Author: Sipra World

  • روشن چہرہ – قسط 7  –  Bright face – part 7

    روشن چہرہ – قسط 7 – Bright face – part 7

    روشن چہرہ، قسط 7

    Bright face – part 7

    Bright face-part 7

    روشن چہرہ ، قسط 7 میں سن 2019 سے سن 2021 تک کے مختصر چیدہ چیدہ حالات پیش کیےُ جاییُں گے. اس سے پہلے روشن چہرہ – قسط 6 میں سن 2018 تک کے مختصر حالات بیان کیےُ گیےُ تھے. قوموں کو اپنی پُرانی تاریخ یاد رکھنی چاہیےُ، اور اس سے انہیں یہ اخذ کرنا چاہیےُ ، کہ ہم نے پہلے وقتوں میں کیا کیا غلطیاں کی تھیں ، اور اس سے ہمیں کیا کیا نقصانات ہُوےُ، ان سے بچنے کے لیےُ ہمیں کیا کرنا چاہیےُ. زندہ قومیں اپنے ماضی کی غلطیوں سے بچنے کی کوشش کرتی ہیں.

    عنوانات؛

    سن 2019 کے مختصر چیدہ چیدہ واقعات
    سن 2020 کے مختصر چیدہ چیدہ واقعات
    سن 2021 کے ًمختصر چیدہ چیدہ واقعات

    سن 2019 کے ًمختصر چیدہ چیدہ واقعات

     

    صد پاکستان = عارف علوی
    وزیر اعظم = عمران خاں
    چیدف جسٹس = گلزار احمد
    گورنر بلوچستان = امان اللہ خان یاسین زیُ
    گورنر گلگت بلتستان = راجہ جلال حسین مقپُون
    گورنر خیبر پختونخواہ = شیر زمان
    گورنر پنجاب = محمد سرور
    گورنر سندھ = عمران اسماعیل

    سن 2019 کے مختصر چیدہ چیدہ واقعات

    فروری

    نمبر 1 = فروری 1 = پاکستان میں طوفانی بارشیں 20 فروری سے لے کر اپریل تک جاری رہیں. جس سے ملک میں اس دوران سیلانوں کا زور رہا. جس سے بہت سا جانی اور مالی نقصان ہُؤا
    نمبر 2 ، فروری 14 = پاکستان اور انڈیا کے درمیان آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کی سرحدوں پر دونوں ممالک کی فوجوں کے درمیان جھڑپیں شروع ہُویُیں
    نمبر 3، فروری 27= پاکستان ایر فورس نے جھڑپوں کے دوران انڈیا کے دو جنگی جہاز مار گراےُ، ایک جنگی ہوایُ جہاز کے پایُلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن ورتھمان کو گرفتار کر لیا. اسی دوران پاکستان ایُر فورس نے مختلف مقامات پر دشمن کے ٹھکانوں پر حملے کیےُ

    مارچ

    نمبر 1، مارچ 2 = پاکستان نے گرفتار انڈین پاٰیُلٹ کو کھانا کھلا کر اور چاےُ پلا کر واہگہ بارڈر کے مقام سے ایک سادہ تقریب مٰن انڈیا کے حوالے کیا.
    نمبر 2 ، مارچ 22 = آزاد جموں اینڈ کشمیر اور مقبوضہ کشمیر ( جس پر انڈیا کا قبضہ ہے ) کے بارڈر پر دونوں ممالک کے درمیان سیز فایُر شروع ہُؤا

    اپریل

    نمبر 1 ، اپریل کے مہینے میں سندھ کے ضلع لاڑکانہ کے ” رتو گیرا” کے علاقہ میں ” ایڈ ز ” کی بیماری نے زور پکڑ لیا

    جولایُ

    نمبر 1 ، جولایُ تا دسمبر، ڈینگی کے بخار نے ملک بھر میں ڈیرے جماےُ رکھے
    نمبر 2 ، جولایُ 30 = پاک آرمی کا ایک چھوٹا جہاز بحریہ ٹاؤن راولپینڈی کے رہایُشی علاقے میں گر کر تباہ ہو گیا. اس حادثے میں عملہ کے 5 اور 13 سولین جان سے ہاتھ دھو بیٹھے

    اگست

    نمبر 1، اگست 5 = انڈیا نے اپنے آیُین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر کے مقبوضہ کشمیر کو اپنے ملک کا حصہ بنا لیا

    ستمبر

    نمبر 1، ستمبر 24 = آزاد جموں اینڈ کشمیر کے ضلع میر پور کے علاقے میں 5.4 شدت کے زلزلہ نے تباہی مچا دی. 40 افراد مارے گیےُ اور 850 زخمی ہوےُ. عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گییُں

    اکتوبر

    نمبر 1، اکتوبر 31 = تیز گام ٹرین میں ، جو کراچی سے راولپیندی جا رہی تھی، آگ لگ گییُ. بہت سارے افراد جل گیےُ
    اس سال پاکستان اور افغانستان کے بارڈر پر دونوں ممالک کے درمیان 3 جھڑپیں ہویُیں

    سن 2020 کے مختصر چیدہ چیدہ واقعات

    صدر پاکستان = عارف علوی
    وزیر اعظم = عمران خاں
    چیف جستس = گلزار آحمد
    گورنر بلوچستان = امان اللہ خاں یاسین زیُ
    گورنر گلگت بلتستان = راجہ جلال حسین مقپون
    گورنر خیبر پختونخواہ = شاہ فرمان
    گورنر پنجاب = چوہدری محمد سرور
    گورنر سندھ = عمران اسماعیُل

    مختصر واقعات

    جنوری

    نمبر 1 ، جنوری ی تا فروری 28 = بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم سن 2019 سے پاکستان میں
    نمبر 2 ، جنوری 10. کویُٹہ میں بم دھماکہ ہُؤا
    نمبر 3، جنوری 10 = نیلم وادی میں برفانی تودہ گرنے سے بہت نقصان ہُؤا

    فروری

    نمبر 1 ، فروری 1 = حکومت نے فصلوں کو بچانے اور کاشتکاروں کی مدد کے لیےُ ایمرجنسی نافذ کی
    نمبر 2، فروری 12 = حافظ سعید کو دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے کے الزام میں ساڑھے پانچ سال قید کی سزا ہُویُ.
    نمبر 3، فروری 17 = کویُٹہ میں بم دھماکہ
    نمبر 4، فروری 20 = پاکستان سُپر لیگ کا فایُنل
    نمبر 5، فروری 26 = پاکستان میں کورونا وایُرس کے پہلے دو مریض رپورٹ ہوےُ

    مارچ

    نمبر 1 ، مارچ 10 = تبلیغی جماعت کو کورونا وایُرس پھیلانے کا ذریعہ سنجھا گیا

    میُ

    نمبر 1= میُ 22 = پاکستان انٹر نیشنل ایُر لایُن کی فلایُٹ 8303 کراچی میں کریش ہو گیُ. فلایُٹ کے 99 مسافروں میں سے 97 مسافر اگلے جہان سدھار گیےُ. حادثہ کی جگہ پر موجود ایک شخص بھی ہلاک ہو گیا.

    جون

    نمبر 1 ، جون 6 = ھکومت نے محمد صادق کو بہ طور سپیشل نمایُندہ براےُ افغانستان مقرر کیا
    نمبر 2، جون 19 = سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی فایُز عیسے کے خلاف ایک صدارتی ریفرینس خارج کر دیا.
    نمبر 3، جون 29 = پاکستان سٹاک ایکسچینج کراچی پر گولیوں کی بوچھاڑ سے 8 افراد مارے گیےُ. ان میں 4 حملہ آور بھی شامل ہیں.
    نمبر 4 ، جون 30 = پاکستان آرمی میں مس نگار جوہر پہلی عورت ہیں جو لفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر فایُز ہُویُں

    جولایُ

    نمبر1، ھولایُ1 = پاکستان نے ویڈیو گیم ” پب جی” پر پابندی لگا دی. کیُ نو جوان اس گیم سے متاثر ہو کر خود کُشی کر چکے تھے.
    نمبر 2 ، جولایُ 23 = پاکستان کی 2020 سمر اولمپکس میں شرکت
    نمر 3، جولایُ 29 = دہشت گردوں کے حملہ میں باجوڑ سکورٹی پوسٹ پر موجود ایک سپاہی شہید ہو گیا

    اگست

    نمبر 1 ، اگست 5 = گلشن اقبال، کراچی میں جماعت اسلامی کی ریلی پر گرنیڈ کے حملے میں 39 افراد زخمی ہوےُ
    نمبر 2 ، اگست 10 = چمن، بلوچستان میں ایک بم حملے میں 5 افراد شہید ہو گیےُ، اور کیُ زخمی ہوےُ.
    نمبر 3، اگست 25 = کراچی میں سیلابوں نے تباہی مچا دی

    ستمبر

    نمبر 1. ستمبر 7 = صوبہ خیبر پختونخواہ کے مہمند ضلع میں واقع ایک ماربل مایُن پر اچانک ایک پہاڑی تودہ گرنے سے کان نیچے بیٹھ گییُ . کان کے اندر کام کرنے والے 18 مزدور جان بہ حق ہو گیےُ. اس کے علاوہ 20 افراد زخمی ہوےُ.
    نمبر 2، ستمبر 10 = وزیر اعظم نے بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانیوں کے لیےُ ” روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ ” کھولنے کا اعلان کیا

    اکتوبر

    نمبر 1 ، اکتوبر 9 = حکومت پاکستان نے مختصر ویڈیو کی حامل ” ٹک ٹاک ” پر پابندی لگا دی. کہ “ٹک ٹاک ” کے ویڈیوذ اخلاق بگاڑنے والے ہیں.
    نمبر 2، اکتوبر 16 = بھاری ہتھیاروں سے لیس دہشت گردوں نے بلوچستان کے علاقہ قلات میں ایک چیک پوسٹ پر حملہ کر کے 7 سپاہیوں اور 7 سیکورٹی گارڈ کو قتل کر دیا.
    نمبر 3، اکتوبر 16 = شمالی وزیرستان کے علاقے میں ایک بم حملے میں 6 فوجی جوان شہید ہو گیےُ.
    نمبر 4 ، اکتوبر 20 = حکومت پاکستان نے 10 دن کے بعد ” ٹک ٹاک ” پر سے پابندی ہٹا لی
    نمبر 5، اکتوبر 21 = کراچی میں واقع ایک اپارٹمنٹ بلڈنگ میں دھماکہ سے 5 افراد جان سے گیےُ، اور 27 زخمی ہوےُ.
    نمبر 6، اکتوبر 27 = پشاور کے ایک سکول میں بم دھماکے میں 8 طالب علم شہید ہو گیےُ
    نمبر 7 ، اکتوبر 28 = فیڈرل بیورو آف ریوینیو ( ایف بی آر ) نے جاز سم کمپنی کے ہیڈ آفس کو سیل کر دیا. جاز نے 2018 میں 20 بلین روپیہ کی ادایُگی نہیں کی تھی

    نومبر

    نمبر 1، نومبر 15 = گلگت بلتستان اسمبلی کے 2020 کے انتخابات

    دسمبر

    نمبر 1، دسمبر 30 = خیبر پختونخواہ کے ضلع کرک کے گاؤں ٹیری میں موجود ہندوؤں کے ایک کرشنا دوارہ نامی مندر پر مسلم آبادی نے حملہ کر کے اُسے آگ لگا دی.

    سن 2021 کے مختصر چیدہ چیدہ واقعات

    صدر پاکستان = عارف علوی
    وزیر اعظم = عمران خاں
    چیف جسٹس = گُلزار احمد
    گورنر بلوچستان = امان اللہ خاں ، 7 جولایُ تک
    گورنر بلوچستان = سید ظہور احمد آغا ، 7 جولایُ سے
    گورنر گلگت بلتستان = راجہ جلال حسین مقپوُن
    گورنر خیبر پختونخواہ = شاہ فرمان
    گورنر پنجاب = چودھری محمد سرور
    گورنر سندھ = عمران اسماعیل

    سن 2021 کے مختصر واقعات

    جنوری

    نمبر 1 ، جنوری 2 = اُسامہ ستُی ( عمر 23 سال ) کو پولیس نے اُس کی کار پر فایُرنگ کر کے اُسے قتل کر دیا
    نمبر 2 ، جنوری 2 = ذاکر الرحمان لکھوی کو لاھور سے گرفتار کر لیا گیا. ان پر دہشت گردوں کی مالی معاونت کا الزام تھا.
    نمبر 3 = دہشت گردوں نے ہزارہ کول مایُنز کے 11 مزدوروں کو اغوا کرنے کے بعد قتل کر دیا.
    نمبر 4 ، جنوری 5 = سپریم کورٹ نے حُکم جاری کیا کہ ٹیری، ضلع کرک میں واقع ہندووں کے مندر ” شری پارم ہنس جی مہاراج سمادھی ” مندر کو حکومت دوبارہ تعمیر کرے. اس مندر کو بلوایُیوں نے پچھلے سال آگ لگا دی تھی
    نمبر 5 ، جنوری 9 = ملک کے 90 فی صد حصہ میں بجلی کی خرابی سے بلیک آؤٹ رہا
    نمبر 6 ، جنوری 11 = دنیا کے 9 ممالک نے پاکستان میں اپنے اپنے سفیر نامزد کیےُ، ان ممالک میں نیپال، بیلارس، ساؤتھ کوریا، کیوبا، مالی، آیُرلینڈ، سیرالیون، کمبوڈیا، کوسو وو شامل ہیں.
    نمبر 6 ، جنوری 12 = خیبر پختونخواہ کے علاقہ کرک میں ایک پولیو ٹیم پر 2 بندوق بردار سہشت گردوں نے فایرنگ کر کے ، پولیو ٹیم کی حفاضت پر مامور پولیس کے ایک سپاہی کو شہید کر دیا.
    نمبر 7، جنوری 28، = ملایُیشیا کی ایک عدالت نے پی آیُ اے کے ایک بویُنگ 777 ہوایُ جہاز کو فوری طور پر چھوڑنے کا حکم دیا. یہ ہوایُ جہاز کوالا لامپور کے ہوایُ اڈے پر ، لیز کے جھگڑے کی وجہ سے 15 جنوری سے ایر پورٹ پر کھڑا تھا
    نمبر 8، فروری 22 = شمالی وزیرستان کے ایک گاؤں ” اپپی ” کے نزدیک موٹر سایُکل پر سوار ایک دہشت گرد نے چار خواتین ایڈ ورکر کو قتل کر دیا

    مارچ

    نمبر 1، مارچ 21 = خیبر پختونخواہ کے ضلع بنوں کے ایک شہر “جانی کھیل ” کے قبرستان میں سے چار لڑکوں کی لاشیں برآمد ہویُیں. جن کی عمریں 13 اور 17 سال کے درمیان تھیں . شہر کے لوگوں نے انصاف کے لیےُ دھرنا دیا. مارچ 28 کو دس ہزار لوگوں نے لڑکوں کی میتیں اُٹھا کر پشاور کی طرف لانگ مارچ شروع کر دیا. ان کا ارادہ اسلام آباد تک جانے کا تھا. صوبہ کے وزیر اعلے محمود خاں اور مظاہرین کے درمیان کامیاب معاہدہ کے بعد حتجاج ختم کر دیا گیا.
    نمبر 2، مارچ 24 = بلوچستان کے شہر چمن میں ایک بم دھماکہ میں 10 آفراد شہید اور 27 زخمی ہو گیےُ

    اپریل

    نمبر 1، اپریل 11 = 1پریل 11 سے 20 اپریل تک تحریک لبیک نے احتجاج کیا کہ فرانس کے سفیر کو اس کے ملک واپس بھیجا جاےُ.
    نمبر 2، اپریل 21 = کویُٹہ کے لگثری ہوٹل ” سیرینا ” کی کار پارکینگ میں کھڑی ایک کار میں بم دھماکہ ہُؤا. جس سے 5 آدمی مارے گیےُ اور 12 زخمی ہوےُ.

    مییُ

    نمبر 1، مییُ 21 = بلوچستان کے شہر چمن میں بم دھماکے سے کیُ آدمی جان سے گیےُ

    جون

    نمبر 1 ، جون 7 = سورج نکلنے سے پہلے ڈہرکی، ضلع گھوٹکی کے نزدیک دو گاڑیوں میں تصادم ہُؤا. حادثہ میں 65 افراد مارے گیےُ ، اور 150 زخمی ہوےُ
    نمبر 2 ، جون 23 = جوہر ٹاؤن، لاہور میں ایک کار میں بم دھماکے میں 3 افراد جان سے گیےُ اور 21 زخمی ہوُےُ

    جولایُ

    نمبر 1، جولایُ 14 = ا پر کوہستان کے علاقے میں ایک بس  پر دہشت گردوں نے حملہ کر دیا، بس میں چینی ورکر کام پر جا رہے تھے. بس ایک گہری کھایُ میں جا گری. حادچہ میں 9 چینی اور 4 پاکستانی ورکر جان سے گیےُ. 28 آدمی زخمی ہوےُ
    نمبر 2، جولایُ 21= باجوڑ میں عید الاضحے کے موقع پر راغاگان ڈیم میں 3 کشتیاں ڈوب گییُں. 4 آدمی مر گیےُ، 21 لاپتہ ہیں
    نمبر 3 ، جولایُ 25 = آزاد جموں اینڈ کشمیر میں 2021 کے عام انتخابات ہوےُ
    نمبر 4 ، جولایُ 28 = باشوں سے اسلام آباد میں سیلاب

    اگست

    نمبر 1، اگست 8 = پاکستان کی اسلامک سالیڈیرٹی گیمز میں شرکت
    نمبر 2، اگست 9 = کویُٹہ میں دو بم دھماکوں میں 2 پولیس اہلکار شہید اور دیگر 21 افراد زخمی ہو ےُ
    نمبر 3، اگست 12 = پاکستان آردیننس فیکٹری واہ میں بم دھماکہ میں 3 ورکر شہید اور 2 زخمی ہوےُ
    نمبر 4 ، اگست 14 = یوم آزادی کے دن ایک گرنیڈ حملے میں 6 خواتین اور 3 بچوں سمیت 14 افراد شہید ہوےُ
    نمبر 5، اگست 20 = خود کش حملہ آور نے ایک بس کو نشانہ بنایا، جس میں گووادر ایسٹ بے ایکسپریس وے پروجیکٹ پر کام کرنے والے چینی باشندے سوار تھے. حملے میں 3 بچے جان سے گیےُ اور 3 زخمی ہوےُ
    نمبر 6، اگست 26 = بلوچستان کے زیارت اور پنج گور کے اضلاع میں دہشت گردوں کے حملوں میں 4 سیکورٹی گارڈ قتل اور 6 زخمی ہوےُ

    ستمبر

    نمبر 1، ستمبر 5 = ایک موٹر سایُکل سوار دہشت گرد نے مستونگ روڈ کویُٹہ پر ایک چیک پوسٹ پر فایُرنگ سے ایف سی کے 4 جوان شہید اور 20 کو زخمی کر دیا

    اکتوبر

    نمبر 1، اکتوبر 7 = نلوچستان کے شہر ہرنایُ کے قریب 5.9 کی شدت کا زلزلہ آیا، بیالیس آفراد مارے گیےُ اور 300 زخمی ہوےُ

    نومبر

    نمبر1 ، نومبر 3 = آزاد کشمیر سے ایک 40 سیٹر بس میں 30 سے زیادہ آدمی راولپینڈی جا رہے تھے کہ پاکندری کے قریب بس ایک گہری کھایُ میں جا گری. 23 آدمی جان سے گیےُ اور 7 زخمی ہوےُ
    نمبر 2، نومبر 8 = ویسٹ انڈیز کی عورتوں کی کرکٹ ٹیم 2022 تک پاکستان میں کرکٹ کھیلے گی

    دسمبر

    نمبر 1، دسمبر 17 = اسلامک سمٹ کانفرنس کے آٹھ سے زیادہ سیشن ہوےُ

    نمبر 2، دسمبر 19 = خیبرپختونخواہ میں 2021 کے لوکل الیکشن کا انعقاد

    source: en.wikipedia.org

  • روشن چہرہ ، قسط 6 –  Bright Face, part 6

    روشن چہرہ ، قسط 6 – Bright Face, part 6

     6   روشن چہرہ، قسط

    Bright Face, part 6

    Bright Face, part 6

    روشن چہرہ، قسط نمبر 5 میں سن 2015 عیسوی تک کے حالات مختصرآ بیان کیےُ گیےُ تھے. اس دفعہ سن 2016 سے 2018 عیسوی تک کے حالات پر مختصرآ نظر ڈالی جاےُ گی. سن 2010 سے سن 2020 تک ملک پر بڑے بھاری گزرے. تحریک طالبان پاکستان نے بہت سے پاکستانیوں کی جانیں لے لیں. اسی دوران ایک اناڑی نے ایک نییُ سیاسی پارٹی کی بنیاد رکھی، جس نے ملک کا اخلاقی کلچر بگاڑ کر رکھ دیا. پارٹی کے سربراہ نے ملک کی باگ ڈور سنبھال لی. رشوت کے نیےُ طریقے دریافت ہو گیےُ. ملک میں ابتری پھیل گییُ. مقبوضہ کشمیر پر انڈیا نے قبضہ کر لیا.

    عنوانات

    سن 2016 عیسوی کے مختصرآ واقعات؛
    سن 2017 عیسوی کے مختصرآ واقعات
    سن 2018 کے مختصر واقعات

    سن 2016 کے مختصرآ واقعات

    صدر پاکستان = جناب ممنون حسین، ستمبر 9، 2013 سے ستمبر 9، 2018 تک.
    وزیر اعظم = نواز شریف، جون 5، 2013 سے جولایُ 28 ، 2017 تک.
    چیف جسٹس = انور ظہیر جمالی، ستمبر 10، 2015 سے دسمبر30، 2016 تک
    چیف جسٹس = میاں ثاقب نثار ، دسمبر 31 ، 2016 سے
    گورنر    بلوچستان     = محمد خاں اچکزیُ
    گورنر گلگت بلتستان = میر غظنفر علی خاں
    گورنر خیبر پختونخواہ = مہتاب آحمد خاں عباسی ، فروری 25 تک
    گورنر خیبر پختونخواہ = اقبال ظفر جھگڑا، فروری 25 سے
    گورنر پنجاب = ملک محمد رفیق رجوانہ
    گورنر سندھ = سعید الزمان صدیقی، نومبر 11 سے

    مختصر واقعات:

    جنوری
    نمبر 1 = پاکستان اور انڈیا کی حکومتوں نے ایک دوسرے کو ، 1988 کے معاہدے کے تحت  نیو کلیر مقامات کی فہرستیں مہیا کیں
    نمبر 2 = جنوری 13 کو کویُٹہ کے نزدیک ایک پولیو مرکز پر بم کے حملے میں 14 افراد شہید اور 20 ذخمی ہوےُ
    نمبر 3 = جنوری 17، سویُتزر لینڈ نے برہمنداغ بُگٹی کی سیاسی پناہ کی درخواست نا منظور کر دی. وہ وہاں 2010 سے رہایُش پذیر تھے
    نمبر 4 = جنوری 18، پرویز مشرف کو قبایُلی سردار اکبر بُگٹی کے قتل کے مقدمے میں بری کر دیا گیا. اکبر بُگٹی ایک فوجی حملے میں سن 2006 میں مارے گیےُ تھے
    نمبر 5 = چارسدہ میں قایُم ایک یونیورسٹی پر ایک بندوق بردار شخص نے فایُرنگ کر کے 21 اشخاص کو قتل کر دیا

    مارچ

    نمبر 1 = مارچ 16، پشاور میں ایک بم بلاست میں 15 لوگ مارے گیےُ
    پاکستان نے بنگلہ دیش کو آیُ سی سی ورلد ٹی 20 ، 2016 کے پہلے
    مقابلے میں شکست دی
    نمبر 2 = مارچ 25، کرکٹ کے پاکستانی کھلاڑی شاہد خاں آفریدی نے ٹی 20 کا آخری میچ آسٹریلیا کے خلاف کھیلا. جس میں آسٹریلیا 21 رنز سے جیت گیا
    نمبر 3 = مارچ 27، لاہور میں بم کے حملے میں 72 لوگ جان سے گیےُ

    اپریل

    نمبر 1 =اپریل 20، پولیو ٹیم کی حفاظت پر مامور پولیس کے سات جوان مارے گیےُ
    نمبر 2 = پنجاب میں زہریلی مٹھایُ کھانے سے 33 آدمی جان سے گیےُ. مٹھایُ پر غلطی سے کیڑے مار دوایُ کا سپرے کیا گیا تھا

    جون

    نمبر 1= قوال امجد صابری کو قتل کر دیا گیا

    اکتوبر

    پاکستان میں طوفانی بارشوں اور سیلابوں نے تباہی مچا دی.

    نومبر

    نمبر 1 ، نومبر 1، گڈانی کے شپ بریکنگ یارڈ میں ایک آیُل ٹینکر کے اوپری حصہ ہر ایک گیس سلنڈر پھٹنے سے آگ بھڑک اٹھی جس نے سارے یارڈ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا. جس سے 14 آدمی مرنے کے ساتھ ساتھ 59 اشخاص جل گیےُ
    نمبر 2= نومبر 3، جمعہ گوٹھ کراچی پر کھڑی ایک ٹرین سے بہاؤالدین ذکریا ایکپریس ٹرین کی ٹکر سے 22 لوگ مارے گیےُ اور 65 زخمی ہوےُ

    دسمبر

    نمبر 1 = دسمبر 7. پی آیُ اے کی پرواز پی کے 661 ، پرواز کے دوران حادثے کا شکار ہو گییُ. جنید جمشید ( مشہور سنگر اور پھر نعت خواں) اور اس کی بیوی سمیت 47 اشخاص جان سے گیےُ

    پچھلے دو تین سالوں کی بہ نسبت اس سال طالبان کے حملوں میں کمی آیُ.

    سن 2017 کے مختصرآ واقعات؛

    صدر پاکستان = ممنون حسین – ستمبر 9 ،2013 – ستمبر 9، 2018
    وزیر اعظم        = نواز شریف ، جون 5، 2013 – جولایُ 28، 2017
    وزیر اعظم = شاہد خاقان عباسی، اگست 1، 2017 سے
    چیف جسٹس = ثاقب نثار ، دسمبر 31، 2016 سے
    گورنر بلوچستان = محمد خاں اچکزیُ
    گورنر گلگت-بلتستان = ًمیر غظنفر علی خاں
    گورنر خیبر پختونخواہ = اقبال ظفر جھگڑا
    گورنر پنجاب = ملک محمد رفیق راجوانہ
    گورنر سندھ = سعید الزمزں صدیقی – فروری 8 تک
    گورنر سندھ = محمد زبیر ، فروری 8 سے

    مختصر واقعات؛
    جنوری

    نمبر 1 = جنوری 21، پاراچنار کی سبزی منڈی میں بم کے حملے میں 25 اشخاص مارے گیےُ.

    فروری

    نمبر 1 = فروری 9، پاکستان سپر لیگ کا دوسرا مرحلہ شروع ہُؤا
    نمبر 2=، فروری 16، لعل شہباز قلندر کے مزار پر سیہوان میں بم دھماکے میں 90 ذایُرین شہید ہو گیےُ

    مارچ

    نمبر 1 ، مارچ 5، پاکستان سپر لیگ کا دوسرا مرحلہ اختتام پذیر ہُوا
    نمبر 2 = مارچ 14، پاکستان کی چھٹی مردم شماریشروع ہُویُ

    جون

    نمبر 1 = جون 18-1 ، پاکستان نےانڈیا کو ہرا کر آیُ سی سی چیمپین ٹرافی 2017 جیت لی
    نمبر 2 = جون 23، کویُٹہ اور پاراچنار میں بم دھماکوں سے 90 لوگ شہید ہو گیےُ

    جولایُ

    نمبر 1= جولایُ 28، سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک متفقہ فیصلے میں ملک کے وزیر اعظم نواز شریف اور اس کے چند فیملی ممبران کو پانامہ پیپرز میں ملوث پایا. اور انہیں وزارت عظمے سے مستعفی ہونے کا کہا.

    اگست

    نمبر1 = اگست 1، شاہد خاقان عباسی نے نواز شریف کے مستعفی ہونے کے بعد پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اُٹھایا.
    نمبر 2 = اگست 31، بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات مکمل ہُویُں

    نومبر

    نمبر 1= نومبر 27-5 ، تحریک لبیک نے خادم حسین رضوی کی سربراہی میں اسلام آباد کے فیض آباد چوک میں دھرنا دیا. ان کا مطالبہ تھا کہ پارلیمنٹیرین کے حلف میں پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو آخری نبی ماننے کے عقیدے کو شامل کیا جاےُ. اور فیڈرل منسٹر براےُ قانون اور انصاف زاہد حمید اپنے عہدے سے مستعفی ہو جایُیں. زاہد حمید نومبر 27 کو مستعفی ہو گیےُ

    دسمبر

    نمبر 1= دسمبر 17، دو بمبار اشخاص نے کویُٹہ کی ایک چرچ میں حملہ کیا. جس میں 9 افراد جان سے گیےُ، اور 57 زخمی ہُوےُ

    سن 2018 کے مختصر واقعات

    صدر پاکستان = جناب ممنون حسین = ستمبر 2013 – ستمبر 2018 تک
    صدر پاکستان = عارف علوی ، ستمبر 2018 سے
    وزیر اعظم = شاہد خاقان عباسی – اگست 2017 تا میُ 2018.
    وزیر اعظم = ناصر الملک – میُ 2018 تا اگست 2018
    وزیر اعظم = عمران خان = اگست 2018 تا اپریل 2022
    چیف جسٹس = ثاقب نثار، دسمبر 31 ، 2016 سے جنوری 17، 2019 تک
    گورنر بلوچستان = محمد خاں اچکزیُ – اکتوبر 4 تک
    گورنر بلوچستان = امان اللہ خاں یوسف زیُ، اکتوبر 4 سے
    گورنر گلگت بلتستان = میر غظنفر علی خاں – ستمبر 14 تک
    گورنر گلگت بلتستان = راجہ جلال حسین مقپون، ستمبر 14 سے
    گورنر خیبر پختونخواہ = اقبال ظفر جھگڑا – اگست 20 تک
    گورنر خیبر پختونخواہ    = مشتاق احمد غنی، اگست 20 تا ستمبر 5
    گورنر خیبرپختونخواہ = شاہ فرمان، ستمبر 5 سے
    گورنر پنجاب = ملک محمد رفیق رجوانہ ، اگست 18 تک
    گورنر پنجاب = چودھری پرویز الہی – اگست 18 تا ستمبر 5
    گورنر پنجاب = چودھری محمد سرور- ستمبر 5 سے.
    گورنر سندھ = محمد زبیر – جولایُ 29 تک
    گورنر سندھ = عمران اسماعیل ، اگست 27 سے

    سن 2018 کے مختصر واقعات ؛

    جنوری

    نمبر 1= جنوری 3، پاکستانی کرکٹ ٹیم سن 2017 سے نیوزی لینڈ میں ہے.
    نمبر 2 = جنوری 13، کراچی کے سینیر سپرٹینڈنٹ پولیس ، راؤ انوار نے پولیس کی زیر نگرانی ایک جعلی پولیس مقابلے میں ایک شخص نقیب اللہ محسود کو جان سے مار دیا. ملک بھر میں عدالتی مقدمہ کے بغیر قتل کے خلاف زبردست احتجاج کیا گیا. پشتون تحفظ موومنٹ نے جناب منظور پشتین کی زیر نگرانی نقیب اللہ کے قتل کے متعلق انصاف دلانی کی مہم شروع کی

    فروری

    نمبر 1 = فروری 25-9 ، پاکستان کی 2018 ونٹر اولمپک میں شرکت
    نمبر 2 = فروری 22، پاکستان سپر لیگ 2018 شروع

    مارچ

    نمبر 1 = مارچ 3 ، پاکستان میں 2018 کے لیےُ سینٹ کے الیکشن ہوےُ

    اپریل

    نمبر 1، کامن ویلتھ گیمز 2018 میں پاکستان کی شرکت
    نمبر 2، اپریل 25، پاکستان کپ 2018 کا انعقاد

    میُ

    نمبر 1 ، میُ 27-24، ملک کی پارلیمنٹ نے ملکی آیُین میں پچیسویں ترمیم منظور کی. یہ ترمیم صوبہ پختونخواہ کی صوبایُ اسمبلی نے بھی منظور کی. اس ترمیم کے بعد قبایُلی علاقہ ( فاٹا) صوبہ خیبر پختونخواہ کا حصہ بن گیا

    جون

    نمر 1 = جون 3 ، پاکستان کی 2018 وومن ٹوینٹی 20 ، ایشیا کپ میں شرکت

    جولایُ

    نمبر 1 = جولایُ 6 ، ملک کے سابق وزیر اعظم جناب نواز شریف، اس کی بیٹی محترمہ مریم نواز اور نواز شریف کے داماد صفدر اعوان کو باتترتیب 10، 7 اور 1 سال کی قید کی سزا ہویُ. ان پر کرپشن کا الزام تھا.
    نمبر 2 = جولایُ 10 ، پشاور میں عوامی نیشنل پارٹی کی ریلی میں بم کے حملے میں 27 آدمی جان سے گیےُ.
    نمبر 3 = جولایُ 13 ، بنوں اور مستوگ میں دو الگ الگ بم حملے میں 5 اور 131 افراد شہید ہو گیےِ ایک بم حملہ خیبر پختونخواہ کے سابق وزیر اعلے جناب اکرم دُررانی کی گاڑی کو نشانہ بنانے ، اور دوسرا بم حملہ بلوچستان عوامی پارٹی کی ریلی پر کیا گیا.
    نمبر 4 = جولایُ 25 ، پاکستان میں 2018 کے عام انتخابات منعقد ہوےُ
    صوبایُ اسمبلیوں کے انتخابات ہوےُ
    کویُٹہ کے ایک پولنگ سٹیشن پر بم حملے میں 31 اشخاص جان سے گیے
    اگست

    نمبر 5 = اگست 14 ، یوم آزادی
    نمبر 6 – اگست 17، عمران خان نے بہ طور وزیر اعظم پاکستان حلف اُٹھایا
    نمبر 7 = اگست 18، پاکستان نے 2018 ایشین گیمز میں شرکت کی

    ستمبر
    نمبر 1، ستمبر 4 ، صدر پاکستان کو منتخب کرنے کے لیےُ الیکشن ہوےُ.

    اکتوبر

    نمبر 1 = اکتوبر 11، سکھر کے علاقہ میں ایک مکان کی دیوار گرنے سے 8 بچے جان بحق ہو گیےُ. تین بچے زخمی ہوےُ.
    نمبر 2 = اکتوبر 14، ملک میں ضمنی انتخبات ہوےُ
    نمبر 3= اکتوبر 31، سپریم کورٹ آف پاکستان نے آسیہ بی بی کے خلاف توہین رسالت کا کیس مناسب گواہی نہ ہونے کی بنا پر خارج کر دیا

    نومبر

    نمبر1 = نویمبر 23، پولیس نے چایُنیز کونسلیٹ ، کراچی پر ایک مسلح حملہ پسپا کر دیا. دو آدمی جان سے گیےُ
    نمبر 2 = اسی دن خیبر پختونخواہ کے علاقہ ضلع اورز کایُ میں بم حملے میں 33 آفراد شہید ہو گیےُ

    دسمبر

    نمبر 1، سابق وزیر اعظم جناب نواز شریف کو 7 سال کے لیےُ جیل میں ڈال دیا گیا

    source ; Wikipedia

  • روشن چہرہ قسط 5  –  Bright face, Part 5

    روشن چہرہ قسط 5 – Bright face, Part 5

    روشن چہرہ، قسط 5

    Bright face, part 5

     

    Bright face, part 5

    روشن چہرہ، قسط 4 سال 2013 عیسوی تک کے حالات پر مشتمل تھا. روشن چہرہ ، قسط 5 میں سن 2014 سے لے کر سن 2015 عیسوی تک کے حالات پر مختصرآ نظر ڈالیں گے. یہ حالات ہمیں اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے اور انہیں آیُندہ نہ دُہرانے کا راستہ بھی دکھاییُں گے، اگر ہم اپنے وطن سے مخلص اور اسے ترقی دینے کے خواہش مند ہیں. اپنے ملک کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پرچلتے دیکھنا چاہتے ہیں ، تو ہمیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ہم اپنے ملک کے لیےُ ہر قربانی دینے کو تیار ہیں. دنیا کے بعض ممالک کو ایٹمی پاکستان بہت کھٹکتا ہے. اور اسے کمزور کرنے کے لیےُ انہوں نے اپنے ایجنٹ ہمارے ملک میں پھیلا رکھے ہیں، یہ ایجنٹ عوام کو گمراہ کرنے کے لیےُ جھوٹ بول کر عوام کو گمراہ کر رہے ہیں. سوشل میڈیا پر بے بنیاد زہریلا پراپوگنڈہ کے ذریعے عوام کو پاکستان کے خلاف اُبھارنے کی کوشش کر رہے ہیں. پراپوگنڈا کے لیےُ یہ لوگ فیک آیُ ڈی استعمال کرتے ہیں. ان سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے

    عنوانات

    سن 2014 عیسوی کے واقعات

    صدر پاکستان = ممنون حسین
    ؤزیر اعظم = نواز شریف.
    گورنر بلوچستان = محمد خاں اچکزیُ
    ” گلگت بلتستان = پیر کرم علی شاہ
    ” خیبر پختونخواہ = شوکت اللہ خاں
    پنجاب = محمد سرور
    سندھ = عشرت العباد خاں

    واقعات

    نمبر 1= جنوری 1، ایران سے آنے والے زایُرین کی ایک بس کے قریب ، اختر آباد کویُٹہ کے    علاقہ میں ایک بم دھماکہ ہُؤا. بس میں سوار 50 زایُرین میں سے 3 موقع پر دم توڑ گیےُ، اور 24 زخمی ہوےُ
    نمبر 2= جنوری 6، خیبر ایجنسی میں ایک مکان میں دھماکہ سے 10 افراد مارے گیے، اور 9 زخمی ہوےُ
    نمبر 3 جنوری 9 ، شمالی پاکستان میں واقع ایک سکول میں ، جب کہ تمام طالب علم مارننگ اسمبلی کے لیےُ ایک جگہ جمع تھے،مسلح افراد نے حملہ کر دیا. ایک خود کش حملہ آور کو ایک طالب علم اعتزاز حسن نے سکول کے گیٹ پر روک لیا. اس جدوجہد میں بم پھٹ گیا، اوراعتزاز حسن شہید ہو گیا. سکول کے باقی بچے محفوظ رہے. اس حملہ کی ذمہ داری ” لشکر جھنگوی ” نے قبول کی.
    نمبر 4. جنوری 19، بنوں میں ایک ملٹری دستے پر بموں سے حملہ میں 20 فوجی جوان شہید ہُوےُ.
    نمبر 5. جنوری 20 ، پاکیستانی فوج کے جہازوں نے شمالی وزیرستان میں چھُپے جنگ جو طالبان پر حملہ کیا . 25 جنگ جو مارے گیےُ
    نمبر 6 . مارچ 31 ، ایک پاکستانی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف پر 2007 میں ایمرجینسی لگانے پر سنگین الزام لگایا.
    نمبر 7 . اپریل 3 ، سابق صدر پرویز مشرف ایک جان لیوا حملے بال بال بچے
    نمبر 8 . اپریل 11 ، تحریک طالبان پاکستان کے دو مخالف گروہوں کی لڑایُ میں ، جو وزیرستان میں ہویُ، 12 طالبان مارے گیےُ
    نمبر 9 ، مییُ 9 ، حکومت نے جیو ٹی وی ٹرانسمیشن پر پابندی لگا دی.
    نمبر 10، میُ 28 ، تحریک طالبان کا ایک لیڈر” عاشق اللہ ًمحسود ” تحریک سے علیحدہ ہو گیا. اس کا کہنا تھا کہ تحریک طالبان جو کچھ کر رہی ہے ، وہ اسلام کے خلاف ہے
    نمب 11 . جون 6 ، تحریک طالبان پاکستان سے علیحدہ ہونے والے لیڈر عاشق اللہ محسود کو کسی نے شمالی وزیرستان کے گاؤں عُر مز میں قتل کر دیا
    نمبر 12 . اگست 13، پی ٹی آیُ اور پی ٹی اے نے اپنا ” لانگ مارچ ” لاہور تا اسلام آباد شروع کیا
    نمبر 13 . جون 8 ، بندوق بردار بلوایُوں نے کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایُر پورٹ پر حملہ کر دیا. 13 آدمی مارے گیےُ. آنے جانے والی تمام پروازیں بند کر دی گییُں
    نمبر 14. جون 9 ، کراچی کے جناح انٹر نیشنل ایُر پورٹ کو ہوایُ جہازوں کی آمد و رفت کے لیےُ کھول دیا گیا. کل کے حملے میں مزید 8 زخمی انتقال کر گیےُ. تحریک طالبان پاکستان نے حملہ کی ذمہ داری قبول کر لی
    نمبر 15. جون 10 ، کراچی ایُر پورٹ پر حملے کے جواب میں پاکستان ایُر فورس نے تیراہ ریجن میں طالبان کے ٹھکانوں پر بم باری کر کے 15 طالبان کو جہنم رسید کیا
    نمبر 16. جون 11 ، پاکستان کے فوجی جہازوں کی طالبان کے تیراہ ، خیبر ایجنسی میں واقع ٹھکانوں پر بمباری کے نتیجے میں 25 طالباب مارے گیےُ، اور15 زخمی ہوےُ.
    نمبر 17. جون 15 ، سال 2014 میں جناح انٹرنیشنل ایُر پورٹ پر حملہ کے ماسٹر مایُنڈ ابو عبدالرحمان المانی پاکستان ایُر فورس کے فضایُ حملوں میں مارا گیا
    نمبر 18 ، اگست 13 ، طاہر القادری اور پی ٹی آیُ کا مشترکہ لانگ مارچ ، لاہور تا اسلام آباد شروع ہُؤا. اس لانگ مارچ میں ظاہر القادری نے اپنی قبر کھد وایُ، کہ اس کے مطالبات نہ مانے گیےُ تو وہ یہیں مر جاےُ گا، اور اُسے اسی قبر میں دفن کیا جاےُ. قادری صاحب تو اب تک کینیڈا میں ہیں ، اور ان کی کھد وایُ ہویُ قبر ان کا انتظار کر رہی ہے
    نمبر 19 ، اگست 16، پی ٹی اے اور پی ٹی آیُ کا دھرنا پارلیمنٹ کے سامنے شروع ہو گیا
    نمبر 20 . ستمبر 4 ، پاکستان میں مون سون کی بارشوں سے 40 افراد جان سے گیےُ. سیلابوں نے 205 آدمیوں کی جان لے لی
    نمبر 21. اکتوبر 10، ملالہ یوسف زیُ کو “لڑکیوں کو تعلیم دو” کے لیےُ جد و جہد پر نوبل پیس پرایُز دیا گیا
    نمبر 22 ، دسمبر 16، فوج کے زیر انتظام آرمی پبلک سکول پشاور پر 7 مسلح ظالبان نےحھملہ کر کے 132 بچوں ، سکول کے عملے کے 9 افراد سمیت 141 افراد کو شہید کر دیا. تمام حملہ آور مارے گیےُ. یہ حادثہ ایسا تھا جو پورے ملک کو سوگوار کر گیا
    نمبر 23 ، دسمبر 17، پی ٹی آیُ نے اپنا 126 روزہ دھرنا ختم کر دیا. یہ دھرنا ایسے وقت دیا گیا تھا جب چین کے صدر نے پاکستان کا دورہ کرنا تھا، جس میں پاکستان کو ترقی دینے کے کیُ منصوبوں پر دستخط ہونے تھے. اس دھرنے کی وجہ سے چین کے صدر نے اپنا دورہ پاکستان ملتوی کر دیا. اس طرح پی ٹی آیُ کا ملک کو ترقی کا موقع نہ دینے کا مذموم مقصد پورا ہو گیا

    source: en.wikipedia.org

    سال 2015 عیسوی کے واقعات

    صدر پاکستان = ممنون حسین
    وزیر اعظم = نواز شریف

    واقعات

    نمبر 1= جنوری  4   = پاکستان ایر فورس کے طیاروں نے خیبر ایجنسی میں طالبان     ٹھکانوں پر حملہ کر کے 31 جنگ جُوؤں کا خاتمہ کر دیا
    نمبر 2 ، امریکہ کے ہوایُ حملہ میں 8 اُزبُک جوان مارے گیےُ. امریکہ کا کہنا تھا کہ یہ جوان القایُدہ کے ساتھ اس کی لڑایُ میں مارے گیےُ
    نمبر 3 ، جنوری 10 = ایک مسافر کوچ جو کراچی سے شکارپور جا رہی تھی، وہ پاکستان نیشنل ہایُ وے لنک روڈ نزد گلشن حدید کراچی کے نزدیک ایک آیُل ٹینکر سے ٹکرا گیُ. حادثہ کے بعد مسافر کوچ اور آیُل ٹینکر میں آگ لگ گیُ.اس حادثہ میں 57 افراد جان سے گییےُ، کیُ زخمی ہوےُ.
    نمبر 4، جنوری 25 = ملک کے 80 فی صد حصے میں بجلی کے بریک ڈاؤن کی وجہ سے اندھیرا رہا.
    نمبر 5 ، فروری 7 = بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں آگ لگنے کے مقدمہ میں اس وقت ڈرامایُ صورت حال پیدا ہو گیُ ، جب رینجرز نے سندھ ہایُ کورٹ میں ایک رپورٹ جمع کرایُ کہ فیکٹری میں آگ لگنے کے پیچھے متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کا ہاتھ تھا. یاد رہے کہ مذکورہ فیکٹری میں آگ سے 258 ورکر زندہ جل گیےُ تھے
    نمبر 6 ، فروری 13 =پاکستان نے اعلان کیا کہ اس نے تحریک طالبان کے 12 افراد کو گرفتار کیا ہے ، جو گزشتہ برس 16 دسمبر کو آرمی پبلک سکول ، پشاور میں بچوں کو شہید کرنے میں ملوث تھے.
    نمبر 7 ، مارچ 14 = ایک لیڈی ماڈل ایان علی کو بے نظیر انڑنیشنل ایُر پورٹ پر ایُر پورٹ سیکورٹی نے گرفتار کر لیا ، اس سے 505،800 امریکی ڈالر بر آمد ہوےُ، جنہیں اس نے ڈیکلیُر نہیں کیا تھا.. ایان علی کی ضمانت گرفتاری کے 122 دن بعد ہویُ.
    نمبر8 ، مارچ 19 =سزاےُ موت کے قیدی صولت مرزا نے پھانسی دیےُ جانے سے قبل ایک ویڈیو میں بیان دیا کہ اُسے متحدہ قومی موو منٹ کی لیڈرشپ نے سیاسی پیادے کے طور پر استعمال کیا. صولت مرزا نے 5 جولایُ 1997 کو شاہد حمید، منیجنگ ڈایُرکٹر کے ای ایس سی ، اس کے ڈرایُور اور ایک گارڈ کو قتل کر دیا تھا. صولت مرزا کو پھانسی کی سزا ہویُ
    نمبر 9 ، اپریل 14 = ایم قیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کو لندن پولیس نے حراست میں لے لیا. اس پر منی لانڈرنگ کا الزام لگایا. اسے کے پیرو کاروں نے کراچی میں احتجاج کے بعد دھرنا دیا. برٹش ہایُ کمیشن کے ترجمان نے کہا کہ کراچی میں برطانیہ کونسلیٹ کا دفتر عارضی طور پر بند کر دیا گیا ہے. وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ الطاف حسین کی گرفتاری ایک حساس معاملہ ہے. اور حکومت اس معاملے میں تمام قانونی ذرایُع پر نظر رکھے گی.
    نمبر 10، میُ 19 = زمبابوے کی کرکٹ ٹیم پاکستان میں کرکٹ کھیلنے آیُ. یہ پاکستان میں ٹیسٹ میچ کھیلنے والی پہلی بین الاقوامی کرکٹ ٹیم تھی جو 2009 میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے کے بعد پاکستان میں کھیلنے آیُ
    ، میُ 22 = زمبابوے اور پاکستان کرکٹ ٹیموں کا پہلا ٹی-20 میچ قذافی سٹیڈیم میں کھیلا گیا. جسے 60 ہزار تماشیوں نے دیکھا
    نمبر 11، اگست 14 = پاکستان کا 69 واں یوم آزادی منایا گیا
    نمبر 12 ، اگست 22 = پنجاب الیکشن تریبیونل نے قومی اسمبلی حلقہ نمبر این اے 122 مین دوبارہ الیکشن کروانے کا فیصلہ دیا.
    نمبر 13، ستمبر 6 = پاکستانیوں نےیوم دفاع منایا
    نمبر 14، ستمبر 7 = سردار ایاز صادق، سابقہ سپیکر قومی اسمبلی او مسلم لیگ (ن) کے لیڈر نے پاکستان سپریم کورٹ میں الیکشن ٹریبیونل کے حلقہ نمبر این اے 122کے فیصلہ کے خلاف اپیل دایُر کی
    نمبر 15 ، اکتوبر 11 = پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سردار ایاز صادق نے قومی اسمبلی کےحلقہ نمبر 122 کے دوبارہ الیکشن میں پی ٹی آیُ کے امیدوار عبدالعلیم خان کو ہرا کر میدان مار لیا
    نمبر 16، اکتوبر 30 = عمران خان نے اپنی بیوی ریحام کو طلاق دے دی. ان کی سنگت صرف دس ماہ رھی
    نمبر 17 ،دسمبر 25 = اندین وزیر اعطم نریندرا مودی نے نواز شریف ، وزیر اعطم پاکستان سے لاہور میں ملاقات کی.
    نمبر 18 ، دسمبر30 = ایف آیُ اے نے سابقہ پاکستانی وزیر اعطم شوکت عزیز کو ملک سے غداری کے الزام میں بلا لیا

    مندرجہ بال عرصہ کے دوران انسانی زندگی بڑی سستی دکھایُ دے رہی ہے. میں نے قتل و غارت کے سارے واقعات نہیں لکھے. اللہ تعالے ہم سب پر رحم  .کرے

    source = en.wikipedia.org

  • روشن چہرہ، قسط -4   Bright Face,  Part – 4

    روشن چہرہ، قسط -4 Bright Face, Part – 4

    روشن چہرہ، قسط 4
    Bright Face , Part 4

    روشن چہرہ، قسط 4

    Bright Face, Part-4

    بے نظیر قتل کے بعد  مشرف کے خلاف عوامی جذبات انتہا تک پہنچ ھیےُ. پی پی پی کو اس قتل کا بہت فایۃدہ ہؤا. لوگوں کی ہمدردیان ان کے ساتھ ہو گییُں. 2008 کے الیکشن میں پی پی پی نے میدان مار لیا.مشرف کے استعفے کے بعد آصف علی زرداری ملک کے صدر منتخب ہوےُ. ان کی صدارت میں کیُ اہم آیُنی ترامیم منظور ہویُں.      اس  سے پہلے عرصہ کے حالات جاننے کے لیےُ دیکھیےُ ” روشن چہرہ، قسط

    عنوانات

    صدارتی انتخاب 2008
    زرداری دور صدارت
    عام انخابات 2013
    صدارتی انتخاب 2013
    واقعات 2013

    صدارتی انخاب 2008

    پرویز مشرف کے استعفے کے بعد صدارتی انتخاب ستمبر 2008 میں ہُوےُ. 9 ستمبر 2008 کو آصف علی زرداری ملک کے صدر منتخب ہُوےُ. ان کے دور صدارت میں کیُ اہم  فیصلے ہُوےُ. اور کیُ متنازعہ آیُینی دفعات  کو نیُ جہت ملی.

     

    زرداری دور صدارت

    زرداری کےدور صدارت میں واقع ہونے والے کچھ واقعات یہ ہیں.

    نمبر 1 = ستمبر 16، 2008 کو مشرف کا بنایا ہُؤا این آر او منسوخ کر دیا گیا.

    نمبر 2= مارچ 9، 2008 کو ملازمت پیشہ خواتین کی ہراست روکنے کا بل منظور کیا گیا.

    نمبر 3= قومی ا سمبلی نے 8 اپریل ، 2010 کو اٹھارویں ترمیم منظور کی. جس سے آیُین کی دفعہ 58 بی 2 کے تحت صدر کا قومی اسمبلی توڑنے کا اختیار ختم ہو گیا. اسی ترمیم کے تحت شمال مغربی سرحدی صوبہ کا نام تبدیل کر کے خیبر پختونخواہ رکھا گیا.

    نمبر 4= مسٹر سلمان تاثیر ، گورنر پنجاب کو ان کے سیکورٹی گارڈ نے 4 جنوری 2011 کو گولیاں مار کر قتل کر دیا.

    نمبر 5 = میُ 5، 2011 کو القایُدہ چیف اسامہ بن لادن کو امریکی فوجیوں نے ایبٹ آباد میں واقع ان کے مکان پر حملہ کرکے انہیں گولیاں مار کر قتل کر دیا.

    نمبر 6 = نومبر 26، 2011 کو نیٹو کے فوجیوں نے پاک فوج کے 25 افراد کو ہلاک کر دیا. الزام لگایا کہ پاکستان نے افغانستان جانے کے لیےُ نیٹو سامان کی ترسیل کا راستہ بند کر دیا ہے. امریکی سیکریٹری آف سٹیٹ ہلاری کلنٹن نے جولایُ 2012 میں فوجیوں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیا. اس کے بعد راستہ کھول دیا گیا.

    نمبر 7 = جنوری 15، 2013 کو کویُٹہ میں ہزارہ برادری کے 100 افراد بم کے حملوں میں مارے گیےُ.

    نمبر 8 = جنوری 15، 2013 کو حکومت نے بجلی پیدا کرنے والے پاور سٹیشنوں کو کرایہ پر لینے کے معاملے میں ان تمام افراد کو گرفتار کر لیا، جن پر رینٹل پاور مہیا کرنے والوں سے رشوت لینے کا الزام تھا.

    نمبر 9 = فروری 18، 2013 . پاکستان نے چین کو گوادر پورٹ بنانے اور اسے آپریشنل کرنے کا ٹھیکہ دیا.

    نمر 10 = نومبر 20، 2009 کو غلام مصطفے جتویُ فوت ہوےُ.

    نمبر 11 = اگئست 2013 میں غیر متوقع شدید بارشوں اور سیلابوں نے ملک میں تباہی مچا دی. لاکھوں لوگوں کے گھر تباہ ہو گیےُ. لاکھوں لوگ غذا کی کمی اور مختلف بیماریوں کا شکار ہوےُ. صدر زرداری پر الزام لگے کہ اُس نے سیلاب زدہ علاقوں کے مکینوں کی مدد نہیں کی. صدر کی پارٹی کی مقبولیت کم ہونے لگی.جس کا اثر اگلے عام انتخابات پر پڑا.
    آصف علی زرداری پہلے پاکستانی صدر تھے جنہوں اپنی صدارت کے 5 سال مکمل کیےُ.

    عام انتخابات 2013

    پاکستان کی 14ویں قومی اسمبلی اور چاروں صوبوں کی صوبایُ اسمبلیوں کے انتخابات بروز ہفتہ، 11 میُ،2013 کو منعقد ہُوےُ.

    پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پنجاب اور بلوچستان میں اکثریت حاصل کی.
    پاکستان ہیپلز پارٹی سندھ میں کامیاب رہی.
    صوبہ خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آیُ نے میدان مار لیا.

    آیُین پاکستان کی دفعہ 224 ( شق نمبر 1 الف ، 1 ب)کے مطابق پارلیمنٹ کی تحلیل کے بعد ایک نگران حکومت ضروری ہے، جو نیےُ انتخابات کی نگرانی کرے. سیاسی پارٹیوں نے ریٹایُرڈ جسٹس ناصر اسلم زاہد کے نام پر اتفاق کیا. لیکن پی پی پی نہ مانی. معاملہ چار ممبران پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی کو بھیج دیا گیا.
    آیُین پاکستان کی دفعہ 224- الف، شق نمبر 3 کے تحت چیف الیکشن کمشنر جناب فخرالدین جی ابراحیم نے ایک پریس کانفرنس میں 24 مارچ 2013 کو اعلان کیا کہ ریٹایُرڈ فیڈرل شریعت کورٹ چھیف جسٹس میر ہزار خاں کھوسو کو نگران وزیر اعظم مقرر کیا جاتا ہے.جو اپنی نگرانی میں نےُ عام انتخابات کرایُں گے.
    جسٹس کھوسو نے 25 مارچ 2013 کو حلف اُٹھایا، اور 5 جولایُ 2013 تک بہ طور نگران وزیر اعظم کام کرتے رہے.

    صدارتی انتخاب 2013

    آصف علی زرداری کی مدت صدارت 8 ستمبر 2013 کو ختم ہونے جا رہی تھی.عام انتخابات کے بعد اب بارہویں صدر پاکستان کےانتخاب کے لےُ 30 جولایُ 2013 کی تاریخ مقرر کی گیُ.

    ًسٹر آصف علی زرداری نے صدر کا انتخاب لڑنے سے معذوری ظاہر کر دی . پی پی پی نے صدارتی انتخاب کا بایُکات کر دیا. اب میدان میں صرف 2 امیدوار رہ گےُ.

    پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار جناب ممنون حسین
    پی ٹی آیُ کے امیدوار جناب وجیہ الدین احمد

    آیُین پاکستان کی دفعہ 41 کے تحت صدر پاکستان کا انتخاب 8 اگئست ، 2013 تک ہو جانا چاہیےُ. لہذا صدارتی الیکشن 30 جولایُ 2023 کو ہوےُ. نتیجہ حسب ذیل رہا ؛
    پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ممنون حسین کو 432 ووٹ ملے.
    پی ٹی ایُ کے جناب وجیہ الدین کو 77 ووٹ ملے.

    جیت کے لیےُ 255 ووٹ دعکار تھے ، اس لےُ جناب ممنون حسین 5 سال کے لےُ پاکستان کے صدر منتخب ہوےُ. پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ ایک سولین صدر اپنی مدت صدارت پوری کر کے بغیر کسی خون خرابے کے اقتدار نےُ منتخب صدر کو منتقل کر رہا تھا.

    مختصرواقعات 2013

    جنوری 6 = قاضی حسین احمد ، امیر جماعت اسلامی ،اسلام آباد میں فوت ہو ےُ.
    جنوری 10 = دہشت گردوں کے حملوں میں کویُٹہ میں 100 سے زیادہ افراد قتل
    ہوےُ.
    مارچ 9 = بادامی باغ ، لاہور کی مسیحی آبادی کے ایک 28 سالہ ساون مسیح نامی نوجوان نے پیغمبر اسلام کے متعلق توہین آمیز گفتگو کی.
    مارچ 25 = میر ہزار خاں کھوسو نگران وزیر اعظم مقرر ہوےُ.
    میُ 11 = ملک میں عام انتخابات 2013 کو منعقد ہوےُ.
    میُ 25 = گجرات میں ایک سکول بس میں دھماکہ ہُؤا، 17 بچے موقع پر ہی فوت ہو گےُ. 7 بچے زخمی ہوےُ.
    جون 5 = نواز شریف پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہوےُ.
    جولایُ 30 = ممنون حسین ملک کے 12 ویں صدر منتخب ہوےُ. وہ 9 ستمبر کو بہ طور صدر حلف اُٹھایُیں ھے.
    اگست 6 = شدید بارشوں اور سیلابوں نے ملک میں تباہی مچا دی.
    اگست 14 = عوام نے 67واں یوم آزادی کا جشن منایا.
    ستمبر 6 = ملک میں ڈیفینس ڈے منایا گیا.
    ستمبر 9 =ٔ جناب ممنون حسین نے ملک کے 12ویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا.
    ستمبر 24 = بلوچستان میں 7.7 شدت کا زلزلہ آیا. 825 افراد جان سے گیےُ. اور سینکڑوں ذخمی ہوےُ.
    ستمبر 25 = منصورہ، لاہور میں سید منور حسن، امیر جماعت اسلامی کی زیر نگرانی ، مسلم لیڈروں کی بین الاقوامی کانفرینس ہویُ .
    اکتوبر کے آخر میں وزیر اعظم ،امریکی صدر باراک اُباما سے ایک میٹنگ کی.
    نومبر 1 = حکیم اللہ محسود، لیڈر پاکستان تحریک طالبان ایک امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا.
    نومبر 9 = یوم اقبال منایا گیا.
    نومبر 29 = پاکستان آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی ریٹایُر ہو گےُ. جنرل راحیل شریف آرمی چیف بنے.
    دسمبر 11 = چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اپنے عہدے سے ریٹایُر ہو گےُ. جسٹس  تصدق حسین جیلانی ان کی جگہ چیف جسٹس پاکستان سپریم کورٹ بنے

    زیر تبصرہ 2013 کا سال یہاں ختم ہوتا ہے ، 2014 اور اس سے بعد کے سالوں کی کہانی آیُندہ اقساط میں پیش کی  جایُیں گی.

  • روشن چہرہ – قسط 3      Bright face – part 3

    روشن چہرہ – قسط 3 Bright face – part 3

    روشن چہرہ – قسط 3
    Bright face – part 3

    Bright face-part 3

    روشن چہرہ قسط 3 میں جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت کے واقعات پر ایک نظر ڈالی جاےُ گی. جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت کو ہم ” روشن چہرہ ” تو نہیں کہہ سکتے. فوجی حکومت کو دُنیا میں کہیں بھی پسند نہیں کیا جاتا. کیونکہ ایسی حکومت کے دور میں عوام کے بنیادی حقوق اکثر معطل کر دییےُ جاتے ہیں. تمام احکامات فرد واحد کی خواہش پر مبنی ہوتے ہیں. عوام فوجی حکومت کے احکامات ماننے پر مجبور ہوتے ہیں

    عنوانات

     ستمبر 2001 کا واقعہ
    جنرل الیکشن 2002
    ریفرنڈم 2002
    جنرل الیکشن 2008

    ستمبر 2001 کا واقعہ

    گیارہ ستمبر 2001 کو ایک ہوایُ جہاز امریکہ میں واقع ورلڈ تریڈ سنٹر سے ٹکرایا. جس سے اس کی کیُ منزلیں تباہ ہو گییُں. اندازآ 4 ہزار آدمی مارے گییےُ. اس ٹکراؤ کے ٹھوڑی ہی دیر بعد ایک اور ہوایُ جہاز امریکی دفاعی مرکز ” پینٹاگون ” سے ٹکرایا. ان دو واقعات نےامریکی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا. اس کی ” نا قابل تسخیر ” مشہوری کی عمارت ڈھیر ہو گییُ. اس وقت کے امریکی صدر جارج بُش نے اایک مذہبی تنظیم ” القایُدہ ” کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا. ان دنوں القایُدہ کے سربراہ “اُسامہ بن لادن ” افغانستان میں مقیم تھے. امریکہ نے افغانستان سے اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا. افغانستان نے امریکہ سے اسامہ بن لادن کے ملوث ہونے کے ثبوت مانگے. جو امریکہ نہ دے سکا. امریکی صدر بُش اپنی ہزیمت پر تلملایا ہُؤا تھا. اس نے افغانستان پر حملہ کرنے کا فیصلہ کر لیا. امریکہ نے پرویز مشرف سے اپنے ہوایُ جہازوں کو پاکستانی حدود سے گزرنے کی اجازت مانگی، جو مشرف نے بلا چُون چرا ، کویُ مطالبہ کیےُ بغیر ، دے دی. امریکی اسامہ بن لادن کو تو ہلاک نہ کر سکے ، لیکں امریکی فوجیں بہت عرصہ تک افغانستان میں موجود رہیں

    جنرل الیکشن 2002

    جنرل الیکشن 2002 میں کنگ پارٹی پاکستان مسلم لیگ (ق) نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کر لی. بے نظیر بھٹو کی غیر موجودگی کے باوجود پاکستان پیپلز پارٹی دوسرے نمبر پر رہی. اسلام پسند پارٹیاں ” متحدہ مجلس عمل” کے پرچم تلے اکٹھی ہوییُں، اور انتخابات میں تیسری پوزیشن حاصل کر لی. نواز شریف کے جلا وطن ہونے کی وجہ سے پاکستان مسلم لیگ (ن) چوتھے نمبر پر رہی.

