پنجابی ڈھولے – قسط نمبر 11

پنجابی ڈھولے

قسط نمبر – 11

پنجابی ڈھولے پنجابی زبان کی ایک معروف شاخ ہے . ماہیا نوجوانوں کا پسندیدہ لوک گیت ہے تو “ڈھولا” ادھیڑ عمر کے لوگوں کا پسندیدہ لوک گیت ہے. گاؤں میں کسی لڑکی کی بارات آیُ ہو، اور ان کا رات ٹہرنے کا پروگتام ہو، تو رات کھانے کے بعد ڈھولوں کی محفل جمتی ہے. بارات اور دوسرے لوگ چارپایُیؤں پر بیٹھے ہوتے ہیں، کچھ لیٹے ہُوےُ ہیں. چارپاییُوں کی شروع کی قطار میں ڈھولے سنانے والا کھڑا ہو کر ڈھولے سناتا ہے.
فہرست مضامین،
تعارف
پنجابی ڈھولا نمبر 11

ڈھولے کا اردو زبان میں ترجمہ

پنجابی ڈھولے ، قسط نمبر 10 میں وعدہ کیا گیا تھا کہ پنجابی ڈھولوں کی اگلی قسطوں میں وہ پنجابی ڈھولے پیش کیےُ جایُیں گے جن میں ڈاکؤوں کا ذکر ہوگا. حسب وعدہ اس سلسلے کا پہلا ڈھولا حاضر ہے.

تعارف

نُوری کیموں والے کے ڈھولے ذیادہ تر ڈاکؤوں کے متعلق ہیں. اور ان کی کہانیاں بیان کرنے میں اسے ملکہ حاصل ہے. ان ڈاکؤوں کا جتھّہ بارہ افراد پر مشتمل تھا. یہ غریبوں کے ہمدرد اور ظالم سماج کے دشمن تھے. غریبوں کی مدد کرنا ان کا ہمیشہ شیوہ رہا. یہ تمام کے تمام سماج کے ٹھکراےُ ہوےُ آدمی تھے. مظلوم تھے. کمّیں تھے. آخر انہوں نے سماج سے بغاوت کر دی. سماج نے انہیں ڈاکو کا خطاب دیا. حقیقتآ یہ لوگ اُن ڈاکؤوں سے بہتر تھے جنہیں ظالم امیر کہا جاتا ہے. اور جو غریبوں کا خُون چُوس کر اپنی تجوریاں بھرتے ہیں. یہ ڈاکو جسے ایک دفعہ بہن کہتے، اُسے ہمیشہ بہن ہی کا درجہ دیتے. جسے ایک دفعہ بھایُ کہتے اُسے ہمیشہ سگّے بھایُ کی طرح چاہتے.انہی ڈاکؤوں کے متعلق نُوری کہتا ہے:

ڈھولا نمبر – 1

قال پییُ نت بلیندی، نارد اُٹھیا ای ٹھپ کے تھان نوں
گدھیاں آلے پُل توں بھنّا بندہ، اُس خبر چا کیتی کپتان نوں
آہندا اے اُٹھ حاکما سُتیا، لکھ لے میرے اس بیان نوں
بارہ چور نٹھّے ، اونہاں کھاہدا اےلُٹ جہان نوں
گورا اُٹھیا آہندا اے پیڑو گھوڑیاں، پاؤ وردیاں لہو چھک لگام نوں
گھوڑا لایا نہر دی پٹڑی، اوہ مارے ظُلم دیاں اڈیاں، کیڈے سوہنے دیندا اے تاُء لگام نوں
چھیڑؤاں تو پیا پچھدا ، ڈاکو لنگھ گیےُ کس اُتام نوں
اوہ پیےُ آہندے، اونہاں چھیاں (6) دے سر تے پنڈاں بھاریاں، تک ذخیرے دی لاہم نوں
اُنہاں جٹُّو دی بانہ ٹالی ، کیڈا لایا نے غم جوان نوں
اُنہاں سُوجے کراڑ نال انج کیتی، جیوں کولہُو پیڑ کے کڈھدا اے گھان نوں
نایُ ایس گلّوں منکھیندا رہ گیاکھاہڑے بیٹھا اے گھل نظام نوں
لوہار آکھیا ناییُا ! بھیڑ پیاں دل مُحکم رکھیےُ، چُتّو گیےُ نی چھڈ میدان نوں.

ڈھولے کا اردو ترجمہ

( تقدیر راوزانہ بلاتی تھی، تدبیر بھی آ گییُ .
گدھیاں والے پُل سے ایک آدمی دوڑا، اور اُس نے سپرٹنڈنٹ پولیس کو اطلاع دی.
کہنے لگا ” اے سوےُ ہویےُ حاکم! اُٹھو اور جلدی سے میرے اس بیان کو لکھ لو.
وہ بارہ چور ہیں جنہوں نے لُوٹ مار مچا رکھی ہے، وہ اس طرف جا رہے ہیں.”
ایس پی اُٹھا سپاہیوں سے کہا، اُٹھو ، فورآ وردیاں پہنو، گھوڑوں پر زینیں کس لو اور گھوڑے دوڑا دو.
انہوں نے اپنے گھوڑے نہر کی پٹڑی پر دوڑا دےُ ،گھوڑوں کو تیز دوڑانے کے لیےُ گھوڑوں کو ایڑیاں مارتے، ان کی لگاموں کو سنبھالتے اُڑتے ہوےُ جانے لگے.
راستے میں چرواہوں سے پوچھتے جاتے کہ ڈاکو کس طرف گیےُ ہیں.
وہ جواب میں کہتے کہ اُن میں سے 6 ڈاکو سروں پر بھاری گٹھڑیاں اٹھاےُ ہویےُ ہیں اور وہ سامنے والے جنگل کی طرف گیےُ ہیں.
جٹّو نے انہیں روکنا چاہا تو اس کے بازو توڑ دےُ ، جوان آدمی تھا بے کار ہو گیا.
سُوجا کھتری ملا، اسے بھی مار مار کر اس کا کچومر نکال دیا، جس طرح کولہو رایُ کو پیس کر اس کا تیل نکال کر باقی پھوگ چھوڑ دیتا ہے ( یہ سُوجا وُہی ہے جس نے بعد میں دھوکے سے ڈاکؤوں کے سردار لوہار کو مروا دیا)،
نایُ کو یہ افسوس رہا کہ وہ نظام کو پہلے کسی دوسری مہم پر بھیج چکا ہے ورنہ مقابلہ خوب ہوتا.
لوھار نے نایُ سے کہا ” مشکل وقت میں اپنے دل کو مظبوط رکھا کرو. دیکھو! بزدل بھاگ رہے ہیں.)

ڈھولا نمبر -2

قال پیُ نت بلیندی، نارد سد پیا ماردا
باراں چور نٹھّے جیل خانہ بھن سرکار دا
لبھُّو، لوہار، پریماں، گھُمّاں، مان، چراکُو ماچھی، سعی اونہاندے نال دا
جیرُو تے لچھُّو ، لہنا، رحماں نایُ، بھولا کمہار جیہدا بھٹ بھگیاڑ دا
اونہاں کپور سنگھ بیلی نوں آ جگایا، آہندے سانوں جھُگاّ وکھا کسے چنگے ساہوکار دا
اُنہاں سُتّے کھتری نوں جا جگایا، آہندے اُٹھ کراڑا ڈُھکّی جنج کویلے تُوں کویُ فکر نہیں کیتا روٹی تے دال دا
کراڑ آکھیا پراں ہٹ جاؤ چورو، میرے کول وٹّہ دوسیری دا متے ماراں تے ہو جاےُ کم وگاڑ دا
نایُ آکھیا گھُمیاں مار گنڈاسہ، ایویں چُتّو کراڑ ہتھ نکمّے وٹیاں تے پیا ماردا
کھترانی سُنیا تے بولی ، دے چھڈ کنجیاں ، ایتھے سودا نہیں ادھار دا
کھتری آکھیا ایہہ لو کنجیاں تے بُوہا کھول لو ایس ہٹ پسار دا
لوھار آکھیا سانوں کنجیاں دی لوڑ نہ کویُ ، میرے کول اے اک دھاگہ ڈہڑھ ہزار دا
لوھاڑ گھوڑے توں لہہ کے پیٹی تے انج اپڑیا جیُوں چک توں لوٹا لہہ لیندا اے پُتّر کمہار دا
اونہاں پیٹی نوں وڈھ کے ترے ( 3 ) ٹکڑے چا کیتے، پورا تول بنایا سر دے بھار دا
نایُ آکھیا تُسی بنھوں پنڈان، میں کھڑک رکھساں ایس بازار دا
جس تے اُتّے میرا وی سایہ پے جاوے، اوہ سُتّا سیں جاندا اے بھا ویں ہووے پُتر سرکار دا         نُوری کیموں کا آہندا اے، بھلکے لُٹنا ایں بُہڑوال نوں چانن کر مثال دا.

اردو میں ترجمہ

( تقدیر روزانہ بلاتی تھی، تدبیر بھی آواز دے کر اٹھی.
بارہ چور سرکاری جیل خانہ کی دیواریں توڑ کر بھاگ گیےُ.
ان میں لبھُّو،لوھار، پریماں،گھُمّاں، مان،، چراکُو ماچھی اور ان کا ساتھی سعی بھی تھا.
اس کے علاوہ جیرُو، لچھُّو، لہنا ، رحماں نایُ اور بھولا کمہار بھی تھاجس کا پنجہ بھیڑییےُ کے پنجے کی طرح سخت ہے.
انہوں نے اپنے ایک دوست کپور سنگھ کو سوتے میں اُٹھایا اور کہا کہ کسی دولت مند ساہوکار کے گھر کا پتہ بتاؤاس نے انہیں ایک ساہوکار مہاجن کے گھر کا پتہ بتایا.
انہوں نے ہندو ساہوکار کو نیند سے اٹھایا اور کہا کہ اُٹھو ، تمہارے گھر بارات بے وقت آیُ ہے ، تم نے ان کے لیےُ روٹی دال کا بندوبست نہیں کیا.
ساھوکار نے کہا ” چورو ! پرے ہٹ جاؤ، میرے پاس دوسیر وزنی باٹ ہے، ایسا نہ ہو میں تمہیں یہ باٹ مار دوں اور تم زخمی ہو جاؤ.
نایُ نے گھُمّے سے کہا” دیکھتے کیا ہو، اس پر کلہاڑی کے وار کرو، یہ بزدل ہمیں دو سیر کا باٹ دکھا کر ڈرا رہا ہے.
ساہوکار کی بیوی نے یہ باتیں سُنیں تو کہنے لگی “تم انہیں تجوری کی چابیاں دے دو، یہاں ادھار نہیں چلے گا”.
ساہوکار نے کنجیاں ان کے حوالے کر دیں. اور کہا کہ ان سے دکان کا دروازہ کھول لو، تجوری دکان کے اندر ہے.
لوہار کہنے لگا ” ہمیں چابیاں نہیں چاہییُں ، میرے پاس ایک ڈیڑھ ہزاری دھاگا ہے جو سارے تالے کھول لیتا ہے.
لوہار گھوڑے سے اُتر کر تجوری پر اس تیزی سے پہنچا جیسے کمہار چک سے برتن تیزی سے اتار لیتا ہے.
انہوں نے تجوری میں سامان کے تین برابر برابر حصے کیےُ تا کہ اٹھانے میں آسانی رہے.
نایُ نے کہا ‘ تم گٹھڑیاں باندھو، میں اس بازر کی طرف دھیان رکھتا ہوں کہ اس طرف سے کویُ آ نہ جاےُ.
جس پر میرا سایہ پڑ جاےُ وہ وہیں مر جاتا ہے چاہے کتنے ہی بڑے افسر کا بیٹا ہو.
نُوری کہتا ہے کہ ڈاکؤوں نے صلاح کی کہ کل بہڑوال ساہوکار کو لوٹیں گے ، اور وہ بھی اس طرح کہ مشعلوں کی روشنی کر کے، نہ کہ اندھیرے میں.

