پنجابی اکھان ردیف ” ج ” نمبر – 30 – 21

پنجابی اکھان، ردیف ” ج ” . نمبر 30 –  21

پنجابی اکھان ردیف ج ، نمبر 20-11  کا حصہ آپ پڑھ چکے ہیں. آج ہم اس کے اگلے حصّے کی طرف چلتے ہیں.
اگر ہم پنجابی اکھان پر ریسرچ کریں کہ یہ کیسے وجود میں آےُ. تو ہمیں کسی پنجابی اکھان کے معنی کو دیکھنا پڑے گا. اکھان عمومآ کسی اٹل حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں. جو تجربہ اور مشاہدے کی کسوٹی پر پورا اترتے ہیں.
بعض اشخاص نے کسی حقیقت کو بار بار دیکھا اور پرکھا ہوگا. کہ ایسا ہو تو یوں وقوع پذیر ہوگا. پنجابی زبان کا ایک اکھان ہے ” جمعرات دی جھڑی، نہ کوٹھا نہ کڑی “. کسی شخص نے یہ بات بار بار دیکھی ہو گی کہ سردیوں کے موسم میں اگر جمعرات کے دن سے بارش برسنی شروع ہو جاےُ، تو وہ زیادہ عرصے تک برستی رہتی ہے. پرانے زمانے میں لوگوں کے مکانات عمومآ کچّی مٹّی سے بنے ہوتے تھے جو مسلسل بارش سے گر جاتے تھے. لکڑی کی چھت بھی گر جاتی تھی. چنانچہ اس سے یہ پنجابی اکھان معرض وجود میں آیا.

اب آپ پنجابی اکھان ردیف ج ، کے 30-21 نمبر تک کے اکھان پڑھیےُ:

نمبر 21- جہیڑا نہ جانے آپ نوں        اوہدے نہ جانیےُ مایُ باپ نوں
جو شخص آپ کو نہیں پہچانتا ، آپ کی قدر نہیں کرتا آپ کی عزّت نہیں کرتا، بہتر ہے آپ بھی اسے نظر انداز کر دیا کریں.
اس کہاوت کا دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کو جو شخص اپنی عزّت خود نہیں کرتا، دوسروں کو کیا پڑی ہے کہ اس کی عزّت کریں.

نمبر 22 – جیہڑا سکھ اپنے چبارے          نہ بلخ نہ بخارے
جو آرام اپنے گھر میں ملتا ہے وہ کہیں اور نہیں مل سکتا ، چاہے آپ بلخ چلے جایں یا بخارا شہر چلے جایں .
اس کہاوت میں تھوڑی سی ترمیم کی ضرورت ہے ، وہ یہ کہ ” بشرطیکہ گھر میں لڑایُ جھگڑے نہ ہوں “.
ایک شخص کی بیوی بڑی جھگڑالو تھی. کھانا کھاتے ہوےُ بھی جھگڑتی رہتی تھی. روز روز کی چخ چخ سے تنگ آ کر ایک دن وہ گھر سے باہر کھانا کھانے کے لیےُ ایک ہوٹل میں گیا. بیرے نے مینو دیتے ہوےُ کہا ” آپ کیا کھانا پسند کریں گے . ہم بہترین سروس مہیُا کرتے ہیں. آپ یہاں اپنے گھر جیسا ماحول پایُں گے.” وہ آدمی اٹھ کھڑا ہؤا اور یہ کہتے ہوےُ ہوٹل سے باہر نکل گیا ” میں لعنت بھیجتا ہوں ایسے ماحول پر”.
مکان کی اوپری ننزل پر بنے ہوےُ کمرے کو ” چوبارہ” کہتے ہیں. یہ نام غالباّ اس لےُ پڑا کہ ایسے کمرے کے چاروں طرف کھڑکیاں رکھّی جا سکتی ہیں.

نمبر 23 – جنہاں دے گھر دانے          اوہدے کملے وی سیانے
جس کے گھر میں کافی گندم ہو، یعنی پیسے والے ہوں، وہ اگر بے وقوف بھی ہوں تو عقلمند سمجھے جاتے ہیں .
ایک زمانہ تھا جب عزّت کا معیار ذہانت، عقلمبدی، معاملہ فہمی، غریب پروری ہوتا تھا. دولت کی قوّت سے انکار ممکن نہیں، لیکن صرف دولت کو ہی عزّت کا ذریعہ نہیں سمجھا جاتا تھا. آج کل دولت کا زمانہ ہے. جس کے پاس دولت ہے ، وہ اگر جاہل بھی ہو تو اسے عقلمند سمجھا جاتا ہے. زمانہ کی اقدار ہی بدل گیُ ہیں. پہلے چراغ کے نیچے اندھیرا ہوتا تھا. آج کل بلب کے اوپر اندھیرا ہوتا ہے.
پشتو زبان کی ایک کہاوت میں اس مضمون کو یوں بیان کیا گیا ہے ” امیر آدمی اگر گدھا بھی ہو تب بھی ہوشیار ہے “.

نمبر 24 – جدھر گیُیاں بیڑیاں          ادھر گےُ ملاح
جس طرف کشتیاں گیُ ہیں، ملاح بھی ان کے ساتھ اسی طرف گےُ ہیں.

نمبر 25 – جنہاں کھادیاں گاجراں            ڈھڈ انہاں دے پیڑ
جس کسی نے کچّی گاجریں کھایُ ہیں ، اسی کے پیٹ میں درد ہو گا.
کچّی گاجر دیر سے ہضم ہوتی ہے، زیادہ مقدار میں کھا لی جایُں اور پھر کویُ ہاظم چیز نہ کھایُ جاےُ، تو اکثر پیٹ میں درد ہونے لگتا ہے. دیہات کے لوگ ایک یا دو سے زیادہ گاجریں ایک وقت نیں نہیں کھاتے. گاجریں زیادہ کھنے کا موڈ ہو تو بعد میں گڑ کھا لیتے ہیں. جو گاجروں کو ہضم ہونے میں مدد دیتا ہے.
اس کہاوت کا صاف لفظوں میں پیغام یہ ہے کہ برے کام کرنے والا ان کا خمیازہ بھی بھگتے گا.

نمبر 26 – جیہڑے ڈاہل تے باہنا             اوہ کاڑ کاڑ کردا اے
میں جس ٹہنی پر بیٹھتا ہوں ، وہ میرا وزن نہیں سہار سکتی اور میرے بوجھ سے نیچے جھکتے ہوےُ کڑ کڑ کی آوازا پیدا کرنے لگتی ہے.
گنّے کے کھیتوں میں ایک چھوٹا سا پرندہ رہتا ہے جسے ” ممولا ” کہتے ہیں. اس کا وزن مشکل سے دو چھٹانک ہو گا. وہ جب گنّے کے سوکھے لمبے پتّوں پر بیٹھتا ہے تو وہ نیچے جھک جاتے ہین اور دوسرے پتّوں کے ساتھ مل کر آواز پیداکرتے ہیں. یاد رہے کہ گنّے کے پودوں کے پتّے لمبے لمبے ( 3 سے 4 فت) ، نازک اور پتلے ہوتے ہیں اور ایک چھٹانک کے وزن سے ہی نیچے جھک جاتے ہیں. ممولہ یہ سمجھتا ہے یہ پتّے اس کا وزن نہیں سہار سکتے .
یہ کہاوت ایسے موقعوں پر خوب سجتی ہے جب کویُ شخص ڈینکیں مار رہا ہو.

نمبر 27 – جے کھوکھا سر کھیہ پاےُ            تاں وی کھوکھا کھٹ لیاوے
کھوکھا ( بنیے کا نام ) اپنے سر پر خاک بھی ڈالے، پھر بھی وہ کچھ نہ کچھ کما لیتا ہے.
بنیا دولت کمانے میں بہت مشہور ہے. یہ کہاوت بنیے کی اسی فطرت کی طرف اشارہ کرتی ہے.

نمبر 28 – جس پنڈ نہیں جانا             اوہدا راہ کیوں پچھیے
جس گاؤں جانا نہ ہو اس کا راستہ پوچھنے کا کیا فایُدہ ؟

نمبر 29 – جیہے کوہن آلے            تیہے کھان آلے
جس ڈھنگ سے جانوروں کو ذبح کرنے والے ہیں ، اسی طرح کے لوگ یہ گوشت کھانے والے ہیں.
قصایُ نے جانور ذبح کرتے وقت تکبیر نہیں پڑھی، کھال اتارتے وقت صفایُ کا خیال نہ رکھّا، ایک شخص دیکھ رہا تھا اس نے قسایُ سے کہا تم نے یہ گوشت کس طرح بنایا، نہ تکبیر پڑھی، نہ ہی صفایُ کا خیال رکھا . قصایُ نے جواب دیا، : میں تو گوشت اسی طرح بناتا ہوں ، دیکھیں، یہ گوشت کھانے والے بھی تو ایسے ہی ہیں.

نمبر 30 – جیہڑے ایتھے بھیڑے              اوہ لاہور وی بھیڑے
جو شخص اپنے گھر میں نکمّا ہے ، وہ لاہور بھی چلا جاےُ ، تو نکمّا ہی رہے گا.

جاری ہے.


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *