قصّہ ہیر رانجھا ، قسط نمبر 1، Story of Heer Ranjha

قصّہ ہیر رانجھا . قسط نمبر 1
Story of Heer Ranjha

عنوانات:

نمبر 1 = تعارف
نمبر 2 = تخت ہزارہ
نمبر 3 = دھیدو کی بھاییُوں بھابیوں سے کشیدگی

تعارف

پنجابی زبان میں لکھے گیےُ قصّوں کو دُنیا کی عظیم شاعری میں شمار کیا جا سکتا ہے. ان قصّوں کے مصنف پڑھے لکھے بزرگ تھے، جنہوں نے فن کے ہر مطالبہ کا لحاظ رکھا. ان شعرا کا اپنا اپنا اصلوب ہے، اپنی زبان ہے، اپنا انداز ہے. انہوں نے لکھتے وقت خیالات و جذبات کے انتخاب کو ضرُوری سمجھا. اور ایسے ایسے فن پارے تخلیق کر گیےُ ، جنہیں پڑھ کر ہم اس وہم میں مبتلا نہیں رہ سکتے کہ پنجابی ایک مُردہ اور مضمحل زبان ہے. وارث شاہ کی تصنیف ” ہیر رانجھا ” میاں محمد بخش کی تصنیف ” سیف الملُوک ” دایُم اقبال دایُم کا “شاہ؛ نامہ کربلا ” کے علاوہ مرزا صاحباں، سوہنی مہینوال، سسّی پُنوں، لیلے مجنُوں، ڈھول شمس وغیرہ کتنے ہی قصّے ہیں جو پنجابی زبان کے زندہ ہونے کا ثبُوت ہیں.
یُوں تو پنجابی زبان میں سبھی قصّوں کی اپنی اپنی مقبُولیت ہے ، مگر جس قدر مقبُولیت ہیر رانجھا اور مرزا صاحباں کے قصّوں کو حاصل ہُویُ ہے ، دوسرے قصّوں کو حاصل نہیں ہُویُ. اس کی وجہ غالبآ یہ ہے کہ ان قصّوں کے کردار ہمیں اہنے ارد گرد نظر آتے ہیں. یا یُوں کہیےُ کہ کویُ بھی کردار خصُوصآ ہیرو امپورٹڈ نہیں ہے. رانجھا کا کردار ایک دیہاتی نوجوان کا ہےاس کے ہر قول اور فعل میں اس کا کردار بالکُل ہمارے ماحول جیسا ہے. ان قصّوں کے کرداروں کی زبان سے نکلے ہُوےُ الفاظ ہمارے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ یہ دو قصّے دُوسرے قصّوں کی بہ نسبت زیادہ مقبُول ہیں.

ہیر وارث شاہ پڑھتے ہُوےُ بعض اشعار یا مصرعے ایسے بھی ملتے ہیں جنہیں پڑھ کر یہ ماننا مشکل ہو جاتا ہے کہ آیا یہ اشعار یا مصرعے واقعی وارث شاہ نے لکھے ہیں. بھلا ہو ہیر وارث شاہ پر تحقیق کرنے والے جاوید اقبال صاحب کا جنہوں نے ثابت کیا ہے کہ کیُ لوگوں نے ہیر وارث شاہ میں اپنے اشعار یا مصرعے شامل کیےُ ہیں. جاوید آقبال صاحب اپنی کتاب ” ہیر وارث شاہ وچ ملاوٹی شعراں دا ویروا ” میں ان لوگوں کے اشعار کی تفصیل کُچھ یُوں دیتے ہیں :
نمبر 1 ؛
ہدایت اللہ نے 1887 سن عیسوی میں 1785 مصرعے شامل کیےُ.
نمبر 2 :
پیراں دتّہ ترگڑ نے 1892 سن عیسوی میں 1816 مصرعے شامل کیےُ.
نمبر 3 :
محمد دین سوختہ اور ہاشم علی نے 1913 سن عیسوی میں 847 مصرے شامل کیے.
نمبر 4 :
تاج الدین تاج نے 1920 سن عیسوی میں 406 مصرعے شامل کیےُ.
نمبر 5 :
مولوی محبُوب عالم نے 1920 سن عیسوی میں 874 مصرے شامل کیےُ.
نمبر 6 :
مولوی اشرف علی گُلبانوی نے 1920 سن عیسوی میں 550 مصرعے شامل کیےُ.
نمبر 7 :
عزیزالدین قانُوں گو نے 1929 سن عیسوی میں 2530 مصرعے شامل کیےُ.
نمبر 8 :
مولوی نواب دین سیالکوٹی نے 1930 سن عیسوی میں 543 مصرعے شامل کیےُ.
نمبر 9 :
محمد شفیع اختر نے 1932 سن عیسوی میں 100 مصرعے شامل کیےُ.

اس طرح ” اصلی تے وڈّی ہیر ” پڑھتے ہُوےُ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ ملاوٹی ہیر نہیں ہے. اس طرح یہ مغالطہ بھی دُور ہر جاتا ہے کہ موجودہ ہیر وارث شاہ میں تہزیب سے گرے ہُوےُ بعض اشعار وارث شاہ نے لکے تھے.

دامُودر پہلا شاعر تھا جس نے ہیر رانجھا کے عشق کی داستان کو نظم کیا. اس کے بعد اور شاعروں نے بھی اس قصہ کو نظ م کیا، مگر ان سب میں سے وارث شاہ کے لکھے ہُوےُ قصّہ کو زیادہ مقبُولیت حاصل ہُویُ.
وارث شاہ کی تصنیف تصوف اور طریقت کے اسرار و رمُوز کی آیُنہہ دار ہے. اس قصّہ کے تمام کردا مسلک طریقت کے مظاہر ہیں. وارث شاہ نے قصّہ کی ابتدا میں ان کا ذکر اس طرح کیا ہے :

ہیر رُوح تے پاک قلبُوت جانوں، بالناتھ ایہہ پیر بنایا ای
پنج پیر نے پنج حواس تیرے، جنہاں تھاپڑا تُدھ نوں لایا ای
قاضی حق جنبیل نے عمل تیرے، خیال مُنکر نکیر ٹھہرایا ای
کوٹھا گور تے عزرایُیل کھیڑا، جیہڑا لیندیاں رُوح وہایا ای
بیڑی پتّن والی پُل صراط جانیں، جس وچ دہکو دوہڑا کھایا ای
کیدُو لنگاں شیطان ملعُون جانوں، جس نے وچ دیوان پڑھایا ای
سیّاں ہیر دیاں گھر بار تیرا، جنہاں نال پیوند بتایا ای
وانگ ہیر دے بنھ لے جان تینوں، کسے نال نہ ساتھ لدایا ای
دُکھاں رات مُسافری ہے جیہڑی، اوہ حساب کتاب لکھایا ای
جیہڑا بولدا ناطقہ ونجھلی دا، جس ہوش دا راگ سُنایا ای
سسّی موت تے جسم ہے یار رانجھا ، انہاں دوہاں نے بھیڑ مچایا ائی
جس اینہاں پہلواناں دی بھیڑ ڈٹھّی، کویں اپنا آپ بچایا ای
شہوت بھابھی تے بھُکھ ربیل باندی، جنہاں جنتوں باہر کڈھایا ای
جوگ عورت اے پاڑ کے کن جس نے، سبھ انگ بھبُوت رمایا ای
دُنیا جان جویں جھنگ پیکے، گور کالڑا باغ بنایا ای
ترنجن ایہہ بد اعمالیاں تیریاں نی، کڈھ قبر تییُں دوزخیں پایا ای
اوہ شیر اے نفس ہنکار تیرا، جس راجے دی جُوہ ڈرایا ای
اُس نوں ماریاں مُشکلاں دُور ہویاں، رانجھا ہیر نوں فیر ملایا ای
ایہ مزدُوری سیالاں دیاں مجھیاں نے، جیڑا میلڑا کسب اُٹھایا ای
اوہ مسیت ہے ماں دا شکم بندے ،جس وچ شب و روز لنگھایا ای
عدلی راجہ ہے نیک اعمال تیرے ، جس ہیر ایمان دوایا ای
بھایُ بھابیاں ساک پیوند تیرے، جنہاں نال تُوں جھنجٹا پایا ای
اوڑک ہو ٹُریوں بے وطن ہو کے، تینون لسے نہ مُول منایا ای
کُجھ کھٹ لے وقت ہے مُورکھا اوےُ، ویلا کھُتڑا ہتھ نہ آیا ای

اردو ترجمہ :

ہیر رُوح ہے جو جسم کے اندر بند ہے، بالناتھ مُرشد ہے جو راستہ بتاتا ہے.
پانچ حواس گویا پانچ پیر ہیں جو ہر وقت تمہاری ہمّت بڑھاتے رہتے ہیں.
قصّہ میں قاضی ہمارے اعمال ہیں، اہل و عیال گویا منکر نکیر ہیں جو ہمارے اعمال لکھتے رہتے ہیں.
مکان قبر ہے، کھیڑا عزرایُٰیل ہے، جو روح کو قبض کر کے لے جاتا ہے.
کشتی کو پُل صراط جانو، جہاں دھکّے کھانے پڑیں گے.
لنگڑا کیدُو گویا شیطان ہے، جو لگایُ بجھایُ کرتا رہتا ہے.
ہیر کی سہیلیاں ہمارا گھر باار ہے ، جو زندگی میں تو ساتھ رہتے ہیں ، مرنے پر کویُ ساتھ نہیں جاتا.
جیسے ہیر اپنے ماں باپ کے گھر سے اکیلی گیُ تھی ، اسی طرح ہمارے ساتھ
بھی کویُ نہیں جاےُ گا.
مُسافری کی رات ہمارا نامۃُ اعمال ہے
بنسری کی آواز ہوش کا راگ ہے
سہتی کو موت اور رانجھے کو جسم سمجھو، ان دونوں کی آپس میں جنگ ہوتی ہے.
جس کسی نے ان دونوں پہلوانوں کی جنگ دیکھی، وہ اپنے آپ کو کیسے بچاےُ گا.
بھابھی کو شہوت اور ربیل نوکرانی کو بھُوک سمجھو، جنہوں نے آدم کو جنّت سے نکالا.
عورت گویا جوگ ہے جس کی وجہ سے کان چھدوا کر جسم پر راکھ ملنی پڑتی ہے.
جھنگ کے میکے کو دُنیا سمجھو، جہاں سے آخر کار کالا باغ یعنی قبر کی طرف جانا ہے.
سہیلیوں کا ترنجن ہماری بد اعمالیاں ہیں، جن کی بدولت دوزخ میں جاییُں گے.
راجہ کے مُلک میں جس شیر نے ڈرایا، وہ ہمارا نفس ہے.
اس نفس کو مارنے سے مشکلات ختم ہوں گی، اور رُوح اور جسم کا ملاپ ہوگا.
دُنیا میں ہم جو کام کاج یا سخت مزدوری کرتے ہیں، وہ سیالوں کی بھینسیں چرانے کے مترادف ہیں.
مسجد گویاماں کا پیٹ ہے، جہاں مقررہ وقت گزارتے ہیں.
منصف راجہ گویا نیک اعمال ہیں، جنہوں نے ایمان ( ہیر ) سے ملاپ کرا دیا.
بھایُ، بھابیاں، رشتہ دار یہ سب تمہارے پیوند ہیں، جن کے ساتھ تم جھگڑتے رہتے ہو.
آخر کار تم بے وطن ہو کر راہی ملک عدم ہُوےُ، تمہیں نہ جانے کے لیےُ کسی نے بھی نہ کہا.
مُورکھ ! ابھی وقت ہے کچھ نیک کام کر لو، گیا وقت ہاتھ نہیں آےُ گا.

وارث شاہ نے ایک جگہ وجودۃ الوجُود کے فلسفے کو بڑی خوبی سے بیان کیا ہے :

مالا منکیاں وچ جیوں اک دھاگا، جلوہ سرب کے بیچ سما رہیا
سب جیُوندیاں وچ ہے جان وانگوں، نشہ بھنگ افیم وچ آ رہیا
جویں پتریں مہندی دے رنگ رچیا، تویں جان جہان وچ آ رہیا
جویں رگت سریر جو جان اندر، تویں جان جہان وچ ا رہیا

اردو ترجمہ:

جس طرح مالا کے دھاگے کے ذریعے سب دانے پروےُ ہُوےُ ہُوتے ہیں، اسی طرح ذات ربّی کا جلوہ ہر ایک مخلوق میں موجود ہوتا ہے.
بھنگ اور افیم کو دیکھنے سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ ان کے اندر نشہ ہے، اسی طرح ہر زندہ جاندار میں اس کی قُدرت موجود ہے.
یا جس طرح مہندی کے پتّے کو دیکھنے سے اس میں مہندی کا رنگ نظر نہیں آتا، اسی طرح وہ ہر جان دار مخلوق میں موجود تو ہے، لیکن ہمیں نظر نہیں آتا.
جس طرح جسم کے اندر جان تو ہے، لیکن ہمیں دکھایُ نہیں دیتی.

وارث شاہ کی ہیر کا قصہ پنجابی زبان کی شاعری کا ایک لا فانی شاہکار ہےجس سے ہر پڑھنے والا اپنے مزاج کے مطابق معانی اخذ کر لیتا ہے. وارث شاہ کو پنجابی زبان پر پُورا عبُور حاصل ہے. فارسی اور عربی زبان پر مہارت نے اس کے کلام کو بہت نکھار دیا ہے. ہیر وارث شاہ کو تمام صوبہ پنجاب میں نہایت اہتمام سے گایا اور سُنا جاتا ہے. اس کی دھُن عام شاعری سے مختلف ہے. اسے گانے کے لیےُ آواز پر بے انتہا عبُور کی ضرورت ہوتی پے.

تخت ہزارہ
صوبہ پنجاب کے ضلع سرگودھا میں دریاےُ چناب کے کنارے ایک گاؤں تخت ہزارہ میں ایک بڑا زمین دار ” موجُو راہنجھا ” رہتا تھا. اُس کے آٹھ بیٹوں میں سب سے چھوٹے بیٹے کا نام ” دھیدُو ” تھا . دھیدو بڑا خوبصورت تھا. ماں باپ کا لاڈلا تھا. دوسرے بھایُ اس سے جلتے تھے. دھیدو کویُ کام نہ کرتا تھا. بس دارے میں بیٹھ کر حُکم چلاتا. بانسری بڑے شوق سے بجاتا. یہی دھیدو بعد میں رانجھا کے نام سے مشہور ہُوا.

دھیدُو کی بھاییُوں، بھابیوں سے کشیدگی

موجو رانجھا فوت ہو گیا. دھیدُو کے بُرے دن آ گیےُ. بھاییُوں نے زمین بانٹ کر اُسے الگ کر دیا. دھیدو نے اپنے حصہ کی زمین پر ہل جوتنے شروع کر دیےُ. کبھی کام نہ کرنے والا جلدی تھک گیا. اس کی بھابی کھانا لے کر آیُ،دھیدو نے اُسے اپنا دُکھڑا سنانا شروع کر دیا. باتوں باتوں میں دونوں ایک دوسرے سے ناراض ہو گیےُ. دھیدو نے اپنی بھابی سے جو کُچھ کہا شاعر اللہ دتّہ اُسے اس طرح بیان کرتا ہے :

کُڑیاں دا کم کڈھن کشیدہ، کد ن ک بُوٹے ٹاپے نی
جاؤ بھیناں بھرجاییُاں گھراں نوں، ٹاپ لیساں میں آپے نی
چھوٹی عُمرے مینوں وخت پیا، میری توڑ چڑھے تاں جاپے نی
سکیاں بھاییُاں مینوں وکھ چا کیتا، میرے جمدیاں مر گیےُ ماپے نی
دارے کھس لے سکیاں بھاییُاں ،تخت ملّے سرداراں نی
بابل دا گھر بھاییُاں لُٹیا، بھابیو کرو بہاراں نی
ہتھّی تے میں ہتھ نہ دھریا، کون کرے میری واہی نی
پٹکا بنھدیاں چھالے پوندے، ہلّاں دی اٹکل ناہیں نہ

اردو ترجمہ:

لڑکیوں کا کام تو یہ ہے کہ گھر کا کام یا کشیدہ کاری کریں. انہیں یہ زیب نہیں دیتا کہ بُوٹے درخت پھلانگتی پھریں.
بھابی ! تم گھر جاؤ، میں یہ کام خود ہی کر لوں گا.
چھوٹی عمر میں یہ مصیبت گلے پڑ گییُ، اس میں سر خرو ہو کر نکلوں تو بات بنے.
سگے بھاییُوں نے مجھے علیحدہ کر دیا، میرے تو جیسے پیدا ہوتے ہی والدین مر گیےُ.
بھاییُوں نے دارے ، چوپال ہتھیا لیےُ، باپ کا تخت بھی لے لیا.
باپ کا گھر بھی بھاییُوں نے لے لیا، تم سب عیش کر رہی ہو.
میں نے تو آج تک ہل پر ہاتھ بھی نہیں رکھا، بھلا میری کاشت کاری کیسے چلے گی.
سر پر پگڑی باندھتے ہوےُ میرے ہاتھوں میں چھالے پڑ جاتے ہیں. کاشت کاری کا یہ مشکل کام کیسے ہوگا.
بھابی دھیدو کو طعنہ دیتی ہے :

کچّا کنوارا رُس رُس بہنا ایں، اسی ست تیری بھرجایاں وے
ست بھرجایاں خدمت گارن، میلا بن کر آیاں وے
ساڈے آکھے لگ جا دیورا، ہوڑ رہیاں تینوں لالہ وے
ساڈی پکّی کھاندا نہیں، جا ویاہ لیا ہیر سیالاں وے

اردو ترجمہ :

دیکھو ! تم ابھی کنوارے ہو اور رُوٹھ رُوٹھ جاتے ہو. ہم تمہاری سات بھابیاں ہیں.
ساتوں بھابیاں تمہاری خدمت کے لیےُ تیار رہتی ہیں. یہ تمہیں منانے آیُ ہیں.
بھاُٰٰیُ ! ہماری بات مان جاؤ، تمہیں ناراض ہونے سے منع کر رہی ہیں.
اگر تم ہمارے ہاتھ سے پکی روٹی نہیں کھاتے، تو جاؤ ،سیالوں کی ہیر بیاہ کر لے آؤ جو تمہارا کھانا بناےُ.

دھیدو اپنی بھرجاییُوں کو جواب میں کہتا ہے :

مایُیاں دی سانوں لوڑ نہ کویُ، کیہڑا گل وچ پا لے پھاہی نی
دھیاں بیگانیاں اوہ پرناندے، جیہڑے کر کے کھاہن کمایُ نی
طعنے مارو ساڑو ہڈیاں، کرنے توں چت چایا نی
تُساں نے مینوں طعنے دے کے، میرا جگر جلایا نی
ایہہ پیےُ سب مال ٌ خزانے، ایہہ پیےُ سب ڈیرے نی
نہ متھّے بھاییُاں دے لگنا، نہیں وڑنا گھر تیرے نی

اردو ترجمہ :

مجھے شادی کرنے کی ضرورت نہیں، شادی کر کے کون اپنے گلے مین پھانسی کا پھندا ڈالے.
بیگانوں کی لڑکیاں تو وُہ بیاہ کر لاتے ہیں، جو کچھ کر کے کھاتے ہیں.
تم بھابیوں نے طعنے دے دے کر میرا جگر چھلنی کر دیا ہے، اب تو کویُ بھی کام کرنے کو جی نہیں چاہتا.
تمہارے طعنوں نے میرا جگر چھلنی کر دیا ہے.
یہ رہے تمہارا مال ،خزانے اور ڈیرے، انہیں سنبھالو.
آج کے بعد نہ تو بھاییُوں سے ملوں گا، اور نہ ہی تمہارے گھر آؤں گا.

ؤضاحت : مندرجہ بالا اشعار شاعر اللہ دتّہ کے ہیں. وارث شاہ اسے اس طرح بیان کرتا ہے :

ساڈا حُسن تُوں پسند نہ لیاویں، جا ہیر سیال ویاہ لیاویں
واہ ونجھلی پریم دا گھت جال، کویُ نڈھڑی سیالاں دی پھاہ لیاویں
تینوں ول اے رنّاں ولاونے دا ، رانی کُوکاں محل توں لاہ لیاویں
دنے گھر بوہوں کڈھنی ملے ناہیں، راتیں کندھ پچھواڑیوں ڈھاہ لیاویں
دن رات پھریں اوہدے مگر لگّا، بیڑی پریم دی اوس تے پا لیاویں
وارث شاہ نوں نال لے جا کے تے، جویں دا لگّے تویں لا لیاویں

وضاحت : میرے اہنے خیال میں مندرجہ بالا اشعار وارث شاہ کے نہیں ہیں. بلکہ یہ اُن اشعار میں سے ہیں جو بعض لوگوں نے اپنی طرف سے گھڑ کر ہیر وارث شاہ میں شامل کر دیےُ.

اردو ترجمہ :

تم ہمیں پسند نہیں کرتے، تو جاؤ حُسن کی پری ہیر سیال کو بیاہ لاؤ.
پریم بانسری کے ذریعے کسی لڑکی کو پھانس لاؤ.
تم عورتوں کو پھانسنے کا ہُنر جانتے ہو، کوشش کرو رانی کُوکاں کو اس کے محل سے لے آؤ.
دن دیہاڑے اگر داؤ نہ لگے تو، کسی رات کو پچھواڑے کی دیوار پھلانگ کر اُسے اپنے ساتھ لے آؤ.
اس کی محبت میں اس کا پیچھا کرتے رہو، اُسے اپنی محبت کا یقین دلا کر اپنی طرف مایُل کرنا.
آسانی کے لیےُ وارث شاہ کو ساتھ لے جانا، جو بھی داؤ لگے لگا کر اُسے لے آنا.

آج کی محفل یہاں ختم کرتے ہیں. اگلی محفل میں قصہ کو وہاں سے شروع کریں گے جہان دھیدو اپنی بھابیوں سے لڑ کر گھر بار چھوڑ دیتا ہے.

پنجاب کے دوسرے مشہور قصے مرزا صاھباں کو پڑھنے کے لیےُ اس لنک پر کلک کریں ” مرزا صاحباں، قصہ ناکام محبت کا

جاری ہے.


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *