر اس پر نگرانی کا نہ ہونا. ایک پرایُیویٹ بلڈر کمپنی بحریہ ٹاؤن کے نام سے مشہؤر ہے. اس کی رہایُشی سکیموں میں لوگ پلاٹ لے کر اپنے مکانات بناتے ہیں. یہ مکانات عمومآ وہاں پر موجود ٹھیکیدار بناتے ہیں. بحریہ ٹاؤن کے انسپیکٹر مکانوں کی تعمیر میں استعمال ہونے والے ہر میٹیریل کو جانچتے ہیں . اگر میٹیریل مقررہ معیار سے کم تر ہو تو وہ میٹیریل رد کیا جاتا ہے ، اور نیا میٹیریل منگوا کر اس کو اس کو ٹیست کیا جاتا ہے. معیار پر پُورا اترنے والے میٹیریل کو ہی مکان کی تعمیر میں استعمال کی اجازت ہوتی ہے. یہ انسپکٹر مکان کی تعمیر میں استعمال ہونے والے سیمنٹ اور ریت کی نسبت بھی اپنے سامنے ڈلواتے ہیں. اینٹوں کی پختگی کو بھی جانچا جاتا ہے. مکان کی تعمیر مکمل ہونے پر آخری معایُنہ ہوتا ہے. ہر چیز معیار کے مطابق ہونے پر سرٹیفیکیٹ دیا جاتا ہے کہ یہ مکان رہایُش کے قابل ہے. اتنی سخت چانچ پڑتال حکومتی ٹھیکوں میں بنننے والے پروجیکٹ میں نہیں ہوتی. اس لیےُ جلد ہی ان میں تعمیراتی نقایُص ظاہر ہونے لگتے ہیں. حکومت اپنے پروجیکٹ میں جانچ پڑتال پر سختی سے عمل کرے تو تعمیر کے بعد ہونے والے نقایُص پر اُٹھنے والے اخراجات بچاےُ جا سکتے ہیں.

    نمبر 7 = اپنے مُلک کا کسان دن رات محنت کرتا ہے. گندم کی کٹایُ کے بعد کسان کو گندم فروخت کرنے میں مشکل پیش آتی ہے. آڑھتی لوگ گندم کی بہت کم قیمت خرید لگاتے ہیں. بّعض خریدار گندم اُدھار پر خریدنا چاہتے ہیں. یعنی کسان ہر طرف سے خسارے میں دکھای دیتا ہے. اکثر کسانوں نے گندم کا بیج اور کھاد ادھار پر لی ہوتی ہے. اب اگر کسان کی گندم اچھی قیمت پر نہ بکے اور وہ اسے کھیت میں ہی پڑی رہنے مجبور ہو جاےُ، گندم کی کٹایُ اور گہایُ ، دیسی طریقے سے ہو یا مشین کے ذریعے، کے بعد اسے محفوظ طریقے سے ذخیرہ کرنا ضروری ہوتا ہے. کیونکہ ان دنوں میں اچانک بادل چھا جاتے ہیں اور بڑی زوردار بارش شروع ہو جاتی ہے. بھیگی ہویُ گندم کا خریدار کم ہی ملتا ہے. اگر کویُ خریدار مل بھی جاےُ تو وہ انتہایُ کم قیمت دیتا ہے ،اور شایُد وہ بھی اُدھار پر. کسان کو اس کی فصل کی قیمت اچھی اور بروقت نہ ملے تو وہ اگلے سال اتنی ہی گندم اُگاےُگا جو اس کے خاندان کے سال بھر کے لیےُ کافی ہو. اگر بہت سارے کسان زیادہ گندم نہ اُگاییُں تو ایکسپورت کے لیےُ گندم کہاں سے لاییُں گے!. حکومت کو ایسا انتظام کرنا چاہیےُ کہ کسان کو اس کی فروخت کی ہویُ گندم کی جایُز قیمت بروقت مل جاےُ.

    مہنگی سبزیاں

    کھانا ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے. یہ ٹھیک ہے کہ انسان کچھ کھاےُ پیےُ بغیر کچھ دن زندہ رہ سکتا ہے. لیکن کب تک ! کھانا کھانے کے لیےُ کچھ ایسی چیز چاہیےُ جو اگر روٹی کے ساتھ کھایُ جاےُ ، تو وہ روٹی کو مزیدا ر بنا دے. اس کے لیےُ سبزیوں کو مُختلف نُسخہ جات کے ذریعے لذیذ اور خوش ذایُقہ بنایا جاتا ہے. ہمارے ملک کے پکاےُ ہوےُ کھانے دُنیا بھر میں پسند کیےُ جاتے ہیں.

    لیکن اب حالت مہگایُ کی وجہ سے یہاں تک پہنچ چُکی ہے کہ لوگ مجبورآ بہت کم مقدار میں سبزیاں پکاتے ہیں. لوگ کیا کریں، گھر کے پاچ چھے افراد کے لیےُ سبزیاں لینے جاییُں تو سات آٹھ سو روپیہ خرچ ہو جاتا ہے. دکاندار سے کچھ کہیں تو وہ مہنگایُ کا رونا لگ جاتا ہے.

    مہنگایُ کا ایک علاج ہے، جو چیز مہنگی ہے اسے نہ خریدیں، یا اس کا استعمال بہت کم کر دیں. چھے سات سال ہُوےُ، اپنے مُلک میں پیاز بہت مہنگا ہو گیا. یہی پیاز 1970 میں 4 روپے کا ایک من بکتا تھا. اب جو پیاز مہنگا ہُؤا تو اپنے ملک میں ” پیاز نہ کھاو‌” کی تحریک شروع ہو گییُ،
    لوگوں نے پیاز خریدنا بند کر دیا. عورتوں نے ہانڈی پکاتے وقت پیاز کی جگہ دہی ڈالنا شروع کر دیا. پیاز کے بیوپاریوں نے جب دیکھا کہ پیاز کی فوخت بند ہو گیُ ہے، تو انہوں نے پیاز سستا کر دیا. اس تحریک کے بارے میں ہمارا آرٹیکل پڑھیےُ ” Together we can

    ایک بات ذہن میں رکھیں. اتفاق میں بہت برکت ہے. موجودہ وقت میں اس کی ایک مثال بنگلہ دیش کی ہمارے سامنے آیُ ہے. جہاں طلبا نے متحد ہو کر 16 سال سے برسر اقتدار سخت گیر وزیراعظم حسینہ واجد کو انڈیا فرار ہونے پر مجبور کر دیا. فرض کریں ، کویُ ایک سبزی بہت مہنگی ہو جاتی ہے. عوام وہ سبزی خرید کر کھانا چھوڑ دیں ، 15 دن کے اندر اندر وہی سبزی بہت سستی ہو جاےُ گی. عوام متحد ہو جاییُں تو ہر دفعہ کویُ ایک مہنگی سبزی خریدنا ااور کھانا چھوڑ دیں، چند ہی دنوں میں اس سبزی کی قیمت نصف سے بھی کم ہو جاےُ گی. مسُلہ صرف یہ ہے کہ ” کُنڈی کون کھولے گا

    یٰہاں ہم مجبور ہیں.

    ایک آدمی نے اللہ کے رسول کے صحابی علی علیہ السلام سے پوچھا کہ انسان کس حد تک آزاد ہے اور کہاں تک مجبور ہے. آپ نے فرمایا ” اپنا ایک پاؤں اوپر اُٹھا لو” سوالی نے اپنا ایک پاؤں اُوپر اُٹھا لیا، ّعلی علیہالسلام نے فرمایا ” دیکھو، یہاں تک تم آزاد تھے. ” پھر فرمایا ” اپنا دوسرا پاؤں بھی اوپر اُٹھا لو ” وہ شخص کہنے لگا ” اگر میں نے اپنا دوسرا پاؤں اوپر اُٹھایا تو میں گر پڑوں گا ” ّعلی علیہ السلام نے فرمایا ” یہاں سے تمہاری مجبوری کی ابتدا ہوتی ہے “.

    جہاں تک کھانے پینے کی چیزوں کا تعلق ہے ، وہاں تک تو ہم اپنی مرضی کر سکتے ہیں. لیکن ایک چیز ایسی ہے جس پر ہمارا کنٹرول نہیں. آج کل کپڑا خریدنے جاییُں ، تو کپڑوں کی قیمتیں سُن کر دن میً تارے نظر آنے لگتے ہیں. کپڑا ایک ایسی چیز ہے جس کا بایُکاٹ نہیں کیا جا سکتا. یہاں ہم مجبُور ہیں. باقی اشیاُ کا بایُکاٹ کیا جا سکتا ہے. مہنگایُ ختم کرنے کے لیےُ مختلف اشیا کا بایُکاٹ ضرور کرنا چاہیےُ ، تاکہ مہنگایُ کم ہو سکے.

    اشیا کی قیمتوں پر کنٹرول

    مختلف علاقوں کی مارکیٹ کمیٹیاں تقریبآ 10 بجے صبح سبزیوں کی دکانوں پر ہر سبزی کی اُس دن کے لیےُ خوردہ قیمتوں کی ایک فہرست تقسم کی جاتی ہے. جسے سبزی فروش ایک طرف رکھ دیتے ہیں. اورسبزیاں اپنی مقرر کردہ قیمت پر فروخت کرتے ہیں. یعنی اس بات پر کویُ کنٹرول نہیں کہ سبزیاں مقرر کردہ قیمت پر فروخت ہو رہی ہیں یا نہیں. حکومت اگر سختی سے کنٹرول کرے کہ سبزیاں مقرر کردہ قیمت پر فروخت ہوں، تو مہنگایُ بڑی حد تک موجودہ سطح سے نیچے آ جاےُ گی.

    مرکزی مارکیٹیں

    ہمارے ملک میں دکانوں کا کسی ایک جگہ مرکوز ہونے کا رواج نہیں . ہر شخص جب چاہے، جہاں چاہے ، اپنی دکان کھول سکتا ہے. اور جو چاہے فروخت کر سکتا ہے. یہ ایک بے ہنگم طریقہ ہے. بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہر یونین کونسل میں آبادی کو مدنظر رکھتے ہُوےُ چار یا پاںچ مارکیٹیں بنایُ جاییُں. جو اوپر سے کورڈ ہوں. ان مرکزی مارکیٹوں میں مناسب رقبہ پر دکانیں بنایُ جاییُں. وہاں ہر قسم کی دکانوں ہوں. مثلا سبزی کی سب دکانیں ایک جگہ، فروٹ کی دکانیں ایک جگہ گوشت کی دکانیں ایک جگہ پر ہوں. یعنی گاہک کو اگر گوشت لینا ہو تو وہ ادھر ادھر گھومنے کی بجاےُ مقررہ جگہ پر جاےُ اور گوشت خرید لے. ہر دکاندار اپنی دکان اور دکان کے سامنے والی کھلی جگہ کی صفایُ کا ذمہ دار ہو. مارکیٹ کےکسی ایک کونے میں کوڑا ڈالنے کے لیےُ جگہ مُختص کی جاےُ.

    مرکزی مارکیٹ میں اتنی جگہ ہو کہ اس میں دکانوں کی چار قطاریں لمبایُ میں بنایُ جا سکیں. ہر قطار کے درمیان پارٹیشن کےلیےُ ایک دیوار ہو، جس کے دونوں طرف دکانیں ہو. یہ صرف ایک آیُڈیا ہے، اس میں ضرورت کے مطابق جمع تفریق کی جا سکتی ہے.

    ایسی مرکزی مارکیٹیٹوں کے بننے کے بعد علاقہ میں جگہ بہ جگہ کھُلی ہویُ دکانوں کو ان مرکزی مارکیٹوں میں جگہ دی جاےُ.

    مہنگایُ کو صرف حکومت یا صرف عوام ختم نہیں کر سکتے. مہنگایُ سے نمٹنے کے لیےُ ایک مربُوط لایُحہ عمل کی ضرورت ہے. جہاں تک میں سمجھا ہُوں، حکومت کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ ہم مہنگایُ پر کس طرح قابو پایُیں. اس میں کویُ حرج نہیں اگر ہم کسی ایسے ملک کے کسی ماہر سے مشورہ کر لیں، جس نے اپنے ملک میں مہنگایُ پر قابو پایا ہو.

    ہمارے ملک کا معاشی ڈھانچہ عجیب گورکھ دھندا ہے. ہر شخص زیادہ منافع کمانے کے چکر میں ہیں. نعض کام ایسے ہیں ،جو ملک پر بوجھ ہیں.

    مہنگایُ کم کرنے کے لیےُ چند تجاویز ہیں.

    جان چھُڑا لیں.

    نمبر 1 = وہ ادارے جو غیر فعال ہیں، اور ملکی خزانہ پر محض بوجھ ہیں، ان سے جان چھڑا لی جاےُ.
    نمبر 2 = پی آیُ اے کسی زمانے میں منافع بخش ایُر لایُن تھی. اب یہ کروڑوں کی مقروض ہے. اسے کس نے اس حالت تک پہنچایا ؟. کیا یہ دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکتی ہے ؟. اگر ایسا ممکن ہے تو اسے اپنے پاؤن پر کھڑا ہونے میں مدد دیں. اس کے لیےُ اس میں ایک بے رحم آپریشن کی ضرورت ہے. فالتو عملہ سے جان چھُڑانی ہوگی. اس کی فلاُیُٹ سروس بہتر کرنی ہوگی. آخراجات کم کرنے پڑیں گے. یہ سب کچھ کرنے میں اگر مونچھ داڑھی سے بڑھ جاےُ تو اس سے جان چھڑانے کے لیےُ کچھ کرنا پڑے گا.
    نمبر 3 = آیُ پی پی سے بجلی پیداواری کے معاہدے ایسے ہیں کہ ان سے جان چھُڑانی مشکل ہے. ان معاہدوں کے کچھ خدو خال کچھ یُوں ہیں ؛

    نمبر 1 = بے نظیر بھٹّو نے 1994 سن عیسوی میں ، جب وہ ملک کی وزیر اعظم تھی ، آیُ پی پی ( انڈیپینڈینٹ پاور سپلایُرز) سے بجلی پیدا کرنے اور ملک کو سپلایُ کرنے کے معاہدے کیےُ.
    نمبر 2 = آیُ پی پی معاہدے کے مطابق 43،000 میگا واٹ بجلی سپلایُ کریں گے.
    نمبر 3 = ہمارے ملک کا بجلی ترسیلی نظام پرانا ہے جس کے ذریعے صرف 13،000 میگا واٹ کی بجلی کی ترسیل ممکن ہے.
    نمر 4 = آیُ پی پی ہم سے ہر سال تقریبآ 2000 ارب روپیہ ” کیپیسیٹی چارجز ” کے نام پر وصول کر رہے ہیں. آیُ پی پی والے کہتے ہیں کہ یہ 2000 ارب روپے ان یُونٹوں کی پیداواری لاگت ہے جو ہم نے استعمال ہی نہیں کیےُ.

    ان معاہدوں کے مطابق ہم 43،000 میگا واٹ یونٹ کی قیمت ادا کرنے کے پابند ہیں چاہے ہم یہ ساری بجلی استعمال کریں یا نہ کریں. یہ معاہدے ایک گورکھ دھندا ہیں، مندرجہ بالا مندرجات میں غلطی کی گنجایُش ہے. یہ مندرجات محترم ڈاکٹر اختیار بیگ کے ایک مضمون ” آیُ پی پی معاہدے – ناؤ ڈبو سکتے ہیں ” سے لیےُ گیےُ ہیں، جو روزنامہ جنگ، لاہور کے 12 اگست 2024 کے شمارے میں شایُع ہوےُ ہیں.

    اللہ تعالے سے دُعا ہے کہ وہ ملک کے عوام کے لیےُ سہولتوں کے دروازے کھول دے.

  • ہمارے سُلگتے مسایُل نمبر 16- نشہ کی عادت – Our burning issues, Intoxication

    ہمارے سُلگتے مسایُل نمبر 16- نشہ کی عادت – Our burning issues, Intoxication

    ہمارے سُلگتے مسالُل نمبر 16، نشہ کی عادت
    Our burning issues # 16 – Intoxication

    نشہ کی عادت
    Intoxication

    نشہ کی عادت ، کسی بھی قسم کی ہو، ایک بُری عادت ہے. نشہ کی عادت عمومآ سگریٹ نوشی سے شروع ہوتی ہے. نوجوان لڑکےعمومآ اپنے ساتھیوں کو جب سگریٹ پیتے دیکھتے ہیں، تو ایسے ہی سگرٹ کے دو چار کش لگا لیتے ہیں. ساتھ کے دوست منع کرنے کی بجاےُ سگرٹ پینے والے کی حوصلہ افزایُ کرتے ہیں. اور اس طرح سگرٹ نوشی کی عادت پُختہ ہو جاتی ہے. اور پھر اسے ترک کرنا مشکل ہو جاتا ہے. اس کے علاوہ نشہ آور اشیا کی بے شمار اقسام بڑی آسانی سے دستیاب ہیں. اس آرٹیکل کو پڑھنے سے پہلے ہمارا آرٹیکل ” ہمارے سلگتے مسایُل نمبر 15- فرقہ بندی    “ .

    ضرور پڑھیےُ

    عنوانات

    سگرٹ نوشی- نشہ کی ابتدا
    سگرٹ پینا کیسے چھوڑا ؟
    چرس پینے کی عادت
    افیم کا نشہ
    ہیرویُن
    آیُس کا نشہ
    شراب نوشی
    کیا کیا جاےُ ِ

    سگرٹ نوشی-نشہ کی ابتدا

    عمومی طور پر نشہ کی ابتدا سگرٹ نوشی سے ہوتی ہے. ویسے تو لفظ ” سگرٹ نوشی ” گرایُمر کے لحاظ سے غلط ہے. نوش کے لغوی معنی ہیں ” پینا ” سگرٹ کویُ پینے والی چیز نہیں ہے ، لیکن پھر بھی کہا جاتا ہے کہ فُلاں شخص سگرٹ پی رہا ہے. گویا سگرٹ نوشی کا لفظ غلط العام ہو کر صحیح العام کا درجہ حاصل کر چُکا ہے.
    خیر، چھوڑییےُ اس بحث کو. آمدم بر سر مطلب، جب کویُ شخص سگرت نوشی کا عادی ہو جاتا ہے، تو اسے لاکھ سمجھایا جاےُ کہ سگرٹ پینے کے کییُ نقصانات ہیں، تو وہ عمومآ یہ کہتا ہے ؛

    ہاےُ کم بخت ،تو نے پی ہی نہیں

    دیکھا گیا ہے کہ سگرٹ نوش کھانا کھانے کے فورآ بعد سگرٹ سُلگا لیتے ہیں. سگرت نوش عمومآ سگرٹ نوشی کے یہ فوایُد بتاتے ہیں:

    نمبر 1 = سگرٹ نوشی سے معدے کی گیس خارج ہوتی رہتی ہے.

     نمبر 2 = کھانا کھانے کے بعد سگرٹ پینے سے معدے میں کھانا جلد ہضم ہو جاتا ہے

                       نمبر 3 =سگرٹ پیتے ہُوےُ کسی مسُلہ پر یک سُویُ سے سوچا جا سکتا ہے

    سگرت نوشی کے فوایُد کے برعکس اس کے نقصانات زیادہ ہیں. جو یہ ہیں:

    نمبر 1 = سگرٹ میں نکوٹین کی مقدار زیادہ ہوتی ہے . نکوٹین سے سر درد، مُنہ، دانت اور گلے کا درد، کھانسی، ذایُقہ میں تبدیلی، کلیجہ کی جلن، ہچکی، پسینہ آنا اورپیٹ کی خرابی ( جلاب وغیرہ‌) کی شکایات ہو سکتی ہیں.
    نمبر 2 = سگرٹ پینے کا سب سے بڑا نُقصان انسانی پھیپھڑوں پر ہوتا ہے. سگرٹ کا دھُؤاں پھیپھڑوں کے سوراخوں کو آہستہ آہستہ بند کر دیتا ہے. جس سے سانس لینے میں کافی مُشکل پیش آتی ہے. اسے دمہ بھی کہہ سکتے ہیں.
    نمبر 3= سگرٹ کا دھوُاں دل کی دھڑکن کو تیز کر دیتا ہے. اور بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے.

    ہماے پڑوس میں ایک درزی رہتا تھا، جو چین سموکر تھا. اس کے منہ میں ہر وقت سلگتا ہُؤا سگرٹ رہتا تھا. اتنی زیادہ عُمر بھی نہیں تھی. وہ زیادہ بیمار ہو گیا تو اسے ہسپتال لے گیےُ. وہاں اس کی چھاتی کا ایکس رے کیا گیا. ڈاکٹر نے مریض کے لواحقین کو بتایا ، کہ اس کے پھیپھڑے تو بالکل ناکارہ ہو چکے ہیں. اور پھر اُسی دن وہ اللہ کو پیارا ہو گیا. مرحوم ایک دن میں سگرٹ کے کم از کم تین پیکٹ پی جاتا تھا.
    نمبر 3 = بہت زیادہ سگرٹ پینے سے مُنہ کا کینسر ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے.
    نمبر 4 = سگرٹ نوش کے منہ سے تمباکو کی نا گوار بُو آتی ہے. جو کُلی کرنے کے باوجود قایُم رہتی ہے.
    نمبر 5 = سگرٹ خریدنے پر جو رقم خرچ ہوتی ہے ، وہ گویا رقم کو آگ لگانے کے مترادف ہے. یہ رقم کسی نیک مقصد پر خرچ کی جا سکتی ہے.

    سگرٹ پینا کیسا چھوڑا ِ ؟

    وہ جو کہتے ہیں نا کہ آپ بیتی یا جگ بیتی. مجھے یہ کہنے میں کویُ رکاوٹ نہیں. میں خود تقریبآ تیس سال تک اعلے کوالٹی کے سگرٹ پیتا رہا ہُوں. تقریبآ تیس سال سگرٹ پینے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ سگرٹ پینے کے بعد مجھے کھانسی شروع ہو جاتی ہے. یہ پہلا موقع تھا جب مجھے یہ محسوس ہُؤا کہ سگرٹ نوشی میرے پھیپھروں کو نقصان پہنچا رہی ہے. اور میں سگرٹ خریدنے پر خرچ ہونے والے پیسوں کو آگ لگا رہا ہُوں ، جس سے مجھے کویُ فایُدہ حاصل نہیں ہو رہا. کیا میں بے وقوف ہوں جو اتنی سی بات کو سمجھ نہیں پا رہا. اُسی دن میں نے سگرٹ نہ پینے کا پُختہ ارادہ کر لیا. اور اس بات کو بیس سال گزر چپکے ہیں ، میں نے ایک بھی سگرٹ نہیں پیا. اب مجھے سگرٹ پینے کی طلب بھی نہیں ہوتی.

    چرس پینے کی عادت

    کافی عرصہ پہلے کی بات ہے، میں نے اہنے مکان پر نییُ سفیدی کرانے کے لیےُ سفیدی کرنے والے ایک شخص سے رابطہ کیا. اس نے دو آدمیوں کو سفیدی کرنے پر لگا دیا. ایک دن میں نے محسوس کیا جیسے مکان کی اوپری منزل پر سفیدی کرنے والے کام نہیں کر رہے. میں انہیں دیکھنے کے لیےُ اوپری منزل پر گیا. دونوں آدمی ساےُ میں بیٹھے سگرٹ پی رہے تھے. ان کے آس پاس چرس کی بُو پھیلی ہُویُ تھی. میں نے ان سے پوچھا ” کیا پی رہے ہو “؟. ایک نے جواب دیا. ” سر، ہم چرس کا سُوٹا لگا رہے ہیں “. میں نے ان سے پُوچھا ، “تم چرس کیوں پیتے ہو ؟” ایک نے جواب دیا ” جب ہم کام کرتے کرتے تھک جاتے ہیں، تو چرس سے بھرا ہُؤا ایک سگرٹ پینے سے ہماری تھکاوٹ دُور ہو جاتی ہے اور ہم کافی دیر تک بلا تھکاوٹ کام کرتے رہتے ہیں “.

    یہ ہے چرس پینے کی ابتدا. اور پھر چرسی آہستہ آہستہ کسی کام کا نہیں رہتا. جہاں تک میری معلومات ہیں ، چرس پینے والے عادی ثخص کو نارمل زندگی کی طرف لانا بہت مشکل ہے. میں کافی عمر کے ایک شخص کو جانتا ہوں جو جوانی میں چرس پینے کا عادی تھا. اس کے بچے انگلینڈ میں برسرروزگار ہیں . انہوں نے بہت سارا پیسہ خرچ کر کے اپنے والد کا علاج کرایا. اور اسے ” چرس فری ” شخص بنایا. اس وقت وہ کافی عُمر کا ہے، لیکن اب بھی کبھی کبھار چھُپ چھُپا کر چرس کا سُوٹا لگا لیتا ہے.

    افیم کا نشہ

    آپ نے کبھی کھانسی کے علاج کے لیےُ کھانسی کا شربت پیا ہے ؟ آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ کھانسی کا شربت پینے کے بعد آپ کا سر بھاری محسوس ہونے لگتا ہے. آپ سو جانا چاہیں گے. یہ سب اس افیم کا اثر ہوتا ہے جو کھانسی کی دوایُ یا شربت کا ایک اہم جز ہوتا ہے. افیم نیند لانے والی ایک” دوایُ” ہے. افیمی عمومآ افیم کھا کر دنیا و ما فیہا سے بے نیاز سوےُ رہتے ہیں.
    افیم کا ایک اثر یہ ہے کہ افیم معدے کی رطوبات کو خُشک کر دیتی ہے، اسی اثر کے تحت افیمی سخت قسم کی قبض کا شکار رہتے ہیں. اپنے ملک میں افیم ہمارے ہمسایہ ملک افغانستان سے آتی ہے. جہان پوست کاشت کرنے کر برے بڑے فارم ہیں.

    ہیرویُن

    یہ ہیرویُن فلمی ہیرویُن نہیں. بلکہ افیم سے تیار کردہ وہ مہلک نشہ ہے ، جو ساری دۃنیا میں پھیل چُکا ہے. ہیرویُن کا نشہ کرنے والے اسے ” لال پری ” کے نام سے بھی پُکارتے ہیں. پوست کے جوان پودے کے پھل کو بلیڈ سے چھوٹے چھوٹے کٹ لگاےُ جاتے ہیں. ان کٹ سے ایک لیسدار مادہ نکلتاہے جسے افیم کہتے ہیں. اس افیم کو بڑی احتیاط سے پودے کے پھل سے علیحدہ کر لیا جاتا ہے. یہ خالص افیم ہے . اس خالص افیم کو کٰیُ پراسس سے گزار کر سفید رنگ کی ہیرویُن تیار کی جاتی ہے. افغانستان میں افیم سے ہیرویُن تیار کرنے کے کییُ کارخانے ہیں. تیاری کے بعد ہیرویُن کو چھوٹے پیکٹوں میں پیک کیا جاتا ہے. پھر اسے دُنیا بھر کے مختلف ممالک میں سمگل کر دیا جاتا ہے

    ہیرویُن کی تیاری، فروخت، مارکیٹنگ وغیرہ دُنیا بھر میں ممنوع ہے. لیکن اس کے سوداگر اسے خفیہ نقل و حرکت کے ذریعے ایک ملک سے دوسرے ممالک میں سمگل کر دیتے ہیں. ایسا کییُ دفعہ ہُؤا ہے کہ اس کی سمگلنگ کے دوران کسی ملک نے اس کی کھیپ پکڑ لی ، اور اسے ضبط کر لیا. یہ سمگلر اپنا دامن بچا کر رکھتے ہیں. اور اپنے مال کو بہ حفاضت منزل مقصود تک پہنچا دیتے ہیں.

    ہیرویُن ایسا نشہ ہے کہ جس سے جان نہیں چھوٹتی. ہرویُن کے نشییُ کو جب وقت پر ہیرویُن نہیں ملتی، تو اس کے جسم میں زبردست قسم کی تکالیف شروع ہو جاتی ہیں. وہ چیختا ہے، چلّاتا ہے. وہ یوں محسوس کرتا ہے جیسے اس کے جسم کا گوشت اس کی ہڈیوں سے الگ کیا جا رہا ہے. یہ تکلیف اس وقت تک رہتی ہے جب تک اسے ہیرویُن کی خوراک نہیں ملتی. یہ ایسا نشہ ہے کہ جسے ایک دفعہ لگ جاےُ، وہ اس سے عمر بھر چھٹکارہ نہیں پا سکتا. آپ قصبہ میانہ گوندل ، ضلع منڈی بہاؤالدین سے موضع بھابھڑہ ، ضلع سرگودھا کی طرف جایُں تو راستہ میں ایک گاؤں پنڈی راواں نامی آےُ گا. یہاں کے رہایُشی کیُ کیُ مربع زرعی زمینوں کے مالک تھے. لیکن اب وہ اپنی اپنی ساری زمینیں بیچ کر خالی ہاتھ بیٹھے ہیں . کیُ لوگ ہیرویُن نشہ کے عادی تھے. ہیرویُن خریدنے کے لیےُ اپنی زرعی زمینیں بیچتے رہے.

    اپنے ملک میں ایسے کییُ ہسپتال ہیں جو ہیرویُن نشہ کے عادی افراد کو اس نشہ سے چھُٹکارہ پانے کی نوید سُناتے ہیں. لیکن ان کے اخراجات بہت زیادہ ہیں. ایک تو وہ ایسے نشییؤں کو بہت عرصہ تک اپنے ہسپتال میں رکھتے ہیں. وہ مریض کے نشہ کو یک دم بند نہیں کرتے. بلکہ وہ نشہ میں بہت ہی معمولی مقدار کم کر دیتے ہیں، جسے مریض محسوس نہیں کر سکتا. اس طرح کرتے کرتے کافی مہینوں کے بعد وہ نشہ کی تقریبآ نصف مقدار تک پہنچ جاتے ہیں. اس کے ساتھ ساتھ ان کی خوراک کا خیال رکھا جاتا ہے. انہیں لیکچر دیےُ جاتے ہیں. نماز پڑہانے کا اہتمام کیا جاتا ہے. اس طرح وہ آہستہ آہستہ مریض کو نشہ کی ڈوز کے بغیر نارمل بنانے کی کوشش کرتے ہیں. لیکن ایسے ہسپتالوں کے اخراجات کویُ امیر آدمی ہی اُٹھا سکتا ہے.

    آیُس کا نشہ ( ٰٰIce)
    لفظ آیُس سے آپ اس مغالطے میں نہ پڑہیں کہ آیُس تو پانی کو ٹھنڈا کرنے کے لیےُ استعمال ہوتی ہے. یہ نشہ کب پیدا کرنے لگی.

    آصل بات یہ ہے کہ دولت کے پُجاری دولت حاصل کرنے کے لیےُ جایُز اور ناجایُز ہر حربہ استعمال کرتے ہیں. دولت کے کسی ایسے ہی پُجاری کے شیطانی ذہن میں یہ خیال آیا کہ برف کو نشہ آور بنا کر دُنیا کو دھوکا دیا جا سکتا ہے. سب سے پہلے اس نے برف میں الکوحل ملا یُ. آہستہ آہستہ لوگوں کو الکہحل ہینے کا ایک محفوظ طریقہ مل گیا. وہ سادہ پانی مہں الکوہل ملی برف ڈال کر پینے لگے. دیکھنے والے یہی سمجھنیں گے کہ یہ لوگ برف سے ٹھنڈا کیا ہُؤا پانی پی رہے ہیں.

    سایُنس کی ترقی سے جہاں انسانی زندگیوں میں بہت آسانیاں پیدا ہو گییُ ہیں، وہیں پر بہت سارے نقصانات بھی ملے ہیں. ایک ایجاد اگر صحیح معنوں میں استعمال کی جاےُ . تو آسانیوں کا باعث بنتی ہے . اس کا غلط استعمال نقصانات کا باعث بنے گا. آج کل ایسی برف بھی ملتی ہے جو بڑی دیر تک پگھلتی نہیں. شیظانی ذہنوں نے اس کا غلط فایُدہ اُٹھایا. پہلے دیر سے پگھلنے والی برف میں الکوہل ملا کر اسے نشہ آور بنایا. آج کل اس برف مٰیں کرسٹل میتھم فیٹامایُن ملایا جاتا ہے. انسان پر اس کے اثرات کچھ اس طرح ہیں.
    دل کی تیز دھڑکن، چھاتی میں درد، سانس لینے میں تکلیف، اینٹھن، جسم کا بے اختیار جھٹکنا، سخت قسم کا سر درد،

    کرسٹل میتھم فیٹا مایُن ملی برف کے پینے سے دماغ میں تین کیمیکل پیدا ہوتے ہیں

    نمبر 1 = ڈوپاماییُن= اس کے اثرات میں خوشی کا احساس، تُسلّی اور آمادگی کا اظہار ہے.
    نمبر 2 = سیروٹونن = سیکھنے کی خواہش، یاداشت، خوش رہنا اور نیند اس کے اثرات میں شامل ہیں.
    نمبر 3 = نوراڈرینالین = اس کے اثرات میں توجّہ، اندرونی معاملات اور تناؤ شامل ہیں.

    اس برف کا زیادہ مقدار میں پینا مندرجہ بالا اثراے میں شدت پیدا کر دیتا ہے.

    شراب نوشی

    ہمارے ملک میں مسلمانوں کی اکثریت ہے. اسلام میں شراب بنانا، شراب کی تجارت اور شراب نوشی ممنوع ہے. لیکن لوگ شراب تیار کرتے ہیں، شراب کی تجارت کرتے اور شراب پیتے ہیں. اس کے لیےُ حکومت نے کچھ رعاییُتیں دے رکھی ہیں. عادی شراب نوش کسی میڈیکل آفیسر سے اس بات کا سرتیفیکیٹ حاصل کر کے شراب خرید اور پی سکتا ہے. شراب نوشی کا یہ ایک چور دروازہ ہے. اب اس کا گُناہ کس کے سر ہے ؟ کسی عالم دین سے پُوچھیں.

    راولپنڈی میں انگریز دور کے زمانے سے ” مری برُوری ” کے نام سے بییُر بنانے کا ایک کارخانہ آج تک موجود ہے، جہاں بیُر بنتی اور دُکانوں کو سپلایُ کی جاتی ہے.

    دُنیا بھر ، خصوصآ عیسایُ ممالک میں شراب بنانا اور پینا ممنوع نہیں ہے. ان ممالک کے کارخانوں میں اعلے قسم کی بییُر اور مختلف برانڈ ناموں والی شراب بنتی ہے. جن کی دُنیا بھر میں بڑی ڈیمانڈ ہے. پاکستان میں بھی یہ شراب پرمٹ پر منگایُ جاتی ہے. اس کے علاوہ مختلف ذرایُع سے سمگل ہو کر یہاں پہنچ جاتی ہے ، لیکن پرمٹ کے ذریعے سے منگایُ گییُ شراب سے مہنگی پڑتی ہے. امپورٹد شراب زیادہ تر بڑے ہوٹلوں کو فروخت کی جاتی ہے ،

    بعض لوگ دیسی شراب بنا کر خفیہ طور پر بیچتے ہیں. حالانکہ یہ دھندا خلاف قانون ہے. لیکن لوگ پھر بھی باز نہیں آتے. ایسی شراب کافی نقصان دیہہ ہوتی ہے. اخبارات میں ایسی خبریں شایُع ہوتی رہتی ہیں ، کہ اتنے آدمی کچّی شراب پہنے سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے. ایسے لوگ عمو مآ غریب طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں. کسی خوشی کے موقع پر دیسی یا کچّی شراب پی کر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیتھتے ہیں.

    کیا کیا جاےُ‌؟

    ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، لیکن اسلام کی مقررہ حدود کا پاس نہیں کرتے. ہر عاقل ، بالغ اور ہوشمند مسلمان پر مقرر کردہ پانچ اوقات میں نماز پڑھنا فرض ہے. پاکستان میں کتنے فی صد مسلمان نماز پابندی سے پڑھتے ہیں ؟ اسلام کے پانچ فرض ارکان میں سے ایک فرض ہر سال ذکات کی ادایُگی ہے. کتنے لوگ یہ فرض ادا کر رہے ہیں ؟

    اپنے مُلک کے آییُن میں غالبآ ایسے کویُ شق نہیں ہے ، جو ہر مسلمان کو بُنیادی پانچ فرایُض کی پابندی پر سختی سے عمل کرنے کا پابند بناےُ. ہو سکتا ہے میں غلطی پر ہُوں. ایُین میں ایسی کویُ شق ہو، تو اس صورت میں حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اس پر سختی سے عمل کراےُ.

    اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آییُن اور دوسرے قوانین کو اسلامی بنانے کے لیے پارلیمنٹ سے ایسے افراد کی ایک کمیٹی بنایُ جاےُ جو اسلامی قوانین سے کما حقہہ واقف ہوں. علماےُ دین سے بھی مشاورت کی جا سکتی ہے. بظاہر یہ کام مشکل معلوم ہوتا ہے وہ جو کہتے ہیں کہ ؛

    چل پڑے تو کٹ ہی جاےُ گا سفر آہستہ آہستہ

    ارادہ نیک ہو تو اللہ تعالے بھی مدد کرتا ہے. مشکل کام صرف ابتدا کرنے تک ہے. آگے بڑھیےُ، کام شروع کر دیں . اللہ تعالے مدد کرے گا.

  • ہمارے سُلگتے مسایُل، نمبر 15، فرقہ بندی – ,  Sect Clause-  Our burning issues # 15

    ہمارے سُلگتے مسایُل، نمبر 15، فرقہ بندی – , Sect Clause- Our burning issues # 15

    ہمارے سُلگتے مسایُل نمبر 15 – فرقہ بندی
    Sect Clause- Our burning Issues # 15

    Sect Clause
    فرقہ بندی ہمارے ملک کا ایک اہم مسلہ ہے. کیا آپ نے کبھی اندازہ لگایا ہے کہ ملک میں اسلام کے نام پر کتنے فرقے موجود ہیں؟. ہر فرقہ اہنے آپ کو اسلام کا صحیح نمایُندہ سمجھتا ہے. اور دوسروں کو اپنا پیروکار بنانے کی کوشش کرتا ہے. ملک میں مسجدیں زیادہ ہیں اور نمازی کم ہیں. اپنے قومی شاعر اقبال نے سچ ہی کہا تھا ؛

    مسجد تو بنا دی شب بھر میں، ایماں کی حرارت والوں نے
    من اپنا پُرانا پاپی ہے. برسوں میں نمازی بن نہ سکا

    بات تو اقبال صاحب کی صحیح ہے . مسجدیں تقریبآ ویران ہیں. دیہات میں حالت اس سے بھی بد تر ہے. کسی مسجد میں نمازیوں کی تعداد پانچ سات سے زیادہ نہیں ہوتی. امام مسجد لوگوں کو گھروں سے تو کھینچ کر لانے سے رہے. ہم ” بے نمازیوں ” کے اس مرتبے تک کیسے پہنچے ؟ کیا امام مسجدوں کے واعظوں میں تاثیر نہیں رہی ؟ یا ان کے وعظ لوگوں کے سر سے گزر جاتے ہیں 

    عنوانات

     فرقہ بندی
    فرقہ اہلسنت والجماعت
    فرقہ بریلوی
    فرقہ دیوبندی
    شیعہ فرقہ
    فرقہ اہل حدیث
    قادیانی فرقہ
    دیگر مذاہب کے لوگ
    دیگر مذاہب

     

    فرقہ بندی
    Sect Clause

    جہاں تک میں سمجھا ہُوں ، لوگوں کے مسجدوں میں آ کر اکٹھے
    نماز نہ پڑھنے کی بڑی وجہ لوگوں کی فرقہ بندی ہے. ایک فرقے کا آدمی دوسرے فرقے والوں کی مسجد میں جا کر نماز نہیں پڑھے گا. وہ سمجھتا ہے کہ دوسرے فرقہ کی مسجد میں اس کی نماز نہیں ہوگی. اسلام میں کتنے فرقے بن چکے ہیں، ہم ان پر پہلے بحث کریں گے.

    فرقہ اہل سُنت والجماعت

    اہل سنت والجماعت کے فرقہ کے پیروکار اپنے آپ کو اسلام کا صحیح پیروکار سمجھتے ہیں. اس فرقے کے پیروکاروں کی تعداد کافی زیادہ ہے. یہ فرقہ پیروں فقیروں کا معتقد ہوتا ہے. اور کچھ لوگ پیروں اور اپنے مرشدوں سے مرادیں بھی مانگتے ہیں. اس فرقے کے لوگ نمازوں کے لیےُ اذان سے پہلے لاؤڈ سپیکر کے ” فُل والیوم ” پر آللہ تعالے کے آخری پیغمبر پر درود پڑھنا لازم سمجھتے ہیں. ہوتا یُوں ہے کہ مؤذن اذان دینے کے بعد بھی لاؤڈ سپیکر پر کافی دیر تک درود پڑھتا رہتا ہے. اُسے اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ اڑوس پڑوس میں شاید کویُ بیمار ہو، جسے نیند کی ضرورت ہوگی. کویُ طالب علم پڑھ رہا ہوگا ، اور وہ ڈسٹرب ہوگا. اس حالت کو یوُں بیان کیا جا سکتا ہے ؛

    دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
    کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے

    اسلام اس بات کا درس دیتا ہے کہ دوسروں کا خیال رکھا جاےُ. ضرورت اس امر کی ہے کہ درس نظامی پڑھانے والے اپنے شاگردوں کو یہ تعلیم بھی دیں کہ دوسروں کے حقوق کا بھی خیال رکھا جاےُ.اس فرقہ کے پیروکاروں کو عمومآ ” سُنّی ” بھی کہا جاتا ہے. اس فرقہ کے لوگ اپنے آپ کو امام ابو حنیفہ کی تعلیمات پر کاربند ہونے کا اظہار کرتے ہیں. دوسرے الفاظ میں یہ حنفی مذہب کے پیروکار ہیں.

    عرب ممالک میں مالکی، حمبلی فقہ کے کافی پیروکار ہیں. جو امام مالک اور امام حمبل کے فقہ کے پیروکار ہیں. امام مالک اور امام حمبل کی لکھی ہُویُ کتابیں موجود ہیں ، جن سے ان کے پیروکا راہنمایُ لیتے ہیں. دونوًں امام اسلام کے بنیادی عقایُد پر یقین رکھتے ہیں. ان پر ان کا کویُ اختلاف نہیں. لیکن بعض تشریحات پر ان کا آپس میں اختلاف ہے. جن کا اظہار انہوں نے کتابی شکل میں کیا ہے. حیرانگی کی حد تک یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ امام ابو حنیفہ کی لکھی ہویُ
    کویُ کتاب موجود نہیں. اس فرقہ کے لوگ بھی اقرار کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کی لکھی ہویُ کویُ کتاب موجود نہیں. پھر ان کے عقیدے کی بُنیاد کیا ہے ؟ اس کے لیےُ وہ ایک کتاب کا حوالہ دیتے ہیں ، جس کا نام ” دُر مُختار “ہے. کتاب در مُختار کے مصنف کا نام محمد علاؤالدین حسکافی ہے. اور در ًختار کی مختلف موضوعات پر کیُ جلدیں ہیں، جیسے کتاب النکاح، کتاب الصلوات وغیرہ وغیرہ. -. مزید معلومات کے لیےُ ہمارا آرٹیکل پڑھیےُ ” ہمارے سلگتے مسایُل قسظ نمبر 3 ، اندھی عقیدت

    فرقہ بریلوی

    انگریزی دور میں ہندوستان کے شہر بریلوی میں ایک شخص پیدا ہُؤا، جس کا نام احمدرضا خاں رکھا گیا. یہی شخص بعد میں اسلام میں بریلوی فرقہ کا موجد بنا. اس کے پیروکار ” بریلوی ” کہلاتے ہیں. اس فرقہ کے لوگ ہیروں فقیروں پر اندھی عقیدت رکھتے ہیں. اور ان سے اللہ کے سوا اپنی مرادیں پوری ہونے کی دُعایُں کرواتے ہیں. اپنی عقیدت میں یہ لوگ شرک کی حد تک پہنچ جاتے ہیں. اسلام کے ایک بزرگ عبدالقادر جیلانی مرحوم سے اپنی مرادیں پوری ہونے کی دُعایُں مانگتے ہیں. فرقہ کے بانی احمد رضا خاں کو بہت بڑا ولی سمجھتے ہیں. احمد رضا کے لکھے ہُؤےُ ایک “سلام ” کو ہر نماز کے بعد لاؤڈ سپیکر پر پڑھنا لازم قرار دے دیا گیا ہے. اللہ کے آخری رسُول سے عقیدت اس قدر ظاہر کرتے ہیں کہ انہیں خدا کے برابر درجہ دے دیتے ہیں. استغفراللہ.

    فرقہ دیوبندی

    دیوبندی فرقہ کے لوگ صرف ایک خدا کی عبادت کرنے پر زور دیتے ہیں. اللہ کے رسول کے تمام صحابہ کرام کی یکساں. عزت کرتے ہیں. غیر شرعی کاموں سے روکتے ہیں. ملک میں غیر ملکی ثقافت خصوصآ مغربی ثقافت کو روکنا اور ہر وہ کام کو، جو شریعت اسلامیہ کے خلاف ہے ، اس پر عمل نہ کرنا ان کےعقایُد میں شامل ہے. اس فرقہ کا مرکز انڈیا کے شہر دیوبند میں ہے اور اسی کے نام پر اس کا نام دیوبندی فرقہ پڑا. بنیادی طور پر یہ امام ابو حنیفہ کے ییروکار ہیں.

    شیعہ فرقہ

    شیعہ فرقہ کی ابتدا کہاں سے ہویُ ؟ ایک کہانی کے مطابق امیر تیمور لنگ کی مملکت میں ان لوگوں کی اکثریت تھی جو شیعہ خیالات کے حامی تھے. لفظ ” شیعہ ” کے لغوی معنی ہیں ” دوست “. شیعہ فرقہ کے لوگ اپنے آپ کو امام حسین علیہ سلام کے دوست ہونے کے دعویدار ہیں. امیر تیمور لنگ نے اپنی رعایا کو خوش رکھنے کے لیےُ تعزیہ نکالنے اور ماتم کرنے کی بُنیاد رکھی. واللہ عالم یہ بات کہاں تک صحیح ہے. مجھے تو کسی کتاب میں اس کہانی کی سند نہیں ملی.

    شیعہ فرقہ پنے آپ کو مسلمان ہونے کا دعوے کرتے ہیں. ان کے سارے عقایُد اسلام کے صریحآ خلاف ہیں. جیسے

    نمبر 1— ان کی اذان عام مسلماوں کی اذان سے مختلف ہے.
    نمبر 2 — عام مسلمان نماز پڑھتے ہُوےُ ہاتھوں کو اپنے سینہ پر باندھ لیتے ہیں. یہ لوگ ہاتھوں کو جسم کے ساتھ لٹکاےُ رکھتے ہیں.
    نمبر 3 — ان کی اکثریت موجود قرآن پر یقین نہیں رکھتی. ان کے عقیدے کے مطابق اصل قُران ان کے آخری امام مہدی علیہ السلام اپنے ساتھ لے گیےُ تھے ، جب وہ ایک غار میں روپوش ہو گیےُ تھے . اب قیامت سے پہلے ان کا ظہور ہوگا.
    نمبر 4 — ہر اسلامی سال کے پہلے مہینے محّرم کی پہلی تاریخ سے لے کر دسویں محرم تک یہ لوگ امام حسین علیہاسلام کے غم میں ماتم کرتے ہیں. اور
    تعزیے نکالتے ہیں. تعزیے نکالنے کی ابتدا غالبآ متحدہ ہندوستان کے شہر لکھنؤ سے ہویُ تھی. آج کل ماتم کرتے ہوےُ لوگ لوہے کی انجیروں کے ساتھ بندھی ہُویُ چھوٹی چھوٹی چھریاں اپنی پیتھ پر مارتے ہیں.
    نمبر 5 — ماہ محرم کے پہلے دس دنوں میں یہ لوگ نہاتے نہیں.
    نمبر 5 — ان 10 دنوں میں یہ لوگ مختلف جگہوں پر دودھ اورمیٹھے پانی کی سبیلیں لگاتے ہیں. وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان دس دنوں میں امام حسین علیہ اسلام کو پانی نہیں ملا تھا. اس لیے ان کے اعتقاد کے مطابق لوگوں کو پانی پلانا کار ثواب ہے.
    نمبر 6 — محرم کے پہلے 10 دنوں میں کالا لباس پہننا ضروری سمجھتے ہیں. ان کے عقیدے کے مطابق یہ کالا لباس امام عالی مقام کے سوگ میں پہنا جاتا ہے. نمبر 7 –– کسی ایک    گھوڑے کو سارا سال پالتے ہیں اچھی خراک دیتے ہیں . اس پر سواری نہیں کرتے. محرم  کے  دنوں میں ماتمی جلوس کے درمیان اس سجے ساےُ گھوڑے کو رکھا جاتا ہے. لوگ اس گھوڑے کے نیچے سے گزرنے کو کار ثواب سمجھتے ہیں.
    نمبر 8 –شیعوں کی اکثر مساجد میں کربلا سے لایُ ہویُ مٹی کو پکا کر اس کے چھوٹے چھوٹے ٹُکڑے مسجد میں رکھ دیتے ہیں . شیعہ حضرات نماز پڑھنے سے پہلے اس مٹی کا ایک ٹکڑا اپنے سامنے رکھ لیتے ہیں. اور اس پر سجدہ کرتے ہیں. جن مسجدوں میں ایسے ٹکڑے نہیں ہوتے وہ اپنے سامنے کاغذ کا ٹکڑا رکھ کر اس پر سجدہ کرتے ہیں.
    نمبر 9 — ان لوگوں کو اگر موقع ملے تو یہ حج کرنے کی بجاےُ کربلا جانے کو ترجیح دیتے ہیں.
    میں نے کیی شیعہ دوستوں کی زبانی سُنا ہے کہ ان کاعقیدہ ہے کہ رسالت علی علیہ سلام کا حق تھا. جبرایُل علیہ اسلام غلطی سے محمد صل اللہ علیہ و سلم کی طرف چلے گیےُ. استغفراللہ.
    نمبر 10 — علی کرم اللہ وجہُ کے سوا تمام خلافا ےُ راشدین کے سخت خلاف ہیں- اور انہیں غاصب اور ظالم سمجھتے ہیں.اور بھی کیُ کاموں میں یہ عام مسلمانوں کی مخالف سمت میں جاتے ہیں.

    فرقہ اہل حدیث

    آللہ تعالے کے آخری رسول کی وفات کے بہت عرصہ بعد مسلمانوں میں کییُ بدعات شروع ہو گییُں. یہ بدعات سعودی عرب میں بھی سرایُت کر گییُں. حالت بہت بگڑ گییُ. پھر یُوں ہُؤا کہ اللہ تعالے نے اپنے ایک بندے کو ہمت دی ، کہ وہ ان بدعات کو ختم کرے. اس مبلغ کا نام عبدالوہاب تھا. عبدالوہاب نے سب سے پہلے تبلیغ کا کام سعودی عرب سے شروع کیآ. اس کی تعلیم تھی کہ ؛

    نمبر 1– اللہ تعالے ہم سب کا معبود ہے.
    نمبر 2– الل تعالے کے سوا کسی دوسرے سے مدد نہ مانگو.
    نمبر 3 — اللہ تعالے کے سوا کسی دوسرے سے مدد مانگنا شرک ہے.
    نمبر 4 — ہدایت کا بہترین ذریعہ قرآن پڑھنا اور اس پر عمل کرنا ہے.
    نمبر5 — قران کے بعد ہدایت کا ذریعہ اللہ کے آخری رسول کی احادیث ہیں. ان
    ا حادیث میں زندگی گزارنے کے سارے اصول موجود ہیں. ہر مسلہ کا
    حل موجود ہے.
    نمبر 6 — ذندگی اس طرح گزارو جس طرح اللہ کے آخری رسول نے گزاری. آن
    کی زندگی کو مشعل راہ بناؤ.
    نمبر 7 — نماز پڑھتےہُوےُ یہ سمجھا کرو کہ تم اللہ کے حضور کھڑے ہو.

    بگڑے ہُوؤں کو سیدھے راستہ پر لانا کافی مشکل ہوتا ہے. لیکن عبدالوہاب نے ہمت نہ ہاری. اللہ نے بھی اس کی مدد کی. اور اب تقریبآ تمام عرب ممالک میں اللہ تعالے کی عبادت صحیح طریقے سے ادا کی جا رہی ہے. ںماز کو صحیح طور پر ادا کرنے والوں کو ” اہل حدیث ” کہا جاتا ہے. کیونکہ یہ لوگ اپنے مسلوں کا حل اللہ کے آخری رسول کی احادیث میں تلاش کر کے اس پر عمل کرتے ہیں.

    اپنے پاکستان میں بھی بہت ساری جگہوں پر اہل حدیث کی مساجد موجود ہیں. اہل حدیث دوسرے فرقوں کی مساجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے سے حتےالوسع گریز کرتے ہیں. یہ دیکھا گیا ہے کہ عام مساجد کے پیش امام نماز پڑھاتے ہُوےُ بہت ساری غلطیاں کر جاتے ہیں. مثلآ نماز میں قران کی تلاوت بڑی جلدی جلدی کریں گے، یا بہت آہستگی سے کریں گے، رکوع کے بعد فورآ سجدے میں چلے جایُں گے. سجدہ سے سر اُٹھا کر فورآ دوسرے سجدے میں چلے جاییُں گے. سجدہ سے سر اتھاتے ھی اللہ اکبر کہتے ہوےُ دوسری رکعت کی تلاوت شروع کر دیں گے. یہ طریقہ اس طریقہ کے بالکل خلاف ہے جیسے اللہ کے آخری رسول نماز پڑھاتے تھے یا انہوں نے نماز پڑھنے کی تلقین کی تھی. میں نے بُخاری شریف میں ایک حدیث پڑھی تھی، جس کا مفہوم اس طرح ہے .

    ایک دفعہ اللہ کے رسول مسجد میں تشریف لاےُ. وہاں ایک اصحابی نماز اس طرح پڑھ رہے تھے ، جیسے آجکل کے مولوی صاحبان پڑھاتے ہیں. چار رکعت والی نماز دو منٹ میں ختم کر دی. اللہ کے رسول نے انہیں کہا کہ تمہاری نماز نہیں ہُویُ، نماز دوبارہ پڑھو. اس اصحابی نے نماز پھر اسی طرح جلدی جلدی پڑھ ڈالی. آ پ نے فرمایا، نماز اس طرح پڑھو، جس طرح میں پڑھتا ہُوں، یا جس طرح تمہیں پڑھنا سکھایا گیا ہے

    اہل حدیث پیش امام نماز میں قرات اس طرح کرتا ہے کہ ایک ایک لفظ جُدا جُدا سمجھ میں آتا ہے. اپنی قرات بلند آواز میں اور مناسب وقفوں کے ساتھ کرتا ہے. کہ مقتدی صاف سمجھ جاتا ہے کہ پیش امام نے کیا پڑھا ہے. اہل حدیث اس طرح پڑھی جانے والی نماز پڑھنا چاہتا ہے، جو اسے عام مساجد میں نہیں ملتی. اس لیےُ وہ کوشش کرتا ہے اہل حدیث کی کسی مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھے. اگر اسے ایسا موقع نہیں ملتا تو وہ گھر میں اکیلے نماز پڑھ لیتا ہے.

    قادیانی فرقہ

    ہر مسلمان کا یہ پختہ ایمان ہوتا ہے کہ محمد صل اللہ علیہ و سلم اللہ تعالے کے آخری پیغمبر ہیں. اسی لیےُ انہیں ” خاتم اننبیّن ” کہا جاتا ہے. متحدہ ہندوستان میں قادیان شہر کے ایک شخص مرزا غلام احمد نے خاتم انبییں کی تشریح ُٰیوں کی کہ محمد صل اللہ علیہ و سلم انبیا کی نبوت پر تصدیق کی مُہر لگانے والے ہیں. وہ آخری نبی نہیں ہیں. استغفراللہ . مرزا غلام احمد نے نبوت کا دعوے کر دیا. کیُ لوگ اس پر ایمان لے آےُ. ہندوستان کی تقسیم کے بعد ان لوگوں نے پاکستان کے شہر چناب نگر ضلع چنیوٹ میں ایک علیحدہ بستی قایُم کر لی جس کا نام ” ربوہ ” رکھا. اب تو یہ ایک بڑے شہر میں تبدیل ہو چکا ہے.

    مرزا غلام احمد کے پیروکاروں کو مرزیُ یا قادیانی کہا جاتا ہے. بہت سارے لوگ ان کے چنگل میں پھنستے گیےُ. شروع میں یہ لوگ مسلمانوں کی مساجد میں نماز پڑھ لیتے تھے. عام مسلمان انہیں مسلمان نہیں سمجھتے تھے. انہیں اپنی مساجد میں نماز پڑھنے سے روکتے تھے. انہوں نے اپنی علیحدہ مساجد بنا لیں. ان لوگوں کے خلاف بڑی زبردست تحریک چلی کہ قادیانی مسلمان نہیں ہیں. ذولفقار علی بھٹو کے دور میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر قادیانوں کو غیر مسلم قرار دے دیا. ان پر مسلمانوں کی مساجد میں نماز پڑھنے پر پابندی لگا دی.

    کیُ دوسرے ممالک میں ان کے لوگ موجود ہیں جو عام مسلمانوں کو کیُ قسم کے ہتھکنڈوں سے ورغلاتے ہیں. دوسرے ممالک میں سیٹل ہونے کے خواہش مند حضرات ان کے پسندیدہ اور آسان شکار ہیں. جنہیں یہ مدد فراہم کرتے ہیں، جس کے لیےُ ” شکار ” کو قادیانی بننا پڑتا ہے. شکار کو اپنے چنگل میں پھنساےُ رکھنے کے لیےُ ان کے پاس بے شمار ہتھکنڈے ہیں.

    دوسرے مذاہب کے لوگ

    اپنے ملک میں مذہبی آزادی ہے یعنی ہر شخص اپنے عقیدہ کے مطابق اپنی زندگی گزار سکتا ہے، عبادت کر سکتا ہے. حکومت نے ان کے لیےُ اسمبلیوں میں ان کے ممبراں کے لیےُ کوٹہ مقرر کر رکھا ہے. ایہیں ہر جایُز کام کرنے کی مکمل آزادی ہے. بعض شر پسند لوگ لوگوں کو اُکسا کر ، خصوصآ عیسایُیوں کے خلاف توہیں مذہب کے الزامات لگا کر فساد پھیلاتے ہیں. ان فسادات مٰیں املاک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے. اموات بھی ہو سکتی ہیں. یہ ایک انتہایُ غیر اسلامی فعل ہے ، جس کی اجازت نہیں ہونی چاہییےُ .

    پاکستان میں اکثریت

    دیگرمذاہب

     مسلمانوں کی ہے اس کے علاوہ دیگر مذاہب کے لوگ بھی آرام سے رہ رہے ہیں. سکھ، ہندو، پارسی، بدھ مت کے پیروکاروغیرہ اکثریت میں نہ ہونے کے باوجود آرام کی زندگی گزار رہے ہیں. ان اقلییتوں کی مناسب نمایُندگی بھی حکومت اور اسمبلیوں میں موجود ہے.

  • ہمارے سُلگتے مسایُل –  نمبر 14-  فیشن ، Our burning ٰ Issues number 14- Fashion

    ہمارے سُلگتے مسایُل – نمبر 14- فیشن ، Our burning ٰ Issues number 14- Fashion

    ہمارے سُلگتے مسایُل نمبر 14- فیشن
    Our burning issues # 14 – Fashion

    Fashion

    کیا ہی اچھّا وقت تھا جب لوگ صرف ریڈیو پر خبریں سُنتے تھے. جب ہم نے ترقی کی تو ٹیلی ویژن کی نشریات شروع ہو گییُں. ٹیلی ویژن کے ابتدایُ پروگراموں پر فیشن کا اثر نہیں پڑا تھا. اداکاروں کا لباس شریفانہ ہوتا تھا. ٹی وی پر مرد حضرات خبریں پڑھا کرتے تھے. ٹی وی پر ایسے ڈرامے نشر ہوتے تھے، جنہیں سارا خاندان ایک جگہ بیٹھ کر دیکھتے تھے. اشتہارات بھی تہزیب کے دایُرے میں ہوتے تھے. لیکن اب ہم نیےُ اور ترقی یافتہ دور میں بس رہے ہیں. جہاں فیشن کا دور دورہ ہے . ترقی کا یہ بُخار ہماری مشرقی تہذیبی روایات کو ڈبو رہا ہے.

    عنوانات

    ترقی کی خواہش
    فیشن کا پھیلاؤ
    ٹیلی ویژن اور فیشن
    اشتہارات اور فیشن
    مردوں، عورتوں کا فیشن
    نچ مجاجن نچ
    اندھی تقلید

    ترق کی خواہش

    انسان جبلّی طور پر ترقی کا خواہش مند ہوتا ہے. اس کے ساتھ ساتھ وہ تبدیلی بھی چاہتا ہے. نیُ نیُ ایجادات انہی دو محرکات کا نتیجہ ہوتی ہیں. انسان نے پتھر کے زمانہ سے لے کر اب تک جتنی ترقی کی ہے ، وہ سب ” ھل من مزید ” کی خواہش کی تکمیل ہے. انسان کی ایک دوسری جبلت بھی ہے، وہ ہے ” دوسروں پر غلبہ ” اس جبلت یا خواہش نے دُنیا میں بہت فساد پھیلا یا ہے. پہلے وقتوں میں جو جنگیں ہوتی رہی ہیں ، وہ دوسروں پر غلبہ پانے کی خواہش کا نتیجہ تھیں. آج کل جو سایُنسی ایجادات ہو رہی ہیں یا ہو چُکی ہیں ، وہ سب اسی خواہش کا نتیجہ ہیں.

    آج سے ساٹھ ستّر سال پہلے کا زمانہ بڑا پُر سکون تھا. لوگ قناعت پسند تھے. ذیادہ کی لالچ نہیں تھی. عورتیں سادہ لباس پہنتی تھیں. پھر آہستہ آہستہ خیالات بدلتے گیےُ. انسان وُہی کچھ بنتا ہے ، جو وہ سوچتا ہے. مغربی تہذیب بدلنے لگی. ہر جگہ ترقی کرنے کا جنون پیدا ہو گیا. ٹیلی ویژن ایجاد ہو گیا. مغربی تہذیب کی چکا چوند نے دوسروں کو متاثر کیا. جس میں عورتوں کا لباس مُختصر ہوتا گیا. نیم عُریانی کو فیشن کا درجہ مل گیا. ہمارے ہاں کی عورتیں بھی اس سے متاثر ہو گییُں. بہت سارے ممالک میں ” فیشن ڈیزایُننگ ” کے ادارے کھُل گیےُ، جو ہر سال لباس کے نیےُ نیےُ ڈیزایُن تیار کرتے ہیں. جو عُریانی کو بڑھاوا دے رہے ہیں. عورتیں بے ہودہ لباس پہننے کو اپنانے لگیں.” ذیادہ دولت کماؤ ” زندگی کا حاصل بن گیا. جایُز اور ناجایُز کا تصور مٹ گیا. اسے ہم نے ترقی کا نام دے دیا.

    فیشن کا پھیلاؤ

    بہت ّعرصہ ہُؤا ، میں اپنے درزی سے اپنی سلایُ شدہ پینٹ لینے گیا. درزی ایک زنانہ قمیض کے سامنے کے حصّے پر ایک پھُول بنا رہا تھا . میں نے پوچھا ” آپ ایک نیےُ اور اچھے کپڑے پر پھول کیوں بنا رہے ہیں ؟. ” درزی ہنسنے لگا، کہنے لگا ” تقریبآ ایک ماہ پہلے ایک مشہور گھرانے سے ایک پرنٹڈ کپڑا آیا جس سے ایک زنانہ سُوٹ بنانا تھا. کپڑے کی کٹایُ کرتے ہُوےُ قمیض کے سامنے کا حصہ غلطی سے کٹ گیا. میں ڈر گیا کہ مجے اتنا کپڑا نیا لانا پڑے گا. کپڑا خاصہ مہنگا تھا. میرے ذہن میں ایک ترکیب آیُ. کٹے ہُوےُ کپڑے کی جگہ میں تین خوبصورت پھُول بنا دیےُ. وہ مشہور گھرانے والے سلے ہُوےُ کپڑے لے گیےُ. میں ڈر رپا تھا کہ پتہ نہیں مجھے اس غلطی کی کیا سزا ملے گی. پانچویں روز اُسی گھرانے سے پانچ سُوٹوں کا مختلف رنگوں کا کپڑا آ گیا. کہا گیا کہ ان سُوٹوں پر ویسے ہی پھُول بننے چاہییں ، جیسے پہلے والے سُوٹ پر بنے تھے. میں نے ایک سوٹ پر ویسے ہی پھؤل بنا کر اسے ڈسپلے کر دیا. اس ڈیزایُن کو دیکھ کر اب تک 18 سوٹوں کے آرڈر آ چکے ہیں. “. یہ ایک مثال ہے کہ فیشن کس طرح پھیلتا ہے. عورتوں میں نیا فیشن بڑی تیزی سے پھیلتا ہے. عورتوں کی اسی کمزوری سے فیشن ڈیزایُنر فایُدہ اٹھاتے ہیں اور نت نیےُ فیشن ایجاد کرتے رہتے ہیں. اپنے نیےُ فیشن کے لباسوں کو متعارف کرانے کے لیےُ فیشن شو منعقد کراےُ جاتے ہیں.

    ٹیلی ویژن اور فیشن

    ٹیلی ویژن پر پیش کردہ ڈراموں کو زیادہ مقبول بنانے کے لیےُ کرداروں کو نت نیےُ فیشن کے لباس پہناےُ جاتے ہیں. ایسے لباسوں کو دیکھ کر لوگ ان کی نقل کرتے ہُوےُ اسی ڈیزایُن کے کپڑے پہن کر فخر محسوس کرتے ہیں. یہ رُجحان عورتوں میں زیادہ ہے.

    اشتہارات اور فیشن

    آج کل ایسا کویُ اشتہار دیکھنے کو نہیں ملتا جس میں عورت کو نہ دکھایا گیا ہو. آیسے اشتہارات میں عورتوں کا لباس “سکن ٹایُٹ ” قسم کا ہوتا ہے. ایسے اشتہارات جنسی بے راہ روی کو بڑھاوہ دینے کا سبب بنتے ہیں. پتہ نہیں لوگ پیسہ کی خاطر ایسے اشتہارات کیوں شایُع کرتے ہیں. اچھا ہوگا کہ ایسے اشتہارات شایُع کرنے والے کسی عالم دین سے پوچھ لیں کہ ان اشتہرات سے ان کی مصنوعات کی فروخت سے ہونے والی آمدنی حلال ہے یا ؟.

    مردوں ، عورتوں کا فیشن

    انسان کپڑے پہنتا ہے تاکہ اس کے جسم کا پردہ قایًم رہے. یہ حکم مرد اور عورت دونوں کے لیے ہے. مرد کا شرعی ستر ناف سے لے کر گھُٹنوں سے نیچے تک ہے. عورت کا شرعی ستر سر سے لے کر پاؤں تک ہے. ہاتھ اور چہرہ پردے سے باہر رکھے جا سکتے ہیں. عورتوں کا لباس ایسا ہونا چاہیےُ کہ ان کے جسم کی بناوت ظاہر نہ ہو. آج کل کیٰی عورتیں سکن ٹایُٹ کپڑے پہنتی ہیں جن سے ان کے جسمانی خد و خال نمایاں ہوتے ہیں. سر سے دوپٹہ تو مدت ہُویُ اُتر چُکا. لگ بھگ تمام ٹی وی سٹیشنوں پر عورتیں ہی خبریں پڑھتی ہیں. صرف ایک تی وی سٹیشن ایسا ہے جس کی اینکر پرسن ایک عورت ہے جو اپنے سر، جسم کو کپڑوں سے ڈھانکے رکھتی ہے. صرف ہاتھ اور نصف چہرہ تی وی پر نظر آتا ہے. باقی تمام جسم کپڑوں سے ڈھکا ہوتا ہے.( محترمہ کو اپنی عزّت آپ کرنے کے احساس کو سلام ) عام لیڈی اینکر پرسن کے سر پر دوپتۃ نہیں ہوتا. سینہ ڈھکا ہُؤا نہیں ہوتا. دوپتہ کی جگہ اپنے سر کے بال لمبے کر کے انہیں اپنے سینے پر ڈال لیتی ہیں. مرد حضرات بھی پیچھے نہیں رہے. بعض مرد حضرات کی پینٹ ( خصوصآ نوجوان ) اتنی سکن ٹایُٹ ہوتی ہے کہ ان کی ٹانگیں لکڑی کی بنی ہُویُ لگتی ہیں. ایسی ہی سکن ٹایُٹ پینٹ پہنے ہوےُ ایک لڑکے کو دیکھ کر ایک دوست نے اپنے دوسرے دوست سے پوچھا “یار یہ لڑکا اس پینٹ کے اندر کیسے گھُسا ؟ ” اس کے دوست نے جواب دیا ” میں حیران ہُوں یہ لڑکا اس پینٹ سے باہر کیسے نکلے گا “؟ یُوں لگتا ہے لہ ایسی سکن ٹایُت پینٹ پہننے والے یا تو بہت ہی کفایت شعار ہیں ، ہا پھر تھوڑے سے کھسکے ہُوےُ ہیں. انسان اپنے پہننے والے کپڑوں کا ایسا فیشن اختیار کرے جس میں اس کی شخصیت با وقار لگے.

    نچ مجاجن نچ

    آج کل سارے ٹی وی چینلز پر کھانے ، پینے کی اشیا کی مشہوری کے لیےُ ایسے اشتہارات دکھاےُ جا رہے ہیں ، جن میں مرد اور عورتیں اکٹھا رقص کر رہے ہوتے ہیں. ایک اشتہار میں ایک بڑی اماں بھی اس شُغل میں شامل ہیں. اشتہار بنانے والے ادارے غالبآ اس مقولے پر عمل پیرا ہیں :

    تیری سرکار میں پہنچے ، تو سبھی ایک ہُوےُ

    آشتہار بنانے والے ادارے یہ نہیں سوچتے کہ وہ قوم کو کس گناہ کی دلدل میں پھینک رہے ہیں. آیسے صاف سُتھرے اشتہارات بھی بناےُ جا سکتے ہیں، جنہیں سارا خانداں ایک جگہ بیٹھ کر دیکھ سکے. مغربی تہذیب کی پیروی کرنا ضروری نہیں. اشتہار بنانے والے یہ اعتراض کر سکتے ہیں ، کہ وہ عورت کی موجودگی کے بغیر اشتہار دیکھنے میں دلچسپی کون لے گا ! اس طرح تو اشتہار کا آرڈر دینے والی کمپنیاں اشتہار نہیں بنواییُں گی. ہمارا اشتہار بنانے کا کام تو ٹھپ ہو جاےُ گا. ذرا سوچییےُ، اشتہار بنانے کے علاوہ اور کویُ کاروبار بھی کیا جا سکتا ہے. اگر آپ کے پاس پیسہ ہے تو کویُ فیکٹری لگا لیجییےُ. لوگوں کو روزگار دینے کا ذریعہ بنیں. حلال کی کمایُ کھاییُں ، اور اپنی عاقبت سنواریں.

    اندھی تقلید

    کسی اچھے کام یا رسم کی تقلید کر لینے مین کویُ حرج نہیں. فیشن میں اچھی باتوں کو اپنا لیں. لیکن وہ رسومات ، عادات یا مماثلت جو ہمارے مسلم عقیدے کے خلاف ہو ، اسے اپنانے سے گریز کرنا چاہیےُ . میں نے ایسے مسلم لوگوں کو بھی دیکھا ہے جو غیر مسلم معاشرے میں بھی اپنے عقیدے پر قایًم ہیں. وقت پر نماز پڑھتے ہیں. حرام کھانا نہیں کھاتے. مغربی معاشرے میں رہتے ہُؤےُ بھی خرافات سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں. آدمی کو اگر آخرت کی فکر ہو تو وہ غلط کاموں سے بچنے کی حتے الوسع کوشش کرتا ہے. یاد رکھیےُ، اللہ ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں. اللہ تعالے آپ کا حامی و ناصر ہو. آمین.

    ہمارے سُلگتے مسایٌل, نمبر 13، عدم مساوات ” ضرور پڑھیےُ . اور ہمیں اپنے خیالات سے آگاہ کیجیےُ.

  • ہمارے سُلگتے مسایُل # 13 – عدم مساوات. Our burning issues  # 13- Inequality

    ہمارے سُلگتے مسایُل # 13 – عدم مساوات. Our burning issues # 13- Inequality

    ہمارے سُلگتے مسایُل # 13 , عدم مساوات
    Our burning issues # 13 – Inequality

    عدم مساوات
    Inequality

     

    Inequality

    کل ایک مشہور چوک سے میرا گُزر ہُؤا. وہاں بہت سارے لوگ موجود تھے. بعض کے پاس اپنے اوزار بھی تھے. کچھ لوگ خالی ہاتھ تھے. اتنے میں ایک شخص آیا اُس نے ایک آدمی سے کچھ بات کی. سارا مجمع اُس شخص کے گرد اکٹھا ہو گیا. پتہ چلا کہ اُسے ایک مستری اور ایک مزدور کی ضرورت تھی. اُس نے اپنے گھر کی دیوار کی کچھ مرمت کروانی تھی. وہاں پر موجود ہر آدمی کی یہ کوشش تھی کہ اُسے یہ کام مل جاےُ. وہ شخص شش و پنج میں پڑ گیا . اُس کے لیےُ یہ چُناؤ مشکل ہو گیا کہ کس تجربہ کار مستری کو ساتھ لے جاےُ. سرٹیفیکیٹ تو کسی کے پاس نہیں تھا. ذاتی طور پر بھی وہ کسی کو نہیں جانتا تھا. بہت سارے لوگ اس کے منہ کی طرف دیکھ رہے تھے. آخر میں اس شخص نے نسبتآ بڑی عُمر کے ایک مستری اور ایک ہٹے کٹّے مزدور کو ساتھ لیا اور واپس چلا گیا. مجھے آج سے چالیس پچاس سال پہلے کا زمانہ یاد آ گیا.

    آج سے چالیس پچاس سال پہلے پنجاب کے ہر ضلع کے صدر مقام پر حکومت کی طرف سے ایک ادارہ ہوتا تھا جس کا ایک دفتر ہوتا تھا . اُسے ” ایمپلا یُمنٹ ایکسچینج ” کہتے تھے. حکومتی ادارے اور عام پبلک کے دفاتر اپنی اپنی افرادی ضرورت کے لیےُ ایمپلا یُمنٹ ایکسچینج کو لکھ دیتے تھے. عام لوگ اپنے کوایُف ، نام، پتہ، تعلیم ، عمر ، تجربہ وغیرہ کا اندراج بھی کروا دیتے تھے. دفتر والے مطلوبہ کوایٍف کے حامل اشخاص کو بُلا کر انہیں ضرورت مند دفاتر یا اشخاص کے پاس بھیج دیتے تھے. جو اپنے معیار پر پورا اُترنے والے شخص کو چُن لیتے تھے. ایمپلا یُمنٹ ایکسچینج والے لوگوں کی راہنمایُ بھی کرتے تھے کہ وہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے کیا کریں. پتہ نہیں کن وجوہات کی بنا پر یہ مفید محکمہ آج کل نظر نہیں آ رہا. اس محکمے کی وجہ سے  عوام یہ سمجھتے تھے کہ ان کی حکومت ان کی مشکلات دور کرنے کے لیےُ کوشاں رہتی ہے. یہ ایک مثبت سوچ تھی ،جو عوام اپنی حکومت کے بارے میں رکھتے تھے.

    عنوانات

    آج کل عوام کی سوچ

    اپوزیشن کا طرز عمل

    محب وطن قومیں

    عدم مساوات کیسے دُور ہو. نمبر 1
    نمبر 2- سمگلنگ روکی جاےُ.
    نمبر 3- رشوت خوری.
    نمبر 4- کمیٹی انسداد عدم مساوات.
    نمبر 5- مراعات میں عدم مساوات.

     

    آج کل عوام کی سوچ

    آج کل عوام کی سوچ نہت مُختلف ہے. عوام یہ سمجھتے ہیں کہ اشرافیہ اور عوام میں عدم مساوات بڑھ گیُ ہے. کسی محکمہ میں کویُ جگہ ( پوسٹ ) خالی ہو جاےُ ،  تو اس پوسٹ کو اپنے کسی عزیز ، یا تگڑی سفارش کے حامل شخص کے لیےُ مخصوص کر دیا جاتا ہے. خانہ پُری کے لیےُ اخبارات میں اشتہار دیا جاتا ہے، امیدواروں کو انٹرویُو کے لیےُ بُلایا جاتا ہے. نتیجہ وہی نکلتا ہے جس کا فیصلہ پہلے سے ہو چُکا ہوتا ہے. اس طرح حکومتی اداروں اور عام پبلک کے درمیان ایک دوسرے پر اعتماد میں کمی کی خلیج زیادہ وسیع ہو رہی ہے. لوگ یہ سمجھنے پر مجبور ہو رہے ہیں ، کہ عدم مساوات کا گراف اونچا جا رہا ہے. عام آدمی کی حق تلفی ہو رہی ہے. یہ رُجحان خطر ناک ہے . کچھ پاکستان مخالف لوگ اس رُجحان سے فایُدہ اُٹھا رہے ہیں. اور اس کوشش میں ہیں کہ اس عدم مساوات ایشو کے زریعے ملک مین حکومت مخالف جذبات اُبھارے جاییُں. ملک میں جذباتی لوگوں کی کمی نہیں ، اور کچھ ناعاقبت اندیش لوگ عوام کے ذہنوں میں زہر بھر چکے ہیں. ملک مُخالف لوگوں سے زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے. ہمارے سلگتے مسایُل کی پچھلی قسط پڑھنے کے لیےُ ہمارا آرٹیکل پڑھیےُ.
    ہمارے سُلگتے مسایُل # 12، عدم برداشت- Intolerance “
    >

    اپوزیشن کا طرز عمل

    ہر ملک میں حکومت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کا ہونا ایک مثبت قدم ہے. اگر اپوزیشن نہ ہو تو حکومت جو چاہے کرنے میں آزاد ہوتی ہے. یہ اپوزیشن ہی ہوتی ہے جو ھکومت کو اپنی من مانی کرنے سے روکتی ہے. اسمبلیوں میں حکومت کویُ بل پیش کرے تو اپوزیشن اس بل کا جایُزہ لے کر اس میں غلطیوں یا زیادتیوں کی نشان دہی کرتی ہے. اور اس کی اصلاح کی تجاویز پیش کرتی ہے. گویا اپوزیشن ایک طرح سے ” چیک اینڈ بیلینس ” کا کام کرتی ہے. ہمارے ملک میں اپوزیشن کا طرز عمل کسی طرح بھی قابل تحسین نہیں. ہماری قومی اسمبلی میں صدر کی تقریر کے دوران اپوزیشن کا شور شرابہ، سیٹیاں بجانا ، آوازے کسنا باجے بجانا اور اپنے ناروا طرز عمل سے باقی دُنیا کو جو پیغام پہنچایا وہ کسی طرح بھی لایُق تحسین نہیں. اپوزیشن کا یہ طرز عمل دیکھ کر باقی دُنیا کے لوگ ہمیں تہذیب سے نا آشنا لوگ سمجھنے میں حق بہ جانب ہیں. ضرورت اس بات کی ہے کہ اپوزیشن تہذیب کے دایُرہ میں رہتے ہُوےُ اپنا کام کرے. اور دُنیا ہمیں ایک مہذب اور تعلیم یافتہ قوم سمجھے اور اس پر یقین بھی کرے.

    محب وطن قومیں

    اس وقت ہماری دُنیا میں مُختلف عقایُد اور رسم و رواج کی حامل اقوام موجود ہیں. دینا میں امن قایًم رکھنے کے لیےُ ایک دوسرے کا احترام کرنا ، عقایُد اور رسم و رواج پر تنقید نہیں کرنی چاہیے. ہم کسی کے مذہب اور عقاید بدلنے کے ٹھیکیدار نہیں ہیں. یہ دہنا بنانے والے نے ہر انسان کو عقل عطا کی ہے کہ وہ اپنی عاقبت سنوارنے کے لیےُ صحیح راستہ اختیا کرے. آخرت میں ہر شخص اپنے اعتقاد اور اعمال کے مطابق جزا یا سزا پاےُ گا. اعتقاد کا معاملہ ایسا ہے کہ کسی بھی شخص کو زبردستی اپنا عقیدہ بدلنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا.

    جہاں تک تبلیغ کا تعلق ہے ، اس کے لیےُ حُکم ہے کہ تبلیغ کرنے کا طریقہ یا انداز دلنشین ہونا چاہیے. تبلیغ کرتے وقت کسی پر لعن طعن نہیں کرنی چاہیے. اور نہ ہی کسی کے خدا کو بُرا بھلا کہا جاےُ. مہذب اقوام کسی پر اپنے اعتقاد ذبر دستی نہیں ٹھونستیں.

    عدم مساوات کیسے دُور ہو

    عدم مساوات دور کرنے کے لیےُ سب سے بڑی ذمہ داری حکومت پر عایُد ہوتی ہے. صاف ظاہر ہے عدم مساوات دور کرنے کے لیے اختیارات کا ہونا ضروری ہے. یہ کام مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں. ہمت مرداں، مدد خدا. ایک دفعہ ارادہ کرنے اور پھر اس پر عمل کرنے کی ہمت ہونی چاہیےُ. ہر نیک کام میں اللہ تعالے مدد کرتا ہے. حکومت کے نیک کاموں میں ملک کا متوسط طبقہ ہراول دستے کا کام کرتا ہے. لیکن بُرایُوں کی جڑ کاٹنے کے لیےُ حکوت وقت کو پہلا قدم اٹھانا چاہیےُ.

    عدم مساوات دور کرنے کے لیےُ درج ذیل قدم اُٹھاےُ جا سکتے ہیں ؛

    نمبر 1

    آپ ایک اسمبلی ممبر یا وزیر اور عام آدمی کے حالات اور سہولیات پر نظر ڈالیں تو آپ کو عدم مساوات کا ایک شاندار منظر نظر آےُ گا. اب ذرا ایک وزیر کو دی گیُ سہولیات پر ایک نظر ڈالیں.
    وزیر کے لیےُ مفت نیےُ ماڈل کی گاڑی، پٹرول، مکان، بجلی ، گیس، تیلیفون، مفت ایر ٹکٹ، بیرون ملک علاج کی مفت سہولت، ٹی اے ڈی اے، محافط، ایر کنڈ یشنڈ دفاتر. ان کے بچوں کو سکول پہنچانے اور پھر لانے کے لیےُ حکومتی گاڑیاں، بیگمات کے لیےُ علیحدہ گاڑیاں سب کچھ مُفت. ان پر ماہوار کتنا خرچ آتا ہوگا. برطانیہ کا ملک ہم سے زیادہ امیر ہے، اس کے ایک سابقہ وزیر اعظم ٹونی بلیُر کی بیوی ایک دفتر میں کام کرتی تھی، جو اس کی رہایُش سے کافی دور تھا. ٹونی بلیُر کی بیوی اپنے خرچ پر ٹرین میں بیٹھ کر اپنے دفتر جاتی اور واپس آتی تھی. کیوں ! یہ سب سوچ کا فرق ہے. وزرا دفاتر میں کیا کام کرتے ہیں. اس سلسلے میں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا. ہندوستان کے مقبوضہ مشرقی پنجاب کے وزیر اعلے کو ایک لڑ کی کا فوں آیا کہ وہ وزیر اعلے کے دفتر میں ایک دن میں ہونے والے کاموں کا جایُزہ لینا چاہتی ہے. وزیر اعلے نے اُسے ملاقات کے لیےُ دوسرے دن کا وقت دے دیا. لڑکی وقت مقررہ پر وزیر اعلے کے دفتر پہنچ گییُ. وزیر اعلے نے لڑکی کو ایک کرسی پر بٹھا دیا. خود اپنی کُرسی پر بیٹھ گیےُ. اتنے میں چاےُ آ گییُ. وزیر اعلے نےٌلڑکی کو چاےُ پیش کی، خود بھی پی. پھر اپنے پی اے کو بُلایا. آج کے کام کرنے والے کاموں کے متعلق پوچھا. پی اے نے بتایاکہ آپ کے سامنے فایُلیں پڑی ہیں، ان پر آپ کے احکامات کی ضرورت ہے. پھر وزیر اعلے نے چار پانچ ٹیلی فون کیےُ. آدھہ گھنٹہ اس میں گزر گیا. پھر اپنے سامنے پڑی فایُلوں میں سے ایک فایُل اُٹھایُ. ایک منٹ تک اسے کھول کر دیکھتے رہے، پھر فاٰیُل رکھ دی. اتنے میں چاےُ آ گییُ. چاےُ پیتے ہُوےٰ ٹیلی فون پر باتیں بھی ہوتی رہیں. پھر اپنے ایک کلرک کو بُلایا، اُس پر ناراض ہوتے رہے کہ کل ان کے لڑکے کو سکول سے لانے میں دیر کیوں ہو گییُ. ان سارے کاموں میں لڑکی کو دیا ہُوا وقت ختم ہو گیا. لڑکی نے جانے کی اجازت چاہی. وزیر اعلے نے لڑکی سے پوچھ” یہ بتاؤ، تمہیں ہمارے کام کا طریقہ کیسے لگا ؟”. لڑکی نے جواب دیا ” آپ کے کام کو دیکھتے ہُوےُ میں یہ کہہ سکتی ہؤں کہ میں یہی کام آپ سے بہتر طریقے پر کر سکتی ہُوں “. آپ سمجھ گیےُ ہوں گے کہ یہ سارا قصّہ سنانے میں میرا پیغام کیا تھا. ہمارے ہاں بھی کچھ ایسا ہی سلسلہ چل رہا ہے. سب ” ڈنگ ٹپاؤ ” کام ہو رہے ہیں.

    اپنے ملک میں آج کل قومی اسمبلی مین قایُمہ کمیٹیوں کے چیُرمینوں کو مقرر کرنے کا سلسلہ چل رہا ہے. قایُمہ کمیٹیوں کے چیُرمینوں کی تنخواہ اور مراعات کی تفصیل روزنامہ جنگ لاہور کے26 اپریل سن 2024 عیسوی کے شمارہ میں شایُع ہُویُ ہیں. جو اس طرح ہیں:

    قایُمہ کمیٹیوں کے چھیُرمینوں کی تنخواہ اور مراعات کی تفصیل
    اسلام آباد ( آن لایُن) کرایُم رپورٹر، نامہ نگار.
    قایُمہ کمیٹی کے چیُرمینوں کی قومی خزانے سے ماہانہ لاکھوں روپے کی تنخواہ اور مراعات کی تفصیلات سامنے آ گییُں .پٹرول، موبایُل بیلنس اور مُفت میڈیکل کی سہولت کے علاوہ سرکاری رہایُش گاہ، 1300 سی سی گاڑی، ڈرایُور، اسسٹنٹ، نایُب قاصد کی سہولیات میسر ہوں گی. پارلیمانی ذرایُع کے مطابق قومی اسمبلی کی قایُمہ کمیٹیوں کے چیُرمینوں کو بھی بھاری بھرکم مراعات حاصل ہوں گی. اراکین، پارلیمنٹ سیلریز استحقاق 1974 کے تحت چیُرمین اضافی مراعات کے حقدار ہوں گے. ہر کمیٹی کے منتخب چیُرمین کو بنیادی تنخواہ کی مد میں 2 لاکھ روپے سے زیادہ ماہانہ ملیں گے. چیُرمین کو 1300 سی سی کار بمعہ ڈرایُور دی جاےُ گی. 360 لٹر پٹرول ماہانہ ملے گا. گریڈ 17 کا ایک پرایُویٹ سیکرٹری، گرییڈ 15 یا 16 کا پراییُویٹ اسسٹنٹ اور نایُب قاصد بھی ملے گا. چیُرمین کی رہایُش گآہ پر نصب سرکاری ٹیلی فون کی حد 10 ہزار ماہانہ ، دفتری فون فری ہو گا. چیُر مین کمیٹی کو پارلیمنٹ ہاؤس کی طرف سے دفتر بھی الاٹ کیا جاےُ گا. بطور ایم این اے اسے ملنے والی مراعات جاری رہیں گی. ایم این کی تنخواہ سے چیُرمین کمیٹی کو روزانہ 12 ہزار روپے اضافی ملیں گے.پارلیمانی ذراُیع کے مطابق چیُرمین اور اس کی فیملی کے میڈیکل اخراجات گریڈ 22 کے آفیسر کے مطابق ہوں گے. بطور ایم این اے دیگر مراعات اور الاؤنسز بھی ملتے رہیں گے. قومی اسمبلی ہر سال قایُمہ کمیٹیوں کے لیےُ الگ سے بجٹ مُختص کرتی ہے. قومی اسمبلی کا اجلاس نہ ہونے کی صورت میں کمیٹی اجلاس ہو تو 4700 ڈیلی الاؤنس کی مد میں ملے گا.

    مندرجہ بالا مندرجات روزنامہ جنگ، لاہور ، مورخہ 26 اپریل سن 2024 عیسوی کے صفحہ نمبر 12 اور صفحہ نمبر 10، سلسلہ نمبر 33 پر درج ہیں.

    قومی اسمبلی میں قایُمہ کمیٹیوں کی تعداد غالبآ 29 ہے. یہ مقروض ملک ان قایُمہ کمیٹیوں کے چھیُرمینوں کے ماہانہ بھاری بھرکم اخراجات اُٹھاےُ گی. ان کے مقابلے میں ایک عام آدمی کی فلاح و بہبود پر حکومت کا ماہانہ خرچ کتنا آتا ہو گا ؟. کیا یہ عدم مساوات دُور ہو سکتی ہے ؟. ہو سکتی ہے لیکن اشرافیہ کے خلاف اقدامات اٹھانے ہوں گے. جو ان مراعات کے عادی حضرات کے لیےُ سخت نا پسندیدہ ہوں گے.

    نمبر 2 – سمگلنگ روکی جاےُ.

    سمگلنگ کے بارے میں ” کہاں تک سنو گے، کہاں تک سُنایُں ” والی بات صحیح لگتتی ہے . اخبارات مین ایسی خبریں شایُع ہوتی رہتی ہیں کہ ایران سے روزانہ ہزاروں لٹر ڈیزل آیُل اور پٹرول ایران، پاکستان کی سرحد سے سمگل ہو رہا ہے. اب یہ مت کہیےُ کہ اس سمگلینگ میں کسٹم کارندوں کی اعانت شامل نہیں ہے. پاکستان افغان بارڈر بھی مختلف اشیا کی سمگلنگ کے لیےُ ایک محفوظ گیٹ وے بن چکا ہے. اسی طرح پاکستان چایُنا بارڈر، واہگہ باڈدر، صوبہ سندھ سے انڈیا سے ملنے والی سرحد بھی سمگلنگ کی ایک محفوظ راہداری ہے.

    مسلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کی مشرقی اور مغربی سرحدیں اتنی لمبی ہیں کہ ہم ان سرحدوں کو پوری طرح کنٹرول نہیں کر سکتے. دوسرے سمگرون نے ایسے ایسے چور دروازے بنا رکھے ہیں جو ہماری نطروں سے اوجھل ہیں. پھر بھی ایک کام تو ہم کر سکتے ہیں. جب کسی ملزم پر سمگلنگ ثابت ہو جاےٰ، تو اُسے پھانسی دے دی جاےُ. ایسے فیصلے میں اپیل کی گنجاُش نہ ہو. جب دو چار سمگلروں کو پھانسی ہو جاےُ گی تو باقی سمگلر سمگلنگ کرنے سے پہلے سو بار سوچیں گے.

    یہ سمگلر تھوڑا سا رسک لے کر بہت سا پیسہ کما لیتے ہیں. تو ہھر انہیں اس کام کا چسکہ پڑھ جاتا ہے. کافی امیر ہونے کے بعد یہ اسمبلیوں کے الیکشنوں میں قسمت آزماتے ہیں. اور کامیاب ہونے کی صورت میں سمگلنگ کے خلاف کویُ قانون نہیں بننے دیتے.

    نمبر 3 – رشوت خوری.

    اپنے ملک میں بعض محکمے ایسے ہیں ، جہاں رشوت خوری اتنی عام ہے کو وہاں رشوت لینے کو جُرم نہیں سمجھا جاتا. جب رشوت کے پیسے گھر میں آتے ہیں. تو گھر کے افراد اپنے آپ کو عام آدمیوں سے اونچا سمجھنے لگتے ہیں. مہنگی گاڑیاں، وافر پیسہ. بہترین پوشاک اور بے تحاشہ خرچ کرنا انہیں عام لوگوں سے اونچا سمجھنے میں مدد دیتا ہے. عدم مساوات کی یہ بھی ایک وجہ ہے.

    رشوت خوری دور کرنے کے لیےُ کیُ ایک اقداماے کیےُ جا چکے ہیں. لیکن کویُ فایُدہ نہیں ہُؤا.ایک طریقہ اور ہے اسے بھی آزما کر دیکھیےُ. حکومت کے سازے ملازمین، چھوتے یا بڑے، صدر سے لے کر چھڑاسی تک ہر ملازم یہ حلف  اُٹھاےُ : حلف کا نمونہ یہ ہے؛

    میں عبدالحکیم ولد ثنا اللہ ، شناختی کارڈ نمبر 6- 3456789 – 12345 ساکن مکان نمبر 67، عالم سٹریٹ، نمبر 4 ، مغلپورہ، لاہور کا رہایُشی ہوں، اللہ تعالے کو حاضر ناظر جان کر یہ عہد کرتا ہُوں کہ میں کسی بھی ملازمت میں ، کسی بھی پوسٹ پر رہتے ہوےُ نہ رشوت لُوں گا اور نہ کسی کو رشوت دُوں گا، اور نہ ہی کسی رشوت کی ادایُگی میں مددگار بنوں گا. اگر میں اپنے اس عہد کی خلاف ورزی کروں تو اللہ تعالے مجھے اس کی سزا میں   ہمیشہ کے لیےُ جہنم میں ڈال دے. دستخط عبدالحکیم
    یہ عہد ہر ملازم کی پرسنل فایُل میں موجود ہونا چاہیےُ. یہ عہد کرنے کے بعد امید کی جا سکتی ہے کہ ہر ملازم رشوت لینے یا دینے اسے پہلے یہ ضرور سوچے گا کہ رشوت لینے یا دینے کی صورت میں قیامت کے دن اُسے جہنم میں ڈال دیا جاےُ گا ، اور وہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے. امید کی جاتی ہے کہ لوگ اپنی عاقبت کی سزا کو مدنطر رکھیں گے. اگر لوگ اس عہد کو توڑتے ہیں ، تو وہ جانیں اور اللہ جانیں.

    نمبر 4 – کمیٹی انسداد عدم مساوات.

    عدم مساوات ایسا مسُلہ ہے کہ اس کو حل کرنے کے لیےُ بہت سارے ذہین دماغوں کی ضرورت ہے. ملک کی چاروں صوبایُ اسمبلیاں دوسری قایُمہ کمیٹیوں کی طرح ” انسداد عسم مساوات ” کمیٹیاں بنایُں، جن کا چیُرمین کویُ پی ایچ ڈی یا ایم اے پاس ممبرہو جس کی عُمر 40 سال سے زیادہ ہو. اس کے کردار پر کسی قسم کا دھبہ نہ ہو اس کے دل میں عوام سے ہمدردی کُوٹ کُوٹ کر بھری ہو. مراعات کا طلبگار نہ ہو. چاروں صوبوں کی یہ کمیٹیاں اپنی اپنی سفارشات قومی اسمبلی کی انسداد عدم مساوات کیٹی کے چیُرمین کو مقررہ وقت کے اندر بھیج دیں. یہ کمیٹی صوبوں کی کمیٹیوں کی سفارشات میں سے قابل عمل اقدامات کی فہرست قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیش کرے. قومی اسمبلی اس پر بحث کر کے قابل عمل قانون بناےُ. اس قانوں پر عمل بھی کرایا جاےُ. یہ ایک تجویز ہے ، جس پر بحث کر کے اس کی نوک پلک درست کی جا سکتی ہے.

    نمبر 5 – مراعات میں عدم مساوات.

    حکومتی محکموں میں افسر اورماتحت عملے کی تنخواہوں اور مراعات میں عدم مساوات بہت وسیع ہے. عدم مساوات کی اس خلیج کو پاٹنا ملک کے لیُے بہت فاایُدہ مند ہو گا.

    اللہ تعالے سے دُعا ہے کہ وہ ہمارے ملک کو قایُم و دایُم رکھے ، اور ہر شہری صدق دل سے اپنے ملک کی خدمت کرے. آمین .

  • ہمارے سُلگتے مسایُل # 12، عدم برداشت. Our burning issues # 12 – Intolerance

    ہمارے سُلگتے مسایُل # 12، عدم برداشت. Our burning issues # 12 – Intolerance

    . ہمارے سُلگتے مسایُل # 12، عدم برداشت
    Our burning issues, # 12
    Intolerance

    Intolerance

    آپ اخبار تو روزانہ پڑھتے ہوں گے. کتنے ہی افراد روزانہ قتل ہو رہے ہیں . اگر آپ ان جھگڑوں میں جان سے جانے والوں کے جھگڑے کی وجہ تلاش کریں تو آپ کو ان واقعات کے رونما ہونے کی ائک وجہ نظر آےُ گی. اور وہ ہے ” عدم برداشت “. بد قسمتی سے ہم میں بہ حیثیت قوم عدم برداشت کا مادہ بہت ہی کم ہو گیا ہے. ہم کسی کی بات سہنے کو اپنی بے عزتی سمجھتے ہیں. اور ترکی بہ تُرکی جواب دینے کو جواں مردی سمجھتے ہیں. عدم برداشت کا مادہ یوں ہی پیدا نہیں ہو جاتا. اس کے پیچھے بہت سے عوامل ہوتے ہیں. اردو زبان کا ایک شعر ان عوامل کی تشریح کچھ یُوں کرتا یے 

    وقت کرتا ہے پرورش برسوں
    حادثہ  یک  دم  نہیں  ہوتا

    ان عوامل پر ہم تفصیل سے بات کریں گے. ہمارے ساتھ رہیےُ گا.

    عنوانات

    عدم برداشت
    عدم برداشت کی وجوہات
    کیا کیا جاےُ.

    ایک بس میں ایک مسافر بس کی دو سیٹوں پر چوڑا ہو کر اس طرح بیٹھا تھا کہ دوسری سیٹ پر کسی مسافر کا بیٹھنا مشکل تھا. دوسری سیٹ کا مسافر آیا اور پہلے مسافر سے کہا ” بھایُ صاحب! آپ ذرا تھوڑا سا اپنی سیٹ پر ہو جاییُں ، تا کہ میں بھی بیٹھ سکوں “. پہلے والا مسافر زور دار آواز میں بولا” آپ کسی دوسری سیٹ پر بیٹھ جاییُں، میں تو اسی طرح بیٹھوُں گا”. دوسرا مسافر کہنے لگا ” بھاٰ یُ صاحب ، یہ دوسری سیٹ میرے نام پر بُک ہے. ” پہلا مسافر بُڑ بُر کرنے لگا ” اکیلی سیٹ چاہییےُ تو اپنی گاڑی میں چلے جاتے ” دوسرا مسافر نے جواب دیا ” یہی بات میں آپ سے بھی کہہ سکتا ہُوں ” بات بڑھ گییُ.

    آپ اس جھگڑے کی وجہ تلاش کریں ، تو کھودا پہاڑ، نکلا چُوہا والی کہاوت سچ نکلے گی. آپ کسی بھی جھگڑے کی بُنیادی وجہ تلاش کریں تو عدم برداشت کا جذبہ نظر آےُ گا. عدم برداشت کی یہ خصلت ان دنوں بہت عام ہے . آیُے ہم اس کی وجوہات تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں.

    ” ہمارے سُلگتے مسایُل ” کے موضوع پر “ ہمارے سُلگتے مسایُل #11 – دولت کی ہوس – ضرور پڑھییےُ Ambition of affluence

    عدم برداشت کی وجوہات

    بچپن کی تربیت

    انسان کی تربیت کا گہوارہ ماں کی گود ہے. بچہ یہاں سے جو کچھ سیکھتا ہے ، اچھا یا بُرا، وہ اُس کے ذہن میں نقش ہو جاتا ہے. یہ نقوش ااس کی آیُندہ زندگی میں مثبت یا منفی طرز عمل پر اثر انداز ہوتے ہیں.

    ماحول کا اثر

    انسان اپنے ماحول سے بڑا متاثر ہوتا ہے. یا یُوں کہییےُ کہ انسان وہی کُچھ بنتا ہے جو وہ اپنے ماحول سے سیکھتا ہے. غیر مہذب ماحول میں پلا ہُؤا انسان ایک مہذب انسان نہیں ہوگا.

    خاندان کا اثر

    دیکھا گیا ہے کہ امیر خاندانوں کے اکثر لوگ اپنی بات منوانے پر اڑ جاتے ہیں. یہ عدم برداشت کی ایک مثال ہے. وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر اُنہوں نے کسی بات ( چاہے وہ سچّی ہو ) کا جواب نہ دیا اور کسی بات کو برداشت کر گیےُ تو یہ ان کے خاندان کی توہیں ہو گی.

    پھنّے خانی

    بعض لوگ بُنیادی طور پر اپنے آپ کو دوسروں پر حُکم چلانا اپنا حق سمجھتے ہیں. یہ خصلت دولت مند خاندانوں میں عام ہے. یہ لوگ دوسروں کی بات کو برداشت نہیں کر سکتے. درمیانہ حیثیت کے لوگ پھنّے خانی جتانے کے لیےُ بھی عدم برداشت کا مظاہرہ کرتے ہیں. وہ ہر کسی کی بات کو جھُٹلا کر اپنی بات منوانے پر تُلے رہتے ہیں

    چڑچڑا پن

    یہ دیکھا گیا ہے کہ اکثر لوگ کیُ ایک وجوہات کی بنا پر چڑثرے ہو جاتے ہیں. اس حالت میں اگر اُن سے کویُ بات کی جاےُ تو وہ غُصّے میں آ کر صبر کا دامن ہاتھ سے کھو بیٹھتے ہیں، اور ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں ، جسے عدم برداشت کا نتیجہ کہہ سکتے ہیں.

    مالی نُقصان

    کسی شخص کو کاروبار میں نقصان ہو جاےُ ، تو وہ شخص صبر کا دامن ہاتھ سے کھو دیتا ہے. وہ عام لوگوں یا خاص لوگوں کو اپنے نقصان کا ذمہ دار سمجھنے لگتا ہے. اس حالت میں اگر اس سے کویُ بات کی جاےُ تو وہ عدم برداشت کا مظاہرہ کرتے ہُوےُ زور زور سے بولنے لگے گا. ہو سکتا ہے کہ وہ مار پیٹ پر اُتر آےُ.

    ذاتی حالات

    زندہ رہنے کے لیےُ ہمیں کییُ لوگوں سے واسطہ پڑتا رہتا ہے. بعض حالات ہماری توقع کے برخلاف ظہور پزیر ہو جاتے ہیں. جو ہمیں رنجیدہ کر دیتے ہیں. ایسے ہی کچھ حالات سے پے در پے واسطہ پڑ جاےُ توبعض لوگ صبر کا دامن چھوڑ بیٹھتے ہیں. ایسے حالات میں اگر ان سے کویُ بات کی جاےُ تو وہ پھٹ پڑتے ہیں. عدم برداشت کی یہ ایک عُمدہ مثال ہے.

    گھریلو جھگڑے

    ہمارے گھروں میں عمومآ چھوٹے موٹے اختلاف ہوتے رہتے ہیں. بعض اوقات یہ چھوٹے موٹے جھگڑے شدت اختیار کر لیتے ہیں. اس وقت فریقین عدم برداشت کو بھول جاتے ہیں.

    آپس کے اختلافات

    ایک ہی گھر میں رہتے ہُوےُ سگّے بھایُوں مین اختلافات ہو سکتے ہیں. اگر دونوں فریق تُرکی بہ تُرکی جواب دیں تو یہ اختلافات مزید بگاڑ کا سبب بنتے ییں.

    ملک کے سیاسی حالات

    آج کل کی سیاسی جماعتوں نے مُلک میں خانہ جنگی کی کیفیت بنا رکھی ہے ہر سیاسی جماعت صرف اقتدار چاہتی ہے. بعض سیاسی کارکن باغیانہ بیانات دے کر عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں. ملک کی ترقی کے بارے میں کویُ نہیں سوچتا.

    بے روزگاری

    بے روزگاری ساٹھ بُراییُوں کی جڑ ہے. اگر کسی شخص کے دو چار بچّے بھی ہوں اور وہ بے روزگار ہو، تو وہ ہر جایُز یا نا جایُز کام کرنے پر تیار ہو جاےُ گا، جس سے اُس کے بچوں کا پیٹ بھرنے کا انتظام ہو سکتا ہو. انسان اپنے جگر گوشوں کو بھوک سے تڑپتا ہُؤا نہیں دیکھ سکتا . یہ وہ حد ہے ، جہاں انسان تمام حدود کو توڑ دیتا ہے.

    کیا کیا جاےُ؟

    ملک کی سیاسی پارٹیوں نے آج کل کے نوجوانوں کے ذہنوں کو یرغمال بنا رکھا ہے. یہ نوجوان ، جو اپنے مُلک کا قیمتی سرمایہ ہیں، انہیں سیاسی پارٹیوں کے سحر سے آزاد کروانا ہو گا. جس کے لیےُ کچھ سخت اقدامات اُٹھانے پڑیں گے.

    نمبر 1 – سیاسی پارٹیوں کی تعداد مقرر کی جاےُ.

    نمبر 2 – جو شخص حکومت یا ملک کے خلاف بیاں دے ، اسے فوری گرفتار کر کے اس پر مقدمہ چلایا جاےُ، جس کا فیصلہ ایک ماہ کے اندر کر دیا جاےُ.

    نمبر 3 – ملک کے تمام پرایُمری سکولوں کے سلیبس میں عدم برداشت کا مضمون شامل کیا جاےُ. جو پہلی جماعت سے لے کر آٹھویں جماعت تک لازمی پو.

    نمبر 4 – حکومت ایسے منصوبے شروع کرے جن میں کافی لوگوں کو روزگار ملنے کے مواقع ہوں. یہاں کسی قسم کی سفارش نہ چلے. کسی کی قابلیّت ہی اس کی سفارش ہو.

    نمبر 5- حکومتی عہدیداروں کو دی جانے والی ناجایُز مراعات ختم کی جایٰیں. اس سے حکومتی اخراجات میں کمی واقع ہوگی. عوام خوش ہوں گے کہ ان کے ٹیکسوں کا پیسہ ضایُع نہیں ہو رہا. ان  کا حکومت پر اعتماد بڑھے گا.

  • ہمارے سُلگتے مسایُل # 11  دولت کی ہوس –  11 # Ambition of affluence – Our burning issues

    ہمارے سُلگتے مسایُل # 11 دولت کی ہوس – 11 # Ambition of affluence – Our burning issues

    ہمارے سُلگتے مسایُل # 11
    دولت کی ہوس
    Our burning issues # 11
    Ambition of affluence

      Ambition of affluence

    انسان فطرتآ دولت کی ہوس کا پُجاری ہے. یہ کویُ آج کی بات نہیں . آپ پُرانی انسانی تاریخ سے لے کر آج تک کی تاریخ کا مطالعہ کر لیں، کتنی ہی جنگیں لڑی گییُں، جن میں فاتح لوگ فتح کے بعد مفتوح علاقوں میں لوٹ مار کرتے تھے . یہ سب کچھ اپنی دولت میں اضافہ کے لیےُ کیا جاتا تھا. آج کل یہی کام بزنس کے مہزب نام کے ذریعے کیا جا رہا ہے. وُہ زمانہ گیا جب کاروبار کے کچھ اصول ہوتے تھے. آج کل کے کاروباری لوگ کا کہنا ہے کہ کاروبار میں اگر ڈنڈی نہ ماریں ، تو منافع کیسے کمایُیں. . ایک چھوٹی سی مثال لیں . کورونا کی یلغار کے زمانہ میں فیس ماسک کی بڑی ڈیمانڈ تھی . آج بھی ہے، ماسک فیس بیچنے والے دکان دار مال تھوک میں خریدتے تھے جو انہیں 3 روپیہ میں ایک فیس ماسک پڑتا تھا. یہی ماسک وہ 10 روپے میں بیچتے تھے. اور اب بھی بیچ رہے ہیں. یہ دولت کی ہوس کی ایک عام مثال ہے. ہر شخص ” ھل من مزید ” کی دھُن میں ہے، اس کے لیےُ حلال حرام کی تمیز پش پُشت ڈال دی گییُ ہے. آج کل اسلامی کیلنڈر کے مطابق رمضان کا مہینہ چل رہا ہے. یہ وُہ مہینہ ہے جس میں مسلمانوں کو پورے مہینہ کے روزے رکھنے کا حکم ہے. اپنے کاروباری طبقے کی ذہنیت کا اندازہ لگا لیں . رمضان کے مہینہ سے پہلے جو چیز 50 روپے کی ملتی تھی ، وہ اس مہینے میں 400 روپے کی مل رپی ہے. کاروباری لوگ رمضان کے مہینے کے آنے سے پہلے ہی اشیاےُ خورد و نوش کا ذخیرہ بازار میں لانا بند کر دیتے ہیں . یہی اشیا وہ رمضان کے مہینے میں پانچ چھے گُنا مہنگی قیمت پر بیچتے ہیں. ًمیں تقریبآ ساری دُنیا گھوم چُکا ہوُں . مسیحی ممالک کے لوگوں کے لیےُ کرسمس کے دن بڑے متبرک سمجھے جاتے ہیں. ان ممالک میں کرسمس کے دنوں میں اشیا کی قیمتیں نصف سے بھی کم کر دی جاتی ہیں. ہم ، جو اپنے آپ کو جنت کے اصل وارث سمجھتے ہیں، رمضان کے مبارک مہینے میں روز مرہ کی اشیا کو ، عام مہینوں کے مقابلے میں ، % 400 یا % 500 تک مہنگا بیچ کر اپنی تجوریاں بھرتے ہیں. اور پھر بھی اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں. اصل بیماری دولت کی ہوس ہے. جس شخص کے پاس ایک لاکھ روپیہ ہے وہ اس مین اضافہ کرکے پانچ لاکھ بنانا چاہتا ہے. اس کے لیےُ وہ کسی بھی جایُز یا ناجایُز حد تک جا نے کے لیےُ تیار ہوتا ہے. وہ صرف اپنا نفع سوچتا ہے. دوسرے جاییُں جہنم میں. میں نے ان کا ٹھیکا لے رکھا ہے. یہ سوچ انتہایُ خود غرضی کی علامت ہے. جس کی دین اسلام میں گنجایُش نہیں. ہمارے سلگتے مسایُل کے موضوع پر ہمارا آرٹیکل ” ہمارے سلگتے مسایُل ‌# 10 – دین سے دُوری ” ضرور پڑھیےُ.

    عنوانات

    روزمرہ اشیا کی قیمتیں
    بینکوں سے قرضہ
    فیکٹریوں کی انشورینس
    ناجایُز ذرایُع
    بلیک مارکیٹنگ

    Ambition of affluence

    اپنے مُلک میں امیر بہت امیر ہے اور غریب بہت غریب ہے. امیر لوگوں نے کارخانے لگا رکھے ہیں. اپنی مصنوعات کی قیمت وہ اپنی مرضی سے مقرر کرتے ہیں . اور پھر دولت کی ہوس میں اپنی مصنوعات کی قیمتوں میں وقتآ فوقتآ اضافہ کرتے رہتے ہیں. حکومت کی طرف سے قیمتیں کنٹرول کرنے کا کویُ قابل عمل منصوبہ نہیں. قیمتیں کم کرنے کے صرف بیانات آ جاتے ہیں. اس طرز عمل سے صرف امیر طبقہ فایُدہ اُٹھا کر اپنی دولت بڑھا رہا ہے. تجارت میں بعض شُعبے ایسے ہیں ، جو انتہایُ نفع بخش ہیں. ایسے شعبوں میں ادویہ سازی انتہایُ نفع بخش ہے. لوگ بیمار تو ہوتے رہتے ہیں، انہیں لازمی طور پر دوایُ ، طوعآ کرعآ خریدنی پڑتی ہے. لوگوں کی اس مجبوری سے یہ شعبہ ناجایُز فایُدہ اُٹھاتے ہُوےُ ، دولت کی ہوس میں ، تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد دواییُوں کی قیمتوں میں اضافہ کرتا رہتا ہے. عوام بیماری کی وجہ سے مہنگی دوایُیاں خریدنے پر مجبور ہیں.

    بینکوں سے قرضہ

    فیکٹریوں کے مالکان عمومآ بینکوں سے قرضہ لیتے رہتے ہیں . ایسے بہت کم فیکٹری مالکان ہوں گے جنہوں نے لیا ہُؤا قرضہ واپس کیا ہو. قیام پاکستان سے اب تک کھربوں روپیہ مختلف صنعتکاروں نے بینکوں سے قرضہ لیا. ان میں سے کتنے صنعتکار ایسے ہیں جنہوں نے اپنا قرضہ بینکوں کو واپس کیا ؟ قرضہ لینے والوں کے پاس قرضہ واپس نہ کرنے کے کییُ بہانے ہوتے ہیں. بینکوں کی ملی بھگت سے اپنے قرضے معاف کرا لیتے ہیں. ایسے کام دولت کی ہوس کے زُمرہ میں آتے ہیں.

    فیکٹریوں کی انشورینس

    دولت کی ہوس انسان کو کیا کُچھ کرنے پر مجبُور کر دیتی ہے ! انشورینس کمپنیاں ماہانہ معمولی رقم کے عوض ناگہانی آفات سے نقصانات کے ازالے کے لیےُ مالی تحفظ فراہم کرتی ہیں. فیکٹری مالکان بھی اپنی اپنی فیکٹریوں کی انشورینس کرا لیتے ہیں. عمومآ انشورینس ناگہانی آفات جیسے آگ، سیلاب وغیرہ سے نقصانات کے ازالے پر محیط ہوتے ہیں. لیکن بات وُہی ہے کہ دولت کی ہوس کیا کچھ کرنے پر مجبُور کر دیتی ہے. اگر کسی کی فیکٹری نُقصان میں جا رہی ہو، بینک کا قرضہ ادا نہ ہو رہا ہو ، یا کسی اور وجہ سے فیکٹری کو چلانا مشکل ہو جاےُ، تو مالکان فیکٹری کو آگ لگوا دیتے ہیں.اورانشورینس کمپنی سے فیکٹری کی مشینری اور جل جانے والے مال کی قیمت وصول کر لیتے ہیں. فیکٹری کو خود آگ لگا کر انشورینس کمپنی سے کلیم وصول کرنا دولت کی ہوس کی ایک مکروہ شکل ہے. بعض لوگ اس بات کی پرواہ نہیں کرتے . اُن کا عقیدہ ہوتا ہے کہ

    ایہہ جہان مٹّھا ، اگلا کنے ڈٹھّا

    ایسے ہی لوگوں کی متعلق ایک چھوٹی سی کہانی یاد آ گییُ. دو دوست جو اپنی اپنی فیکٹریوں کے مالک تھے، ایک جگہ اکٹھے ہُوےُ. ایک نے دوسرے سے پوچھا ” تمہاری فیکٹری کیسے چل رہی ہے ” . پہلے نے جواب دیا ” فیکلٹری میں آگ لگ گیُ تھی، تمام سامان جل گیا. انشورینس کمپنی سے کلیم کرکے اپنا نقصان پورا کر لیا . تم سُناؤ، تمہاری فیکٹری کیسے چل رہی ہے ” دوسرے نے جواب دیا ” سیلاب میں میری فیکٹری کافی عرصہ پانی میں دوبی رہی، تمام مشینری بیکار ہو گییُ . انشورینس کمپنی سے کلیم کیا ہے ، کچھ دنوں تک کلیم مل جاےُ گا، تو نیُ جگہ پر فیکٹری لگاؤں گا ” پہلا دوست کچھ دیر سوچتا رہا ، پھر کہنے لگا ” بڑا افسوس ہُؤا ، مگر یہ بتاؤ تم سیلاب کیسے لاے ُ؟ “.

    ناجایُز ذرایُع

    دولت کی ہوس انسان سے سے بہت کچھ کرا دیتی ہے. اس ہوس میں انسان جایُز اور ناجایُز کے چکر میں نہیں پڑتا. بس ، دولت آنی چاہیےُ، کسی بھی زریعے سے. اس کے لیےُ وہ حسب ذیل طریقے استعمال کرتا ہے ؛

    نمبر 1 = رشوت

    حکومتی اداروں میں رشوت عام ہے. بات یہاں تک پہنچ چُکی ہے کہ رشوت کو کویُ گُناہ نہیں سمجھا جا رہا . جتنا نڑا عُہدہ، اتنی زیادہ رشوت. رشوت دو اور نوکری لو. رشوت دو تھانے میں اپنے مُخالف پر پرچہ کٹوا دو. لوگ بھول چکے یا مجبُور ہو چکے ہیں کہ رشوت دینے اور لینے والا دونوں گنہگار ہیں.

    نمبر 2 = ذخیرہ اندوزی

    سرمایہ دار لوگ اشیاےُ ضروریہ کو جمع کر لیتے ہیں، مارکیٹ میں نہیں لاتے، اس طرح مصنوعی قلت پیدا ہو جاتی ہے. پھر مناسب وقت دیکھ کر اشیا کی پیمت بڑھا دیتے ہیں. ہمارے ہاں ایک ٍغلط اور گندا رواج ہے کہ ہم، جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، رمضان آنے سے پہلے اشیا کا ذخیرہ کر لیتے ہیں، نیت یہ ہوتی ہے کہ رمضان کے با برکت مہینے میں یہی اشیا معمول سے 400 فی صد یا 500 فی صد سے زیادہ قیمت پر فروخت کریں گے. آج کل بھی یہی ہو رہا ہے. پیاز ایسی چیز ہے جس کے بغیر ہانڈی کا ذایقہ نہیں بنتا. ماہ رمضان سے سے پہلے یہ پیاز 60 روپے کلو میں بکتا تھا. ماہ رمضان میں یہ 250 روپے کلو میں بک رہا ہے. دکانداروں کا کہنا ہے کہ یہی مہینہ ہے جس میں ہم کچھ کماتے ہیں. ( کچھ نہیں بلکہ بہت کچھ کما رہے ہیں ) اسی موضوع پر روزنامہ جنگ ، لاہور 18 مارچ 2024 سن عیسوی کے شمارہ میں محترم انور شعور صاحب کا یہ قطعہ صفحہ نمبر 6 پر شایُع ہُؤا ہے :

    جاری ہے قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ
    کیسے نہ ہو، یہ وقت انہی ” حرکتوں” کا ہے
    دن دُونی، رات چوگنی ہے آج کل کمایُ
    رمضان کا مہینہ بڑی برکتوں کا نہے

    نمبر 3، بھتہ خوری

    دولت کی ہوس میں لوگوں نے دولت سمیٹنے کے نیےُ نیےُ طریقے ڈھونڈ لیےُ ہیں. بھتہ خوری کی ابتدا ہماری ایک نیُ سیاسی پارٹی کی طرف سے ہوُیُ. اب بھتہ خوری عام ہو گیُ ہے. مجرمان کسی شخص، بچے کو اغوا کر لیتے ہیں اور پھر مغوی کے لواحقین سے مغوی کی رہایُ کے بدلے موٹی رقم کا مطالبہ کرتے ہیں.
    بھتہہ نہ ملنے پر مغوی کو قتل کر دیتے ہیں. انسان کتنا لالچی ہو گیا ہے. اخبارات مٰں اس قسم کی خبریں شایُع ہو رہی ہیں کہ کچّے کے علاقے کے ڈاکو لوگوں کو سستی موٹر کار دلوانے کا لالچ دے کر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں پھر ان کو قید کر کے اُن سے کروڑوں روپوں کا بھتّہ مانگتے ہیں. مغویوں پر بے پناہ تشدّد کرتے ہیں . تشدّد کی ویڈیو بنا کرمغویوں کے لواحقیں کو بھیج دیتے ہیں. جو مجبور ہو کر ڈاکؤوں کو مطلوبہ رقم ادا کر کے اپنا آدمی چھُڑا لیتے ہیں.

    نمبر 4 ، ڈاکہ زنی

    آج کل لوگوں کو لُوٹنے کے واقعات عام ہو گیےُ ہیں. ٹی وی پر روزانہ یہ مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں ، کہ دو موٹر سایُکلوں پر سوار فیس ماسک پہنے دو یا تین آدمی راہگیروں کو گھیر لیتے ہیں ، اسلحہہ لہراتے ان کی تلاشی لے کر انہیں ان کی رقم اور موبایُل فون سے محروم کر دیتے ہیں ، اور پھر اسلحہ لہراتے یہ جا وہ جا. لوگوں سے ان کی موٹر سایُکل یا کاریں چھیننے کے واقعات بھی ہوتے ہیں. پولیس نے کیُ وارداتیوں کو پکڑا ہے ، ان سے چھینے ہوےُ موبایُل فون، موٹر سایُکلیں اور بھاری نقد رقمیں بھی برآمد کی ہیں . لیکن لوٹنے کے واقعات میں کمی نہیں آ رہی. منتظر ہیں کہ نیُ حکومت ان جرایُم کی روک تھام پر کیسے قابو پاتی ہے.

    نمبر 5 – فراڈ

    بچپن سے ایک کہاوت سُنتے آےُ ہیں کہ ” لالچ بُری بلا ہے “. انسان لالچ میں پھنس جاتے ہیں. فراڈیےُ لوگ انسان کی اس کمزوری سے فایُدہ اُٹھاتے ہیں. ایسے کیُ واقعات رونما ہو چُکے ہیں کہ کسی اخبار میں کسی نٰییُ ہاؤسنگ سوسایُتی کا اشتہار شایُع ہُؤا. جس میں پلاٹ کی قیمت دوسری ہاؤسنگ دوسایُٹیوں کے پلاٹوں سے بہت کم قیمت پر دینے کی پیشکش کی جاتی ہے. پلاٹ کی قیمت اقساط میں ادا کرنے کی پیشکش بھی کی جاتی ہے. سوسایُٹی کی لوکیشن کے نقشے دکھاےُ جاتے ہیں. عمدہ سجاےُ دفتر میں بٹھا کر لوگوں کو گھیرا جاتا ہے. پلاٹ کی ایڈوانس بکنک کے طور پر لوگوں سے پیسے بٹورے جاتے ہیں ، جب کافی رقم جمع ہو جاتی ہے تو غایُب ہو جاتے ہیں، اس کے علاوہ بھی کیُی فراٍڈییےُ مختلف سکیموں کے ذریعے لوگوں سے فراڈ کر چُکے ہیں. یہ فراڈییےُ لوگ لوگوں کو بہتر منافع کا لالچ دیتے ہیں. سادہ لوگ زیادہ منافع کے لالچ میں اپنی جمع پُونجی لُٹا بیٹھتے ہیں.

    نمبر 6 – اُجرتی قاتل

    دنیا کے کیُ ممالک میں اُجرتی قاتل مل جاتے ہیں. یہ اُجرتی قاتل اپنا معاوضہ ، جو عمومآ لاکھوں میں ہوتا ہے، پیشگی لے کر کسی کو بھی قتل کر سکتے ہیں. اپنے مُلک میں اس سے پہلے یہ سلسلہ نہیں چلا تھا. لیکن اب اخبارات میں شایُع خبروں سے ایسے قتلوں کی کہانیاں ملتی ہیں ، اپنے مُلک کے ایک نامور صحافی مسٹر ارشد شریف کو کینیا میں قتل کر دیا گیا تھا، یہ کام بھی کسی اجرتی قاتل کا ہو سکتا ہے. یہ قتل ایک عجیب گورکھ دھندا بنا ہُؤا ہے. صحافی پاکستان سے باہر کیوں گیا تھا؟ صحافی کو باہر بھیجنے میں کس نے مدد کی ؟ کیا اُسے اپنی جان کا خطرہ تھا؟ اگر خطرہ تھا تو کس سے تھا ؟. اُجرتی قاتل کون ہے ؟ حیران ہُوں کہ لوگ دولت کی ہوس میں ایسے آدمی کو قتل کر دیتے ہیں جسے وہ جانتے تک نہیں. کیا وہ بھُول جاتے ہیں کہ ان سے اس بات کی باز پُرس ضرور ہوگی کہ ان لوگوں کا کیا قصور تھا جنہیں اس نے اجرت لے کر قتل کیا

    نمبر 7 – بلیک مارکیٹنگ

    دولت کی ہوس کا ایک اور کارنامہ بلیک مارکیٹنگ ہے. اس مٰیں ضروریات زندگی کو مقررہ نرخ سے زیادہ قیمت پر بیچا جاتا ہے. اس کے شکار زیادہ تر کسان ہوتے ہیں. آج کل زمین میں کھاد نہ ڈالی جاےُ تو فصل نہیں ہوتی. اس لیےُ کسان بلیک مارکیٹ میں مجبورآ مہنگی قیمت پر کھار خریدنے ے پر مجبور ہیں. کھاد ڈالے بغیر تو کویُ فصل پیدا نہیں ہوتی. ٍفصل پیدا نہ ہو تو کھاییُں گے کیا.

    دولت کی ہوس انسان کو آدمیّت کے نچلے درجے پر لا کھڑا کرتی ہے ، جہاں اُسے دولت اکٹھا کرنے کے سوا کُچھ نہیں سُوجھتا. یہ دولت بڑی بے وفا ہے ، آدمی جب مرنے کے بعد دفن ہوتا ہے تو اُس کے دونوں ہاتھ خالی ہوتے ہیں. اور اُس کی کمایُ ہویُ دولت یہیں سُنیا میں رہ جاتی ہے.

    اوپر بیان کیےُ گےُ چند بڑے اقدامات ہیں جو دولت کی ہوس میں اُٹھاےُ جا رہے ہیں. اصل میں ہمیں اللہ کا خوف نہیں رہا. ہم یہ بھول گیےُ ہیں کہ کل کلاں کو ہم سے ہمارے اپنے اعمال کی جواب دہی بھی ہوگی. اللہ تعالے سے دُعا ہے کہ وہ ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی ہدایت اور توفیق عطا فرماےُ. آمین

  • ہمارے سلگتے مسایُل # 10-  دین سے دُوری – Our burning issues # 10, Farness from religion

    ہمارے سلگتے مسایُل # 10- دین سے دُوری – Our burning issues # 10, Farness from religion

    ہمارے سلگتے مسایُل # 10
    دین سے دُوری
    Our burning issues # 10
    Farness from religion

     

    Farness from religion

    آج سے تقریبآ 100 سال پہلے تک کے لوگوں میں اپنے دین سے وابستگی تھی. مسجدیں آباد تھیں. لوگ ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے. ایک دوسرے کے کام آتے تھے. اگر کسی گھر میں کویُ فوت ہو جاتا تو پُورے محلے میں کسی کے گھر میں میت کے دفن ہونے تک کھانا نہ پکتا تھا ، فوت ہونے والے کے لیےُ 3 دن تک فاتحہ خوانی ہوتی تھی. زیادہ تر لوگ شرعی داڑھی رکھتے تھے. کسی گھر میں کویُ اچھّی چیز پکتی تو پڑوسیوں کے ہاں ضرور بھجوایُ جاتی تھی. اسلامی اصول ” ہمسایہ، ماں پیو جایا ” پر عمل ہوتا تھا. آج کل کے مقابلے میں بے حیایُ بہت ہی کم تھی. لوگ عورتوں کی عزّت کرتے تھے، چھوٹی لڑکی کو بہن اور بڑی عورت کو ماں جی کہ کر پکارا جاتا تھا. ہر طرف امن تھا. اگر گرمیوں میں تھوڑی بہت سُرخ آندھی آتی تو لوگ کہتے تھے کہ کہیں کویُ قتل ہو گیا ہے. میلے ٹھیلوں میں کھیل تماشے ہوتے، کبڈی کھیلی جاتی، کویُ جھگڑا فساد نہیں.

    وقت گُزرتا گیا، لوگ اچھی باتیں بھُولتے گیےُ. ایک دوسرے کا احترام ختم ہو گیا ہے. ہر شخص دولت کمانے کے چکر میں ہے. اس کے لیےُ حلال حرام کی تمیز ختم ہو چکی ہے. ان سب کی وجہ یہ ہے کہ ہم میں یہ خوف ختم ہو گیا ہے کہ کل قیامت کے دن ہم سے ہمارے اعمال کے بارے میں باز پُرس بھی ہو گی.

    عنوانات

    نمبر 1 = ہم نام کے مسلمان ہیں.

    نمبر 2 = ہمارے اعمال

    نمبر 3= نیا رجحان.

    نمبر 4 = اُلٹی گنگا

    نمبر 5 =فساد کی جڑ.
    نمبر 6 = فیشن.
    نمبر 7 = ٹیلی ویژن.
    نمبر 8 = اشتہارات.
    نمبر 9 = سب سے زیادہ تکلیف دہ مسُلہ

     

    ہم نام کے مسلمان ہیں.

    آج اگر ہم اپنے آپ سے پوچھیں کہ کیا ہم مسلمان ہیں ؟ ہم کہیں گے جی ہاں. کیونکہ ہم ایک مسلمان گھرانے مٰیں پیدا ہُوےُ. صحیح بات یہ ہے کہ صرف یہ سرٹیفیکیٹ ہمیں مسلمان ثابت کرنے کے لیےُ کافی نہیں. ہمیں اپنے اعمال سے ثابت کرنا ہوگا کہ ہم مسلمان ہیں. اور یہ کویُ آسان کام نہیں. بقول ایک شاعر

    رزم گاہ  عشق میں قدم  رکھنا  ہے

    لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

    قیامت کے دن صرف یہ سرٹیفیکیٹ کافی نہیں ہوگا کہ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا باشندہ ہُوں. ہم جو کچھ کرتے ہیں، بظاہر یا چھُپ کر، ہمارے کندھوں پر بیتھے دو فرشتے اُسے لکھ رہے ہیں. جب ہمارے کرتوت ہمارے سامنے آ جایُں گے تو کویُ بھی بہانہ نہیں چلے گا. ہم یہ بھی نہیں کہہ سکیں گے کہ

    فرشتوں کے لکھے پہ پکڑے گیےُ نا حق
    آدمی کویُ  ہمارا دم تحریر بھی  تھا

    ہم میں خیر سے ایسے اشخاص بھی موجود ہیں جو آج تک مسجد میں نماز پڑھنے نہیں گیےُ. لاہور کی پوش آبادی ڈیفینس مٰیں ہماری ممانی فوت ہو گیُں . ان کا جنازہ وہاں کی ایک مسجد میں ظہر کی نماز سے پہلے پڑھا گیا. اس کے بعد اعلان ہُؤا کہ ظہر کی نماز پڑھ لیں اس کے بعد میت کی تدفین ہوگی. میرے ساتھ کھڑے ایک سوٹڈ بُوٹڈ شخص کہنے لگے ” یہ جو ابھی پڑھا ہے یہ کیا تھا “؟ ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں.

