جایُیں تو جایُیں کہاں – Where to go

Where to go. First of all go to school when you are a child.

جایُیں تو جایُیں کہاں

Where to go

Where to go
جایُیں تو جایُیں کہاں. ہر شہری یہی سوچ رہا ہے . ملکی حالات بہت بگڑ چُکے ہیں، کسی کا گھر محفوظ نہیں. راہ چلتے لوگوں کو ڈاکو اسلحہ کے زور پر لُوٹ رہے ہیں. مزاحمت پر قتل کر دیتے ہیں. انسانی جان کی کویُ قدر ہی نہیں رہی. اسلحہ کی فراوانی ہے. ہماری قوم لاتوں کے بھوت ہیں ، باتوں سے نہیں مانیں گے . امیروں کے پاس بہت پیسہ ہوتا ہے ، انہیں کویُ فکر نہیں. غریب آدمی ہی ہر طرف سے پس رہا ہے. حالات سے مجبور ہو کر انتہایُ قدم، خود کشی کر رہے ہیں. ایک ملک دشمن سیاسی جماعت ملک کو تباہ کرنے کے درپے  ہیں. ملک کو ملک امیر محمد خاں مرحوم جیسے سخت لیڈر کی ضرورت ہے

عنوانات
شروع کہاں سے کریں
عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ
عدالتوں میں جھوٹی گواہیاں
ہر شے میں ملاوٹ
ڈاکے، راہ زنی، چوری چکاری
فصلوں پر مالیہ
ابتدایُ جماعتوں کا سلیبس

شروع کہاں سے کریں.

ًملک بے شمار مسایُل میں گھرا ہے ، ہر مسلہ اپنی جگہ اہم ہے. چلیےُ، سب سے پہلے ہم پولیس کے محکمے سے شروع کرتے ہیں.

پولیس کے محکمے کی سب سے پہلی ذمہ داری عوام کے جان و مال کی حفاظت ہے. اس کے لیےُ پولیس کی خدمات قابل ستایُش ہیں. اپنا یہ فرض ادا کرتے ہُوےُ پولیس کے کیُ جوان جام شہادت نوش کر چکے ہیں. ان کی دلیری اور بہادری کو سلام. لیکن سب پولیس والے ایک جیسے نہیں ہیں. بہت عرصہ پہلے پاکستان ٹی وی پر ایک مشاعرہ ہُؤا تھا . جس میں ایک با ریش بزرگ شاعر ( غالبآ فیصل آباد سے آےُ تھے ) نے ایک نظم پڑھی، جس کا پہلا شعر یہ تھا :

پولیس نوں آکھاں رشوت خور تے فایُدہ کی
مگروں  کردا پھراں ٹکور تے  فایُدہ   کی

پولیس کے بعض افراد پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ ملزماں پر بے رحمانہ تشدد کرتے ہیں.اس الزام میں کسی حد تک سچایُ ہے. پولیس ایسے عادی ملزمان پر تشدد کرتی ہے جو بہت ہی ڈھیٹھ ہوں. بعض لوگ پولیس کی کارگردگی کا رونا روتے ہیں. پولیس بھی کیا کرے. آدھے سے ذیادہ پولیس کی نفری وی آیُ پی افراد کی حفاظت پر مقرر ہے. اس کا حل یہ ہو سکتا ہے کہ پولیس کو وی آی پی افراد کی حفاظت سے ہٹا لیا جاےُ. پولیس کو اس کا اصل کام کرنے دیا جاےُ. باقی رہا وی ٰآیُ پی شختیات کی حفاظت کا کام، اس کے لیےُ علیحدہ فورس بنایُ جاےُ، جس کا کام صرف اور صرف وی آیُ پی شخصیات کی سیکورٹی ہو. اس سلسلے میں ہمارا آرتیکل “‘ ہمارے سُلگتےبمسایُل نمبر 1 – امن ” ضرور پڑھیےُ.

عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ

عدالتیں کسی مظلوم کی داد رسی کا سہارا ہوتی ہیں. ہماری عدالتوں پر مقدمات کا اتنا بوجھ ہے کہ انہیں ہزاروں پینڈنگ مقدمات کا فیصلہ کرنے کے لیےُ مہیںوں چاہییں. ہوتا کیا ہے کہ ہر کویُ اُٹھ کر کسی کے خلاف درخواست دے دیتا ہے. . ایسے مقدمات عمو مآ لمبے عرصہ تک چلتے ہیں. ہماری عدالتوں میں سیاسی مقدمات کی بھرمار ہے. یہ مقدمات عمومآ مخالف سیاسی جماعتوں پر بے تُکے الزامات پر مشتمل ہوتے ہیں. سیاسی جماعتوں کے مقدمات سُننے کے لیےُ اگر ایک علیحدہ عدالت ہو جو صرف سیاسی مقدمات سُنے تو شایُد دوسری عدالتوں پر مقدمات سننے کا بوجھ کم ہو جاےُ.

عدالتوں میں جھُوٹی گواہیاں

عدالتوں میں اکثر جھُوٹے بیان دےُ جاتے ہیں، حالانکہ بیاں دینے والا حلفیہ بیان دیتا ہے کہ وہ سچ بول رہا ہے. عدالت ایسے حلفیہ بیاں کو سچ ماننے پر قانونآ مجبور ہوتی ہے. اپنے دعوے کو سچّا ثابت کرنے کے لیےُ مؤکل کو یہ جھوٹا بیان دینے کا مشورہ اس کا وکیل دیتا ہے. مجھے نہیں پتہ کہ وکیل کو وکالت کا لایُسنس دیتے وقت اس سے وکالت کے دوران جھوٹ نہ بولنے یا اپنے مؤکل کو جھوٹا بیان نہ دینے کا حلف لیا جاتا ہے یا نہیں. میرے خیال میں وکیل کو وکالت کا لایُسنس دینے سے پہلے اس سے یہ حلف لیا جاےُ کہ وہ اپنے مؤکل کو جھوٹا بیان دینے کا مشورہ نہیں دے گا. . اگر وکیل بعد میں اپنے اس حلف سے روگردانی کرتا ہے تو وہ جانے اور اس کا خدا جانے.

ہر شے میں ملاوٹ

آپ نے نقلی دودھ پکڑے جانے کے واقعات اخبارات میں پڑھے ہوں گے. یہ نقلی دودھ بنانے والے اپنے آپ کو انسان کہتے ہوں گے. انہیں ذرا بھی خوف خدا نہیں. ایسے لوگ یہ نہیں سوچتے کہ ان کا بنایا ہُؤا نقلی زہریلا دودھ بہت سارے معصوم چھوٹے بچے پییُں گے. ایسا زہریلا کام تو اسرایُلی نیتن یاہؤ لعنت اللہ علیہ نے بھی نہ سوچا ہوگا. ٰیہ نقلی دودھ بنانے والے اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں.
کہاں تک سنوں گے، کہاں تک سُناییُں. سُرخ مرچوں کے سفوف میں لکڑی کا سرخ رنگ کیا ہپؤا برادہ، سرخ اینٹوں کی مٹی شامل ہوتی ہے. ایک ہی قیمت میں تین چیزوں کے مزے. آملہ آیُل میں گندےموبل آیُل کی آمیزش، اشیا کی استعمال کی آخری تاریخ گزرنے کے باوجود اسے بیچنا. مرغیوں کی آلایُشوں سے نکالا ہُؤا تیل مشہور برانڈ کے تیل کے نام پر فروخت عام ہے. لاہور شہر کو سپلایُ کی جانے والی سبزیاں گٹروں کے گندے پانی سے اُگایُ جاتی ہیں. متعلقہ لوگ کچھ رقم لے کر گٹروں کے پانی کو استعمال کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں. خدا کا خوف بھی انہی گندے پانیوں میں بہا دیتے ہیں. اُن کا قول ہے :

ایہہ جہان مٹھّا ، اگلا کنے ڈٹھّا

عوام سب کچھ جانتے ہُوےُ بھی کچھ نہیں کر سکتی یا کر نہیں رہی. سب کچھ اللہ پر چھوڑ رہے ہیں. حکومت کو چاہییےُ کہ گٹروں کے گندے پانی سے سبزیاں اُگانے والوں اور انہیں گندا پانی مہیا کرنے والوں پر سخت گیر کارندے لگاےُ ، جو نہ کسی کی سفارش ماننے والے ہوں اور نہ رشوت خور ہوں.

ڈاکے، راہ زنی، چوری چکاری

اخبارات میں روزانہ ہی بے شمار ڈاکے، راہ زنی اور چوری چکاری کی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں. موٹر سایُکل اسلحہ کے زور پر چھینے جا رہے ہیں، کھڑی گاڑیاں چوری ہو رہی ہیں. چور گھروں میں داخل ہو کر لوٹ مار کر کے آرام سے نکل جاتے ہیں. مجھے بچہن کا زمانہ یاد ہے. میں اُس وقت گاؤں میں رہتا تھا. گاؤں میں ایک چوکیدار ہوتا تھا، جو رات کو گاؤں کی گلیوں میں پھرتا رہتا تھا. کسی گھر کا دروازہ کھُلا دیکھتا تو کھوج لگاتا کہ گھر کا دروازہ کیوں کھلا رہ گیا. چوکیدار ہر گلی میں جاتا . چور اس ڈر سے گاؤں میں چوری کرنے نہ آتے کہ پکڑے جاییُں گے. یہ چوکیداری نظام 1950 تک نافذ العمل رہا. اس کے بعد پتہ نہیں کن وجوہات کی بنا پر یہ سلسلہ ختم ہو گیا. اب تمام گاؤں پہلے کی بہ نسبت چوری چکاری سے غیر محفوظ ہیں.

ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے کی طرح رات کو چوکیدارانہ نظام نافذ کیا جاےُ. اس طرح امید کی جا سکتی ہے کہ رات کو چوری چکاری کے واقعات پر قابو پایا جا سکتا ہے.

فصلوں پر مالیہ

پرویز مشرف کے دور سے پہلے تک ملک میں نہر پٹواری ہوتے تھے. جو اپنے اپنے حلقوں میں کھیتوں مین بویُ گیُ ہر فصل کا ریکارڈ رکھتے تھے. ہر 6 ماہ بعد پٹواری نہر اپنے ریکارڈ کے مطابق بویُ گیُ فصل پر مالیہ کی رقم کی پرچی بنایا کرتے تھے. مختلف فصلوں پر مالیہ کی مقدار مختلف ہُؤا کرتی تھی. مالیہ کی یہ پرچیاں گاؤں کے نمبردار کو پہنچا دی جاتی تھیں. جو مالیہ اکٹھا کر کے مقررہ تاریخ تک اپنی تحصیل کے خزانہ میں جمع کرا دیتے تھے. مشرف دور میں چودھری پرویز الہی پنجاب کے وزیر اعلے بنے، تو انہوں نے مالیہ کا پُرانا نظام ختم کر کے نیا نظام ” مالیہ فی ایکڑ ” مقرر کر دیا. یعنی جتنی زمیں ہے اس پر فی ایکڑ ایک مقررہ رقم ہر 6 ماہ بعد ادا کرنی پڑتی. چاہے کویُ فصل بویُ جاےُ یا نہ بویُ جاےُ. اس طرح نہر پٹواری عملہ ختم ہو گیا. اس نیےُ مالیہ نظام میں زرعی مالیہ کی مقدار پہلے کی نسبت کم ہو گییُ ہے.

حکومت اپنی آمدنی بڑھانے کے لیےُ مختلف تیکس لگا رہی ہے. زرعی زمینوں پر مالیہ پرانے نہری پٹواری نظام کو دوبارہ بحال کر کے موجودہ زرعی مالیہ کی مقدار میں اضافہ کی توقع کی جا سکتی ہے.

ابتدایُ جماعتوں کا سلیبس

گہری نظر سے پرکھا جاےُ تو ہمارے ملک کے عوام خاصے بگڑ چُکے ہیں. ہر کویُ پھنّے خان بنا ہُؤا ہے. دوسرون کی بات سہنے کا کلچر ختم ہو گیا ہے. “میری ناک اونچی رہے ” کا کلچر عام ہے. کویُ بھی دوسروں کی بات سہنے کو تیار نہیں، چاہے دوسرا سچّا ہی ہو. موجودہ نسل کو سمجھانا جوےُ شیر لانے سے کم نہیں. اب ہماری تمام اُمیدیں نییُ پود سے ہیں. اس کے لیےُ ان کی تربیت پہلی جماعت سے ہی شروع ہو جانی چاہیےُ. اس کام کے لیےُ پہلی سے پانچویں جماعت تک کی جماعتوں کا سلیبس تبدیل ہونا چاہییےُ. یہ سلیبس ایسا ہو جو طالب علموں کے دماغ میں یہ بات ثبت کر دے کہ میں دوسروں کے کام آیا کروں گا. اپنے ملک کی بے لوث خدمت کروں گا. رشوت، کام چوری، غیبت اور اپنے مُلک سے غداری نہیں کروں گا. کسی پر تُہمت نہیں لگاؤں گا. اپنے نفع کے لیےُ ملک کو نقصان نہیں پہنچاؤں گا وغیرہ وغیرہ. ایسا سلیبس بنانے کے لیےُ ملک کی ترقی کے خواہش مند افراد سے مدد لی جاےُ. نام نہاد ایکسپرٹ کی خدمات نہ لی جاییُں . ملک میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو ملک کے وفادار ہیں اور ملک کو صحیح راستے پر لانا چاہتے ہیں. یہ کام کرنے کا پختہ ارادہ کر لیں، ہمت مرداں، مدد خُدا.

ذرا نم ہو تو یہ مٹّی بہت زرخیز ہے ساقی

اپنے قومی شاعر اقبال کے پُختہ ارادے کو مد نظر رکھیں، کہ ایک شخص نے اپنی شاعری کے ذریعے کس طرح پوری قوم کو بیدار کر دیا.

اپنی عادات کو بدلیں. صحیح اور صحت مند عادات اپناییُں. دوسروں کی عزّت کریں. کسی پر اپنے مفاد کے لیےُ جھوٹا الزام نہ لگاییُں. کسی کو بُرےے ناموں سے نہ پُکاریں. بے حیایُ کو فروغ دینے والے کاموں میں حصہ نہ لیں. بُروں کی صُحبت سے بچیں. حلال خوراک کھاییُں . ہر کام میں اللہ کی رضا کو مد نظر رکھیں. اللہ تعالے آپ کا حامی و ناصر ہو.

3 Responses

Leave a Reply