پنجابی اکھان – ردیف ” س ” نمبر 20- 11
پنجابی یکھان اگر کسی گفتگو یا بحث کے دوران کہا جاےُ تویہ گفتگو یا بحث کو احسن طریقے سے کسی نتیجہ پر پہنچنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں. پنجابی اکھان سُننے والے اپنے بزرگوں کے اخذ کردہ نتیجے کو مان کر اپنی فرمانبرداری کا ثبُوت دیتے ہیں.
پنجابی اکھان ردیف س ، نمبر 10-1 میں دلچسپی رکھنے والے اصحاب اس لنک پر کلک کریں.
ردیف س کے مزید پنجابی اکھان پڑھیےُ؛
نمبر 11 – سڑ مویُ پھتّی چھلیاں کھنوں
پھتّی ( فاطمہ کا بگڑا ہؤا نام ) کا تقاضا یہی رہتا تھا کہ اسے سونے کے چھلّے بنوا کر دیےُ جایُں. اپنا مطالبہ پورا نہ ہونے کے غم میں سوکھ کر کانٹا ہو گیُ.
نمبر 12- سروں گنجی کنگھیان دا جوڑا
سر پر بال نہیں ، بالون کو سنوارنے کے لیےُ جیب میں دو دو کنگھیاں رکھّی ہیں.
طاقت یا ہنر نہ ہونے کے باوجود کویُ شخص ڈینگیں مارے کہ میں فلاں کام کر سکتا ہوں تو اس پر یہ کہاوت کہی جاتی ہے.
نمبر 13 – سر وڈّے سرداراں دے
ڈھڈ وڈّے کمھاراں دے
پیر وڈّے گنواراں دے
سرداروں اور چوہدریوں کے سر بڑے بڑے ہوتے ہیں.
کمہاروں کے پیٹ بڑھے ہوےُ ہوتے ہیں.
گنواروں کے پاؤں بڑے بڑے ہوتے ہیں.
یہ کہاوت مشاہدے کی بنا پر کہی گیُ ہے. آج کل اس مین تھوڑی سی ترمیم کی ضرورت ہے. کہاوت کے دوسرے حصّے کے مطابق کمہاروں کے پیٹ بڑھے ہوےُ ہوتے ہیں. آج کل دفتروں میں کرسی پر بیٹھ کر کام کرنے والوں، حلوایُوں اور قصابوں کے پیٹ بڑھے ہوےُ ہوتے ہیں. اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ سب کمہار ہیں. اصل بات یہ ہے کہ کمہار سارا دن چک پر بیٹھ کر برتن بناتا ہے . بیٹھے رہنے سے اس کا پیٹ بڑھ جاتا ہے. اچھّا کھانا، ہر وقت بیٹھے رہنا، ورزش نہ کرنا وہ بنیادی اسباب ہیں جن سے کسی کا پیٹ بڑھ سکتا ہے، جیسے کمہار کا پیٹ بڑھ جاتا ہے. کیا آپ نے کسی کسان کا پیٹ بڑھا پؤا دیکھا ہے ؟ جو خود ہل چلاتا ہے، اپنے جانوروں کو چارہ ڈالتا ہے اور کاشتکاری سے متعلقہ سارے کام خود کرتا ہے.
نمبر 14 – سرہاندی سنویں یا پواندی لک وشکار ای اوندا اے
چارپایُ پر سوتے وقت اپنا سر چاہے پایُنتی کی طرف رکھّیں یا دوایُں کی طرف، آپ کی کمر چارپایُ کے درمیان پر ہی آےُ گی.
چارپایُ کی پایُنتی والی طرف کو پنجابی زبان میں ” سرہاندی ” اور دوایُن والی طرف کو ” پواندی ” کہتے ہیں.
نمبر 15 – سو چاچا تے اک پیو سو دارو تے اک گھیو
چاچے چاہے سو (100) ہوں، جتنا پیار اور توجّہ باپ دیتا ہے اتنا پیار اور توجّہ سب چاچے مل کر بھی نہیں دے سکتے. اسی طرح سو دوایُاں کھا لیں، اتنا فایُدہ نہیں ہو گا جتنا خھاص دیسی گھی کھانے سے ہو گا.
یہ جو آپ کو بڑے بوڑھے اسّی (80) نوّے (90) سال کی عمر میں بھی صحت مند دکھایُ دیتے ہیں ، یہ اس خالص دیسی گھی کا کرشمہ ہے جو وہ بچپن میں کھایا کرتے تھے. .
اس کی زندہ مثال نیں خود ہوں جو 86 سال کی عمر میں 75 سال کا دکھایُ دیتا ہوں. اس کی ایک وجہ دوسری بھی ہو سکتی ہے. علم نجوم کے مطابق وہ حضرات جو 23 جون اور 23 جولایُ کے درمیان پیدا ہوں، وہ اکثر اپنی اصل عمر سے 10 سال چھوٹے دکھایُ دیتے ہیں. اور میری پیدایُش اسی عرصہ میں ھوُ ہے. اس بات کا تجربہ مجھے سعودی عرب میں ہؤا. میں سعودی امیریکن آیُل کمپنی (ارامکو)میں کام کرتا تھا. میرے ساتھ تھایُ لینڈ کا ایک لڑکا “مہیری” نام کا کام کرتا تھا. ایک دن اس نے مجھ سے پوچھا ” میری عمر کتنی ہو گی ؟” میں نے کہا 24 یا 25 سال ہوگی. وہ کہنے لگا نہیں، میری عمر اس وقت 34 سال ہے. نیں نے کہا ” تمہاری پیدایُش یقینآ 22 جون اور 23 جولایُ کے درمیان ہوگی” وہ مان گیا کہ واقعی اس کی پیدایُش نہی تاریخوں کے درمیان ہویُ تھی.
نمبر 16 – سورج کھیتی پالے، چن بناوے رس
اک نہ دوویں ملن، کھیتی ہووے بھس
فصلوں کا بڑھنا سورج کی مرہون منّت ہے. فصلوں کی بالیوں میں رس پڑنا چاند کی وجہ سے ہے. کسی ایک یا دونوں کی روشنی نہ ملنے سے فصل نہ بڑھتی ہے اور نہ ہی اس مییں دانہ یا پھل آتا ہے. فصل ایسے رہ جاتی ہے جیسے بھس ہو.
یہ کہاوت کسی سایُنس دان کی دریافت نہیں ، بلکہ اس کسان کا مقولہ ہے جس نے برس ہا برس کے تجربہ اور مشاہدہ کے بعد یہ بات کہی ہے.
نمبر 17 – سو ہتھ رسّہ گنڈھ سرے تے</ .
رسہ چاہے کتنا لمبا ہو، اس کی گانٹھ آخری سرے پر ہی ہوگی.
نمبر 18 – 100 کاماں اک آہری
کام کرنے والے چاہے کتنے ہوں، ان سے کام لینے کے لیےُ ایک ” آہری ” چاہیےُ.
پنجابی زبان کے لفظ ” آہری ” کے بہت سے معنی ہیں، ہر کام پر آمادہ، دوسروں سے کام لینے کی صلاحیت رکھنے والا، اور خود ان کے ساتھ مل کر کام کرنے والا، اور ان کی ہمّت افزایُ کرنے والا . یہ سب ” آہری ” کے مفہوم میں آتے ہیں.
نمبر 19 – ساہ نکلیا تے کتّی نوں ہگّن آ گیا
خرگوش کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک گےُ. جب خرگوش نظر آیا، تو شکاری کتّا ٹٹی کرنے لگ گیا اور خرگوش بھاگ گیا.
یہ کہاوت ایسے موقعوں پر بولی جاتی ہے جب کسی کام کے شروع ہونے پر کویُ شخص کویُ دوسرا غیر متعلقہ کام شروع کر دے اور پہلا غروری کام کرنے کا موقع ضایُع کر دے.
نمبر 20 – سور مویا اے پر ٹانڈے بھن کے
خنزیر مر تو گیا، لیکن اسے مارنے کی تگ و دو میں فصل تباہ ہو گیُ.
جنگلی سور فصلوں کے پودوں ( پنجابی زبان میں انہیں ٹانڈہ کہتے ہیں ) کو توڑ کر تباہ کر دیتے ہیں. ان سوروں کو مارنے کے لیےُ بڑی تگ و دو کرنی پڑتی ہے. سور فصل کے اندر بھاگتا رہتا ہے، اور اس طرح کھیت کی ساری فصل تباہ ہو جاتی ہے.
جب کویُ حکمران اپنی کرسی پکّی کرنے کے لیےُ ہر جایُز ناجایُز کام کر کے ملک کا بیڑہ غرق کر دے اور بالاخر عوامی دباؤ سے مجبور ہو کر اقتدار چھوڑ دے تو اس پر یہ کہاوت خوب سجتی ہے.
جاری ہے.