پنجابی اکھان ردیف ‘ا’ 20 – 16

پنجابی اکھان ، ردیف الف کی نیُ قسط حاضر ہے .

1پنجابی اکھان، ردیف الف، نمبر 20 –   6

پنجابی اکھان ، ردیف الف کی نیُ قسط حاضر .    ہے. اس سے پہلے “ پنجابی اکھان ردیف ا نمبر 15-11 ” پیش کی جا چکی ہے. پنجابی اکھان مجمُوعہ ہے گزرے ہُوےُ سیانے آدمیوں کے مشاہدات اور تجربات کا، جو وقت کی کسوٹی پر ہرکھے جا چکے ہیں ، اور انہیں صداقت کی سند مل چکی ہے. ان اکھان کی ردیف ا ، نمبر 20-16 پیش کی جا رہی ہے.

 

آ جا کے کھوتی بوھڑ تھلے-16   

ادھر ادھر گھوم پھر کر گدھی آخر کار بڑکے درخت کے نیچے ہی آ کھڑی ہوی.
آدمی ساری دنیا گھومتا رھے، ملک ملک کی خاک چھانے، جہاں مرضی ھو جاے، ایک دن ایسا آتا ھے کہ وہ اپنے ملک، اپنے گھر واپس آ تا ہے، یعنی اپنے اصل ٹھکانے پر واپس آ جاتا ہے. آج کل کے حالات کے مطابق پروین شاکر نے اس کہاوت کو یوں بیان کیا ہے :
وہ جہاں بھی گیا لوٹا تو میرے ہی پاس آیا
یہی اک بات اچھی ہے میرے ہرجای کی

17- اک ڈھگی دی بنڈ بگی       

دودھ دینے والی ایک گاے کا کیا فایدہ کہ اس کا دودھ اتنا کم ہو کہ سارے بچوں کو بھی نہ پلایا جا سکے.

دودھ دینے والی گاے یا بھینس کو دیہات میں ڈھگّی بھی کہتے ھیں. خاندان کے افراد زیادہ ہوں تو صرف ایک گاے کا دودھ اتنا کم ہوتا ہے جو خاندان کی ضروریات کے مطابق نا کافی ہوتا ہے. ایک دھگی سے خاندان کا بھرم تو رہتا ہے لیکن ضروریات پوری نہیں ہوتیں. صرف سفید پوشی رہتی ہے.

18 – اگّے بھابھو نچنی          اتوں ڈھولاں پای ڈنڈ   

بھابھو پہلے ہی ناچنے کی شوقین تھی. اس پر متزاد کہ ڈھول کی تھاپ نے اس کے شوق کو اور بھڑکا دیا.
کسی شخص کا رجہان بدی کی طرف ہو اور پھر اسے ایسے دوست مل جایں جو اسے برے راستوں کی طرف لے جایں تو ایسے شخص کی شخصیت کا نقشہ یہ کہاوت بخوبی کھینچتی ہے. اردو زبان کا محاورہ ” ایک کریلا دوسرے نیم چڑھا
اس کہاوت کا مفہوم کافی حد تک ادا کرتا ہے.

19 – اگلے نہیں بھوندے           ہور ڈھڈ کڈھی آوندے 

ھم پہلے والوں سے بیزار ہیں اوپر سے مزید آ گئے
ایک مفلوک الحال شخص کے کافی بچے تھے . جنہیں دو وقت کی روٹی کھلانا بھی مشکل تھا. اس کے کسی رشتے دار کے بچے بھی اس کے ہاں رہنے کو آ گئے .ایسے ہی کسی موقع پر اس کے منہ سے یہ الفاظ نکلے جو کہاوت بن گئ.(خاندانی منصوبہ بندی والے اس پر کہانی یا فلم بنا سکتے ہیں )

20 – اگے آہی کانی            اتوں پیا پانی   

وہ تو پہلے ہی ایک آنکھ سے کانی تھی اس پر ستم یہ کہ سر پر پانی پڑا اور دیکھنے والی ایک آنکھ بھی بند ہو گئ .
جب مصیبت پر مصیبت پڑنے لگے تو ایسے وقت کی ترجمانی یہ کہاوت کرتی ہے. اردو زبان کا محاورہ ” مرتے کو مارے شاہ مدار ” اس کہاوت کا کچھ مفہوم ادا کرتا ہے. پشتو زبان کی کہاوت ” چمار کا گھر ویسے بہی گندا تھا، اوپر سے مینہ برس گیا.، گندگی اور برھ گئ ” بھی اس کہاوت کا مفہوم ادا کرتی ہے.
جاری ہے.

Leave a Reply