Mirza Sahiban, story of unsuccessful affection

مرزا صاحباں – قصہ ناکام محبت کا- قسط نمبر 4 ، Story of unsuccessful affection,

مرزا صاحباں – قصہ ناکام محبت کا
Story of unsuccessful affection
قسط نمبر 4

مرزا صاحباں، قصہ ناکام محبت کا، قسط نمبر 3 میں ہم وہاں تک پہنچے تھے جہاں مرزا اور صاحباں ساری رات گھوڑی پر سفر کرتے کے بعد سورج نکلنے کے بعد جنڈ کے ایک درخت کی چھاؤں تلے آرام کرنے کو ٹھہر گیےُ تھے. صاحباں یہاں ٹھہرنے کے حق میں نہ تھی ، مگر مرزا کو اپنے آپ پر کچھ زیادہ ہی بھروسہ تھا کہ وہ اکیلا ہی بہت سارے حملہ آوروں کا مقابلہ کر سکتا ہے. وہ صاحباں کے آرام نہ کرنے کے اصرار کے باوجُدود سو گیا. یہاں سے ہم کہانی کو آگے بڑہاتے ہیں.

عنوانات :

نمبر 1 = صُوبہ کی دُہایُ
نمبر 2 = کھیوے خاں کی چڑھایُ
نمبر 3 = مرزا کا جواب
نمبر 4 = صاحباں کی کشمکش
نمبر 5 = لڑایُ شروع
نمبر 6 = شمیر کی احتیاط اور نیلی کا بھاگ جانا
نمبر 7 = نیلی کی دانا آباد آمد
نمبر 8 = راےُ رحمُوں کا انکار
نمبر 9 = راےُ رحمُوں کی غیرت جاگ اُٹھی

اُدھر مہر فیروز کے بھایُ ” صُوبہ ” کا گزر مہر فیروز کے پاس سے ہوتا ہے، مہر فیروز اُسے بتاتا ہے کہ مرزا صاحباں کو لے گیا ہے. اور لڑایُ میں مجھے زخمی کر گیا ہے. صُوبہ اُسی وقت گھر جا کر سب کہ خبر دیتا ہے :

دھمّی صُوبہ کُوکیا یارو، دھیاں چھڈّو مار
سر تے پہن لوہ ٹوپیاں، لاہ چھڈّو دستار
مرزا صاحباں لے گیا، نیلی دا اسوار
بار ملّو پیادیو، نکّہ ملّو اسوار

اردو ترجمہ :

سحری کے وقت صُوبہ نے سب سے کہا کہ اپنی اپنی بیٹیوں کو قتل کر دوتاکہ تُم ہماری طرح بے عزتی سے بچ جاؤ.
بہتر ہے تم اپنی چودھراہٹ کی پگڑی اُتار کر ٹوپیاں پہن لو ( اُس زمانے میں شاید لوگ اپنے نوکروں کو ٹوپیاں پہناتے تھے ).
گھوڑی پر سوار مرزا صاحباں کو لے گیا ہے.
حکم دیا کہ پیادہ فوج بار کی طرف جاےُ اور گھوڑوں پر سوار دستے نکّا کی طرف جاییُں اور مرزا کو چاروں طرف سے گھیرا جاےُ .

وضاحت ‘ جو لڑکیاں والدین کی عزّت کی پرواہ نہ کرتے ہُوےُ کسی کے ساتھ بھاگ جاتی ہیں، ان کے والدین اور رشتہ داروں کی جتنی بے عزتی ہوتی ہے ، اس وقت انہیں جو خیال آتا ہے اُسے ” دھیاں چھڈّو مار ” ( اپنی بیٹیاں قتل کر دو ) کے تین الفاظ بہت خُوبی سے ادا کرتے ہیں. ان تین الفاظ میں ایسے والدین کا کرب صاف عیاں ہے.

