ہنسنا منع نہیں ہے – دعا

ہنسنا منع نہیں ہے.

عنوانات

نمبر 1 – دُعا.

نمبر 2 – وجہ. نمبر 3 ناشکرےنمبر 4 . خوش آمدید نمبر 5 – اختصار .نمبر 6 . آحتیاط 

دُعا

ہم ہر وقت اللہ سے دعا کرتے رہتے ہیں ، اس یقین کے ساتھ کہ اللہ ہماری دعایُں قبول کرتا ھے. وہ دعا ضرور قبول ہوتی ہے جسے صدق دل اور یقین کامل سے مانگی جاےُ. ہماری دعایُں قبول کیوں نہیں ہوتیں؟ کیونکہ ہم دعا یکسویُ سے نہیں مانگتے. ہماری زبان سے دعا کے الفاظ تو نکل رہے ہوتے ہیں لیکن دماغ میں کچھ اور باتیں چل رہی ہوتی ہیں.
مسجد میں نماز کے بعد لوگ اپنی اپنی دعایُں مانگ رہے تھے. ایک شخص دعا مانگ رہا تھا ” مجھے ایمان کی سلامتی عطا فرما”. اس کے ساتھ ایک مراثی بیٹھا تھا جو یہ دعا مانگ رہا تھا ” یا اللہ مجھے بہت ساری دولت عطا فرما” ( عمومآ مراثی مسجد میں کم ہی جاتے ہیں ). ساتھ والے آدمی نے مراثی کو ٹھونکا مارا اور کہا ” یہ کیا دعا مانگ رہے ہو. اللہ سے اس کی بخشش اور ایمان کی سلامتی کی دعا مانگو.” مراثی نے جواب دیا. ” بھایُ صاحب ! جس کے پاس جو چیز کم ہو وہی مانگی جاتی ہے.”

وجہ

بعض لوگ پیداشُی طور پر رونی صورت والے لگتے ہیں. وہ لاکھ چاہیں کہ چہرے پر مسکراہٹ سجا کر رکھیں لیکن ان کے لےُ یہ ممکن ہی نہیں. ایسے ہی ایک شخص کو ایک اجنبی ملا جو اس کی اس بیماری سے ناواقف تھا. اس نے اس سے پوچھا ” بھایُ ! آپ نے رونی شکل کیوں بنا رکھی ہے ؟. اس شخص نے جل بھن کر یہ جواب دیا ” میں محرم کے مہینے میں پیدا ہوُا تھا”.

ناشکرے

اللہ کی دی ہویُ نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیُے . اللہ شکر کرنے والوں کو اور دیتا ہے. مگر کچھ لوگوں کا اس بارے میں فلسفہ کچھ اور قسم کا ہے.
ایک پٹھان کہ رہا تھا ” یہ پنجابی لوگ بھی عجیب ہیں . دال کھاتے ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں. اللہ سمجھتا ہے یہ دال پر ہی خوش ہیں اور انہیں دال ہی دیتا رہتا ہے. ہماری طرف دیکھو، ہم گوشت کھاتا ہے پھر بھی شکر ادا نہیں کرتا، اور مجھے کھانے کو روزانہ گوشت مل جاتا ہے “.

خوش آمدید

کرتارپور راہداری کے کھولنے کے دن انڈیا کے سابق وزیر اعظم جناب من موہن سنگھ کو بھی مدعو کیا گیا ہے. بڑی اچھی بات ہے. انہیں خوش آمدید کہنے کے لےُ میری ایک تجویز ہے.
جس دن جناب من موہن سنگھ کرتار پور کے نزدیک آ چکیں ، تو وینا ملک ایک پنجابی فلم کے مشہور گانے کے یہ بول گانا شروع کر دے :

وے سب توں سوہنیا
ہاےُ وے من موہنیا

تو امید کی جاتی ہیں من موہن سنگھ اپنے اس بے نظیر استقبال پر بہت خوش ہوں گے. لیکن ایک احتیاط بہت ضروری ہے. اس گانے کے اگلے بول نہ گاےُ جایُں جو کچھ یوں ہیں :

میں تیری ہو گیُ
پیار وچ کھو گٰیُ

ایسا نہ ہو کہ من موہن سنگھ چوڑے ہو جایُں اور لینے کے دینے پڑ جایُں.

اختصار

مختلف علاقہ جات کی اپنی اپنی روایات ہوتی ہیں. مثلآ لاہور کے ویگن ڈرایُور دور سے ہی پہچان لیتے ہیں کہ فلاں شخص کسی ویگن میں سفر کرے گا . وہ شخص ابھی دور ہی ہو گا کہ ویگن ڈرییُور اس سے پوچھے گا ” بھایُ جی، جانا جے “. یہ رویّہ تقریبآ ہر ویگن ڈرایُور کا ایک جیسا ہوتا ہے.
راولپیندی والے اس معاملے میں بڑے اختصار پسند ہوتے ہیں. وھاں کا ڈرایُور صرف ایک لفظ بولے گا “جلسو‌”.
یہ رویّہ صرف ہمارے ملک میں ہی نہیں .کسی یونانی سے پوچھا جاےُ کہ کھانا کھاؤ گے ؟ اگر اس نے کھانا نہ کھانا ہو تو وہ زبان سے کچھ نہیں کہے گا . اپنے ابرواور سر کو تھوڑا سا اوپر اٹھا دے گا. بعض منہ سے مدھم سی چچ کی آواز بھی نکال دیتے ہیں.

احتیاط

یہ اس زمانے کی بات ہے جب ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت تھی. اس وقت حکومت کے پاس موٹر کاریں بہت کم ہوتی تھیں . اور حکومتی افسراں گھوڑوں پر بیٹھ کردوروں پر جایا کرتے تھے. ایک تحصیلدارنے کسی جگہ کا دورہ کرنا تھا . تیار ہو کر گھوڑے پر بیٹھا اور اپنے اردلی سے پوچھا ” میرا ہیٹ کہاں ہے ؟ ” اردلی نے کہا ” سر، ہیٹ تو آپ نے سر پر پہنا ہوُا ہے ” . تحصیلدار نے سر پر ہاتھ لگا کر ہیٹ کی موجودگی کو یقینی بنایا اور کہا ” احتیاط لازمی ہے ”
یہ سارا قصّہ سنانے کا اصل مقصد یہ ہے کہ دوسرے ملکوں میں آپ کو چھوٹی چھوٹی باتوں میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہو گی. چند مثالیں یہ ہیں ؛
1 –
ہمارے ملک میں کھانا کھانے یا لسّی پینے کے بعد زور سے ڈکار لینے کو معیوب نہیں سمجھا جاتا. لیکن یورپ میں زور سے ڈکار لینے کو نہت معیوب سمجھا جاتا ہے. اگر کسی محفل میں آپ نے زور سے ڈکار لیا تو حاضرین محفل منہ سے شاید کچھ نہ کہیں ، لیکن وہ محفل سے اٹھ جایُں گے. وہ سمجھتے ہیں کہ ڈکار غلط راستے سے آیا ہے.
2 –
ہمارے ہاں یار دوست چلتے ہوےُ ایک دوسرے کے کاندھوں پر ہاتھ رکھ لیتے ہیں .اور اسے دوستی کی علامت سمجھا جاتا ہے. اگر آپ سپین میں ہیں تو کبھی بھی کسی سپینش کے کاندھے پر ہاتھ نہ رکھےُ گا. ان کے ہاں اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ آپ ہم جنس پرست ہیں اور کسی مفعول کی تلاش میں ہیں.
3 –
یونان کے لوگ کسی محفل میں کسی کے رقص پر خوش ہو کر کرنسی نوٹ کو آگ لگا کر رقاص پر نچھاور کرتے ہیں. ایسا ہی ایک واقعہ ہمارے ساتھ برازیل میں پیش آیا. ایک بار میں ہمارا ایک یونانی ساتھی ترنگ میں آ کر رقص کر رھا تھا. ان کا رقس بھی عجیب طرح کا ہوتا ہے. کھڑے کھڑے دونوں ہاتھ سامنے 90 ڈگری پر رکھ کر دایُں بایُں تھرکیں گے پھر اپنی داہنی ٹانگ کو اوپر اٹھا کر پاوُں کے انگوٹھے کو ہتھیلی سے مس کریں گے. یہ ذرا مشکل کام ہے . یونانی کے رقص سے خوش ہو کر دوسرے یونانی نے برازیل کے کرنسی نوٹ کو آگ لگا کر رقاص پر نچھاور کر دیا. وہاں پر موجود برازیلی لوگوں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا کہ ہماری کرنسی کو آگ لگا کر ہمارے ملک کی توہین کی ہے. کافی تگ و دو کے بعد ہم انہیں یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوےُ کہ یونانی نے کسی توہین کی خاطر یہ کام نہیں کیا. ان سے معافی مانگ کر معاملہ رفع دفع ہوُا.
آپ ایسے معاملوں میں حد درجہ احتیاط کو ملحوظ رکھیں.


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *