ہمارے سُلگتے مسایُل، قسط 2، اخلاقی گراوٹ، Our burning issues, Part 2, Immorality.

Immorality is trigged with skin tight dresses.

ہمارے سُلگتے مسایُل، قسط 2، اخلاقی گراوٹ

Our burning issues, Part 2, Immorality

 

ٰImmorality: 

آج پم “ہمارے سُلگتے مسایُل ، قسط 2، اخلاقی گراوٹ “کے موضوع پر بات کریں گے. اس سے پہلے ہم نے ” ہمارے سُلگتے مسایُل، قسط 1 ، امن و امان “کو موضوع سُخن بنایا تھا. آج کا موضُوع اس لحاظ سے کافی اہمیت کا حامل ہے کہ مذہب اسلام میں حُسن اخلاق کو بڑی اہمیت دی گیُ ہے. حُسن اخلاق کا تعلق براہ راست اللہ کے بندوں سے ہے. آپ جانتے ہیں کہ حقوق کی دو اقسام ہیں .حقُوق اللہ اور حقوق العباد.  حقوق اللہ کا تعلق اللہ کے بندے اور اللہ کے درمیان ہے. اگر کسی شخص نے اللہ کے حقوق ادا نہیں کیےُ تو قیامت کے دن اللہ تعالے اپنے ادا نہ کیےُ جانے والے حقوق کو معاف کر سکتا ہے یا سزا دے سکتا ہے. یہ اللہ تعالے کی اپنی مرضی پر منحصر ہے. ہمیں اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیےُ. حقوق العباد کا تعلق دو اشخاص کے درمیان ہوتا ہے. حقوق العباد کی اہمیت اس لیے زیادہ ہے کہ یہ حقوق ادا نہ کرنے کی وجہ سے مخلوق خدا کے درمیان شر اور فساد پھیلنے کا اندیشہ ہوتا ہے. حقوق العباد میں ہر وُہ کام شامل ہے جو انسانیت کے لیےُ مفید ہے. ذہن میں رہے کہ قیامت کے دں حقوق العباد کا معاملہ ان افراد کے درمیان ہوگا جن کے حقوق غصب کیےُ گیےُ تھے. اللہ تعالے حقوق العباد کو معاف نہیں کرے گا.، تا وقتیکہ وہ شخص معاف نہ کر دے جس کے حقوق دُنیا میں ادا نہ کیےُ گیےُ تھے یا سلب کیےُ گیےُتھے . ہم اگلے پیرایہ میں ان حقوق پر تفصیل سے بحث کریں گے.

عنوانات:

عُریانی.
اشتہارات.
سٹیج ڈرامے.
ٹیلی ویژن.
مخرب الاخلاق مواد.
ہماری پنجابی فلمیں. .
بے ہُودہ لباس.

اخلاقی گراوٹِ

اللہ تعالے نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے، حضرت انسان خیر سے ” مسجود ملایُک ” بھی ہیں. اللہ تعالے نے اپنی آخری کتاب میں اسے یُوں بیان کیا ہے .

 اور بے شک ہم نے تمہاری تخلیق کی، پھر تُمہاری شکل و صُورت بنایُ. پھر ہم نے کہا  فرشتوں سے کہ سجدہ کرو آدم کو، تو سجدہ کیا سب نے سواےُ ابلیس کے. وُہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ تھا. ( اللہ نے ) پُوچھا تمہیں کس چیز نے سجدہ کرنے سے روکا. جب کہ میں نے تمہیں ( سجدہ کرنے کا ) حُکم دیا تھا. ( ابلیس) بولا میں بہتر ہُوں اس (آدم ) سے، تُو نے مجھے آگ سے پیدا کیا، اور اس ( آدم ) کو مٹّی سے، فرمایا تُم یہاں سے نیچے اُتر جاؤ، تمہیں کویّ حق نہیں پہنچتا کہ تُم اپنی بڑایُ کا یہاں گھمنڈ کرو، نکل جاؤ. در حقیقت تُو اُن لوگوں سے ہے جو خود اپنی ذلّت چاہتے ہیں. ابلیس بولا مجھے مُہلت دو اُس دن تک کہ سب دوبارہ اُٹھاےُ جایُیں گے. فرمایا تجھے مہلت ہے. بولا چُونکہ تو نے ہی مجھے گُمراہ کیا ہے، تو میں ضرور انسانوں کی گھات میں لگا رہوں گا . پھر میں ضرُور گھیرُوں گا انہیں آگے سے اور پیچھے سے، اور اُن کی دایُیں طرف سے اور بایُیں طرف سے، اور آپ ان میں سے اکثر کو شکر گُزار نہیں پایُیں گے. فرمایا نکل جا یہاں سے ذلیل اور ٹھُکرایا ہُؤا، یقین رکھ کہ ان میں سے جو تُمہاری پیروی کرے گا، تو میں تمہارے سمیت ان سب سے ضرور جہنم کو بھروں گا. ” سورہ الاعراف ،آیت نمبر 11 سے 18

آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالے کے ایک حُکم کی نافرمانی پر ابلیس راندہ درگاہ ٹھہرا. اللہ تعالے نے ہمیں حقوق العباد ادا کرنے کا حُکم دیا ہے. اگر ہم اُس کے حُکم کی خلاف ورزی کریں گے تو اس کی سزا ہمیں بھُگتنی پڑے گی. کسی کا جایُز حق مار لینا، کسی کو گالی دینا، کسی کی ملکیتی زمین ، مکان ، جایُداد پر زبردستی قبضہ کر لینا، سُود خوری، چوری، ڈاکہ، فراڈ، غُنڈہ گردی، کسی کو ناحق قتل کر دینا، رقم لے کر کسی کو قتل کر دینا ( اُجرتی قاتل )، ہمسایوں کے حقوق ادا نہ کرنا، بھتّہ خوری ، ذخیرہ اندوزی، عدالت میں جھُوٹی گواہی دینا، سچ کو چھُپانا، کسی پر تُہمت لگانا ، کسی کو اغوا کر لینا، رشوت دینا اور لینا، جانتے بُوجھتے غلط فیصلہ دینا، رشوت لے کر غلط فیصلہ دینا، زنا، غرض ہر وُہ کام کرنا جسے کرنے سے مذہب نے منع کیا ہو حقوق العباد کے زُمرے میں آتے ہیں.

اللہ تعالے نے ہر انسان کو نیک فطرت پیدا کیا ہے. انسان اپنے ماحول سے اثر لیتا ہے. بچپن میں انسان کو جو ماحول ملتا ہے وہ اس پر گہرے اثرات چھوڑتا ہے. والدین نے اپنی اولاد کی تربیّت اچھی کی ہو تو اُن کی اولاد کی سوچ یقینآ اچھّی ہونی چاہیےُ. انسان اپنے بیرُونی ماحول سے بھئی متاثر ہوتا ہے. اس کی محرومیوں کا مداوا کرنے کی نوید ( چاہے جھوٹی ہو ) اُسے اپنی طرف کھینچ لیتی ہے. نعض چالاک لوگ اس انسانی فطرت کو کام میں لاتے ہُوےُ انسان کو اپنا گرویدہ بنا لیتے ہیں. ایسے لوگ بڑے چرب زبا ں ہوتے ہیں. وہ لوگوں کو پُر مُسرت اور آزادی کی نوید کے سُہانے خواب دکھاتے ہیں. یہ لوگ خود کو بڑا پارسا اور عوام کا ہمدرد ظاہر کرتے ہیں. یہ اپنی تقریروں میں عوام کو حکومتوں کے خلاف بھڑکاتے ہیں. مختلف حکومتی اداروں کے خلاف زہر اُگلتے ہیں. ایسا کرنے سے پہلے یہ اپنی ایک سیاسی پارٹی بناتے ہیں. جسے یہ اپنے مقاصد کے لیےُ استعمال کرتے ہیں. بیرون ملک ان کے ہم خیال انہیں سپورٹ کرتے ہیں . پاکستان دُنیا کے اسلامی ممالک میں واحد مُلک ہے جو ایٹمی پاور بھی ہے. اور یہ بات دُنیا کے کییُ ممالک کی آنکھوں میں کھٹکتی ہے. ایسے ممالک ایسی سیاسی پارٹیوں کی تاک میں رہتے ہیں. انہیں بیرونی زر مبادلہ کی شکل میں مدد دی جاتی ہے. یہ بیرونی ممالک سب سے پہلے ٹارگیٹ ملک کے عوام کے اخلاق کو بگاڑتے ہیں . فحاشی اور عریانی کو فروغ دیا جاتا ہے. اخلاقی اقدار کو بگاڑا جاتا ہے. اپنے مُخالفین کی پگڑیاں اُچھالی جاتی ہیں. سوشل میڈیا پر بے ہُودہ پراپیگنڈا کیا جاتا ہے.

بد قسمتی یا ہمارے شامت اعمال کے نتیجہ میں ملک میں ایک ایسی سیاسی پارٹی کی بُنیاد رکھی گییُ جس کا ایجنڈا صرف اور صرف آقتدار حاصل کر کے مُلک کو اتنا کمزور کرنا تھا کہ کہ باقی دُنیا کے لوگ یہ سمجھنے پر مجبور ہو جاییُں کہ پاکستان اپنے ایٹمی ہتھیاروں کی کما حقہُ حفاظت نہیں کر سکتا ، اس لیےُ پاکستان کے ایٹمی ہٹھیار بین الاقوامی نگرانی میں دے دیےُ جاییُں. ایک سازش کے تحت اس پارٹی کو الیکشن میں دھاندلی کے ذریعے جتوایا گیا. پارٹی کے سربراہ کو ملک کی باگ ڈور دے دی گییُ. آس حکومت نے سب سے پہلے عوام کی اخلاقی اقدار کو بگاڑنا شروع کیا. عورتوں کو ” آزادی” کے نام پر مادر پدر آزادی کی طرف راغب کیا . عورتوں کی شرم و حیا کا مُحافظ دوپتّہ اور چادر کو لپیٹ کر صندوق میں رکھ دیا گیا. اکبر الہہ آبادی نے موجودہ حالات کا نقشہ کچھ یُوں کھینچا تھا :
بے پردہ نظر آییُں کل جو چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت ملّی سے گڑ گیا
پُوچھا جو اُن سے آپ کا پردہ وُہ کیا ہُؤا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا

کچھ ایسی ہی حالت آج کل ہو چُکی ہے. عورتیں ننگے سر پھرتی ہیں. اپنے جسم کی نمایُش اس طرح کرتی ہیں کہ ” صاف چھُپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں “. عورتٰوں نے دوپٹپہ کی جگہ اپنے بالوں کو دے دی ہے. ایک آدھ لایُق تحسین کو چھوڑ کر کسی عورت کے سر یا سینہ پر کویُ دوپٹّہ یا چادر نظر نہیں آتی. ٹی وی چینلز کی اینکر پرسن دوپٹہ کی جگہ اپنے بال سینہ پر ڈال کر یہ سمجھ لیتی ہیں کہ اللہ کا حُکم ادا کر رہی ہیں. کسی کو اپنی عاقبت کی فکر نہیں. پردہ کے متعلق اللہ کے احکام جاننے کے لیےُ ہمارا ارٹیکل “ آنٹی ! آپ کا دوپٹّہ کدھر ہے – قسط نمبر 1 ” پڑھیےُ.

اس بے پردگی کا لازمی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ نوجوانوں میں بے راہ روی بڑھ گییُ ہے. عورتیں محفوظ نہیں رہیں. یہ سارا منصوبہ اسی سیاسی جماعت کا ہے. اس بے ہُودگی کو یہ پارٹی عورتوں کی آزادی کے نام سے پُکارتی ہے. اور پڑھے لکھے لوگ اس پر اپنی آنکھیں بند کر کہتے ہیں ” مُرشد ! آپ نے ٹھیک فرمایا “.

عُریانی

کسی قوم کو اخلاقی پستی میں دھکیلنے کے لیےُ شیطان سب سے پہلے اس قوم کو عُریانی پر راغب کرتا ہے. یہ عُریانی سب سے پہلے عورتوں سے شروع ہوتی ہے. شیطان انہیں سمجھاتا ہے کہ یہ عُریانی نہیں ، بلکہ فیشن ہے. نیم عُریاں ہونا ترقی پسند ہونے کی نشانی ہے. عورت جبلّی طور پر خود کو چاہے جانے یا تعریف کیےُ جانے کو پسند کرتی ہے. چالاک لوگ عورت کی اس خؤاہش کو خوب پہچانتے ہیں ، اور اسے اپنی مالی ترقی کے لیےُ استعمال کرتے ہیں. اس کے لیےُ وہ مختلف حربے استعمال کرتے ہیں: ان میں سے کچھ حسب ذیل ہیں:

اشتہارات:

آپ نے کبھی کویُ ایسا اشتہار دیکھا ہے جس میں صرف ایک مرد ہو ؟. ہر اشتہار میں ایک آدھ عورت ہی دکھایُ جاتی ہے. آیک مضحکہ خیز اشتہار دیکھا جو کسی رہایُشی سوسایُٹی کا ہے، اس میں مختلف سایُز کے پلاٹ اورمکانات دکھاےُ گیےُ ہیں اور ان کے اُوپر ایک عورت کی تصویر ہے. اب یہ پتہ لگانا مُشکل ہو جاتا ہے کہ کس چیز کو خریدنے کی ترغیب دی جا رہی ہے ، پلاٹ کو یا عورت کو. اشتہار میں عورت کو مختصر کپڑے پہناےُ گیےُ ہیں. کیا یہ عورت کی تذلیل نہی ؟.

سٹیج ڈرامے:

سٹیج ڈرامے جو آج کل دکھاےُ جا رہے ہیں، یہ بے ہودگی اور لچّر پن کو بڑھاوا دینے میں بہت مدد گار ثابت ہو رہے ہیں. کویُ بھی حیا شرم والا گھرانہ اپنے فیملی کے ساتھ یہ سٹیج ڈرامے نہیں دیکھ سکتا. کیا ایسے سٹیج ڈرامے پیش کرنے والے اپنے گھر والوں کے ساتھ یہ سٹیج ڈرامے دیکھ سکتے ہیں ؟. اگر نہیں تو یہ لوگ اپنے فایُدے کے لیےُ قوم کا اخلاق کیون بگاڑ رہے ہیں ؟.

ٹیلی ویژن:

ٹیلی ویژن پر پیش کیےُ جانے والے ڈراموں میں کرداروں کے لباس بہت بھڑکیلے اور شہوت انگیز ہوتے ہیں. انہیں دیکھ کر ایسے ہی لباس پہننے کو جی چاہتا ہے. سکت نہ ہونے کی شکل میں نا جایُز ذرایُع سے حاصل کرنے کی کوشش میں کیُ لڑکیاں غلط کاموں میں پھنس جاتی ہیں. یا غلط جگہ پہنچ جاتی ہیں. ٹی وی کی اکثر اینکر لیڈیز ننگے سر اور دوپٹہ کے بغیر ہوتی ہیں. دوپٹے کی جگہ وہ اپنے بالوں کو سینہ پر ڈال کر یہ سمجھ لیتی ہیں کہ انہوں نے اللہ کا حُکم بجا لایا ہے. اللہ ہی ہے جو انہیں ہدایت دے.

مُخرب الاخلاق مواد.

اخلاقی بے راہ روی کا ایک بڑا سبب مُخرب الاخلاق مواد کی بآسانی دستیابی ہے. آج کل تقریبآ ہر شخص کے پاس موبایُل فون ہے. جس سے وہ اپنی دلچسپی کا مواد کسی بھی وقت حاصل کر سکتا ہے.بد قسمتی سے ہمارا نوجوان طبقہ جنسی مواد کا بڑا دلدادہ ہے. مغربی ممالک میں ایسا مواد بنانے کے کیُ ادارے ہیں. جو نت نییُ ویڈیوز بنا کر مارکیٹ میں پھیلا رہے ہیں. ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی حکومت مخرب الاخلاقی پھیلانے والے چینل پر مکمل پابندی لگا دے. آج کل آیُ ٹی کا زمانہ ہے . اور ہر وہ کام کیا جا سکتا ہے جو پہلے ناممکن تھا. ایسا ایک سافٹ ویُیر بنایا جا سکتا ہے جو گندے مواد کو روک سکے. ملک کو اس گند سے بچانے کا جذبہ ہونا چاہیےُ.

ہماری پنجابی فلمیں.

ایک زمانہ تھا ہماری پنجابی فلموں میں لچّر پن نہیں تھا. آج کل ہر فلم میں بے ہُودہ ڈانس ضرور دکھاےُ جاتے ہیں. آج کل کی پنجابی فلموں میں گاؤں کی لڑکیاں جیسا ڈانس کرتی ہیں ، یا ہیرویُن اکیلے رقص کرتی ہے ، ایسے رقص پاکستان کے کسی بھی گاؤں میں نہیں کیےُ جاتے. فلموں میں جس طرح گاؤں کا کلچر دکھایا جاتا ہے ایسا کسی بھی گاؤں میں نہیں ہوتا. فلم ساز فلم میں ایسے رقص دکھا کر اپنی تجوریاں تو بھر لیتے ہوں گے.، اس کے ساتھ ہی قوم کا اخلاق بگاڑنے کے گناہ کو بھی سمیٹ رہے ہیں. جس کا انہیں قیامت کے دن حساب دینا ہو گا.
حیران ہُوں کہ پاکستان کا فلم سنسر بورڈ ایسی لچّر فلموں کو نمایُش کی اجازت کیسے دے دیتا ہے ! آپ نے دیکھا ہوگا کہ پنجابی کی زیادہ تر فلموں کا موضوع لڑایُ بھڑایُ، مار دھاڑ اور بدلہ لینے کا ہوتا ہے. جس میں ہیرو اکیلا ہی بہت سارے مخالفوں کو لڑایُ میں لم لیٹ کر دیتا ہے. ذندگی صرف مار ڈھاڑ پر مشتمل نہیں ہے. بہت سارے سنجیدہ موضوعات پر صاف سُتھری فلمیں بنایُ جا سکتی ہیں. یہ ضروری نہیں کہ فلم میں لڑکیوں کے جسموں کی نمایُش کی جاےُ. پُرانی پنجابی فلموں کو دیکھیےُ، جنہیں اپنی پوری فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھا جا سکتا ہے. کیا آج کل کی پنجابی فلموں کے فلم ساز اپنی پوری فیملی کے ساتھ اپنی بنایُ ہُویُ فلم کسی سینما ہال میں بیٹھ کر دیکھ سکتے ہیں ؟ اگر نہیں، تو پھر قوم کا اخلاق بگاڑنے میں اپنی شرکت کیوں ؟ کاروبار اور بھی ہیں. وہاں طبع آزمیُ کیجیےُ. رزق حلال کمایےُ. اللہ تعالے کے غضب سے نچنے کی کوشش کرتے رہیےُ.

بے ہُودہ لباسِ

کسی شخص کا لباس اُس کی شخصیت کا آیُینہ دار ہوتا ہے. کسی شخص کے پہنے ہُوےُ لباس سے ہی ہم کافی کچھ پرکھ سکتے ہیں . ہمارا لباس ایسا ہونا چاہیےُ کہ دیکھنے والے پر اچھا تاثر جاےُ. بُرا ہو فیشن کا. جس نے عورتوں کو بے لباس کر دیا ہے. لفظ ” عورت ” کے معنی ہیں ” چھُپایُ جانے والی چیز”. اشتہارات نے آج کل کی عورت سے اُس کا حُسن چھین لیا ہے. صرف اشتہار دینے والوں کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا. اگر عورتیں بولڈ اشتہارات میں کام نہ کریں تو کویُ انہیں مجبور نہیں کر سکتا.

عورت کا لباس کیسا ہونا چاہیےُ ؟ تفصیلات کے لیےُ پمارا آرٹیکل “ آنٹی ! آپ کا دوپتّہ کدھر ہے ؟ قسط نمبر 3 ” پڑھیےُ.
آج کل عورتیں سکن ٹاییُٹ لباس پہننے لگ گیُٰ ہیں. ایک مسلم عورت کے لیےُ ایسا لباس پہننے کی ممانعت ہے. جس میں اس کے جسم کے خطوط ظاہر ہونے لگیں. یہ اللہ تعالے کا حُکم ہے. اگر آپ مسلمان ہیں تو اللہ کا حُکم مانیےُ. رُو گردانی کی ذرا بھی گنجا یُش نہیں.

عورتوں اور مردوں کا سکن ٹایُٹ لباس پہننا ہر لحاظ سے ممنوع ہے. ایسا لباس بے راہ روی کی ترغیب دے کر لوگوں کا اخلاق بگاڑنے کی ایک بڑی وجہ ہے. حکومت وقت سمگلنگ، رشوت، ذخیرہ اندوزی وغیرہ نہ کرنے کے اشتہارات اخبارات میں شایُع کروا رہی ہے. حکومت اخبارات میں سکن ٹایُٹ لباس نہ پہننے کے اشتہارات بھی شایُع کرواےُ تو اس سے بہتوں کا بھلا ہوگا.

مندرجہ بالا خرابیوں کو درست کرنے کے لیےُ انقلابی اقدامات اُٹھانے پڑیں گے. جزا و سزا کا اسلامی نظام نافذ کرنے سے ہم ایک فلاحی مملکت کا درجہ حاصل کر سکتے ہیں. یہ نظام درجہ بہ درجہ نافذ کیا جا سکتا ہے. سب سے پہلے چوری کی سزا دایاں ہاتھ کاٹنے کی سزا کا قانون لاگو ہونے سے اگر ایک یا دو مجرموں کی سزا پر عمل ہو جاےُ تو باقی چور چوری سے توبہ کر لیں گے. ذنا کی سزا پر عمل ہو گیا تو لوگ توبہ تایُب ہو کر سیدھے راستے پر  .چلیں گے.

اللہ تعالے ہم سب کو راہ راست پر چلنے کی توفیق عطا فرماےُ. آمین. ثُم آمین.

2 Responses

  1. Hi, great post There is a problem with your website on Internet Explorer. Despite being the most popular browser, many people will not be able to view your excellent work because of this issue.

Leave a Reply