کھیوے خاں کی چڑھایُ

کھیوے خاں کے لڑکے شمیر اور سمیر اپنی اپنی فوجوں کے ساتھ بڑھے. شمیر نے اپنے شکاری کُتّے بھی ساتھ لے لیےُ. اُدھر مرزا آرام سے سویا ہُوا تھا. اُس سے تھوڑی دُور قال ( تقدیر ) اور نارد ( تدبیر ) آپس میں جھگڑ رہے تھے.

قال تے نارد جھگڑ دے، دوویں گھُورم گھُور
قال پیُ آہندی ناردا، کیوں جانا ایں دُورو دُور
اساں سر پر مرزا مارنا ، اساں پینی رت ضرُور

اردو ترجمہ ؛

تقدیر اور تدبیر آپس میں گھُورتے ہُوےُ جھگڑنے لگے.
تقدیر نے کہا تم دُور کیوں جاتے ہو، ہمارا شکار ہمارے سامنے ہے .
ہم نے مرزا کو مار کر اس کا خُون لازمی پینا ہے.

قال اور نارد آپس میں جھگڑنے لگے :نارد (تدبیر) نے قال ( تقدیر ) سے کہا :

راضی ہو جا رضا تےبھیڑییےُ، ایہو چنگی جا
ویکھ جٹ کیڈیاں چاواں وچ، ایہدی رکھّے شرم خُدا
قا ل آکھیا ناردا، میرے پبّاں تے پب ٹکا
.طُوبےآ  اک رُکھ ای عرش تے، اُس تے ہر بندے دا ناں
جس پتّے تے ناں اس کھرل دا، اوہ پتّہ گیا کُڑما
اساں سر پر مرزا مارنا، ساڈی رکھّے شرم خُدا

تشریح : پاآوں کے اگلے حصّے یعنی انگلیوں اور انگُوٹھے کے مجمُوعے کو پنجابی زبان میں ‘ پب ” کہتے ہیں.
پنجابی زبان کے لفظ ” سرپر ” کا مطلب ہے انتاہی ضرُوری.

اردو ترجمہ:

تدبیر نے تقدیر سے کہا کہ تم اللہ کی رضا پر راضی ہو جاؤ.
ذرا دیکھو ، یہ جٹ اس وقت کتنا خوش ہے، اللہ اسے اسی طرح خُوش رکھے . تقدیر نے کہا تُم ذرا میرے پاؤں پر اپنا پاؤں رکھ کر اوپر کی طرف دیکھو.
عرش پر ظُوبےآ نامی ایک درخت ہے، جس کے ہر ایک پتّے پر دُنیا میں پیدا ہونے والے ہر شخص کا نام لکھّا ہوتا ہے.
جس پتہ پر اس کھرل کا نام درج ہے، وُہ پتّہ کملا چکا ہے.
اب اسے موت سے کویُ نہیں بچا سکتا. اس کی زندگی ختم ہو چکی ہے.

شمیر کی فوج نزدیک آ گییُ. کچھ فاصلے پرشمیر کے شکاری کُتؤں نے ایک جوہڑ سے پانی پیا. اور اپنے کان کھڑے کر لیےُ. یہ اس بات کی نشانی تھی کہ انہوں نے کسی آدمی کی بُو پا لی پے. صاحباں نے دُور سے آتے ہُوےُ آدمیوں کو دیکھ لیا اور مرزا کو جگایا :

کُتّے خان شمیر دے، چھپڑی آن وڑے
اُنہاں پانی پیتا رج کے ، کیتے کن کھلے
یا ڈھڈاؤ آپ دے، یا کویُ میر شکار چڑھے

اردو ترجمہ:

خان شمیر کے کُتّے جوہڑ میں داخل ہو گیےُ.
انہون نے جی بھر کر پانی پیا. تازہ دم ہوکر اپنے کان کھڑے کر لیےُ، جیسے شکار کی بُو سُونگھ لی ہو.
صاحباں کہنے لگی کہ یا تو یہ لوگ ہمیں ڈھُونڈتے ہُوےُ آےُ ہیں ، یا کویُ امیر شکار کھیلنے نکلا ہے.

مرزا کا جواب

صاحبان کو تسلّی دیتے ہُوے مرزا نے کہا :

جنڈ جنڈورا بار دا صاحباں، کیوں ہویُ ایں دلگیر
میں جُوہ پچھاتی اپنی، میری دانا آباد جاگیر
جس دن دا پگڑا بنھیا، میرا کنبیا نہیں سریر
میرے ہتھ وچ کانی سار دی، جیہڑی جاوے چیر سریر
میں رکھّان حُب چروکنی، تیرے ویکھاں ویر شمیر

اردو ترجمہ :

صاحباں ! تُم فکر کیوں کرتی ہو، مجھے آرام سے سونے دو.
میں اپنی دانا آباد جاگیر کی سمت کو اچھّی طرح جانتا ہُوں ، اور ہم وہاں ضرور پہنچیں گے.
میں نے جب سے اپنے سر پر پگڑی باندھی ہے نہ کبھی کسی سے خوف کھایا ہے اور نہ ہی میرا دل ڈولا ہے.
ًیرے پاس ایسے تیر ہیں جو دُشمن کے جگر کے پار ہو جاتے ہیں.
مُدّت سے میری یہ خواہش ہے کہ میں تمہارے بھایُ شمیر وغیرہ سے دو دو ہاتھ کر کے دیکھوں کہ وُہ کتنے بہادر ہیں.

صاحباں کی کشمکش :

مرزا صاحباں کو تسلّی دے کر پھر سو گیا. شمیر کے آدمی مرزا کو ڈھُونڈتے ڈھُونڈتےنزدیک آ نے لگے. صاحباں کے لیےُ یہ وقت بڑا کڑا تھا. وہ دیکھ چُکی تھی کہ مرزا کا نشانہ کتنا سچّا ہے. اگر وہ مرزا کو سوتے سے اُٹھا دے تو وہ ان سب کو چُن چُن کر کر تیروں سے چھلنی کر دے گا. مگر وُہ کسے مارے گا ؟ میرے بھایُیوں کو ! اسے یہ خیال بار بار آیا “کیا میں اپنے بھاییُوں کو مرتا دیکھ سکُوں گی ؟ ” ایک طرف مرزا کا پیار، دُوسری طرف اس کے ماں جاےُ بھایُ. وہ سوچتی رہی ” میں مرزا کی محبُت ہُوں یا خان کھیوے کی بیٹی ؟ “. آخر خان کھیوے کی جیت ہُویُ. صاحباں نے مرزے کے ترکش سے تیر نکال کر توڑنے شروع کر دیےُ. مرزا کے مرنے کے خیال سے اس کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے. گرم گرم آنسو مرزا کے چہرے پر پڑے تو وہ اُٹھ بیٹھا. پوچھا ” کیا بات ہے ؟ ” صاحباں نے اپنے بھاییُوں کی طرف اشارہ کیا جو نزدیک آ چُکے تھے. مرزا نے جلدی سے اپنی کمان سُنبھالی اور ترکش سے تیر نکالے. ترکش میں صرف تین تیر صحیح سلامت تھے. باقی سارے تیر انیوں سے ٹُوٹے ہُوےُ تھے. مرزا سمجھ گیا کہ یہ کارستانی صاحباں کی ہے. وہ اپنے بھاییُوں کو مرتا ہُؤا نہیں دیکھ سکتی ، اس لیےُ اُس نے مرزا کے تیر بیکار کر دیےُ.

بعض محققین کہتے ہیں کہ صاحباں نے مرزا کا تُرکش درخت کی کسی اونچی شاخ کے ساتھ لٹکا دیا تھا ، تاکہ ترکش اور تیر مرزا کی دسترط سے دُور رہیں.

