ہمارے سُلگتے مسایُل # 13 – عدم مساوات. Our burning issues # 13- Inequality

Inequality - Rich & poor

ہمارے سُلگتے مسایُل # 13 , عدم مساوات
Our burning issues # 13 – Inequality

عدم مساوات
Inequality

 

Inequality

کل ایک مشہور چوک سے میرا گُزر ہُؤا. وہاں بہت سارے لوگ موجود تھے. بعض کے پاس اپنے اوزار بھی تھے. کچھ لوگ خالی ہاتھ تھے. اتنے میں ایک شخص آیا اُس نے ایک آدمی سے کچھ بات کی. سارا مجمع اُس شخص کے گرد اکٹھا ہو گیا. پتہ چلا کہ اُسے ایک مستری اور ایک مزدور کی ضرورت تھی. اُس نے اپنے گھر کی دیوار کی کچھ مرمت کروانی تھی. وہاں پر موجود ہر آدمی کی یہ کوشش تھی کہ اُسے یہ کام مل جاےُ. وہ شخص شش و پنج میں پڑ گیا . اُس کے لیےُ یہ چُناؤ مشکل ہو گیا کہ کس تجربہ کار مستری کو ساتھ لے جاےُ. سرٹیفیکیٹ تو کسی کے پاس نہیں تھا. ذاتی طور پر بھی وہ کسی کو نہیں جانتا تھا. بہت سارے لوگ اس کے منہ کی طرف دیکھ رہے تھے. آخر میں اس شخص نے نسبتآ بڑی عُمر کے ایک مستری اور ایک ہٹے کٹّے مزدور کو ساتھ لیا اور واپس چلا گیا. مجھے آج سے چالیس پچاس سال پہلے کا زمانہ یاد آ گیا.

آج سے چالیس پچاس سال پہلے پنجاب کے ہر ضلع کے صدر مقام پر حکومت کی طرف سے ایک ادارہ ہوتا تھا جس کا ایک دفتر ہوتا تھا . اُسے ” ایمپلا یُمنٹ ایکسچینج ” کہتے تھے. حکومتی ادارے اور عام پبلک کے دفاتر اپنی اپنی افرادی ضرورت کے لیےُ ایمپلا یُمنٹ ایکسچینج کو لکھ دیتے تھے. عام لوگ اپنے کوایُف ، نام، پتہ، تعلیم ، عمر ، تجربہ وغیرہ کا اندراج بھی کروا دیتے تھے. دفتر والے مطلوبہ کوایٍف کے حامل اشخاص کو بُلا کر انہیں ضرورت مند دفاتر یا اشخاص کے پاس بھیج دیتے تھے. جو اپنے معیار پر پورا اُترنے والے شخص کو چُن لیتے تھے. ایمپلا یُمنٹ ایکسچینج والے لوگوں کی راہنمایُ بھی کرتے تھے کہ وہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے کیا کریں. پتہ نہیں کن وجوہات کی بنا پر یہ مفید محکمہ آج کل نظر نہیں آ رہا. اس محکمے کی وجہ سے  عوام یہ سمجھتے تھے کہ ان کی حکومت ان کی مشکلات دور کرنے کے لیےُ کوشاں رہتی ہے. یہ ایک مثبت سوچ تھی ،جو عوام اپنی حکومت کے بارے میں رکھتے تھے.

عنوانات

آج کل عوام کی سوچ

اپوزیشن کا طرز عمل

محب وطن قومیں

عدم مساوات کیسے دُور ہو. نمبر 1
نمبر 2- سمگلنگ روکی جاےُ.
نمبر 3- رشوت خوری.
نمبر 4- کمیٹی انسداد عدم مساوات.
نمبر 5- مراعات میں عدم مساوات.

 

آج کل عوام کی سوچ

آج کل عوام کی سوچ نہت مُختلف ہے. عوام یہ سمجھتے ہیں کہ اشرافیہ اور عوام میں عدم مساوات بڑھ گیُ ہے. کسی محکمہ میں کویُ جگہ ( پوسٹ ) خالی ہو جاےُ ،  تو اس پوسٹ کو اپنے کسی عزیز ، یا تگڑی سفارش کے حامل شخص کے لیےُ مخصوص کر دیا جاتا ہے. خانہ پُری کے لیےُ اخبارات میں اشتہار دیا جاتا ہے، امیدواروں کو انٹرویُو کے لیےُ بُلایا جاتا ہے. نتیجہ وہی نکلتا ہے جس کا فیصلہ پہلے سے ہو چُکا ہوتا ہے. اس طرح حکومتی اداروں اور عام پبلک کے درمیان ایک دوسرے پر اعتماد میں کمی کی خلیج زیادہ وسیع ہو رہی ہے. لوگ یہ سمجھنے پر مجبور ہو رہے ہیں ، کہ عدم مساوات کا گراف اونچا جا رہا ہے. عام آدمی کی حق تلفی ہو رہی ہے. یہ رُجحان خطر ناک ہے . کچھ پاکستان مخالف لوگ اس رُجحان سے فایُدہ اُٹھا رہے ہیں. اور اس کوشش میں ہیں کہ اس عدم مساوات ایشو کے زریعے ملک مین حکومت مخالف جذبات اُبھارے جاییُں. ملک میں جذباتی لوگوں کی کمی نہیں ، اور کچھ ناعاقبت اندیش لوگ عوام کے ذہنوں میں زہر بھر چکے ہیں. ملک مُخالف لوگوں سے زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے. ہمارے سلگتے مسایُل کی پچھلی قسط پڑھنے کے لیےُ ہمارا آرٹیکل پڑھیےُ.
ہمارے سُلگتے مسایُل # 12، عدم برداشت- Intolerance “
>

اپوزیشن کا طرز عمل

ہر ملک میں حکومت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کا ہونا ایک مثبت قدم ہے. اگر اپوزیشن نہ ہو تو حکومت جو چاہے کرنے میں آزاد ہوتی ہے. یہ اپوزیشن ہی ہوتی ہے جو ھکومت کو اپنی من مانی کرنے سے روکتی ہے. اسمبلیوں میں حکومت کویُ بل پیش کرے تو اپوزیشن اس بل کا جایُزہ لے کر اس میں غلطیوں یا زیادتیوں کی نشان دہی کرتی ہے. اور اس کی اصلاح کی تجاویز پیش کرتی ہے. گویا اپوزیشن ایک طرح سے ” چیک اینڈ بیلینس ” کا کام کرتی ہے. ہمارے ملک میں اپوزیشن کا طرز عمل کسی طرح بھی قابل تحسین نہیں. ہماری قومی اسمبلی میں صدر کی تقریر کے دوران اپوزیشن کا شور شرابہ، سیٹیاں بجانا ، آوازے کسنا باجے بجانا اور اپنے ناروا طرز عمل سے باقی دُنیا کو جو پیغام پہنچایا وہ کسی طرح بھی لایُق تحسین نہیں. اپوزیشن کا یہ طرز عمل دیکھ کر باقی دُنیا کے لوگ ہمیں تہذیب سے نا آشنا لوگ سمجھنے میں حق بہ جانب ہیں. ضرورت اس بات کی ہے کہ اپوزیشن تہذیب کے دایُرہ میں رہتے ہُوےُ اپنا کام کرے. اور دُنیا ہمیں ایک مہذب اور تعلیم یافتہ قوم سمجھے اور اس پر یقین بھی کرے.

محب وطن قومیں

اس وقت ہماری دُنیا میں مُختلف عقایُد اور رسم و رواج کی حامل اقوام موجود ہیں. دینا میں امن قایًم رکھنے کے لیےُ ایک دوسرے کا احترام کرنا ، عقایُد اور رسم و رواج پر تنقید نہیں کرنی چاہیے. ہم کسی کے مذہب اور عقاید بدلنے کے ٹھیکیدار نہیں ہیں. یہ دہنا بنانے والے نے ہر انسان کو عقل عطا کی ہے کہ وہ اپنی عاقبت سنوارنے کے لیےُ صحیح راستہ اختیا کرے. آخرت میں ہر شخص اپنے اعتقاد اور اعمال کے مطابق جزا یا سزا پاےُ گا. اعتقاد کا معاملہ ایسا ہے کہ کسی بھی شخص کو زبردستی اپنا عقیدہ بدلنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا.

جہاں تک تبلیغ کا تعلق ہے ، اس کے لیےُ حُکم ہے کہ تبلیغ کرنے کا طریقہ یا انداز دلنشین ہونا چاہیے. تبلیغ کرتے وقت کسی پر لعن طعن نہیں کرنی چاہیے. اور نہ ہی کسی کے خدا کو بُرا بھلا کہا جاےُ. مہذب اقوام کسی پر اپنے اعتقاد ذبر دستی نہیں ٹھونستیں.

عدم مساوات کیسے دُور ہو

عدم مساوات دور کرنے کے لیےُ سب سے بڑی ذمہ داری حکومت پر عایُد ہوتی ہے. صاف ظاہر ہے عدم مساوات دور کرنے کے لیے اختیارات کا ہونا ضروری ہے. یہ کام مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں. ہمت مرداں، مدد خدا. ایک دفعہ ارادہ کرنے اور پھر اس پر عمل کرنے کی ہمت ہونی چاہیےُ. ہر نیک کام میں اللہ تعالے مدد کرتا ہے. حکومت کے نیک کاموں میں ملک کا متوسط طبقہ ہراول دستے کا کام کرتا ہے. لیکن بُرایُوں کی جڑ کاٹنے کے لیےُ حکوت وقت کو پہلا قدم اٹھانا چاہیےُ.

عدم مساوات دور کرنے کے لیےُ درج ذیل قدم اُٹھاےُ جا سکتے ہیں ؛

نمبر 1

آپ ایک اسمبلی ممبر یا وزیر اور عام آدمی کے حالات اور سہولیات پر نظر ڈالیں تو آپ کو عدم مساوات کا ایک شاندار منظر نظر آےُ گا. اب ذرا ایک وزیر کو دی گیُ سہولیات پر ایک نظر ڈالیں.
وزیر کے لیےُ مفت نیےُ ماڈل کی گاڑی، پٹرول، مکان، بجلی ، گیس، تیلیفون، مفت ایر ٹکٹ، بیرون ملک علاج کی مفت سہولت، ٹی اے ڈی اے، محافط، ایر کنڈ یشنڈ دفاتر. ان کے بچوں کو سکول پہنچانے اور پھر لانے کے لیےُ حکومتی گاڑیاں، بیگمات کے لیےُ علیحدہ گاڑیاں سب کچھ مُفت. ان پر ماہوار کتنا خرچ آتا ہوگا. برطانیہ کا ملک ہم سے زیادہ امیر ہے، اس کے ایک سابقہ وزیر اعظم ٹونی بلیُر کی بیوی ایک دفتر میں کام کرتی تھی، جو اس کی رہایُش سے کافی دور تھا. ٹونی بلیُر کی بیوی اپنے خرچ پر ٹرین میں بیٹھ کر اپنے دفتر جاتی اور واپس آتی تھی. کیوں ! یہ سب سوچ کا فرق ہے. وزرا دفاتر میں کیا کام کرتے ہیں. اس سلسلے میں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا. ہندوستان کے مقبوضہ مشرقی پنجاب کے وزیر اعلے کو ایک لڑ کی کا فوں آیا کہ وہ وزیر اعلے کے دفتر میں ایک دن میں ہونے والے کاموں کا جایُزہ لینا چاہتی ہے. وزیر اعلے نے اُسے ملاقات کے لیےُ دوسرے دن کا وقت دے دیا. لڑکی وقت مقررہ پر وزیر اعلے کے دفتر پہنچ گییُ. وزیر اعلے نے لڑکی کو ایک کرسی پر بٹھا دیا. خود اپنی کُرسی پر بیٹھ گیےُ. اتنے میں چاےُ آ گییُ. وزیر اعلے نےٌلڑکی کو چاےُ پیش کی، خود بھی پی. پھر اپنے پی اے کو بُلایا. آج کے کام کرنے والے کاموں کے متعلق پوچھا. پی اے نے بتایاکہ آپ کے سامنے فایُلیں پڑی ہیں، ان پر آپ کے احکامات کی ضرورت ہے. پھر وزیر اعلے نے چار پانچ ٹیلی فون کیےُ. آدھہ گھنٹہ اس میں گزر گیا. پھر اپنے سامنے پڑی فایُلوں میں سے ایک فایُل اُٹھایُ. ایک منٹ تک اسے کھول کر دیکھتے رہے، پھر فاٰیُل رکھ دی. اتنے میں چاےُ آ گییُ. چاےُ پیتے ہُوےٰ ٹیلی فون پر باتیں بھی ہوتی رہیں. پھر اپنے ایک کلرک کو بُلایا، اُس پر ناراض ہوتے رہے کہ کل ان کے لڑکے کو سکول سے لانے میں دیر کیوں ہو گییُ. ان سارے کاموں میں لڑکی کو دیا ہُوا وقت ختم ہو گیا. لڑکی نے جانے کی اجازت چاہی. وزیر اعلے نے لڑکی سے پوچھ” یہ بتاؤ، تمہیں ہمارے کام کا طریقہ کیسے لگا ؟”. لڑکی نے جواب دیا ” آپ کے کام کو دیکھتے ہُوےُ میں یہ کہہ سکتی ہؤں کہ میں یہی کام آپ سے بہتر طریقے پر کر سکتی ہُوں “. آپ سمجھ گیےُ ہوں گے کہ یہ سارا قصّہ سنانے میں میرا پیغام کیا تھا. ہمارے ہاں بھی کچھ ایسا ہی سلسلہ چل رہا ہے. سب ” ڈنگ ٹپاؤ ” کام ہو رہے ہیں.

اپنے ملک میں آج کل قومی اسمبلی مین قایُمہ کمیٹیوں کے چیُرمینوں کو مقرر کرنے کا سلسلہ چل رہا ہے. قایُمہ کمیٹیوں کے چیُرمینوں کی تنخواہ اور مراعات کی تفصیل روزنامہ جنگ لاہور کے26 اپریل سن 2024 عیسوی کے شمارہ میں شایُع ہُویُ ہیں. جو اس طرح ہیں:

قایُمہ کمیٹیوں کے چھیُرمینوں کی تنخواہ اور مراعات کی تفصیل
اسلام آباد ( آن لایُن) کرایُم رپورٹر، نامہ نگار.
قایُمہ کمیٹی کے چیُرمینوں کی قومی خزانے سے ماہانہ لاکھوں روپے کی تنخواہ اور مراعات کی تفصیلات سامنے آ گییُں .پٹرول، موبایُل بیلنس اور مُفت میڈیکل کی سہولت کے علاوہ سرکاری رہایُش گاہ، 1300 سی سی گاڑی، ڈرایُور، اسسٹنٹ، نایُب قاصد کی سہولیات میسر ہوں گی. پارلیمانی ذرایُع کے مطابق قومی اسمبلی کی قایُمہ کمیٹیوں کے چیُرمینوں کو بھی بھاری بھرکم مراعات حاصل ہوں گی. اراکین، پارلیمنٹ سیلریز استحقاق 1974 کے تحت چیُرمین اضافی مراعات کے حقدار ہوں گے. ہر کمیٹی کے منتخب چیُرمین کو بنیادی تنخواہ کی مد میں 2 لاکھ روپے سے زیادہ ماہانہ ملیں گے. چیُرمین کو 1300 سی سی کار بمعہ ڈرایُور دی جاےُ گی. 360 لٹر پٹرول ماہانہ ملے گا. گریڈ 17 کا ایک پرایُویٹ سیکرٹری، گرییڈ 15 یا 16 کا پراییُویٹ اسسٹنٹ اور نایُب قاصد بھی ملے گا. چیُرمین کی رہایُش گآہ پر نصب سرکاری ٹیلی فون کی حد 10 ہزار ماہانہ ، دفتری فون فری ہو گا. چیُر مین کمیٹی کو پارلیمنٹ ہاؤس کی طرف سے دفتر بھی الاٹ کیا جاےُ گا. بطور ایم این اے اسے ملنے والی مراعات جاری رہیں گی. ایم این کی تنخواہ سے چیُرمین کمیٹی کو روزانہ 12 ہزار روپے اضافی ملیں گے.پارلیمانی ذراُیع کے مطابق چیُرمین اور اس کی فیملی کے میڈیکل اخراجات گریڈ 22 کے آفیسر کے مطابق ہوں گے. بطور ایم این اے دیگر مراعات اور الاؤنسز بھی ملتے رہیں گے. قومی اسمبلی ہر سال قایُمہ کمیٹیوں کے لیےُ الگ سے بجٹ مُختص کرتی ہے. قومی اسمبلی کا اجلاس نہ ہونے کی صورت میں کمیٹی اجلاس ہو تو 4700 ڈیلی الاؤنس کی مد میں ملے گا.

مندرجہ بالا مندرجات روزنامہ جنگ، لاہور ، مورخہ 26 اپریل سن 2024 عیسوی کے صفحہ نمبر 12 اور صفحہ نمبر 10، سلسلہ نمبر 33 پر درج ہیں.

قومی اسمبلی میں قایُمہ کمیٹیوں کی تعداد غالبآ 29 ہے. یہ مقروض ملک ان قایُمہ کمیٹیوں کے چھیُرمینوں کے ماہانہ بھاری بھرکم اخراجات اُٹھاےُ گی. ان کے مقابلے میں ایک عام آدمی کی فلاح و بہبود پر حکومت کا ماہانہ خرچ کتنا آتا ہو گا ؟. کیا یہ عدم مساوات دُور ہو سکتی ہے ؟. ہو سکتی ہے لیکن اشرافیہ کے خلاف اقدامات اٹھانے ہوں گے. جو ان مراعات کے عادی حضرات کے لیےُ سخت نا پسندیدہ ہوں گے.

نمبر 2 – سمگلنگ روکی جاےُ.

سمگلنگ کے بارے میں ” کہاں تک سنو گے، کہاں تک سُنایُں ” والی بات صحیح لگتتی ہے . اخبارات مین ایسی خبریں شایُع ہوتی رہتی ہیں کہ ایران سے روزانہ ہزاروں لٹر ڈیزل آیُل اور پٹرول ایران، پاکستان کی سرحد سے سمگل ہو رہا ہے. اب یہ مت کہیےُ کہ اس سمگلینگ میں کسٹم کارندوں کی اعانت شامل نہیں ہے. پاکستان افغان بارڈر بھی مختلف اشیا کی سمگلنگ کے لیےُ ایک محفوظ گیٹ وے بن چکا ہے. اسی طرح پاکستان چایُنا بارڈر، واہگہ باڈدر، صوبہ سندھ سے انڈیا سے ملنے والی سرحد بھی سمگلنگ کی ایک محفوظ راہداری ہے.

مسلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کی مشرقی اور مغربی سرحدیں اتنی لمبی ہیں کہ ہم ان سرحدوں کو پوری طرح کنٹرول نہیں کر سکتے. دوسرے سمگرون نے ایسے ایسے چور دروازے بنا رکھے ہیں جو ہماری نطروں سے اوجھل ہیں. پھر بھی ایک کام تو ہم کر سکتے ہیں. جب کسی ملزم پر سمگلنگ ثابت ہو جاےٰ، تو اُسے پھانسی دے دی جاےُ. ایسے فیصلے میں اپیل کی گنجاُش نہ ہو. جب دو چار سمگلروں کو پھانسی ہو جاےُ گی تو باقی سمگلر سمگلنگ کرنے سے پہلے سو بار سوچیں گے.

یہ سمگلر تھوڑا سا رسک لے کر بہت سا پیسہ کما لیتے ہیں. تو ہھر انہیں اس کام کا چسکہ پڑھ جاتا ہے. کافی امیر ہونے کے بعد یہ اسمبلیوں کے الیکشنوں میں قسمت آزماتے ہیں. اور کامیاب ہونے کی صورت میں سمگلنگ کے خلاف کویُ قانون نہیں بننے دیتے.

نمبر 3 – رشوت خوری.

اپنے ملک میں بعض محکمے ایسے ہیں ، جہاں رشوت خوری اتنی عام ہے کو وہاں رشوت لینے کو جُرم نہیں سمجھا جاتا. جب رشوت کے پیسے گھر میں آتے ہیں. تو گھر کے افراد اپنے آپ کو عام آدمیوں سے اونچا سمجھنے لگتے ہیں. مہنگی گاڑیاں، وافر پیسہ. بہترین پوشاک اور بے تحاشہ خرچ کرنا انہیں عام لوگوں سے اونچا سمجھنے میں مدد دیتا ہے. عدم مساوات کی یہ بھی ایک وجہ ہے.

رشوت خوری دور کرنے کے لیےُ کیُ ایک اقداماے کیےُ جا چکے ہیں. لیکن کویُ فایُدہ نہیں ہُؤا.ایک طریقہ اور ہے اسے بھی آزما کر دیکھیےُ. حکومت کے سازے ملازمین، چھوتے یا بڑے، صدر سے لے کر چھڑاسی تک ہر ملازم یہ حلف  اُٹھاےُ : حلف کا نمونہ یہ ہے؛

میں عبدالحکیم ولد ثنا اللہ ، شناختی کارڈ نمبر 6- 3456789 – 12345 ساکن مکان نمبر 67، عالم سٹریٹ، نمبر 4 ، مغلپورہ، لاہور کا رہایُشی ہوں، اللہ تعالے کو حاضر ناظر جان کر یہ عہد کرتا ہُوں کہ میں کسی بھی ملازمت میں ، کسی بھی پوسٹ پر رہتے ہوےُ نہ رشوت لُوں گا اور نہ کسی کو رشوت دُوں گا، اور نہ ہی کسی رشوت کی ادایُگی میں مددگار بنوں گا. اگر میں اپنے اس عہد کی خلاف ورزی کروں تو اللہ تعالے مجھے اس کی سزا میں   ہمیشہ کے لیےُ جہنم میں ڈال دے. دستخط عبدالحکیم
یہ عہد ہر ملازم کی پرسنل فایُل میں موجود ہونا چاہیےُ. یہ عہد کرنے کے بعد امید کی جا سکتی ہے کہ ہر ملازم رشوت لینے یا دینے اسے پہلے یہ ضرور سوچے گا کہ رشوت لینے یا دینے کی صورت میں قیامت کے دن اُسے جہنم میں ڈال دیا جاےُ گا ، اور وہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے. امید کی جاتی ہے کہ لوگ اپنی عاقبت کی سزا کو مدنطر رکھیں گے. اگر لوگ اس عہد کو توڑتے ہیں ، تو وہ جانیں اور اللہ جانیں.

نمبر 4 – کمیٹی انسداد عدم مساوات.

عدم مساوات ایسا مسُلہ ہے کہ اس کو حل کرنے کے لیےُ بہت سارے ذہین دماغوں کی ضرورت ہے. ملک کی چاروں صوبایُ اسمبلیاں دوسری قایُمہ کمیٹیوں کی طرح ” انسداد عسم مساوات ” کمیٹیاں بنایُں، جن کا چیُرمین کویُ پی ایچ ڈی یا ایم اے پاس ممبرہو جس کی عُمر 40 سال سے زیادہ ہو. اس کے کردار پر کسی قسم کا دھبہ نہ ہو اس کے دل میں عوام سے ہمدردی کُوٹ کُوٹ کر بھری ہو. مراعات کا طلبگار نہ ہو. چاروں صوبوں کی یہ کمیٹیاں اپنی اپنی سفارشات قومی اسمبلی کی انسداد عدم مساوات کیٹی کے چیُرمین کو مقررہ وقت کے اندر بھیج دیں. یہ کمیٹی صوبوں کی کمیٹیوں کی سفارشات میں سے قابل عمل اقدامات کی فہرست قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیش کرے. قومی اسمبلی اس پر بحث کر کے قابل عمل قانون بناےُ. اس قانوں پر عمل بھی کرایا جاےُ. یہ ایک تجویز ہے ، جس پر بحث کر کے اس کی نوک پلک درست کی جا سکتی ہے.

نمبر 5 – مراعات میں عدم مساوات.

حکومتی محکموں میں افسر اورماتحت عملے کی تنخواہوں اور مراعات میں عدم مساوات بہت وسیع ہے. عدم مساوات کی اس خلیج کو پاٹنا ملک کے لیُے بہت فاایُدہ مند ہو گا.

اللہ تعالے سے دُعا ہے کہ وہ ہمارے ملک کو قایُم و دایُم رکھے ، اور ہر شہری صدق دل سے اپنے ملک کی خدمت کرے. آمین .

6 Responses

  1. Its like you read my mind You appear to know a lot about this like you wrote the book in it or something I think that you could do with some pics to drive the message home a little bit but instead of that this is fantastic blog An excellent read I will certainly be back

  2. I simply could not go away your web site prior to suggesting that I really enjoyed the standard info a person supply on your guests Is going to be back incessantly to investigate crosscheck new posts

  3. I have read some excellent stuff here Definitely value bookmarking for revisiting I wonder how much effort you put to make the sort of excellent informative website

  4. Magnificent beat I would like to apprentice while you amend your site how can i subscribe for a blog web site The account helped me a acceptable deal I had been a little bit acquainted of this your broadcast offered bright clear idea

    1. Thanks for ur helping hands. Actually, we have our own editorial board to write article. Any way, thanks for your concern and have a nice day.

Leave a Reply