    ہمارے اعمال

    ہمارے قومی شاعر اقبال نے ایک نظم لکھی تھی ” شکوہ ” . جس پر کیُ علماُ ےُ دین نے اعتراض کیا تھا کہ اللہ تعالے سے شکوہ کرنا مناسب نہیں. پھر جب اقبال نے : جواب شکوہ ” لکھی تو اُن علما ےُ دین نے اقبال کے نقطہُ نظر سے اتفاق کیا. آج ہم دیکھتے ہیں کہ ” کیا ہم اپنے اعمال کے مطابق اپنے آپ کو مسلمان کہہ سکتے ہیں “. موجودہ زمانے میں اکثریت کے اعمال کچھ یُوں ہیں :

    نمبر 1

    نماز کی پابندی

    دین اسلام کے مطابق ایک مسلمان مرد اور عورت کو ایک دن میں پانچ نمازیں پڑھنا فرض کی گییُ ہیں. یہ ہر مسلمان جانتا ہے. لیکن اس پر کتنے لوگ عمل کر رہے ہیں ؟. بعض مسلمان جمعہ کی نماز پڑھ کر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ باقی دنوں کی نمازیں معاف ہو گییُ ہیں. حالانکہ ایسا نہیں ہے. قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کی پُرسش ہوگی. اس وقت دُنیا میں صرف سعودی عرب مٰیں اسلام کے قوانین کی کُچھ پابندی دیکھی گییُ ہے. میں جب سعودی عرب میں تھا ( 1973 سے 1987 تک ) تو تقریبآ ہر روزدیکھتا تھا کہ ظہر، عصر، مغرب اور عشا کی اذان کے بعد پولیس کے سپاہی بازاروں میں گشت کرتے تھے اور دیکھتے تھے کہ کویُ دُکان کھُلی تو نہیں. دکاندار اپنی اپنی دکانیں بند کر کے نماز پڑھنے کے لیےُ مسجدوں میں پہنچ جاتے تھے. فجر کی نماز ہم لوگ اپنے کیمپ میں پڑھتے تھے.

    ایک بات آپ کے مشاہدہ میں آیُ ہوگی کہ اپنے مُلک میں مسجدوں کی تعداد بہت زیادہ ہے. میں جہیاں رہتا ہُوں وہاں ایک مربع کلو میٹرکے علاقے میں 6 مساجد ہیں. ہر مسجد میں اپنے اپنے مسلک کے مطابق نماز پڑھایُ جاتی ہے. مساجد میں دینی تعلیم دی جاتی ہے. یہاں سے فارغ التعلیم جوان مُختلف جگہوں پر مساجد بنا لیتے ہیں. عام لوگ نماز پابندی سے نہیں پڑھتے لیکن مساجد کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں. مولوی صاحبان مسجدوں کی تعمیر میں حصہ ڈالنے والوں کو بہشت کی بشارت دیتے رہتے ہیں . اور اس طرح نیُ مساجد تعمیر ہو رہی ہیں لیکن نمازی کم ہو رہے ہیں.

    یہ ایک رواج چلا آ رہا ہے کہ جمعہ کی نماز کے بعد مسجدوں کے خدام ایک بڑے کپڑے کی جھولی بنا کر ہر نمازی کے سامنے سے گزرتے ہیں ، نمازی حضرات حسب توفیق کچھ نہ کچھ اس جھولی میں ڈال دیتے ہیں. مولوی صاحبان کا کہنا ہے کہ ہم اس رقم سے مسجد کے اخراجات ہورے کرتے ہیں. یہ طریقہ با عزت طریقہ نہیں . حکو مت کو چاہیےُ کہ وہ مساجد کا انتظام خود سنبھالے. مساجد کے مولوی صاحبان کی تعلیم اور عقایُد کو پرکھے، اور اختلافات کو ہوا دینے والے حضرات کو ان کے گھر بھیج دے. اس ظرح مولوی صاحبان کی عزت میں اضافہ ہوگا . اور ًمختلف عقایُد رکھنے والوں میں بھایُ چارہ بڑھے گا. یکسانیت پیدا کرنے کے لیےُ جمعہ کا لکھا ہُوا خُطبہ ہر مسجد میں جمعرات تک پہنچا دیا جاےُ.

    سچ بولنا

    ہم سب جانتے ہیں کہ اپنے سارے کاموں میں سچ بولنا چاہیےُ. لیکن کتنے لوگ اس پر عمل کرتے ہیں؟ ایک کہاوت ہے کہ عوام وہ کرتے ہیں جو اُن کے حکمران کرتے ہیں. آج کل سیاست میں جھوٹ بولنے کو جایُز سمجھا جاتا ہے. جتنے زیادہ جھوٹ، اُتنا بڑا سیاست . دان.

      کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ سب سے زیادہ جھوٹ کون بولتا ہے ؟ اس کا جواب کافی مشکل ہے. مختلف لوگ مختلف راےُ کا اظہار کریں گے. ویسے وکیلوں کی فیملی سب سے زیادہ جھوٹ بولتی اور جھوٹ بولنا سکھاتی ہے. یقین نہ آےُ تو کسی روز کسی عدالت میں کسی مقدمے میں ماخوز کسی ملزم سے ملاقات کر لیں اور اُس سے اس بارے مٰیں پوچھ لیں . انہی صفات کی بنا پر اکبر الہہ آبادی نے وکیلوں کے متعلق کچھ کہا تھا ، جسے میں یہاں نقل نہیں کروں گا.

    رشوت

    ایک حدیث کے مطابق رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں گنہگار ہیں. ہمارے ملک میں تو کویُ کام رشوت دیُے بغیر نہیں ہوتا. لوگ رشوت دینے کو گناہ سمجھتے ہُوےُ بھی رشوت دینے پر مجبور ہیں. سب سے زیادہ رشوت کہاں ہوتی ہے؟ اس کا جواب مشکل ہے. کویُ جگہ ایسی نہیں جہاں رشوت کے بغیر کام ہو جاےُ.

    قتل و غارت

    آللہ تعالے کے بھیجے ہُوےُ آخری پیغام میں درج ہے کہ جس نے ایک آدمی کی جان بچایُ اس نے گویا ساری انسانیت کی جان بچایُ، اور جس نے ایک آدمی کو قتل کیا اُس نے گویا ساری انسانیّت کو قتل کیا. آج کل کسی لو قتل کر دینا گویا ایک کھیل تماشا ہے. اخبارات پڑھیےُ، ہر صفحہ پر قتل کی خبریں ملیں گی. نعض قبایُل کی پرانی دُشمنیوں میں روزانہ کیُ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں. ایسے لوگ خود نہ مرتے تو دوسروں کو مار دیتے. کیا انہیں خدا کا خوف نہیں. کیا یہ لوگ اپنی دُشمنیوں کو بھُلا نہیں سکتے ؟. اسلام تو ایک دوسرے کو معاف کر دینے کا درس دیتا ہے. کیا ہم لوگ اللہ کا پیغام بھول چُکے ہیں؟
    پچھلے سال میں نے ایک ماہ کے دوران ملک میں قتل ہونے والوں کے اعدا و شمار اکتھے کیےُ تھے. جو روزانہ روزنامہ جنگ لاہور میں شایُع ہُوتے تھے.. تجزیہ میں قتل کی مختلف وجوہات کے تحت قتل ہونے والوں کی تعداد دی گیُ تھی. اس رپورٹ کو اپنی ویب سایُٹ پر ” خون کے پیاسے لوگ ” کے عنوان کے تحت پبلش کیا تھا. آپ اسے پڑھ کر اندازہ لگا لیں کہ لوگ قتل کیوں کرتے ہیں.

    ڈاکہ زنی، چھیننا ، چوری

    پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں ایسے حالات کبھی نہیں آےُ، جیسے آج کل ہیں. ڈاکہ زنی کی وارداتیں روزانہ ہو رہی ہیں. لوگوں کی کاریں چوری ہو رہی ہیں یا زبردستی چھینی جا رہی ہیں. موٹر سایُکل چوری ہونے کے ساتھ ساتھ زبردستی چھینے جا رہے ہیں. راہ چلتے لوگ زبردستی اسلحہ کے زور پر لُوٹے جا رہے ہیں. اگر کوٰیُ شخص مزاحمت کرے تو ڈاکو اُسے قتل کر دیتے ہیں. قاتلوں کو تلاش کرنا مشکل ہے. مقتول پُکار رہے ہیں؛

    میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہُو تلاش کرُوں
    تمام شہر   نے  پہنے ہُوےُ  ہیں دستانے

    ڈاکؤؤں کے گروہوں میں افغانیوں کی اکثریت ہے. 8میُ کے واقعات میں شامل 2 لڑکوں کو ایک ٹی وی پر پیش کیا گیا. انہوں نے بیان دیا کہ ہمیں افغانستان میں اپنے شہر میں کچھ پاکستانی ملے. انہوں نے ہمیں کافی رقم دی اور کہا کہ کچھ ہلّا گُلّا کرنا ہے. ہم لوگ مقررہ تاریخ سے دو تین دن پہلے یہاں آ گیےُ. ہمیں بتایا گیا کہ فُلاں فُلاں جگہ پہ توڑ پھوڑ کرنی ہے. اور ہم نے لیا ہُؤا پیسہ حلال کرنے کے لیےُ کیُ جگہوں پر توڑ پھوڑ کی. یہ سب کچھ سنانے کا مطلب یہ ہے کہ افغاںٰی پیسے کے لیےُ ہر جایُز ناجایٰز کام کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں. آپ ان ڈکیتوں کو پکڑیں. ان میں بیشتر افغانی ہوں گے. بھتّہ خوری ان کا پسندیدہ کام ہے. ًًمیں آج مورخہ 3 مارچ 2024 کو روزنامہ جنگ، لاہور کا اخبار پڑھ رہا تھا. اس کے صفحہ نمبر 3 پر ایک خبر یُوں شایُع ہویُ ہے :

    کراچی سے افغان ڈکیت گینگ کا سرغنہ ساتھی سمیت گرفتار

     ملزمان کا گروپ 10 افغانی لڑکوں پر مشتمل، واردات کے بعد افغانستان فرار ہو جاتے تھے.
    کراچی. ( سٹاف رپورٹر ) سی آیُ ڈی نے افغان ڈکیت گینگ کا مبینہ سرغنہ نجیب اللہ اور صدام کو گرفتار کر کے اسلحہ بر آمد کر لیا ہے. ملزمان کا گروپ 10 افغانی لڑکوں پر مشتمل ہے. گروہ دوران ڈکیتی قتل اور اقدام قتل کی کیُ وارداتوں میں پولیس کو مطلوب ہے. گروپ کے دو افغانی ڈکیت لڑکوں نے 13 فروری کو دوران ڈکیتی کانسٹیبل واحد کو نارتھ کراچی میں شہید کیا تھا. ملزمان واردات کے بعد افغانستان فرار ہو جاتے    .ہیں.

    مندرجہ بالا خبر میرے اندازے کی تصدیق کر رہی ہے.

    آج کل آتشیں اسلحہ کی فراوانی ہے. ہر دوسرے شخص کے پاس اسلحہ ہے. لوگوں کے پاس زیادہ تر اسلحہ غیر قانونی ہے. امریکی افواج جب افغانستان سے اُجلت میں نکلیں تو وہ بہت سا سامان ، جدید اسلحہ سمیت ، افغانستان میں ہی چھوڑ گیےُ. جو افغانیوں کے ہاتھ لگ گیا.افغانی وہ اسلحہ پاکستان سمگل کر کے مہنگے داموں بلیک میں بیچ دیتے ہیں. صوبہ پختونخواہ کے علاقہ درّہ میں مقامی طور پر اسلحہ بنتا ہے جو بلیک میں ہر    شخص خرید سکتا ہے. یہی وجہ ہے کہ ملک میں اسلحہ کی فراوانی ہے.

         آپ نے بھی یہ منطر کیُ دفعہ دیکھا ہو گا کہ بعص بڑے لوگ، عوام کے چُنے ہُوےُ نمایُندے جب دس بارہ گاڑیوں کے ایک قافلے کی شکل میں کسی جگہ سے گزرتے ہیں، تو اس قافلے میں دو تین گاڑیوں میں ان کے محافظ ہاتھ میں بندوقیں لیےُ چوکس بیٹھے ہوتے ہیں. سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کے یہ افسر، یا عوام کے نمایُندوں کو کس بات کا خوف ہے جو اتنے مسلح افراد اپنی حفاظت کے لیُےُ ساتھ رکھتے ہیں. کیا وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ، وہ جو عوام کے ووٹوں سے چُنے گیےُ تھے، عوام کے ان داتا یا حاکم ہیں اور عوام ان کی رعایا ہیں ! عوام کے نمایُندوں کو عوام سے خوف نہیں کھانا چاہیےُ. ان کی یہ شان و شوکت صرف 4 یا 5 سال کے لیےُ ہے. اس کے بعد یہ پھر عوام سے ووٹ مانگیں گے.

    نیا رُجحان

    آج کل نوجوانوں میں ایک نیا رُجحان دیکھنے میں آیا ہے. نوجوان طبقہ چھوٹی چھوٹی داڑھی رکھنے لگا ہے. چلیں ، لمبی داڑھی نہ سہی، یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ میں نے داڑھی رکھی ہُویُ ہے. ہو سکتا ہے کل کلاں کو یہی داڑھی تھوڑی سی لمبی ہو جاےُ.

    اُلٹی گنگا
    اللہ تعالے کے آخری پیغمبر کی ایک حدیث کے مطابق مردوں کی شلوار یا تہ بند ان کے پاؤں کے ٹخنوں سے اوپر ہونی چاہیےُ. شلوار یا تہ بند کا ٹخنوں سے نیچے ہونا تکبر کی نشانی ہے . اور اللہ تعالے کو تکبر پسند نہیں. اس کے برعکس عورتوں کی شلوار یا تہ بند کو ان کے پاؤں کے ٹخنوں سے نیچے تک ہونے چاہییُں. آج کل ہمارے ہاں اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے. مردوں کی شلواریں ان کے پیروں کے ٹخنوں سے نیچے آ گیُ ہیں. عورتوں کی شلواریں ان کے پاؤن کےٹخنوں سے اُوپر آ گییُ ہین، بلکہ کچھ زیادہ ہی اُوپر آ گیُ ہیں. یہ دین سے دُوری کی نشانی ہے.
    دین سے دُوری کی دوسری نشانیاں یہ ہیں؛

    عورت کی حیا :

    عورت کے حیا کی نشانی اس کا دوپٹّہ ہے ، جو آج کل اُن کے سر سے اُتر چُکا ہے. مسلمان عورتوں کے متعلق اللہ کا فرمان ہے کہ وہ اپنے سر اور سینے کو چادر سے ڈھانکے رکھیں. زیادہ معلومات کے لیےُ ہمارا آرٹیکل ” آنٹی. آپ کا دوپٹہ کدھر ہے، قسظ نممر 1 ” پڑھیےُ.

    فساد کی جڑ

    مُلک میں جو بے حیاُیُ کی لہر آیٰ ہے ، اس فساد کی اصل وجوہات فیشن، ٹیلیویژن اور اشتہار بازی یا ماڈلنگ ہے. تھوڑی سی تفصیل یُوں ہے :

    فیشن

    مغربی ممالک میں موجود کیُ ادارے ہر سال فیشن کے نیےُ ڈیزایُن مارکیٹ میں پیش کرتے ہیں ، یہ فیشن ہر سال بے حیایُ کو مزید فروغ دے رہے ہیں. اور ہمارے لوگ مغرب کی تقلید کو ثواب عین سمجھتے ہیں. اور ان کے بے ہُودہ فیشن کو اپنانا فخر سمجھتے ہیں.

    ٹیلی ویژن

    دین سے دُوری پھیلانے میں ٹیلی ویژن کا بڑا کردار ہے. تقریبآ ہر ٹیلی ویژن ادارہ
    ہر گھنٹہ بعد خبریں نشر کرتا ہے. خبریں پڑھنے والیوں کے سر سے دوپٹّہ سرے سے غایُب ہو گیا ہے. کچھ عرصہ پہلے تک دوپٹّہ سر سے اُتر کر صرف گلے کی زینت تھا. اب ان لڑکیوں یا عورتوں کا دوپٹّہ سرے سے ہی غایُب ہے. انہوں نے اپنے سر کے بالوں کو دوپتّہ کا نعم البدل بنا لیا ہے. دین سے دُوری کے اس گناہ کا ذمہ دار کون ہو گا ؟ تیار رہیےُ.

    اشتہارات

    ٹیلی ویژن یا اخبارات میں اشتہارات کودیکھیےُ. ہر ٹیلی ویژن پر ایسے ایسے قابل اعتراض اشتہارات آتے ہیں کہ عام لوگ سوچنے پر مجبُور ہو جاتے ہیں کہ ہم کدھر جا رہے ہیں ؟. اشتہارات میں ماڈل اپنے جسم کی نمایُش کرنے میں لگی ہیں . خصوصآ اپنے سینے کی نمایُش کو فخر سمجھتی ہیں. ایسے اشتہار بنانے والے، انہیں چلانے والے کبھی اپنے انجام کو سوچیں. اور جواب دہی کے لیےُ تیار رہیں. جو پیسہ ان اشتہاروں سے کمایا جاےُ گا وہ یہیں رہ جاےُ گا. صرف اعمال ساتھ جاییُں گے. للہ تعالے ہم سب کو ہدایت دے.

    سب سے زیادہ تکلیف دہ مسُلہ

    آج کل کا سب سے زیادہ تکلیف دہ مسُلہ صنف نازک سے زیادتی کا مسُلہ ہے. خصوصآ چھوٹی بچیوں سے. آج کل تقریبآ ہر شخص کے پا س موباُل فون ہے بچے اور جوانی میں قدم رکھنے والے لڑکے موبایُل فون پر فُحش فلمیں دیکھتے ہیں اور پھر عملی قدم اُٹھاتے ہیں اس طرح غلط کاموں میں پڑ جاتے ہیں. اس کے تدارک کے لیےُ دو اقدام ضروری ہیں

    نمبر 1

    حکومت فحش مواد والے چینل پر پابندی لگا دے . اس کے لیے پی ٹی اے سخت قدم اُٹھاےُ.

    نمبر 2

    جُرم کے مرتکب افراد کو انتہایُ سخت سزا ( پھانسی ) پر لٹکا دیا جاےُ. سر عام پھانسی دینے سے اوروں کو یہ جرم کرنے سے پہلے کیُ بار سوچنا پڑے گا.

    اختتامیہ: اُس رحیم و کریم ہستی سے جو سب کا پالن ہار ہے ، دُعا ہے کہ وہ سب کو بُرے اعمال سے بچنے کی توفیق عظا فرماےُ. آمین ثُم آمین.