لڑایُ شروع :

مرزا بہادر اور دلیر جوان تھا. یُوں ماراجانا اُسے گوارہ نہ تھا. وہ ان تیروں سے کم ازکم تین آدمیوں کو تو مار سکتا تھا. اُس نے پہلا تیر نکالا ؛

بھال کے بھیتوں کڈھیا، مرزے وڈّا تیر سنجھان
اُس پڑھ بسم اللہ ماریا، اوہ اُڈیا وانگ طُوفان
اُس دونویں ہنیوں لاہ لے، صاحباں دے ویر جوان
ڈگدے بھایُاں نوں ویکھ کے، اوہدی کربل آ گیُ جان
آہندی ہور نہ ماریں مرزیا، تیری اکّو سٹ پردھان

اردو ترجمہ :

مرزا نے ترکش سے دیکھ بھال کر ایک لمبا تیر نکالا .
اُس نے اللہ کا نام لے کر تیر کا نشانہ لے کر چھوڑا جو طوفان کی طرح اپنے نشانے کی طرف بڑھا.
تیر نے صاحباں کے دونوں بھاییُوں کوگھایُل کر دیا ، دونوں گھوڑوں سے نیچے گر پڑے.
اپنے بھاییُوں کو گھوڑوں سے گرتے دیکھ کر صاحباں گویا بے جان سی ہو گییُ .
کہنے لگی مرزا ! مزید تیر نہ مارنا، تمہارا ایک ہی حملہ بڑا زبر دست ہے

.صاحباں کے بھاییُوں کی فوجوں نے چاروں طرف سے گھیرا ڈال لیا. چاروں طرف سے تیروں کی بارش ہونے لگی. مرزا زخمی ہو کر گر پڑا. اس وقت اُسے اپنے بھایُ یاد آےُ :

میں باہج بھراواں ماریا، میری ننگی ہو گیُ کنڈ

میرے سر توں پگڑا ڈھیہہ پیا، میری ننگی ہو گییُ جھنڈ

اج بھایُ ہوندے تے بوہڑدے، لیندے پیڑاں ونڈ:

اردو ترجمہ

آج میں اس حالت میں مر رہا ہُوں کہ میرے پااس میرے بھایُ نہیں، گویا میری پیٹھ کی

طرف کویُ محافظ نہیں.
میرے سر سے میری پگڑی گر پڑی، اور میرے بال نظر آنے لگے.
اگر اس وقت میرے بھایُ میرے پاس ہوتے تو میرا دُکھ درد بانٹ لیتے.

مرزا نے مرتے وقت جو بات کہی وہ یہ تھی :

گلّی ککھّیں نہ ساڑیو، میں مرزا مسلمان
حُوراں بنھ لے سندلے، پریاں دیہن مُکان

اردو ترجمہ:

ہندوؤں کی طرح میری لاش کو گیلی لکڑیوں میں رکھ کر نہ جلانا، میں مسلمان ہُوں ، مجھے دفن کرنا.
مرزا کی لاش پر حُوریں ماتم کرنے ، اور پریاں افسوس کرنے آییُں،

تشریح : آج سے ساٹھ ستّر سال پہلے دیہات میں کسی جوان موت پر عورتیں اپنے دوپٹّے اپنی کمر کے گرد باندھ کر ماتم کرتی تھیں. دوپٹّوں کو اپنی کمر کے گرد باندھ لینے کو ” سندلے باندھنا ” کہتے ہیں. آج کل اس کا رواج نہیں ہے

مُکان کی تشریح کے لیےُ ” پنجابی اکھان، ردیف ک،نمبر 16-7 ” کا اکھان نمبر 11 پڑھیےُ.

