Author: Sipra World

  • روشن چہرہ، قسط -4   Bright Face,  Part – 4

    روشن چہرہ، قسط -4 Bright Face, Part – 4

    روشن چہرہ، قسط 4
    Bright Face , Part 4

    روشن چہرہ، قسط 4

    Bright Face, Part-4

    بے نظیر قتل کے بعد  مشرف کے خلاف عوامی جذبات انتہا تک پہنچ ھیےُ. پی پی پی کو اس قتل کا بہت فایۃدہ ہؤا. لوگوں کی ہمدردیان ان کے ساتھ ہو گییُں. 2008 کے الیکشن میں پی پی پی نے میدان مار لیا.مشرف کے استعفے کے بعد آصف علی زرداری ملک کے صدر منتخب ہوےُ. ان کی صدارت میں کیُ اہم آیُنی ترامیم منظور ہویُں.      اس  سے پہلے عرصہ کے حالات جاننے کے لیےُ دیکھیےُ ” روشن چہرہ، قسط

    عنوانات

    صدارتی انتخاب 2008
    زرداری دور صدارت
    عام انخابات 2013
    صدارتی انتخاب 2013
    واقعات 2013

    صدارتی انخاب 2008

    پرویز مشرف کے استعفے کے بعد صدارتی انتخاب ستمبر 2008 میں ہُوےُ. 9 ستمبر 2008 کو آصف علی زرداری ملک کے صدر منتخب ہُوےُ. ان کے دور صدارت میں کیُ اہم  فیصلے ہُوےُ. اور کیُ متنازعہ آیُینی دفعات  کو نیُ جہت ملی.

     

    زرداری دور صدارت

    زرداری کےدور صدارت میں واقع ہونے والے کچھ واقعات یہ ہیں.

    نمبر 1 = ستمبر 16، 2008 کو مشرف کا بنایا ہُؤا این آر او منسوخ کر دیا گیا.

    نمبر 2= مارچ 9، 2008 کو ملازمت پیشہ خواتین کی ہراست روکنے کا بل منظور کیا گیا.

    نمبر 3= قومی ا سمبلی نے 8 اپریل ، 2010 کو اٹھارویں ترمیم منظور کی. جس سے آیُین کی دفعہ 58 بی 2 کے تحت صدر کا قومی اسمبلی توڑنے کا اختیار ختم ہو گیا. اسی ترمیم کے تحت شمال مغربی سرحدی صوبہ کا نام تبدیل کر کے خیبر پختونخواہ رکھا گیا.

    نمبر 4= مسٹر سلمان تاثیر ، گورنر پنجاب کو ان کے سیکورٹی گارڈ نے 4 جنوری 2011 کو گولیاں مار کر قتل کر دیا.

    نمبر 5 = میُ 5، 2011 کو القایُدہ چیف اسامہ بن لادن کو امریکی فوجیوں نے ایبٹ آباد میں واقع ان کے مکان پر حملہ کرکے انہیں گولیاں مار کر قتل کر دیا.

    نمبر 6 = نومبر 26، 2011 کو نیٹو کے فوجیوں نے پاک فوج کے 25 افراد کو ہلاک کر دیا. الزام لگایا کہ پاکستان نے افغانستان جانے کے لیےُ نیٹو سامان کی ترسیل کا راستہ بند کر دیا ہے. امریکی سیکریٹری آف سٹیٹ ہلاری کلنٹن نے جولایُ 2012 میں فوجیوں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیا. اس کے بعد راستہ کھول دیا گیا.

    نمبر 7 = جنوری 15، 2013 کو کویُٹہ میں ہزارہ برادری کے 100 افراد بم کے حملوں میں مارے گیےُ.

    نمبر 8 = جنوری 15، 2013 کو حکومت نے بجلی پیدا کرنے والے پاور سٹیشنوں کو کرایہ پر لینے کے معاملے میں ان تمام افراد کو گرفتار کر لیا، جن پر رینٹل پاور مہیا کرنے والوں سے رشوت لینے کا الزام تھا.

    نمبر 9 = فروری 18، 2013 . پاکستان نے چین کو گوادر پورٹ بنانے اور اسے آپریشنل کرنے کا ٹھیکہ دیا.

    نمر 10 = نومبر 20، 2009 کو غلام مصطفے جتویُ فوت ہوےُ.

    نمبر 11 = اگئست 2013 میں غیر متوقع شدید بارشوں اور سیلابوں نے ملک میں تباہی مچا دی. لاکھوں لوگوں کے گھر تباہ ہو گیےُ. لاکھوں لوگ غذا کی کمی اور مختلف بیماریوں کا شکار ہوےُ. صدر زرداری پر الزام لگے کہ اُس نے سیلاب زدہ علاقوں کے مکینوں کی مدد نہیں کی. صدر کی پارٹی کی مقبولیت کم ہونے لگی.جس کا اثر اگلے عام انتخابات پر پڑا.
    آصف علی زرداری پہلے پاکستانی صدر تھے جنہوں اپنی صدارت کے 5 سال مکمل کیےُ.

    عام انتخابات 2013

    پاکستان کی 14ویں قومی اسمبلی اور چاروں صوبوں کی صوبایُ اسمبلیوں کے انتخابات بروز ہفتہ، 11 میُ،2013 کو منعقد ہُوےُ.

    پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پنجاب اور بلوچستان میں اکثریت حاصل کی.
    پاکستان ہیپلز پارٹی سندھ میں کامیاب رہی.
    صوبہ خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آیُ نے میدان مار لیا.

    آیُین پاکستان کی دفعہ 224 ( شق نمبر 1 الف ، 1 ب)کے مطابق پارلیمنٹ کی تحلیل کے بعد ایک نگران حکومت ضروری ہے، جو نیےُ انتخابات کی نگرانی کرے. سیاسی پارٹیوں نے ریٹایُرڈ جسٹس ناصر اسلم زاہد کے نام پر اتفاق کیا. لیکن پی پی پی نہ مانی. معاملہ چار ممبران پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی کو بھیج دیا گیا.
    آیُین پاکستان کی دفعہ 224- الف، شق نمبر 3 کے تحت چیف الیکشن کمشنر جناب فخرالدین جی ابراحیم نے ایک پریس کانفرنس میں 24 مارچ 2013 کو اعلان کیا کہ ریٹایُرڈ فیڈرل شریعت کورٹ چھیف جسٹس میر ہزار خاں کھوسو کو نگران وزیر اعظم مقرر کیا جاتا ہے.جو اپنی نگرانی میں نےُ عام انتخابات کرایُں گے.
    جسٹس کھوسو نے 25 مارچ 2013 کو حلف اُٹھایا، اور 5 جولایُ 2013 تک بہ طور نگران وزیر اعظم کام کرتے رہے.

    صدارتی انتخاب 2013

    آصف علی زرداری کی مدت صدارت 8 ستمبر 2013 کو ختم ہونے جا رہی تھی.عام انتخابات کے بعد اب بارہویں صدر پاکستان کےانتخاب کے لےُ 30 جولایُ 2013 کی تاریخ مقرر کی گیُ.

    ًسٹر آصف علی زرداری نے صدر کا انتخاب لڑنے سے معذوری ظاہر کر دی . پی پی پی نے صدارتی انتخاب کا بایُکات کر دیا. اب میدان میں صرف 2 امیدوار رہ گےُ.

    پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار جناب ممنون حسین
    پی ٹی آیُ کے امیدوار جناب وجیہ الدین احمد

    آیُین پاکستان کی دفعہ 41 کے تحت صدر پاکستان کا انتخاب 8 اگئست ، 2013 تک ہو جانا چاہیےُ. لہذا صدارتی الیکشن 30 جولایُ 2023 کو ہوےُ. نتیجہ حسب ذیل رہا ؛
    پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ممنون حسین کو 432 ووٹ ملے.
    پی ٹی ایُ کے جناب وجیہ الدین کو 77 ووٹ ملے.

    جیت کے لیےُ 255 ووٹ دعکار تھے ، اس لےُ جناب ممنون حسین 5 سال کے لےُ پاکستان کے صدر منتخب ہوےُ. پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ ایک سولین صدر اپنی مدت صدارت پوری کر کے بغیر کسی خون خرابے کے اقتدار نےُ منتخب صدر کو منتقل کر رہا تھا.

    مختصرواقعات 2013

    جنوری 6 = قاضی حسین احمد ، امیر جماعت اسلامی ،اسلام آباد میں فوت ہو ےُ.
    جنوری 10 = دہشت گردوں کے حملوں میں کویُٹہ میں 100 سے زیادہ افراد قتل
    ہوےُ.
    مارچ 9 = بادامی باغ ، لاہور کی مسیحی آبادی کے ایک 28 سالہ ساون مسیح نامی نوجوان نے پیغمبر اسلام کے متعلق توہین آمیز گفتگو کی.
    مارچ 25 = میر ہزار خاں کھوسو نگران وزیر اعظم مقرر ہوےُ.
    میُ 11 = ملک میں عام انتخابات 2013 کو منعقد ہوےُ.
    میُ 25 = گجرات میں ایک سکول بس میں دھماکہ ہُؤا، 17 بچے موقع پر ہی فوت ہو گےُ. 7 بچے زخمی ہوےُ.
    جون 5 = نواز شریف پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہوےُ.
    جولایُ 30 = ممنون حسین ملک کے 12 ویں صدر منتخب ہوےُ. وہ 9 ستمبر کو بہ طور صدر حلف اُٹھایُیں ھے.
    اگست 6 = شدید بارشوں اور سیلابوں نے ملک میں تباہی مچا دی.
    اگست 14 = عوام نے 67واں یوم آزادی کا جشن منایا.
    ستمبر 6 = ملک میں ڈیفینس ڈے منایا گیا.
    ستمبر 9 =ٔ جناب ممنون حسین نے ملک کے 12ویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا.
    ستمبر 24 = بلوچستان میں 7.7 شدت کا زلزلہ آیا. 825 افراد جان سے گیےُ. اور سینکڑوں ذخمی ہوےُ.
    ستمبر 25 = منصورہ، لاہور میں سید منور حسن، امیر جماعت اسلامی کی زیر نگرانی ، مسلم لیڈروں کی بین الاقوامی کانفرینس ہویُ .
    اکتوبر کے آخر میں وزیر اعظم ،امریکی صدر باراک اُباما سے ایک میٹنگ کی.
    نومبر 1 = حکیم اللہ محسود، لیڈر پاکستان تحریک طالبان ایک امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا.
    نومبر 9 = یوم اقبال منایا گیا.
    نومبر 29 = پاکستان آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی ریٹایُر ہو گےُ. جنرل راحیل شریف آرمی چیف بنے.
    دسمبر 11 = چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اپنے عہدے سے ریٹایُر ہو گےُ. جسٹس  تصدق حسین جیلانی ان کی جگہ چیف جسٹس پاکستان سپریم کورٹ بنے

    زیر تبصرہ 2013 کا سال یہاں ختم ہوتا ہے ، 2014 اور اس سے بعد کے سالوں کی کہانی آیُندہ اقساط میں پیش کی  جایُیں گی.

  • روشن چہرہ – قسط 3      Bright face – part 3

    روشن چہرہ – قسط 3 Bright face – part 3

    روشن چہرہ – قسط 3
    Bright face – part 3

    Bright face-part 3

    روشن چہرہ قسط 3 میں جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت کے واقعات پر ایک نظر ڈالی جاےُ گی. جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت کو ہم ” روشن چہرہ ” تو نہیں کہہ سکتے. فوجی حکومت کو دُنیا میں کہیں بھی پسند نہیں کیا جاتا. کیونکہ ایسی حکومت کے دور میں عوام کے بنیادی حقوق اکثر معطل کر دییےُ جاتے ہیں. تمام احکامات فرد واحد کی خواہش پر مبنی ہوتے ہیں. عوام فوجی حکومت کے احکامات ماننے پر مجبور ہوتے ہیں

    عنوانات

     ستمبر 2001 کا واقعہ
    جنرل الیکشن 2002
    ریفرنڈم 2002
    جنرل الیکشن 2008

    ستمبر 2001 کا واقعہ

    گیارہ ستمبر 2001 کو ایک ہوایُ جہاز امریکہ میں واقع ورلڈ تریڈ سنٹر سے ٹکرایا. جس سے اس کی کیُ منزلیں تباہ ہو گییُں. اندازآ 4 ہزار آدمی مارے گییےُ. اس ٹکراؤ کے ٹھوڑی ہی دیر بعد ایک اور ہوایُ جہاز امریکی دفاعی مرکز ” پینٹاگون ” سے ٹکرایا. ان دو واقعات نےامریکی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا. اس کی ” نا قابل تسخیر ” مشہوری کی عمارت ڈھیر ہو گییُ. اس وقت کے امریکی صدر جارج بُش نے اایک مذہبی تنظیم ” القایُدہ ” کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا. ان دنوں القایُدہ کے سربراہ “اُسامہ بن لادن ” افغانستان میں مقیم تھے. امریکہ نے افغانستان سے اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا. افغانستان نے امریکہ سے اسامہ بن لادن کے ملوث ہونے کے ثبوت مانگے. جو امریکہ نہ دے سکا. امریکی صدر بُش اپنی ہزیمت پر تلملایا ہُؤا تھا. اس نے افغانستان پر حملہ کرنے کا فیصلہ کر لیا. امریکہ نے پرویز مشرف سے اپنے ہوایُ جہازوں کو پاکستانی حدود سے گزرنے کی اجازت مانگی، جو مشرف نے بلا چُون چرا ، کویُ مطالبہ کیےُ بغیر ، دے دی. امریکی اسامہ بن لادن کو تو ہلاک نہ کر سکے ، لیکں امریکی فوجیں بہت عرصہ تک افغانستان میں موجود رہیں

    جنرل الیکشن 2002

    جنرل الیکشن 2002 میں کنگ پارٹی پاکستان مسلم لیگ (ق) نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کر لی. بے نظیر بھٹو کی غیر موجودگی کے باوجود پاکستان پیپلز پارٹی دوسرے نمبر پر رہی. اسلام پسند پارٹیاں ” متحدہ مجلس عمل” کے پرچم تلے اکٹھی ہوییُں، اور انتخابات میں تیسری پوزیشن حاصل کر لی. نواز شریف کے جلا وطن ہونے کی وجہ سے پاکستان مسلم لیگ (ن) چوتھے نمبر پر رہی.

    صوبایُ سطح پر صوبہ سندھ میں پی پی پی ، صوبہ پنجاب میں پی یم ایل (ق)، صوبہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں متحدہ مجلس عمل کامیاب رہی.

    جنرل الیکشن 2002 میں کیُ پابندیاں لگایُ گییُ تھیں سب سے بڑی پابندی یہ تھی کہ انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار کی تعلیمی قابلیت بی اے سے کم نہ ہو. اس پابندی کی وجہ سے کییُ پرانے سیاست دان انتخابات میں حصہ نہ لے سکے. مذہبی جماعتوں کے امیدواروں پر اس پابندی کا اطلاق نہیں ہوتا تھا. اس کا فایُدہ متحدہ مجلس عمل کو پہنچا. اس الیکشن میں امیدوار کی عمر 21 سال سے گھٹا کر 18 سال کر دی گییُ.

    اس الیکشن میں پی ایم ایل (ق) نے قومی اسمبلی کی 126، پی پی پی پی نے 81 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی. نلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں متحدہ مجلس عمل کامیاب رہی. پنجاب میں پی یم ایل (ن) اپنا اقتدار کھو بیٹھی. اس کی جگہ ق لیگ نے لے لی.

    ریفرنڈم – 30 اپریل 2002

    جنرل پرویز مشرف نے 1999 میں ایک فوجی انقلاب کے ذریعہ اقتدار حاصل کیا. اور ایک آردر کے ذریعے ملک کے خود ساختہ صدر بن گیےُ. سپریم کورٹ آف پاکستان نے پرویز مشرف کے اس اقدام کو جایُز قرار دیا. ساتھ ہی یہ حُکم بھی دیا کہ وہ 3 سال کے اندر ملک میں جمہوریت بحال کرے گا.

    فوجی حکومتیں چونکہ عوام کی منتخب کردہ نہیں ہوتیں، اس لیےُ اپنی حکومت کو “منتخب شدہ” ثابت کرنے کے لیےُ وہ ریفرنڈم کا سہارہ لیتے ہیں. پرویز مشرف نے بھی ایک ایسا ہی ریفرنڈم 30 اپریل 2002 کو کرایا تھا.

    جنرل پرویز ًمشرف نے اپنے اقتدار کو جواز بخشنے کے لیےُ ایک ریفرینڈم کروانے کا اہتمام کیا. یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے کسی جان نثار نے ریفرینڈم کی تجویز پیش کی ہو. بہر حال ریفرینڈم کے لیےُ اپریل 30، 2002 کا دن مقرر کر دیا. جس میں خود ساختہ صدر پاکستان پرویز مشرف کو آیُندہ 5 سال کے لیےُ حکومت کرنے کو کہا جاےُ گا. اس کے لیےُ مندرجہ بالا تاریخ مقرر کر دی گیُ. اس دن پرویز مشرف اپنی پہلی عوامی ریلی سے خطاب کے دوران عوام سے سپورٹ کی اپیل کریں گے.

    جنرل پرویز مشرف نے ٹیلی ویژن پر تقریر کرتے ہوےُ اعلان کیا کہ وہ اکتوبر میں انتخابات کرا دے گا. ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ آیُندہ 5 سال کے لیےُ اقتدار میں رہنے کے لیےُ ریفرنڈم کراےُ گا. وہ چاہتا ہے کہ اُس کی معاشی، معاشرتی اور سیاسی اصلاحات کو آنے والی حکومت ختم نہ کر سکے، اس کے لیےُ اُس کا آیندہ 5 سال کے لیےُ اقتدار میں رہنا ضروری ہے.

    ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں نے مجوزہ ریفرینڈم کو غیر آییُنی قرار دیتے ہُوےُ مسترد کر دیا، اور عوام کو اس ریفرنڈم کا بایُکاٹ کرنے کی اپیل کر دی. جنرل پرویز مشرف نے آییُن معطل کر دیا، اور تمام سیاسی پارٹیوں پر پابندی عایُد کر دی کہ وہ کسی قسم کی بیرونی سرگرمی ، اجتماعات نہیں کر سکتے.

    جنرل مشرف نے لاہور میں ایک ریلی نکالی. حکومتی نمایُندوں پر زور دیا کہ وہ ریفرنڈم میں اس کی حمایت کریں.

    ٹجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بہ ظاہر مشرف نے حکومتی مشینری استعمال کرتے ہُوےُ اور سیاسی پارٹیوں کی سرگرمیوں پر سختی سے کنٹرول کرتے ہُوےُ، ریفرینڈم میں کامیابی حاصل کر لی. ریفرنڈم کے حق میں % 97.97 ووٹ پڑے. اپوزیشن پارٹیوں نے ریفرینڈم کا بایُکاٹ کیا کہ یہ ملک کے آییُن کے خلاف ہے.

    جنرل الیکشن 2008

    نومبر 3، 2007 کو پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی. عام انتخابات ملتوی کر دیےُ گیےُ. جو لٹکتے لٹکتے 18 فروری 2008 کو منعقد ہونے قرار پاےُ. کفر تُوٹا خدا خدا کر کے.

    بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد پی پی پی کی قیادت آصف علی زرداری اور مسٹر بلاول بھٹو  مشترکہ طور پر کر رہے تھے. پی ایم ایل (ن) کی قیادت چودھری نثار علی خاں کر رہے تھے. صوبہ سندھ میں پی پی پی، پنجاب میں پی ایم ایل (ن) ، خیبر پختونخواہ میں عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان میں پی ایم ایل (ق) نے کامیابی حاصل کی.

    پرویز مشرف نے انخابات میں اپنی شکست تسلیم کر لی . پی پی پی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) نے مشترکہ حکومت بنا لی. آصف علی زرداری ملک کے صدر بن گیےُ.مسٹر یوسف رضا گیلانی 24 مارچ 2008 کو ملک کے وزیر اعظم منتخب ہویےُ.

    پاکستان مسلم لیگ (ن) ایک ہفتہ بعد ہی حکومت سے علیحدہ ہو گییُ، تاکہ وہ عدالتوں کے مواخذہ کی تحریک چلا سکے. پی پی پی نے متحدہ قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی اور جمیعت علماےُ اسلام (ٍف) کو ملا کر مخلوط حکومت بنا لی.

    ان انتخابات 2008 میں پاکستان مسلم لیگ (ق) کے صدر شجاعت حسین اور صوبہ پنجاب کے وزیر اعلے پرویز الہی اپنی اپنی سیٹیں ہار گےُ.
    source: en.wikipedia.org

    پرویز مشرف اپنی شکست پر ہمت ہار بیٹھا. ملک میں اس کے خلاف نفرت انتہا کو پہنچ گییُ، پرویز مشرف  کے خلاف مقدمات کی تیاری شروع ہو گییُ. 18 اگست 2008 کو اپنی تقریر میں پرویز مشرف نے اس شرط پر استعفے دینے کی پیشکش کی کہ اُس کے خلاف کویُ مقدمہ نہ بنایا جاےُ. اور اسے بیرون ملک جانے میں کویُ رکاوٹ نہ ڈالی جاےُ. سیاسی قایُدین نے اس کی یہ پیشکش منظور کر لی . پرویز مشرف استعفے دے کر دُبیُ چلا گیا. جہاں وہ 79 سال کی عمر میں 5 فروری 2023 کو امریکن ہسپتال دُبییُ میں فوت ہو گیا.

    جنرل پرویز مشرف کا دور حکومت بڑا پُر آشوب رہا. اس کے دور حکومت کے چیدہ چیدہ واقعات مختصرآ یہ ہیں؛ 2002 کے عام انتخابات کی تفصیل اس سے پہلے”روشن چہرہ قسط 2 ” میں دی گییُ ہیں.

    نمبر 1 = پرویز مشرف نے 2002 میں ملک کے آییُن میں ” لیگل فریم ورک آرڈر ” کے تحت کییُ تبدیلیاں کیں
    نمبر 2 = پارلیمانی الیکشن 2002 میں منعقد ہوےُ.
    نمبر 3 = قانون ساز اسمبلی نے “لیگل فریم ورک آرڈر ” کی کیُ دفعات کی منظوری دی.
    نمبر 4 = اکتوبر 8، 2005 کو آزاد کشمیر میں ایک 7.6 شدت کے زلزلہ نے تباہی مچا دی.جس میں اندازآ 73،276 سے لے کر 87،350 تک لوگ لقمہ اجل بنے. 138،000 آدمی زخمی ہُوےُ. 3.5 ملین خاندان بے گھر ہو گیےُ. 500،000 گھرانے متاثر ہوےُ.
    نمبر 5 = 3 نومبر 2007 کو پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی، جو 15 دسمبر 2007 تک رہی. اس دوران ملک کے آیٰین کو معطل رکھا.
    نمبر 6 = صدارتی انتخاب 6 اکتوبر 2007 تک پرویز مشرف نے صدر پاکستان اور چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے اہنے پاس رکھے.
    نمبر 7 = چیف جستس آف پاکستان افتخار محمد چودھری نے ایمرجنسی کے نفاذ کو غیر آینی قرار دیا. یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے 7 ججز کا متفقہ فیصلہ تھا. فیصلہ میں آرمڈ فورسز کو ہدایت دی گیُ کہ وہ کویُ غیر آیُینی حکم نہ مانیں. پاکستان آرمی کا گیارھواں بریگیڈ سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت میں داخل ہوُا اور جسٹس چودھری اور دوسرے جج صاحبان کو عمارت سے باہر نکال دیا، اور پھر گرفتار کر لیا.
    نمر 8 = پرویز مشرف نے دوسری دفعہ صدر پاکستان کا حلف 29 نومبر 2007 کو لیا اور اعلان کیا کہ ایمرجینسی 16 دسمبر 2007 کو اُٹھا لی جاےُگی. ایمرجینسی 15 دسمبر 2007 کو اُٹھا لی گییُ.
    نمبر 9 = ملک کے عام انتخابات اوایُل جنوری 2008 کو کراےُ جانے پر اتفاق ہو چکا تھا
    نمبر 10 =. محترمہ بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی میں 27 دسمبر 2007 کو قتل کر دیا گیا. اس کے بعد کے واقعات کو دیکھتے ہوےُ عام انتخابات کی تاریخ بدلتی رہی. بالآخر 18 فروری 2008 کو عام انتخابات کرانے کا حتمی فیصلہ ہو گیا.
    نمبر 11= 18 فروری 2008 کے انتخابات میں مشرف کی پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا
    نمبر 12= اگست 18، 2008 کو مشرف نے مستعدفی ہونے کی پیشکش کی. اور اسی دن استعفادے دیا. بعد میں وہ دُبییُ چلا گیا اور وہیں وفات پایُ. رہے نام اللہ کا.

    آیُندہ کے واقعات پڑھنے کے لیےُ ” روشن چہرہ، قسط 4 ” ضرور پڑھیےُ.

  • روشن چہرہ  قسط  2 – Bright Face  Part 2

    روشن چہرہ قسط 2 – Bright Face Part 2

    روشن چہرہ قسط 2
    Bright Face, Part 2

    روشن چہرہ
    Bright face

    روشن چہرہ قسط نمبر 1 میں پاکستان کی تاریخ کے کُچھ حالات بیان کیےُ گےُ تھے. جو سول وار 1971 تک کے حالات پر مشتمل تھے. 1971 کا سال پاکستان پر بڑا بھاری گُزرا. مُلک کا مشرقی بازُو الگ ہو گیا. اس کی کچھ وجوہات ہم آج کے آرٹیکل میں بیان کریں گے. ان حالات میں آپ کو اقتدار کی ہوس صاف نظر آےُ گی. اقتدار کی اس ہوس نے ملک کا بہت نقصان کیا.

    عنوانات
    انتخابات 1971- نتایُج
    پاکستان پیپلز پارٹی کا دورحکومت
    محمد ضیاُالحق
    پرویز مشرف

      انتخابات 1971-نتایُج

    انتخابات 1971 ایک فرد، ایک ووٹ کی بنیاد پر ہُوےُ . مشرقی پاکستان کی آبادی ًمغربی پاکیستان سے زیادہ تھی. اس لیےُ مشرقی پاکستان سے منتخب ہونے والے عوامی نمایُندگان کی تعداد مغربی پاکستان سے منتخب ہونے والے نمایُندگان سے زیادہ تھی. اصولآ پاکستان کا وزیر اعظم مشرقی پاکستان سے ہونا چاہییےُ تھا. لیکن مغربی پاکستان کے کچھ سیاستدانوں کو یہ گوارہ نہ تھا. مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمان کی عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں ذولفقار علی بھُٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی کی اکثریت تھی. ملک کے مارشل لا ایدمنستریٹر یحیے خاں نے قومی اسمبلی کے منتخب ارکان کا ایک اجلاس ڈھاکہ میں بُلایا. بھُٹّو نے اعلان کر دیا کہ جو نمایُندہ اجلاس کے لیےُ ڈھاکہ جاےُ گا میں اُس کی ٹانگیں توڑ دوں گا. بھٹو نے نعرہ لگایا ” اُدھر تُم، ادھر ہم ” بات بڑھتی گیُ، سول وار شروع ہو گیُ. جو مشرقی پاکستان میں موجود پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے کے بعد اس طرح ختم ہویُ کہ پاکستان کا مشرقی بازو ملک سے علیحدہ ہو گیا. جس کا نام ” بنگلہ دیش ” رکھا گیا.

    باقی ماندہ پاکستان کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نے اقتدار ذولفقار علی بھٹو کے سپرد کیا، جسے سولین مارشل لا اید منسٹریٹر کے اختیارات سونپ دییےُ.

    پاکستان پہپلز پارٹی کا دور حکومت

    بھُتو 1971 سے 1973 تک مارشل لا ایڈمنسٹریٹر رہا. اس دوران پاکستان کے لیےُ آییُن کی تدوین کا کام جاری رہا. 1973 میں قومی اسمبلی نے نیا آییُن منظور کیا. بھُتو کو ملک کا وزیر اعظم چُن لیا گیا.
    بھٹو نے اپنے دور حکومت میں کییُ کام کیےُ :

    نمبرر 1 ؛ انڈین پرایُم منسٹر اندرا گاندھی کے ساتھ شملہ معاہدہ کے تحت انڈیا میں قید پاکستانی فوجیوں کو واپس بُلایا

           نمبر 2 ؛ 1971 کی جنگ میں انڈیا کے قبضے میں جانے والا پاکستانی علاقہ واپس لیا.

    نمبر 3 ؛ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کی بُنیاد رکھی. جس کے لیےُ مشہور ایتمی سایُنسدان عبدالقدیر خاں کو ہالینڈ سے بُلا کر اس کی سربراہی میں ایٹمی ترقی کا ادارہ جنوری 1972  میں قایُم کیا. جن کی محنت سے 28 میُ 1998 کو پاکستان نے اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ کیا.    اس  وقت پاکستان کے وزیر اعظم جناب نواز شریف تھے. جنہوں نے عالمی راہنماؤں کی   دھونس  اور لالچ کو رد کر کے ملک کو ایٹمی طاقت بنایا. یہ ہے روشن چہرہ کی ایک مثال

    نمبر 4 ؛ پاکستان میں قدیانی یا مرزیُ مذہب کے لوگ مسلمانوں کے ساتھ ایک ہی مسجد میں نماز پڑھ لیا کرتے تھے. قادیانی اللہ کے آخری رسول کو آخری نبی نہیں مانتے. بلکہ وہ قادیان کے ایک شخص مرزا غلام احمد کو اللہ کا نبی مانتے ہیں. قرآنی تعلیمات کے مطابق اللہ کے آخری رسول محمد ًمصطفے صل اللہ علیہ و سلم کو خاتم النبییّن ماننا لازم ہے . نہ ماننے والا دایُرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے. پاکستانی عوام کا پرزور مطالبہ تھا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا جاےُ. اور انہیں مسلمانوں کی مساجد میں نماز پڑھنے سے روکا جاےُ. یہ مطالبہ سالہا سال سے جاری تھا. اس پر بڑے فساد بھی ہُوےُ. بھُٹّو نے مسلمانوں کے پُرزور اصرار پر قومی اسمبلی کا ایک اجلاس بُلایا، جس میں متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور ہُویُ، جس کے زریعے قاددیانیوں کو ” غیر مسلم ” ڈکلییُر کیا گیا. جس کی رو سے
    نمبر 1 ؛ قادیانی مسلمانوں کی مساجد میں نماز نہیں پڑھ سکتے
    نمبر 2 ؛ قادیانی اپنے مذہب کی پرچار اعلانیہ نہیں کر سکتے.
    مندرجہ بالا مطالبات مسلمانوں کے بہت دیرینہ مطالبات تھے

    نمبر 5 ؛ پاکستان کا آییُن کیُ دفعہ بنا اور ٹُوٹا. بھُٹّو کی کاوشوں سے پاکستان کا ایک متفقہ آیُین منظور ہُؤا. جو آج تک رایُج ہے

    کویُ شخص کافی سال تک برسراقتدار رہے، تو اس کے خیالات کافی حد تک مطلق العنان ہو جاتے ہین. یہی کچھ بھُٹو کے ساتھ بھی ہُؤا. اُس نے اپنے دیرینہ ساتھیوں سے بہت بُرا سلوک کیا. اُس نے اختلافات پر افتخار تاری کو آزاد کشمیر کے ایک دور اُفتادہ گاؤں میں قید کر دیا. ایک پُرانے بزرگ دیرینہ ساتھی کے ساتھ انتہایُ ہتک آمیز سلوک کیا. لوگ آہستہ آہستہ اس سے متنفر ہونے لگے. بھٹو کے خلاف عوامی احتجاج ہونے لگے. آرمی چیف ضیا الحق نے . بھٹو کا تختہ الٹ کر مارشل لا لگا دیا.

    محمد ضیاُالحق

    بھٹو کے آخری دور میں محمد ضیاُالحق پاکستان آرمی کے چیف تھے . جب حالات بگڑنے لگے تو ضیاُالحق نے 5 جولایُ 1977 کو ملک میں مارشل لاُ لگا دیا اور خود مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن کر سارے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیےُ. بھٹو کو قید کر دیا. ضیا الحق بعد میں 16 ستمبر 1978 کو پاکستان کے چھٹے صدر بن گیےُ.
    سترہ اگست 1988 کو ایک ہوایُ جہاز کے ایُر کریش میں جان بہ حق ہوےُ. ان کا مزار اسلام    آباد  میں ہے.

    آیُین کے مطابق سینٹ کے چییُرمین غلام اسحاق خاں عبوری صدر پاکستان بن گیےُ.انہوں نے نومبر 1988 میں نیےُ انتخابات کرانے کا اعلان کیا

    ضیا الحق کے دور میں بھٹو کے خلاف قتل کا ایک مقدمہ بنایا گیا.، کہا گیا کہ اس نے مسمی احمد رصا خاں قصوری کو 1974 میں ایک کار کے حادثہ میں مروا دیا تھا. مقدمہ چلتا رہا آخر میں بھٹو کو قصوروار ٹھہرا کر اُسے 6 اپریل 1979 کو پھانسی دے دی گییُ. یہ مقدمہ بہت ہی متنازعہ رہا.
    پاکستان پیپلز پارٹی نے 2024 میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک پیٹیشن دایُر کی کہ بھٹو کے مقدمے کا از سر نو جایُزہ لیا جاےُ. پارٹی کے خیال میں بھٹو کے ساتھ زیادتی ہویُ تھی. سپریم کورٹ نے کافی چھان بین کے بعد اپنی راےُ دی کہ بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ درست نہ تھا

    بھٹو کے بعد جونیجو ملک کے وزیر اعظم بنے، صدر ضیا لحق نے انہیں جلد ہی فارغ کر دیا. اور نےُ انتخابات کا اعلان کر دیا. نیےُ انتخابات 1988 میں ہُوےُ جس میں پاکستان پیپلز پارٹی نے میدان مار لیا. سینٹ کے چیُرمین غلام اسحاق خاں کو ملک کا صدر چُن لیا گیا. بے نظیر بھٹو نے 2 دسمبر 1988 کو پاکستان کی وزیر اعظم کا حلف اُٹھایا. صدر غلام اسحاق خاں نے 6 اگست 1990 کو آییُن کے آرٹیکل 58 (2) (ب) کے تحت قومی اسمبلی توڑ دی ، اور نیےُ انتخابات کا اعلان کر دیا. ملک کی نویں قومی اسمبلی کے انتخابات 24 اکتوبر ، 1990 کو ہُوےُ. جس میں اسلامی جمہوری اتحاد نے 106 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی. اسلامی جمہوری اتحاد کے سربراہ جناب نواز شریف تھے.
    صدر غلام اسحاق خاں نے غلام ًصطفے جتویُ کو نگران وزیر اعظم مقرر کر دیا.کیُ ایک گنجھلوں کے حل ہو جانے کے بعد اسلامی جمہوری اتحاد کے پاس قومی اسمبلی کی کُل 207 سیٹوں میں سے 111 سیٹیں تھیں. جب کہ بے نظیر بھٹو کی سربراہی میں قایُم ” پاپولر ڈیموکریٹک الایُنس ” (پاکستان جمہوری اتحاد ) صرف 44 سییٹیں حاصل کر سکا. اس طرح جناب نواز شریف پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہوےُ.
    اصغر خاں نے ان اانتخابات کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک درخواست دی تھی ، کہ انتخابات میں دھاندلی ہویُ ہے. سپریم کورٹ نے اپنے 19 اکتوبر 2012 کے فیصلے میں اس الزام کو درست تسلیم کیا، کہ پاکستان آرمی کے دو جرنیلوں نے اپنی پسندیدہ سیاسی پارٹیوں کی مالی مدد کی.

    چیدہ واقعات:

    مسٹر معین قریشی، سابقہ وایُس پرہزیڈنٹ آف ورلڈ بینک ، جولایُ سے اکتوبر 1993 تک ملک کے نگران وزیر اعظم رہے.
    مسٹر فاروق لغاری 1993 میں ملک کے صدر منتخب ہُوےُ.
    مسٹر لغاری نے نومبر 1996 میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کو بر طرف کر دیا.
    دسمبر 1997 کو مسٹر لغاری صدر کے عہدہ سے مستعفی ہو گیےُ.
    مسٹر رفیق تارڑ جولایُ 1998 سے جون 2001 تک ملک کے صدر رہے.

    پرویز مشرف

    بارہ اکتوبر1999 کو آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا. اور ملک کا چیف ایگزیکٹو بن گیا. 14 اکتوبر 1999 کو ایک ایگزیتو آرڈر کے ذریعے پاکستان میں ایمرجینسی نافذ کر کے آییُن کو معطل کر دیا. ملک کے روشن چہرے پر ایک اور بد نما داغ.

    پرویز مشرف نے جناب نواز شریف کو قید کر دیا. بعد میں اُن سے ڈیل کر کے انہیں جلاوطن کر دیا. نواز شریف سعودی عرب چلے گیےُ، جہاں وہ 10 سال تک رہے.

    پرویز مشرف 20 جون 2001 کو صدر بن گیےُ ، اور 2008 تک اقتدار میں رہے.

    ملک میں بارہویں قومی اسمبلی اور چاروں صوبوں میں صوبایُ اسمبلیوں کے انتخابات 10 اکتوبر 2002 عیسوی کو جنرل پرویز مشرف کی زیر نگرانی میں منعقد ہُوےُ.
    مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارتی پر کییُ پابندیان لگا دی گییُں. ان انتخابات کے وقت نواز شریف اور بے نظیر بھٹو جلا وطن تھے. پیپلز پارتی نے انتخابات میں حصہ لینے کے لیےُ جناب امین فہیم کی زیر صدارت ایک نییُ پارٹی ” پاکستان پیپلز پارٹی پالیمینٹیرین ” بنا لی.
    مسلم لیگ (ن) کے کرتا دھرتا جلا وطن تھے. ان کی پارٹی کے کیُ پرندے اُڑ کر پرویز مشرف کے زیر سایہ پارٹی مسلم لیگ (قایُد اعظم ) جسے مسلم لیگ ( ق) بھی کہتے ہیں. میں چلے گیےُ. مسلم لیگ (ن) کے جان نثار ممبران جناب جاوید ہاشمی کی قیادت میں متحد رہے. اور انتخابات میں حصہ لیا. مسلم لیگ (ق) جسے “کنگ پارٹی ” بھی کہتے تھے، کو میاں محمد اظہر کی صدارت ملی.
    انتخابات سے قبل پرویز ںشرف نے پولیٹیکل آرڈر 2002 کے ذریعے نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کو پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت پر پابندی لگا دی، تاکہ وہ انتخابات میں حصہ نہ لے سکیں

      انتخابات منعقدہ 2002 میں پاکستان مسلم لیگ (ق) نے میدان مار لیا. میاں محمد اظہر ، صدر پاکستان مسلم لیگ (ق) قومی اسمبلی کی اپنی سیٹ ہار گیےُ. اس لیےُ وہ ملک کے وزیر اعظم نہ بن سکے. چنانچہ میر ظفر اللہ جمالی وزیر اعظم منتخب ہو گیےُ. متحدہ مجلس عمل کے صدر ٍفضل الرحمان اپوزیشن لیڈر چُن لیےُ گیےُ.
    source: en.wikipedia.org

    اس کے بعد کے حالات ” روشن چہرہ ، قسط 3 ” میں پڑھنا نہ بھُولیےُ گا.

  • روشن چہرہ – قسط نمبر 1,  Bright Face- Part  # 1

    روشن چہرہ – قسط نمبر 1, Bright Face- Part # 1

    روشن چہرہ – قسط نمبر 1
    Bright Face – Part #1

    Bright Face
    روشن چہرہ روشن چہرہ کیا ہے؟ یہ اپنے پیارے وطن کا چہرہ ہے. پیارا وطن، جس پر   جان بھی قُربان ہے. یہ وطن اُن لاکھوں شہیدوں کی امانت ہے ، جو اس وطن کی سرزمین پر اپنا قدم رکھنے کی خواہش میں اپنا سب کچھ لُٹا کر راستے مہیں ہی شہید کر دےُ گیےُ.اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان شہیدوں کو کس نے اور کیسے دفن کیا. اس ہجرت میں بڑے ہولناک واقعات ہُوےُ، جنہیں یاد کر کے اب بھی کلیجہ پھٹنے لگتا ہے. اپنے مُلک کی نیُ پود کو اُن ہولناک واقعات کا پتہ بھی نہیں. اس وقت ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے، اور جلد ہی دنیامیں بلند مقام حاصل کرے گا. انشا اللہہ.

    عنوانات

    پُرانا وقت گُزر گیا
    لفظ پاکستان کیسے تخلیق ہُؤا
    قرارداد پاکستان
    آزاد پاکستان
    پاکستان 1956 سے 1962 تک
    سول وار

    پُرانا وقت گُزر گیا

    انڈیا کی  پارٹیشن کے وقت میری عُمر 13 سال تھی.لُٹے پُٹے ، بے آسرا مہاجرین کی آمد، مقامی لوگوں کی مہاجرین کی امداد، ان کے کھانے پینے کا انتظام گاؤں کے لوگوں نے سنبھال لیا.یہ مجھے آج تک یاد ہے. مہاجرین اُن خالی مکانوں میں رہنے لگے ، جو ہندوستان جاتے ہُوےُ ہندو خالی چھوڑ گےُ تھے. پھر حکومت پاکستان نے مہاجرین کو زرعی زمینیں الاٹ کرنی شروع کر دیں، جہاں مہاجرین نے کاشتکاری شروع کر دی. اب وہ سب اپنے پاؤں پر کھڑے ہیں، اور اپنے ملک کوغذایُ خوشحالی میں خودکفیل بنانے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں.
    دنیا میں پاکستان کے نام کی ایک پہچان ہے. پاکستانی قوم میں آگے بڑھنے کی اُمنگ اور صلاحیت ہے. عام لوگوں کی حالت پہلے کی بہ نسبت بہت بہتر ہے.
    ہمارے ملک میں کیا کمی ہے ؟ آییُے، میں آپ کو اپنے مُلک پاکستان کا روشن چہرہ دکھانے کی کوشش کرتا ہُوں.

    لفظ پاکستان کیسے تخلیق ہُؤا ؟

    مسلم لیڈر چودھری رحمت علی نے 1933 میں نیےُ آزاد مسلم ملک کا نام پاکستان تجویز کیا. لفظ پاکستان ، نیےُ مسلم ملک میں شامل ہونے والے علاقہ جات کے ناموں کے حروف سے لیےُ گیےُ تھے، جن کی تفصیل یُوں ہے ؛

    پاکستان کا پہلا حرف پ صوبہ پنجاب کی نمایُندگی کرتا ہے.
    پاکستان کا دوسرا حرف ا ،سے مراد افغانیہ ( شمال مغربی سرحدی صوبہ ) جہاں کی اکثریت افغان کہلاتی ہے.اس صوبہ کا موجودہ نام ” خیبر پختُون خواہ ہے.
    پاکستان کا تیسرا حرف ک ، کشمیر سے لیا گیا ہے.
    پاکستان کا چوتھا حرف س ، صوبہ سندھ کی نمایُندگی کرتا ہے.
    پاکستان کے آخری تین حروف “تان ” صوبہ بلوچستان کی نمایُندگی کرتے ہیں.
    ان سارے حروف کو ملا کر ایک لفظ ” پاکستان ” بنتا ہے. چودھری رحمت علی نے صوبہ بنگال کے مسلم اکثریتی علاقوں کو ملا کر اسے ” بنگلہ دیش” کا نام تجویز کیا تھا.

