Logic – Extremity – ہنسنا منع نہیں ہے.

ہنسنا منع نہیں ہے.

عنوانات

نمبر 1 – منطق
نمبر 2 – انتہا

منطق

فلسفہ کی ایک شاخ کو منطق کہتے ہیں. منطق اصل میں الفاظ یا واقعات کے الٹ پھیر کا نام ہے. چلےُ ، میں آپ کو منطق کی ایک مثال دیتا ۃوں ؛

پروفیسر اکرم صاحب ایک کالج میں منطق پڑھایا کرتے تھے. کالج جاتے ہوےُ راستہ میں شیدے حلوایُ کی دکان تھی ، جسے یہ پتہ تھا کہ پروفیسر صاحب کسی کالج میں منطق کا مضمون پڑھاتے ہیں. وہ انہیں آتے جاتے کہتا ” پرہفیسر صاحب
مجھے بھی منطق سکھا دیں ” پرہفیسر ساحب کہتے ” اچھا یار سکھا دو‌ں گاا”

شیدے حلوایُ کے روزانہ منطق سکھانے کے مطالبے سے تنگ آ کر پروفیسر صاحب نے کہا ” اچھا ، آج سے میں منطق سکھانا شروع کر دیتا ہوں” یہ کہ کر وہ اپنے گھر کو چل دےُ. تھوڑی دور جا کر واپس آےُ اور شیدے سے کہا ”
شیدے پہلوان، ایک کلو جلیبی تو دے دو. پیسے تنخواہ ملنے پر دے دوں گا ”
شیدے نے ایک کلو جلیبی تول کر دے دی. پروفیسر صاحب جلیبی لے کر چل دےُ
تھوڑی دور جا کر واپس آ گےُ اور شیدے سے کہا ” یہ جلیبیاں رکھ لو اور اس بدلے مجھے ایک کلو برفی دے دو. شیدے نے جلیبیاں واپس لے لیں اور ایک کلو برفی دے دی. پروفیسر صاحب برفی لے کر چل دےُ. تھوڑی دور جا کر واپس آےُ
اور برفی کے بدلے لڈو لے کر چلے گےُ.
مہینہ گزر گیا پروفیسر صاحب نے پیسے نہ دےُ. شیدے نے پیسوں کا پوچھا . ان کی آپس میں گفتگو کچھ اس طرح ھویُ ؛
شیدا — پروفیسر صاحب، آپ کی طرف کچھ پیسے نکلتے ہیں.
پروفیسر صاحب. — بھایُ ، کون سے پیسے ؟
شیدا —-وہ آپ ایک کلو لڈو لے گےُ تھے.
پرہفیسر صاحب. – وہ لڈو تو میں نے برفی کے بدلے لےُ تھے.
شیدا — اچھا ، برفی کے پیسے دے دیں.
پروفیسر صاحب – برفی تو میں نے جلیبیوں کے بدلے لی تھی.
شیدا — اچھا. آپ جلیبیوں کے پیسے دے دیں.
پروفیسر صاحب .– بھیُ، جلیبیاں تو میں نے لی ہی نہیں. پیسے کس بات کے دوں.

                                                            انتہا

آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے

پنجاب کے تقریبآ ھر گاوُں میں ایک دوسرے کی دشمن دو پارٹیاں ہوتی تھیں. یہ دشمنی قتل    تک بھی پہنچ جاتی تھی. اور اس طرح دشمنی کی بنا پر نسل در نسل قتل ھوتے رہتے. یہ دشمیاں کیسے شروع ہویُں ؟ پتہ چلتا ہے کہ ہر دشمنی کا بیج زر، زن اور زمین کے بطن سے ہی پھوٹتا ہے. اب وہ پہلے والی بات نہیں رہی. لوگ پڑھ لکھ کر سمجھدار ہو گےُ ہیں     اور   پرانے زمانے کی دشمنیاں بھی کم ہو گیُ ہیں

میں پچاس ساٹھ سال پہلے والے ماحول کی بات کر رہا ہوں.

ضلع سرگودہا کے ایک گاوُں میں ایسی ہی دو پارٹیاں تھیں جو ایک دوسرے کے خون کی پیاسی تھیں. ایک پارٹی گاوُں کے مشرق اور دوسری مغرب کی طرف رہتی تھی. پرانے رواج کے مطابق گاؤں میں ایک ہی مسجد تھی جو مشرقی حصہ میں تھی. جو مغربی پارٹی کے لےُ شجر ممنوعہ بن گیُ. انہوں نے مغرب کی طرف ایک نیُ مسجد بنا لی.

اذان کے بعد ایک خاص دعا پڑھی جاتی ہے، جو اکثر لوگوں کو یاد نہیں . وہ اذان کے نعد کلمہ شہادت پڑھ لیتے ہیں. ایک دن مغربی پارٹی کا ایک آدمی مغرب سے پہلے گھر آ گیا. اتنے میں مشرقی مسجد میں اذان ہونے لگی. اذان ختم ہونے پر اس کی بوڑھی ماں نے کلمہ شہادت پڑھا. اس آدمی کو غصہ آ گیا. اس نے ماں کو مارا اور کہا ” تم نے ہمارے دشمنوں کی مسجد کی اذان پر کلمہ کیوں پڑھا. کیا ہماری مسجد میں اذان نہیں ہونی تھی ؟”


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *