پنجابی اکھان، ردیف ” م ” نمبر 1 1 – 1

پنجابی اکھان ، ردیف ” م ” نمبر 11-1

پنجابی اکھان ردیف ل‌ نمبر 1 – 8  “کے بعد ردیف “م ” سے شروع ہونے والے پنجابی اکھان پیش کیےُ جا رہے ہیں.

پنجابی اکھانوں میں بعض دتعہ ایسی مثالیں پیش کی گییُ ہیں جنہیں پڑھ کر بے اختیار مسکرانا پڑتا ہے. مثال کے طور پر ردیف م سے شروع ہونے والے پہلے پنجابی اکھاں کو پڑھیےُ. بے اختیار مُسکرا اُٹھے نا. یہ ہے پنجابی اکھانوں کا کمال.

ردیف م کے پنجابی اکھان 11-1 تک حاضر خدمت ہیں؛

نمبر 1 – ماں دیاں ٹنگاں نہیں دھی دا نام بھجنی
ماں کی تو ٹانگیں کٹی ہویُ ہیں، اور بیٹی کہتی ہے میرا نام ” بھجنی ” یعنی دوڑنے والی ہے.
جب کویُ شخص کسی ایسے بات کی شیخی بگھارے جو اس میں یا اس کے خاندان میں نہ ہو تو ایسے موقعون پر یہ کہاوت کہی جاتی ہے.

نمبر 2 – ماں جوڑے پلی پلی دھی دا ناں تھدّی
ًما ں تو ماشہ ماشہ کر کے گھی اکٹھّا کرتی تھی ، اس کی بیٹی اپنے آپ کو چکنی کہلاتی ہے.
فارسی زبان کا محاورہ ” پدرم سلطان بود ” اس کہاوت کا صحیح مفہوم اسا کرتا ہے.

نمبر 3 – ماں کججّی پتراں کجّی
ماں پھوہڑ ہو تو اس کے بیٹے اس کے عیبوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں.
پنجابی زبان کے بعض الفاظ کے شروع میں اگر لفظ ” ک ” لگا دیا جاےُ تو اس لفظ کے معنی الٹ ہو جاتے ہیں ، جیسے لفظ ” چج ” معنی سلیقہ، ہنر . چج سے پہلے “ک” لگا دیں تو بن جاتا ہے “کچج’ یعنی بد سلیقہ، بے ہنر.

نمبر 4 – مامے کنّی دُر بھنییا آکڑیا
لعل تو ماموں کے کان میں سجا ہے یعنی لال یا قیمتی موتی تو ماموں نے کان میں پہنا ہؤا ہے، لیکن اس لعل یا موتی کے تفاخر پر بھانجا اکڑ رہا ہے.
جب کسی ایسی چیز پر فخر کیا جاےُ جو اپنی ملکیت نہ ہو ، تو ایسے موقعوں پر یہ کہاوت بہلی جاتی ہے.
اس کہاوت سے ملتی جلتی پشتو زبان کی ایک کہاوت ہے ، جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے ” گنجی اپنی بہن کے بالوں پر اتراتی ہے “.

نمبر 5 – ماں نہ سویُ ماسی سویُ
جنم تو تمہاری ماں نے دیا ہے، لیکن تمہاری سگّی خالہ تمہیں اتنا ہی پیار کرتی ہے جتنا تمہاری سگّی ماں. یہ سمجھو گویا تمہیں تمہاری خالہ نے جنم دیا ہے.

نمبر 6 – مجھ ملدی نہیں دھہلہ دھاراں منگدا اے.
بھینس دودھ تو دیتی نہیں، اور دھہلہ دودھ مانگتا ہے.
دودھ عمومآ کسی بالتی یا ڈول میں دوہا جاتا جاتا ہے. دودھ دھوہنے والے بعض اشخاص دودھ دوہنے کے درمیان یا دودھ دوہنے کے شروع میں دودھ کی کچھ دھاریں اپنے منہ میں ڈال لیتے ہیں . جس سے بھینس کے تھنوں سے نکلا ہؤا دودھ براہ راست آدمی کے معدے میں جاتا ہے. اسے پنجابی زبان میں ” دھاریں لینا ” کہتے ہیں. ایسا دودھ کافی طاقت دینے والا خیال کیا جاتا ہے.
پہلے وقتوں میں لوگوں کے نام بڑے سادہ ہؤا کرتے تھے، جیسے دھہلا، مہلا، پلّہو، مانو وغیرہ.

نمبر 7 – منگلی ہوندی تے ٹبّر کیوں انگھلاندا
اگر میرے پاس ” منگلی” ہوتی، تو میرے بیوی ، بچّے کیوں اونگھ رہے ہوتے.منگلی مار کر جگاےُ رکھتا.
” منگلی ” کو آپ لکڑی کا بنا ہؤا ہتھوڑا کہ سکتے ہیں. لکڑی کا گول ٹکڑا جو آگے سے موٹا ہو اور پیچھے سے نسبتآ پتلا اور گول ہو، تا کہ ہاتھ میں پکڑا جا سکے، اسے ” منگلی ” کہتے ہیں. یہ عمومآ ڈیڑھ فٹ لمبی ہوتی ہے . دیہات والے جانوروں کو بابدھنے کے لیےُ کھونٹے کو زمین میں گاڑنے کے لیےُ اسے بطور ہتھوڑا کام میں لاتے ہیں.

نمبر 8 – من وکے یا مانی کنک جوایُیاں کھانی
گندم سستی ہو یا مہنگی، دامادوں کو تو گندم کی روٹی ہی کھلانی پڑتی ہے.
پرانے وقتوں میں ایک روپیہ کی ایک من گندم مل جاتی تھی. لوگوں کے پاس پیسہ نہیں ہوتا تھا. گندم بھی اتنی ہی پیدا ہوتی تھی کہ سال مشکل سے گزرتا تھا . لوگ مکیُ، باجرہ کی روٹی کھا کر گزارہ کر لیتے تھے. ایسے میں اگر کسی کا داماد آ جاتا، تو جیسے بھی ہوتا، گندم چاہے کتنی مہنگی ہو، داماد کو تو گندم کی روٹی ہی کھلانی پڑتی تھی.

نمبر 9 – منہ چوہی ڈھڈ کھویُ
منہ تو دیکھو، سوکھا ہؤا، لگتا ہے کچھ کھاتا پیتا ہی نہیں، سوکھ کر کانٹا ہو گیا ہے. لیکن جب کھاتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے اس کا پیٹ کویُ کنواں ہے جس میں اس قدر اناج سما جاتا ہے .

نمبر 10 – منہ نہ متھّا جن پہاڑوں لتھّا
شکل و صورت تو خدا ہی بناتا ہے مگر بعض لوگوں کی شکل صورت ایسی ہوتی ہے کہ ..جسے دیکھ کر بچے ڈر جاییں، جیسے کویُ جن پہاڑ سے اتر کر آ گیا ہو.

نمبر 11.
مٹھّا میوہ دیوے بیری، فیر وی وٹّے کھاوے
صبر بیری دا ویکھ محمد، نیکیاں کردی جاوے

اردو ترجمہ:
بیری کو دیکھو، میٹھے بیر دیتی ہے، حالانکہ لوگ بیر اُتارنے کے لیےُ بیری کو ڈھیلے مارتے ہیں.
بیری کا صبر قابل دید ہے. وٹّے ڈھیلے کھانے کے باوجود میتھے بیر دیتی ہے.

کسی بیری سے بیر آُتارنے کے لیےُ لوگ بیری کے پھل کو  روڑے وٹّے مارتے ہیں، بیری پھر بھی نیکی کرتے ہُوےُ میٹھا پھل دیتی ہے. .

جاری جے.


Comments

One response to “پنجابی اکھان، ردیف ” م ” نمبر 1 1 – 1”

  1. Thanks for your points. I will take this matter to my host.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *