پنجابی اکھان – ردیف “م ” نمبر 6 2 – 11

پنجابی آکھان ، ردیف ” م “

نمبر 26 – 11

بعض عادات ایسی ہیں جو انسان کو پستیوں کی طرف دھکیل دیتی ہیں. کسی سے مانگنا اُن عادات میں سے ایک ہے. ردیف م کا گیارھواں اکھان اسی طرف اشارہ کر رہا ہے. کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے انسان کی عزّت نفس مر جاتی ہے. آجکل تو مانگنے والے اتنے زیادہ ہو گیےُ ہیں کہ خیال آتا ہے کیا ہم سب بھکاری ہیں!.
پنجابی اکھان ردیف م نمبر 10-1    کو پڑھنے کے لیےُ اس لنک پر کلک کریں؛

ردیف م کے پنجابی اکھان نمبر 26-11 پڑھیےُ؛

نمبر 11 – منگن گیا سو مر گیا منگن مول نہ جا
مانگنے والا ایسا ہے جیسے وہ مر گیا. عزّت سے جینا چاہتے ہو تو کسی سے کچھ نہ مانگو.

نمبر 12 – منگ کے گہنا پایا ادھا روپ گنوایا
مانگے تانگے کا زیور پہننا گویا اپنا آدھا حسن گنوانا ہے.

نمبر 13 – مایا تیرے تین نام پربھو ، پربھا ، پربھ رام
اے دولت، تمہارے تین نام ہیں، پہلے پربھو، پھر پربھا، اور پھر پربھ رام.
ایک گاؤں میں ایک بہت ہی غریب ہندو رہتا تھا. جس کا نام ماں باپ نے تو پربھ رام رکھا تھا، لیکن سب ہی اسے ” پربھو ” کہ کر پکارتے تھے . اس کی ایک طھوٹی سی دکان تھی . آہستہ آہستہ اس کی مالی حالت قدرے بہتر ہویُ تو لوگ اسے پربھو کی بجاےُ پربھا کہ کر پکارنے لگے. اور جب مالی حالت بہت بہتر ہو گیُ تو لوگ اس کی عزت کرنے لگے اور اسے ” پربھ رام ” کہ کر پکارنے لگے. گویا دولت ہو تو سب لوگ عزت کرتے ہیں.

نمبر 14 – مول نالوں ویاج چنگی
اصل زر سے زیادہ اس پر ملنے والا سود زیادہ اچھا لگتا ہے.
سود خور اصل زر کی بجاےُ اس پر سود وصول کرنے کو ترجیح دیتے ہئں. وہ کبھی اصل زر لوٹانے کا تقاضا نہیں کریں گے. بلکہ اس کا سود ضرور وصول کریں گے.
پنجابی زبان میں ” مول ” کے معنی ہیں ” اصل زر ” اور ” ویاج ” کے معن سود کے ہیں. نعض لوگ ویاج کی جگہ بیاج بھی بولتے ہیں.

نمبر 15 – مجھیّں مجھیّں دیاں بھیناں ہوندیاں نے
ایک بھینس دوسری بھینس کی بہن ہی لگتی ہے.
یاد رہے کہ کہ بھینسیں ایک دوسرے کے ساتھ ( سگی بہبوں کی طرح ) کبھی نہیں لڑتیں.

نمبر 16 – میں آیُ تے تہاڈی گن ونجایُ
میں نے آ کر تمہارے گھر کی بد بو ختم کر دی.
موچی کی بیٹی دوسرے موچی کے گھر دلہن بن کر آیُ، اس کے سسرال والے اپنے گھر میں ہی جوتے سیتے اور مرمت کرتے تھے. موچی کے جسم اور کپڑوں سے چمڑے کی بو آتی رہتی ہے. اس دلہن کو بھی یہ بو محسوس ہوتی تھی. اور وہ کہتی کہ تمہارے گھر اور کپڑوں سے چمڑے کی بد بو آتی ہے. آہستہ آہستہ وہ اس بو کی عادی ہو گیُ، اور اسے چمڑے کی بو محسوس نہ ہونے لگی. اس وقت وہ کہنے لگی کہ میرے آنے سے پہلے تمہارے گھر سے بدبو آتی تھی، میں تمہارے گھر آیُ اور بدبو کو ختم کیا.

نمبر 17 – مُلاں دی دوڑ مسیت تک
مولوی کا کسی پر زور تو چلتا نہیں ، کسی پر ناراض ہوگا تو مسجد میں ہی اس کی برایُ کا ڈھنڈورہ پیٹے گا. کسی کو ڈنڈا سوٹا تو مارنے سے رہا.

نمبر 18 – ماسی نالے چونڈھیاں
ایک طرف تو تم مجھے عزت دیتے ہوےُ خالہ کہ پکارتے ہو، دوسری طرف کسی برے خیال کے تحت مجھے چٹکیان بھی بھرتے ہو.

نمبر 19 – منہ جٹّن تے کوڑ نکھٹن
اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کے متعلق کہی جانے والی بات جھوٹی ہے تو اس کا بہترین حل یہ ہے وہ بات کہنے والے کو بلا کر اس سے بات کر کے جاےُ اور سچ جھوٹ کا فیصلہ کر لیا جاےُ.

نمبر 20 – منگل بدھ نہ جاییُں پہاڑ جتّی بازی آویں ہار
منگل اور بدھ کے دن کسی کام کے لیےُ پہاڑوں کی طرف نہ جاؤ، جیتی ہویُ بازی ہار جاؤ گے.
یہ کہاوت بھی کسی مشاہدے پر ہی کہی گیُ ہوگی.

نمبر 21 – مونہوں نکلی کوٹھے چڑھی
راز کی بات منہ سے نکلنے کی دیر ہے ، وہ سب کو معلوم ہو جاتی ہے.
راز اس وقت تک راز رہتا ہے ، جب تک زبان پر نہیں آتا. ایک دفعہ زبان پر آ گیا اور کسی دوسرے کو بتا دیا ، تو یہ سمجھیں جیسے آپ نے مکان کی چھت پر چڑھ کر بہ آواز بلند سب کو بتا دیا. اسی لیےُ کہتے ہیں کہ راز اس وقت تک راز ہے جب تک وہ سینے میں ہے.

نمبر 22 – مجھ ویچ کے گھوڑی لیُ دودھوں گیا نالے لد سٹنی پیُ
امارت جتانے کے لیےُ بھینس کو بیچ کر گھوڑی خرید لی. بھینس کا دودھ بھی پینے سے گیا، مزید گھوڑی کی لید بھی اکٹھی کر کے باہر پھینکنی پڑی.
جھوٹی امارت کے لیےُ کویُ ایسا کام کیا جاےُ جس سے پہلے والی عزت بھی جاےُ اور مزید بدنامی کا باعث بھی بنے تو ایسے موقعوں پر یہ کہاوت خوب جچتی ہے.

نمبر 23 – ماواں ٹھڈیاں چھاواں پیو ککراں دے کنڈے
ماییُں تو اس گھنے درخت کی مانند ہوتی ہیں جو دھوپ سے بچنے کے لیےُ ٹھنڈی چھاؤں مہیا کرتا ہے. اور باپ ! وہ تو کیکر کے کنڈوں کی مانند ہوتا ہے.
اس بات سے کسی کو انکار نہین کہ ماں ایک ٹھنڈی چھاؤں کی مانند ہے . جس کے تلے ہر انسان سکون محسوس کرتا ہے. اس کے برعکس باپ کیکر کے کانٹوں جیسا ہوتا ہے ، جو کیکر کی ٹہنیوں اور ہتؤں پر کسی حملہ سے بچاتا ہے . کویُ جاور کیکر کے پتّوں کو کھانا پاہے تو کیکر کے کانتے جانور کے منہ میں چبھیںً گے اور جانور پتّوں کو کھانے سے باز آ جاےُ گا.

نمبر 24 – موتر وچّوں مچھلیان نہ پھڑ
صاف پانی میں پلنے اور رہنے والی مچھلی ہی کھانے کے قابل ہوتی ہے. جو زایُقہ اور فوایُد میں لا جواب ہوتی ہے. آپ نے کسی مچھلی کو پہشاب کے پانی میں پلتے نہیں دیکھا ہوگا. دوسرے لفظوں میں مچھلی پیشاب کے پانی میں سے نہیں مل سکتی. اب اگر کایُ شخص پیشاب کے پانی سے مچھلی ڈھونڈے تو وہ ناکام ہی ہوگا.
کسی بے فایُدہ کام میں ہاتھ ڈالنے والوں کو یہ کہاوت سنا کر نصیحت کی جاتی ہے

نمبر 25 – مرداں باہجون ویہاں کون مکاےُ
مردوں کے نغیر بیس کی گنتی پوری نہیں ہوتی. یا مرد کے بغیر کام مکمل نہیں ہوتا.
ایک میاں بیوی میًں ہر روز جھگڑا ہوتا تھا. خاوند کبھی کویُ کام کرتا جو پیسے ملتے، اس سے دو چار دن دال روٹی کا بند و بست ہو جاتا. ان دنوں میں خاوند دوستوں کے ساتھ گپّیں ہانکتا رہتا. اس کی بیوی سلایُ کا کام کر کے کچھ پیسے بنا لیتی. ایک دن ان کا آپس میں زور کا جھگڑا ہؤا. دونوں نے فیصلہ کیا کہ خاوند کسی دوسری جگہ جا کر محنت مزدوری کرے، پیسے بچاےُ اور چھ ماہ کے بعد گھر آےُ اس دوران اس کی بیوی بھی سلایُ کڑھایُ کا کام کر کے کچھ پیسے بچاےُ گی. چھ ماہ بعد دیکھیں گے کہ کس نے زیادہ پیسے بچاےُ ہین.
چھ ماہ کے بعد خاوند گھر واپس آیا. بیوی سے پوچھا ” تم نے کتنے پیسے بچاےُ ہیں :” بیوی کے سارے روپے سامنے رکھ دےُ. اور گن کر کہنے لگی ” یہ پورے 19 روپے ہیں. اب تم بتاؤ تم کتنے روپے .بچا کر لاےُ ہو” خاوند نے ایک روپیہ 19 روپوں میً ڈالتے ہوےُ کہا ، ” لو ، میں نے بیس کی گنتی پوری کر دی. دیکھا ! مرد ہی بیس کی گنتی پوری کرتا ہے “.
میرے خیال میں یہ کہاوت مرد کو نکھتو ثابت کرتی ہے، لیکن اس کے ساتھ مردوں کی اس جبلت کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ ہر حال میں عورت سے بہتر ہیں.
آپ اس بارے میں کیا کہیں گے ؟

نمبر 26 – مٹھّا ہپ ہپ کوڑا تُھوہ تُھوہ
میٹھا تو ہپ ہپ کر کے بڑی رغبت سے کھاتے ہو اور کڑوے کو تُھو تُھو کر کے پھینک دیتے ہو.

جاری ہے


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *