ہمارے سلگتے مسایُل – قسط 5، بے روزگاری
Our Burning Issues ، part 5-Unemployment
ہم اس وقت بے شمار مسالُل میں گھرے ہُوےُ ہیں. ان گھمبیر مسایُل میں گھر کر ہم باقی مسایُل کو بھوُل چکے ہیں. ان سب میں بے روزگاری کا مسُلہ سب سے شدید ہے. غریب رو رہا ہے اور امیر بھی رو رہا ہے. غریب کا رونا تو سمجھ میں آتا ہے، اس کے ساتھ امیر بھی رو رہا ہے کہ اس کی دولت میں اسی طرح کمی ہوتی رہی تو وہ کنگال ہو جاےُ گا. امیروں کی فیکٹریاں خام مال نہ ملنے کی وجہ سے بند ہو رہی ہیں. ٍفیکٹریاں بند ہونے کی وجہ سے فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدُوروں کی چھُٹّی کرایُ جا رہی ہے. اس طرح بے روزگاری بڑھ رہی ہے. بھُوکا آدمی عشق بھی نہیں کر سکتا. اسی طرح کا معاملہ ایک دفعہ ملک شام میں بھی آیا تھا ، جسے ایک شاعر نے فارسی زبان مینں یُوں بیان کیا :
چُناں قحط برپا شُد اندر دمشق
کہ یاراں فراموش کردند عشق
اردو ترجمہ:
شہر دمشق میں قحط کی شسدت اس طرح بڑھی .
کہ یار لوگ عشق کرنا بھُول گیےُ.
اسی مفہوم کو ہمارے مشہور شاعر فیض احمد فیض نے یُوں بیان کیا ہے:
دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے
ذیل میں ہم بے روز گاری سے متعلقہ موضُوعات پر ایک نظر ڈالتے ہیں .آگے بڑھنے سے پہلے “ ہمارے سلگتے مسایُل ، قسط 4، احساس محرومی ” ضرور پڑھیےُ.
عنوانات:
بےروزگاری
بے روزگاری کی وجوہات
حکومتی محکموں میں رشوت
کیا کیا جاےُ
بے روزگاری
Unemployment
اپنے مُلک پاکستان میں اس وقت ڈان نیوز کے مطابق 65،000 لوگ بے روزگار ہیں ، بے روزگاروں کی یہ تعداد 2021 سن عیسوی سے 15،000 افراد فی سال کے حساب سے بڑھتی ہُویُ یہاں تک پہنچی ہے. مزدور طبقہ اس بے روزگاری سے زیادہ پریشان ہے. گزشتہ نا تجربہ کار اور نا اہل حکومت نے ملک کو معاشی ابتری کی دلدل میں دھکیل دیا ہے. پُوری کابینہ وزیر اعضم سمیت اپنی ذ اتی دولت بڑھانے میں مصروف رہی. ٍ فضول خرچی اور رشوت کا بازار گرم رہا. ملازمتیں بکتی رہیں.ڈپٹی کمشنر لگوانے کا ریٹ دو کروڑ روپیہ اور کمشنر لگوانے کا ریٹ پانچ کروڑ مقرر تھا. سرکاری ٹھیکوں پر سرکاری کارندے اپنا کمیشن وصول کیے بغیر ٹھیکہ پاس نہیں کرتے تھے. عمرانی دور میں میگا رشوت کی کہانیاں اخباروں میں پڑھیں.
بے روزگاری کی وجوہات
Reasons of unemployment
بے روزگاری ایسے ہی نہیں بڑھتی. چند وجُوہات بے روزگاری کی بڑھوتڑی میں مددگارہوتی ہیں. بے روزگاری بڑھے گی اگر
نمبر 1 – حکُومت اناڑی، نا تجربہ کار اور نا اہل ہو .