شمیر کی احتیاط اور نیلی کا بھاگ جانا :

مرزا مارا گیا. مرزا کی گھوڑی شمیر اپنے ساتھ لے گیا ، اور اس پر کڑا پہرہ لگا دیا. اس کا خیال تھا کہ اگر مرزا کی گھوڑی ایک دفعہ ان کے ہاتھ سے نکل گییُ، تو وُہ سیدھی دانا آباد جاےُ گی. اور خالی گھوڑی دیکھ کر کھرل سمجھ جاییُں گے کہ مرزا قتل ہو چُکا ہے اور وُہ بدلہ لینے کے لیےُ ہم پرچڑھایُ کر دیں گے.
کچھ دنوں بعد شمیر نے اپنے نوکر سے کہا کہ گھوڑی کو پانی پلا لاؤ :

شمیر کی آہندا نفر نوں نیلی زین لیا
ایہدا کھیس تاہرُو تے گردنی، لیاویں خُوب ٹکا
ایہدے کُنڈے میل لگام دے ، کریں نہ جھٹ وساہ
جے گیُ ایہہ نیلی چھُٹ کے، لیاوسی کھرل چڑھا
موےُ مرزے دے ویر تے، چڑھ سی رحمُوں را
اوتھے لڑ لڑ مرسن سُورمے، پوسی تیغ دا گاہ
نیلی پانی پیتا رج کے، لیندی شُکر بجا
اوہ کھیڈے پیُ نال شوق دے، دتّی گرد دھُما
ہتھّوں نفر دے واگاں چھُت گییُاں، اوہ بھویُیں تے مارے چا
نیلی پڑھیا کلمہ شُکر دا، پیُ دانا آباد دے راہ

اردو ترجمہ :

شمیر نے نوکر سے کہا، نیلی کی زین لاؤ.
گھوڑی پر تاہرو ڈالو، اور لگام دینا نہ بھُولنا.
اس کی لگام کے کُنڈے بند کرنا نہ بھُولنا، ہاتھ سے لگام نہ چھوڑنا.
اگر یہ تم سے بھاگ گییُ تو تو سیدھی دانا آباد جاےُ گی اور کھرل ہم پر چڑھایُ کر دیں گے.
قتل کیےُ جانے والے مرزا کا بدلہ لینے کے لیےُ راےُ رحمُوں ہم پر چڑھ دوڑے گا
لڑایُ میں بڑے بڑے بہادر سُورما مارے جاییٰں گے، بڑی تیغ زنی ہو گی .
نوکر نیلی کو پانی پلانے لے گیا. نیلی نے جی بھر کر پانی پیا اور خدا کا شکر ادا کیا.
پانی پینے کے بعد نیلی بڑے شوق سے ناچنے کودنے لگی. گرد اُڑا دی.
نوکر کے ہاتھ سے نیلی کی لگام چھُوٹ گیُ، گھوڑی نے اُسے زمین پر پٹخ دیا.
گھوڑی نے آزاد ہونے پر شکر ادا کیا اور دانا آباد کی سمت دوڑ پڑی.

نیلی کی دانا آباد آمد :

مرزا کی گھوڑی ” نیلی ” جب دانا آباد کے قریب پہنچی تو تو سب سے پہلے اُسے مرزا کے باپ ” راےُ ونجل ” نے دیکھا . وہ سمجھ گیا کہ گھوڑی خالی آ رہی ہے ، مرزا مارا گیا ہے.

سکھنی نیلی ویکھ کے ، را دے سروں ڈھہہ پیُ پگ
میرے پچھلے پہر دیےُ ٹہنیےُ، اج وچّوں گیُ ایں بھج
کولوں شریک پیےُ مارن بولیاں، را ونجل لُٹیا اج

اردو ترجمہ

خالی گھوڑی دیکھ کر راےُ ونجل کے سر سے اس کی پگڑی گر گیُ.
کہنے لگا میری پچھلی عُمر میں پیدا ہونے والی ٹہنی ، آج درمیان سے ٹُوٹ گیُ ہے.
میرے شریک طعنے مار رہے ہیں کہ آج ونجل لُٹ گیا ہے.

مرزا کے بھایُ سردول خالی گھوڑی کے گلے لگ کر رونے لگا :

سکھنی نیلی ویکھ کے، لگّا گل سردُول
کتّھے مرزا ماریا ای، گھتیا ای قہر نزُول
ہُن لگ لگ بہن کچہریان، سانوں مرزے والا سُول

اردو ترجمہ

گھوڑی کو مرزا کے بغیر دیکھ کر سدُول اُس کے گلے لگ کر رونے لگا.
نیلی ! تم مرزا کو کہاں قتل کروا آیُیں ؟ .ہم پر بڑا ہی ظلم ڈھایا .
لوگ بیٹھ کر باتیں بنا رہے ہیں، اور ہم غم سے نڈھال ہیں.

مرزا کا دوسرا بھایُ ” سرجا ” بھی خالی نیلی کو دیکھ کر رونے لگا ؛

سکھنی نیلی ویکھ کے ، جٹ سرجےماری ڈھاہ
سچ دس کھاں نیلیےُ، کتھّے آیُ آیں لعل کوہا
کتھّے مرزا ماریا ای، میرا لاڈلا ویر بھرا
کون بہہ گا تیری پٹھ تے، لے پُرے دی وا
کون پاسی کھنڈ نہاریاں، کون ہریا گھاہ
نیویں دسدے چوترے، رُکھّاں باہج گراں
بھایُ مرن باہواں بھجدیاں، پُتّر مرن تے جاندا ناں
چارے گُٹھّاں سُنجیاں، جدوں مردا پیُو تے ماں
رسیاں دھر دھر ونڈدے یارو، اوتر گیاں دی تھاں

اردو ترجمہ :

گھوڑی کو خالی دیکھ کر سرجا کی چیخ نکل گییُ.
کہنے لگا سچ بتاؤ تم ہمارے لعل کو کہاں ذبح کرا آییُں ؟ .
مجھے بتاؤ میرا پیارا بھایُ کہاں مارا گیا.
اب تمہاری پیٹھ پر بیٹھ کر صُبح کے وقت کون سواری کرے گا.
تُمہیں اب دانہ، نہاری ا ور سبز گھاس کون کھلاےُ گا.
آج ہمیں گھر کے صحن نیچے دکھایُ دیتے ہیں ، ایسا لگتا ہے جیسے چاروں طرف کویُ درخت نہیں، جس کی چھاؤں میں بیتھیں.
بھایُ کے مرنے پر جیسے دُوسرے بھاییُوں کے بازُو ٹُوٹ جاتے ہیں. بیٹے مر جاییُں تو نام لینے والا کویُ نہیں رہتا.
ماں باپ مر جاییُں تو چاروں طرف اُجاڑ ہی اُجاڑ دکھایُ دیتا ہے.
لاولد مر جانے والے کی وراثت اور زمین کو اُس کے رشتہ دار آپس میں بانٹ لیتے ہیں.

تشریح : لاولد کو عربی زبان میں ” ابتر ” کہتے ہیں. اس ابتر کو پنجابی زبان میں ” اوتر ” کہتے ہیں. اوتر کے ساتھ ایک اور لفظ ” نکھتّر ” ملا کر اوتر نکھتّر کہ کر پکارا جاتا ہے. جس کا مطلب یہ ہوتا ہے ” ایسا شخص کس کی کویُ اولا د نہ ہو”، خصُوصاٌ اولاد نرینہ کہ اس سے ہی نسل آگے چلتی ہے.

مرزا کی چھوتی بہن ” چھتّیی ” خالی گھوڑی دیکھ کر غش کھانے لگی. بہنوں کی بھاییوُں سے محبت ویسے بھی زیادہ ہوتی ہے. چھتّی غم سے نڈھال ہو گییُ.

سکھنی نیلی ویکھ کے چھتّی ماری ڈھاہ
میں دُکھّیں پیپل پالیا، چُلییں پانی پا
اج پپلے لگراں چھڈیاں، لے گیا شمیر وڈھا
میرا بلدا دیوا بُجھ گیا، گیا شمیر بُجھا

اردو ترجمہ

خالی گھوڑی دیکھ کر چھتّی کے منہ سے پیخیں نکل گییُں.
کہنے لگی میں نے بڑی محنت اور پیار سے پیپل کے درخت کو اپنے ہاتھوں سے پانی دے دے کر اُسے بڑا ہونے دیا.
اب جب کہ پیپل کی ٹہنیاں نکل آییُں، اور اس قابل ہُوییُں کہ ہم اس کی چھاؤں میں بیٹھ سکیں تو شمیر نے اس درخت کو ہی کاٹ دیا.
ہمارا چراغ جل رہا تھا، شمیر نے اُسے بُجھا دیا.

راےُ رحمُوں کا انکار

ااُس وقت کھرل خاندان کا سربراہ راےُ رحمُوں تھا ، جو مرزا کے دادا کا بڑا بھایُ تھا. مرزا کی بہن چھتّی اُس کے پاس گییُ کہ مرزا کے قتل کا بدلہ لو.

چھتّی واگاں موڑیاں، را رحمُوں دے دربار
آہندی بابا میرے سچ دیا، میرے ویر دا گھر سنوار
آہندا شُکر کیتا میں چھتیےُ ، جدوں مویا مرزا چور
میری مجھّیں نوں ڈانگاں ماردا، پاندا راوی دے وچ شور
میں کیوں چڑھاں شریک تے، مینوں بنی کیہڑی لوڑ

اردو ترجمہ :

مرزا کی بہن اپنے دادا را رحمُوں کے پاس گییُ.
اُسے کہا آپ میرے سگے دادا ہیں، میرے قتل ہو جانے والے بھایُ کا بدلہ لو.
راےُ رحمُوں نے کہا ” مرزا کے مرنے پر میں نے اللہ کا شکر ادا کیا.
وُہ میری بھینسوں کو لاٹھیاں مارتا تھا، اُس نے علاقہ میں اُدھم مچا رکھا تھا.
میں اُس کے قتل کا بدلہ کیوں لُوں ؟ مجھے کیا مصیبت پڑی ہے.

خاندان والے راےُ رحمُوں کا یہ جواب سُن کر بڑے مایُوس ہُوےُ. اُس وقت چھتّی نے راےُ رحمُوں کو طعنہ مارا

بینی بنھ لے گانا رحموں، ہتھّاں تے مہندی لا
سد کے نُور دین قاضی نوں ،میرا پڑھ لے حق نکاح
چڑھ محلّاں سواں دے، لاہاں دے پُرے دی ہوا
جگ وچ دُھمّاں پوسن، دادے پوتری لییُ ویاہ
اگّے مرزا سیالاں ماریا، میں وی سیال کریساں جا

اردو ترجمہ :

دادا ! تم میرے بھایُ مرزا کے قتل کا بدلہ لینا نہیں چاہتے، تو ہاتھ میں گانا باندھ لو اور مہندی لگا لو.
نُور دین قاضی کو بُلا کر میرے ساتھ نکاح کر لو.
ہم محلوں میں آرام سے سویُیں گے، اور صُبح کی پیاری پیاری ہوا کے مزے لُوٹیں گے.
آس پاس مشہُور ہو جاےُ گا کہ دادا نے اپنی پوتری سے شادی کر لی.
اس سے پہلے سیالوں نے مرزا کو قتل کیا، میں بھی کسی سیال مرد کے ساتھ شادی کر لُوں گی.

راےُ رحمُوں کی غیرت جاگ اُٹھی

چھتّی کا یہ طعنہ سُن کر راےُ رحمُوں کی غیرت جاگ اُٹھی،اُس نے خان کھیوہ پر چڑہایُ کر دی. کھرل تعداد میں زیادہ تھے. خان کھیوہ نے محسُوس کیا کہ وہ کھرلوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا. اُس نے اپنے بیٹے شمیر کو مشورہ دیا کہ وُہ مرزا کے قتل کے عوض اپنی بہن بختاں کا رشتہ کھرلوں کو دے دے. مگر شمیر نہ مانا. اُس نے کہا

میرا نام شمیر اے، کُل وچّوں نام ودھیک
میں بانہہ کچہری لا کے، میرے پاوے پھڑن شریک
ڈولا دیاں میں پکھّی واس نوں، میری جد نوں لگدی لیک

اردو ترجمہ :

میرا نام شمیر ہے جو دُنیا میں تمام ناموں میں بڑا ہے.
میں روزانہ کچہری لگاتا ہُوں، جہاں میرے شریک میرے تخت کے پاےُ پکڑتے ہیں.
میں ایک بنجارہ سے اپنی بہن بیاہ دُوں ! یہ میرے خاندان اور قوم کی بے عزتی ہے.

کھرلوں اور شمیر کی فوجوں میں لڑایُ شروع ہو جاتی ہے. شمیر اور اس کے خاندان کا ہر شخص قتل کر دیا جاتا ہے. کھرلوں نے کھیوا شہر کی اینٹ سے ینٹ بجا دی، صرف اُس مسجد کو گزند نہیں پہنچایا ، جہاں مدرسے میں مرزا بچپن میں پڑھا کرتا تھا. وُہ مسجد آج بھی صحیح سلامت موجُود ہے.

آپ نے ساری کہانی پڑھی. میرے خیال میں اس کے تمام اشعار پیلو شاعر کے نہیں ہیں. یہ اشعار تو زمانہ قریب کے لگ رہے ہیں. پیلو کے زمانہ اور آج کل کی عام بول چال میں کافی فرق آ چُکا ہے. ایسا لگتا ہے جیسے یہ اشعار کسی چرواہے کے ہیں. کہانی بھی جابجا ٹوٹتی ہے، کیُ ایک سوالات کا جواب نہیں ملتا.

کھرل اور سیال دونوں ہی مرزا اور صاحباں کا ذکر کرنے سے اجتناب کرتے ہیں . غیرت کا تقاضا بھی یہی ہے. مرزا اور صاحباں کا مقبرہ یُونین کونسل دانا آباد کی حدُود میں موضع چک نمبر 484 ج ب. جھنڈ والی میں نہایت خستہ حالت میں موجۃود ہے. جس کی دیکھ بھال کا کویُ انتظام نہیں. مقامی آبادی اپنی عورتوں کو مقبرہ پر حاضری کی اجازت نہیں دیتی. انہیں یہ خوف لاحق ہے کہ اُن کی عورتیں کہیں مرزا صاحباں کی تقلید نہ کر لیں.

کہانی کے کرداروں کے رشتوں مہیں بھی اختلاف ہے. بعض علاقوں میں صاحباں کے ایک بھایُ کا نام شبّیر آتا ہے اور بعض میں شمیر. اب صحیح نام کیا ہے ، اسا کا پتہ نہیں چلتا. اسی طرح مرزا کے باپ کے بارے میں بھی اختلاف ہے. بعض کا خیال ہے کہ راےُ ونجل مرزا کے بچپن میں فوت ہو گیا تھا . بعض میں یہ بتایا گیا ہے کہ مرزا کی قتل ہونے کے بعد اُس کی گھوڑی ” نیلی ” جب دانا آباد پہنچی تو سب سے پہلے اُسے مرزا کے باپ راےُ ونجل نے دیکھا. اسی طرح کے کیُ شُبہات کہانی میں موجُود ہیں.


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *