Category: پنجابی انکھاں

  • پنجابی اکھان – ردیف ” ی ” نمبر 3 – 1

    پنجابی اکھان – ردیف ” ی “

    نمبر 3 – 1

    دوستی وُہی سچّی دوستی ہوتی ہے جو کسی بھی قسم کے لالچ کے بغیر ہو. ایسی دوستی فی زمانہ نا پید ہے. ہر کویُ اپنے مطلب کا یار ہے. سچّی دوستی میں ریاکاری نہیں ہوتی. دوست اپنے دوست کے لیےُ ہر ممکن قُربانی دینے کو تیار رہتا ہے. اگر دوستی میں زرا سا بھی بال آ گیا تو دوستی ختم ہو جاتی ہے. ردیف ے کے پہلے پنجابی اکھان میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے.
    پنجابی اکھان ردیف و ، نمبر 7-1     پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں.

    پنجابی زبان کے آخری حرف ی سے شروع ہونے والے پنجابی اکھان پڑھیےُ؛

    نمبر 1 – یاری نہ ہویُ چھولیان دا وڈھ ہو گیا.
    اپنے دوست کو مصیبت میں اکیلا چھوڑ دیا، یہ دوستی تو نہ ہویُ.
    چنے کا پودا کافی مضبوط ہوتا ہے. خصوصاُ جب چنے کی فصل پک جاےُ. پکے ہوےُ چنے کے پودے کو جڑ سے نہیں اکھاڑتے، بلکہ پودے کو زمین سے دو تین انچ اوپر سے کاٹ لیتے ہیں. پودے کا بچا ہؤا یہ حصہ کافی سخت ہوتا ہے. ایسے کھیت میں چلنے سے پاؤں کے اگکے حصے میں ٹھوکریں لگتی ہیں. ننگے پاؤں چلنے سے پودے کا بچا ہؤا حصہ پاؤں میں چبھ جاتا ہے. غرض ہر طرح سے تکلیف ہوتی ہے. چنے کے پودوں کو کاٹ لینے کے بعد اس زمین کو “وڈھ ” کہتے ہیں.
    یہ کہاوت وہاں کہی جاتی ہے جب کویُ شخص مصیبت کے وقت اپنے دوست کو اکیلا چھوڑ دے اور اس کی کویُ مدد نہ کرے.

    نمبر 2 – یھملا جٹ خدا نوں لے گےُ چور
    ” یھملا ” کے معنی ہیں جان بوجھ کر الٹی حرکتیں کرنے والا. بات یا معاملے کو سمجھنے کے باوجود یہ ظاہر کرنا کہ مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آیُ.
    جاٹ عموماُ اپنے نقصان والی بات پر یھملا بن جاتا ہے. ایک جاٹ کسی معاملے میں پھنس گیا. اس سے نکلنے کا کویُ راستہ نہ تھا. اس نے ترکیب لڑایُ کہ میں پاگل بن جاؤں، اور اس پاگل پن کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ وہ تو پاگل تھا. اس معاملے میں اس کی بات پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا. چنانچہ اپنے آپ کو پاگل ظاہر یا ثابت کرنے کے لیےُ اس نے کہنا شروع کر دیا کہ ” خدا کو چور لے گیےُ “. اب یہ بات تو کویُ مان ہی نہیں سکتا کہ خدا چوری ہو گیا ہے. چنانچہ اسے پاگل تسلیم کر لیا گیا. اور اس معاملے سے اس کی جان چھوٹ گیُ کہ وہ تو پاگل ہے، اس کی زبان کا کیا اعتبار.

    نمبر 3 – یرکاؤ اگلا نہ یرکے تے آپ یرک جاؤ
    پہلے دھونس سے سامنے والے کو میدان چھوڑنے پر مجبور کرو، اگر وہ تمہاری دھونس میں نہ آےُ تو خود میدان سے پیچھے ہٹ جاؤ.
    لفظ ‘ یرکانا ” کے معنی ہیں دھونس سے رعب جمانا، بڑھکیں مار کر مخالف کو ڈرانا .
    معلوم ہوتا ہے کہ یہ کہاوت کسی بزدل نے کہی ہو گی. جی دار شخص تو میدان نہیں چھوڑتا.

    حرف آخر:
    پنجابی کہاوتون کا جو زخیرہ میرے پاس تھا وہ یہاں پر ختم ہو رہا ہے. پنجابی کہاوتیں اتنی زیادہ ہیں کہ ان کا تحریر میں لانا مشکل ہے.
    ایک جایُزے کے مطابق ” https://sipraworld4all,com ” کا یہ سلسلہ باقی مضامین کی بہ نسبت سب سے زیادہ دیکھا ، پڑھا جانے والا
    سلسلہ ہے. اسے پسند کرنے کا بہت بہت شکریہ. لگے ہاتھون پنجابی اکھان کا جو حصہ پسند آےُ، اس پر اپنی راےُ ضرور دیجیےُ.
    پنجابی اکھان کے بعد “پنجابی لوک گیت ” کے تحت سب سے پہلے “ڈھولے” پیش کیےُ جایُں گے. جو یقینآ آپ کو پسند آیُں گے.

  • پنجابی اکھان – ردیف ” و ” نمبر 7 – 1

    ُپنجابی آکھان . ردیف “و‌”

    نمبر10 -1

    دُنیا میں عمومآ دو قسم کے انسان ملتے ہیں. پہلی قسم کے لوگ وہ لوگ ہیں جو اپنا ہر کام ڈنکے کی چوٹ پر کرتے ہیں. یہ انسان بڑے کھرے ، صاف دل ،بہادر، رحم دل اور اچھّی صفات والے لوگ ہوتے ہیں. دنیا میں آچھی صفات انہی لوگوں کے دم قدم سے قایُم ہیں. دوسری قسم کے لوگ وُہ ہیں جو کینہ پرور، بُغض کو دل میں رکھنے والے، چغل خور، لگایُ بجھایُ کرنے والے، جھوٹ بولنے والے، اُوپر سے کُچھ، اندر سے کُچھ ، فسادی ہر برایُ میں پیش پیش وغیرہ رہنے والے ہیں. پنجابی زبزن میں انہیں ” میسنا ” کہتے ہیں. ردیف و کے پہلے پنجابی اکھان میں انہی دو قسم کے لوگوں کی پہچان بتایُ گییُ ہے.
    پنجابی اکھان ردیف ہ نمبر 10-1   پڑھنا چاہیں تو اس لنک پر کلک کریں.

    ردیف و کے پنجابی اکھان پڑھیےُ؛

    نمبر – 1 . وجدیاں دے وج بھارے میسیاں پنڈ گالے
    بہادر لوگ ہمیشہ ڈنکے کی چوٹ پر کام کرتے ہیں. اور اس کام کی سب کو خبر ہوتی ہے. اس کے برعکس ” میسنے ” لوگ چپکے چہکے جڑیں کاٹتے ہیں.
    پنجابی زبان کا لفظ ” میسنا ” یا ” میسا ” ا پنے اندر وسیع معنی رکھتا ہے. سب کی سن کر کسی کی نہ ماننے والا، بے جا ضد کرنے والا،ا پنے منصوبوں کو چپکے چپکے مکمل کرنے والا، ( ایسے منصوبے عموماّ مردم آزار ہوتے ہیں ) بات کو دل میں رکھنے والا، بات کا جواب نہ دینے والا لیکن اندر ہی اندر جڑیں کاٹنے والا، بظاہر میٹھا لیکن اندر سے زہریلا وغیرہ سب ” میسنا ” کی تعریف میں آتے ہیں.
    اردو زبان کا یہ شعرشاید میسنا کی تعریف کے نزدیک ہو سکتا ہے :
    سن کویُ ہزار جو سناےُ
    کیجیےُ وہی جو سمجھ میں آےُ

    نمبر – 2. ویلے دی نماز کویلے دیان ٹکراں
    صحیح نماز وہی ہے جو وقت پر پڑھی جاےُ. وقت گزر جانے کے بعد پڑھی جانے والی نماز ایسی ہے جیسے یونہی بے مقصد زمین پر ٹکریں مار لی جایُں.

    نمبر 3 . وہلی جٹُی اُن ویلے
    جاٹ کی بیوی گھر میں بیکار بیٹھی تھی. اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیےُ یا مصروف ظاپر کرنے کے لیےُ اس نے اون بیلنی شروع کر دی. اب بھلا اون کو بیلنے کی کیا تک ہے .
    پھٹُی (کپاہ) کو رویُ میں تبدیل کرنے کے لیےُ اسے بیلنے میں سے گزارا جاتا ہے. بیلتے وقت رویُ ایک طرف گرتی جاتی ہےاور بنولے علیحدہ رہ جاتے ہیں. پھٹی کو بینے سے گزارے بغیر نہ رویُ حاصل ہو سکتی ہے اور نہ ہی بنولے. اون میں تو بنولے قسم کی کویُ چیز ہی نہیں ہوتی. اون کو آپ بیلنے سے جیسی گزاریں گے، دوسری ظرف سے ویسے ہی نکل آےُ گی.
    ایسا کام کرنا جس کا کویُ فایُدہ نہ ہو، محض وقت ضایُع کرنے والی بات ہو تو یہ کہاوت صحیح مفہوم ادا کرتی ہے.

    نمبر 4 . وگُا ڈھول وساکھی دا میتھوں نہیں رہی دا
    بیساکھی کے میلے کا ڈھول بجنے لگا ہے. مجھ سے رہا نہیں جا رہا. میں تو میلے میں جا کر بھنگڑا ڈالوں گا.
    بیساکھ کے مہینہ میں کسان اپنی گندم کی فصل کے دانے اپنے گھر لا چکے ہوتے ہیں. اب کچھ دنوں کے لیےُ وہ فارغ ہیں. ان فراغت کے دنوں میں عموماُ میلے ٹھیلے لگتے ہیں. جہاں منچلے ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑا ڈال کر اپنا رانجھا راضی کر لیتے ہیں. ( رانجھا راضی کرنا = یعنی اپنا جی خوش کرنا ).

    نمبر 5 . وہڑ کھوہ وچ ڈگُا اے اینہوں کھسُی کر کے کڈھو
    نوجوان بیل کنویُں میں گر گیا ہے. کنویُن میں یہ خوب قابو آےُ گا. اسے وہیں پر کھسُی کر لو ، پھر کنویُں سے باہر نکالو.
    نوجوان بیل خر مستیاں بہت کرتے ہیں. ہل میں جوتتے وقت ادھر ادھر بھاگتے ہیں. دیہات والوں نے اس کا یہ حل نکالا کہ وہ ان بیلوں کو کھسُی کر دیتے تھے. ایسے بیل کو لٹا کر چار آدمی اس کی ٹانگیں پکڑ کر انہیں باندھ دیتے. ایک آدمی اس کے سینگھوں اور سر کو قابو کر لیتا. ایک شکنجے ( پلاس ) کے زریعے اس کے خصیوں سے زرا اوپراس کی رگوں کو مسل دیا جاتا، اس عمل کو ‌”خصُی ” کرنا کہتے ہیں. خصی بیل خرمستیاں کرنا چھوڑ دیتے ہیں. اور ان کی ساری توانیاں کاشتکاری کے کاموں میں کام آتی ہیں.

    نمبر 6 . وچُوں وچُوں کھایُ جا اتُوں رولا پایُ جا.
    چپکے چپکے سب کچھ کھاتے جاؤ، کویُ چیز نہ چھوڑو. بظاہر زور زور سے بولتے جاؤ کہ مین تو ایسی چیزیں کھاتا نہیں.
    جب کویُ شخص اندر ہی اندر جڑیں کاٹتا رہے اور بظاہر دوستی کا دم بھرتا رہے تو ایسے شخص کے متعلق یہ کہاوت کہی جاتی ہے.

    نمبر 7 = وتھ تے وتھ ہوندی اے، بھاویں اُنگل جتنی ہووے.
    نوٹ – وتھ کو واؤ کے نیچے زیر لگا کر پڑھیےُ. وتھ کے کیُ معنی ہیں. جُدایُ، فاصلہ، فرق ،خالی جگہ وغیرہ.

    فاصلہ تو فصلہ ہی ہوتا ہے، چاہے ایک اُنگلی کے برابر ہو.

    یہاں وتھ یا فاصلہ کی تشریح کی گیُ ہے ،فاصلہ یا فرق ایک دوسرے سے علیحدہ کرنے کا نام ہے.

    جاری ہے.

  • پنجابی اکھان – ردیف ” ہ ” نمبر 10 – 1

    پنجابی اکھان – ردیف ” ہ “

    نمبر 10 – 1

    ہر ایک ماں اور باپ کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اُن کے بیٹے لایُق، پڑھنے والے اور پڑھ لکھ کر ماں باپ کا ہاتھ بٹانے والے ہؤں. اب یہ ضروری نہیں کہ والدین کی ہر خواہش پُوری ہو. کیُ ایک وجُوہات کی بنا پر اُن کی اولاد میں سے ایک یا دو بچّے وُہ نہیں بن پاتے جو اُن کے والدین چاہتے تھے. والدین بھی اُن پر زیادہ توجّہ دینی چھوڑ دیتے ہیں.بسنت نامی ایک لڑکے کی کہانی کو ردیف ہ کے پہلے پنجابی اکھان میں بیان کیا گیا ہے.

    پنجابی اکھان ردیف ن ، نمبر 16-1      پڑھنا بھُول گیےُ ہوں اس لنک پر کلک کریں.

    ردیف ہ کے پنجابی اکھان پڑھیےُ

    نمبر 1 – ہتھ پرانے کھوسڑے بسنتے ہوری آےُ نی
    بسنتا ( بسنت رام کا مخفف ) کام کرنے گیا تھا ، کام تو ملا نہیں، ٹوٹے ہوےُ جوتے ہاتھ میں لیےُ گھر واپس آ گیا.
    اردو زبان کا محاورہ ” لوٹ کے بدھو گھر کو آےُ “اس کہاوت کے ہم معنی ہیں.

    نمبر 2 – ہکے مردہ بولے نہ ہکے کفن پھاڑے
    مردہ پہلے تو بولتا ہی نہیں تھا، اب دیھو کیسے کفن ہھاڑ پھاڑ کر چلّا رہا ہے.

    نمبر 3 – ہوری نون ہوری دی انھّی نوں ڈنگوری دی
    سارے لوگ تو دوسری باتوں کی فکر میں ہیں، لیکن اندھے کو ایک ہی فکر ہے کہ اس کی لاٹھی اس کے ہاتھ آ جاےُ کہ اس کے بغیر وہ چل نہیں سکتا.
    کسی ” مطلبی ” شخص پر یہ لہاوت خوب جچتی ہے.

    نمبر 4 – ہتھ نہ اپڑیا تھوہ کوڑی
    جب بس نہ چلا تو کہہ دیا کہ میری قسم واپس.
    دوستون میں بیٹھ کر قسم کھایُ کہ فلاں کام ضرور کروں گا. نہ کر سکوں تو ایسا سمجھنا کہ میں نے تھوک کر چاٹا ہے. کسی وجہ سے وہ کام سر انجام نہ دے سکا یہ کہہ کر بری الزمہ ہو گیا کہ میں کام کرنے کی اپنی قسم واپس لیتا ہوں.
    اج کل قسم واپس لینے کو ” یو ٹرن ” کہتے ہیں. حالانکہ یو ٹرن لینا ایسا ہے جیسے تھوک کر چاٹ لینا.

    نمبر 5 – ہٹھّاں آلیاں نال یاری ہووے تے بوہے اچّے رکھیےُ
    اونٹوں والوں سے دوستانہ ہو تو اپنے مکان کے دروازے اتنے اونچے رکھوانے چاہیُں کہ دوستوں کے اونٹ اس دروازے سے بآسانی گزر سکیں.
    اونٹ رکھنے والوں سے دوستی ، یارانہ ہو تو تو وہ ملنے کے لیےُ گھر بھی آیا کریں گے. اب اگر گھر کا دروازہ اتنا اونچا نہ ہو کہ دوست کا اونٹ اس میں سے گزر سکے، تو اونٹ کو کہیں باہر ہی باندھنا پڑے گا. اس طرح تو دوست کی سواری کی بے قدری ہو گیُی .
    اگر آپ کے دوست امیر لوگ ہیں تو تو آپ کا گھر بھی ان لوگوں کے گھروں جیسا ہونا چاہیےُ.

    نمبر 6 – ہتھاں نال دتیاں دنداں نال کھولنیاں پیندیاں نے
    بعض دفعہ یوں بھی ہوتا ہے کہ جو گرہ اپنے ہاتھ سے لگایُ یا باندھی تھی اسے اپنے ہی دانتون سے کھولنا پڑتا ہے.

    نمبر 7 – ہانیاں نوں ہان پیارے ہوندے نے
    انسان کو اپنے ہم عمر ہی اچھے لگتے ہیں.
    نوجوان اپنے جیسے نوجوانوں کے ساتھ ہی اٹھتے بیٹھتے ہیں. ایسا شاذونادر ہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ کویُ نوجوان بوڑھوں کی محفل میں خوش ہو. فارسی زبان میں اسے یوں کہتے ہیں ” ہم جنس با ہم جنس کند پرواز “.

    نمبر 8 – ہل لمّی سٹ لو
    ہل کو کھڑا کرنے کی بجاےُ لٹا لو.
    ایک گاؤں میں ایک نوجوان سے کویُ گناہ سرزد ہوگیا . لوگ گاؤں کی مسجد کے امام صاحب کے پاس آےُ اور انہیں ساری بات بتا کر پوچھا کہ اس گناھ کا کفارہ کیا ہو گا . مولوی صاحب نے کہا کہ ایک ہل کو کھڑا کرو اور گنہگار خود یا اس کے گھر والے اس ہل پر گندم کی روٹیاں ڈالتے جایُں حتے کہ ہل چھپ جاےُ. لوگوں نے کہا کہ یہ گناہ آپ کے بیٹے سے سرزد ہؤا ہے. آپ اپنے فتوے پر عمل کریں. مولوی صاحب نے سر کو کھجایا، پھر کہنے لگے ” دیکھو، شریعت کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتی. ایسا کرو کہ ہل کو کھڑا کرنے کی بجاےُ اسے لٹا دو ”
    دوسروں کے معاملے میں سختی اور اپنے معاملے میں نرمی اختیار کرنے پر یہ کہاوت کہی جاتی ہے.

    نمبر 9 – ہوا وگدی اے تے پتّر ہلدے نے
    درختوں کے پتّے ہل رہے ہیں، گویا ہوا چل رہی ہے. اسی لیےُ پتّے ہل رہے ہیں.
    کسی پر کویُ الزام لگے تو وہ لاکھ صفایُاں دیتا پھرے، کچھ نہ کچھ بات ضرور ہو گی، جیسے درختوں کے پتّے جبھی ہلیں گے جب ہوا چل رہی ہو، چاہے تھوڑی ہو.

    نمبر 10 – ہونی نوں گھوڑے وی نہیں رلدے

    جو وقت نیت گیا، یا جو کچھ واقع ہو چکا ہو اسے واپس لانے کے لیےُ چاہے کتنے گھوڑے دوڑاےُ جایُں اسے واپس نہیں لایا جا سکتا.
    ایک معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ تقدیر میں لکھا ہؤا جب واقع ہو جاےُ تو اسے
    کسی تدبیر سے واپس نہیں لایا جا سکتا، چاہے تدبیروں کے لاکھ گھوڑے دوڑاےُ جایُں.

    جاری ہے.

  • پنجابی اکھان – ردیف ” ن ” نمبر 6 1 – 1

        پنجابی اکھان – ردیف ” ن “

    نمبر 16 – 1

    پنجابی کے بعض اکھان بڑے دلچسپ ہوتے ہیں. ایسے اکھانوں میں ایسے واقعات کی نشان دہی ہوتی ہے جو کسی بھی طرح خلاف شرع نہیں ، لیکن سماج میں اُن کی قدر بھی نہیں. گو ایسے واقعات اکّا دُکّا ہوتے ہیں. ردیف ن کے پہلے اکھان میں اسی کی نشان دہی کی گییُ ہے.

    پنجابی اکھان ردیف م نمبر 26-11     کسی وجہ سے پڑھ نہ سکے ہون تو اس لنک پر کلک کر کے پڑھ لیجیےُ.

    ردف ن کے پنجابی اکھان پڑھیےُ؛

    نمبر 1 – نانی خصم کرے دوہترا چٹُی بھرے.
    نانی امان نے بڑھاپے میں دوسرا نکاح کر لیا. اس نکاح کے سارے اخراجات اس کے نواسے کو پورے کرنے پڑے.
    جب کسی شخص کو غیر متعلقہ اخراجات ادا کرنے پڑیں، تو ایسے موقعون پر یہ کہاوت کہی جاتی ہے.
    اردو زبان کا محاورہ ” طویلے کی بلا، بندر کے سر ” مندرجہ بالا کہاوت کے مفہوم کے نزدیک ترین ہے.

    نمبر 2 – نانوان لکھّو دا تھیوا بکھّو دا
    لکھّو نے یہ جو قیمتی ہیرے کی انگوٹھی پہن رکھی ہے اور لوگ اس پر رشک کر رہے ہیں کہ اس نے کتنی قیمتی انگوٹھی پہن رکھی ہے، یہ انگوٹھی دراصل بکھّو کی ہے. لیکن بلّے بلّے لکھّو کی ہو رہی ہے.
    اس کہاوت کا اصل حُسن اس کے الفاظ کا وزن ہے.

    نمبر 3 – نہ کھیڈاں دے نہ کھیڈن دیواں دے
    ہم نہ خود کھیلے گے، نہ کسی کو کھیلنے دیں گے.

    نمبر 4 – نالے چور نالے چتر
    ایک تو چوری کی ہے، اس پر مستزاد کہ باتیں بنا رہے ہو، اور چالاکی دکھا رہے ہو.

    نمبر 5 – نایُئاں دا ویاہ کُھسرے نوں فکر
    شادی تو نایُ کی ہو رہی ہے ، ہیجڑا مفت میں غم سے پتلا ہو رہا ہے کہ شادی کے اخراجات کیسے پورے ہوں گے.
    غیر متعلقہ شخص کے غم میں گھلنے والے پر یہ کہاوت خوب سجتی ہے.

    نمبر 6 – نہ نیتی نہ قضا کیتی
    نماز کی قضا تو تب ہے جب نماز باقاعدگی سے پڑھتے ہوں. اور کسی وجہ سے کسی وقت کی نماز بر وقت ادا نہ کی جا سکی ہو. ہم نے تو کبھی نماز پڑھی ہی نہیں، قضا پڑھنے کا کیا سوال !

    نمبر 7 – نہ ٹُریں اُدھالی نال متے رلایُ آپے نال
    اغوا ہو کر آنے والی عورت کے ساتھ میل جوڑ نہ بڑھاؤ ، ایسا نہ ہو تمہیں بھی اس راستے پر چلنے کی ترغیب دے ، جس پر چل کر وہ خود آیُ ہے.
    دیہات میں اغوا ہو کر آنے والی عورت کو اچھُی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا. اس کہیوت میں اسی نفرت کا اظہار ہے.

    نمبر 8 – نہ پیہڑا نہ منجی میری وشکار ڈاہیں
    گھر میں نہ تو کویُ چارپایُ ہے اور نہ ہی بیٹھنے کے لیےُ کویُ پیڑھی. پھر بھی یہ تقاضا ہے کہ میری چارپایُ دوسری چارپایُوں کے درمیان بچھایُ جاےُ.

    نمبر 9 – نویں فقیری دوپہری دھواں
    یہ نیا نیا فقیر بنا ہے ، دوپہر کو بھی آگ جلاےُ رکھتا ہے.
    صحیح معنوں میں فقیر لوگ عموماُ رات کو آگ جلاتے ہیں. ایسے فقیر اہنا ٹھکانا گاؤں سے باہر بناتے ہیں. آگ جلا کر ایک تو سردی سے بچتے ہیں ، دوسرے آوارہ کتوں گیدڑوں سے محفوظ رہتے ہیں. یہ کویُ نیا نیا فقیر بنا ہے جو دوپہر کو بھی آگ جلاےُ رکھتا ہے.
    یہ کہاوت ایسے نو دولتیوں کے متعلق کہی گیُ ہے جو اپنی دولت کا اظہار غلط موقعوں پر کرنے سے باز نہیں آتے.

    نمبر 10- نمازاں بخشوان گیےُ روزے گل پے گیےُ
    اللہ کے آخری پیغمبر جب معراج پر گیےُ تو اللہ نے مسلمانوں پر ایک دن میں پچاس نمازیں فرض کیں. اللہ کے رسول واہس آ رہے تھے کہ راستے میں موسےا علیہ السلام نے پوچھا : کیا ہؤا “. اللہ کے رسول نے جواب دیا ” میری امُت پر ایک دن میں پچاس نمازیں فرض کی گیُ ہیں “. موسےا علیہ السلام نے نے کہا ” ایک دن میں پچاس نمازیں پڑھنا آپ کی امت کے بہت مشکل ہو گا. آپ واپس جا کر اللہ تعالےا سے نمازیں کم کرنے کی التجا کریں “. رسول کریم نے واپس جا کر اللہ
    تعالےا سے نمازیں کم کرنے کی استدعا کی. اللہ تعالےا نے نمازوں کی تعداد پچاس سے کم کر کے پانچ کر دی. اور ساتھ ہی سال میں ایک ماہ کے روزے رکھنے کا حکم دیا،.
    یہ کہاوت ایسے موقعوں پر کہی جاتی ہے جب کسی سے کویُ بوجھ کم کرنے کا کہا جاےُ تو وہ باجھ تو کم کر دے لیکن ساتھ ہی کویُ دوسرا کام بتا دے.

    نمبر 11 – نہ تانی نہ پیٹا جولاہے نال ڈانگو ڈانگی
    کپڑا بننے کے لیےُ جولاہے کو تانا بانا تو دیا نہیں، اور جولاہے سے لڑنا شروع کر دیا کہ تم نے کپڑا بُن کر نہیں دیا. دیہات میں دیسی کھڈّی پر ہاتھ سے کپڑا بننے والے کو ” جولاہا ” کہتے ہیں. ضلع سرگودھا میں انہیں ” پولی ” کہتے ہیں.
    تانی اور پیٹا کی تشریح کے لیےُ دیکھیےُ ” پنجابی اکھان ، ردیف “ت” نمبر 4.

    نمبر 12 – نہ پوہ پالا نہ مانہہ پالا وا وگُی تے پالا
    سردی نہ پوہ کے مہینہ میں لگتی ہے نہ ماگھ کے مہینہ میں. سردی جبھی محسوس ہوتی ہے جب ان مہینوں میں ہوا چلتی ہے.
    پوہ اور ماکھ بکرمی سال کے مہینوں کے نام ہیں جو عیسوی سال کے دسمبر اور جنوری کے مہینوں میں آتے ہیں.

    نمبر 13 – نہاتی دھوتی رہ گیُ منہ تے مکھّی بہ گیُ
    اچھی طرح نہایُ، اچھے کپڑے پہنے، اچھا میک اپ کیا لیکن ہر چیز کا ستیاناس ہو گیا جب منہ پر ایک مکھی بیٹھ گیُ
    کسی کام کی خوب تیاری کی جاےُ لیکن اس کام میں کسی وجہ سے اڑچن پڑ جاےُ تو ایسے موقعون پر یہ کہاوت کہی جاتی ہے.

    نمبر 14 – نہ چھیڑ ملنگاں نوں نہیں تے پیسن ٹنگاں نوں
    ملنگوں کے ساتھ کویُ چھیڑ چھاڑ نہ کرنا ، وہ عموماّ سب سے پہلے ٹانگوں پر ہی حملہ کرتے ہیں.
    ضروری نہیں کہ یہ مشورہ صرف ملنگوں کو ہی نہ چھیڑنے کے لیےُ دیا جاےُ. بلکہ کسی دوسرے طاقتور فریق سے کسی چھیڑ چھاڑ نہ کرنے کے لیےُ بھی یہ مشورہ دیا جا سکتا ہے.

    نمبر 15 – نیّت کھوتی رزق نہ روٹی
    رزق ملنے کا انحصار آدمی کی نیت پر ہوتا ہے. نیت صاف تو رزق بھی فراخ، نیت کھوٹی ہو تو دال روٹی بھی مشکل سے ملتی ہے.

    نمبر 16 – نوکری کی تے نخرہ کی
    کسی کی نوکری کرنا غلامی کی ہی ایک شکل ہے. غلامی میں نخرے تو چلیں گے نہیں. مالک جو کہے گا وہی کرنا پڑے گا.

    جاری ہے.

  • پنجابی اکھان – ردیف “م ” نمبر 6 2 – 11

    پنجابی آکھان ، ردیف ” م “

    نمبر 26 – 11

    بعض عادات ایسی ہیں جو انسان کو پستیوں کی طرف دھکیل دیتی ہیں. کسی سے مانگنا اُن عادات میں سے ایک ہے. ردیف م کا گیارھواں اکھان اسی طرف اشارہ کر رہا ہے. کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے انسان کی عزّت نفس مر جاتی ہے. آجکل تو مانگنے والے اتنے زیادہ ہو گیےُ ہیں کہ خیال آتا ہے کیا ہم سب بھکاری ہیں!.
    پنجابی اکھان ردیف م نمبر 10-1    کو پڑھنے کے لیےُ اس لنک پر کلک کریں؛

    ردیف م کے پنجابی اکھان نمبر 26-11 پڑھیےُ؛

    نمبر 11 – منگن گیا سو مر گیا منگن مول نہ جا
    مانگنے والا ایسا ہے جیسے وہ مر گیا. عزّت سے جینا چاہتے ہو تو کسی سے کچھ نہ مانگو.

    نمبر 12 – منگ کے گہنا پایا ادھا روپ گنوایا
    مانگے تانگے کا زیور پہننا گویا اپنا آدھا حسن گنوانا ہے.

    نمبر 13 – مایا تیرے تین نام پربھو ، پربھا ، پربھ رام
    اے دولت، تمہارے تین نام ہیں، پہلے پربھو، پھر پربھا، اور پھر پربھ رام.
    ایک گاؤں میں ایک بہت ہی غریب ہندو رہتا تھا. جس کا نام ماں باپ نے تو پربھ رام رکھا تھا، لیکن سب ہی اسے ” پربھو ” کہ کر پکارتے تھے . اس کی ایک طھوٹی سی دکان تھی . آہستہ آہستہ اس کی مالی حالت قدرے بہتر ہویُ تو لوگ اسے پربھو کی بجاےُ پربھا کہ کر پکارنے لگے. اور جب مالی حالت بہت بہتر ہو گیُ تو لوگ اس کی عزت کرنے لگے اور اسے ” پربھ رام ” کہ کر پکارنے لگے. گویا دولت ہو تو سب لوگ عزت کرتے ہیں.

    نمبر 14 – مول نالوں ویاج چنگی
    اصل زر سے زیادہ اس پر ملنے والا سود زیادہ اچھا لگتا ہے.
    سود خور اصل زر کی بجاےُ اس پر سود وصول کرنے کو ترجیح دیتے ہئں. وہ کبھی اصل زر لوٹانے کا تقاضا نہیں کریں گے. بلکہ اس کا سود ضرور وصول کریں گے.
    پنجابی زبان میں ” مول ” کے معنی ہیں ” اصل زر ” اور ” ویاج ” کے معن سود کے ہیں. نعض لوگ ویاج کی جگہ بیاج بھی بولتے ہیں.

    نمبر 15 – مجھیّں مجھیّں دیاں بھیناں ہوندیاں نے
    ایک بھینس دوسری بھینس کی بہن ہی لگتی ہے.
    یاد رہے کہ کہ بھینسیں ایک دوسرے کے ساتھ ( سگی بہبوں کی طرح ) کبھی نہیں لڑتیں.

    نمبر 16 – میں آیُ تے تہاڈی گن ونجایُ
    میں نے آ کر تمہارے گھر کی بد بو ختم کر دی.
    موچی کی بیٹی دوسرے موچی کے گھر دلہن بن کر آیُ، اس کے سسرال والے اپنے گھر میں ہی جوتے سیتے اور مرمت کرتے تھے. موچی کے جسم اور کپڑوں سے چمڑے کی بو آتی رہتی ہے. اس دلہن کو بھی یہ بو محسوس ہوتی تھی. اور وہ کہتی کہ تمہارے گھر اور کپڑوں سے چمڑے کی بد بو آتی ہے. آہستہ آہستہ وہ اس بو کی عادی ہو گیُ، اور اسے چمڑے کی بو محسوس نہ ہونے لگی. اس وقت وہ کہنے لگی کہ میرے آنے سے پہلے تمہارے گھر سے بدبو آتی تھی، میں تمہارے گھر آیُ اور بدبو کو ختم کیا.

    نمبر 17 – مُلاں دی دوڑ مسیت تک
    مولوی کا کسی پر زور تو چلتا نہیں ، کسی پر ناراض ہوگا تو مسجد میں ہی اس کی برایُ کا ڈھنڈورہ پیٹے گا. کسی کو ڈنڈا سوٹا تو مارنے سے رہا.

    نمبر 18 – ماسی نالے چونڈھیاں
    ایک طرف تو تم مجھے عزت دیتے ہوےُ خالہ کہ پکارتے ہو، دوسری طرف کسی برے خیال کے تحت مجھے چٹکیان بھی بھرتے ہو.

    نمبر 19 – منہ جٹّن تے کوڑ نکھٹن
    اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کے متعلق کہی جانے والی بات جھوٹی ہے تو اس کا بہترین حل یہ ہے وہ بات کہنے والے کو بلا کر اس سے بات کر کے جاےُ اور سچ جھوٹ کا فیصلہ کر لیا جاےُ.

    نمبر 20 – منگل بدھ نہ جاییُں پہاڑ جتّی بازی آویں ہار
    منگل اور بدھ کے دن کسی کام کے لیےُ پہاڑوں کی طرف نہ جاؤ، جیتی ہویُ بازی ہار جاؤ گے.
    یہ کہاوت بھی کسی مشاہدے پر ہی کہی گیُ ہوگی.

    نمبر 21 – مونہوں نکلی کوٹھے چڑھی
    راز کی بات منہ سے نکلنے کی دیر ہے ، وہ سب کو معلوم ہو جاتی ہے.
    راز اس وقت تک راز رہتا ہے ، جب تک زبان پر نہیں آتا. ایک دفعہ زبان پر آ گیا اور کسی دوسرے کو بتا دیا ، تو یہ سمجھیں جیسے آپ نے مکان کی چھت پر چڑھ کر بہ آواز بلند سب کو بتا دیا. اسی لیےُ کہتے ہیں کہ راز اس وقت تک راز ہے جب تک وہ سینے میں ہے.

    نمبر 22 – مجھ ویچ کے گھوڑی لیُ دودھوں گیا نالے لد سٹنی پیُ
    امارت جتانے کے لیےُ بھینس کو بیچ کر گھوڑی خرید لی. بھینس کا دودھ بھی پینے سے گیا، مزید گھوڑی کی لید بھی اکٹھی کر کے باہر پھینکنی پڑی.
    جھوٹی امارت کے لیےُ کویُ ایسا کام کیا جاےُ جس سے پہلے والی عزت بھی جاےُ اور مزید بدنامی کا باعث بھی بنے تو ایسے موقعوں پر یہ کہاوت خوب جچتی ہے.

    نمبر 23 – ماواں ٹھڈیاں چھاواں پیو ککراں دے کنڈے
    ماییُں تو اس گھنے درخت کی مانند ہوتی ہیں جو دھوپ سے بچنے کے لیےُ ٹھنڈی چھاؤں مہیا کرتا ہے. اور باپ ! وہ تو کیکر کے کنڈوں کی مانند ہوتا ہے.
    اس بات سے کسی کو انکار نہین کہ ماں ایک ٹھنڈی چھاؤں کی مانند ہے . جس کے تلے ہر انسان سکون محسوس کرتا ہے. اس کے برعکس باپ کیکر کے کانٹوں جیسا ہوتا ہے ، جو کیکر کی ٹہنیوں اور ہتؤں پر کسی حملہ سے بچاتا ہے . کویُ جاور کیکر کے پتّوں کو کھانا پاہے تو کیکر کے کانتے جانور کے منہ میں چبھیںً گے اور جانور پتّوں کو کھانے سے باز آ جاےُ گا.

    نمبر 24 – موتر وچّوں مچھلیان نہ پھڑ
    صاف پانی میں پلنے اور رہنے والی مچھلی ہی کھانے کے قابل ہوتی ہے. جو زایُقہ اور فوایُد میں لا جواب ہوتی ہے. آپ نے کسی مچھلی کو پہشاب کے پانی میں پلتے نہیں دیکھا ہوگا. دوسرے لفظوں میں مچھلی پیشاب کے پانی میں سے نہیں مل سکتی. اب اگر کایُ شخص پیشاب کے پانی سے مچھلی ڈھونڈے تو وہ ناکام ہی ہوگا.
    کسی بے فایُدہ کام میں ہاتھ ڈالنے والوں کو یہ کہاوت سنا کر نصیحت کی جاتی ہے

    نمبر 25 – مرداں باہجون ویہاں کون مکاےُ
    مردوں کے نغیر بیس کی گنتی پوری نہیں ہوتی. یا مرد کے بغیر کام مکمل نہیں ہوتا.
    ایک میاں بیوی میًں ہر روز جھگڑا ہوتا تھا. خاوند کبھی کویُ کام کرتا جو پیسے ملتے، اس سے دو چار دن دال روٹی کا بند و بست ہو جاتا. ان دنوں میں خاوند دوستوں کے ساتھ گپّیں ہانکتا رہتا. اس کی بیوی سلایُ کا کام کر کے کچھ پیسے بنا لیتی. ایک دن ان کا آپس میں زور کا جھگڑا ہؤا. دونوں نے فیصلہ کیا کہ خاوند کسی دوسری جگہ جا کر محنت مزدوری کرے، پیسے بچاےُ اور چھ ماہ کے بعد گھر آےُ اس دوران اس کی بیوی بھی سلایُ کڑھایُ کا کام کر کے کچھ پیسے بچاےُ گی. چھ ماہ بعد دیکھیں گے کہ کس نے زیادہ پیسے بچاےُ ہین.
    چھ ماہ کے بعد خاوند گھر واپس آیا. بیوی سے پوچھا ” تم نے کتنے پیسے بچاےُ ہیں :” بیوی کے سارے روپے سامنے رکھ دےُ. اور گن کر کہنے لگی ” یہ پورے 19 روپے ہیں. اب تم بتاؤ تم کتنے روپے .بچا کر لاےُ ہو” خاوند نے ایک روپیہ 19 روپوں میً ڈالتے ہوےُ کہا ، ” لو ، میں نے بیس کی گنتی پوری کر دی. دیکھا ! مرد ہی بیس کی گنتی پوری کرتا ہے “.
    میرے خیال میں یہ کہاوت مرد کو نکھتو ثابت کرتی ہے، لیکن اس کے ساتھ مردوں کی اس جبلت کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ ہر حال میں عورت سے بہتر ہیں.
    آپ اس بارے میں کیا کہیں گے ؟

    نمبر 26 – مٹھّا ہپ ہپ کوڑا تُھوہ تُھوہ
    میٹھا تو ہپ ہپ کر کے بڑی رغبت سے کھاتے ہو اور کڑوے کو تُھو تُھو کر کے پھینک دیتے ہو.

    جاری ہے

  • پنجابی اکھان، ردیف ” م ” نمبر 1 1 – 1

    پنجابی اکھان ، ردیف ” م ” نمبر 11-1

    پنجابی اکھان ردیف ل‌ نمبر 1 – 8  “کے بعد ردیف “م ” سے شروع ہونے والے پنجابی اکھان پیش کیےُ جا رہے ہیں.

    پنجابی اکھانوں میں بعض دتعہ ایسی مثالیں پیش کی گییُ ہیں جنہیں پڑھ کر بے اختیار مسکرانا پڑتا ہے. مثال کے طور پر ردیف م سے شروع ہونے والے پہلے پنجابی اکھاں کو پڑھیےُ. بے اختیار مُسکرا اُٹھے نا. یہ ہے پنجابی اکھانوں کا کمال.

    ردیف م کے پنجابی اکھان 11-1 تک حاضر خدمت ہیں؛

    نمبر 1 – ماں دیاں ٹنگاں نہیں دھی دا نام بھجنی
    ماں کی تو ٹانگیں کٹی ہویُ ہیں، اور بیٹی کہتی ہے میرا نام ” بھجنی ” یعنی دوڑنے والی ہے.
    جب کویُ شخص کسی ایسے بات کی شیخی بگھارے جو اس میں یا اس کے خاندان میں نہ ہو تو ایسے موقعون پر یہ کہاوت کہی جاتی ہے.

    نمبر 2 – ماں جوڑے پلی پلی دھی دا ناں تھدّی
    ًما ں تو ماشہ ماشہ کر کے گھی اکٹھّا کرتی تھی ، اس کی بیٹی اپنے آپ کو چکنی کہلاتی ہے.
    فارسی زبان کا محاورہ ” پدرم سلطان بود ” اس کہاوت کا صحیح مفہوم اسا کرتا ہے.

    نمبر 3 – ماں کججّی پتراں کجّی
    ماں پھوہڑ ہو تو اس کے بیٹے اس کے عیبوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں.
    پنجابی زبان کے بعض الفاظ کے شروع میں اگر لفظ ” ک ” لگا دیا جاےُ تو اس لفظ کے معنی الٹ ہو جاتے ہیں ، جیسے لفظ ” چج ” معنی سلیقہ، ہنر . چج سے پہلے “ک” لگا دیں تو بن جاتا ہے “کچج’ یعنی بد سلیقہ، بے ہنر.

    نمبر 4 – مامے کنّی دُر بھنییا آکڑیا
    لعل تو ماموں کے کان میں سجا ہے یعنی لال یا قیمتی موتی تو ماموں نے کان میں پہنا ہؤا ہے، لیکن اس لعل یا موتی کے تفاخر پر بھانجا اکڑ رہا ہے.
    جب کسی ایسی چیز پر فخر کیا جاےُ جو اپنی ملکیت نہ ہو ، تو ایسے موقعوں پر یہ کہاوت بہلی جاتی ہے.
    اس کہاوت سے ملتی جلتی پشتو زبان کی ایک کہاوت ہے ، جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے ” گنجی اپنی بہن کے بالوں پر اتراتی ہے “.

    نمبر 5 – ماں نہ سویُ ماسی سویُ
    جنم تو تمہاری ماں نے دیا ہے، لیکن تمہاری سگّی خالہ تمہیں اتنا ہی پیار کرتی ہے جتنا تمہاری سگّی ماں. یہ سمجھو گویا تمہیں تمہاری خالہ نے جنم دیا ہے.

    نمبر 6 – مجھ ملدی نہیں دھہلہ دھاراں منگدا اے.
    بھینس دودھ تو دیتی نہیں، اور دھہلہ دودھ مانگتا ہے.
    دودھ عمومآ کسی بالتی یا ڈول میں دوہا جاتا جاتا ہے. دودھ دھوہنے والے بعض اشخاص دودھ دوہنے کے درمیان یا دودھ دوہنے کے شروع میں دودھ کی کچھ دھاریں اپنے منہ میں ڈال لیتے ہیں . جس سے بھینس کے تھنوں سے نکلا ہؤا دودھ براہ راست آدمی کے معدے میں جاتا ہے. اسے پنجابی زبان میں ” دھاریں لینا ” کہتے ہیں. ایسا دودھ کافی طاقت دینے والا خیال کیا جاتا ہے.
    پہلے وقتوں میں لوگوں کے نام بڑے سادہ ہؤا کرتے تھے، جیسے دھہلا، مہلا، پلّہو، مانو وغیرہ.

    نمبر 7 – منگلی ہوندی تے ٹبّر کیوں انگھلاندا
    اگر میرے پاس ” منگلی” ہوتی، تو میرے بیوی ، بچّے کیوں اونگھ رہے ہوتے.منگلی مار کر جگاےُ رکھتا.
    ” منگلی ” کو آپ لکڑی کا بنا ہؤا ہتھوڑا کہ سکتے ہیں. لکڑی کا گول ٹکڑا جو آگے سے موٹا ہو اور پیچھے سے نسبتآ پتلا اور گول ہو، تا کہ ہاتھ میں پکڑا جا سکے، اسے ” منگلی ” کہتے ہیں. یہ عمومآ ڈیڑھ فٹ لمبی ہوتی ہے . دیہات والے جانوروں کو بابدھنے کے لیےُ کھونٹے کو زمین میں گاڑنے کے لیےُ اسے بطور ہتھوڑا کام میں لاتے ہیں.

    نمبر 8 – من وکے یا مانی کنک جوایُیاں کھانی
    گندم سستی ہو یا مہنگی، دامادوں کو تو گندم کی روٹی ہی کھلانی پڑتی ہے.
    پرانے وقتوں میں ایک روپیہ کی ایک من گندم مل جاتی تھی. لوگوں کے پاس پیسہ نہیں ہوتا تھا. گندم بھی اتنی ہی پیدا ہوتی تھی کہ سال مشکل سے گزرتا تھا . لوگ مکیُ، باجرہ کی روٹی کھا کر گزارہ کر لیتے تھے. ایسے میں اگر کسی کا داماد آ جاتا، تو جیسے بھی ہوتا، گندم چاہے کتنی مہنگی ہو، داماد کو تو گندم کی روٹی ہی کھلانی پڑتی تھی.

    نمبر 9 – منہ چوہی ڈھڈ کھویُ
    منہ تو دیکھو، سوکھا ہؤا، لگتا ہے کچھ کھاتا پیتا ہی نہیں، سوکھ کر کانٹا ہو گیا ہے. لیکن جب کھاتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے اس کا پیٹ کویُ کنواں ہے جس میں اس قدر اناج سما جاتا ہے .

    نمبر 10 – منہ نہ متھّا جن پہاڑوں لتھّا
    شکل و صورت تو خدا ہی بناتا ہے مگر بعض لوگوں کی شکل صورت ایسی ہوتی ہے کہ ..جسے دیکھ کر بچے ڈر جاییں، جیسے کویُ جن پہاڑ سے اتر کر آ گیا ہو.

    نمبر 11.
    مٹھّا میوہ دیوے بیری، فیر وی وٹّے کھاوے
    صبر بیری دا ویکھ محمد، نیکیاں کردی جاوے

    اردو ترجمہ:
    بیری کو دیکھو، میٹھے بیر دیتی ہے، حالانکہ لوگ بیر اُتارنے کے لیےُ بیری کو ڈھیلے مارتے ہیں.
    بیری کا صبر قابل دید ہے. وٹّے ڈھیلے کھانے کے باوجود میتھے بیر دیتی ہے.

    کسی بیری سے بیر آُتارنے کے لیےُ لوگ بیری کے پھل کو  روڑے وٹّے مارتے ہیں، بیری پھر بھی نیکی کرتے ہُوےُ میٹھا پھل دیتی ہے. .

    جاری جے.

  • پنجابی اکھان ، ردیف “ل” نمبر 8 – 1

    پنجابی اکھان – ردیف ” ل “

    نمبر 8 – 1

    پنجابی اکھان اپنے معنی اور مطالب میں سو فی صد درست ہوتے ہیں. ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے پنجابی اکھان کے مُوجد کو یہ اکھان القا کیےُ گیےُ ہوں. چند با معنی الفاظ جیسے موتیوں کی لڑی، اور نتیجہ خیز مفہُوم . نتیجہ کو جھُٹلانے کی کسی میں جُرآت نہیں. یہ ہے کمال پنجابی اکھانوں کا.

    پنجابی اکھان ردیف گ نمبر 21-11    کو پڑھنے کے لیےُ اس لنک پر کلک کریں.

    ردیف ل سے شروع ہونے والے پنجابی اکھان پڑھیےُ؛

    نمبر 1 – لُگّا لوک تے دھبّا مہر
    گاؤں میں کویُ چودھری نہیں،ایسے میں وہاں کا درزی ہی چودھراہٹ کر رہا ہے. وہ جیسے فیصلے کرے گا، وہ بھی ایسے ہی ہوں گے.

    نمبر 2 – لنڈے نوں وگّے دیان خواباں
    دم کٹے جانور کو یہی خوابیں آتی ہیں کہ وہ جانورون کے گلّے کے چر رہا ہے.
    جانوروں کے گلّے کو پنجابی زبان میں ” وگ ” کہتے ہیں.
    اردو زبان میں اس کا ہم معنی محاورہ کچھ یوں ہے ” بلّی کو خواب میں چھیچھڑے نظر آتے ہیں “.

    نمبر 3 – لگڑی مسیت تے گاہلڑ امام
    مسجد اجاڑ پڑی ہے، مسجد کے اندر چھوٹے جانور بھاگتے ہھرتے ہیں ، اور ان کی سردار گلہری ہے.
    گلہڑی کو پنجابی زبان میں ” گاہلڑ ” کہتے ہیں.

    نمبر 4 – لسّی تے لڑایُ ودھاندیاں کیہڑی دیر
    لسّی اور لڑایُ بڑھانے میں کیا دیر لگتی ہے.
    لسٰی کو زیادہ کرنا چاہیُں دو چار گلاس پانی اور ملا لیں. اسی طرح لڑایپ بڑھانے میں کچھدیر نہیں لگتی. مخالف کو گالی دے دیں، دو تھپڑ مار دیں ، لیجیےُ لڑایُ بڑھ گیُ.

    نمبر 5 – لتھّی چڑھی نہ جانے میرا مصری بے پرواہ
    میرا ” مصری ” بڑا ہی لا پرواھ ہے، یا بڑا دیٹھ ہے، عزت، بے عزتی کو نہیں سمجھتا، ہر بات اس کے سر سے گزر جاتی ہے.
    انگریزی زبان میں محبوب کت ” سویٹ ” sweet کہ کر بھی بلاتے ہیں. اسی سویٹ کا پنجابی زبان میں ہم معنی لفظ ” مصری ” یعنی میٹھا ہے. اس حوالے سے پنجابی اور انگریزی زبان ہم ہلہ ہیں.
    اردو زبان کا محاورہ ” چکنا گھڑا ” اس کہاوت کا مفہوم ادا کرتا ہے.

    نمبر 6 – لیاری گیُ دودھ چؤان بھندر گیُ ٹنگاں بھنان
    دودھیل گاےُ یا بھینس تو آیُ کہ اس کا دودھ دودھ لیا جاےُ، دودھ نہ دینے والی گاےُ یا بھینس سے کویُ پوچھے کہ وہ کس لیےُ آیُ ہے ؟. ٹانگیں تڑوانے کے لیےُ !.
    دودھ دینے والی گاےُ یا بھینس کو پنجابی زبان میں ” لیاری ” کہتے ہیں، اور جس گاےُ یا بھینس کا دودھ ختم یا سوکھ چکا ہو اسے پنجابی زبان میں ” پھرڑ ” کہتے ہیں.
    جب کویُ غیر متعلقہ شخص کسی کام میں بن بلاےُ شریک ہو جانے کی کوشش کرے تو ایسے موقعوں پر یہ کہاوت کہی جاتی ہے.

    نمبر 7 – لک بدھّا اروڑیاں منّا کوہ لاہور
    اروڑہ قوم کے لوگوں یا تاجروں نے لاہور جانے کا ارادہ کر لیا ہے، اب لاہور چاہے کتنا دور ہو، ان کے لیےُ یہ فاصلہ تیں چوتھایُ کوس کے برابر ہے.
    اروڑہ ہندؤؤں کی ایک زات ہے جو عمومآ تجارت پیشہ ہوتے ہیں اور ارادے کے بڑے پکے ہوتے ہیں، اسی لیےُ کہا جاتا ہے کہ اروڑوں کے ارادہ باندھنے کی دیر ہے ، ان کی منزل تیں چوتھایُ کوس رہ جاتی ہے. یہاں پر لاھہر محض مثالآ بیان کیا گیا ہے.
    کہا جاتا ہے کہ کسی کام کو کرنے کا ارادہ کر لیا جاےُ تو سمجھو آدھا کام مکمل ہو گیا.
    ” لک باندھنا ” کا مطلب ہے کسی کام کو کرنے کا پختہ ارادہ کر لینا یا تیاری کرنا.

    نمبر 8 – لوکاں نوں لوکاں دی کُکڑی نوں جونکان دی
    لوگ تو دوسرے لوگوں کا بھی خیال رکھتے ہیں، ان کے کام آتے ہیں، لیکن مرغی تو اپنا پیٹ بھرنے کے لیےُ جونکیں تلاش کرتی رہتی ہے، کسی دوسرے سے کویُ غرض نہیں ہوتی ، بس اپنا پیٹ بھرنا چاہیےُ.
    انسان اپنے فایُدے کے ساتھ دوسروں کا بھی خیال رکھتا ہے. حتے الوسع ان کے کام آتا ہے، اسی لیےُ انسان کو اشرف المخلوقات کہا گیا ہے. صرف اپنا پیٹ بھرنے والا انسان ( جایُز یا ناجایُز طریقے سے ) گویا جانور ہے جو صرف اپنا ہی پیٹ بھرتے ہیں

  • پنجابی اکھان – ردیف “گ” نمبر 21-11

    پنجابی اکھان ، ردیف ” گ ” نمبر 21 – 11

    بعض پنجابی اکھان ایسے ہیں کہ ان پر ” وحی ” کا گمان ہوتا ہے. پنجابی اکھان ردیف گ کے اکھان نمبر 11 کو پڑھیےُ. اس میں کہی گییُ بات الہامی معلوم ہوتی ہے. یہ بات کییُ دفعہ کے تجربے میں آ چُکی ہے کہ کسی دُور یا نزدیک کے سفر پر جاتے ہوےُ اگر گھر سے کھانا کھا کر نکلیں، تو جہاں آپ اپنی منزل پر پہنچیں گے، وہاں پر بھی آپ کو کھانا ضرور ملے گا. اس اکھان میں یہی بات کہی گییُ ہے.

    اگر پنجابی اکھان ردیف گ نمبر 10-1     نہ پڑھ سکے ہوں تو اس لنک پر کلک کریں.

    ردیف گ کے باقی ماندہ پنجابی اکھان پڑھیےُ؛

     

    نمبر 11 – گھروں جاییےُ کھا کے اگوں ملن پکا کے
    گھر سے کھانا کھا کر نکلو، تو جہاں جاؤ گے، وہ بھی بغیر پوچھے کھانا ضرور کھلایُیں گے. گھر سے بھوکے نکلے تو جہاں جاؤگے ، وھاں بھی بھوکے رہو گے.
    یہ کہاوت لمبے مشاہدہ کے بعد کہی گیُ ہے. آپ بھی کبھی اس پر عمل کر کے اس کی سچایُ کو پرکھیں.

    نمبر 12 – گھر ودھنی پھوٹاں بھیرہ دیاں
    تم رہنے والے تو موضع ” ودھنی ” کے ہو، جہاں کے سارے باسی غریب ہیں. شیخی اس طرح بھگار رہے ہو جیسے تم موضع ” بھیرہ ” کے امیر ہو.
    یاد رہے کہ موضع بھیرہ ظلع سرگہدھا کے لوگ کافی خوشحال ہوتے ہیں.

    نمبر 13 – گھی سنوارے سالنا وڈّی نونہہ دا ناں
    ھانڈی میں دیسی گھی زیادہ ڈالنے سے سالن مزیدار بن گیا. گھر والے کہنے لگے ” بڑی بہو نے سالن بڑا مزیدار بنایا ہے ” حالانکہ سارا کمال دیسی گھی کا ہے.
    خالص دیسی گھی صرف سالن کو ہی مزیدار نہیں بناتا ، اس کے ساتھ یہ جسم کو بھی طاقت دیتا ہے. بڑے بوڑھے اس کی طاقت بخش خاصیت کو ایسے ہی بیان نہیں کرتے.

    نمبر 14 – گجّر نالوں اجّڑ چنگا ، اجّڑ نالوں اجاڑ
    جتھے گجّر لبھّے اوتھے دیہو مار
    گجّر کی بہ نسبت اجڑا ہؤا ( غریب) شخص بہتر ہوتا ہے. یہ اور بھی بہتر ہے کہ گجّر کی دوستی کی بجاےُ آدمی کسی اجاڑ جگہ پہ رہ لے. گجّر جہاں بھی ملے اسے وہیں مار دو.
    گجّر یا گوجر عمومآ بھیسیں پال کر ان کا دودھ بیچتے ہیں. اور وہ بھینس کے تھنوں سے دودھ کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیتے ہیں. دودھ میں پانی ملا دیتے ہیں. اپنے فایُدے کے لیےُ دودھ کا آخری قطرہ تک نچوڑ لینا، دودھ میں ملاوٹ کر لینا ان کا روزمرہ کا معمول ہے. اور یہی چیزیں ان کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہیں. کییُ گوالے دودھ میں صاف پانی کی بجاےُ جوہڑ یا نہر کا پامی ملا لیتے ہیں، اس طرح دودھ گاڑھا ہو جاتا ہے. جو پینے والے کو نقصان پہنچاتا ہے. جس کی انہیں پرواہ نہیں ہوتی. غالبآ گجروں کی انہی عادات کے پیش نظر یہ کہاوت کہی گیُ ہے.

    نمبر 15 – گجر تے ڈوگر متر نہیں بھتیجا پتّر نہیں
    گجر اور ڈوگر ذات کے لوگ کسی کے دوست نہیں ہوتے، بالکل ایسے جیسے بھتیجا سگّا بیٹا نہیں ہو سکتا.
    ایک انگریز مصنف ” ڈینزل ایبستن ” Danzel Ibbetsen نے ایک کتاب مرتب کی جس کا نام ہے ” پنجاب کی ذاتیں ” Punjab Costs , جس کا اردو ترجمہ یاسر جواد نے کیا ہے. کتاب کے صفحہ نمبر 422 پر وہ گجروں کے متعلق لکھتا ہے ” پنجاب کی ساری تاریخ میں گجر شورش پسند رہے ہیں. وہ شہنشہان دہلی کے پہلو میں ایک مستقل کانٹا تھے. علاقایُ محاورات میں ان کا کردار اعلے نظر نہیں آتا. کتّا، بلّی، راہنگڑ، اور گجر، یہ چار نہ ہوتے تو آپ دروازے کھلے چھوڑ کر سو سکتے تھے” وہ مزید لکھتا ہے کہ ؟ جب باقی سب ذاتیں مر جاییُں تب ہی گجروں کو دوست بناؤ”.
    فارسی زبان کے ایک محاورہ کا ترجمہ کچھ یوں ہے ” ڈوگر، بھٹّی، وٹّو اور کھرل باغیانہ طبیعت کے مالک اور قتل کر دیےُ جانے کے قابل ہیں “.
    ڈوگروں کے متعلق اسی کتاب کے صفحہ نمبر 407 پر سر ایچ لارنس کی رپورٹ میں درج ہے ” ڈوگر ذات کے لوگ دراز قد، خوبصورت، کسرتی اور تقریبآ بلا استثنا کافی بڑی طوطے جیسی ناک رکھتے ہیں. وہ خیالی پلاؤ پکانے والے اور متشدد ہیں . گجروں کی طرح وہ بھی بڑے چور ہیں. گلہ بانی کو زراعت سے بہتر سمجھتے ہیں. مویشی چوری کرنا ان کا پسندیدہ ترین جرم ہے. تاہم ان میں کچھ باوقار لوگ بھی ہین “.
    نوٹ ؛ مندرجہ بالا رہورٹوں سے مرتب کا متفق ہونا ضروری نہیں.
    مندرجہ بالا کہاوت بہت پرانی ہے ، اور اب زمانہ کافی بدل گیا ہے.

    نمبر 16 – گھوڑی چڑھیا تے نہیں گھوڑی چرھدیاں تے ویکھیا اے
    میں خود سہرا باندھ کر گھوڑی پر نہیں بیٹھا تو کیا ہؤا، ایسے کیُ آدمیوں کو دیکھا تو ہے.
    پہلے وقتوں میں شادی کے موقع پر دولہا سہرا باندھ کر گھوڑے پر بیٹھ کر دلہن کے ہاں جاتا تھا. اس طرح گھوڑی چڑھنے سے مراد شادی ہوتی تھی. آج کل گھوڑی کی جگہ کار نے لے لی ہے.
    جب کسی شخص کو ایسا کام کرنے کو کہا جاےُ جو اس نے پہلے کبھی نہ کیا ہو اور اس سے پوچھا جاےُ کہ تم یہ کام کر سکتے ہو تو جواب میں وہ یہ کہاوت کہ سکتا ہے.

    نمبر 17 – گھوڑے دی پچھاڑی تے افسر دی اگاڑی سے بچو
    گھوڑے کے پیچھے سے ہو کر کبھی نہ گزرو، گھوڑا دولتّی مار دے گا. اسی طرح افسر کے سامنے آنے سے بچو، پتہ نہیں اس کا موڈ کیسا ہو. اور وہ یونہی جھاڑ پلا دے. ( ایسا اس صورت میں ہو سکتا ہے جب صاحب بیگم سے لڑ کر آیا ہو )

    نمبر 18 – گھوڑیاں تے منصفاں نک نانکیاں تے
    اچھے گھوڑے اور اطھے منصف کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ انہیں یہ صفات یقیناُ اپنے ننہال سے ملی ہیں.
    آپ نے بھی مشاہدہ کیا ہوگا ، جب بچہ لایُق ہو تو ماں فخر سے کہتی ہے ” اپنے ماموں پر گیا ہے “.

    نمبر 19 – گھر دا پیر ہولا ہوندا اے
    پیر کی اپنے گھر میں ایسی قدر و منزلت نہیں ہوتی جیسے گھر سے دور رہنے والے مرید کرتے ہیں.
    اردو زبان کا محاورہ ” گھر کی مرغی دال برابر ” اس کہاوت کا ہم معنی ہے.

    نمبر 20 – گدڑاں باہج جھاڑیاں وچ کویُ نہیں ہگدا
    یہ گیدڑوں کا ہی کام ہے جو جھاڑیوں میں پاخانہ کرتے رہتے ہیں، کویُ دوسرا جانور ایسا نہیں کرتا.
    یہ کہاوت ایسے موقعوں پر کہی جاتی ہے جب یہ بتانا مقسود ہو کہ یہ برا کام وہی خاص آدمی ہی کرتا ہے.

    نمبر 21 – گل اصل تے مکدی

    ہر شخص کی حرکتوں سے پتہ چل جاتا ہے کہ اس کا اصل نسب کیا ہے.
    دیہات میں ایک ذات کے لوگ رہتے ہیں جنہیں ” مصلّی ” کہتے ہیں. قیام پاکستان کے بعد یہ ” مسلم شیخ ” کہلانے لگے. ان کا رنگ عمومآ کالا ہوتا ہے. زمیندار انہیں اپنے کاموں کے لیےُ بلا لیتے ہیں. اور ربیع اور خریف کی فصلوں سے ان کا مقررہ حصہ مفت دیتے ہیں.
    اسی طرح کا ایک مصلّی کسی طرح پولیس میں تھانیدار بن گیا وہ جس گاؤں میں جاتا، وہاں کے مصلیوں کو اکٹھا کر کے انہیں کہتا کہ اس کے سامنے جھمّر (ایک رقص) ڈالیں. جھمعر دواصل “جھومر” کا پنجابی ایڈیشن ہے. وہ تھانیدار ایک گاؤں میں گیا اور مصلیوں کو جھمر ڈالنے کو کہا. ان مصلیوں میں ایک سیانا مصلّی بھی تھا. جھمعر کے گول دایُرے میں حرکت کرتا ہؤا جب وہ تھانیدار کے سامنے آتا تو کہتا ” گل اصل تے مکدی” .وہ شخص پہچان گیا تھا کہ تھانیدار ذات کا مصلّی ہے. خود تو جھمّر میں شامل نہیں ہو سکتا، دوسروں کا جھمّر دیکھ کر خوش ہوتا رہتا ہے.
    یہ سچ ہے کہ آدمی کی پہچان اس کی گفتگو اور حرکتوں سے ہو جاتی ہے

  • پنجابی آکھان ، ردیف “گ” نمبر 10 – 1

     پنجابی اکھان ، ردیف “گ” نمبر 10-1

    بعض پنجابی اکھان ایسے ہیں جو کسی انسانی گروہ ،قبیلہ وغیرہ کو یہ مشورہ دیتے نظر آتے ہیں کہ اپنے گروہ، قبیلہ کے ساتھ وابستہ رہو. اسی میں تمہاری زندگی ہے. ان سے علیحدہ ہو کر تم اپنی شخصیت کھو دو گے.آج کل یہ رُجحان عام ہے کہ عمومآ نچلی ذات کے لوگ اپنے آپ کو اونچی ذات کا فرد ظاہر کرنے لگ گیےُ ہیں. یہ رُجحان شہروں میں جا کر بسنے والوں میں زیادہ نظر آتا ہے. ردیف گ کا پہلا پنجابی اکھاں یہی نصیحت کر رہا ہے.
    پنجابی اکھان ردیف ک ، نمبر 41-36     پڑھنا چاہیں تو اس لنک پر کلک کریں.

    ردیف گ کے مزید پنجابی اکھان پڑھیےُ؛

     

    نمبر 1 – گاں گیُ گایُں نال توں دھناپے کایُں نال
    گاےُ تو اپنی ساتھی گایُیوں کے ساتھ گیُ، تم تو گاییوں میں شمار ھی نہ ہو، پھر کس کے ساتھ جاؤ گی ؟.
    چھوٹی عمر کی بھینس جسے گابھن ہونے میں ابھی کچھ عرصہ درکار ہو، اسے پنجابہ زبان میں “دھناپ” کہتے ہیں.
    اردو زبان کا محاورہ ” تین میں نہ تیرہ میں ” مندرجہ بالا کہاوت کے مفہوم کے قریب تر ہے.

    نمبر 2 – گل کریےُ گل نال مورکھ ماریےُ ول نال
    کویُ شخص جس لہجے یا مفہوم میں بات کرے اس کا جواب بھی اسی لہجے یا مفہوم میں دیا جانا چاہیےُ. کم عقل کو مارنا ہو یا اسے مات دینی ہو تو کسی ڈھنگ سے مارنا چاہیےُ.
    لفظ ” مورکھ” کے کیُ معنی ہو سکتے ہیں. کم عقل، ضدّی، کسی کی بات نہ ماننے والا، مغرور، عیب دار، اپنی طاقت پر گھمنڈی وغیرہ.

    نمبر 3 – گولی بن کے کمایےُ میاں بن کے کھایےُ
    سخت محنت کر کے کماؤ جیسے غلام سخت محنت کرتے ہیں، پھر اپنی اس کمایُ کے بل پر ٹھاٹھ سے زندگی گزارو.

    نمبر 4 – گنجی دھونا کی تے نچوڑنا کی
    گنجی عورت کے سر پر بال تو ہیں نہین، وہ کیا دھوےُ گی اور کیا نچوڑے گی.

    نمبر 5 – گنجے دے سر گکڑاں
    گنجے کے سر پر ایک تو بال نہیں ،دوسرے سر پر گٹھلیاں لگیں. دوہرا عذاب.
    پنجابی میں گٹھلیوں کو ” گکڑاں ” کہتے ہیں.
    اردو زبان کا محاورہ ” مرتے کو مارے شاہ مدار ” اس کہاوت کے معنوں کے قریب تر ہے.

    نمبر 6 – گونگے دیاں رمزاں گونگے دی ماں ہی جانے
    گونگا منہ سے تو کطھ بول نہیں سکتا، اپنا مدعا ہاتھ کے اشارے سے ہی سمجھاتا ہے. اور اس کے یہ اشارے اس کی ماں ہی بہتر طور پر سمجھ سکتی ہے.

    نمبر 7- گل ہویُ پرانی میں ہو گیُ بی بی رانی
    میرے متعلق باتیں پرانی ہو گییُں ( ظاہر ہے غلط قسم کی باتیں ہی ہوں گی ) وہ باتیں جاننے والے مر گھپ گےُ. اب مجھے ان باتون کا طعنہ دینے والا کویُ نہیں. اب تو مین بیگم صاحبہ ہوں.
    اس کہاوت کو یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے :
    یہ انقلابات ہیں زمانے کے
    کل کی رقاصہ آج میڈم ہو گیُ ہے

    نمبر 8 – گھر بھکھ ننگ بوہے تے ڈیوڈھی
    گھر میں کھانے کو کچھ ہے نہیں، گھر کے دروازے کے بعد ڈیوڈھی ضرور رکھنی ہے.
    گھر کے بیرونی دروازے کے بعد جو چھوتا سا کمرہ ہوتا ہے ، اسے ڈیوڈھی کہتے ہیں. اس کمرے کے داہییُ یا باییُں طرف 6 فت سے زیادہ کھلی جگہ رکھی جاتی ہے، اس کے آگے صحن ہوتا ہے.
    دروازے کے ساتھ ڈیوڈھی رکھنا امارت کی نشانی سمجھا جاتا ہے.

    نمبر 9 – گھر دے جمیاں دے دند کہ سال
    جو جانور اپنے ہی جانوروں میں پیدا ہؤا ہو اس کی عمر بتانے کے لیےُ اس کے دانتوں کو گننا یا دیکھنا ضروری نہیں، وہ تو ویسے ہی پتہ ہوتا ہے کہ اس جانور کی کتنی عمر ہے.
    پہلے سے نہ دیکھے ہوےُ جانور کی عمر کا اندازہ اس کے دانت گن کر لگایا جاتا ہے، اور یہ اندازہ عموماُ صحیح ہوتا ہے. کسی جانور کے دانت گن کر یہ کہا جاےُ کہ یہ ” دوندا ” ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کی عمر دو سال ہے، ” چوگا کا مطلب 4 سال “. اپنے جانوروں میں پیدا ہونے والے جانور کی عمر بتانے کے لیےُ اس کے دانت گننا یا دیکھنا ضروری نہیں، اس کی عمر کا تو ویسے ہی پتہ ہوتا ہے.

    نمبر 10 – گھروں رٹھّی گولی باہر بیر وی نہ کھاےُ
    گھر والوں سے روٹھنے والے عموماُ گھر سے کویُ چیز نہیں کھاتے. یہ روٹھنا اس قدر شدید ہو جاتا ہے کہ روٹھنے والا یا والی باہر کھیتوں میں اگی بیریوں کے بیر بھی نہیں کھاتا. حالانکہ گھر والوں کا ان بیریوں سے کویُ تعلق نہیں ہوتا، اور اس کے گھر والے اسے بیر کھاتے دیکھ بھی نہیں رہے ہوتے.

    جاری ہے.

  • پنجابی اکھان . ردیف ” ک ” نمبر 41 – 36

    پنجابی اکھان، ردیف ” ک ” نمبر 41 -36

    پنجابی اکھان انسانی زندگی کے تقریبآ تمام پہلیؤں کا احاطہ کرتے ہیں. جن میں عادات، رہایُش، جذبات، رویّیہ آپس کے اختلافات ، جنگ و جدل ، رہن سہن، امن اور جنگ غرض زندگی کے ہر پہلو پر راہنمایُ کرتے دکھایُ دیتے ہیں. کیوں نہ کریں پنجابی اکھان ہمارے بزرگوں کے تجربات اور مشاہدات کا نچوڑ ہیں.اور ہمیں ان پر فخر کرنا چاہیےُ.

    ردیف ک کے مزید پبجابی اکھان پڑھیےُ؛

    ردیف ” ک “

    نمبر 36 – کمہار نوں لعل ملیا اس کھوتے گل پا دتّا
    کمہار کو راستے میں پڑا ہیرا ملا، اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا چیز ہے. چنانچہ اس نے ہیرے کو اپنے گدھے کے گلے میں باندھ دیا.
    جب کویُ قیمتی چیز کسی ایسے آدمی کے ہاتھ لگےجو اس کی قدر و قیمت نہ جانتا ہو، اور وہ اسے اس طرح استعمال کرے کہ اس قیمتی چیز کی مٹی پلید ہو جاےُ تو ایسے موقعوں پر یہ کہاوت بولی جاتی ہے.مزید تشریح کے لیےُ یوں سمجھیےُ جیسے کسی متمول دیہاتی نے قیمتی کار خریدی، اب وہ اس میں اپنے جانوروں کا چارہ ڈھو رہا ہو.

    نمبر 37 – کھاواں تے ہوواں کوہڑا چھڈّاں تے لگے لیک
    اسے کھاؤن تو مجھے کوہڑ کا مرض لاحق ہو جاےُ گا، نہ کھاؤں تو سب کی آنکھوں میں نکّو بن جاؤں گا.
    ایک سانپ نے ایک چھپکلی کو پکڑ لیا، منہ میں دبایا تو اسے محسوس ہؤا کہ یہ تو نہایت زہریلی ہے. اب اگر وہ اسے کھاتا ہے تو خدشہ ہے کہ وہ چھپکلی کے زہر سے یا تو مر جاےُ گا یا پھر زندگی بھر کے لیےُ معذور ہو جاےُ گا. اگر اسے منہ سے باہر پھیک دے تو سب کہیں گے کہ اتنا زہریلا ہوتے ہوےُ چھپکلی سے ڈر گیا.
    فارسی زبان کا محاورہ ” نہ جاےُ ماندن، نہ جاےُ رفتن ” اس کہاوت کا ہم مہنی ہے.

    نمبر 38 – کھوہ دی متی کھوہ نوں لگ گیُ
    کنواں لگانے کے لیےُ جو مٹی کھودی تھی، وہی مٹی کنویں کی دیواریں بنانے میں کام آ گیُ.

    نمبر 39 – کسّو آلے نوں لیف سکھاندا اے
    بخار میں مبتلا آدمی کو یہ پسند ہوتا ہے کہ وہ لحاف اوڑھ لے.
    پنجابی زبان میں بخار کو ” کس” اور لحاف لو ” لیف ” کہتے پیں.

    نمبر 40 – کھیت اجاڑن باہرلے ڈانگاں کھان بکریاں
    کھیت تو سور اجاڑ گیےُ، کسان سمجھا کہ کھیت بکریوں نے اجاڑا ہے. چنانچہ اس نے بکریوں کو مارنا شروع کر دیا.
    کسی شخص کو اس کے کسی ناکردہ گناہ کی سزا دی جاےُ تو ایسے موقعوں کے لیےُ یہ کہاوت بولی جاتی ہے.
    سور ایک نہایت غلیظ اور بے غیرت جانور ہے. اسلام میں اس کا گوشت کھانے کو حرام قرار دیا ہے. پاکستان کے دیہاتی لوگ اس کا نام لینا بھی گناہ سمجھتے ہیں اور اسے ” باہرلے ” کہ کر پکارتے ہیں، یعنی وہ جانور جو گاؤں کی حدود سے باہر رہتے ہیں. ان کا ٹھکانا عمومآ جنگلوں میں ہوتا ہے اور یہ رات کو نزدیکی فصلوں کو اجاڑ دیتے ہیں
    اردو زبان کا محاورہ ” طویلے کی بلا بندر کے سر ” اس کہاوت کا مفہوم ادا کرتا ہے.

    نمبر 41 – کھوتی تھانے تون ہو آوے تے دوجیاں کھوتیاں نال نہیں چُگدی
    اگر کسی گدھا یا گدھی کو ایک دفعہ کسی تھانے میں جانے کا موقع ملے تو اس کے بعد وہ دوسرے گدھوں کے ساتھ چرنا اپنی توہیں سمجھتا یا سمجھتی ہے. وہ یہ سمجھتا یا سمجھتی ہے کو میں نے وہ کارنامہ سرانجام دیا ہے جو دوسروں نے ابھی تک نہیں کیا.
    تھانے سے ہو آنا کویُ اتنا بڑا کارنامہ نہیں کہ اس پر فخر کیا جاےُ. اور اگر کوُٰ فخر کرے تو اسے کہتے ہیں . ” یہ تو گدھا ہے ” .

    پنجابی اکھان ردیف ک، نمبر 35-26      پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں.

    جاری ہے