ایک وضاحت :
ان ڈھولوں میں تمام مثالیں دیہاتی زندگی سے لی گیُ ہیں. قیام پاکستان سے پہلے ہر قسم کی تجارت ہندؤں کے ہاتھ میں تھی. خصوصآ دیہات میں تو تمام دکاندار ہندؤ ہُوا کرتے تھے. دولت مند ہندؤں کو ساہوکار یا مہاجن کہ کر پکارتے تھے. بعض علاقوں میں امیر ہندؤں کو شاہ جی کہ کر بھی پکارتے تھے. ان پڑھ زمین دار ان سے اپنی ضرورت کے لیُے روپیہ ادھار لیتے تھے. جو سوُد در سوُد کی شکل میں اتنا بڑھ جاتا کہ قرض لینے والا ان مہاجنوں کے شکنجے سے نکل ہی نہ سکتا تھا. نقد روپیہ واپس نہ ملنے پر یہ لوگ مقروض زمیندار کی فصل سے معتد بہ حصہ لے لیتے. بارہ ڈاکؤں کا جتھُہ عمومآ ایسے ھی ظالم ساہوکاروں کو لُوٹے.
ڈھولے کا وہ حصہ دوبارہ پڑھیےُ جہان ساہوکار ڈاکؤں کو جواب دیتا ہے. یہاں بنیےُ کی ذہنیّت بڑے خوبصورت انداز میں بیان کی گیُ ہے. جب وہ اپنے جواب میں ناپ تول کے باٹ کا زکر کرتا ہے. ساھوکار کی بیوی کا جواب بھی قابل غور ہے، وہ بھی اپنی راےُ کے مطابق “سودا ” اور “نقد” اور “اُدھارُ کا زکر کرتی ہے..گویا ان کی زیدگی انہی الفاظ کے گرد گھومتی ہے.
آپ نے کبھی کسی کمہار کو اپنے “چک ” پر برتن بناتے دیکھا ہے ؟ لکڑی کے 3 یا 4 فت قطر کے دو گول پہیےُ ہوتے ہیں ، یہ پہیےُ ایک مضبوط لکڑی جو عمومآ 3 انچ موٹی اور تقریبآ 3 فت لمبی کے دونوں سروں پر مضبوتی سے جُڑے ہوتے ہیں اس کی شکل اس خالی ڈرم جیسی ہوتی ہے جس پر سے تار اتار لی گیُ ہو. زمین میں ایک گول گڑھا کھود کر اس ڈرم کو عمودی طور پر رکھ کر اسے لکڑی کے تختوں کی مدد سے قابو کیا جاتا ہے . کمہار اس گڑھے سے باہر بیٹھ کر پاؤں سے نچلے پہیےٰ کو گھماتا ہے تو اوپر والا پہیہ بھی گھومتا ہے جس پر وہ اپنے برتن بناتا ہے. اس سارے سیٹ اپ کو ” چک ‘ کہتے ہیں.
جب برتن چک پر تیار ہو جاتا ہے تو اس کے پیندے سے ایک باریک دھاگا اس طرح گزارا جاتا ہے کہ برتن چک سے جُدا ہو جاتا ہے. اب یہاں بڑی تیزی دکھانی پڑھتی ہے. اگر برتن کو فورآ ہی چک سے اُتارا نہ جاےُ تو وہ چک پر رہ گیُ مٹّی سے پھر سے جُڑ جاتا ہےاسی تیزی کا ذکر اس ڈھولے میں کیا گیا ھے.

جاری ہے.


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *