ہمارے سلگتے مسایُل # 10
دین سے دُوری
Our burning issues # 10
Farness from religion
Farness from religion
آج سے تقریبآ 100 سال پہلے تک کے لوگوں میں اپنے دین سے وابستگی تھی. مسجدیں آباد تھیں. لوگ ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے. ایک دوسرے کے کام آتے تھے. اگر کسی گھر میں کویُ فوت ہو جاتا تو پُورے محلے میں کسی کے گھر میں میت کے دفن ہونے تک کھانا نہ پکتا تھا ، فوت ہونے والے کے لیےُ 3 دن تک فاتحہ خوانی ہوتی تھی. زیادہ تر لوگ شرعی داڑھی رکھتے تھے. کسی گھر میں کویُ اچھّی چیز پکتی تو پڑوسیوں کے ہاں ضرور بھجوایُ جاتی تھی. اسلامی اصول ” ہمسایہ، ماں پیو جایا ” پر عمل ہوتا تھا. آج کل کے مقابلے میں بے حیایُ بہت ہی کم تھی. لوگ عورتوں کی عزّت کرتے تھے، چھوٹی لڑکی کو بہن اور بڑی عورت کو ماں جی کہ کر پکارا جاتا تھا. ہر طرف امن تھا. اگر گرمیوں میں تھوڑی بہت سُرخ آندھی آتی تو لوگ کہتے تھے کہ کہیں کویُ قتل ہو گیا ہے. میلے ٹھیلوں میں کھیل تماشے ہوتے، کبڈی کھیلی جاتی، کویُ جھگڑا فساد نہیں.
وقت گُزرتا گیا، لوگ اچھی باتیں بھُولتے گیےُ. ایک دوسرے کا احترام ختم ہو گیا ہے. ہر شخص دولت کمانے کے چکر میں ہے. اس کے لیےُ حلال حرام کی تمیز ختم ہو چکی ہے. ان سب کی وجہ یہ ہے کہ ہم میں یہ خوف ختم ہو گیا ہے کہ کل قیامت کے دن ہم سے ہمارے اعمال کے بارے میں باز پُرس بھی ہو گی.
عنوانات
نمبر 1 = ہم نام کے مسلمان ہیں.
نمبر 2 = ہمارے اعمال
نمبر 3= نیا رجحان.
نمبر 4 = اُلٹی گنگا
نمبر 5 =فساد کی جڑ.
نمبر 6 = فیشن.
نمبر 7 = ٹیلی ویژن.
نمبر 8 = اشتہارات.
نمبر 9 = سب سے زیادہ تکلیف دہ مسُلہ
ہم نام کے مسلمان ہیں.
آج اگر ہم اپنے آپ سے پوچھیں کہ کیا ہم مسلمان ہیں ؟ ہم کہیں گے جی ہاں. کیونکہ ہم ایک مسلمان گھرانے مٰیں پیدا ہُوےُ. صحیح بات یہ ہے کہ صرف یہ سرٹیفیکیٹ ہمیں مسلمان ثابت کرنے کے لیےُ کافی نہیں. ہمیں اپنے اعمال سے ثابت کرنا ہوگا کہ ہم مسلمان ہیں. اور یہ کویُ آسان کام نہیں. بقول ایک شاعر
رزم گاہ عشق میں قدم رکھنا ہے
لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
قیامت کے دن صرف یہ سرٹیفیکیٹ کافی نہیں ہوگا کہ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا باشندہ ہُوں. ہم جو کچھ کرتے ہیں، بظاہر یا چھُپ کر، ہمارے کندھوں پر بیتھے دو فرشتے اُسے لکھ رہے ہیں. جب ہمارے کرتوت ہمارے سامنے آ جایُں گے تو کویُ بھی بہانہ نہیں چلے گا. ہم یہ بھی نہیں کہہ سکیں گے کہ
فرشتوں کے لکھے پہ پکڑے گیےُ نا حق
آدمی کویُ ہمارا دم تحریر بھی تھا
ہم میں خیر سے ایسے اشخاص بھی موجود ہیں جو آج تک مسجد میں نماز پڑھنے نہیں گیےُ. لاہور کی پوش آبادی ڈیفینس مٰیں ہماری ممانی فوت ہو گیُں . ان کا جنازہ وہاں کی ایک مسجد میں ظہر کی نماز سے پہلے پڑھا گیا. اس کے بعد اعلان ہُؤا کہ ظہر کی نماز پڑھ لیں اس کے بعد میت کی تدفین ہوگی. میرے ساتھ کھڑے ایک سوٹڈ بُوٹڈ شخص کہنے لگے ” یہ جو ابھی پڑھا ہے یہ کیا تھا “؟ ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں.
ہمارے اعمال
ہمارے قومی شاعر اقبال نے ایک نظم لکھی تھی ” شکوہ ” . جس پر کیُ علماُ ےُ دین نے اعتراض کیا تھا کہ اللہ تعالے سے شکوہ کرنا مناسب نہیں. پھر جب اقبال نے : جواب شکوہ ” لکھی تو اُن علما ےُ دین نے اقبال کے نقطہُ نظر سے اتفاق کیا. آج ہم دیکھتے ہیں کہ ” کیا ہم اپنے اعمال کے مطابق اپنے آپ کو مسلمان کہہ سکتے ہیں “. موجودہ زمانے میں اکثریت کے اعمال کچھ یُوں ہیں :
نمبر 1
نماز کی پابندی
دین اسلام کے مطابق ایک مسلمان مرد اور عورت کو ایک دن میں پانچ نمازیں پڑھنا فرض کی گییُ ہیں. یہ ہر مسلمان جانتا ہے. لیکن اس پر کتنے لوگ عمل کر رہے ہیں ؟. بعض مسلمان جمعہ کی نماز پڑھ کر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ باقی دنوں کی نمازیں معاف ہو گییُ ہیں. حالانکہ ایسا نہیں ہے. قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کی پُرسش ہوگی. اس وقت دُنیا میں صرف سعودی عرب مٰیں اسلام کے قوانین کی کُچھ پابندی دیکھی گییُ ہے. میں جب سعودی عرب میں تھا ( 1973 سے 1987 تک ) تو تقریبآ ہر روزدیکھتا تھا کہ ظہر، عصر، مغرب اور عشا کی اذان کے بعد پولیس کے سپاہی بازاروں میں گشت کرتے تھے اور دیکھتے تھے کہ کویُ دُکان کھُلی تو نہیں. دکاندار اپنی اپنی دکانیں بند کر کے نماز پڑھنے کے لیےُ مسجدوں میں پہنچ جاتے تھے. فجر کی نماز ہم لوگ اپنے کیمپ میں پڑھتے تھے.
ایک بات آپ کے مشاہدہ میں آیُ ہوگی کہ اپنے مُلک میں مسجدوں کی تعداد بہت زیادہ ہے. میں جہیاں رہتا ہُوں وہاں ایک مربع کلو میٹرکے علاقے میں 6 مساجد ہیں. ہر مسجد میں اپنے اپنے مسلک کے مطابق نماز پڑھایُ جاتی ہے. مساجد میں دینی تعلیم دی جاتی ہے. یہاں سے فارغ التعلیم جوان مُختلف جگہوں پر مساجد بنا لیتے ہیں. عام لوگ نماز پابندی سے نہیں پڑھتے لیکن مساجد کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں. مولوی صاحبان مسجدوں کی تعمیر میں حصہ ڈالنے والوں کو بہشت کی بشارت دیتے رہتے ہیں . اور اس طرح نیُ مساجد تعمیر ہو رہی ہیں لیکن نمازی کم ہو رہے ہیں.
یہ ایک رواج چلا آ رہا ہے کہ جمعہ کی نماز کے بعد مسجدوں کے خدام ایک بڑے کپڑے کی جھولی بنا کر ہر نمازی کے سامنے سے گزرتے ہیں ، نمازی حضرات حسب توفیق کچھ نہ کچھ اس جھولی میں ڈال دیتے ہیں. مولوی صاحبان کا کہنا ہے کہ ہم اس رقم سے مسجد کے اخراجات ہورے کرتے ہیں. یہ طریقہ با عزت طریقہ نہیں . حکو مت کو چاہیےُ کہ وہ مساجد کا انتظام خود سنبھالے. مساجد کے مولوی صاحبان کی تعلیم اور عقایُد کو پرکھے، اور اختلافات کو ہوا دینے والے حضرات کو ان کے گھر بھیج دے. اس ظرح مولوی صاحبان کی عزت میں اضافہ ہوگا . اور ًمختلف عقایُد رکھنے والوں میں بھایُ چارہ بڑھے گا. یکسانیت پیدا کرنے کے لیےُ جمعہ کا لکھا ہُوا خُطبہ ہر مسجد میں جمعرات تک پہنچا دیا جاےُ.
سچ بولنا
ہم سب جانتے ہیں کہ اپنے سارے کاموں میں سچ بولنا چاہیےُ. لیکن کتنے لوگ اس پر عمل کرتے ہیں؟ ایک کہاوت ہے کہ عوام وہ کرتے ہیں جو اُن کے حکمران کرتے ہیں. آج کل سیاست میں جھوٹ بولنے کو جایُز سمجھا جاتا ہے. جتنے زیادہ جھوٹ، اُتنا بڑا سیاست . دان.
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ سب سے زیادہ جھوٹ کون بولتا ہے ؟ اس کا جواب کافی مشکل ہے. مختلف لوگ مختلف راےُ کا اظہار کریں گے. ویسے وکیلوں کی فیملی سب سے زیادہ جھوٹ بولتی اور جھوٹ بولنا سکھاتی ہے. یقین نہ آےُ تو کسی روز کسی عدالت میں کسی مقدمے میں ماخوز کسی ملزم سے ملاقات کر لیں اور اُس سے اس بارے مٰیں پوچھ لیں . انہی صفات کی بنا پر اکبر الہہ آبادی نے وکیلوں کے متعلق کچھ کہا تھا ، جسے میں یہاں نقل نہیں کروں گا.
رشوت
ایک حدیث کے مطابق رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں گنہگار ہیں. ہمارے ملک میں تو کویُ کام رشوت دیُے بغیر نہیں ہوتا. لوگ رشوت دینے کو گناہ سمجھتے ہُوےُ بھی رشوت دینے پر مجبور ہیں. سب سے زیادہ رشوت کہاں ہوتی ہے؟ اس کا جواب مشکل ہے. کویُ جگہ ایسی نہیں جہاں رشوت کے بغیر کام ہو جاےُ.
قتل و غارت
آللہ تعالے کے بھیجے ہُوےُ آخری پیغام میں درج ہے کہ جس نے ایک آدمی کی جان بچایُ اس نے گویا ساری انسانیت کی جان بچایُ، اور جس نے ایک آدمی کو قتل کیا اُس نے گویا ساری انسانیّت کو قتل کیا. آج کل کسی لو قتل کر دینا گویا ایک کھیل تماشا ہے. اخبارات پڑھیےُ، ہر صفحہ پر قتل کی خبریں ملیں گی. نعض قبایُل کی پرانی دُشمنیوں میں روزانہ کیُ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں. ایسے لوگ خود نہ مرتے تو دوسروں کو مار دیتے. کیا انہیں خدا کا خوف نہیں. کیا یہ لوگ اپنی دُشمنیوں کو بھُلا نہیں سکتے ؟. اسلام تو ایک دوسرے کو معاف کر دینے کا درس دیتا ہے. کیا ہم لوگ اللہ کا پیغام بھول چُکے ہیں؟
پچھلے سال میں نے ایک ماہ کے دوران ملک میں قتل ہونے والوں کے اعدا و شمار اکتھے کیےُ تھے. جو روزانہ روزنامہ جنگ لاہور میں شایُع ہُوتے تھے.. تجزیہ میں قتل کی مختلف وجوہات کے تحت قتل ہونے والوں کی تعداد دی گیُ تھی. اس رپورٹ کو اپنی ویب سایُٹ پر ” خون کے پیاسے لوگ ” کے عنوان کے تحت پبلش کیا تھا. آپ اسے پڑھ کر اندازہ لگا لیں کہ لوگ قتل کیوں کرتے ہیں.
ڈاکہ زنی، چھیننا ، چوری
پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں ایسے حالات کبھی نہیں آےُ، جیسے آج کل ہیں. ڈاکہ زنی کی وارداتیں روزانہ ہو رہی ہیں. لوگوں کی کاریں چوری ہو رہی ہیں یا زبردستی چھینی جا رہی ہیں. موٹر سایُکل چوری ہونے کے ساتھ ساتھ زبردستی چھینے جا رہے ہیں. راہ چلتے لوگ زبردستی اسلحہ کے زور پر لُوٹے جا رہے ہیں. اگر کوٰیُ شخص مزاحمت کرے تو ڈاکو اُسے قتل کر دیتے ہیں. قاتلوں کو تلاش کرنا مشکل ہے. مقتول پُکار رہے ہیں؛
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہُو تلاش کرُوں
تمام شہر نے پہنے ہُوےُ ہیں دستانے
ڈاکؤؤں کے گروہوں میں افغانیوں کی اکثریت ہے. 8میُ کے واقعات میں شامل 2 لڑکوں کو ایک ٹی وی پر پیش کیا گیا. انہوں نے بیان دیا کہ ہمیں افغانستان میں اپنے شہر میں کچھ پاکستانی ملے. انہوں نے ہمیں کافی رقم دی اور کہا کہ کچھ ہلّا گُلّا کرنا ہے. ہم لوگ مقررہ تاریخ سے دو تین دن پہلے یہاں آ گیےُ. ہمیں بتایا گیا کہ فُلاں فُلاں جگہ پہ توڑ پھوڑ کرنی ہے. اور ہم نے لیا ہُؤا پیسہ حلال کرنے کے لیےُ کیُ جگہوں پر توڑ پھوڑ کی. یہ سب کچھ سنانے کا مطلب یہ ہے کہ افغاںٰی پیسے کے لیےُ ہر جایُز ناجایٰز کام کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں. آپ ان ڈکیتوں کو پکڑیں. ان میں بیشتر افغانی ہوں گے. بھتّہ خوری ان کا پسندیدہ کام ہے. ًًمیں آج مورخہ 3 مارچ 2024 کو روزنامہ جنگ، لاہور کا اخبار پڑھ رہا تھا. اس کے صفحہ نمبر 3 پر ایک خبر یُوں شایُع ہویُ ہے :
کراچی سے افغان ڈکیت گینگ کا سرغنہ ساتھی سمیت گرفتار
ملزمان کا گروپ 10 افغانی لڑکوں پر مشتمل، واردات کے بعد افغانستان فرار ہو جاتے تھے.
کراچی. ( سٹاف رپورٹر ) سی آیُ ڈی نے افغان ڈکیت گینگ کا مبینہ سرغنہ نجیب اللہ اور صدام کو گرفتار کر کے اسلحہ بر آمد کر لیا ہے. ملزمان کا گروپ 10 افغانی لڑکوں پر مشتمل ہے. گروہ دوران ڈکیتی قتل اور اقدام قتل کی کیُ وارداتوں میں پولیس کو مطلوب ہے. گروپ کے دو افغانی ڈکیت لڑکوں نے 13 فروری کو دوران ڈکیتی کانسٹیبل واحد کو نارتھ کراچی میں شہید کیا تھا. ملزمان واردات کے بعد افغانستان فرار ہو جاتے .ہیں.
مندرجہ بالا خبر میرے اندازے کی تصدیق کر رہی ہے.
آج کل آتشیں اسلحہ کی فراوانی ہے. ہر دوسرے شخص کے پاس اسلحہ ہے. لوگوں کے پاس زیادہ تر اسلحہ غیر قانونی ہے. امریکی افواج جب افغانستان سے اُجلت میں نکلیں تو وہ بہت سا سامان ، جدید اسلحہ سمیت ، افغانستان میں ہی چھوڑ گیےُ. جو افغانیوں کے ہاتھ لگ گیا.افغانی وہ اسلحہ پاکستان سمگل کر کے مہنگے داموں بلیک میں بیچ دیتے ہیں. صوبہ پختونخواہ کے علاقہ درّہ میں مقامی طور پر اسلحہ بنتا ہے جو بلیک میں ہر شخص خرید سکتا ہے. یہی وجہ ہے کہ ملک میں اسلحہ کی فراوانی ہے.
آپ نے بھی یہ منطر کیُ دفعہ دیکھا ہو گا کہ بعص بڑے لوگ، عوام کے چُنے ہُوےُ نمایُندے جب دس بارہ گاڑیوں کے ایک قافلے کی شکل میں کسی جگہ سے گزرتے ہیں، تو اس قافلے میں دو تین گاڑیوں میں ان کے محافظ ہاتھ میں بندوقیں لیےُ چوکس بیٹھے ہوتے ہیں. سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کے یہ افسر، یا عوام کے نمایُندوں کو کس بات کا خوف ہے جو اتنے مسلح افراد اپنی حفاظت کے لیُےُ ساتھ رکھتے ہیں. کیا وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ، وہ جو عوام کے ووٹوں سے چُنے گیےُ تھے، عوام کے ان داتا یا حاکم ہیں اور عوام ان کی رعایا ہیں ! عوام کے نمایُندوں کو عوام سے خوف نہیں کھانا چاہیےُ. ان کی یہ شان و شوکت صرف 4 یا 5 سال کے لیےُ ہے. اس کے بعد یہ پھر عوام سے ووٹ مانگیں گے.
نیا رُجحان
آج کل نوجوانوں میں ایک نیا رُجحان دیکھنے میں آیا ہے. نوجوان طبقہ چھوٹی چھوٹی داڑھی رکھنے لگا ہے. چلیں ، لمبی داڑھی نہ سہی، یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ میں نے داڑھی رکھی ہُویُ ہے. ہو سکتا ہے کل کلاں کو یہی داڑھی تھوڑی سی لمبی ہو جاےُ.
اُلٹی گنگا
اللہ تعالے کے آخری پیغمبر کی ایک حدیث کے مطابق مردوں کی شلوار یا تہ بند ان کے پاؤں کے ٹخنوں سے اوپر ہونی چاہیےُ. شلوار یا تہ بند کا ٹخنوں سے نیچے ہونا تکبر کی نشانی ہے . اور اللہ تعالے کو تکبر پسند نہیں. اس کے برعکس عورتوں کی شلوار یا تہ بند کو ان کے پاؤں کے ٹخنوں سے نیچے تک ہونے چاہییُں. آج کل ہمارے ہاں اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے. مردوں کی شلواریں ان کے پیروں کے ٹخنوں سے نیچے آ گیُ ہیں. عورتوں کی شلواریں ان کے پاؤن کےٹخنوں سے اُوپر آ گییُ ہین، بلکہ کچھ زیادہ ہی اُوپر آ گیُ ہیں. یہ دین سے دُوری کی نشانی ہے.
دین سے دُوری کی دوسری نشانیاں یہ ہیں؛
عورت کی حیا :
عورت کے حیا کی نشانی اس کا دوپٹّہ ہے ، جو آج کل اُن کے سر سے اُتر چُکا ہے. مسلمان عورتوں کے متعلق اللہ کا فرمان ہے کہ وہ اپنے سر اور سینے کو چادر سے ڈھانکے رکھیں. زیادہ معلومات کے لیےُ ہمارا آرٹیکل ” آنٹی. آپ کا دوپٹہ کدھر ہے، قسظ نممر 1 ” پڑھیےُ.
فساد کی جڑ
مُلک میں جو بے حیاُیُ کی لہر آیٰ ہے ، اس فساد کی اصل وجوہات فیشن، ٹیلیویژن اور اشتہار بازی یا ماڈلنگ ہے. تھوڑی سی تفصیل یُوں ہے :
فیشن
مغربی ممالک میں موجود کیُ ادارے ہر سال فیشن کے نیےُ ڈیزایُن مارکیٹ میں پیش کرتے ہیں ، یہ فیشن ہر سال بے حیایُ کو مزید فروغ دے رہے ہیں. اور ہمارے لوگ مغرب کی تقلید کو ثواب عین سمجھتے ہیں. اور ان کے بے ہُودہ فیشن کو اپنانا فخر سمجھتے ہیں.
ٹیلی ویژن
دین سے دُوری پھیلانے میں ٹیلی ویژن کا بڑا کردار ہے. تقریبآ ہر ٹیلی ویژن ادارہ
ہر گھنٹہ بعد خبریں نشر کرتا ہے. خبریں پڑھنے والیوں کے سر سے دوپٹّہ سرے سے غایُب ہو گیا ہے. کچھ عرصہ پہلے تک دوپٹّہ سر سے اُتر کر صرف گلے کی زینت تھا. اب ان لڑکیوں یا عورتوں کا دوپٹّہ سرے سے ہی غایُب ہے. انہوں نے اپنے سر کے بالوں کو دوپتّہ کا نعم البدل بنا لیا ہے. دین سے دُوری کے اس گناہ کا ذمہ دار کون ہو گا ؟ تیار رہیےُ.
اشتہارات
ٹیلی ویژن یا اخبارات میں اشتہارات کودیکھیےُ. ہر ٹیلی ویژن پر ایسے ایسے قابل اعتراض اشتہارات آتے ہیں کہ عام لوگ سوچنے پر مجبُور ہو جاتے ہیں کہ ہم کدھر جا رہے ہیں ؟. اشتہارات میں ماڈل اپنے جسم کی نمایُش کرنے میں لگی ہیں . خصوصآ اپنے سینے کی نمایُش کو فخر سمجھتی ہیں. ایسے اشتہار بنانے والے، انہیں چلانے والے کبھی اپنے انجام کو سوچیں. اور جواب دہی کے لیےُ تیار رہیں. جو پیسہ ان اشتہاروں سے کمایا جاےُ گا وہ یہیں رہ جاےُ گا. صرف اعمال ساتھ جاییُں گے. للہ تعالے ہم سب کو ہدایت دے.
سب سے زیادہ تکلیف دہ مسُلہ
آج کل کا سب سے زیادہ تکلیف دہ مسُلہ صنف نازک سے زیادتی کا مسُلہ ہے. خصوصآ چھوٹی بچیوں سے. آج کل تقریبآ ہر شخص کے پا س موباُل فون ہے بچے اور جوانی میں قدم رکھنے والے لڑکے موبایُل فون پر فُحش فلمیں دیکھتے ہیں اور پھر عملی قدم اُٹھاتے ہیں اس طرح غلط کاموں میں پڑ جاتے ہیں. اس کے تدارک کے لیےُ دو اقدام ضروری ہیں
نمبر 1
حکومت فحش مواد والے چینل پر پابندی لگا دے . اس کے لیے پی ٹی اے سخت قدم اُٹھاےُ.
نمبر 2
جُرم کے مرتکب افراد کو انتہایُ سخت سزا ( پھانسی ) پر لٹکا دیا جاےُ. سر عام پھانسی دینے سے اوروں کو یہ جرم کرنے سے پہلے کیُ بار سوچنا پڑے گا.
اختتامیہ: اُس رحیم و کریم ہستی سے جو سب کا پالن ہار ہے ، دُعا ہے کہ وہ سب کو بُرے اعمال سے بچنے کی توفیق عظا فرماےُ. آمین ثُم آمین.
6 Responses
It seems like you’re repeating a set of comments that you might have come across on various websites or social media platforms. These comments typically include praise for the content, requests for improvement, and expressions of gratitude. Is there anything specific you’d like to discuss or inquire about regarding these comments? Feel free to let me know how I can assist you further!
Thank you for your message! It seems like you’re referring to the repetitive nature of the comments provided earlier. If you have any specific questions, topics, or concerns you’d like to discuss, please feel free to share them. Whether it’s about technology, science, literature, or any other subject, I’m here to assist you. Just let me know how I can help you further!
Thankyou for your interest. I will let you know if anything comes up.
Your blog is a breath of fresh air in the crowded online space. I appreciate the unique perspective you bring to every topic you cover. Keep up the fantastic work!
Thanks I have just been looking for information about this subject for a long time and yours is the best Ive discovered till now However what in regards to the bottom line Are you certain in regards to the supply
Thanks for your comments. If you like some more informations, just let me know. I will try to provide such informations , to the best of my knowledge. Thanks again and have a nice day.