    قرارداد پاکستان

    قایُد اعظم محمد علی جناح کی زیر صدارت آل انڈیا مسلم لیگ مسلمانوں کے لیےُ ایک علیحدہ وطن حاصل کرنے کی کوششیں میں عرصہ سے مصروف تھے. اپنے قومی شاعر محمد اقبال ان کے شانہ بہ شانہ مدد کرتے رہے. دیگر مسلم مشاہیر بھی ہمراہ تھے
    آل انڈیا مسلم لیگ کے سرکردہ راہنماؤں کی کوششوں سے ایک مسودہ تیار کیا گیا جسے قرارداد لاہور کا نام دیا گیا، اور بعد میں قرارداد پاکستان کے نام سے مشہور ہوُا.. اسے 23 مارچ 1940 کو منٹو پارک ، جسے آجکل اقبال پارک کہتے ہیں ، کے جلسے میں اتفاق سے منظور کیا گیا.

    آزاد پاکستان

    انیس سو چھیالیس کے عام انتخابات میں محمد علی جناح کی راہنمایُ میں آل انڈیا مسلم لیگ نے مسلم   اکثریتی علاقوں میں اکثریت حاصل کر لی. ان انتخابات میں مسلمانوں نے کمال یک جہتی کا مظاہرہ کیا. میں ان انتخابات کا چشم دید گواہ ہُوں. مسلمانوں کا جوش قابل دید تھا. لوگ ایک جگہ بیٹھ کر اللہ کو گواہ بنا کر قسمیں اُٹھاتے تھے کہ ہم صرف اور صرف مسلم لیگ کو ووٹ دیں گے. مسلم لیگ کےامیدواروں کے مقابل امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو گییُں.

    الیکشن کے بعد ہندوستان کے مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کی حکومتیں قایُم ہو گییُں. برطانوی حکومت نے ہندوستان کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کر لیا. جس کے لیےُ ایک باؤنڈری کمیشن بنایا گیا. جس کا سربراہ ” رڈ کلف ” تھا. پنجاب کی تقسیم کرتے ہُؤےُ اس نے مسلم اکثریتی ضلع گورداس پور کا علاقہ انڈیا کو دے دیا. اگر یہ ضلع پاکستان میں شامل ہو جاتا تو انڈیا کے لیےُ کشمیر جانے کا راستہ بند ہو جاتا.

    چودہ اگست 1947 کو پاکستان بننے کے بعد اس کا داررالحکومت کراچی کو بنا دیا گیا.قایُد اعظم اعظم محمد علی جیناح گورنر جنرل اور لیاقت علی خاں وزیر اعظم بنے. ابھی ہم مکمل آزاد نہیں تھے. ملک کےسربراہ گورنر جنرل کو ملکہ برطانیہ نامزد کرتی تھی. ہماری آرمی کا نام رایُل پاکستان آرمی ہؤا کرتا تھا.

    قایُد اعظم 1948 میں وفات پا گیےُ. اس کے بعد لیاقت علی خاں کو قتل کر دیا گیا. آن کے قتل کا سبب اور قاتل کون تھا، یہ آج تک پتہ نہیں چل سکا.

    اسلامی جمہوریہہ پاکستان

    عوام اور قوم کے سرکردہ راہنماؤں نے برطانیہ کی سرپرستی کے دُم چھلے سے آزاد ہونے کا فیصلہ کر لیا. چنانچہ اس کے اعلان کے لیےُ 23 مارچ 1956 کا دن مقرر کیا گیا. اس تاریخ کو جمعہ کا دن تھا. چنانچہ 23 مارچ 1956 بروز جمعہ پکستان سرکاری طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان قرار پایا. سکندر مرزا ملک کے صدر بنے.

    پاکستان-1956 سے 1962 تک

    قایُد اعظم کی وفات کے بعد ملک کے حالات ٹھیک طرح سے چل نہ سکے. اقتدار کی کشمکش نے ملک کو بہت نقصان پہنچایا . ملک کے صدر سکندر مرزا نے 1958 میں پاکستان کے آییُن کو معطل کر کے ملک میں مارشل لگا دیا. جلد ہی جنرل ایوب خاں ، جو اس وقت پاکستان آرمی کے چیف تھے، نے سکندر مرزا کو معطل کر کے خود اقتدار سنبھال لیا.

    جنرل ایوب خاں نے ملک میں صدارتی نظام نافد کر دیا. ملک میں ” بُنیادی جنہوریتیوں ” کا نظام متعاف کرایا. پورے ملک میں یونین کونسلوں کے انتخابات ہوےُ. ایوب خاں کے نافذ کردہ نظام میں یہی منتخب ارکان یونین کونسل صدر پاکستان کا انتخاب کرتے تھے.

    ایوب خاں 10 سال تک حکومت کرتے رہے. انہی کے دور حکومت میں 1965 میں انڈیا کے ساتھ جنگ ہویُ. اس وقت انڈیا کے وزیر اعظم لال بہادر شاسری تھے. یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ملک میں جتنی ترقی ایوب خاں کے دور حکومت میں ہُویُ، کسی دوسرے کے دور میں نہیں ہویُ.

    ہم پاکستانی کسی بھی شخص کے لمبے عرصہ تک اقتدار میں رہنا برداشت نہیں کرتے. ملک کے عوام ایوب خاں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوےُ. ایوب خاں نے اقتدار جنرل یحیے خاں کے حوالے کیا، اور خود گوشہ نشین ہو گیےُ.

    سول وار

    سن انیس سو اکہتر کے الیکشن میں مغربی پاکستان میں ذولفقار علی بھُٹو کی زیر قیادت پاکستان پیپلز پارٹی نے الیکشن میں اکثریت حاصل کر لی. مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمان کی عوامی لیگ نے میدان مار لیا. مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ تھی. ایک فرد ایک ووٹ کے فارمولے کے تحت مشرقی پاکستان میں منتخب عوامی نمایُندگوں کی تعداد زیادہ تھی، قانون کے مطابق وزیر اعظم مشرقی پاکستان سے بننا چاہیےُ تھا. لیکن پیپلز پارٹی اس کے حق میں نہ تھی. یہاں اقتدار کی ہوس میں لوگوں سے کیُ غلطیاں ہُویُں . مشرقی پاکستان کو اس کا حق نہ دیا گیا. لوگ مغربی پاکستان کے خلاف اُٹھ کھڑے ہُوےُ. سول وار شروع ہو گیُ. ہمارے ازلی دُشمن انڈیا نے مشرقی پاکستان کی ” مُکتی باہنی‌” کی مدد کے لیےُ اپنی فوج بھیج دی. یہ سول وار تقریبآ 9 ماہ جاری رہی. وہاں پر موجود ہماری فوج نے مرکزی قیادت کے حکم پر ہتھیار ڈال دیےُ. اسلامی تاریخ میں اتنی تعداد میں اسلامی فوج کا ہتھیار ڈالنا پہلا واقعہ تھا. سارا ملک سوگوار ہو گیا. ہمارے تقریبآ 70 ہزار فوجی انڈیا میں قید رہے. یہ قیدی شملہ معاہدے کے تحت واپس پاکستان لوٹے.

    اس وقت ملکی حالات کچھ اچھے نہیں ہیں، اس کی کییُ وجوہات ہیں ان وجوہات کو جاننے کے لییےُ ہمارا آرٹکل ” ہمارے سلگتے مسایُل قسط -1، امن ” پڑھییےُ.

    باقی حالات قسط نمبر 2 میں پڑھیےُ.

  • ہمارے سُلگتے مسایُل # 18 –   سیلاب  -Our burning Issues # 18 – Floods

    ہمارے سُلگتے مسایُل # 18 – سیلاب -Our burning Issues # 18 – Floods

    ہمارے سُلگتے مسایُل # 18- سیلاب
    Our burning Issues # 18 – Floods

    سیلاب ٍ
    Floods.

    گو کہ ہم خود سیلاب نہیں لا سکتے، اور نہ ہم میں یہ طاقت ہے کہ ہم اپنی مرضی سے جہاں چاہیں ، سیلاب لے آیُیں، لیکن پچھلے تین چار سال سے ملک میں بارشوں کی کثرت سے سیلانوں کی تباہ کاریوں میں بہت اضافہ ہُؤا ہے. بعض علاقوں سے پچھلے سال آنے والے سیلابوں کا پانی ابھی تک خُشک نہیں ہُؤا، کہ اس سال سیلابوں نے مزید تباہی مچا دی . سیلابوں کا زیادہ تر زور صوبہ بلوچستان اور سندھ میں ہوتا ہے ، صوبہ سندھ اس لیےُ زیادہ  متاثر ہوتا ہے کہ بارشوں اور سیلابوں کا بہاؤ صوبہ سندھ سے گزرتا ہُؤا سمندر میں جا گرتا ہے.

    .عنوانات

    سیلاب کیوں آتے ہیں ؟
    سیلابوں سے تباہی.
    سیلابوں سے بچاؤ

    سیلاب کیوں آتے ہیں ؟

    اپنے ملک میں برسات کا موسم عمومآ 15 جون سے لے کر 15 اگست تک ہوتا ہے. لیکن پچھلے چند سالوں سے ان تاریخوں میں تبدیلی آ چُکی ہے. آج سے 6 یا 7 سال پہلے تک اتنی زیادہ بارشیں نہیں ہوتی تھیں. اب کچھ موسمی تغیرات کی وجہ سے پہلے کی نسبت بارشیں بہت زیادہ ہو رہی ہیں. ایسا کیوں ہو رہا ہے ؟ صحیح وجوہات تو سایُنس دان یا محکمہ موسمیات کے ماہرین ہی بتا سکتے ہیں. ہمیں تو اتنا پتہ ہے کہ اپنے ملک کی آب و ہوا پچھلے سالوں کی بہ نسبت بہت گرم ہو چکی ہے. پچھلے سالوں کی بہ نسبت بارشیں بہت زیادہ ہو رہی ہیں، اور اسی وجہ سے سیلابوں کی تُندی اور تباہی بھی بڑھ چُکی ہے. اب یہ تبدیلیاں انسانی بس میں نہیں. آج سے پچیس تیس سال پہلے سعودی عرب میں شازو نازر ہی بارش ہوتی تھی. آج کل وہاں کییُ علاقوں میں برف باری ہُوتی ہے. یہ سب کچھ اُس قادر مطلق کے ہاتھ میں ہے جو سب جہانوں کا خالق ہے.

    بعض پڑھے لکھے لوگ ان تبدیلیوں کی وجہ یہ بتاتے ہیں ، کہ ہماری زمین بہت آہستگی سے اپنی بایُیں طرف سرک رہی ہے. زمین کی یہ حرکت کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ زمین کا موجودہ شمالی قطب ہزاروں سال بعد جنوبی قطب بن جاےُ گا اور موجودہ جنوبی قطب شمالی قطب بن جاےُ گا. سایُنس دانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ زمین کی اس تبدیلی میں 10 ہزار سال کا عوصہ لگتا ہے.

    اندازہ لگایا گیا ہے کہ موجودہ موسمیاتی تبدیلیاں بھی شاید زمین کی اسی حرکت کی وجہ سے وقوع پزیر ہو رہی ہیں. واللہ اعلم . ہمیں تو یہ پتہ ہے کہ آج کل کا موسم آج سے 100 سال پہلے کی نسبت زیادہ گرم ہے. اور پچھلے سالوں کی بہ نسبت بارشیں زیادہ ہو رہی ہیں . جس کی وجہ سے سیلاب   بھی زیادہ آ رہے ہیں.

    سیلابوں سے تباہی

    جب پہاڑوں اور میدانوں میں بارشیں زیادہ عرصہ تک اور زور دار ہوں ، تو خُشک زمین کچھ پانی اپنے اندر جذب کر لیتی ہے. لیکن اس جذب ہونے والے پانی کی مقدار ہہت کم ہوتی ہے. ذیادہ بارشوں کی صورت میں پانی اپنی ڈھلان کی طرف بہنے لگتا ہے. زیادہ پانی جب سیلاب کی شکل اختیار کرتا ہے ، تو اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوت کو تباہ کر دیتا ہے. صوبہ بلوچستان اور سندھ کے علاقوں میں زیادہ تر لوگوں کے مکانات کچّی مٹّی سے بنے ہوتے ہیں، جو بارش میں زمین بوس ہو جاتے ہیں. سیلابوں کا پانی نسبتآ نیچی جگہ جمع ہو جاتا ہے. صوبہ سندھ کے کییُ علاقوں میں پچھلے سال کے سیلابوں کا ہانی اب تک نکالا نہیں جا سکا. لوگوں کے کچّے مکان جو سیلابوں میں گر چکے تھے، اب تک بناےُ نہیں جا سکے. اور بارشوں کا موسم دوبارہ آ چکا ہے. لوگوں کی زمینوں میں پانی کھڑا ہے، وہاں کویُ فصل کاشت نہیں کی جا سکتی. سیلابوں اور بارشوں سے اتنی تباہی ہُویُ ہے ،جس کا اندازہ عام لوگوں کو نہیں ہے. سیلاب زدہ لوگ اب تک جھونپڑیوں میں گزارہ کر رہے ہیں. حکومت کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں، کہ سیلاب زدہ لوگوں کو مکان بنا کر دے.

    سیلابوں سے بچاؤ

    بارش اللہ تعالے کی ایک نعمت ہے. لیکن زیادہ بارش بعض دفعہ زحمت بن جاتی ہے. ایسے ہی کسی موقع پر کسی نے کہا تھا ؛

    رب نعمتاں دا مینہہ کی وسایا
    ماڑیاں دی چھت ڈگ پییُ

    اس زحمت سے بچا جا سکتا اور اس سے فایُدہ اُٹھایا جا سکتا ہے.

    اپنا ملک ایک زرعی ملک ہے، جس میں فصلیں اُگایُ جا سکتی ہیں . زیادہ فصل لینے کے لیےُ فصل کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے. بارانی فصلوں کی نشوونما اتنی زیادہ نہیں ہوتی، اس لیےُ وہ زیادہ پیداوار نہیں دیتیں. اگر زمیندار اپنی بارانی فصلوں سے زیادہ پیداوار لینا چاہتے ہوں تو اس کے لیےُ دو طریقے ہیں.

    نمبر 1 – بارانی فصلوں کو پانی مہیا کرنے کےلیےُ بارانی رقبے میں ڈیزل آیُل سے چلنے والے ٹیوب ویل لگا لیےُ جاییُں. ٹیوب ویل لگانے میں کچھ خرچ تو کرنا پڑے گا، یہ خرچ صرف ایک دفعہ ہی کرنا پڑے گا. اس کے بعد صرف ڈیزل کا خرچ پڑے گا. اس انتظام سے فصلوں کو پانی وقت پر مل سکے گا اور فصل زیادہ منافع دے گی.
    ٹیوب ویل لگانے اور پھر ڈیزل کے خرچہ سے بچنے کے لیےُ ایک دیسی طریقہ استعمال کیا جا سکتا ہے.

    نمبر 2 – بارانی رقبے میں ایک یا دو جگہوں پر تالاب بنا لیےُ جایُیں ، جن میں بارش کا پانی اکٹھا کیا جا سکتا ہے. یہ پانی بارش نہ ہونے کی صورت میں فصلوں کے کام آےُ گا.

    یہ تو تھا چھوٹی سطح پر کرنے کا کام. ملکی سطح پر مختلف مقامات پر سہولت کے مطابق پانی کے چھوٹے یا بڑے ڈیم بناےُ جاییُں. جن میں بارش یا سیلابوں کا پانی جمع کیا جا سکے. اس وقت ایسے ڈیم نہ ہونے کی وجہ سے بارش اور سیلابوں کا سارا پانی سمندر میں جا گرتا ہے. دُنیا کی سمجھدار قوموں نے اسی طریقے سے پانی کے ڈیم بنا کر سیلابوں سے اپنی جان چھڑایُ ہے ، اور بارشوں اور سیلابوں کے پانیوں سے فایُدہ اُٹھایا ہے.

    اب ایسا بھی نہیں ہے کہ حکومت کو اس طریقے کا علم نہیں ہے یا احساس نہیں ہے. ایسا کیا جا سکتا ہے کہ بہت بڑے ڈیم نہ بناےُ جاییُں، جنہیں بنانے میں خرچ زیادہ آتا ہے. مناسب مقدار میں پانی جمع کرنے کے لیےُ کسانوں کے مشورے سے مناسب جگہوں پر چھوٹے ڈیم بنا لیےُ جاییُں. ایسے ڈیم بنانے پر سیاست نہ کھیلی جاےُ. اس طریقے پر عمل کر کے کسان زیادہ خوشحال اور ملک معاشی طور پر زیادہ مظبُوط ہوگا.

    حکومتی ماہرین کے پاس ایسی سکیمیں ہو سکتی ہیں ، جس سے اپنا مُلک سیلابوں کی تباہ کاریوں سے ، اگر مکمل طور پر نہ سہی، کافی حد تک قابُو پا سکتا ہے. اس کے لیےُ اپنے اختلافات بھُلا کر ، صرف اور صرف اپنے مُلک کی ترقی اور خوشحالی کو مد نظر رکھا جاےُ. مُلک ہے تو ہم ہیں.

    آگے بڑھیےُ، ملکی ترقی کے لیے ہر اختلاف بھُلا دیجیےُ. اللہ تعالے ان کی مدد کرتا ہے ، جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں.

    آللہ آپ کا حامی و ناصر ہو.
    پاکستان زندہ باد.

  • ہم کدھر جا رہے ہیں ؟ Where are we  going

    ہم کدھر جا رہے ہیں ؟ Where are we going

    ہم کدھر جا رہے ہیں ؟
    Where are we going ?

    ہم کدھر جا رہے ہیں ؟ یہ سوال ہر اُس شخص کے ذہن میں کلبلا رہا ہے ، جو اپنے وطن کا خیر خواہ ہے. جسے اپنے وطن سے محبت ہے اور جو اپنے وطن کو صحیح سمت میں ترقی کرتا ہُؤا دیکھنا چاہتا ہے. بد قسمتی سے اپنے ملک کی بیشتر آبادی اُن افراد پر مشتمل ہے ، جو قیام پاکستان کے بہت بعد پیدا ہُوےُ. یہ پود اُن قربانیوں سے کما حقہ واقف نہیں جو مسلمانوں نے قیام پاکستان سے پہلے دیں، اور اعلان آزادی کے بعد دیں. ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آنے والے لاکھوں مرد، عورتوں اور بچوں کو راستے میں ہی شہہید کر دیا گیا. جو لُٹے پُٹے مرد اور خواتین پاکستان پہنچے ، انہیں بسانے اور نییُ زندگی کا آغاز کرنے کا مرحلہ بڑا مشکل تھا. ان سب تکالیف کا ادراک نییُ پود کو نہیں

    عنوانات

    دُنیا کی سب سے بڑی ہجرت

    ہم ٹیکس دینا بوجھ سمجھتے ہیں
    ہم کدھر جا رہے ہیں ؟
    اشتہارات
    موبایُل فون کا غلط استعمال
    شیطان کے چیلے
    پاکستان کا قومی پرچم
    کرنے کا ایک کام

    دُنیا کی سب سے بڑی ہجرت

    دنیا کو فتح کرنے کی خواہش تو ابتداےُ آفرینش سے ہی بعض حکمرانوں کے دلوں میں رہی ہے ، ہلاکو خاں اور سکندر کی مثالیں تو تقریبآ سبھی لوگ جانتے ہیں. لیکن ان کے ادوار میں بھی اتنی بڑی ہجرتوں کا سراغ نہیں ملتا. اللہ کے آخری رسوُل جناب محمد صل اللہ علیہ و سلم اور اُن کے صحابہ کرام نے بھی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی تھی. لیکن قیام پاکستان کے وقت ہندوستان سے پاکستان کی طرف ہجرت کرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں تھی. بنگال کے قریب رہنے والے مسلمان بنگا ل کی طرف ہجرت کر گیےُ. بعض مسلمان گھرانوں نے ہندوستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا. اور اب ان پر جو بیت رہی ہے، وہ پچھتا رہے ہیں کہ ہم نے قیام پاکستان کے وقت پاکستان کی طرف ہجرت کیوں نہ کی

    ہندو کبھی بھی مسلمانوں کے دوست یا ہمدرد نہیں رہے. ہندو گاےُ کو اپنے خدا کا درجہ دیتے ہیں اور اس کی پوجا کرتے ہیں. مسلمان گاےُ کو ذبح کر کے اس کا گوشت کھاتے ہیں. ہندوؤں کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہُویُ ہے کہ مسلمان اُن کے خُدا کا گوشت کھاتے ہیں. اسی بات کی بنا پر ہر ہندو مسلمانوں کے خلاف دل میں نفرت رکھتا ہے. آج کل ہندوستان میں ہندو مسلم فسادات روز مرہ کا معمول ہیں، جس میں مسلمانوں کو شہید کرنا اور ان کے مکانوں کو آگ لگانا کار ثواب سمجھا جاتا ہے. مسلمانوں کے لیےُ مشکل یہ ہے کہ ہندو حکومت انہیں کسی مسلم ملک میں ہجرت کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتی. ہندوستان کے مسلمانوں کو کسی مسلمان ملک میں ہجرت کر جانے کا مسُلہ اقوام متحدہ میں اُٹھایا جاےُ تو شاید کویُ راستہ نکل آےُ.

    ہم ٹیکس دینا بوجھ سمجھتے ہیں.

    قیام پاکستان سے پہلے تک مسلمانوں کے ہر جلسہ اور جلوس میں ایک ہی نعرہ گُونجتا تھا. ” پاکستان کا مطلب کیا —- لا الہ الل اللہ ” . جب پاکستان بنا ، اُس وقت میں 13 سال کا تھا. مجھے لوگوں کا جوش و خروش آج تک یاد ہے. ًمہاجرین کی آمد ، مقامی عوام کی مہاجرین کی خدمت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ابھی تک میرے ذہن میں تازہ ہے. مہاجرین نے ہندوؤں کے چھوڑے ہُوےُ مکانات میں رہنا شروع کر دیا. اس طرح ان کے سر چھپانے کا مسُلہ حل ہو گیا. گاؤں کے کھاتے پیتے گھرانوں نے مہاجرین کو وقت پر کھانا دینے کا ذمہ لے لیا. آہستہ آہستہ مہاجرین نے محنت مزدوری کر کے اپنا کھانا خود پکانا شروع کر دیا. پھر مہاجرین کو کلیم میں زرعی زمینیں الاٹ ہو گییُں، اور وہ ان زمینوں پر کاشت کاری کرنے لگے. وہ زمانہ ایک دوسرے کا دُکھ بانٹنے کا تھا. آج کل جیسا نفسا نفسی کا زمانہ نہیں تھا. قایُد اعظم کی وفات کے بعد اقتدار کی جنگ چھڑ گییُ. لوگ عہدوں کے پیچھے اپنا ایمان بیچنے لگے. کسی وزیر اعظم کو ٹک کر کام کرنے نہیں دیا گیا. اس وقت انڈیا کا وزیر اعظم کہتا تھا کہ میں اتنی جلدی اپنی دھوتی نہیں بدلتا جتنی جلدی پاکستان کا وزیر اعظم بدل جاتا ہے. عوام روز روز کی تبدیلیوں سے مایوس ہونے لگے، اور یہ مایوسی آج تک اپنے پنجے گاڑے ہُوےُ پے. ملک پر چند خاندانوں کا قبضہ ہے، جو ادل بدل کر آتے ہیں. ان خاندانوں میں ایسے خاندان بھی ہیں جو اکیلے ہزاروں ایکڑ زرعی زمین کے مالک ہیں. یہی لوگ ہمیشہ اسمبلیوں میں آتے ہیں. اور ملک کے لیےُ قانون بناتے ہیں. اپنا ملک 77 سالوں کا ہو چکا ہے. آج تک زرعی پیداوار پر تیکس نہیں لگ سکا. وجہ ؟ اپنی زمینوں سے آمدنی پر تیکس کون لگاتا ہے ؟. زرعی زمینوں کے مالک اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں. اپنی خوشی سے ٹیکس کون دیتا ہے

    ہم کدھر جا رہے ہیں ؟

    قیام پاکستان کے بعد مجموعی طور پر عوام اچھے عادات و اطوار کے مالک تھے. اس سے پہلے تجارت پر غیر مسلمانوں کی اجارہ داری تھی. جو زیادہ تر ہندو ہوتے تھے . قیام پاکستان کے وقت اور بعد میں تجارت پیشہ لوگ ( ہندو) ہندوستان چلے گیےُ. جس سے تجارتی ماحول میں ایک خلا پیدا ہو گیا. جسے آہستہ آہستہ مسلمانوں نے پُر کرنا شروع کر دیا. جس سے ان دکانداروں کی زہنیت بھی بدل گیُ. وہ ہر کام میں ” نفع ” کو مقدم رکھتے. اور اس طرح ان میں ہمدردی کم اور لالچ کا عُنصر زیادہ ہو گیا. یا صحیح الفاظ میں ان کی زہنیت میں زر پرستی داخل ہو گییُ، اور ایک دوسرے سے ہمدردی غاٰ یُب ہونے لگی. آج کل یہ رُجحان کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے. لوگ پیسہ کمانے کے چکر میں جایُز اور نا جایُز کو نہیں دیکھتے. بس پیسہ آنا چاہییےُ. اس کے لیےُ لوگوں نے کیُ جال بچھا رکھے ہیں. جو کچھ اس طرح کے ہیں :

    نمبر 1 ؛ سٹیج ڈرامے

    ان سٹیج ڈراموں میں اداکار انتہایُ ذو معنی الفا ظ ادا کرتے ہیں. جن میں مزاح کا عُنصر پایا  .جاتا ہے. تماشایُ ایسے الفاظ پردل کھول کر ہنستے ہیں.یعنی ” جیسے ذبح کرنے والے، ایسے ہی کھانے والے. “اس کے علاوہ ستیج پر بڑے ہی بےہُودہ اور فُحش ڈانس دیکھنے کو ملتے ہیں. یہ سارا سیٹ اپ ہی اخلاق بگاڑنے میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے.

    نمبر 2 ؛ پنجابی فلمیں

    ایک زمانہ تھا، پنجابی فلموں میں گانے ضرور ہوتے تھے ، لیکن گانوں میں لچّر پن نہیں تھا.، جیسے آج کل کی پنجابی فلموں میں دکھایا جا رہا ہے. کویُ بھی خود دار آدمی آج کل کی پنجابی فلموں کو اپنی فیملی کے ہمراہ دیکھنا پسند نہیں کرتا. فلموں کی کہانی کو اپنے معاشرہ کی عکاسی کرنی چاہیےُ. لیکن آج کل کی پنجابی فلمیں کسی اور ہی معاشرہ کو پیش کرتی ہیں، آج کل کی فلموں میں جو لباس صنف نازک کو فلموں میں پہنے ہُوےُ دکھایا جاتا ہے ، یہ لباس پہن کر اگر کویُ لڑکی یا عورت بازار میں آ جاےُ، تو اس کے لباس کے متعلق عوام کے تبصرے سُن کر شرم سے ڈوب مرنے کو چاہے گی. فلمیں بنانے والوں نے پیسہ بٹورنے کے لیےُ عورت کو تماشہ بنا دیا ہے. فلمساز اس طرح کی فلموں سے جو پیسہ اکٹھا کرتا ہے ، اس کے بارے میں کسی صحیح عالم دین سے یہ ضرور پوچھے کہ آخرت میں یہ پیسہ اسے کتنا آرام دے گا

    ٹیلی ویژن

    آج کل ٹیلی ویژن اشتہار بازی کا سب سے بڑا مقبول ذریعہ ہے. ٹی وی پر دکھاےُ جانے والے ہر اشتہار میں مخلوط ڈانس ضرورت بن گیا ہے. ان اشتہارات میں خیر سے بڑی عمر کی امّاں جان بھی تھرکتی نظر آتی ہیں. یہ زمانہ بھی دیکھنا تھا. موجودہ ٹیلی ویژن نیُ پود کے ذہنوں میں اسلامی اقدار کو مٹا کر مغربی مادر پدر آزاد معاشرہ کی طرف لے جا رہا ہے، جسے یہ ترقی کا خوبصورت نام دے کر ذہنوں کو اُلجھا رہا ہے. حکومت کو چاہیےُ کہ وہ ایسے اداروں کو نکیل ڈالے ، ان کے لیےُ ایک ضابطہ اخلاق بناےُ، جس میں مستورات کے لیےُ مہذب لباس  لازمی قرار دیا جاےُ. موجودہ ٹیلی ویژن نے عورت کے سر سے دوپٹہ اُتار پھینکنے میں بڑی محنت کی ہے. آپ کویُ بھی ٹی وی چینل دیکھ لیں، یُوں محسوس ہوتا ہے کہ ان ٹی وی چینلز کے پاس مردانہ سٹاف کی کمی ہے ، خبریں عورتیں پڑھتی ہیں، 90 فی صد پروگراموں کی میزبان عورتیں ہوتی ہیں، کسی میزبان عورت کے سر پر دوپٹہ نہیں ہوتا. صوبہ پنجاب کی حکومت میں تمام وزرا عورتوں کے سر پر دوپٹہ ہوتا ہے. ان کے لباس بھی شریفانہ ہوتے ہیں، یہ پاکستانی عورتوں کے لیےُ ایک مثال ہے ،کہ ایک مسلمان عورت اپنے لباس میں مغربی تہذیب کی تقلید نہیں کرتی. مغربی تہذیب کے بارے میں اپنے قومی شاعر اقبال نے کیا خُوب کہا تھا ؛

    تمہاری تہذیب خود اپنے ہی خنجر سے خودکشی کرے گی
    شاخ  نازک پہ جو بنے  گا  آشیانہ  نا پایُدار  ہوگاا

    اشتہارات

    ٹاجر لوگ اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لیےُ اشتہارات کا سہارا لیتے ہیں. عوام ان اشتہارات کو دیکھ کر مختلف مصنوعات کو خریدتے ہیں. اس طرح اشتہارات کسی چیز کی فروخت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں. اشتہاری کمپنیاں اشتہارات کو پُر کشش اور دیدہ زیب بنانے کے لیےُ کیُ ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں. ان ہتھکنڈوں میں اشتہارات میں عورت کو مختلف انداز میں دکھایا جاتا ہے. آج کل ” صاف چھُپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں ” والا معاملہ چل رہا ہے.آج کل عورت کی تذلیل جس طرح اشتہارات کے ذریعے کی جا رہی ہے، اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گییُی . اشتہاری کمپنیاں اشتہارات کو مٍغربی تہذیب کی طرز پر لیےُ جا رہے ہیں. ٹی وی پر دکھاےُ جانے والے اشتہارات میں ماڈل لڑکیاں دوپٹہ سے بے نیاز اپنے سینے کی نمایُش کرتی نظر آتی ہیں. اس قسم کے اشتہارات نوجوانوں میں بے راہ روی کے رجحانات کو اُبھار رہے ہیں، بے راہ روی کے واقعات اخبارات میں روزانہ رپورٹ ہو رہے ہیں. ایسے واقعات کی روک تھام کے لیےُ مُجرم کو صرف سزا کے طور پر قید یا صرف جُرمانے کی سزا کافی نہیں. ہمیں اُس نالی کو بند کرنا چاہیےُ جہاں سے اس بدی کا اخراج ہو رہا ہے.

    موبایُل فون کا غلط استعمال

    موبایُل فون کے جہاں فایُدے ہیں، وہیں اس کے نقصانات بھی ہیں. آج کل انٹر نیٹ کا زمانہ ہے. موبایُل فون کے ذریعے ہم دُنیا بھر میں جس جگہ چاہیں بات چیت کر سکتے ہیں. ہمارے ارد گرد دُنیا میں  جہاں اچھے لوگ ہیں وہیں پر شیطان کے چیلے بھی کافی تعداد میں موجود ہیں. یہ لوگ انٹر نیٹ کے ذریعے ندی کے کاموں کو بھی پھیلا رہے ہیں. فُحش فلموں کو انٹر نیٹ پر چلانا ایسا ہی ایک کام ہے . جو پُوری دُنیا میں پھیلا ہُؤا ہے. اُن کی نظروں میں یہ ایک کاروبار ہے. جس سے کافی دولت کمایُ جا سکتی ہے. موبایٌل فون نے ایسی جگہوں تک رسایُ ممکن بنا دی ہے .اپنے ملک کی نوجوان پود موبایُل فون پر یہ فُحش فلمیں دیکھتے ہیں ، اور پھر عملی قدم اُٹھا کر اس دلدل میں پھنس جاتے ہیں. مسُلہ یہ ہے کہ حکومت ایسے فُحش چینل بند کس طرح کرے ! ان میں بعض چینل معلوماتی بھی ہیں. جن سے طلباُ فایُدہ اُٹھاتے ہیں. کاروباری حضرات بھی انہیں استعمال کرتے ہیں.

    ان فُحش چینلز کو بلاک کرنے کا ایک طریقہ شاید کام کر جاےُ. پچھلے دنوں پی ٹی اے نے غلط خبروں اور پراپوگنڈا کو بلاک کرنے کے لیےُ  فایُر والو قسم کے کچھ آلات لگاےُ تھے ، جو کافی کار آمد ثابت ہُوےُ. کچھ اس قسم کے انتضامات ان فُحش چینلز کو بلاک کرنے لیےُ بھی کیےُ جا سکتے ہیں. کوشش کرنے سے ان فُحش چھینلز کو بلاک کیا جا سکتا ہے. اگر ایسا ہو جاےُ تو انسانیّت کی بہت بڑی خدمت ہو گی.

    شیطان کے چیلے

    ایسا لگتا ہے کہ شیطان ملعون نے اپنے سارے چیلے ہمارے ملک میں بھیج دیےُ ہیں. آپ کویُ بھی اخبار پڑھ لیں . ہر اخبار میں شیطانی کاموں کے بے شمار واقعات پڑھنے کو ملیں گے. سب سے زیادہ ہولناک ان چھوٹی بچیوں کی خبریں ہوتی ہیں، جنہیں درندگی کا نشانہ بنایا گیا ہو. بات یہیں تک نہیں رہتی، بلکہ پکڑے جانے کے خوف سے شیطان کے پُجاری انہیں گلہ گھونٹ کر مار دیتے ہیں. ایسے درندے یقینآ اپنی زندگی میں ہی اپنی سزا پاییُں گے، اور آخرت میں ان کے ساتھ جو کچھ ہوگا اس کا تصور ہی رُونگٹے کھڑے کر دیتا ہے. ایسے مجرم کو پھانسی کی سزا ملنی چاہیےُ. ایسے مجرم کی لاش کو کسی چوراہے میں سات دن تک لٹکا رہنا چاہیےُ.

    پاکستان کا قومی پرچم

    پاکستان کا قومی پرچم کیسا ہو ؟ اس پر اپنے ملک کی پہلی قومی اسمبلی میں بحث ہوُیُ. سب ممبران نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پاکستان کا قومی پرچم کا رنگ سبز ہو گا ، جس کے باییُں طرف سفید رنگ کی پٹی ہوگی، جو پرچم میں اقلیتوں کی نمایُندگی ظاہر کرے گی. پرچم کے سبز رنگ کے حصہ میں چاند اور ستارہ ہوگا. چاند کی دونوں نوکیں باییُں طرف ہوں گی ، چاند کی یہ کیفیت چاند کی پہلی تاریخ سے لے کر چودھیں یا پندھرویں تک ہوتی ہے، ان دنوں میں چاند عروج کی طرف جا رہا ہوتا ہے . یعنی چاند ہلال سے بڑھتا ہُؤا مکمل چاند تک ( بدر تک ) پہنچتا ہے. قومی اسمبلی ممبران نے اس بات پر خصوصآ توجہ دی کہ پرچم میں چاند کو مکمل ہونے کی طرف بڑھتا ہُؤا دکھایا جاےُ. مرکزی یا کسی صوبایُ ھکومتوں کے لیٹر ہیڈ پر چاند کی نوک باییُں طرف ہیں اور بیچ میں ستارہ ہوتا ہے.

    اب آپ ذرا ہر جگہ لہرانے والے قومی پرچم کو دیکھیں. اس میں چاند کی دونوں نوکیں داییُں طرف ہیں، چاند جب گھٹنا شروع ہوتا ہے تو اس کی دونوں نوکیں داییُں طرف ہوتی ہیں. یہ اس کے زوال کی نشانی ہے. پاکستان کے قومی پرچم پر چاند کی پوزیشن یہ ظاہر کرتی ہے کہ گویا ( نعوذ باللہ ) جس ملک کا یہ پرچم ہے ، وہ زوال کی طرف جا رہا ہے.

    میں نے 23 جولایُ 2020 کو ایک آرٹیکل “ میری آواز سُنو- لا علمی یا جہالت ” اسی ویب سایُٹ پر پبلش کیا تھا ، جس میں تصاویر کے ساتھ یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ پاکستان کے قومی پرچم میں چاند کو رو بہ زوال دکھایا جا رہا ہے. اس سے ذہن میں یہ تصور اُبھرتا ہے کہ ہم لا علمی میں یا جہالت میں دُنیا کو یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جس ملک کا یہ پرچم ہے ، وہ زوال کی طرف جا رہا ہے . ہو سکتا ہے کہ میری یہ تاویل صحیح نہ ہو. لیکن مجھے یوں محسوس ہوتا ہے اپنے ملک کی نمایُندگی کرنے والا زوال پذیر چاند ہم پر اپنا بُرا اثر ڈال رہا ہے.

    ہم نے بہت عرصہ زوال پذیر چاند کو اپنا قومی نشان بنا رکھا ہے. اب ذرا اس کی سمت کو بدل کر دیکھنا چاہیےُ. یعنی اپنے قومی پرچم میں چاند کی دونوں نوک بایُیں طرف ہوں، جس سے یہ تاثر اُبھرے کہ چاند عروج کی طرف جا رہا ہے.

    کرنے کا ایک کام

     آپ نے بھی محسوس کیا ہوگا کہ ملک میں عُریانی بڑھ رہی ہے. صنف نازک نے حیا کے محافظ، اللہ کے حُکم ، سر اور سینے کو چادر یا دوپٹہ سے ڈھانکے رکھنے کو ، محدود تعداد کو چھوڑ کر، رد کر کے اللہ کی نافرمانی کی ہے. ٹی وی پر عورتیں اپنے سینے کی نمایُش کر رہی ہیں، استغفراللہ، اس رجحان کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے.

    اللہ تعالے سے دُعا ہے کہ وہ ہم سب کو سیدھے راستے پر چلنے کی ہدایت اور توفیق عطا فرماےُ، آمین، ثم آمین.

  • ہمارے سُلگتے مسایُل نمبر 17،  مہنگایُ- Our burning issues # 17- Dearness

    ہمارے سُلگتے مسایُل نمبر 17، مہنگایُ- Our burning issues # 17- Dearness

    ہمارے سُلگتے مسایُل نمبر 17- مہنگایُ
    Our burning Issues # 17 – Dearness

    Our burning issues- dearness

    ہمارا ملک امیر ممالک میں شمار نہیں ہوتا. اس کی بہت ساری وجوہات ہیں. جو ہم ذرا تفصیل سے بیان کرنے کی کوشش کریں گے. یہاں میں صرف یہ بتانے کی کوشش کروں گا کہ مہنگایُ کا رونا رونے سے کچھ نہیں ہوگا. مہنگایُ صرف حکومت ختم نہیں کر سکتی. ٰیہ صحیح ہے کہ مہنگایُ کم کرنے کے لیےُ حکومت کچھ اقدامات کر سکتی ہے. جسے ہم تھوڑی دیر میں زیر بحث لاییُں گے. اس کے ساتھ کچھ ذمہ داری عوام پر بھی پڑتی ہے . دونوں کی کوششوں سے ہی مہنگایُ پرقابو پایا جا سکتا ہے.

    عنوانات

    خود کشی مہنگایُ کا حل نہیں ہے .
    حکومت کے کرنے کے کام.
    مہیگی سبزیاں
    یہاں ہم مجبور ہیں.
    اشیا کی قیمتوں پر کنٹرول
    مرکزی مارکیتیں
    جان چھُڑا لیں

    خودکُشی مہنگایُ کا حل نہیں ہے.

    کون نہیں جانتا کہ اس وقت ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی منہ زور مہنگایُ سے تنگ ہے. بعض بُزدل لوگ اس مہنگایُ سے چھُٹکارہ پانے کے لیےُ انتہایُ قدم اُٹھاتے ہُوےُ خود کُشی کر رہے ہیں. خودکُشی مہنگایُ کا حل نہیں ہے. کسی کو زندگی دینا یا موت دینا یہ صرف اور صرف اللہ تعالے کا اختیار ہے. خود کُشی کرنے والا اپنی زندگی کو ختم کر کے گویا اللہ تعالے کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے، جو شرک ہے اور اللہ تعالے سب گناہ بخش سکتا ہے، لیکن شرک کے گناہ کو نہیں بخشے گا. اسی لیےُ خودکُشی کرنا حرام ہے ، اور اس کی بڑی سخت سزا کی وعید دی گییُ ہے. یہ درست کہ مہنگایُ بہت ہے ، اس کا مقابلہ جواں مردی سے کرنا ہوگا. چلییےُ ، ہم دیکھتے ہیں کہ مہنگایُ کیسے کم کی جا سکتی ہے.

    حکومت کے کرنے کے کام

    مہنگایُ کو ختم کرنے کے لیےُ حکومت اور عوام دونوں کو کام کرنا ہوگا. حکومت کے کرنے کام یہ ہیں

    کفایت شعاری

    مہنگایُ کم کرنے کے لیےُ کفایت شعاری پہلا اور لازمی قدم ہے. اپنی حکومت کے اخراجات بڑے شاہانہ ہیں. چھوٹے سے چھوٹا افسر بھی نیےُ ماڈل کی نییُ گاڑی چاہتا ہے. ہمارا ملک 1947 سن عیسوی میں جب آزاد ہُؤا تو قایُد اعظم کی وفات کے بعد اقتدار کی رسہ کشی شروع ہو گییُ. پاکستان بنانے کا مقصد پس پشت چلا گیا. عہدہ حاصل کرنے کا مقصد آسایُشوں کا حصول تھا. اس کے برعکس انڈیا میں کفایت شعاری کی مہم شروع ہویُ. اُس زمانے میں سوزوکی موٹر کمپنی ایک کار بناتی تھی، جس کا نام ” ماروتی ” تھا. انڈیا کے وزیر اعظم سے لے کر تمام افسروں کو، جنہیں گاڑی مہیا کرنا ضروری تھا، صرف ماروتی گاڑی ہی دی جاتی تھی. اس وقت ماروتی گاڑی کی قیمت بہت کم تھی. انڈیا والوں نے اس طرح بہت پیسہ بچایا. ادھر ہماری طرف نیےُ ماڈل کی گاڑیوں کی بہتات سے بہت سارا پیسہ ضایُع کر دیا گیا. یہ چلن آج تک جاری ہے. پچھلے دنوں قومی اسمبلی کی ایک قایُمہ کمیٹی کے چیُرمین نے نیُ گاڑی کی فرمایُش کی تھی. اس وقت قومی اسمبلی کے تمام اراکین کے پاس اپنی اپنی ذاتی گاڑیاں ہیں. کیا وہ اپنے مُلک ، پاکستان کے لیےُ اتنی قربانی نہیں دے سکتے کہ حکومت سے نییُ گاڑی لینے کی بجاےُ اپنی ذاتی گاڑی استعمال کریں ! اس ملک نے آپ کو بہت عزّت دی ہے. کیا آپ اپنے وطن عزیز کے لیےُ اتنی قربانی بھی نہیں دے سکتے

    حکومت ایک قانون بنا لے کہ کسی بھی مجاز افسر کو 1300 سی سی طاقت کی گاڑی ہی دی جاےُ گی. اسی طرح ماہانہ پٹرول کی مقدار بھی کم کر دی جاےُ. دیکھا گیا ہے کہ جو گاڑیاں افسران کو حکومتی فرایُض انجام دینے کے لیےُ دی جاتی ہیں، وہ گاڑیاں ان افسران ( چند ایک کو چھوڑ کر ) کے بچوں کو سکول چھوڑنے اور انہیں واپس گھر لانے کے لیےُ استعمال ہوتی ہیں. اس کے بعد افسران کی بیگمات اور ان کے بچوں کی شاپنگ پر جانے کے لیےُ پابند ہوتی ہیں. گاڑیوں کا یہ استعمال ” امانت میں خیانت ” کے زُمرے میں آتا ہے. کچھ دن پہلے کی بات ہے، ایک ٹی وی چینل کا نمایُندہ دفتری اوقات کے بعد سبز رنگ کی پلیٹ نمبر کی گاڑیوں کے ڈراییوروں سے یہ سوال کر رہا تھا کہ کیا آپ اس وقت کسی سرکاری ڈیوٹی پر ہیں ؟ جو یہ سرکاری گاڑی استعمال کر رہے ہیں؟ بعض لوگوں نے اقرار کیا کہ وہ اپنے ایک نجّی کام کے لیےُ اس گاڑی پر آےُ ہیں. بعض نے صرف گھُور کر دیکھا. جواب نہیں دیا. اکثریت کا جواب تھا کہ وہ اپنے ایک چھوتے سے نجی کام کے لیےُ اس گاڑی پر آےُ ہیں. ایک آدھ نے جواب دیتے ہوُےُ شرم بھی محسوس کی. افسران جب سرکاری گاڑی کو اپنے ذاتی استعمال کے لیےُ کہیں لے جاتے ہیں ، تو گاڑی کی لاگ بُک ( اگر کویُ ہو ) میں کیا لکھتے ہیں، وہ جانیں اور ان کا خُدا جانے.

    کفایت سعاری کے کییُ طریقے اپناےُ جا سکتے ہیں.

    نمبر 1 = ھکومتی افسران کے کمرے عمومآ ایُر کنڈیشنڈ ہوتے ہیں. دفتر میں کام کرتے ہُوےُ اگر کہیں باہر جانا پڑ جاےُ، تو ایُر کندیشنرز کو آف کر دیا جاےُ.

    نمبر 2 = کمرہ اگر کافی دیر تک خالی رہنا ہو تو کمرہ کی تمام لایُٹس بند کر دی جایُیں.

    نمبر 3 = ًمحکمہ تعلیم میں ہزاروں گھوسٹ ٹیچرز کا سراغ لگایا گیا ہے، جو گھر بیٹھے محکمہ سے تنخواہ وصول کر رہے ہیں. یہ ایک سخت قسم کی بے ایمانی ہے. ایسے لوگوں کو اور اُن کے پُشت پناہوں کو کڑی سزا دی جاےُ.

    نمبر 4 = ایسی اطلاعات بھی اخبارات میں شایُع ہُوی ہیں کہ کچھ حکومتی افسران کی بیگمات ” بے نظیر انکم سپورٹ ” سے ماہانہ امداد وصول کرتی رہی ہیں یا وصول کر رہی ہیں. ایسی اطلاعات کی سخت تفشیش ہونی چاہیےُ. اور قصورواروں کو نوکری سے نکال دینا چاہیےُ. چور چوری چھوڑ دیتا ہے، ہیرا پھیری سے باز نہیں آتا.

    نمبر 5 = حکومت کے مُختلف ٹھیکوں میں کرپشن کے مختلف طریقے ایجاد ہیں. ایسے کرپشن زدہ ٹھیکوں میں ٹھیکیدار میٹیریل کی منظور شدہ کوالٹی سے گھٹیا کوالٹی کا سامان لگاتا ہے. جس سے تیار شدہ منصوبہ جلد ہی مرمت طلب ہو جاتا ہے. واپڈا کا ایک پاور پلانٹ ایسے ہی کمالات کا ایک مظہر ہے جو ہر چھ ماہ بعد کسی نہ کسی خرابی سے بند ہو جاتا ہے. ماہرین نے سارے معاملے کو کھوج کر یہ اندازہ لگایا ہے کہ جہاں پاور پلانٹ لگایا گیا ہے وہان کی مٹّی بھُر بھُری ہے جو پاور پلانت کا بوجھ سہار نہیں سکتی . سارا پیسہ ضایُع ہو گیا.

    نمبر 6 = بعض اطلاعات کے مطابق پنجاب اسمبلی کے حال ہی میں تیار شدہ چھت بارش میں ٹپکنے لگی. یہ ہے کمال تھیکہ پر کام کروانے کا ، اور پھر اس پر نگرانی کا نہ ہونا. ایک پرایُیویٹ بلڈر کمپنی بحریہ ٹاؤن کے نام سے مشہؤر ہے. اس کی رہایُشی سکیموں میں لوگ پلاٹ لے کر اپنے مکانات بناتے ہیں. یہ مکانات عمومآ وہاں پر موجود ٹھیکیدار بناتے ہیں. بحریہ ٹاؤن کے انسپیکٹر مکانوں کی تعمیر میں استعمال ہونے والے ہر میٹیریل کو جانچتے ہیں . اگر میٹیریل مقررہ معیار سے کم تر ہو تو وہ میٹیریل رد کیا جاتا ہے ، اور نیا میٹیریل منگوا کر اس کو اس کو ٹیست کیا جاتا ہے. معیار پر پُورا اترنے والے میٹیریل کو ہی مکان کی تعمیر میں استعمال کی اجازت ہوتی ہے. یہ انسپکٹر مکان کی تعمیر میں استعمال ہونے والے سیمنٹ اور ریت کی نسبت بھی اپنے سامنے ڈلواتے ہیں. اینٹوں کی پختگی کو بھی جانچا جاتا ہے. مکان کی تعمیر مکمل ہونے پر آخری معایُنہ ہوتا ہے. ہر چیز معیار کے مطابق ہونے پر سرٹیفیکیٹ دیا جاتا ہے کہ یہ مکان رہایُش کے قابل ہے. اتنی سخت چانچ پڑتال حکومتی ٹھیکوں میں بنننے والے پروجیکٹ میں نہیں ہوتی. اس لیےُ جلد ہی ان میں تعمیراتی نقایُص ظاہر ہونے لگتے ہیں. حکومت اپنے پروجیکٹ میں جانچ پڑتال پر سختی سے عمل کرے تو تعمیر کے بعد ہونے والے نقایُص پر اُٹھنے والے اخراجات بچاےُ جا سکتے ہیں.

    نمبر 7 = اپنے مُلک کا کسان دن رات محنت کرتا ہے. گندم کی کٹایُ کے بعد کسان کو گندم فروخت کرنے میں مشکل پیش آتی ہے. آڑھتی لوگ گندم کی بہت کم قیمت خرید لگاتے ہیں. بّعض خریدار گندم اُدھار پر خریدنا چاہتے ہیں. یعنی کسان ہر طرف سے خسارے میں دکھای دیتا ہے. اکثر کسانوں نے گندم کا بیج اور کھاد ادھار پر لی ہوتی ہے. اب اگر کسان کی گندم اچھی قیمت پر نہ بکے اور وہ اسے کھیت میں ہی پڑی رہنے مجبور ہو جاےُ، گندم کی کٹایُ اور گہایُ ، دیسی طریقے سے ہو یا مشین کے ذریعے، کے بعد اسے محفوظ طریقے سے ذخیرہ کرنا ضروری ہوتا ہے. کیونکہ ان دنوں میں اچانک بادل چھا جاتے ہیں اور بڑی زوردار بارش شروع ہو جاتی ہے. بھیگی ہویُ گندم کا خریدار کم ہی ملتا ہے. اگر کویُ خریدار مل بھی جاےُ تو وہ انتہایُ کم قیمت دیتا ہے ،اور شایُد وہ بھی اُدھار پر. کسان کو اس کی فصل کی قیمت اچھی اور بروقت نہ ملے تو وہ اگلے سال اتنی ہی گندم اُگاےُگا جو اس کے خاندان کے سال بھر کے لیےُ کافی ہو. اگر بہت سارے کسان زیادہ گندم نہ اُگاییُں تو ایکسپورت کے لیےُ گندم کہاں سے لاییُں گے!. حکومت کو ایسا انتظام کرنا چاہیےُ کہ کسان کو اس کی فروخت کی ہویُ گندم کی جایُز قیمت بروقت مل جاےُ.

    مہنگی سبزیاں

    کھانا ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے. یہ ٹھیک ہے کہ انسان کچھ کھاےُ پیےُ بغیر کچھ دن زندہ رہ سکتا ہے. لیکن کب تک ! کھانا کھانے کے لیےُ کچھ ایسی چیز چاہیےُ جو اگر روٹی کے ساتھ کھایُ جاےُ ، تو وہ روٹی کو مزیدا ر بنا دے. اس کے لیےُ سبزیوں کو مُختلف نُسخہ جات کے ذریعے لذیذ اور خوش ذایُقہ بنایا جاتا ہے. ہمارے ملک کے پکاےُ ہوےُ کھانے دُنیا بھر میں پسند کیےُ جاتے ہیں.

    لیکن اب حالت مہگایُ کی وجہ سے یہاں تک پہنچ چُکی ہے کہ لوگ مجبورآ بہت کم مقدار میں سبزیاں پکاتے ہیں. لوگ کیا کریں، گھر کے پاچ چھے افراد کے لیےُ سبزیاں لینے جاییُں تو سات آٹھ سو روپیہ خرچ ہو جاتا ہے. دکاندار سے کچھ کہیں تو وہ مہنگایُ کا رونا لگ جاتا ہے.

    مہنگایُ کا ایک علاج ہے، جو چیز مہنگی ہے اسے نہ خریدیں، یا اس کا استعمال بہت کم کر دیں. چھے سات سال ہُوےُ، اپنے مُلک میں پیاز بہت مہنگا ہو گیا. یہی پیاز 1970 میں 4 روپے کا ایک من بکتا تھا. اب جو پیاز مہنگا ہُؤا تو اپنے ملک میں ” پیاز نہ کھاو‌” کی تحریک شروع ہو گییُ،
    لوگوں نے پیاز خریدنا بند کر دیا. عورتوں نے ہانڈی پکاتے وقت پیاز کی جگہ دہی ڈالنا شروع کر دیا. پیاز کے بیوپاریوں نے جب دیکھا کہ پیاز کی فوخت بند ہو گیُ ہے، تو انہوں نے پیاز سستا کر دیا. اس تحریک کے بارے میں ہمارا آرٹیکل پڑھیےُ ” Together we can

    ایک بات ذہن میں رکھیں. اتفاق میں بہت برکت ہے. موجودہ وقت میں اس کی ایک مثال بنگلہ دیش کی ہمارے سامنے آیُ ہے. جہاں طلبا نے متحد ہو کر 16 سال سے برسر اقتدار سخت گیر وزیراعظم حسینہ واجد کو انڈیا فرار ہونے پر مجبور کر دیا. فرض کریں ، کویُ ایک سبزی بہت مہنگی ہو جاتی ہے. عوام وہ سبزی خرید کر کھانا چھوڑ دیں ، 15 دن کے اندر اندر وہی سبزی بہت سستی ہو جاےُ گی. عوام متحد ہو جاییُں تو ہر دفعہ کویُ ایک مہنگی سبزی خریدنا ااور کھانا چھوڑ دیں، چند ہی دنوں میں اس سبزی کی قیمت نصف سے بھی کم ہو جاےُ گی. مسُلہ صرف یہ ہے کہ ” کُنڈی کون کھولے گا

    یٰہاں ہم مجبور ہیں.

    ایک آدمی نے اللہ کے رسول کے صحابی علی علیہ السلام سے پوچھا کہ انسان کس حد تک آزاد ہے اور کہاں تک مجبور ہے. آپ نے فرمایا ” اپنا ایک پاؤں اوپر اُٹھا لو” سوالی نے اپنا ایک پاؤں اُوپر اُٹھا لیا، ّعلی علیہالسلام نے فرمایا ” دیکھو، یہاں تک تم آزاد تھے. ” پھر فرمایا ” اپنا دوسرا پاؤں بھی اوپر اُٹھا لو ” وہ شخص کہنے لگا ” اگر میں نے اپنا دوسرا پاؤں اوپر اُٹھایا تو میں گر پڑوں گا ” ّعلی علیہ السلام نے فرمایا ” یہاں سے تمہاری مجبوری کی ابتدا ہوتی ہے “.

    جہاں تک کھانے پینے کی چیزوں کا تعلق ہے ، وہاں تک تو ہم اپنی مرضی کر سکتے ہیں. لیکن ایک چیز ایسی ہے جس پر ہمارا کنٹرول نہیں. آج کل کپڑا خریدنے جاییُں ، تو کپڑوں کی قیمتیں سُن کر دن میً تارے نظر آنے لگتے ہیں. کپڑا ایک ایسی چیز ہے جس کا بایُکاٹ نہیں کیا جا سکتا. یہاں ہم مجبُور ہیں. باقی اشیاُ کا بایُکاٹ کیا جا سکتا ہے. مہنگایُ ختم کرنے کے لیےُ مختلف اشیا کا بایُکاٹ ضرور کرنا چاہیےُ ، تاکہ مہنگایُ کم ہو سکے.

    اشیا کی قیمتوں پر کنٹرول

    مختلف علاقوں کی مارکیٹ کمیٹیاں تقریبآ 10 بجے صبح سبزیوں کی دکانوں پر ہر سبزی کی اُس دن کے لیےُ خوردہ قیمتوں کی ایک فہرست تقسم کی جاتی ہے. جسے سبزی فروش ایک طرف رکھ دیتے ہیں. اورسبزیاں اپنی مقرر کردہ قیمت پر فروخت کرتے ہیں. یعنی اس بات پر کویُ کنٹرول نہیں کہ سبزیاں مقرر کردہ قیمت پر فروخت ہو رہی ہیں یا نہیں. حکومت اگر سختی سے کنٹرول کرے کہ سبزیاں مقرر کردہ قیمت پر فروخت ہوں، تو مہنگایُ بڑی حد تک موجودہ سطح سے نیچے آ جاےُ گی.

    مرکزی مارکیٹیں

    ہمارے ملک میں دکانوں کا کسی ایک جگہ مرکوز ہونے کا رواج نہیں . ہر شخص جب چاہے، جہاں چاہے ، اپنی دکان کھول سکتا ہے. اور جو چاہے فروخت کر سکتا ہے. یہ ایک بے ہنگم طریقہ ہے. بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہر یونین کونسل میں آبادی کو مدنظر رکھتے ہُوےُ چار یا پاںچ مارکیٹیں بنایُ جاییُں. جو اوپر سے کورڈ ہوں. ان مرکزی مارکیٹوں میں مناسب رقبہ پر دکانیں بنایُ جاییُں. وہاں ہر قسم کی دکانوں ہوں. مثلا سبزی کی سب دکانیں ایک جگہ، فروٹ کی دکانیں ایک جگہ گوشت کی دکانیں ایک جگہ پر ہوں. یعنی گاہک کو اگر گوشت لینا ہو تو وہ ادھر ادھر گھومنے کی بجاےُ مقررہ جگہ پر جاےُ اور گوشت خرید لے. ہر دکاندار اپنی دکان اور دکان کے سامنے والی کھلی جگہ کی صفایُ کا ذمہ دار ہو. مارکیٹ کےکسی ایک کونے میں کوڑا ڈالنے کے لیےُ جگہ مُختص کی جاےُ.

    مرکزی مارکیٹ میں اتنی جگہ ہو کہ اس میں دکانوں کی چار قطاریں لمبایُ میں بنایُ جا سکیں. ہر قطار کے درمیان پارٹیشن کےلیےُ ایک دیوار ہو، جس کے دونوں طرف دکانیں ہو. یہ صرف ایک آیُڈیا ہے، اس میں ضرورت کے مطابق جمع تفریق کی جا سکتی ہے.

    ایسی مرکزی مارکیٹیٹوں کے بننے کے بعد علاقہ میں جگہ بہ جگہ کھُلی ہویُ دکانوں کو ان مرکزی مارکیٹوں میں جگہ دی جاےُ.

    مہنگایُ کو صرف حکومت یا صرف عوام ختم نہیں کر سکتے. مہنگایُ سے نمٹنے کے لیےُ ایک مربُوط لایُحہ عمل کی ضرورت ہے. جہاں تک میں سمجھا ہُوں، حکومت کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ ہم مہنگایُ پر کس طرح قابو پایُیں. اس میں کویُ حرج نہیں اگر ہم کسی ایسے ملک کے کسی ماہر سے مشورہ کر لیں، جس نے اپنے ملک میں مہنگایُ پر قابو پایا ہو.

    ہمارے ملک کا معاشی ڈھانچہ عجیب گورکھ دھندا ہے. ہر شخص زیادہ منافع کمانے کے چکر میں ہیں. نعض کام ایسے ہیں ،جو ملک پر بوجھ ہیں.

    مہنگایُ کم کرنے کے لیےُ چند تجاویز ہیں.

    جان چھُڑا لیں.

    نمبر 1 = وہ ادارے جو غیر فعال ہیں، اور ملکی خزانہ پر محض بوجھ ہیں، ان سے جان چھڑا لی جاےُ.
    نمبر 2 = پی آیُ اے کسی زمانے میں منافع بخش ایُر لایُن تھی. اب یہ کروڑوں کی مقروض ہے. اسے کس نے اس حالت تک پہنچایا ؟. کیا یہ دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکتی ہے ؟. اگر ایسا ممکن ہے تو اسے اپنے پاؤن پر کھڑا ہونے میں مدد دیں. اس کے لیےُ اس میں ایک بے رحم آپریشن کی ضرورت ہے. فالتو عملہ سے جان چھُڑانی ہوگی. اس کی فلاُیُٹ سروس بہتر کرنی ہوگی. آخراجات کم کرنے پڑیں گے. یہ سب کچھ کرنے میں اگر مونچھ داڑھی سے بڑھ جاےُ تو اس سے جان چھڑانے کے لیےُ کچھ کرنا پڑے گا.
    نمبر 3 = آیُ پی پی سے بجلی پیداواری کے معاہدے ایسے ہیں کہ ان سے جان چھُڑانی مشکل ہے. ان معاہدوں کے کچھ خدو خال کچھ یُوں ہیں ؛

    نمبر 1 = بے نظیر بھٹّو نے 1994 سن عیسوی میں ، جب وہ ملک کی وزیر اعظم تھی ، آیُ پی پی ( انڈیپینڈینٹ پاور سپلایُرز) سے بجلی پیدا کرنے اور ملک کو سپلایُ کرنے کے معاہدے کیےُ.
    نمبر 2 = آیُ پی پی معاہدے کے مطابق 43،000 میگا واٹ بجلی سپلایُ کریں گے.
    نمبر 3 = ہمارے ملک کا بجلی ترسیلی نظام پرانا ہے جس کے ذریعے صرف 13،000 میگا واٹ کی بجلی کی ترسیل ممکن ہے.
    نمر 4 = آیُ پی پی ہم سے ہر سال تقریبآ 2000 ارب روپیہ ” کیپیسیٹی چارجز ” کے نام پر وصول کر رہے ہیں. آیُ پی پی والے کہتے ہیں کہ یہ 2000 ارب روپے ان یُونٹوں کی پیداواری لاگت ہے جو ہم نے استعمال ہی نہیں کیےُ.

    ان معاہدوں کے مطابق ہم 43،000 میگا واٹ یونٹ کی قیمت ادا کرنے کے پابند ہیں چاہے ہم یہ ساری بجلی استعمال کریں یا نہ کریں. یہ معاہدے ایک گورکھ دھندا ہیں، مندرجہ بالا مندرجات میں غلطی کی گنجایُش ہے. یہ مندرجات محترم ڈاکٹر اختیار بیگ کے ایک مضمون ” آیُ پی پی معاہدے – ناؤ ڈبو سکتے ہیں ” سے لیےُ گیےُ ہیں، جو روزنامہ جنگ، لاہور کے 12 اگست 2024 کے شمارے میں شایُع ہوےُ ہیں.

    اللہ تعالے سے دُعا ہے کہ وہ ملک کے عوام کے لیےُ سہولتوں کے دروازے کھول دے.

  • ہمارے سُلگتے مسایُل نمبر 16- نشہ کی عادت – Our burning issues, Intoxication

    ہمارے سُلگتے مسایُل نمبر 16- نشہ کی عادت – Our burning issues, Intoxication

    ہمارے سُلگتے مسالُل نمبر 16، نشہ کی عادت
    Our burning issues # 16 – Intoxication

    نشہ کی عادت
    Intoxication

    نشہ کی عادت ، کسی بھی قسم کی ہو، ایک بُری عادت ہے. نشہ کی عادت عمومآ سگریٹ نوشی سے شروع ہوتی ہے. نوجوان لڑکےعمومآ اپنے ساتھیوں کو جب سگریٹ پیتے دیکھتے ہیں، تو ایسے ہی سگرٹ کے دو چار کش لگا لیتے ہیں. ساتھ کے دوست منع کرنے کی بجاےُ سگرٹ پینے والے کی حوصلہ افزایُ کرتے ہیں. اور اس طرح سگرٹ نوشی کی عادت پُختہ ہو جاتی ہے. اور پھر اسے ترک کرنا مشکل ہو جاتا ہے. اس کے علاوہ نشہ آور اشیا کی بے شمار اقسام بڑی آسانی سے دستیاب ہیں. اس آرٹیکل کو پڑھنے سے پہلے ہمارا آرٹیکل ” ہمارے سلگتے مسایُل نمبر 15- فرقہ بندی    “ .

    ضرور پڑھیےُ

    عنوانات

    سگرٹ نوشی- نشہ کی ابتدا
    سگرٹ پینا کیسے چھوڑا ؟
    چرس پینے کی عادت
    افیم کا نشہ
    ہیرویُن
    آیُس کا نشہ
    شراب نوشی
    کیا کیا جاےُ ِ

    سگرٹ نوشی-نشہ کی ابتدا

    عمومی طور پر نشہ کی ابتدا سگرٹ نوشی سے ہوتی ہے. ویسے تو لفظ ” سگرٹ نوشی ” گرایُمر کے لحاظ سے غلط ہے. نوش کے لغوی معنی ہیں ” پینا ” سگرٹ کویُ پینے والی چیز نہیں ہے ، لیکن پھر بھی کہا جاتا ہے کہ فُلاں شخص سگرٹ پی رہا ہے. گویا سگرٹ نوشی کا لفظ غلط العام ہو کر صحیح العام کا درجہ حاصل کر چُکا ہے.
    خیر، چھوڑییےُ اس بحث کو. آمدم بر سر مطلب، جب کویُ شخص سگرت نوشی کا عادی ہو جاتا ہے، تو اسے لاکھ سمجھایا جاےُ کہ سگرٹ پینے کے کییُ نقصانات ہیں، تو وہ عمومآ یہ کہتا ہے ؛

    ہاےُ کم بخت ،تو نے پی ہی نہیں

    دیکھا گیا ہے کہ سگرٹ نوش کھانا کھانے کے فورآ بعد سگرٹ سُلگا لیتے ہیں. سگرت نوش عمومآ سگرٹ نوشی کے یہ فوایُد بتاتے ہیں:

    نمبر 1 = سگرٹ نوشی سے معدے کی گیس خارج ہوتی رہتی ہے.

     نمبر 2 = کھانا کھانے کے بعد سگرٹ پینے سے معدے میں کھانا جلد ہضم ہو جاتا ہے

                       نمبر 3 =سگرٹ پیتے ہُوےُ کسی مسُلہ پر یک سُویُ سے سوچا جا سکتا ہے

    سگرت نوشی کے فوایُد کے برعکس اس کے نقصانات زیادہ ہیں. جو یہ ہیں:

    نمبر 1 = سگرٹ میں نکوٹین کی مقدار زیادہ ہوتی ہے . نکوٹین سے سر درد، مُنہ، دانت اور گلے کا درد، کھانسی، ذایُقہ میں تبدیلی، کلیجہ کی جلن، ہچکی، پسینہ آنا اورپیٹ کی خرابی ( جلاب وغیرہ‌) کی شکایات ہو سکتی ہیں.
    نمبر 2 = سگرٹ پینے کا سب سے بڑا نُقصان انسانی پھیپھڑوں پر ہوتا ہے. سگرٹ کا دھُؤاں پھیپھڑوں کے سوراخوں کو آہستہ آہستہ بند کر دیتا ہے. جس سے سانس لینے میں کافی مُشکل پیش آتی ہے. اسے دمہ بھی کہہ سکتے ہیں.
    نمبر 3= سگرٹ کا دھوُاں دل کی دھڑکن کو تیز کر دیتا ہے. اور بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے.

    ہماے پڑوس میں ایک درزی رہتا تھا، جو چین سموکر تھا. اس کے منہ میں ہر وقت سلگتا ہُؤا سگرٹ رہتا تھا. اتنی زیادہ عُمر بھی نہیں تھی. وہ زیادہ بیمار ہو گیا تو اسے ہسپتال لے گیےُ. وہاں اس کی چھاتی کا ایکس رے کیا گیا. ڈاکٹر نے مریض کے لواحقین کو بتایا ، کہ اس کے پھیپھڑے تو بالکل ناکارہ ہو چکے ہیں. اور پھر اُسی دن وہ اللہ کو پیارا ہو گیا. مرحوم ایک دن میں سگرٹ کے کم از کم تین پیکٹ پی جاتا تھا.
    نمبر 3 = بہت زیادہ سگرٹ پینے سے مُنہ کا کینسر ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے.
    نمبر 4 = سگرٹ نوش کے منہ سے تمباکو کی نا گوار بُو آتی ہے. جو کُلی کرنے کے باوجود قایُم رہتی ہے.
    نمبر 5 = سگرٹ خریدنے پر جو رقم خرچ ہوتی ہے ، وہ گویا رقم کو آگ لگانے کے مترادف ہے. یہ رقم کسی نیک مقصد پر خرچ کی جا سکتی ہے.

    سگرٹ پینا کیسا چھوڑا ِ ؟

    وہ جو کہتے ہیں نا کہ آپ بیتی یا جگ بیتی. مجھے یہ کہنے میں کویُ رکاوٹ نہیں. میں خود تقریبآ تیس سال تک اعلے کوالٹی کے سگرٹ پیتا رہا ہُوں. تقریبآ تیس سال سگرٹ پینے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ سگرٹ پینے کے بعد مجھے کھانسی شروع ہو جاتی ہے. یہ پہلا موقع تھا جب مجھے یہ محسوس ہُؤا کہ سگرٹ نوشی میرے پھیپھروں کو نقصان پہنچا رہی ہے. اور میں سگرٹ خریدنے پر خرچ ہونے والے پیسوں کو آگ لگا رہا ہُوں ، جس سے مجھے کویُ فایُدہ حاصل نہیں ہو رہا. کیا میں بے وقوف ہوں جو اتنی سی بات کو سمجھ نہیں پا رہا. اُسی دن میں نے سگرٹ نہ پینے کا پُختہ ارادہ کر لیا. اور اس بات کو بیس سال گزر چپکے ہیں ، میں نے ایک بھی سگرٹ نہیں پیا. اب مجھے سگرٹ پینے کی طلب بھی نہیں ہوتی.

    چرس پینے کی عادت

    کافی عرصہ پہلے کی بات ہے، میں نے اہنے مکان پر نییُ سفیدی کرانے کے لیےُ سفیدی کرنے والے ایک شخص سے رابطہ کیا. اس نے دو آدمیوں کو سفیدی کرنے پر لگا دیا. ایک دن میں نے محسوس کیا جیسے مکان کی اوپری منزل پر سفیدی کرنے والے کام نہیں کر رہے. میں انہیں دیکھنے کے لیےُ اوپری منزل پر گیا. دونوں آدمی ساےُ میں بیٹھے سگرٹ پی رہے تھے. ان کے آس پاس چرس کی بُو پھیلی ہُویُ تھی. میں نے ان سے پوچھا ” کیا پی رہے ہو “؟. ایک نے جواب دیا. ” سر، ہم چرس کا سُوٹا لگا رہے ہیں “. میں نے ان سے پُوچھا ، “تم چرس کیوں پیتے ہو ؟” ایک نے جواب دیا ” جب ہم کام کرتے کرتے تھک جاتے ہیں، تو چرس سے بھرا ہُؤا ایک سگرٹ پینے سے ہماری تھکاوٹ دُور ہو جاتی ہے اور ہم کافی دیر تک بلا تھکاوٹ کام کرتے رہتے ہیں “.

    یہ ہے چرس پینے کی ابتدا. اور پھر چرسی آہستہ آہستہ کسی کام کا نہیں رہتا. جہاں تک میری معلومات ہیں ، چرس پینے والے عادی ثخص کو نارمل زندگی کی طرف لانا بہت مشکل ہے. میں کافی عمر کے ایک شخص کو جانتا ہوں جو جوانی میں چرس پینے کا عادی تھا. اس کے بچے انگلینڈ میں برسرروزگار ہیں . انہوں نے بہت سارا پیسہ خرچ کر کے اپنے والد کا علاج کرایا. اور اسے ” چرس فری ” شخص بنایا. اس وقت وہ کافی عُمر کا ہے، لیکن اب بھی کبھی کبھار چھُپ چھُپا کر چرس کا سُوٹا لگا لیتا ہے.

    افیم کا نشہ

    آپ نے کبھی کھانسی کے علاج کے لیےُ کھانسی کا شربت پیا ہے ؟ آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ کھانسی کا شربت پینے کے بعد آپ کا سر بھاری محسوس ہونے لگتا ہے. آپ سو جانا چاہیں گے. یہ سب اس افیم کا اثر ہوتا ہے جو کھانسی کی دوایُ یا شربت کا ایک اہم جز ہوتا ہے. افیم نیند لانے والی ایک” دوایُ” ہے. افیمی عمومآ افیم کھا کر دنیا و ما فیہا سے بے نیاز سوےُ رہتے ہیں.
    افیم کا ایک اثر یہ ہے کہ افیم معدے کی رطوبات کو خُشک کر دیتی ہے، اسی اثر کے تحت افیمی سخت قسم کی قبض کا شکار رہتے ہیں. اپنے ملک میں افیم ہمارے ہمسایہ ملک افغانستان سے آتی ہے. جہان پوست کاشت کرنے کر برے بڑے فارم ہیں.

    ہیرویُن

    یہ ہیرویُن فلمی ہیرویُن نہیں. بلکہ افیم سے تیار کردہ وہ مہلک نشہ ہے ، جو ساری دۃنیا میں پھیل چُکا ہے. ہیرویُن کا نشہ کرنے والے اسے ” لال پری ” کے نام سے بھی پُکارتے ہیں. پوست کے جوان پودے کے پھل کو بلیڈ سے چھوٹے چھوٹے کٹ لگاےُ جاتے ہیں. ان کٹ سے ایک لیسدار مادہ نکلتاہے جسے افیم کہتے ہیں. اس افیم کو بڑی احتیاط سے پودے کے پھل سے علیحدہ کر لیا جاتا ہے. یہ خالص افیم ہے . اس خالص افیم کو کٰیُ پراسس سے گزار کر سفید رنگ کی ہیرویُن تیار کی جاتی ہے. افغانستان میں افیم سے ہیرویُن تیار کرنے کے کییُ کارخانے ہیں. تیاری کے بعد ہیرویُن کو چھوٹے پیکٹوں میں پیک کیا جاتا ہے. پھر اسے دُنیا بھر کے مختلف ممالک میں سمگل کر دیا جاتا ہے

    ہیرویُن کی تیاری، فروخت، مارکیٹنگ وغیرہ دُنیا بھر میں ممنوع ہے. لیکن اس کے سوداگر اسے خفیہ نقل و حرکت کے ذریعے ایک ملک سے دوسرے ممالک میں سمگل کر دیتے ہیں. ایسا کییُ دفعہ ہُؤا ہے کہ اس کی سمگلنگ کے دوران کسی ملک نے اس کی کھیپ پکڑ لی ، اور اسے ضبط کر لیا. یہ سمگلر اپنا دامن بچا کر رکھتے ہیں. اور اپنے مال کو بہ حفاضت منزل مقصود تک پہنچا دیتے ہیں.

    ہیرویُن ایسا نشہ ہے کہ جس سے جان نہیں چھوٹتی. ہرویُن کے نشییُ کو جب وقت پر ہیرویُن نہیں ملتی، تو اس کے جسم میں زبردست قسم کی تکالیف شروع ہو جاتی ہیں. وہ چیختا ہے، چلّاتا ہے. وہ یوں محسوس کرتا ہے جیسے اس کے جسم کا گوشت اس کی ہڈیوں سے الگ کیا جا رہا ہے. یہ تکلیف اس وقت تک رہتی ہے جب تک اسے ہیرویُن کی خوراک نہیں ملتی. یہ ایسا نشہ ہے کہ جسے ایک دفعہ لگ جاےُ، وہ اس سے عمر بھر چھٹکارہ نہیں پا سکتا. آپ قصبہ میانہ گوندل ، ضلع منڈی بہاؤالدین سے موضع بھابھڑہ ، ضلع سرگودھا کی طرف جایُں تو راستہ میں ایک گاؤں پنڈی راواں نامی آےُ گا. یہاں کے رہایُشی کیُ کیُ مربع زرعی زمینوں کے مالک تھے. لیکن اب وہ اپنی اپنی ساری زمینیں بیچ کر خالی ہاتھ بیٹھے ہیں . کیُ لوگ ہیرویُن نشہ کے عادی تھے. ہیرویُن خریدنے کے لیےُ اپنی زرعی زمینیں بیچتے رہے.

    اپنے ملک میں ایسے کییُ ہسپتال ہیں جو ہیرویُن نشہ کے عادی افراد کو اس نشہ سے چھُٹکارہ پانے کی نوید سُناتے ہیں. لیکن ان کے اخراجات بہت زیادہ ہیں. ایک تو وہ ایسے نشییؤں کو بہت عرصہ تک اپنے ہسپتال میں رکھتے ہیں. وہ مریض کے نشہ کو یک دم بند نہیں کرتے. بلکہ وہ نشہ میں بہت ہی معمولی مقدار کم کر دیتے ہیں، جسے مریض محسوس نہیں کر سکتا. اس طرح کرتے کرتے کافی مہینوں کے بعد وہ نشہ کی تقریبآ نصف مقدار تک پہنچ جاتے ہیں. اس کے ساتھ ساتھ ان کی خوراک کا خیال رکھا جاتا ہے. انہیں لیکچر دیےُ جاتے ہیں. نماز پڑہانے کا اہتمام کیا جاتا ہے. اس طرح وہ آہستہ آہستہ مریض کو نشہ کی ڈوز کے بغیر نارمل بنانے کی کوشش کرتے ہیں. لیکن ایسے ہسپتالوں کے اخراجات کویُ امیر آدمی ہی اُٹھا سکتا ہے.

    آیُس کا نشہ ( ٰٰIce)
    لفظ آیُس سے آپ اس مغالطے میں نہ پڑہیں کہ آیُس تو پانی کو ٹھنڈا کرنے کے لیےُ استعمال ہوتی ہے. یہ نشہ کب پیدا کرنے لگی.

    آصل بات یہ ہے کہ دولت کے پُجاری دولت حاصل کرنے کے لیےُ جایُز اور ناجایُز ہر حربہ استعمال کرتے ہیں. دولت کے کسی ایسے ہی پُجاری کے شیطانی ذہن میں یہ خیال آیا کہ برف کو نشہ آور بنا کر دُنیا کو دھوکا دیا جا سکتا ہے. سب سے پہلے اس نے برف میں الکوحل ملا یُ. آہستہ آہستہ لوگوں کو الکہحل ہینے کا ایک محفوظ طریقہ مل گیا. وہ سادہ پانی مہں الکوہل ملی برف ڈال کر پینے لگے. دیکھنے والے یہی سمجھنیں گے کہ یہ لوگ برف سے ٹھنڈا کیا ہُؤا پانی پی رہے ہیں.

    سایُنس کی ترقی سے جہاں انسانی زندگیوں میں بہت آسانیاں پیدا ہو گییُ ہیں، وہیں پر بہت سارے نقصانات بھی ملے ہیں. ایک ایجاد اگر صحیح معنوں میں استعمال کی جاےُ . تو آسانیوں کا باعث بنتی ہے . اس کا غلط استعمال نقصانات کا باعث بنے گا. آج کل ایسی برف بھی ملتی ہے جو بڑی دیر تک پگھلتی نہیں. شیظانی ذہنوں نے اس کا غلط فایُدہ اُٹھایا. پہلے دیر سے پگھلنے والی برف میں الکوہل ملا کر اسے نشہ آور بنایا. آج کل اس برف مٰیں کرسٹل میتھم فیٹامایُن ملایا جاتا ہے. انسان پر اس کے اثرات کچھ اس طرح ہیں.
    دل کی تیز دھڑکن، چھاتی میں درد، سانس لینے میں تکلیف، اینٹھن، جسم کا بے اختیار جھٹکنا، سخت قسم کا سر درد،

    کرسٹل میتھم فیٹا مایُن ملی برف کے پینے سے دماغ میں تین کیمیکل پیدا ہوتے ہیں

    نمبر 1 = ڈوپاماییُن= اس کے اثرات میں خوشی کا احساس، تُسلّی اور آمادگی کا اظہار ہے.
    نمبر 2 = سیروٹونن = سیکھنے کی خواہش، یاداشت، خوش رہنا اور نیند اس کے اثرات میں شامل ہیں.
    نمبر 3 = نوراڈرینالین = اس کے اثرات میں توجّہ، اندرونی معاملات اور تناؤ شامل ہیں.

    اس برف کا زیادہ مقدار میں پینا مندرجہ بالا اثراے میں شدت پیدا کر دیتا ہے.

    شراب نوشی

    ہمارے ملک میں مسلمانوں کی اکثریت ہے. اسلام میں شراب بنانا، شراب کی تجارت اور شراب نوشی ممنوع ہے. لیکن لوگ شراب تیار کرتے ہیں، شراب کی تجارت کرتے اور شراب پیتے ہیں. اس کے لیےُ حکومت نے کچھ رعاییُتیں دے رکھی ہیں. عادی شراب نوش کسی میڈیکل آفیسر سے اس بات کا سرتیفیکیٹ حاصل کر کے شراب خرید اور پی سکتا ہے. شراب نوشی کا یہ ایک چور دروازہ ہے. اب اس کا گُناہ کس کے سر ہے ؟ کسی عالم دین سے پُوچھیں.

    راولپنڈی میں انگریز دور کے زمانے سے ” مری برُوری ” کے نام سے بییُر بنانے کا ایک کارخانہ آج تک موجود ہے، جہاں بیُر بنتی اور دُکانوں کو سپلایُ کی جاتی ہے.

    دُنیا بھر ، خصوصآ عیسایُ ممالک میں شراب بنانا اور پینا ممنوع نہیں ہے. ان ممالک کے کارخانوں میں اعلے قسم کی بییُر اور مختلف برانڈ ناموں والی شراب بنتی ہے. جن کی دُنیا بھر میں بڑی ڈیمانڈ ہے. پاکستان میں بھی یہ شراب پرمٹ پر منگایُ جاتی ہے. اس کے علاوہ مختلف ذرایُع سے سمگل ہو کر یہاں پہنچ جاتی ہے ، لیکن پرمٹ کے ذریعے سے منگایُ گییُ شراب سے مہنگی پڑتی ہے. امپورٹد شراب زیادہ تر بڑے ہوٹلوں کو فروخت کی جاتی ہے ،

    بعض لوگ دیسی شراب بنا کر خفیہ طور پر بیچتے ہیں. حالانکہ یہ دھندا خلاف قانون ہے. لیکن لوگ پھر بھی باز نہیں آتے. ایسی شراب کافی نقصان دیہہ ہوتی ہے. اخبارات میں ایسی خبریں شایُع ہوتی رہتی ہیں ، کہ اتنے آدمی کچّی شراب پہنے سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے. ایسے لوگ عمو مآ غریب طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں. کسی خوشی کے موقع پر دیسی یا کچّی شراب پی کر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیتھتے ہیں.

    کیا کیا جاےُ‌؟

    ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، لیکن اسلام کی مقررہ حدود کا پاس نہیں کرتے. ہر عاقل ، بالغ اور ہوشمند مسلمان پر مقرر کردہ پانچ اوقات میں نماز پڑھنا فرض ہے. پاکستان میں کتنے فی صد مسلمان نماز پابندی سے پڑھتے ہیں ؟ اسلام کے پانچ فرض ارکان میں سے ایک فرض ہر سال ذکات کی ادایُگی ہے. کتنے لوگ یہ فرض ادا کر رہے ہیں ؟

    اپنے مُلک کے آییُن میں غالبآ ایسے کویُ شق نہیں ہے ، جو ہر مسلمان کو بُنیادی پانچ فرایُض کی پابندی پر سختی سے عمل کرنے کا پابند بناےُ. ہو سکتا ہے میں غلطی پر ہُوں. ایُین میں ایسی کویُ شق ہو، تو اس صورت میں حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اس پر سختی سے عمل کراےُ.

    اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آییُن اور دوسرے قوانین کو اسلامی بنانے کے لیے پارلیمنٹ سے ایسے افراد کی ایک کمیٹی بنایُ جاےُ جو اسلامی قوانین سے کما حقہہ واقف ہوں. علماےُ دین سے بھی مشاورت کی جا سکتی ہے. بظاہر یہ کام مشکل معلوم ہوتا ہے وہ جو کہتے ہیں کہ ؛

    چل پڑے تو کٹ ہی جاےُ گا سفر آہستہ آہستہ

    ارادہ نیک ہو تو اللہ تعالے بھی مدد کرتا ہے. مشکل کام صرف ابتدا کرنے تک ہے. آگے بڑھیےُ، کام شروع کر دیں . اللہ تعالے مدد کرے گا.

  • ہمارے سُلگتے مسایُل، نمبر 15، فرقہ بندی – ,  Sect Clause-  Our burning issues # 15

    ہمارے سُلگتے مسایُل، نمبر 15، فرقہ بندی – , Sect Clause- Our burning issues # 15

    ہمارے سُلگتے مسایُل نمبر 15 – فرقہ بندی
    Sect Clause- Our burning Issues # 15

    Sect Clause
    فرقہ بندی ہمارے ملک کا ایک اہم مسلہ ہے. کیا آپ نے کبھی اندازہ لگایا ہے کہ ملک میں اسلام کے نام پر کتنے فرقے موجود ہیں؟. ہر فرقہ اہنے آپ کو اسلام کا صحیح نمایُندہ سمجھتا ہے. اور دوسروں کو اپنا پیروکار بنانے کی کوشش کرتا ہے. ملک میں مسجدیں زیادہ ہیں اور نمازی کم ہیں. اپنے قومی شاعر اقبال نے سچ ہی کہا تھا ؛

    مسجد تو بنا دی شب بھر میں، ایماں کی حرارت والوں نے
    من اپنا پُرانا پاپی ہے. برسوں میں نمازی بن نہ سکا

    بات تو اقبال صاحب کی صحیح ہے . مسجدیں تقریبآ ویران ہیں. دیہات میں حالت اس سے بھی بد تر ہے. کسی مسجد میں نمازیوں کی تعداد پانچ سات سے زیادہ نہیں ہوتی. امام مسجد لوگوں کو گھروں سے تو کھینچ کر لانے سے رہے. ہم ” بے نمازیوں ” کے اس مرتبے تک کیسے پہنچے ؟ کیا امام مسجدوں کے واعظوں میں تاثیر نہیں رہی ؟ یا ان کے وعظ لوگوں کے سر سے گزر جاتے ہیں 

    عنوانات

     فرقہ بندی
    فرقہ اہلسنت والجماعت
    فرقہ بریلوی
    فرقہ دیوبندی
    شیعہ فرقہ
    فرقہ اہل حدیث
    قادیانی فرقہ
    دیگر مذاہب کے لوگ
    دیگر مذاہب

     

    فرقہ بندی
    Sect Clause

    جہاں تک میں سمجھا ہُوں ، لوگوں کے مسجدوں میں آ کر اکٹھے
    نماز نہ پڑھنے کی بڑی وجہ لوگوں کی فرقہ بندی ہے. ایک فرقے کا آدمی دوسرے فرقے والوں کی مسجد میں جا کر نماز نہیں پڑھے گا. وہ سمجھتا ہے کہ دوسرے فرقہ کی مسجد میں اس کی نماز نہیں ہوگی. اسلام میں کتنے فرقے بن چکے ہیں، ہم ان پر پہلے بحث کریں گے.

    فرقہ اہل سُنت والجماعت

    اہل سنت والجماعت کے فرقہ کے پیروکار اپنے آپ کو اسلام کا صحیح پیروکار سمجھتے ہیں. اس فرقے کے پیروکاروں کی تعداد کافی زیادہ ہے. یہ فرقہ پیروں فقیروں کا معتقد ہوتا ہے. اور کچھ لوگ پیروں اور اپنے مرشدوں سے مرادیں بھی مانگتے ہیں. اس فرقے کے لوگ نمازوں کے لیےُ اذان سے پہلے لاؤڈ سپیکر کے ” فُل والیوم ” پر آللہ تعالے کے آخری پیغمبر پر درود پڑھنا لازم سمجھتے ہیں. ہوتا یُوں ہے کہ مؤذن اذان دینے کے بعد بھی لاؤڈ سپیکر پر کافی دیر تک درود پڑھتا رہتا ہے. اُسے اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ اڑوس پڑوس میں شاید کویُ بیمار ہو، جسے نیند کی ضرورت ہوگی. کویُ طالب علم پڑھ رہا ہوگا ، اور وہ ڈسٹرب ہوگا. اس حالت کو یوُں بیان کیا جا سکتا ہے ؛

    دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
    کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے

    اسلام اس بات کا درس دیتا ہے کہ دوسروں کا خیال رکھا جاےُ. ضرورت اس امر کی ہے کہ درس نظامی پڑھانے والے اپنے شاگردوں کو یہ تعلیم بھی دیں کہ دوسروں کے حقوق کا بھی خیال رکھا جاےُ.اس فرقہ کے پیروکاروں کو عمومآ ” سُنّی ” بھی کہا جاتا ہے. اس فرقہ کے لوگ اپنے آپ کو امام ابو حنیفہ کی تعلیمات پر کاربند ہونے کا اظہار کرتے ہیں. دوسرے الفاظ میں یہ حنفی مذہب کے پیروکار ہیں.

    عرب ممالک میں مالکی، حمبلی فقہ کے کافی پیروکار ہیں. جو امام مالک اور امام حمبل کے فقہ کے پیروکار ہیں. امام مالک اور امام حمبل کی لکھی ہُویُ کتابیں موجود ہیں ، جن سے ان کے پیروکا راہنمایُ لیتے ہیں. دونوًں امام اسلام کے بنیادی عقایُد پر یقین رکھتے ہیں. ان پر ان کا کویُ اختلاف نہیں. لیکن بعض تشریحات پر ان کا آپس میں اختلاف ہے. جن کا اظہار انہوں نے کتابی شکل میں کیا ہے. حیرانگی کی حد تک یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ امام ابو حنیفہ کی لکھی ہویُ
    کویُ کتاب موجود نہیں. اس فرقہ کے لوگ بھی اقرار کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کی لکھی ہویُ کویُ کتاب موجود نہیں. پھر ان کے عقیدے کی بُنیاد کیا ہے ؟ اس کے لیےُ وہ ایک کتاب کا حوالہ دیتے ہیں ، جس کا نام ” دُر مُختار “ہے. کتاب در مُختار کے مصنف کا نام محمد علاؤالدین حسکافی ہے. اور در ًختار کی مختلف موضوعات پر کیُ جلدیں ہیں، جیسے کتاب النکاح، کتاب الصلوات وغیرہ وغیرہ. -. مزید معلومات کے لیےُ ہمارا آرٹیکل پڑھیےُ ” ہمارے سلگتے مسایُل قسظ نمبر 3 ، اندھی عقیدت

    فرقہ بریلوی

    انگریزی دور میں ہندوستان کے شہر بریلوی میں ایک شخص پیدا ہُؤا، جس کا نام احمدرضا خاں رکھا گیا. یہی شخص بعد میں اسلام میں بریلوی فرقہ کا موجد بنا. اس کے پیروکار ” بریلوی ” کہلاتے ہیں. اس فرقہ کے لوگ ہیروں فقیروں پر اندھی عقیدت رکھتے ہیں. اور ان سے اللہ کے سوا اپنی مرادیں پوری ہونے کی دُعایُں کرواتے ہیں. اپنی عقیدت میں یہ لوگ شرک کی حد تک پہنچ جاتے ہیں. اسلام کے ایک بزرگ عبدالقادر جیلانی مرحوم سے اپنی مرادیں پوری ہونے کی دُعایُں مانگتے ہیں. فرقہ کے بانی احمد رضا خاں کو بہت بڑا ولی سمجھتے ہیں. احمد رضا کے لکھے ہُؤےُ ایک “سلام ” کو ہر نماز کے بعد لاؤڈ سپیکر پر پڑھنا لازم قرار دے دیا گیا ہے. اللہ کے آخری رسُول سے عقیدت اس قدر ظاہر کرتے ہیں کہ انہیں خدا کے برابر درجہ دے دیتے ہیں. استغفراللہ.

    فرقہ دیوبندی

    دیوبندی فرقہ کے لوگ صرف ایک خدا کی عبادت کرنے پر زور دیتے ہیں. اللہ کے رسول کے تمام صحابہ کرام کی یکساں. عزت کرتے ہیں. غیر شرعی کاموں سے روکتے ہیں. ملک میں غیر ملکی ثقافت خصوصآ مغربی ثقافت کو روکنا اور ہر وہ کام کو، جو شریعت اسلامیہ کے خلاف ہے ، اس پر عمل نہ کرنا ان کےعقایُد میں شامل ہے. اس فرقہ کا مرکز انڈیا کے شہر دیوبند میں ہے اور اسی کے نام پر اس کا نام دیوبندی فرقہ پڑا. بنیادی طور پر یہ امام ابو حنیفہ کے ییروکار ہیں.

    شیعہ فرقہ

    شیعہ فرقہ کی ابتدا کہاں سے ہویُ ؟ ایک کہانی کے مطابق امیر تیمور لنگ کی مملکت میں ان لوگوں کی اکثریت تھی جو شیعہ خیالات کے حامی تھے. لفظ ” شیعہ ” کے لغوی معنی ہیں ” دوست “. شیعہ فرقہ کے لوگ اپنے آپ کو امام حسین علیہ سلام کے دوست ہونے کے دعویدار ہیں. امیر تیمور لنگ نے اپنی رعایا کو خوش رکھنے کے لیےُ تعزیہ نکالنے اور ماتم کرنے کی بُنیاد رکھی. واللہ عالم یہ بات کہاں تک صحیح ہے. مجھے تو کسی کتاب میں اس کہانی کی سند نہیں ملی.

    شیعہ فرقہ پنے آپ کو مسلمان ہونے کا دعوے کرتے ہیں. ان کے سارے عقایُد اسلام کے صریحآ خلاف ہیں. جیسے

    نمبر 1— ان کی اذان عام مسلماوں کی اذان سے مختلف ہے.
    نمبر 2 — عام مسلمان نماز پڑھتے ہُوےُ ہاتھوں کو اپنے سینہ پر باندھ لیتے ہیں. یہ لوگ ہاتھوں کو جسم کے ساتھ لٹکاےُ رکھتے ہیں.
    نمبر 3 — ان کی اکثریت موجود قرآن پر یقین نہیں رکھتی. ان کے عقیدے کے مطابق اصل قُران ان کے آخری امام مہدی علیہ السلام اپنے ساتھ لے گیےُ تھے ، جب وہ ایک غار میں روپوش ہو گیےُ تھے . اب قیامت سے پہلے ان کا ظہور ہوگا.
    نمبر 4 — ہر اسلامی سال کے پہلے مہینے محّرم کی پہلی تاریخ سے لے کر دسویں محرم تک یہ لوگ امام حسین علیہاسلام کے غم میں ماتم کرتے ہیں. اور
    تعزیے نکالتے ہیں. تعزیے نکالنے کی ابتدا غالبآ متحدہ ہندوستان کے شہر لکھنؤ سے ہویُ تھی. آج کل ماتم کرتے ہوےُ لوگ لوہے کی انجیروں کے ساتھ بندھی ہُویُ چھوٹی چھوٹی چھریاں اپنی پیتھ پر مارتے ہیں.
    نمبر 5 — ماہ محرم کے پہلے دس دنوں میں یہ لوگ نہاتے نہیں.
    نمبر 5 — ان 10 دنوں میں یہ لوگ مختلف جگہوں پر دودھ اورمیٹھے پانی کی سبیلیں لگاتے ہیں. وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان دس دنوں میں امام حسین علیہ اسلام کو پانی نہیں ملا تھا. اس لیے ان کے اعتقاد کے مطابق لوگوں کو پانی پلانا کار ثواب ہے.
    نمبر 6 — محرم کے پہلے 10 دنوں میں کالا لباس پہننا ضروری سمجھتے ہیں. ان کے عقیدے کے مطابق یہ کالا لباس امام عالی مقام کے سوگ میں پہنا جاتا ہے. نمبر 7 –– کسی ایک    گھوڑے کو سارا سال پالتے ہیں اچھی خراک دیتے ہیں . اس پر سواری نہیں کرتے. محرم  کے  دنوں میں ماتمی جلوس کے درمیان اس سجے ساےُ گھوڑے کو رکھا جاتا ہے. لوگ اس گھوڑے کے نیچے سے گزرنے کو کار ثواب سمجھتے ہیں.
    نمبر 8 –شیعوں کی اکثر مساجد میں کربلا سے لایُ ہویُ مٹی کو پکا کر اس کے چھوٹے چھوٹے ٹُکڑے مسجد میں رکھ دیتے ہیں . شیعہ حضرات نماز پڑھنے سے پہلے اس مٹی کا ایک ٹکڑا اپنے سامنے رکھ لیتے ہیں. اور اس پر سجدہ کرتے ہیں. جن مسجدوں میں ایسے ٹکڑے نہیں ہوتے وہ اپنے سامنے کاغذ کا ٹکڑا رکھ کر اس پر سجدہ کرتے ہیں.
    نمبر 9 — ان لوگوں کو اگر موقع ملے تو یہ حج کرنے کی بجاےُ کربلا جانے کو ترجیح دیتے ہیں.
    میں نے کیی شیعہ دوستوں کی زبانی سُنا ہے کہ ان کاعقیدہ ہے کہ رسالت علی علیہ سلام کا حق تھا. جبرایُل علیہ اسلام غلطی سے محمد صل اللہ علیہ و سلم کی طرف چلے گیےُ. استغفراللہ.
    نمبر 10 — علی کرم اللہ وجہُ کے سوا تمام خلافا ےُ راشدین کے سخت خلاف ہیں- اور انہیں غاصب اور ظالم سمجھتے ہیں.اور بھی کیُ کاموں میں یہ عام مسلمانوں کی مخالف سمت میں جاتے ہیں.

    فرقہ اہل حدیث

    آللہ تعالے کے آخری رسول کی وفات کے بہت عرصہ بعد مسلمانوں میں کییُ بدعات شروع ہو گییُں. یہ بدعات سعودی عرب میں بھی سرایُت کر گییُں. حالت بہت بگڑ گییُ. پھر یُوں ہُؤا کہ اللہ تعالے نے اپنے ایک بندے کو ہمت دی ، کہ وہ ان بدعات کو ختم کرے. اس مبلغ کا نام عبدالوہاب تھا. عبدالوہاب نے سب سے پہلے تبلیغ کا کام سعودی عرب سے شروع کیآ. اس کی تعلیم تھی کہ ؛

    نمبر 1– اللہ تعالے ہم سب کا معبود ہے.
    نمبر 2– الل تعالے کے سوا کسی دوسرے سے مدد نہ مانگو.
    نمبر 3 — اللہ تعالے کے سوا کسی دوسرے سے مدد مانگنا شرک ہے.
    نمبر 4 — ہدایت کا بہترین ذریعہ قرآن پڑھنا اور اس پر عمل کرنا ہے.
    نمبر5 — قران کے بعد ہدایت کا ذریعہ اللہ کے آخری رسول کی احادیث ہیں. ان
    ا حادیث میں زندگی گزارنے کے سارے اصول موجود ہیں. ہر مسلہ کا
    حل موجود ہے.
    نمبر 6 — ذندگی اس طرح گزارو جس طرح اللہ کے آخری رسول نے گزاری. آن
    کی زندگی کو مشعل راہ بناؤ.
    نمبر 7 — نماز پڑھتےہُوےُ یہ سمجھا کرو کہ تم اللہ کے حضور کھڑے ہو.

    بگڑے ہُوؤں کو سیدھے راستہ پر لانا کافی مشکل ہوتا ہے. لیکن عبدالوہاب نے ہمت نہ ہاری. اللہ نے بھی اس کی مدد کی. اور اب تقریبآ تمام عرب ممالک میں اللہ تعالے کی عبادت صحیح طریقے سے ادا کی جا رہی ہے. ںماز کو صحیح طور پر ادا کرنے والوں کو ” اہل حدیث ” کہا جاتا ہے. کیونکہ یہ لوگ اپنے مسلوں کا حل اللہ کے آخری رسول کی احادیث میں تلاش کر کے اس پر عمل کرتے ہیں.

    اپنے پاکستان میں بھی بہت ساری جگہوں پر اہل حدیث کی مساجد موجود ہیں. اہل حدیث دوسرے فرقوں کی مساجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے سے حتےالوسع گریز کرتے ہیں. یہ دیکھا گیا ہے کہ عام مساجد کے پیش امام نماز پڑھاتے ہُوےُ بہت ساری غلطیاں کر جاتے ہیں. مثلآ نماز میں قران کی تلاوت بڑی جلدی جلدی کریں گے، یا بہت آہستگی سے کریں گے، رکوع کے بعد فورآ سجدے میں چلے جایُں گے. سجدہ سے سر اُٹھا کر فورآ دوسرے سجدے میں چلے جاییُں گے. سجدہ سے سر اتھاتے ھی اللہ اکبر کہتے ہوےُ دوسری رکعت کی تلاوت شروع کر دیں گے. یہ طریقہ اس طریقہ کے بالکل خلاف ہے جیسے اللہ کے آخری رسول نماز پڑھاتے تھے یا انہوں نے نماز پڑھنے کی تلقین کی تھی. میں نے بُخاری شریف میں ایک حدیث پڑھی تھی، جس کا مفہوم اس طرح ہے .

    ایک دفعہ اللہ کے رسول مسجد میں تشریف لاےُ. وہاں ایک اصحابی نماز اس طرح پڑھ رہے تھے ، جیسے آجکل کے مولوی صاحبان پڑھاتے ہیں. چار رکعت والی نماز دو منٹ میں ختم کر دی. اللہ کے رسول نے انہیں کہا کہ تمہاری نماز نہیں ہُویُ، نماز دوبارہ پڑھو. اس اصحابی نے نماز پھر اسی طرح جلدی جلدی پڑھ ڈالی. آ پ نے فرمایا، نماز اس طرح پڑھو، جس طرح میں پڑھتا ہُوں، یا جس طرح تمہیں پڑھنا سکھایا گیا ہے

    اہل حدیث پیش امام نماز میں قرات اس طرح کرتا ہے کہ ایک ایک لفظ جُدا جُدا سمجھ میں آتا ہے. اپنی قرات بلند آواز میں اور مناسب وقفوں کے ساتھ کرتا ہے. کہ مقتدی صاف سمجھ جاتا ہے کہ پیش امام نے کیا پڑھا ہے. اہل حدیث اس طرح پڑھی جانے والی نماز پڑھنا چاہتا ہے، جو اسے عام مساجد میں نہیں ملتی. اس لیےُ وہ کوشش کرتا ہے اہل حدیث کی کسی مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھے. اگر اسے ایسا موقع نہیں ملتا تو وہ گھر میں اکیلے نماز پڑھ لیتا ہے.

    قادیانی فرقہ

    ہر مسلمان کا یہ پختہ ایمان ہوتا ہے کہ محمد صل اللہ علیہ و سلم اللہ تعالے کے آخری پیغمبر ہیں. اسی لیےُ انہیں ” خاتم اننبیّن ” کہا جاتا ہے. متحدہ ہندوستان میں قادیان شہر کے ایک شخص مرزا غلام احمد نے خاتم انبییں کی تشریح ُٰیوں کی کہ محمد صل اللہ علیہ و سلم انبیا کی نبوت پر تصدیق کی مُہر لگانے والے ہیں. وہ آخری نبی نہیں ہیں. استغفراللہ . مرزا غلام احمد نے نبوت کا دعوے کر دیا. کیُ لوگ اس پر ایمان لے آےُ. ہندوستان کی تقسیم کے بعد ان لوگوں نے پاکستان کے شہر چناب نگر ضلع چنیوٹ میں ایک علیحدہ بستی قایُم کر لی جس کا نام ” ربوہ ” رکھا. اب تو یہ ایک بڑے شہر میں تبدیل ہو چکا ہے.

    مرزا غلام احمد کے پیروکاروں کو مرزیُ یا قادیانی کہا جاتا ہے. بہت سارے لوگ ان کے چنگل میں پھنستے گیےُ. شروع میں یہ لوگ مسلمانوں کی مساجد میں نماز پڑھ لیتے تھے. عام مسلمان انہیں مسلمان نہیں سمجھتے تھے. انہیں اپنی مساجد میں نماز پڑھنے سے روکتے تھے. انہوں نے اپنی علیحدہ مساجد بنا لیں. ان لوگوں کے خلاف بڑی زبردست تحریک چلی کہ قادیانی مسلمان نہیں ہیں. ذولفقار علی بھٹو کے دور میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر قادیانوں کو غیر مسلم قرار دے دیا. ان پر مسلمانوں کی مساجد میں نماز پڑھنے پر پابندی لگا دی.

    کیُ دوسرے ممالک میں ان کے لوگ موجود ہیں جو عام مسلمانوں کو کیُ قسم کے ہتھکنڈوں سے ورغلاتے ہیں. دوسرے ممالک میں سیٹل ہونے کے خواہش مند حضرات ان کے پسندیدہ اور آسان شکار ہیں. جنہیں یہ مدد فراہم کرتے ہیں، جس کے لیےُ ” شکار ” کو قادیانی بننا پڑتا ہے. شکار کو اپنے چنگل میں پھنساےُ رکھنے کے لیےُ ان کے پاس بے شمار ہتھکنڈے ہیں.

    دوسرے مذاہب کے لوگ

    اپنے ملک میں مذہبی آزادی ہے یعنی ہر شخص اپنے عقیدہ کے مطابق اپنی زندگی گزار سکتا ہے، عبادت کر سکتا ہے. حکومت نے ان کے لیےُ اسمبلیوں میں ان کے ممبراں کے لیےُ کوٹہ مقرر کر رکھا ہے. ایہیں ہر جایُز کام کرنے کی مکمل آزادی ہے. بعض شر پسند لوگ لوگوں کو اُکسا کر ، خصوصآ عیسایُیوں کے خلاف توہیں مذہب کے الزامات لگا کر فساد پھیلاتے ہیں. ان فسادات مٰیں املاک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے. اموات بھی ہو سکتی ہیں. یہ ایک انتہایُ غیر اسلامی فعل ہے ، جس کی اجازت نہیں ہونی چاہییےُ .

    پاکستان میں اکثریت

    دیگرمذاہب

     مسلمانوں کی ہے اس کے علاوہ دیگر مذاہب کے لوگ بھی آرام سے رہ رہے ہیں. سکھ، ہندو، پارسی، بدھ مت کے پیروکاروغیرہ اکثریت میں نہ ہونے کے باوجود آرام کی زندگی گزار رہے ہیں. ان اقلییتوں کی مناسب نمایُندگی بھی حکومت اور اسمبلیوں میں موجود ہے.

  • ایک سوال – One question

    ایک سوال – One question

    ایک سوال
    One question

    One question

    یوں تو بے شمار سوال ہیں جو جواب طلب ہیں. لیکن ایک سوال ایسا ہے جس کا جواب ملنا انتہاری ضروری ہے. میں اسے سب سے پہلے نمبر پر رکھوں گا. ان سوالوں کے جواب سے ہم اندازہ لگا سکیں گے کہ ملک کے عوام کی ترجیحات کیا ہیں. کون سا کام وہ سب سے پہلے کرنا چاہتے ہیں. ہم ایک بُحرانی دور سے گذر رہے ہیں. ایک سیاسی پارٹی اپنے ملک دشمن ایجنڈے پر عمل پیرا ہے. اللہ تعالے پم پر رحم فرماےُ.

    عنوانات

    سوال نمبر 1 – ملک کا دُشمن کون ہے ؟
    سوال نمبر 2 – ہم کسی ایک ایجنڈے پر متفق کیوں نہیں ہوتے ؟
    سوال نمبر 3 – ملک میں بد اخلاقی کون پھیلا رہا ہے ؟
    سوال نمبر 4 – صنف نازک کا استحصال کیسے بند ہو ؟
    سوال نمر 5- دیرینہ دُشمنیاں کیسے ختم ہوں ؟
    سوال نمبر6- خاندانی اور جایُداد کی دشمنیاں کیسے ختم ہوں ؟

    سوال نمبر 1- ملک کا دُشمن کون ہے ِ؟

    کسی ملک دشمن کے چہرے پر لکھا نہیں ہوتا کہ یہ شخص ملک کا دشمن ہے.
    ملک دشمن کو پہچاننے کے لیےُ ایک پیمانہ مقرر کیا جا سکتا ہے. ملک دشمن کو اس پیمانے پر جانچیےُ. اگر کویُ شخص اس پیمانے پر پُورا اُترتا ہے تو اس کے ملک دشمن ہونے میں کویُ شک نہیں. ہم یہاں صرف کسی مُلک کے دشمن کو پہچاننے کے پیمانہ پر بحث کریں گے. کسی شخص کے کاموں، تقاریر، طرز عمل ، گفتگو اور چال چلن کا جایُزہ لیجییےُ. ملک دشمن کو ڈھونڈنے کے لیےُکسی شخص میں یہ بُرایُاں تلاش کریں:

    نمبر 1- کیا وہ جھوٹ بولتا ہے ؟
    نمبر 2- کیا وہ امانت میں خیانت کرتا ہے ؟
    نمبر 3 – کیا اس کے قول و فعل میں تضاد ہے ؟
    نمبر 4- – کیا اس نے کبھی حکومت پر تنقید کی ہے ؟
    نمبر 5 – کیا اس کے دوستوں میں لفنگے لوگ بھی ہیں ؟
    نمبر 6 – کیا اس کی دہشت گردوں سے جان پہچان ہے ؟
    نمبر 7 – کیا اس نے کویُ سیاسی پارٹی بنایُ ہے ؟
    نمبر 8 – کیا اس کی پارٹی کو دوسرے ممالک سے مالی امداد ملتی پے؟ خصوصآ ان ممالک سے جن کی نظروں میں ہمارا ملک کھٹکتا ہے .
    نمبر 9 – کیا وہ جھوٹا پراپیگنڈا کرتا ہے ؟
    نمبر 10- کیا وہ دکھاوے کے لیےُ مذہب کواستعمال کرتا ہے ؟
    نمبر 11- کیا وہ عوام کا اخلاق بگاڑنے کے پروگرام پر عمل پیرا ہے ؟
    نمبر 12- اگر اسے حکومت ملی ہو تو کیا اس نے ناجایُز مالی فایُدے اُٹھاے ُ؟
    نمبر 13- اگر اسے حکومت ملی ہو تو کیا اس کے مصاحبوں میں یا مشورہ دینے والوں میں کچھ فراڈیےُ بھی شامل تھے ؟
    نمبر 14 – حکومت ختم ہو جانے کے بعد کیا اس نے ملک کی سلامتی کے خلاف یا ملک کو بدنام کرنے والے کچھ اقدامات کیےُ؟ یا بیانات دیے ؟
    نمبر 15- حکومت ختم ہونے کے بعد کیا اس نے ملکی ترقی کے لیےُ کوششیں کیں؟ یا اچھے مشورے دیےُ ؟
    نمبر 16 – کیا وہ حکومت کے ہر کام ( اچھے یا بُرے ) پر تنقید کرنا کار ثواب سمجھتا ہے ؟
    نمبر 17 – کیا کبھی اس نے حکومت کو کویُ مفید مشورہ دیا ؟
    نمبر 18- پارلیمنٹ یا قومی اسمبلی میں کیا وہ حکومتی ارکان کی تجاویز یا تقریر کے وقت خاموشی سے سُنتا ہے یا اپنی پارٹی ممبران کے ہمراہ شور شرابہ کرتا، ڈیسک بجاتا ، ہوٹنگ کرتا ، باجے بجاتا ، اپنے سارے ممبران کے ہمراہ بد تہذیبوں اور جاہل لوگوں جیسا مظاہرہ کرتا ہے .؟
    نمبر 19- کیا اس نے ملک کی بہتری کے لیےُ کبھی کویُ تجویز پیش کی ہے ؟ یا کویُ اچھا کام کیا ہے ؟

    کسی شخص میں ،مندرجہ بالا “خوبیاں ” پایُ جاییُں تو اس شخص کے ملک دشمن ہونے میں کویُ شک و شبہ نہیں. ہمیں ایسے اشخاص پر نظر رکھنی چاہییےُ ، اور ان کی چکنی چُپڑی باتوں پر دھیان نہ دیں. بد قسمتی سے ہمارے مُلک کے اکثر لوگ لکھے پڑھے ان پڑھ ہیں. اور انہیں دھوکا دینا بہت آسان ہے. ایسے لوگ طاقتور لوگوں کو اپنے ساتھ ملاےُ رکھتے ہیں. نہت زیادہ باتیں کرنے والے اور زیادہ بولنے والے جو روانی سے جھوٹ بول سکتے ہوں ان کے لیےُ ہیروں سے زیادہ قیمتی ہوتے ہیں، خصوصآ آٹی ٹی کے ماہر، جو جعلی آیُ ڈی بنا کر ان کے مخالفین کا سوشل میڈیا پر بیہودہ مذاق اُڑاتے ہیں. جعلی خبریں چلاتے ہیں.

    ایسے لوگ ًمحب وطن کا جعلی چولا پہن کر عوام کا ہیرو بننے کی کوشش کرتے ہیں ، اور جاہل لوگ اسے اپنا نجات سہندہ سمجھنے لگتے ہیں. ایسی کالی بھیڑوں سے ہوشیار رہییےُ.

    ہم کسی ایک ایجنڈے پر متفق کیوں نہیں ہوتے ؟

    اپنے ملک میں بے شمار سیاسی پارٹیاں موجود ہیں، اور ہر سیاسی پارٹی کاایجنڈہ علیحدہ ہے.  سب سیاسی پارٹیوں کا اصل مقصد حکومت ہر قبضہ کرنا ہے. جب کویُ سیاسی پارٹی حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو وہ اپنے منشور سے ہٹ جاتی ہے. اور اپنی پارٹی کے طاقتور لوگوں کو اعلے عہدے تقسیم کرنا شروع کر دیتی ہے. ملک کی ترقی اُن کی نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے. ملک پر وزیروں اور مشیروں کا بوجھ لاد دیا جاتا ہے. اب بھلا وزیروں کو مشیر رکھنے کی کیا ضرورت ہے ؟ مشیر رکھنے کا مطلب ہے کہ وزیر میں کسی مسلہ کو سلجھانے یا حل کرنے کی اہلیت نہیں.

    اگر کسی ایک سیاسی جماعت کی حکومت بنتی ہے ، تو دوسری سیاسی جماعتیں حکومت کے خلاف اتحاد بنا لیتی ہیں ، اور حکومت کی چھُٹّی کرانے کی کوششوں میں لگ جاتی ہیں. حکومت اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لیےُ جد و جہد کرتی ہے اور اس طرح ملکی ترقی کا ایجنڈا پس پُشت چلا جاتا ہے.

    ہم کسی ایک ایجنڈے پر متفق کیوں نہیں پوتے ؟ ہر سیاسی جماعت کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اقتدار میں آےُ. اس کے لیےُ وہ کوشش کرتی ہے. ہر سیاسی جماعت کا اپنا ایجنڈا ہوتا ہے، اس طرح کسی ایک ایجنڈے پر متفق ہونا سیاسی جماعتیں اسے اپنی موت سمجھتی ہیں. اس انتہایُ ضرورت کے لیےُ میرے خیال میں ملک میں صرف دو سیسی پارٹیاں ہونی چاہییُں. برطانیہ اور امریکہ میں صرف دو دو سیاسی پارٹیاں ہیں. چین میں صرف ایک سیاسی پارٹی ہے. ذیادہ سیاسی پارٹیوں کی موجودگی میں ہم کسی ایک بات پر متفق نہیں ہو سکتے. ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک میں صرف دو سیاسی پارٹیاں ہوں. اس طرح بھانت بھانت کے لوگ شور نہ مچا سکیں گے.

    مُلک میں بد اخلاقی کون پھیلا رہا ہے ؟

    دو ہزار چودہ سن عیسوی سے پہلے تک ملک کا معاشرہ معقول حد تک ” صحتمند ” تھا. لوگ ایک   دوسرے  کا احترام کرتے تھے، خواتیں کا لباس پردے والا ہوتا تھا، اور خواتین کا احترام کیا جاتا تھا . پھر ایک سیاسی جماعت نے قوم کا اخلاق بگاڑنے کے لیےُ ایک منظم مہم شروع کی . اس کے لیےُ سوشل میڈیا کو استعمال کیا. خواتین کے ذہنوں میں یہ ڈالا گیا کہ آپ لوگ غلام نہیں ہیں. اپنے حقوق کے لیےُ کھُل کر میدان مین آییُں. خواتین کو شہہ ملی تو انہیں نے ان کی عزّت کا محافظ پردہ اُتار پھینکا. عورت فطرتآ اپنی نمایُش چاہتی ہے. دیکھتے ہی دیکھتے عام اشتہارات میں نیم عُریاں عورتیں نظر آنے لگیں. اب حالت یہ ہے کہ ٹی وی پر بڑی بوڑھیاں مردوں کے ساتھ ڈانس کرتی نظر آتی ہیں. اشتہارات میں عورت کے ڈانس کو اشتہار کی کامیابی سمجھا جاتا ہے. حیران ہُوں کہ موجودہ حالت عورت کی کامیابی ہے یا بربادی. خواتین موجودہ حالت کو برقرار رکھنے کے لیےُ بے شمار دلایُل دے سکتی ہیں. میں تو صرف یہ جانتا ہُوں کہ ہر انسان نے اپنی عمر گزار کر ایک دن اپنے اعمال کا حساب دینا ہے. جہاں نہ کویُ وکیل ہوگا اور نہ کویُ مددگار.

    یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ملک مٰیں بد اخلاقی کون پھیلا رہا ہے یا اس میں مدد دے رہا ہے. میرے خیال میں درج ذیل شعبے بد اخلاقی، عُریانی، فحاشی اور جنسی جرایُم میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں.

    مزید تفصیل کے لیےُ ہمارا آرٹکل “ ہمارے سلگتے مسایُل نمبر2، اخلاقی گراوٹ ” پڑھیےُ

    نمبر 1 – اشتہارات — 99 فی صد اشتہارات پر کسی عورت کی تصویر ہوگی. آج کل دوپٹہ سرے سے غایُب ہے. عورتیں اپنے سر کے بال بڑھا لیتی ہیں اور انہیں دوپٹہ کی جگہ سینہ پر ڈال لیتی ہیں. اگر ایسا نہ بھی کریں ، تو بھی ننگے سر رہنا فیشن بن گیا ہے. سر پر دوپٹہ اوڑھنے والی خواتین کو ” پسماندہ ” سمجھا جاتا ہے. ٹی وی پر بعض اشتہارات ایسے بھی دکھایُ دےُ جا رہے ہیں جن میں ماڈل عورتیں اپنے جوبن کی خصوصی نمایُش کرتی ہیں. آللہ تعالے انہیں ہدایُت دے. ان ماڈلز کو یہ بھی پتہ ہونا چاہیےُ کہ زندگی بہت مختصر ہے ، اور قیامت کا ایک دن مقرر ہے.

    نمبر 2 – ٹیلی ویژن — ٹیلی ویژن پر جو ڈرامے دکھاےُ جا رہے ہیں ، ان میں خواتین کے لباس سکن ٹایُٹ ہوتے ہیں. سر پر دوپٹہ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا. ایسے لباس ملک کی خواتین کو اسی طرح کے لباس پہننے کی خواہش کو اُبھارتے ہیں. بعض ڈراموں میں خواتین پینٹ پہنے دکھایُ دیتی ہیں، اور وہ بھی سکن ٹایُٹ. لا حول ولا قوتہ . اسلام میں خواتین کو مردوں جیسا لباس اور مردوں کو عورتوں کا لباس پہننے کی ممانعت ہے. ہم نے آللہ کے احکامات کو نہ ماننے کا تہییہ کر رکھا ہے. استغفراللہ.

    نمبر 3 سٹیج ڈرامے — سٹیج ڈرامے فحاشی پھیلانے کا ایک بڑا ذریعہ ہیں. آن ڈراموں میں ذومعنی الفاظ بولنے کا چلن عام ہے. سٹیج ڈراموں کی آڑ میں بڑے ہی فُحش ڈانس دکھاےُ جاتے ہیں. ان ڈراموں سے حاصل کمایُ کے متعلق کسی عالم دین سے پوچھییےُ کہ یہ کمایُ حلال ہے یا حرام

    ا مبر 4 – فیشن شو — کچھ سرصہ پہلے تک ہمارے ملک میں فیشن شو نہیں ہوتے تھے، اب ہم ” ترقی” کر چکے ہیں. ہمارے ملک میں فیشن شو منعقد ہو رہے ہیں. شیطان کے چیلے بڑھ رہے ہیں. اکتوبر 2023 میں ریاض شہر سعودی عرب میں بھی فیشن شو ہُؤا تھا. جس میں ماڈلز نے لمبے لباس صرف سینہ تک پہنے ہُوےُ تھے. جو ” صاف چھُپتے بھی نہیں ” کا عملی مظاہرہ تھے.اس پوسٹ میں دی گیُ تصویر اس فیشن شو کی ایک ماڈل کی تصویر ہے. اگر اکبر الہ آبادی زندہ ہوتے تو غیرت ملّی سے مر جاتے.

    صنف نازک کا استحصال کیسے بند ہو ؟

    اپنے ملک میں اب حالت یہ ہے کہ اکیلی عورت کسی رکشہ میں سفر کرتے ہُوےُ ڈرتی ہے. پچھلے کیُ ماہ میں ایسے کییُ واقعات ہو چُکے ہیں کہ کویُ اکیلی عورت کہہیں جانے کے لیےُ رکشہ میں بیٹھی. رکشے والا اسے کسی جگہ لے گیا اور اس سے زبردستی کر ڈالی. ایسا لگتا ہے کہ ہمارے معاشرہ میں بھیڑیوں کی تعداد زیادہ ہو گیی ہے. ہر شخص کے پاس ناجایُز آتشیں اسلحہ ہے، جس سے ڈرا دھمکا کر وہ عوام کو لُوٹتا ہے. متوسط طبقہ بہت پریشان ہے. ڈاکو دن دہاڑے اسلحہ کے زور پر لوگوں کو لُوٹ رہے ہیں. مزاحمت پر گولی مار دیتے ہیں. اس بد امنی پر قابو نہ پایا گیا تو یہاں جنگل کا قانون نافذ ہو جاےُ گا. ان مجرمانہ واقعات پر قابو پانے کے لیےُ یہ اقدامات اُٹھاےُ جا سکتے ہیں :

    نمبر 1- کسی خاتون کے ساتھ بد فعلی پر مجرم کو پھانسی کی سزا دی جاےُ.
    نمبر 2 – لٹیروں، راہزنوں، ڈاکوؤں کو 80 سال قید با مشقت کی سزا دی جاےُ . نمبر3 – چورکا پہلی چوری پر داہنا ہاتھ کات دیا جاےُ. ؤہی چور کسی دوسری چوری میں پکڑا جاےُ    تو اس  کا بایاں ہاتھ بھی کاٹ دیا جاےُ. مندرجہ بالا دونوں سزایُیں اسلامی قانون کے مطابق ہیں. ان سزاؤں کے عملی نفاذ سے 3 ماہ پہلے ان سزاؤں کی روزانہ تشہیر کی جاےُ.
    نمبر 4- مندرجہ بالا ملزموں کی ضمانت لینے والوں کے متعلق منصفانہ تحقیقات کی جاییُں. کہ ضمانت لینے والوں کا ان مجرموں سے کیا تعلق ہے. ًمجرموں کی پشت پر کویُ با رسوخ اور طاقتور شخص یا اشخاص ہوتے ہیں. ان پر ہاتھ ڈالنا بھی ضروری ہے. ایسے کچھ اشخاص پر اگر قانون اپنا راستہ بنا لے تو امن قایُم ہو اسکتا ہے.

    خاندانی اور جایُداد کی دُشمنیاں کیسے ختم ہوں ؟

    آپ اخبار تو روزانہ پڑھتے ہوں گے. روزانہ ہی خاندانی دُسمنیوں اور جایُداد کے جھگڑوں میں کتنے لوگ جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں. آج مورخہ 26 جُون 2024 کو روزنامہ جنگ، لاہور کے صفحہ نمبر 3 پر ایک ایسی ہی خبر شایُع ہُویُ ہے جو اس طرح ہے :

    ” پشاور میں جایُداد کے تنازع پر گھر میں گھُس کر فایُرنگ، 9 افراد قتل “

     مسلح افراد پیدل آےُ، ایک باہر کھڑا رہا. دوسرے نے اندر داخل ہو کر موقع پر موجود تمام افراد کو نشانہ بنایا. مقتولین میں اشفاق کی دو بیویاں، والدہ، بچّے، بھتیجے، بھتیجی  شامل. قیامت صُغرا کا منظر. ملزمان موٹر سایُکل چھین کر فرار.

    روزانہ ایسی خبریں اخبارات میں شایُع ہو رہی ہیں. ایسی وارداتیں زیادہ تر صُوبہ خیبر پختونخواہ میں ہو رہی ہیں، خصوصآ وہاں کے قبایُلی علاقوں میں. صوبہ میں قباُٰیُل کی دشمنیاں سال ہا سال سے چل رہی ہیں. لیکن اتنے قتل ہونے کے باوجود قبایُلی اپنی دشمنی کو ترک کرنے پر تیار نہیں. اپنے کسی فرد کے قتل کا بدلہ لینا وہ اپنا فرض سمجھتے ہیں. قبایُلی کسی کا طعنہ برداشت نہیں کر سکتے. قبایُلی علاقوں میں اسلحہ بڑی آسانی سے مل جاتا ہے، اسی لیےُ آپ کو وہاں تقریبآ ہر شخص کے پاس اسلحہ نظر آےُ گا.

    ان علاقوں میں جب خون ریزی بڑھ جاتی ہے تو اسے روکنے کے لیےُ جرگہ بلایا جاتا ہے. ایسا جرگہ صرف خون تیزی روکنے کے لیےُ ہی نہین بلایا جاجاتا ، بلکہ عام تنازعات کو بھی نمٹانے کی کوشش کرتا ہے. قتل کے معاملات میں فریقین اس وقت تو شاید خاموش رہیں لیکن اپنے کسی عزیز کے قتل کا بدلہ لینا وہ فرض عین سمجھتے ہیں. اور وہ اسے بھولتے نہیں. اس قسم کے قتل و غارت کو روکنے کے لیےُ تعلیم کی ضرورت ہے. قبایُلی اپنے پیروں کی بات بہت مانتے ہیں. اگر ان کے پیروں کو اس بات پر آمادہ کیا جا سکے کہ وہ اپنے قبایُلی مریدوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کریں ، کہ کسی کی جان لینا بہت بڑا گناہ ہے تو شاید یہ بات قبایُلیوں کی سمجھ میں آ جاےُ. دوسرا طریقہ یہ ہے کہ قبایُلی بچوں کو سکول میں روزانہ یہ سبق پڑھایا جاےُ کہ کسی کی جان لینا بہے بڑا گناہ ہے، تو شاید وہ بڑے ہو کر ان دشمنیوں سے باز آ جایُیں. مساجد کے امام بھی غیر محسوس طور پر یہ بات سمجھانے کی کوشش کر سکتے ہیں

    اللہ تعالے سے دُعا ہے کہ وہ اپنے حبیب کے صدقےہمارے ملک میں سب کو امن و امان سے رہنے کی توفیق عطا فرماےُ آمین.