پنجابی لوک گیت، — ، پنجابی دوہے ( دوہڑے)
9 قسط نمبر
پنجابی لوک گیتوں میں پنجابی دوہے ، جنہیں پنجاب کے بعض علاقوں میں ” دوہڑے ” بھی کہا جاتا ہے، ایک خاص مقام رکھتے ہیں. لوگ ان پنجابی ہوہوں کو تحت الفظ گاتے ہیں اور سُر کے ساتھ بھی. قوال اور غزلیں گانے والے انہیں غزل کے اشعار سے پہلے ، شعر کے مفہوم کے مطابق عموماٌ تحت الفظ میں پنجابی دوہے پڑھتے ہیں. اس طرح غزل کے اصلی شعر کے تاثر کو مزید متاثر کُن بناتے ہیں.
اس سے پہلے تک آپ ” پنجابی لوک گیت، پنجابی دوہے ، قسط نمبر 8 ” تک پڑھ چکے ہیں. آن اقساط میں زیادہ تر ہجر و فراق سے متعلق کیفیات کو بیان کیا گیا ہے. آج ہم آپ کو جو پنجابی دوہے پیش کر رہے ہیں، یہ سابقہ پیش کیےُ گیےُ پنجابی دوہوں سے مختلف ہیں.
رنج و غم زندگی کے دو رُخ ہیں ، اور ہر انسان کو ان سے واسطہ پڑتا ہے. رنج و غم کو اپنے اوپر سوار ہونے کا موقع نہیں دینا چاہیےُ. مگر کیسے ؟ درج ذیل پنجابی دوہے یا دوہڑے پڑھیےُ، آپ کچھ وقت کے لیےُ ہی سہی، اپنا غم بھُول جاییُں گے.
عنوانات:
نمبر 1 = پنجابی دوہا نمبر 1 نمبر 2 = اردو ترجمہ پنجابی دوہا نمبر 1
نمبر 3 = پنجابی دوہا نمبر 2 نمبر 4 = اردو ترجمہ پنجابی سوہا نمبر 2
نمبر 5 = پنجابی دوہا نمبر 3 نمبر 6 = اردو ترجمہ پنجابی دوہا نمبر 3
نمبر 7 = پنجابی دوہا نمبر 4 نمبر 8 = اردو ترجمہ پنجابی دوہا نمبر 4
نمبر 9 = پنجابی دوہا نمبر 5 نمبر10= اردو ترجمہ پنجابی دوہا نمبر5
نمبر11= پنجابی دوہا نمبر 6 نمبر12= اردو ترجمہ پنجابی دوہا نمبر 6
آپ نے کبھی کسی موٹی عورت کو دیکھا ہے ؟. میں اُن موٹی عورتوں کی بات نہیں کر رہا جن کے جسم پر اتنی چربی چڑھی ہوتی ہے کو وہ اپنے پاؤں پر چل نہیں سکتیں. ٹی وی پر بعض ایسی عورتوں کو دکھایا جاتا ہے. میں نے اپنے ملک کی ایک ایسی عورت کو دیکھا ہے .جس کے جسم کی چوڑا یُ تین اوسط عورتوں کی چوڑایُ کے برابر تھی. قد بھی مناسب تھا .اور حیرانی کی بات یہ تھی کہ وہ عورت بینک میں بجلی کا بل جمع کرانے اپنے پیروں پر چل کر آیُ تھی. اس کی یہ جسامت اس پر بھلی لگتی تھی. مندرجہ ذیل پنجابی دوہا کسی ایسی ہی موٹی عورت کی کہانی بیان کر رہا ہے :
پنجابی دوہا نمبر 1 :
س سُک کے بوہڑی دا ُمڈھ ہویُ آں، 40 گز دا گھگرا پایا ای
چھک چھک کے گوڈیاں تاییُں کیتا، 60 گز وچ ہور پوایا ای
گڈّا روٹیاں دا چھپّڑ دال والا، چرخے بہہ کے دند ہلایا ای
ماپے آکھدے کُڑییےُ سردار بی بی ،کہیا کھان اُتّوں دل چایا ای
اردو ترجمہ پنجابی دوہا نمبر 1 :
میں سُوکھ سُوکھ کر بڑ کے درخت کے زمین میں گڑے تنے کی طرح ہو گییُ ہُوں. میرا گھگرا 40 گز کپڑے میں سلا، پھر بھی چھوٹا رہا،
( ذہن میں رہے کہ بوڑھے بڑ کے تنے کا محیط 20 فٹ سے 30 فت تک ہوتا ہے )
اس گھگرے کو کھینچ تان کر میرے گھٹنون تک لایا گیا. پھر اس میں مزید 60 گز کپڑا ڈالا گیا ،تب جا کر یہ کچھ پہننے کے قابل ہُوا.
میں چرخے کے پاس بیٹھی اور ایک گدّے پر لاد کر روٹیاں لایُ گییُں، ایک بڑے جوہڑ کے برابر پکی ہُویُ دال لایُ گییُ ، اور اسے کھانے میں یُوں لگا جیسے چند دانت ہی ہلاےُ ہیں.
میرے ماں باپ مجھ سے پُوچھتے ہیں کہ بیٹا ! آج کل تمہارا دل کھانے سے اچاٹ کیوں رہنے لگا ہے ؟
سُوکھ کر بڑ کے تنے کی طرح ہو جانا بڑی پُر مزاح تشبیہ ہے. ( بڑ کے سُوکھے تنے کی تصویر دیکھیےُ. ) اسی طرح خاصی بڑی مقدار میں روٹیاں، اور ایک بڑے جوہڑ کی مقدار کے بابر دال ، صرف ایک دانت کے نیچے آ جانا کچھ مبالغہ معلوم ہوتا ہے. مگر اصل مقصد تو مزاح پیدا کرنا ہے.
پنجابی دوہا نمبر 2:
چڑھدے بھدّ ر لتھّی سدّھر، وکھرا گھر وسانے دی
رنّے آن ستایا مینوں، نیت کیتی ٹُر جانے دی
رب سچّے دی کریےُ پُوجا، کیہڑی لوڑ سرہانے دی
کرم چندا رن گھرے دا بندہ ، جے ہووے کسے ٹھکانے دی
اردو ترجمہ پنجابی دوہا نمبر 2 ؛
بھادوں کا مہینہ شروع ہُوا، علیحدہ گھر بسانے کا شوق مدھم پڑھنے لگا.
بیوی ہر وقت تنگ کرتی ہے. جی چاہتا ہے گھر بار چھوڑ کر کہیں دُور نکل جاؤُں.
بہترتو یہ ہے کہ اپنے رب کی عبادت کی جاےُ، عیش و آرام کا خیال چھوڑ دیا جاےُ.
کرم چند کہہ رہا ہے کہ بیوی سے گھر کا چین ملتا ہے ، بشرطیکہ بیوی کسی اچھّے گھرانے سے آیُ ہو.
اچھّے گھرانے سے تعلق رکھنے والی بیوی خاوند کے لیےُ اللہ کی ایک نعمت ہے. اس کے برعکس پھوہڑ بیوی خاوند کی زندگی کو جہنم بناےُ رکھتی ہے. مندرجہ بالا پنجابی دوہے میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے.
قیام پاکستان کے وقت ایسا لگتا تھا جیسے انسان کے اندر کا حیوان جاگ آٹھا ہے. بہت سارے ہندو اور سکھ پاکستان چھوڑ کر ہندوستان چلے گیےُ. ہندوستان سے مسلمان مہاجرین کے قافلے پاکستان آنے لگے. وہ یہاں آ کر اُن پر ڈھاےُ جانے والے مظالم کی کہانیاں سُناتے. ردّ عمل کے طور پر یہاں کے لوگوں نے باقی رہ جانے والے ہندؤں پر حملے شروع کر دیےُ. اُن کی دکانیں لُوٹ لیں، اور گھروں کو آگ لگا دی. میری عمر اسُ وقت 13 سال کے قریب تھی. ایسے ہی بربریت کے ایک واقعے کا میں چشم دید گواہ ہُوں. تفصیل کے لیےُ اسی ویب سایُٹ کا ارٹیکل پڑھیےُ ” میرا کیا قصور تھا ” .
اس لُوٹ مار میں تقریبآ سبھی لوگ شامل تھے. ان حالات کا نقشہ شاعر نے ان الفاظ میں کھینچا ہے :
پنجابی دوہا نمبر 3 :
خ خاص لوکاں لوٹی نہیں کیتی، اے پر کردیاں نوں اُنہاں ہوڑیا نہیں
پویا صُوفیاں دا ظاہر صُوفیانہ ، مُکھ مال حرام توں موڑیا نہیں
جتنا مال لبھّا اینہاں صُوفیاں نوں، اُتنا عام لوکاں رزق جوڑیا نہیں
اکھّیں ویکھیا اساں نُور محمدا، جنہوں سُور لبھّا اُس چھوڑیا نہیں
اردو ترجمہ پنجابی دوہا نمبر 3 :
گو کہ بعض خاص لوگوں نے لُوٹ مار میں ، بہ ذات خود ،حصّہ نہیں لیا، لیکن لُوٹ مار کرنے والوں کو انہوں نے منع بھی نہیں کیا.
بہ ظاہر نظر آنے والے صُوفیوں کا صُوفیانہ ظاہر ہو گیا. انہّؤں نے بھی مال حرام کو نہیں چھوڑا.
جتنا مال حرام ان لوگوں نے اپنے قبضے میں لیا، عام لوگ اس کے دسویں حصّے تک بھی نہیں پہنچتے.
نُور محمد کہتا ہے کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جس کسی کو بھی حرام مال ملا، اُس نے چھوڑا نہیں.
شاعر نے اُس زمانہ میں لُوٹ مار کے مال کو سُور ( حرام ) سے تشبیہ دی ہے جو کہ مسلمان کے لیےُ حرام ہے.
مندرجہ بالا لُوٹ مار میں کسی نے کیا کیا، شاعر نے اسے یُوں بیان کیا ہے:
پنجابی دوہا نمبر 4:
ع عورتاں چُک چنگیرٹُریاں، مرد ہو کھلے ہٹیاں لٹنے نوں
ہیہاں، وان پٹّھہہ ، بنھ لیا گٹّھہہ، دل نہیں کردا کُجھ سُٹنے نوں
چُک دوریاں، ڈنڈے تے نال چٹُّو، کھرل کم اوسی دارُو کُتنے نوں
آیُ نُور محمدا خلق ساری ، پاکستان دیاں جڑاں پُٹنے نوں
اردو ترجمہ پنجابی دوہا نمبر 4 :
عورتوں نے چنگیریں اُتھا لیں، مرد دُکانیں لُوٹنے لگے.
چارپایُ کے ڈنڈے، چارپایُیاں بُننے والا وان اور پٹھّہہ ، سب گٹھڑی میں باندھ لیےُ . ان میں سے کسی کو بھی چھوڑ جانے کو دل نہیں کرتا.
مصالحہ پہیسنے والی دوریاں، ڈنڈے، چٹُّو اور کھرل بھی اُٹھا لیےُ .کہ اس میں مصالحہ یا دوایُ کُوٹ لیا کریں گے.
نُور محمد کہتا ہے کہ ساری رعایا ( یہ کام کرتے ہُوےُ گویا) پاکستان کی جڑیں کاٹنے پر تُل گییُ.
لُوٹ مار اسلام کی تعلیمات کی منافی ہے، اسی لیےُ لُوٹ مار کو اسلامی جمہُوریہ پاکستان کی جڑیں کاٹنے کے مترادف کہا گیا ہے.
اس پنجابی دوہے میں کچھ الفاظ کی تشریح یُوں ہے :
چنگیر = آج سے پچاس ساٹھ پہلے دیہاتی لوگ دوپہر اور رات کا کھانا اکٹھے بیٹھ کر کھاتے تھے. گھر کے سب افراد گول دایُرے میں زمین پر پاوُں پر بیٹھ جاتے تھے، درمیان میں کسی پیڑھی پر چنگیر میں روٹیاں رکھی جاتی تھٰیں ، یہ چنگیر کھجُور کے پتّوں سے بنا ایک بڑا سا تھال ہوتا تھا. یہ چنگیر مقامی طور پر لوگ تیار کر لیتے تھے.
ہٹّی = دکان کو پنجابی زبان میں ” ہٹّی ” کہتے ہیں.
ہیّاں = چارپایُ میں 4 ڈنڈے ہوتے ہیں. چھوٹے ڈنڈون کو ” سیرُو ” اور لمبے ڈنڈوں کو ” ہیّاں ” کہا جاتا ہے.
وان، پٹھّہ = ان سے چارپایُ کو بُنا جاتا ہے.
دوری، ڈنڈہ = دوری میں ڈنڈے کی مدد سے ہانڈی کے لیےُ مصالحہ کُوٹا جاتا ہے.
پنجابی لوک گیت، پنجابی دوہے ، قسط نمبر 9 کے سلسلے کے آخری پنجابی دوہے سے پُوری طرح لطف اندوز ہونے کے لیےُ آپ کے لیےُ یہ جاننا ضروری ہے. کہ دیہات میں دیسی کھڈّی پر کپڑے کی بُنایُ کس طرح کی جاتی ہے. کیوں کہ یہ دوہا اُن دیہاتی کپڑا بُننے والوں کے متعلق ہے .جنہیں ” کسبی ” یا “کاسبی ، یا ” جولاہا” کہ کر بُلایا جاتا ہے.
کپاہ جب پک جاتی ہے تو کپاہ کے پودے سے پُھٹّی ہاتھوں سے الگ کر لی جاتی ہے. اس پھُٹّی کو عورتیں گھر میں بیٹھ کر دیسی ساختہ لکڑی کے بیلنے سے بیلتی ہیں. جس سے رُویُ اور بنولے الگ ہو جاتے ہیں. پھر اس رف رُویُ کودُھنا جاتا ہے. دُھنی ہُویُ اس رُویُ سے ایک انچ موٹی اور اور 4 ایچ لمبی ” پُونیاں ” بنایُ جاتی ہیں. عورتیں اس پُونی سے چرخے پر ” مُڈھّے ” بناتی ہیں. یعنی دھُنی ہویُ رُویُ اب ایک لمبے دھاگے کی شکل اختیار کر لیتی ہے. یہ مُڈھے تقریبآ تین انچ لمبے اور درمیان سے موٹے اور کناروں پر بہ تدریج پتلے ہوتے جاتے ہیں. ان مُڈھوں کے دھاگے سے نسبتآ کافی بڑے لچّھے بناےُ جاتے ہیں. جن سے تانا بانا بنایا جاتا ہے.
اب یہ لچھّے کپڑا بُننے والے کسی خاندان ( جنہیں کاسبی یا جولاہے کہتے ہیں )، کے حوالے کر دیا جاتا ہے. اب یہ کاسبی ہا جولاہا دھاگے کے اس لچھّے یا ” تانا نابا ” کو گندم کے آٹے کی ” پان ” لگاتا ہے. ( گندم کے آٹے کو پانی میں گھول کر کچھ دیر کے لیےُ رکھ دیتے ہیں، جس سے یہ لیُ میں تبدیل ہو جاتا ہے ). اس میں دھاگے کے لچھّوں کو بھگو کر خُشک کر لیا جاتا ہے. اس عمل کو ” پان لگانا ” کہتے ہیں. پان لگانے سے دھاگا تھوڑا سا اکڑ جاتا ہے اور بہ آسانی تُوٹتا نہیں.
اب اس پان لگے تانا بانا کو اس کی لمبایُ کے مطابق لکڑی کی کھُونٹیوں کی مدد سے دونوں طرف نصب شدہ کمان کے دھاگوں پر سے گزارا جاتا ہے . اس طرح تانا بانا ایک بہت لمبے کلپ کی شکل اختیار کر لیتا ہے.
دھاگوں کو علیحدہ علیحدہ رکھنے کے لیےُ ایک ہہت بڑا برش استعمال ہوتا ہے. اس بُرش کو ” کُچ ” کا نام دیا گیا ہے. اس برش کے بال ایک خود رو پودے “جوانہہ ” کے پودوں کے باریک تنوں سےبنتے ہیں.. جوانہہ کا یہ پودا بارہ سے پندرہ انچ لمبا ہوتا ہے . یہ پودا گندم کے کھیتوں میں گندم کے ساتھ ہی اُگتا ہے. اس کا باریک سا تنا کافی مضبوط ہوتا ہے ،جبھی اس کے تنے سے کافی مضبوط برش بنایا جاتا ہے. یہ سب کچھ مقامی خود انحصاری کے تحت مقامی طور پر ہی تیار کیا جاتا ہے.
اس پان لگے تانا بانا کو جولاہا اپنی دیسی ساختہ کھڈّی پر چڑھا دیتا ہے. کپڑا بُننے کے لیےُ دھاگا کپڑے کا مالک مہیّا کرتا ہے. یہ دھاگہ گندم کے خشک 3 1نچ لمبے تنے پر( مقامی زبان میں اسے “ناڑ ” کہتے ہیں ) اس طرح لپتا ہوتا ہے ,کہ درمیان میں موٹا اور دونوں کناروں پر پتلا ہوتا ہے. اسے ” نلکی ” کہا جاتا ہے. اس نلکی کو ” ناند ” میں ڈال کر تانا بانا سے گزارتے ہیں، اور اس طرح کپڑا بُنا جاتا ہے. کپڑا بُننے کا یہ عمل ایک خاص جگہ پر کیا جاتا ہے جسے ” کھدّی ” کہتے ہیں.اب اس دوہے کو سُیےُ جس کے لیےُ یہ ساری تفصیل دینی پڑی:
پنجابی دوہا نمبر 5 :
ق قہر پوے انہاں کسبیاں تے، کچّی تند نوں پان لگاوندے نے
پنجاں سیراں وچّوں پنج پاء رکھدے، پنجاں پیراں دی قسم اُٹھاوندے نے
آپ وڑ باہندے وچ کھڈیاں دے، دھیاں بھیناں تے حکم چلاوندے نے
رحیم بخش نے اک جے نلی منگی، اگّو قتلیاں چا کے آوندے نے
اردو ترجمہ پنجابی دوہا نمبر 5 :
ان کسبی حضرات پر خدا کا قہر نازل ہو، یہ کچّے دھاگے کو ” پان ” لگاتے ہیں.
انہیں پانچ سیر سُوت دو تو اس میں سے پانچ پاؤ ( سوا سیر ) اپنے پاس رکھ لیتے ہیں، اپنی بات کا یقین دلانے کے لیےُ پانچ پیروں کی قسم اُٹھا کر کہیں گے کہ سُوت کا وزن 3 سیر اور 12 چھٹانک ہی تھا.
آپ تو کھڈّی میں بیتھ جاتے ہیں ، اور اپنی بہن اور بیٹی کو حُکم دیتے رہتے ہیں کہ یہ کرو وُہ کرو.
رحیم بخش نے کھڈی میں بیٹھے جولاھے سے ایک نلکی مانگی ، وہ مارنے کو یُوں دوڑا جیسے سُور اپنے سینگوں کے ساتھ حملہ آور ہوتا ہے.
اس قسط کے ساتھ ہی پنجابی دیہوں کا سلسلہ اپنے اختتام کو پہنچتا ہے. اگلی قسط میں عوامی گیت ” چھلّا ” پیش کیا جاےُ گا.