نمبر 2 – حکومت کے مُختلف محکمے ایسے لوگوں کو دیےُ جاییُں جو اس محکمے کے کام کا تجربہ نہ رکھتے ہوں. ًمحض ڈنگ ٹپاؤ لوگوں کو کسی محکمے کا سربراہ نہ بنایا جاےُ. پچھلی حکومت میں حکومتی محکمے ایسے لوگوں کو دیےُ گیےُ جنہیں وہ محکمے چلانے کا ذرہ بھر تجربہ نہیں تھا. ایک وکیل کو سایُنس اور ٹیکنالوجی کے محکمے کا ہیڈ بنا دیا. ایک وکیل سایُنس کے متعلق کیا جانے. اس کی وزارت کے زمانہ میں فیس بُک پر ایک صاحب نے اس وزیر کی ایک تحقیق یُوں بیان کی ” پانی اُبالنے پر اسُ میں سے جو شُوں شُوں کی آواز آتی ہے. یہ آواز اُبلتے پانی میں مرتے ہُوےُ جراثیموں کی آواز ہوتی ہے “. . اسی طرح گیس کا محکمہ ایسے آدمی کے سپرد کیا جسے گیس کی الف بے بھی نہیں آتی تھی. اس وزیر کا پہلا کارنامہ یہ تھا کہ گیس سپلایُ کا ٹینڈر جولایُ میں نہ دیا. جب کہ جولایُ میں گیس سستی ملتی ہے. اس کی بجاےُ جب گیس ختم ہو رہی تھی یعنی دسیمبر میں جب کہ گیس کی قیمت جولایٰ کے مہینے کی نسبت دُگنی ہوتی ہے، گیس سپُلایُ کا آرڈر دیا. اس طرح ملک کو لاکھوں ڈالر کا زر مبادلہ برباد کر دیا. اس وزیر سے پُوچھ گُوچھ بھی نہیں ہُویُ. یہ زر مُبادلہ مُلک کا ضایُع ہُوا. اُس کا ذاتی نہیں تھا اس لیے اللہ اللہ خیر صللا.
نمبر 3 – حکومتی محکموں میں رشوت
ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ حکومتی محکموں میں بھرتی کے وقت قابلیت نہیں، سفارش چلتی ہے، یا پھر پیسہ چلتا ہے. ہمارے گاؤں کے ایک ریٹایُرڈ مال پٹواری کا بیٹا جب بی اے تک پڑھ چکُا تو اس کی نوکری کے لیےُ اسکے باپ نے ( لڑکے کے باپ نے خود بتایا ) بیس ہزار روپیہ رشوت دے کر اپنے بیتے کو کسٹم کے محکمہ میں بھرتی کروا دیا. آج کل تو ملازمت دینے کا ریٹ بہت بڑھ چُکا ہے. آج کل جس کے پاس پیسے نہیں ہیں ، وہ ملازمت کے صرف خواب ہی دیکھ سکتا ہے. ہر محکمہ میں پیسے دے کر بھرتی ہونے والے سب سے پہلے تو وہ اپنے پہسے واپس لینے کے لیےُ رشوت لیں گے. اور پھر وہ رشوت کے بغیر کسی کا جایُز کام بھی نہیں کریں گے. اسی لیےُ ملک میں رشوت عام ہے. غریب لوگوں کے پاس رشوت دینے کے لیےُ پہسے نہیں ہوتے ، اس لیےُ وہ بے روز گار ہی رہتے ہیں.
کیا کیا جاےُ
بے روزگاری اپنے مُلک کا ایک گھمبیر مسُلہ ہے. بے روزاگاری دُور کرنے کے لیےُ سب سے پہلے تو حکومت کو ایک مربُوط پروگرام بنانا چاہیےُ. اس کے لیےُ:
نمبر 1 – ایک صحیح سروے کے ذریعے بے رازگاروں کے اعداد و شمار جمع کیے جاییُں. اس کے لیےُ گھر بیٹھ کر رپورت بنانے والے کارکُن نہ رکھے جایُیں . اسی سال جومردم شماری کی گیُ تھی. اگر اُس میں ” بے روزگار ” لوگوں کے کوایُف ہیں، اُن اعداد و شمار کو لے کر ان کی ٹصدیق کی جاےُ. یہ عین ممکن ہے کہ اُن بے روزگاروں میں سے کچھ بر سر روز گار ہو چکے ہوں.
نمبر 2 – اس سروے میں بے روزگاروں کی تعلیمی قابلیت، پیشہ ورانہ صلاحیت بھی شمار کی جاےُ.
نمبر 3 – 60 سال یا اس سے زیادہ عمر کے بےرازگاروں کی علیحدہ فہرست بنایُ جاےُ. ان میں تندرست لوگوں کو گھریلو دستکاری کے کورس مُفت کراےُ جاییُں. بعد میں انہیں کام شروّع کرنے کے لیےُ قرض دیا جاےُ، جسے آسان اقساط میں واپس کرنے کی سہولت ہو.
نمبر 4 – 16 سال سے زیادہ عُمر کے بے روزگاروں کو اُن کی پسند کے ٹیکنیکل کورس کرا ےُ جاییُں. حکومت پنجاب اس سے پہلے نوجوانوں کو مُختلف ٹیکنیکل کورس مُفت کرا رہی ہے. لوگ ان کورسوں میں اپنی خواہش پر یہ کورس کرتے ہیں. اس سکیم کے تحت ہر بے روز گار کو اپنی پسند کا ایک کورس لازمی کرنا پڑے گا.
نمبر 5 – کسی کورس کو کامیابی سے مکمل کرنے والوں کو متعلقہ فیلڈ میں ملازمت دلوانے کی کوشش کی جاےُ. اس کے لیےُ ” ایمپلایُمنٹ ایکسچینج ” کی طرز پر ایک ادارہ قایُم کیا جاےُ.
نمبر 6 – ٹیکنیکل کورس کو کامیابی سے مکمل کرنے والے اگر اپنا کام کرنا چاہییُں تو انہیں کام شروع کرنے کے لیےُ مالی امداد قرض کی شکل میں دی جاےُ. اُن سے یہ رقم آسان قسطوں میں وصُول کی جاےُ. شرایُط طے کی جا سکتی ہیں.
بے روزگاری کی ایک وجہ ملکی حالات بھی ہیں. زر مبادلہ کی کمی کی وجہ سے فیکٹریوں کو اپنا خام مال منگوانے کے لیےُ لیٹر آف کریڈٹ کھولنے میں دُشواری ہے. خام مال نہ آنے کی وجہ سے فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں. ٍفیکٹری مزدوروں کی ملازمت ختم کی جا رہی ہے. اس سے بے روزگاری بڑھ رہی ہے.
ۃمارے ملک مین بعض ادارے ایسے ہیں ، جو ملکی خزانے پر بوجھ بنے ہوےُ ہیں. ان اداروں میں سفارشی لوگ بھرتی کیےُ گیےُ. غیر متعلقہ لوگوں کو بھاری تنخواہیں پر بھرتی کیا گیا. بہتر یہ ہے کہ ایسے اداروں یا صنعتوں کو بیچ کر ان پر اُٹھنے والے اخراجات سے جان چھڑایُ جاےُ.
بعض فراڈییُے لوگ کاغذات میں ہیرا پھیری کر کے حکومت کو جایُز ٹیکس بھی نہیں دیتے. ایسے لوگوں کو ٹریس کر کے انہیں عبرت ناک سزا دی جاےُ.
مًُلک کا آوے کا آوا ہی بگڑا ہُؤا ہے. یہاں پر کچھ سختی کرنے کی ضرورت ہے. یا یُوں کہیےُ کہ ملُک کو سابق گورنر امیر محمد خاں مرحوم جیسے حکمران کی ضرورت ہے.
گزارش
آپ سب حضرات سے گزارش ہے کہ اللہ تعالے سے دعا کریں کہ وہ ہمارے ملککے عوام پر رحم فرماےُ. ملک کو ترقی دینے کے اسباب پیدا کرے. م
One Response
Its like you read my mind You appear to know so much about this like you wrote the book in it or something I think that you can do with a few pics to drive the message home a little bit but other than that this is fantastic blog A great read Ill certainly be back.