Mirza & Sahiban

مرزا صاحباں- قصہ ناکام محبت کا. قسط نمبر 3 – Story of Unsuccessful Affection

مرزا صاحباں – قصہ ناکام محبت کا –
Story of Unsuccessful Affection.
قسط نمبر 3

مرزا صاحباں – قصہ ناکام محبت کا – قسط نمبر 2  میں پم اُس جگہ تک پہبچے تھے جہاں مرزا صاحباں کے گاؤں جاتے ہُوےُ راستے میں ایک برہمن سے پوچھتا ہے کہ میں جس کام سے جا رہا ہُوں ، میں اُس میں کامیاب ہوں گا یا نہیں. برہمن اُسے ڈھکے چھُپے الفاظ میں بتاتا ہے کہ ” ٹنڈاں کرم کیریاں بھر بھر ڈوہلن نیر “. اب ہم اس سے آگے چلتے ہیں.

عنوانات :

نمبر 1 = مرزا کی گھوڑی
نمبر 2 = رقاصہ کی تنبیہ
نمبر 3 = صاحباں کا دوپتّہ
نمبر 4 = توہم پرستی
نمبر 5 = مہر فیروز سے ٹاکرا
نمبر 6 = جنڈ کا درخت

اب ہم وہاں سے شروع کرتے ہیں جہاں مرزا صاحباں، قصہ ناکام محبت کا، قسط نمبر 2 تک پہنچے تھے :

مرزا برہمن یا شاعر کی تنبیہہ کو نظر انداز کر دیتا ہے اور شام ڈھلے صاحباں کے گاؤًں میں اپنی خالہ ” بیبو ” کے گھر پہنچ جاتا ہے. اپنی خالہ کو سارا ماجرا سُناتا ہے. اُس وقت صاحباں کی بارات آ چکی ہوتی ہے. مرزا کی خٌآٌٌلہ صاحباں کو مرزا کے آنے کی اطلاع دیتی ہے . اُس وقت صاحباں نہا نے جا رہی ہوتی ہے :

اوہدے ہتھ کٹورا دہی دا ، چلّی نہون تلا
اوہ مل مل دھوندی مہڈیاں، چُلییُں پانی پا
مٹّی ہووے تے اُگّل جاوے، عشق نہ اُگّل دا
اندروں نکلی صاحباں ، لُنگی لک ولا

اردو ترجمہ:

صاحباں دہی کا کٹورا ہاتھ میں لیےُ نہانے کے لیےُ چلی.
وہ اپنے بالوں کو اچھی طرح دھوتی رہی. اپنے سارے بدن کو مل مل کر دھویا.
اُس کے جسم پر مٹّی ہوتی تو اتر جاتی ،مگر یہ تو عشق تھا، کیسے اُترتا.
نہا کر اس نے کپڑے پہنے اور غُسل خانے سے باہر آ گییُ.

مرزا کی گھوڑی

بیبو نے صاحباں کو سارا پروگرام سمجھایا کہ جب آتشبازی چل رہی ہوگی تُم فُلاں جگہ آ جانا. مرزا گھوڑی سمیت وہاں موجُود ہو گا. صآحباں مقررہ جگہ پر آ گییُ. مرزا اپنی گھوڑی سمیت وہاں موجود تھا. صاحباں نے گھوڑی کو دیکھا کہ یہ پتلی سی گھوڑی دو آدمیوں کو لے کر اتنا فاصلہ کیسے طے کرے گی. اس نے مرزا سے اپنے اندیشے کا ذکر کیا :

چُوہے رنگلی دُنبلی، آندی آ کتھّوں ٹور
ایہدا لک سُکّا، لنگ کانیاں، ایہدی نکلی ہویُ کنگوڑ
اس نہیں دوبیلا کڈھنا، ایہدی پٹھ وچ ہے نہیں زور
خاناں گھر جے باپ دے نہیں سی، کویُ منگ لیادوں ہور

اردو ترجمہ :

تُم یہ دُبلی پتلی چُوہے رنگ والی گھوڑی کہاں سے لے آیےُ.
اس کی کمر پتلی، ٹانگیں سُوکھی ہُویُ، اس کی پیٹھ کی ہڈیاں تک نظر آ رہی ہیں.
اس کی کمر میں طاقت تو ہے نہیں، یہ دو آدمیوں کو اپنے اُوپر بٹھا کر اتنی دُور تک کیسے لے جاےُ گی.
اگر تمہارے باپ کے گھر کویُ اچھی گھوڑی نہ تھی، تو کسی سے مانگ کر ہی لے آتے.

مرزا کو اپنی گھوڑی پر بڑا ناز اور اعتماد تھا. وہ اپنی گھوڑی کی توہین برداشت نہ کر سکا اور صاحباں سے کہا :

صاحباں چڑھنا ای اپنے شوق نوں، میری نیلی نند نہ جا
چار نیایاں دا کھٹیا، میری نیلی گیُ آ کھا
میری نیلی توں ڈردے پنچھی، چوگ نہ چُگدے آ
میری نیلی توں ڈرن فرشتے، میتھوں ڈرے اجل
جتھّے جا کے بہہ جاواں، اوتھئ تھر تھر پوندی تھل

اردو ترجمہ:

صاحباں تم میری گھوڑی پر بیٹھو یا نہ بیٹھو، تمہاری مرضی، لیکن میری گھوڑی کی ہتک نہ کرو.
گاؤں کے ساتھ والی زمین کے چار قطعوں کی آمدنی اس گھوڑی پر خرچ کر دیتا ہُوں.
میری گھوڑی کی ہیبت اور ڈر سے پرندے بھی اس کے پاس نہیں پھٹکتے. میری گھوڑی سے فرشتے اور مجھ سے موت ڈرتی ہے.
میں جس جگہ جا بیٹھُوں، وہاں میری ہیبت سے تھرتھلّی مچ جاتی ہے.

رقاصہ کی تنبیہ

مرزا صاحباں کو اپنی گھوڑی پر بٹھا کر چل پڑتا ہے.اس وقت صاحباں کی بارات میں ایک رقاصہ ناچ رہی ہوتی ہے. وہ مرزا کو پہچان لیتی ہے اور اُسے اشاروں میں سمجھاتی ہے :

رات چنّے دی چاننی، تاریا تیری لو
اتنے ویری ہوندیاں ، کیوں سر تے رہیا ایں کھلو
پندھ سُنبھال پاندھیا، نیناں دتّا رو

اردو ترجمہ :

چاندنی رات ہے، چاند کے ساتھ ایک چمکتا ستارہ ہے.
تمہارے اتنے دُشمن اکٹھّے بیٹھے ہیں، اور تم ان کے پاس کھڑے ہو.
مسافر ! اپنا راستہ لو، تمہارے دشمنوں کو پتہ چل گیا تو تُمہاری کیا دُرگت بناییں گے، یہ سوچ کر میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑتے ہیں.

مراز اقاصہ کی تنبیہ پر دھیان نہیں دیتا. اور رقاصہ کا رقص دیکھتا رہتا ہے. اُسے اپنی گھوڑی پر بڑا اعتماد ہے کہ یہ پلک جھپکنے میں بڑی دُور نکل جاےُ گی. رقاصہ اُسے پھر سمجھاتی ہے :

خان کھیوے دے جھانجرے، ودھ ودھ ہوےُ نی جھنگ
پان نہ دیندے کاٹھیاں، چھکن نہ دیندے تنگ
ہیٹھ جنہاں دے تازی، بھُورے جنہاں دے رنگ
بھجیاں جان نہ دیندے، لاہ دلے دی سنگ

اردو ترجمہ :

جھنگ کے خان کھیوہ کی گھوڑیوں کے ایال بڑے لمبے ہیں.
ان گھوڑیوں کے سوار اپنے دُشمن کو گھوڑی پر زین بھی کسنے نہیں دیتے اور اُسے پکڑ لیتے ہیں. یہ گھوڑیاں سوار کو “تنگ” بھی کسنے نہیں دیتیں. ( گھوڑی کی زین کے دونوں طرف 4 انچ چوڑی 8 سے 10 فٹ لمبی علیحدہ علیدہ بیلٹ ہوتی ہیں، جنہیں گھوڑی کا سوار سوار ہونے سے پہلے گھوڑی کے پیٹ کے گرد مضبُوطی سے باندھ دیتا ہے. ان دونوں بیلٹوں کو ” تنگ ” کہتے ہیں. یہ تنگ زین کو گھوڑے یا گھوڑی کی کمر سے مضبوطی سے باندھےرکھتا ہے. )
ان سواروں کے لیےُ بھورے رنگ کی گھوڑیاں ہر وقت تیار رہتی ہیں. بھاگتا ہُؤا آدمی ان سے بچ نہیں سکتا.تم یہ خیال اپنے دل سے نکال دو کہ تُمہاری گھوڑی بہت تیز دوڑتی ہے ، اور تم اُن کے ہاتھ نہیں ا سکو گے.

صاحباں کا دوپٹّہ

مرزا کی سمجھ میں رقاصہ کے اشارے آ گیےُ ، اور وہ وہاں سے چل پڑا.. حویلی کی چار دیواری پھلانگتے وقت صاحباں کا دوپٹّہ ایک درخت کی ٹہنیوں کے کانٹوں میں پھنس گیا. صاحباں اپنے دوپٹے کو کانٹوں سے نہ نکال سکی. مرزا سے کہتاہے:

ساویا ون ونوتیا ! تیرے نال اک کُنگی بیر
سالُو دا لڑ اڑ گیا، تیری قسمت دے وچ پھیر
صاحباں ! اڑ گیا ای تے رہن دیہہ، راوی سالُو، بھوچھن ڈھیر

اردو ترجمہ:

ون کے درخت، تمہارے ساا تھ بیری کا ایک درخت ہے.

صاحباں کے دوپتّہ کا ایک پلُّو اس درخت کی ٹہنی کے کانٹوں میں پھنس گیا ہے، شاید تمہاری قسمت میں پھیر ہے.
صاحباں ! چھوڑو دوپتّے کو، میری رہایُش راوی کے کنارے ہے، وہاں دوپٹّے بہت مل جاییُں گے.

توہم پرستی

دُنیا میں سب سے زیادہ توہم پرست ہندُو قوم ہے. وہ ہر کام شروع کرنے سے پہلے کام کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں نجومی سے پُوچھتے ہیں. کسی کام کو جاتے ہُوےُ اگر کالی بلّی راستہ کاٹ جاےُ تو وہ اسے بُرا شگُون جانتے ہیں اور واپس مُڑ جاتے ہیں اور اس کام کو کسی اور وقت پر ٹال دیتے ہیں. اگر مرزا ہندُو ہوتا تو وہ ماں کے منع کرنے، برہمن کے اشاروں کنایوں ، پھر صاحباں کے دوپٹّہ کا درخت کے کانٹوًں میں پھنس جانے سے بُرا شگُون لیتا ، اور یہ کام کسی اور وقت کے لیےُ اُٹھا رکھتا. لیکن مرزا ہندُو نہ تھا. اُسے اپنے زور بازو پر بھروسہ تھا . اس نے ان سب اشاروں کی پرواہ نہ کی.

مہر فیروز سے ٹاکرا

مرزا نے ان سب اشاروں کی پرواہ نہ کی اور وہاں سے صاحباں سمیت چل دیا. راستہ میں اُسے صاحباں کا چچا مہر فیروز ملا. اُسے کچھ شک ہُوا کہ مرزا کے ساتھ کویُ لڑکی ہے. اس نے مرزا سے پُوچھا ” گھوڑی پر تمہارے ساتھ کون بیٹھا ہے ” مرزا نے اُسے بتایا کہ یہ ایک مراثی لڑکا ہے :

ایہہ مراثی چھوکرا ماماں، پینڈے پیا ای تھک
ایہ گوکے مکھّن پالیا، ایدا جھُوہٹے کھاندا لک
ایہ را ستاریاں دا سنتری، ایہدا ودّھا کن تے نک
تینوں دلوں یقین نہیں ماماں، میں گل آکھاں سچ
اگیرے ہو کے ویکھ لے، جے دل وچ گُزری شک

اردو ترجمہ 

مامُوں 1 یہ ایک مراثی لڑکا ہے ، راہ چلتے تھک گیا تھا میں نے اسے اپنی گھوڑی پر بٹھا لیا .
یہ بچپن سے ہی گاےُ کا مکھن کھا کر پلا ہے، اس لیےُ اس کی کمر پتلی ہے.
یہ راےُ یا را خاندان کے گھر کا چوکیدار ہے، اس لیےُ اس کے کانوں میں جھُمکے اور ناک میں نتھ ہے. ( یعنی خواجہ سرا ہے ).
مامُوں ! میرا یقین کرو، میں سچ کہہ رہا ہُوں.
اگر تمہیں کچھ شک ہے کہ میں جھوٹ بول رہا ہُوں تو نزدیک آ کر تسلّی کر لو.

تشریح : لفظ ” را ” دراصل راےُ یا راؤ کا مخفف ہے جسے شعری ضرورت کے پیش نظر مخفف کر دیا گیا ہے. یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عام لوگ کھرل خاندان کے آدمیوں کو راےُ یا راؤ کہنے کی بجاےُ صرف ” را ” ہی کہتے ہوں.

مہر فیروز کو مرزا کی بات کا یقین نہیں آتا. وہ نزدیک ہو کر دیکھتا ہے تو اُس پر اصل بات کھُل جاتی ہے. مرزا اور مہر فیروز آپس میں لڑ پڑتے ہیں اور مرزا ، مہر فیروز کو زخمی کر کے دانا آباد کی طرف اپنا سفر جاری رکھتا ہے.

جنڈ کا درخت

مرزا نے ساری رات گھوڑی دوڑاتے اپنا سفر جاری رکھا. سورج نکل آیا. اس وقت وہ کھیوا خان کی حدود حکمرانی سے تقریبآ باہر نکل آیا تھا. اُسے یہ بھی گمان تھا کہ کھیوا خان اپنی حدود سے نکل کر اس پر حملہ نہیں کرے گا. چنانچہ اُس نے جنڈ کے ایک درخت کے ساےُ تلے تھوڑی دیر آرام کرنے کا فیصلہ کیا. صاحباں کا اصرار تھا کہ یہاں نہ ٹھہرا جاےُ اور اپنا سفر جاری رکھنا چاہیےُ.
. اس پر مرزا نے کہا:

جنڈ جنڈورا بار دا صاحباں، کلّر وچ نشان
آایتھے جھٹ اک موجاں مانیےُ، جگ وچ رہسی ناں

اردو ترجمہ

صاحباں ! اُجاڑ جگہ پر اس جنڈ کے درخت کی چھاؤں تلے ذرا دم لیتے ہیں.
تھوڑی دیر یہاں بیٹھ کر پیار محبت کی باتیں کریں گے.

صاحباں کو مرزا کی اس بات سے اتفاق نہ تھا کہ یہاں ٹھہرا جاےُ. وُہ اپنے خاندان اور بھاییُوں کو جانتی تھی کہ وُہ اس واقعہ پر چُپ نہ بیٹھیں گے. اور وُہ ضرور ان کا پیچھا کریں گے. اگر وہ ایک دفعہ یہاں پہنچ گیےُ تو …………. صاحباں اس سے آگے نہ سوچ سکی. اس کا دل ہول گیا. اس نے اپنے اندیشے کا ذکر مرزا سے کیا. مرزا کو اپنی جوانمردی، تیر اندازی اور پکّے نشانے پر ناز تھا. اتفاقآ اس درخت کی ایک شاخ پر ایک طوطا بیٹھا کویُ پھل کھا رہا تھا. مرزا نے صاحباں کا خوف دُور کرنے اور اپنے سچّے نشانے کے ثبُوت کے طور پر اس پھل کا ، جو طوطا کھا رہا تھا، نشانہ لے کر تیر چلایا .

بھال کے بھیتو کڈھیا مرزے، وڈّا تیر سنجھان
اُس بھار پبّاں دے ماریا، اُڈیا وانگ طُوفان
اُس طوطے توں پھاڑی کھوہ لییُ، بچ گیُ طوطے دی جان
ترے سو کرُو دا فاصلہ ، ڈٹھّا وچ میدان
صاحباں ویکھ دلیریاں، بیٹھی ہو حیران

اردو ترجمہ :

مرزا نے ترکش سے پہچان کر ایک لمبا تیر نکالا.
اس نے اپنے پنجوں کے بل بیٹھ کر تیر چلایا. جو طوفان کی طرح اپنے نشانے کی طرف بڑھا.
طوطا جو پھل کھا رہا تھا ، تیر اس پھل کو لگا اور طوطے کو کویُ نقصان نہ پہنچا.
تیر درخت سے تین سو قدم دُور، پھل سمیت ، میدان میں جا گرا.
صاحباں مرزے کی اس مہارت پر دنگ رہ گییُ.

مرزا نے صاحباں کو یقین دلایا کہ وہ اکیلا ہی بہت سارے جوانوں کا مقابلہ کر سکتا ہے. اور یہ کہ صاحباں کو ڈرنے کی ضرورت نہیں. وہ صاحباں کے زانُو پر سر رکھ کر سو گیا.

آج کی نشست لمبی ہو گییُ ہے. اسے یہاں ختم کرتے ہیں،
مرزا صاحباں- قصّہ ناکام محبت کا، قسط نمبر 4 کا انتظار فرمایےُ.

جاری ہے.


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *