میرا کیا قصور تھا ؟
اگست 1947 کوجب قیام پاکستان کا اعلان ہؤا ،میں اس وقت تیرہ سال کا تھا. پاکستان کے لےُ لوگوں کا جوش و محبت دیدنی تھی. پھر لٹے پٹے مہاجرین آنے لگے. وہ مقامی لوگوں کو ان پر ڈھاےُ جانے والے ظلم و ستم کی داستانیں سناتے ,تو مقامی لوگوں کے چہرے غیظ و غضب سے سرخ ہو جاتے. اور پھر یہ لاوا پھٹ پڑا.
ِلاوا پھٹ پڑا
مختلف گاؤں سے ہندو لوگ پاکستان سے چلے گےُ تھے لیکن ابھی بھی بہت سے ھندو خاندان مختلف دیہات میں مقیم تھے. مقامی لوگ ان ہندؤں پر حملے کرنے لگے. ان کے گھروں کو آگ لگا دیتے. اس ظرح گویا وہ مہاجرین پر ہونے والے ظلم و ستم کا بدلہ لینے لگے.
موضع گھنیاں
میں اس دن موضع گھنیاں، تحصیل پھالیہ، ضلع گجرات موجودہ ضلع
منڈی بہاؤالدین میں اپنی خالہ زاد کے ہاں گیا ہؤا تھا. مقامی لوگوں نے ہندؤں کے گھروں کو آگ لگانی شروع کر دی. ہندو ڈر کے مارے گھروں کے اندر بند ہو گےُ.
پھر یوں ہوُا
اب جو آگ پھیلی تو وہ باہر نکلے. جنہیں مقامی لوگوں نے قتل کر دیا. میں اس وقت ایک جلتے مکان کے باہر کھڑا تھا .اتنے میں جلتے مکان سے ایک عورت اپنے 8 ماہ کے بچے کو سینے سے چمٹاےُ باہر نکلی. ایک آدمی نے اس کے سر پر کلہاڑی ماری. عورت گر پڑی. بچہ اس کے ہاتھوں سے نکل گیا. ایک آدمی نے اس بچے کو اٹھا کر اوپر اچھالا .دوسرے نے اپنی بلم (ایک لمبی چھری جو پیچوں کے ذریعہ لمبے بانس کے ایک سرے پر نصب ہوتی ہے) نیچے آنے والے بچے کے پیٹ میں مار کر اسے بلم پر پرو دیا. بچے کا خون اس آدمی پر پڑا. وہ بلم اٹھاےُ رقص کر رہا تھا. یہ منظر میرے ذہن پر نقش ہو گیا.
میرا کیا قصور تھا؟
اب بھی سوتے میں وہ منظرمجھے خواب میں نظر آتا ہے. اس بچے کی آنکھیں خوف، حیرت سے پھتی نظر آتی ہیں اس کے ہونٹ ہلتے نظر آتے ہیں ،جیسے وہ پوچھ رھا ہو ” میرا کیا قصور تھا ؟
میری آنکھ کھل جاتی ہے اور باقی رات سوچتے کزر جاتی ہے کہ کیا انسان اتنا وحشی بھی ہو سکتا ہے ؟.
میری آواز سنو