    صوبایُ سطح پر صوبہ سندھ میں پی پی پی ، صوبہ پنجاب میں پی یم ایل (ق)، صوبہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں متحدہ مجلس عمل کامیاب رہی.

    جنرل الیکشن 2002 میں کیُ پابندیاں لگایُ گییُ تھیں سب سے بڑی پابندی یہ تھی کہ انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار کی تعلیمی قابلیت بی اے سے کم نہ ہو. اس پابندی کی وجہ سے کییُ پرانے سیاست دان انتخابات میں حصہ نہ لے سکے. مذہبی جماعتوں کے امیدواروں پر اس پابندی کا اطلاق نہیں ہوتا تھا. اس کا فایُدہ متحدہ مجلس عمل کو پہنچا. اس الیکشن میں امیدوار کی عمر 21 سال سے گھٹا کر 18 سال کر دی گییُ.

    اس الیکشن میں پی ایم ایل (ق) نے قومی اسمبلی کی 126، پی پی پی پی نے 81 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی. نلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں متحدہ مجلس عمل کامیاب رہی. پنجاب میں پی یم ایل (ن) اپنا اقتدار کھو بیٹھی. اس کی جگہ ق لیگ نے لے لی.

    ریفرنڈم – 30 اپریل 2002

    جنرل پرویز مشرف نے 1999 میں ایک فوجی انقلاب کے ذریعہ اقتدار حاصل کیا. اور ایک آردر کے ذریعے ملک کے خود ساختہ صدر بن گیےُ. سپریم کورٹ آف پاکستان نے پرویز مشرف کے اس اقدام کو جایُز قرار دیا. ساتھ ہی یہ حُکم بھی دیا کہ وہ 3 سال کے اندر ملک میں جمہوریت بحال کرے گا.

    فوجی حکومتیں چونکہ عوام کی منتخب کردہ نہیں ہوتیں، اس لیےُ اپنی حکومت کو “منتخب شدہ” ثابت کرنے کے لیےُ وہ ریفرنڈم کا سہارہ لیتے ہیں. پرویز مشرف نے بھی ایک ایسا ہی ریفرنڈم 30 اپریل 2002 کو کرایا تھا.

    جنرل پرویز ًمشرف نے اپنے اقتدار کو جواز بخشنے کے لیےُ ایک ریفرینڈم کروانے کا اہتمام کیا. یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے کسی جان نثار نے ریفرینڈم کی تجویز پیش کی ہو. بہر حال ریفرینڈم کے لیےُ اپریل 30، 2002 کا دن مقرر کر دیا. جس میں خود ساختہ صدر پاکستان پرویز مشرف کو آیُندہ 5 سال کے لیےُ حکومت کرنے کو کہا جاےُ گا. اس کے لیےُ مندرجہ بالا تاریخ مقرر کر دی گیُ. اس دن پرویز مشرف اپنی پہلی عوامی ریلی سے خطاب کے دوران عوام سے سپورٹ کی اپیل کریں گے.

    جنرل پرویز مشرف نے ٹیلی ویژن پر تقریر کرتے ہوےُ اعلان کیا کہ وہ اکتوبر میں انتخابات کرا دے گا. ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ آیُندہ 5 سال کے لیےُ اقتدار میں رہنے کے لیےُ ریفرنڈم کراےُ گا. وہ چاہتا ہے کہ اُس کی معاشی، معاشرتی اور سیاسی اصلاحات کو آنے والی حکومت ختم نہ کر سکے، اس کے لیےُ اُس کا آیندہ 5 سال کے لیےُ اقتدار میں رہنا ضروری ہے.

    ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں نے مجوزہ ریفرینڈم کو غیر آییُنی قرار دیتے ہُوےُ مسترد کر دیا، اور عوام کو اس ریفرنڈم کا بایُکاٹ کرنے کی اپیل کر دی. جنرل پرویز مشرف نے آییُن معطل کر دیا، اور تمام سیاسی پارٹیوں پر پابندی عایُد کر دی کہ وہ کسی قسم کی بیرونی سرگرمی ، اجتماعات نہیں کر سکتے.

    جنرل مشرف نے لاہور میں ایک ریلی نکالی. حکومتی نمایُندوں پر زور دیا کہ وہ ریفرنڈم میں اس کی حمایت کریں.

    ٹجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بہ ظاہر مشرف نے حکومتی مشینری استعمال کرتے ہُوےُ اور سیاسی پارٹیوں کی سرگرمیوں پر سختی سے کنٹرول کرتے ہُوےُ، ریفرینڈم میں کامیابی حاصل کر لی. ریفرنڈم کے حق میں % 97.97 ووٹ پڑے. اپوزیشن پارٹیوں نے ریفرینڈم کا بایُکاٹ کیا کہ یہ ملک کے آییُن کے خلاف ہے.

    جنرل الیکشن 2008

    نومبر 3، 2007 کو پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی. عام انتخابات ملتوی کر دیےُ گیےُ. جو لٹکتے لٹکتے 18 فروری 2008 کو منعقد ہونے قرار پاےُ. کفر تُوٹا خدا خدا کر کے.

    بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد پی پی پی کی قیادت آصف علی زرداری اور مسٹر بلاول بھٹو  مشترکہ طور پر کر رہے تھے. پی ایم ایل (ن) کی قیادت چودھری نثار علی خاں کر رہے تھے. صوبہ سندھ میں پی پی پی، پنجاب میں پی ایم ایل (ن) ، خیبر پختونخواہ میں عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان میں پی ایم ایل (ق) نے کامیابی حاصل کی.

    پرویز مشرف نے انخابات میں اپنی شکست تسلیم کر لی . پی پی پی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) نے مشترکہ حکومت بنا لی. آصف علی زرداری ملک کے صدر بن گیےُ.مسٹر یوسف رضا گیلانی 24 مارچ 2008 کو ملک کے وزیر اعظم منتخب ہویےُ.

    پاکستان مسلم لیگ (ن) ایک ہفتہ بعد ہی حکومت سے علیحدہ ہو گییُ، تاکہ وہ عدالتوں کے مواخذہ کی تحریک چلا سکے. پی پی پی نے متحدہ قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی اور جمیعت علماےُ اسلام (ٍف) کو ملا کر مخلوط حکومت بنا لی.

    ان انتخابات 2008 میں پاکستان مسلم لیگ (ق) کے صدر شجاعت حسین اور صوبہ پنجاب کے وزیر اعلے پرویز الہی اپنی اپنی سیٹیں ہار گےُ.
    source: en.wikipedia.org

    پرویز مشرف اپنی شکست پر ہمت ہار بیٹھا. ملک میں اس کے خلاف نفرت انتہا کو پہنچ گییُ، پرویز مشرف  کے خلاف مقدمات کی تیاری شروع ہو گییُ. 18 اگست 2008 کو اپنی تقریر میں پرویز مشرف نے اس شرط پر استعفے دینے کی پیشکش کی کہ اُس کے خلاف کویُ مقدمہ نہ بنایا جاےُ. اور اسے بیرون ملک جانے میں کویُ رکاوٹ نہ ڈالی جاےُ. سیاسی قایُدین نے اس کی یہ پیشکش منظور کر لی . پرویز مشرف استعفے دے کر دُبیُ چلا گیا. جہاں وہ 79 سال کی عمر میں 5 فروری 2023 کو امریکن ہسپتال دُبییُ میں فوت ہو گیا.

    جنرل پرویز مشرف کا دور حکومت بڑا پُر آشوب رہا. اس کے دور حکومت کے چیدہ چیدہ واقعات مختصرآ یہ ہیں؛ 2002 کے عام انتخابات کی تفصیل اس سے پہلے”روشن چہرہ قسط 2 ” میں دی گییُ ہیں.

    نمبر 1 = پرویز مشرف نے 2002 میں ملک کے آییُن میں ” لیگل فریم ورک آرڈر ” کے تحت کییُ تبدیلیاں کیں
    نمبر 2 = پارلیمانی الیکشن 2002 میں منعقد ہوےُ.
    نمبر 3 = قانون ساز اسمبلی نے “لیگل فریم ورک آرڈر ” کی کیُ دفعات کی منظوری دی.
    نمبر 4 = اکتوبر 8، 2005 کو آزاد کشمیر میں ایک 7.6 شدت کے زلزلہ نے تباہی مچا دی.جس میں اندازآ 73،276 سے لے کر 87،350 تک لوگ لقمہ اجل بنے. 138،000 آدمی زخمی ہُوےُ. 3.5 ملین خاندان بے گھر ہو گیےُ. 500،000 گھرانے متاثر ہوےُ.
    نمبر 5 = 3 نومبر 2007 کو پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی، جو 15 دسمبر 2007 تک رہی. اس دوران ملک کے آیٰین کو معطل رکھا.
    نمبر 6 = صدارتی انتخاب 6 اکتوبر 2007 تک پرویز مشرف نے صدر پاکستان اور چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے اہنے پاس رکھے.
    نمبر 7 = چیف جستس آف پاکستان افتخار محمد چودھری نے ایمرجنسی کے نفاذ کو غیر آینی قرار دیا. یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے 7 ججز کا متفقہ فیصلہ تھا. فیصلہ میں آرمڈ فورسز کو ہدایت دی گیُ کہ وہ کویُ غیر آیُینی حکم نہ مانیں. پاکستان آرمی کا گیارھواں بریگیڈ سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت میں داخل ہوُا اور جسٹس چودھری اور دوسرے جج صاحبان کو عمارت سے باہر نکال دیا، اور پھر گرفتار کر لیا.
    نمر 8 = پرویز مشرف نے دوسری دفعہ صدر پاکستان کا حلف 29 نومبر 2007 کو لیا اور اعلان کیا کہ ایمرجینسی 16 دسمبر 2007 کو اُٹھا لی جاےُگی. ایمرجینسی 15 دسمبر 2007 کو اُٹھا لی گییُ.
    نمبر 9 = ملک کے عام انتخابات اوایُل جنوری 2008 کو کراےُ جانے پر اتفاق ہو چکا تھا
    نمبر 10 =. محترمہ بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی میں 27 دسمبر 2007 کو قتل کر دیا گیا. اس کے بعد کے واقعات کو دیکھتے ہوےُ عام انتخابات کی تاریخ بدلتی رہی. بالآخر 18 فروری 2008 کو عام انتخابات کرانے کا حتمی فیصلہ ہو گیا.
    نمبر 11= 18 فروری 2008 کے انتخابات میں مشرف کی پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا
    نمبر 12= اگست 18، 2008 کو مشرف نے مستعدفی ہونے کی پیشکش کی. اور اسی دن استعفادے دیا. بعد میں وہ دُبییُ چلا گیا اور وہیں وفات پایُ. رہے نام اللہ کا.

    آیُندہ کے واقعات پڑھنے کے لیےُ ” روشن چہرہ، قسط 4 ” ضرور پڑھیےُ.

  • روشن چہرہ  قسط  2 – Bright Face  Part 2

    روشن چہرہ قسط 2 – Bright Face Part 2

    روشن چہرہ قسط 2
    Bright Face, Part 2

    روشن چہرہ
    Bright face

    روشن چہرہ قسط نمبر 1 میں پاکستان کی تاریخ کے کُچھ حالات بیان کیےُ گےُ تھے. جو سول وار 1971 تک کے حالات پر مشتمل تھے. 1971 کا سال پاکستان پر بڑا بھاری گُزرا. مُلک کا مشرقی بازُو الگ ہو گیا. اس کی کچھ وجوہات ہم آج کے آرٹیکل میں بیان کریں گے. ان حالات میں آپ کو اقتدار کی ہوس صاف نظر آےُ گی. اقتدار کی اس ہوس نے ملک کا بہت نقصان کیا.

    عنوانات
    انتخابات 1971- نتایُج
    پاکستان پیپلز پارٹی کا دورحکومت
    محمد ضیاُالحق
    پرویز مشرف

      انتخابات 1971-نتایُج

    انتخابات 1971 ایک فرد، ایک ووٹ کی بنیاد پر ہُوےُ . مشرقی پاکستان کی آبادی ًمغربی پاکیستان سے زیادہ تھی. اس لیےُ مشرقی پاکستان سے منتخب ہونے والے عوامی نمایُندگان کی تعداد مغربی پاکستان سے منتخب ہونے والے نمایُندگان سے زیادہ تھی. اصولآ پاکستان کا وزیر اعظم مشرقی پاکستان سے ہونا چاہییےُ تھا. لیکن مغربی پاکستان کے کچھ سیاستدانوں کو یہ گوارہ نہ تھا. مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمان کی عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں ذولفقار علی بھُٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی کی اکثریت تھی. ملک کے مارشل لا ایدمنستریٹر یحیے خاں نے قومی اسمبلی کے منتخب ارکان کا ایک اجلاس ڈھاکہ میں بُلایا. بھُٹّو نے اعلان کر دیا کہ جو نمایُندہ اجلاس کے لیےُ ڈھاکہ جاےُ گا میں اُس کی ٹانگیں توڑ دوں گا. بھٹو نے نعرہ لگایا ” اُدھر تُم، ادھر ہم ” بات بڑھتی گیُ، سول وار شروع ہو گیُ. جو مشرقی پاکستان میں موجود پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے کے بعد اس طرح ختم ہویُ کہ پاکستان کا مشرقی بازو ملک سے علیحدہ ہو گیا. جس کا نام ” بنگلہ دیش ” رکھا گیا.

    باقی ماندہ پاکستان کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نے اقتدار ذولفقار علی بھٹو کے سپرد کیا، جسے سولین مارشل لا اید منسٹریٹر کے اختیارات سونپ دییےُ.

    پاکستان پہپلز پارٹی کا دور حکومت

    بھُتو 1971 سے 1973 تک مارشل لا ایڈمنسٹریٹر رہا. اس دوران پاکستان کے لیےُ آییُن کی تدوین کا کام جاری رہا. 1973 میں قومی اسمبلی نے نیا آییُن منظور کیا. بھُتو کو ملک کا وزیر اعظم چُن لیا گیا.
    بھٹو نے اپنے دور حکومت میں کییُ کام کیےُ :

    نمبرر 1 ؛ انڈین پرایُم منسٹر اندرا گاندھی کے ساتھ شملہ معاہدہ کے تحت انڈیا میں قید پاکستانی فوجیوں کو واپس بُلایا

           نمبر 2 ؛ 1971 کی جنگ میں انڈیا کے قبضے میں جانے والا پاکستانی علاقہ واپس لیا.

    نمبر 3 ؛ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کی بُنیاد رکھی. جس کے لیےُ مشہور ایتمی سایُنسدان عبدالقدیر خاں کو ہالینڈ سے بُلا کر اس کی سربراہی میں ایٹمی ترقی کا ادارہ جنوری 1972  میں قایُم کیا. جن کی محنت سے 28 میُ 1998 کو پاکستان نے اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ کیا.    اس  وقت پاکستان کے وزیر اعظم جناب نواز شریف تھے. جنہوں نے عالمی راہنماؤں کی   دھونس  اور لالچ کو رد کر کے ملک کو ایٹمی طاقت بنایا. یہ ہے روشن چہرہ کی ایک مثال

    نمبر 4 ؛ پاکستان میں قدیانی یا مرزیُ مذہب کے لوگ مسلمانوں کے ساتھ ایک ہی مسجد میں نماز پڑھ لیا کرتے تھے. قادیانی اللہ کے آخری رسول کو آخری نبی نہیں مانتے. بلکہ وہ قادیان کے ایک شخص مرزا غلام احمد کو اللہ کا نبی مانتے ہیں. قرآنی تعلیمات کے مطابق اللہ کے آخری رسول محمد ًمصطفے صل اللہ علیہ و سلم کو خاتم النبییّن ماننا لازم ہے . نہ ماننے والا دایُرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے. پاکستانی عوام کا پرزور مطالبہ تھا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا جاےُ. اور انہیں مسلمانوں کی مساجد میں نماز پڑھنے سے روکا جاےُ. یہ مطالبہ سالہا سال سے جاری تھا. اس پر بڑے فساد بھی ہُوےُ. بھُٹّو نے مسلمانوں کے پُرزور اصرار پر قومی اسمبلی کا ایک اجلاس بُلایا، جس میں متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور ہُویُ، جس کے زریعے قاددیانیوں کو ” غیر مسلم ” ڈکلییُر کیا گیا. جس کی رو سے
    نمبر 1 ؛ قادیانی مسلمانوں کی مساجد میں نماز نہیں پڑھ سکتے
    نمبر 2 ؛ قادیانی اپنے مذہب کی پرچار اعلانیہ نہیں کر سکتے.
    مندرجہ بالا مطالبات مسلمانوں کے بہت دیرینہ مطالبات تھے

    نمبر 5 ؛ پاکستان کا آییُن کیُ دفعہ بنا اور ٹُوٹا. بھُٹّو کی کاوشوں سے پاکستان کا ایک متفقہ آیُین منظور ہُؤا. جو آج تک رایُج ہے

    کویُ شخص کافی سال تک برسراقتدار رہے، تو اس کے خیالات کافی حد تک مطلق العنان ہو جاتے ہین. یہی کچھ بھُٹو کے ساتھ بھی ہُؤا. اُس نے اپنے دیرینہ ساتھیوں سے بہت بُرا سلوک کیا. اُس نے اختلافات پر افتخار تاری کو آزاد کشمیر کے ایک دور اُفتادہ گاؤں میں قید کر دیا. ایک پُرانے بزرگ دیرینہ ساتھی کے ساتھ انتہایُ ہتک آمیز سلوک کیا. لوگ آہستہ آہستہ اس سے متنفر ہونے لگے. بھٹو کے خلاف عوامی احتجاج ہونے لگے. آرمی چیف ضیا الحق نے . بھٹو کا تختہ الٹ کر مارشل لا لگا دیا.

    محمد ضیاُالحق

    بھٹو کے آخری دور میں محمد ضیاُالحق پاکستان آرمی کے چیف تھے . جب حالات بگڑنے لگے تو ضیاُالحق نے 5 جولایُ 1977 کو ملک میں مارشل لاُ لگا دیا اور خود مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن کر سارے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیےُ. بھٹو کو قید کر دیا. ضیا الحق بعد میں 16 ستمبر 1978 کو پاکستان کے چھٹے صدر بن گیےُ.
    سترہ اگست 1988 کو ایک ہوایُ جہاز کے ایُر کریش میں جان بہ حق ہوےُ. ان کا مزار اسلام    آباد  میں ہے.

    آیُین کے مطابق سینٹ کے چییُرمین غلام اسحاق خاں عبوری صدر پاکستان بن گیےُ.انہوں نے نومبر 1988 میں نیےُ انتخابات کرانے کا اعلان کیا

    ضیا الحق کے دور میں بھٹو کے خلاف قتل کا ایک مقدمہ بنایا گیا.، کہا گیا کہ اس نے مسمی احمد رصا خاں قصوری کو 1974 میں ایک کار کے حادثہ میں مروا دیا تھا. مقدمہ چلتا رہا آخر میں بھٹو کو قصوروار ٹھہرا کر اُسے 6 اپریل 1979 کو پھانسی دے دی گییُ. یہ مقدمہ بہت ہی متنازعہ رہا.
    پاکستان پیپلز پارٹی نے 2024 میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک پیٹیشن دایُر کی کہ بھٹو کے مقدمے کا از سر نو جایُزہ لیا جاےُ. پارٹی کے خیال میں بھٹو کے ساتھ زیادتی ہویُ تھی. سپریم کورٹ نے کافی چھان بین کے بعد اپنی راےُ دی کہ بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ درست نہ تھا

    بھٹو کے بعد جونیجو ملک کے وزیر اعظم بنے، صدر ضیا لحق نے انہیں جلد ہی فارغ کر دیا. اور نےُ انتخابات کا اعلان کر دیا. نیےُ انتخابات 1988 میں ہُوےُ جس میں پاکستان پیپلز پارٹی نے میدان مار لیا. سینٹ کے چیُرمین غلام اسحاق خاں کو ملک کا صدر چُن لیا گیا. بے نظیر بھٹو نے 2 دسمبر 1988 کو پاکستان کی وزیر اعظم کا حلف اُٹھایا. صدر غلام اسحاق خاں نے 6 اگست 1990 کو آییُن کے آرٹیکل 58 (2) (ب) کے تحت قومی اسمبلی توڑ دی ، اور نیےُ انتخابات کا اعلان کر دیا. ملک کی نویں قومی اسمبلی کے انتخابات 24 اکتوبر ، 1990 کو ہُوےُ. جس میں اسلامی جمہوری اتحاد نے 106 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی. اسلامی جمہوری اتحاد کے سربراہ جناب نواز شریف تھے.
    صدر غلام اسحاق خاں نے غلام ًصطفے جتویُ کو نگران وزیر اعظم مقرر کر دیا.کیُ ایک گنجھلوں کے حل ہو جانے کے بعد اسلامی جمہوری اتحاد کے پاس قومی اسمبلی کی کُل 207 سیٹوں میں سے 111 سیٹیں تھیں. جب کہ بے نظیر بھٹو کی سربراہی میں قایُم ” پاپولر ڈیموکریٹک الایُنس ” (پاکستان جمہوری اتحاد ) صرف 44 سییٹیں حاصل کر سکا. اس طرح جناب نواز شریف پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہوےُ.
    اصغر خاں نے ان اانتخابات کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک درخواست دی تھی ، کہ انتخابات میں دھاندلی ہویُ ہے. سپریم کورٹ نے اپنے 19 اکتوبر 2012 کے فیصلے میں اس الزام کو درست تسلیم کیا، کہ پاکستان آرمی کے دو جرنیلوں نے اپنی پسندیدہ سیاسی پارٹیوں کی مالی مدد کی.

    چیدہ واقعات:

    مسٹر معین قریشی، سابقہ وایُس پرہزیڈنٹ آف ورلڈ بینک ، جولایُ سے اکتوبر 1993 تک ملک کے نگران وزیر اعظم رہے.
    مسٹر فاروق لغاری 1993 میں ملک کے صدر منتخب ہُوےُ.
    مسٹر لغاری نے نومبر 1996 میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کو بر طرف کر دیا.
    دسمبر 1997 کو مسٹر لغاری صدر کے عہدہ سے مستعفی ہو گیےُ.
    مسٹر رفیق تارڑ جولایُ 1998 سے جون 2001 تک ملک کے صدر رہے.

    پرویز مشرف

    بارہ اکتوبر1999 کو آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا. اور ملک کا چیف ایگزیکٹو بن گیا. 14 اکتوبر 1999 کو ایک ایگزیتو آرڈر کے ذریعے پاکستان میں ایمرجینسی نافذ کر کے آییُن کو معطل کر دیا. ملک کے روشن چہرے پر ایک اور بد نما داغ.

    پرویز مشرف نے جناب نواز شریف کو قید کر دیا. بعد میں اُن سے ڈیل کر کے انہیں جلاوطن کر دیا. نواز شریف سعودی عرب چلے گیےُ، جہاں وہ 10 سال تک رہے.

    پرویز مشرف 20 جون 2001 کو صدر بن گیےُ ، اور 2008 تک اقتدار میں رہے.

    ملک میں بارہویں قومی اسمبلی اور چاروں صوبوں میں صوبایُ اسمبلیوں کے انتخابات 10 اکتوبر 2002 عیسوی کو جنرل پرویز مشرف کی زیر نگرانی میں منعقد ہُوےُ.
    مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارتی پر کییُ پابندیان لگا دی گییُں. ان انتخابات کے وقت نواز شریف اور بے نظیر بھٹو جلا وطن تھے. پیپلز پارتی نے انتخابات میں حصہ لینے کے لیےُ جناب امین فہیم کی زیر صدارت ایک نییُ پارٹی ” پاکستان پیپلز پارٹی پالیمینٹیرین ” بنا لی.
    مسلم لیگ (ن) کے کرتا دھرتا جلا وطن تھے. ان کی پارٹی کے کیُ پرندے اُڑ کر پرویز مشرف کے زیر سایہ پارٹی مسلم لیگ (قایُد اعظم ) جسے مسلم لیگ ( ق) بھی کہتے ہیں. میں چلے گیےُ. مسلم لیگ (ن) کے جان نثار ممبران جناب جاوید ہاشمی کی قیادت میں متحد رہے. اور انتخابات میں حصہ لیا. مسلم لیگ (ق) جسے “کنگ پارٹی ” بھی کہتے تھے، کو میاں محمد اظہر کی صدارت ملی.
    انتخابات سے قبل پرویز ںشرف نے پولیٹیکل آرڈر 2002 کے ذریعے نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کو پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت پر پابندی لگا دی، تاکہ وہ انتخابات میں حصہ نہ لے سکیں

      انتخابات منعقدہ 2002 میں پاکستان مسلم لیگ (ق) نے میدان مار لیا. میاں محمد اظہر ، صدر پاکستان مسلم لیگ (ق) قومی اسمبلی کی اپنی سیٹ ہار گیےُ. اس لیےُ وہ ملک کے وزیر اعظم نہ بن سکے. چنانچہ میر ظفر اللہ جمالی وزیر اعظم منتخب ہو گیےُ. متحدہ مجلس عمل کے صدر ٍفضل الرحمان اپوزیشن لیڈر چُن لیےُ گیےُ.
    source: en.wikipedia.org

    اس کے بعد کے حالات ” روشن چہرہ ، قسط 3 ” میں پڑھنا نہ بھُولیےُ گا.

  • روشن چہرہ – قسط نمبر 1,  Bright Face- Part  # 1

    روشن چہرہ – قسط نمبر 1, Bright Face- Part # 1

    روشن چہرہ – قسط نمبر 1
    Bright Face – Part #1

    Bright Face
    روشن چہرہ روشن چہرہ کیا ہے؟ یہ اپنے پیارے وطن کا چہرہ ہے. پیارا وطن، جس پر   جان بھی قُربان ہے. یہ وطن اُن لاکھوں شہیدوں کی امانت ہے ، جو اس وطن کی سرزمین پر اپنا قدم رکھنے کی خواہش میں اپنا سب کچھ لُٹا کر راستے مہیں ہی شہید کر دےُ گیےُ.اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان شہیدوں کو کس نے اور کیسے دفن کیا. اس ہجرت میں بڑے ہولناک واقعات ہُوےُ، جنہیں یاد کر کے اب بھی کلیجہ پھٹنے لگتا ہے. اپنے مُلک کی نیُ پود کو اُن ہولناک واقعات کا پتہ بھی نہیں. اس وقت ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے، اور جلد ہی دنیامیں بلند مقام حاصل کرے گا. انشا اللہہ.

    عنوانات

    پُرانا وقت گُزر گیا
    لفظ پاکستان کیسے تخلیق ہُؤا
    قرارداد پاکستان
    آزاد پاکستان
    پاکستان 1956 سے 1962 تک
    سول وار

    پُرانا وقت گُزر گیا

    انڈیا کی  پارٹیشن کے وقت میری عُمر 13 سال تھی.لُٹے پُٹے ، بے آسرا مہاجرین کی آمد، مقامی لوگوں کی مہاجرین کی امداد، ان کے کھانے پینے کا انتظام گاؤں کے لوگوں نے سنبھال لیا.یہ مجھے آج تک یاد ہے. مہاجرین اُن خالی مکانوں میں رہنے لگے ، جو ہندوستان جاتے ہُوےُ ہندو خالی چھوڑ گےُ تھے. پھر حکومت پاکستان نے مہاجرین کو زرعی زمینیں الاٹ کرنی شروع کر دیں، جہاں مہاجرین نے کاشتکاری شروع کر دی. اب وہ سب اپنے پاؤں پر کھڑے ہیں، اور اپنے ملک کوغذایُ خوشحالی میں خودکفیل بنانے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں.
    دنیا میں پاکستان کے نام کی ایک پہچان ہے. پاکستانی قوم میں آگے بڑھنے کی اُمنگ اور صلاحیت ہے. عام لوگوں کی حالت پہلے کی بہ نسبت بہت بہتر ہے.
    ہمارے ملک میں کیا کمی ہے ؟ آییُے، میں آپ کو اپنے مُلک پاکستان کا روشن چہرہ دکھانے کی کوشش کرتا ہُوں.

    لفظ پاکستان کیسے تخلیق ہُؤا ؟

    مسلم لیڈر چودھری رحمت علی نے 1933 میں نیےُ آزاد مسلم ملک کا نام پاکستان تجویز کیا. لفظ پاکستان ، نیےُ مسلم ملک میں شامل ہونے والے علاقہ جات کے ناموں کے حروف سے لیےُ گیےُ تھے، جن کی تفصیل یُوں ہے ؛

    پاکستان کا پہلا حرف پ صوبہ پنجاب کی نمایُندگی کرتا ہے.
    پاکستان کا دوسرا حرف ا ،سے مراد افغانیہ ( شمال مغربی سرحدی صوبہ ) جہاں کی اکثریت افغان کہلاتی ہے.اس صوبہ کا موجودہ نام ” خیبر پختُون خواہ ہے.
    پاکستان کا تیسرا حرف ک ، کشمیر سے لیا گیا ہے.
    پاکستان کا چوتھا حرف س ، صوبہ سندھ کی نمایُندگی کرتا ہے.
    پاکستان کے آخری تین حروف “تان ” صوبہ بلوچستان کی نمایُندگی کرتے ہیں.
    ان سارے حروف کو ملا کر ایک لفظ ” پاکستان ” بنتا ہے. چودھری رحمت علی نے صوبہ بنگال کے مسلم اکثریتی علاقوں کو ملا کر اسے ” بنگلہ دیش” کا نام تجویز کیا تھا.

    قرارداد پاکستان

    قایُد اعظم محمد علی جناح کی زیر صدارت آل انڈیا مسلم لیگ مسلمانوں کے لیےُ ایک علیحدہ وطن حاصل کرنے کی کوششیں میں عرصہ سے مصروف تھے. اپنے قومی شاعر محمد اقبال ان کے شانہ بہ شانہ مدد کرتے رہے. دیگر مسلم مشاہیر بھی ہمراہ تھے
    آل انڈیا مسلم لیگ کے سرکردہ راہنماؤں کی کوششوں سے ایک مسودہ تیار کیا گیا جسے قرارداد لاہور کا نام دیا گیا، اور بعد میں قرارداد پاکستان کے نام سے مشہور ہوُا.. اسے 23 مارچ 1940 کو منٹو پارک ، جسے آجکل اقبال پارک کہتے ہیں ، کے جلسے میں اتفاق سے منظور کیا گیا.

    آزاد پاکستان

    انیس سو چھیالیس کے عام انتخابات میں محمد علی جناح کی راہنمایُ میں آل انڈیا مسلم لیگ نے مسلم   اکثریتی علاقوں میں اکثریت حاصل کر لی. ان انتخابات میں مسلمانوں نے کمال یک جہتی کا مظاہرہ کیا. میں ان انتخابات کا چشم دید گواہ ہُوں. مسلمانوں کا جوش قابل دید تھا. لوگ ایک جگہ بیٹھ کر اللہ کو گواہ بنا کر قسمیں اُٹھاتے تھے کہ ہم صرف اور صرف مسلم لیگ کو ووٹ دیں گے. مسلم لیگ کےامیدواروں کے مقابل امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو گییُں.

    الیکشن کے بعد ہندوستان کے مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کی حکومتیں قایُم ہو گییُں. برطانوی حکومت نے ہندوستان کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کر لیا. جس کے لیےُ ایک باؤنڈری کمیشن بنایا گیا. جس کا سربراہ ” رڈ کلف ” تھا. پنجاب کی تقسیم کرتے ہُؤےُ اس نے مسلم اکثریتی ضلع گورداس پور کا علاقہ انڈیا کو دے دیا. اگر یہ ضلع پاکستان میں شامل ہو جاتا تو انڈیا کے لیےُ کشمیر جانے کا راستہ بند ہو جاتا.

    چودہ اگست 1947 کو پاکستان بننے کے بعد اس کا داررالحکومت کراچی کو بنا دیا گیا.قایُد اعظم اعظم محمد علی جیناح گورنر جنرل اور لیاقت علی خاں وزیر اعظم بنے. ابھی ہم مکمل آزاد نہیں تھے. ملک کےسربراہ گورنر جنرل کو ملکہ برطانیہ نامزد کرتی تھی. ہماری آرمی کا نام رایُل پاکستان آرمی ہؤا کرتا تھا.

    قایُد اعظم 1948 میں وفات پا گیےُ. اس کے بعد لیاقت علی خاں کو قتل کر دیا گیا. آن کے قتل کا سبب اور قاتل کون تھا، یہ آج تک پتہ نہیں چل سکا.

    اسلامی جمہوریہہ پاکستان

    عوام اور قوم کے سرکردہ راہنماؤں نے برطانیہ کی سرپرستی کے دُم چھلے سے آزاد ہونے کا فیصلہ کر لیا. چنانچہ اس کے اعلان کے لیےُ 23 مارچ 1956 کا دن مقرر کیا گیا. اس تاریخ کو جمعہ کا دن تھا. چنانچہ 23 مارچ 1956 بروز جمعہ پکستان سرکاری طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان قرار پایا. سکندر مرزا ملک کے صدر بنے.

    پاکستان-1956 سے 1962 تک

    قایُد اعظم کی وفات کے بعد ملک کے حالات ٹھیک طرح سے چل نہ سکے. اقتدار کی کشمکش نے ملک کو بہت نقصان پہنچایا . ملک کے صدر سکندر مرزا نے 1958 میں پاکستان کے آییُن کو معطل کر کے ملک میں مارشل لگا دیا. جلد ہی جنرل ایوب خاں ، جو اس وقت پاکستان آرمی کے چیف تھے، نے سکندر مرزا کو معطل کر کے خود اقتدار سنبھال لیا.

    جنرل ایوب خاں نے ملک میں صدارتی نظام نافد کر دیا. ملک میں ” بُنیادی جنہوریتیوں ” کا نظام متعاف کرایا. پورے ملک میں یونین کونسلوں کے انتخابات ہوےُ. ایوب خاں کے نافذ کردہ نظام میں یہی منتخب ارکان یونین کونسل صدر پاکستان کا انتخاب کرتے تھے.

    ایوب خاں 10 سال تک حکومت کرتے رہے. انہی کے دور حکومت میں 1965 میں انڈیا کے ساتھ جنگ ہویُ. اس وقت انڈیا کے وزیر اعظم لال بہادر شاسری تھے. یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ملک میں جتنی ترقی ایوب خاں کے دور حکومت میں ہُویُ، کسی دوسرے کے دور میں نہیں ہویُ.

    ہم پاکستانی کسی بھی شخص کے لمبے عرصہ تک اقتدار میں رہنا برداشت نہیں کرتے. ملک کے عوام ایوب خاں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوےُ. ایوب خاں نے اقتدار جنرل یحیے خاں کے حوالے کیا، اور خود گوشہ نشین ہو گیےُ.

    سول وار

    سن انیس سو اکہتر کے الیکشن میں مغربی پاکستان میں ذولفقار علی بھُٹو کی زیر قیادت پاکستان پیپلز پارٹی نے الیکشن میں اکثریت حاصل کر لی. مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمان کی عوامی لیگ نے میدان مار لیا. مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ تھی. ایک فرد ایک ووٹ کے فارمولے کے تحت مشرقی پاکستان میں منتخب عوامی نمایُندگوں کی تعداد زیادہ تھی، قانون کے مطابق وزیر اعظم مشرقی پاکستان سے بننا چاہیےُ تھا. لیکن پیپلز پارٹی اس کے حق میں نہ تھی. یہاں اقتدار کی ہوس میں لوگوں سے کیُ غلطیاں ہُویُں . مشرقی پاکستان کو اس کا حق نہ دیا گیا. لوگ مغربی پاکستان کے خلاف اُٹھ کھڑے ہُوےُ. سول وار شروع ہو گیُ. ہمارے ازلی دُشمن انڈیا نے مشرقی پاکستان کی ” مُکتی باہنی‌” کی مدد کے لیےُ اپنی فوج بھیج دی. یہ سول وار تقریبآ 9 ماہ جاری رہی. وہاں پر موجود ہماری فوج نے مرکزی قیادت کے حکم پر ہتھیار ڈال دیےُ. اسلامی تاریخ میں اتنی تعداد میں اسلامی فوج کا ہتھیار ڈالنا پہلا واقعہ تھا. سارا ملک سوگوار ہو گیا. ہمارے تقریبآ 70 ہزار فوجی انڈیا میں قید رہے. یہ قیدی شملہ معاہدے کے تحت واپس پاکستان لوٹے.

    اس وقت ملکی حالات کچھ اچھے نہیں ہیں، اس کی کییُ وجوہات ہیں ان وجوہات کو جاننے کے لییےُ ہمارا آرٹکل ” ہمارے سلگتے مسایُل قسط -1، امن ” پڑھییےُ.

    باقی حالات قسط نمبر 2 میں پڑھیےُ.

  • ہمارے سُلگتے مسایُل # 18 –   سیلاب  -Our burning Issues # 18 – Floods

    ہمارے سُلگتے مسایُل # 18 – سیلاب -Our burning Issues # 18 – Floods

    ہمارے سُلگتے مسایُل # 18- سیلاب
    Our burning Issues # 18 – Floods

    سیلاب ٍ
    Floods.

    گو کہ ہم خود سیلاب نہیں لا سکتے، اور نہ ہم میں یہ طاقت ہے کہ ہم اپنی مرضی سے جہاں چاہیں ، سیلاب لے آیُیں، لیکن پچھلے تین چار سال سے ملک میں بارشوں کی کثرت سے سیلانوں کی تباہ کاریوں میں بہت اضافہ ہُؤا ہے. بعض علاقوں سے پچھلے سال آنے والے سیلابوں کا پانی ابھی تک خُشک نہیں ہُؤا، کہ اس سال سیلابوں نے مزید تباہی مچا دی . سیلابوں کا زیادہ تر زور صوبہ بلوچستان اور سندھ میں ہوتا ہے ، صوبہ سندھ اس لیےُ زیادہ  متاثر ہوتا ہے کہ بارشوں اور سیلابوں کا بہاؤ صوبہ سندھ سے گزرتا ہُؤا سمندر میں جا گرتا ہے.

    .عنوانات

    سیلاب کیوں آتے ہیں ؟
    سیلابوں سے تباہی.
    سیلابوں سے بچاؤ

    سیلاب کیوں آتے ہیں ؟

    اپنے ملک میں برسات کا موسم عمومآ 15 جون سے لے کر 15 اگست تک ہوتا ہے. لیکن پچھلے چند سالوں سے ان تاریخوں میں تبدیلی آ چُکی ہے. آج سے 6 یا 7 سال پہلے تک اتنی زیادہ بارشیں نہیں ہوتی تھیں. اب کچھ موسمی تغیرات کی وجہ سے پہلے کی نسبت بارشیں بہت زیادہ ہو رہی ہیں. ایسا کیوں ہو رہا ہے ؟ صحیح وجوہات تو سایُنس دان یا محکمہ موسمیات کے ماہرین ہی بتا سکتے ہیں. ہمیں تو اتنا پتہ ہے کہ اپنے ملک کی آب و ہوا پچھلے سالوں کی بہ نسبت بہت گرم ہو چکی ہے. پچھلے سالوں کی بہ نسبت بارشیں بہت زیادہ ہو رہی ہیں، اور اسی وجہ سے سیلابوں کی تُندی اور تباہی بھی بڑھ چُکی ہے. اب یہ تبدیلیاں انسانی بس میں نہیں. آج سے پچیس تیس سال پہلے سعودی عرب میں شازو نازر ہی بارش ہوتی تھی. آج کل وہاں کییُ علاقوں میں برف باری ہُوتی ہے. یہ سب کچھ اُس قادر مطلق کے ہاتھ میں ہے جو سب جہانوں کا خالق ہے.

    بعض پڑھے لکھے لوگ ان تبدیلیوں کی وجہ یہ بتاتے ہیں ، کہ ہماری زمین بہت آہستگی سے اپنی بایُیں طرف سرک رہی ہے. زمین کی یہ حرکت کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ زمین کا موجودہ شمالی قطب ہزاروں سال بعد جنوبی قطب بن جاےُ گا اور موجودہ جنوبی قطب شمالی قطب بن جاےُ گا. سایُنس دانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ زمین کی اس تبدیلی میں 10 ہزار سال کا عوصہ لگتا ہے.

    اندازہ لگایا گیا ہے کہ موجودہ موسمیاتی تبدیلیاں بھی شاید زمین کی اسی حرکت کی وجہ سے وقوع پزیر ہو رہی ہیں. واللہ اعلم . ہمیں تو یہ پتہ ہے کہ آج کل کا موسم آج سے 100 سال پہلے کی نسبت زیادہ گرم ہے. اور پچھلے سالوں کی بہ نسبت بارشیں زیادہ ہو رہی ہیں . جس کی وجہ سے سیلاب   بھی زیادہ آ رہے ہیں.

    سیلابوں سے تباہی

    جب پہاڑوں اور میدانوں میں بارشیں زیادہ عرصہ تک اور زور دار ہوں ، تو خُشک زمین کچھ پانی اپنے اندر جذب کر لیتی ہے. لیکن اس جذب ہونے والے پانی کی مقدار ہہت کم ہوتی ہے. ذیادہ بارشوں کی صورت میں پانی اپنی ڈھلان کی طرف بہنے لگتا ہے. زیادہ پانی جب سیلاب کی شکل اختیار کرتا ہے ، تو اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوت کو تباہ کر دیتا ہے. صوبہ بلوچستان اور سندھ کے علاقوں میں زیادہ تر لوگوں کے مکانات کچّی مٹّی سے بنے ہوتے ہیں، جو بارش میں زمین بوس ہو جاتے ہیں. سیلابوں کا پانی نسبتآ نیچی جگہ جمع ہو جاتا ہے. صوبہ سندھ کے کییُ علاقوں میں پچھلے سال کے سیلابوں کا ہانی اب تک نکالا نہیں جا سکا. لوگوں کے کچّے مکان جو سیلابوں میں گر چکے تھے، اب تک بناےُ نہیں جا سکے. اور بارشوں کا موسم دوبارہ آ چکا ہے. لوگوں کی زمینوں میں پانی کھڑا ہے، وہاں کویُ فصل کاشت نہیں کی جا سکتی. سیلابوں اور بارشوں سے اتنی تباہی ہُویُ ہے ،جس کا اندازہ عام لوگوں کو نہیں ہے. سیلاب زدہ لوگ اب تک جھونپڑیوں میں گزارہ کر رہے ہیں. حکومت کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں، کہ سیلاب زدہ لوگوں کو مکان بنا کر دے.

    سیلابوں سے بچاؤ

    بارش اللہ تعالے کی ایک نعمت ہے. لیکن زیادہ بارش بعض دفعہ زحمت بن جاتی ہے. ایسے ہی کسی موقع پر کسی نے کہا تھا ؛

    رب نعمتاں دا مینہہ کی وسایا
    ماڑیاں دی چھت ڈگ پییُ

    اس زحمت سے بچا جا سکتا اور اس سے فایُدہ اُٹھایا جا سکتا ہے.

    اپنا ملک ایک زرعی ملک ہے، جس میں فصلیں اُگایُ جا سکتی ہیں . زیادہ فصل لینے کے لیےُ فصل کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے. بارانی فصلوں کی نشوونما اتنی زیادہ نہیں ہوتی، اس لیےُ وہ زیادہ پیداوار نہیں دیتیں. اگر زمیندار اپنی بارانی فصلوں سے زیادہ پیداوار لینا چاہتے ہوں تو اس کے لیےُ دو طریقے ہیں.

    نمبر 1 – بارانی فصلوں کو پانی مہیا کرنے کےلیےُ بارانی رقبے میں ڈیزل آیُل سے چلنے والے ٹیوب ویل لگا لیےُ جاییُں. ٹیوب ویل لگانے میں کچھ خرچ تو کرنا پڑے گا، یہ خرچ صرف ایک دفعہ ہی کرنا پڑے گا. اس کے بعد صرف ڈیزل کا خرچ پڑے گا. اس انتظام سے فصلوں کو پانی وقت پر مل سکے گا اور فصل زیادہ منافع دے گی.
    ٹیوب ویل لگانے اور پھر ڈیزل کے خرچہ سے بچنے کے لیےُ ایک دیسی طریقہ استعمال کیا جا سکتا ہے.

    نمبر 2 – بارانی رقبے میں ایک یا دو جگہوں پر تالاب بنا لیےُ جایُیں ، جن میں بارش کا پانی اکٹھا کیا جا سکتا ہے. یہ پانی بارش نہ ہونے کی صورت میں فصلوں کے کام آےُ گا.

    یہ تو تھا چھوٹی سطح پر کرنے کا کام. ملکی سطح پر مختلف مقامات پر سہولت کے مطابق پانی کے چھوٹے یا بڑے ڈیم بناےُ جاییُں. جن میں بارش یا سیلابوں کا پانی جمع کیا جا سکے. اس وقت ایسے ڈیم نہ ہونے کی وجہ سے بارش اور سیلابوں کا سارا پانی سمندر میں جا گرتا ہے. دُنیا کی سمجھدار قوموں نے اسی طریقے سے پانی کے ڈیم بنا کر سیلابوں سے اپنی جان چھڑایُ ہے ، اور بارشوں اور سیلابوں کے پانیوں سے فایُدہ اُٹھایا ہے.

    اب ایسا بھی نہیں ہے کہ حکومت کو اس طریقے کا علم نہیں ہے یا احساس نہیں ہے. ایسا کیا جا سکتا ہے کہ بہت بڑے ڈیم نہ بناےُ جاییُں، جنہیں بنانے میں خرچ زیادہ آتا ہے. مناسب مقدار میں پانی جمع کرنے کے لیےُ کسانوں کے مشورے سے مناسب جگہوں پر چھوٹے ڈیم بنا لیےُ جاییُں. ایسے ڈیم بنانے پر سیاست نہ کھیلی جاےُ. اس طریقے پر عمل کر کے کسان زیادہ خوشحال اور ملک معاشی طور پر زیادہ مظبُوط ہوگا.

    حکومتی ماہرین کے پاس ایسی سکیمیں ہو سکتی ہیں ، جس سے اپنا مُلک سیلابوں کی تباہ کاریوں سے ، اگر مکمل طور پر نہ سہی، کافی حد تک قابُو پا سکتا ہے. اس کے لیےُ اپنے اختلافات بھُلا کر ، صرف اور صرف اپنے مُلک کی ترقی اور خوشحالی کو مد نظر رکھا جاےُ. مُلک ہے تو ہم ہیں.

    آگے بڑھیےُ، ملکی ترقی کے لیے ہر اختلاف بھُلا دیجیےُ. اللہ تعالے ان کی مدد کرتا ہے ، جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں.

    آللہ آپ کا حامی و ناصر ہو.
    پاکستان زندہ باد.

  • ہم کدھر جا رہے ہیں ؟ Where are we  going

    ہم کدھر جا رہے ہیں ؟ Where are we going

    ہم کدھر جا رہے ہیں ؟
    Where are we going ?

    ہم کدھر جا رہے ہیں ؟ یہ سوال ہر اُس شخص کے ذہن میں کلبلا رہا ہے ، جو اپنے وطن کا خیر خواہ ہے. جسے اپنے وطن سے محبت ہے اور جو اپنے وطن کو صحیح سمت میں ترقی کرتا ہُؤا دیکھنا چاہتا ہے. بد قسمتی سے اپنے ملک کی بیشتر آبادی اُن افراد پر مشتمل ہے ، جو قیام پاکستان کے بہت بعد پیدا ہُوےُ. یہ پود اُن قربانیوں سے کما حقہ واقف نہیں جو مسلمانوں نے قیام پاکستان سے پہلے دیں، اور اعلان آزادی کے بعد دیں. ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آنے والے لاکھوں مرد، عورتوں اور بچوں کو راستے میں ہی شہہید کر دیا گیا. جو لُٹے پُٹے مرد اور خواتین پاکستان پہنچے ، انہیں بسانے اور نییُ زندگی کا آغاز کرنے کا مرحلہ بڑا مشکل تھا. ان سب تکالیف کا ادراک نییُ پود کو نہیں

    عنوانات

    دُنیا کی سب سے بڑی ہجرت

    ہم ٹیکس دینا بوجھ سمجھتے ہیں
    ہم کدھر جا رہے ہیں ؟
    اشتہارات
    موبایُل فون کا غلط استعمال
    شیطان کے چیلے
    پاکستان کا قومی پرچم
    کرنے کا ایک کام

    دُنیا کی سب سے بڑی ہجرت

    دنیا کو فتح کرنے کی خواہش تو ابتداےُ آفرینش سے ہی بعض حکمرانوں کے دلوں میں رہی ہے ، ہلاکو خاں اور سکندر کی مثالیں تو تقریبآ سبھی لوگ جانتے ہیں. لیکن ان کے ادوار میں بھی اتنی بڑی ہجرتوں کا سراغ نہیں ملتا. اللہ کے آخری رسوُل جناب محمد صل اللہ علیہ و سلم اور اُن کے صحابہ کرام نے بھی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی تھی. لیکن قیام پاکستان کے وقت ہندوستان سے پاکستان کی طرف ہجرت کرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں تھی. بنگال کے قریب رہنے والے مسلمان بنگا ل کی طرف ہجرت کر گیےُ. بعض مسلمان گھرانوں نے ہندوستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا. اور اب ان پر جو بیت رہی ہے، وہ پچھتا رہے ہیں کہ ہم نے قیام پاکستان کے وقت پاکستان کی طرف ہجرت کیوں نہ کی

    ہندو کبھی بھی مسلمانوں کے دوست یا ہمدرد نہیں رہے. ہندو گاےُ کو اپنے خدا کا درجہ دیتے ہیں اور اس کی پوجا کرتے ہیں. مسلمان گاےُ کو ذبح کر کے اس کا گوشت کھاتے ہیں. ہندوؤں کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہُویُ ہے کہ مسلمان اُن کے خُدا کا گوشت کھاتے ہیں. اسی بات کی بنا پر ہر ہندو مسلمانوں کے خلاف دل میں نفرت رکھتا ہے. آج کل ہندوستان میں ہندو مسلم فسادات روز مرہ کا معمول ہیں، جس میں مسلمانوں کو شہید کرنا اور ان کے مکانوں کو آگ لگانا کار ثواب سمجھا جاتا ہے. مسلمانوں کے لیےُ مشکل یہ ہے کہ ہندو حکومت انہیں کسی مسلم ملک میں ہجرت کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتی. ہندوستان کے مسلمانوں کو کسی مسلمان ملک میں ہجرت کر جانے کا مسُلہ اقوام متحدہ میں اُٹھایا جاےُ تو شاید کویُ راستہ نکل آےُ.

    ہم ٹیکس دینا بوجھ سمجھتے ہیں.

    قیام پاکستان سے پہلے تک مسلمانوں کے ہر جلسہ اور جلوس میں ایک ہی نعرہ گُونجتا تھا. ” پاکستان کا مطلب کیا —- لا الہ الل اللہ ” . جب پاکستان بنا ، اُس وقت میں 13 سال کا تھا. مجھے لوگوں کا جوش و خروش آج تک یاد ہے. ًمہاجرین کی آمد ، مقامی عوام کی مہاجرین کی خدمت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ابھی تک میرے ذہن میں تازہ ہے. مہاجرین نے ہندوؤں کے چھوڑے ہُوےُ مکانات میں رہنا شروع کر دیا. اس طرح ان کے سر چھپانے کا مسُلہ حل ہو گیا. گاؤں کے کھاتے پیتے گھرانوں نے مہاجرین کو وقت پر کھانا دینے کا ذمہ لے لیا. آہستہ آہستہ مہاجرین نے محنت مزدوری کر کے اپنا کھانا خود پکانا شروع کر دیا. پھر مہاجرین کو کلیم میں زرعی زمینیں الاٹ ہو گییُں، اور وہ ان زمینوں پر کاشت کاری کرنے لگے. وہ زمانہ ایک دوسرے کا دُکھ بانٹنے کا تھا. آج کل جیسا نفسا نفسی کا زمانہ نہیں تھا. قایُد اعظم کی وفات کے بعد اقتدار کی جنگ چھڑ گییُ. لوگ عہدوں کے پیچھے اپنا ایمان بیچنے لگے. کسی وزیر اعظم کو ٹک کر کام کرنے نہیں دیا گیا. اس وقت انڈیا کا وزیر اعظم کہتا تھا کہ میں اتنی جلدی اپنی دھوتی نہیں بدلتا جتنی جلدی پاکستان کا وزیر اعظم بدل جاتا ہے. عوام روز روز کی تبدیلیوں سے مایوس ہونے لگے، اور یہ مایوسی آج تک اپنے پنجے گاڑے ہُوےُ پے. ملک پر چند خاندانوں کا قبضہ ہے، جو ادل بدل کر آتے ہیں. ان خاندانوں میں ایسے خاندان بھی ہیں جو اکیلے ہزاروں ایکڑ زرعی زمین کے مالک ہیں. یہی لوگ ہمیشہ اسمبلیوں میں آتے ہیں. اور ملک کے لیےُ قانون بناتے ہیں. اپنا ملک 77 سالوں کا ہو چکا ہے. آج تک زرعی پیداوار پر تیکس نہیں لگ سکا. وجہ ؟ اپنی زمینوں سے آمدنی پر تیکس کون لگاتا ہے ؟. زرعی زمینوں کے مالک اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں. اپنی خوشی سے ٹیکس کون دیتا ہے

    ہم کدھر جا رہے ہیں ؟

    قیام پاکستان کے بعد مجموعی طور پر عوام اچھے عادات و اطوار کے مالک تھے. اس سے پہلے تجارت پر غیر مسلمانوں کی اجارہ داری تھی. جو زیادہ تر ہندو ہوتے تھے . قیام پاکستان کے وقت اور بعد میں تجارت پیشہ لوگ ( ہندو) ہندوستان چلے گیےُ. جس سے تجارتی ماحول میں ایک خلا پیدا ہو گیا. جسے آہستہ آہستہ مسلمانوں نے پُر کرنا شروع کر دیا. جس سے ان دکانداروں کی زہنیت بھی بدل گیُ. وہ ہر کام میں ” نفع ” کو مقدم رکھتے. اور اس طرح ان میں ہمدردی کم اور لالچ کا عُنصر زیادہ ہو گیا. یا صحیح الفاظ میں ان کی زہنیت میں زر پرستی داخل ہو گییُ، اور ایک دوسرے سے ہمدردی غاٰ یُب ہونے لگی. آج کل یہ رُجحان کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے. لوگ پیسہ کمانے کے چکر میں جایُز اور نا جایُز کو نہیں دیکھتے. بس پیسہ آنا چاہییےُ. اس کے لیےُ لوگوں نے کیُ جال بچھا رکھے ہیں. جو کچھ اس طرح کے ہیں :

    نمبر 1 ؛ سٹیج ڈرامے

    ان سٹیج ڈراموں میں اداکار انتہایُ ذو معنی الفا ظ ادا کرتے ہیں. جن میں مزاح کا عُنصر پایا  .جاتا ہے. تماشایُ ایسے الفاظ پردل کھول کر ہنستے ہیں.یعنی ” جیسے ذبح کرنے والے، ایسے ہی کھانے والے. “اس کے علاوہ ستیج پر بڑے ہی بےہُودہ اور فُحش ڈانس دیکھنے کو ملتے ہیں. یہ سارا سیٹ اپ ہی اخلاق بگاڑنے میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے.

    نمبر 2 ؛ پنجابی فلمیں

    ایک زمانہ تھا، پنجابی فلموں میں گانے ضرور ہوتے تھے ، لیکن گانوں میں لچّر پن نہیں تھا.، جیسے آج کل کی پنجابی فلموں میں دکھایا جا رہا ہے. کویُ بھی خود دار آدمی آج کل کی پنجابی فلموں کو اپنی فیملی کے ہمراہ دیکھنا پسند نہیں کرتا. فلموں کی کہانی کو اپنے معاشرہ کی عکاسی کرنی چاہیےُ. لیکن آج کل کی پنجابی فلمیں کسی اور ہی معاشرہ کو پیش کرتی ہیں، آج کل کی فلموں میں جو لباس صنف نازک کو فلموں میں پہنے ہُوےُ دکھایا جاتا ہے ، یہ لباس پہن کر اگر کویُ لڑکی یا عورت بازار میں آ جاےُ، تو اس کے لباس کے متعلق عوام کے تبصرے سُن کر شرم سے ڈوب مرنے کو چاہے گی. فلمیں بنانے والوں نے پیسہ بٹورنے کے لیےُ عورت کو تماشہ بنا دیا ہے. فلمساز اس طرح کی فلموں سے جو پیسہ اکٹھا کرتا ہے ، اس کے بارے میں کسی صحیح عالم دین سے یہ ضرور پوچھے کہ آخرت میں یہ پیسہ اسے کتنا آرام دے گا

    ٹیلی ویژن

    آج کل ٹیلی ویژن اشتہار بازی کا سب سے بڑا مقبول ذریعہ ہے. ٹی وی پر دکھاےُ جانے والے ہر اشتہار میں مخلوط ڈانس ضرورت بن گیا ہے. ان اشتہارات میں خیر سے بڑی عمر کی امّاں جان بھی تھرکتی نظر آتی ہیں. یہ زمانہ بھی دیکھنا تھا. موجودہ ٹیلی ویژن نیُ پود کے ذہنوں میں اسلامی اقدار کو مٹا کر مغربی مادر پدر آزاد معاشرہ کی طرف لے جا رہا ہے، جسے یہ ترقی کا خوبصورت نام دے کر ذہنوں کو اُلجھا رہا ہے. حکومت کو چاہیےُ کہ وہ ایسے اداروں کو نکیل ڈالے ، ان کے لیےُ ایک ضابطہ اخلاق بناےُ، جس میں مستورات کے لیےُ مہذب لباس  لازمی قرار دیا جاےُ. موجودہ ٹیلی ویژن نے عورت کے سر سے دوپٹہ اُتار پھینکنے میں بڑی محنت کی ہے. آپ کویُ بھی ٹی وی چینل دیکھ لیں، یُوں محسوس ہوتا ہے کہ ان ٹی وی چینلز کے پاس مردانہ سٹاف کی کمی ہے ، خبریں عورتیں پڑھتی ہیں، 90 فی صد پروگراموں کی میزبان عورتیں ہوتی ہیں، کسی میزبان عورت کے سر پر دوپٹہ نہیں ہوتا. صوبہ پنجاب کی حکومت میں تمام وزرا عورتوں کے سر پر دوپٹہ ہوتا ہے. ان کے لباس بھی شریفانہ ہوتے ہیں، یہ پاکستانی عورتوں کے لیےُ ایک مثال ہے ،کہ ایک مسلمان عورت اپنے لباس میں مغربی تہذیب کی تقلید نہیں کرتی. مغربی تہذیب کے بارے میں اپنے قومی شاعر اقبال نے کیا خُوب کہا تھا ؛

    تمہاری تہذیب خود اپنے ہی خنجر سے خودکشی کرے گی
    شاخ  نازک پہ جو بنے  گا  آشیانہ  نا پایُدار  ہوگاا

    اشتہارات

    ٹاجر لوگ اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لیےُ اشتہارات کا سہارا لیتے ہیں. عوام ان اشتہارات کو دیکھ کر مختلف مصنوعات کو خریدتے ہیں. اس طرح اشتہارات کسی چیز کی فروخت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں. اشتہاری کمپنیاں اشتہارات کو پُر کشش اور دیدہ زیب بنانے کے لیےُ کیُ ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں. ان ہتھکنڈوں میں اشتہارات میں عورت کو مختلف انداز میں دکھایا جاتا ہے. آج کل ” صاف چھُپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں ” والا معاملہ چل رہا ہے.آج کل عورت کی تذلیل جس طرح اشتہارات کے ذریعے کی جا رہی ہے، اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گییُی . اشتہاری کمپنیاں اشتہارات کو مٍغربی تہذیب کی طرز پر لیےُ جا رہے ہیں. ٹی وی پر دکھاےُ جانے والے اشتہارات میں ماڈل لڑکیاں دوپٹہ سے بے نیاز اپنے سینے کی نمایُش کرتی نظر آتی ہیں. اس قسم کے اشتہارات نوجوانوں میں بے راہ روی کے رجحانات کو اُبھار رہے ہیں، بے راہ روی کے واقعات اخبارات میں روزانہ رپورٹ ہو رہے ہیں. ایسے واقعات کی روک تھام کے لیےُ مُجرم کو صرف سزا کے طور پر قید یا صرف جُرمانے کی سزا کافی نہیں. ہمیں اُس نالی کو بند کرنا چاہیےُ جہاں سے اس بدی کا اخراج ہو رہا ہے.

    موبایُل فون کا غلط استعمال

    موبایُل فون کے جہاں فایُدے ہیں، وہیں اس کے نقصانات بھی ہیں. آج کل انٹر نیٹ کا زمانہ ہے. موبایُل فون کے ذریعے ہم دُنیا بھر میں جس جگہ چاہیں بات چیت کر سکتے ہیں. ہمارے ارد گرد دُنیا میں  جہاں اچھے لوگ ہیں وہیں پر شیطان کے چیلے بھی کافی تعداد میں موجود ہیں. یہ لوگ انٹر نیٹ کے ذریعے ندی کے کاموں کو بھی پھیلا رہے ہیں. فُحش فلموں کو انٹر نیٹ پر چلانا ایسا ہی ایک کام ہے . جو پُوری دُنیا میں پھیلا ہُؤا ہے. اُن کی نظروں میں یہ ایک کاروبار ہے. جس سے کافی دولت کمایُ جا سکتی ہے. موبایٌل فون نے ایسی جگہوں تک رسایُ ممکن بنا دی ہے .اپنے ملک کی نوجوان پود موبایُل فون پر یہ فُحش فلمیں دیکھتے ہیں ، اور پھر عملی قدم اُٹھا کر اس دلدل میں پھنس جاتے ہیں. مسُلہ یہ ہے کہ حکومت ایسے فُحش چینل بند کس طرح کرے ! ان میں بعض چینل معلوماتی بھی ہیں. جن سے طلباُ فایُدہ اُٹھاتے ہیں. کاروباری حضرات بھی انہیں استعمال کرتے ہیں.

    ان فُحش چینلز کو بلاک کرنے کا ایک طریقہ شاید کام کر جاےُ. پچھلے دنوں پی ٹی اے نے غلط خبروں اور پراپوگنڈا کو بلاک کرنے کے لیےُ  فایُر والو قسم کے کچھ آلات لگاےُ تھے ، جو کافی کار آمد ثابت ہُوےُ. کچھ اس قسم کے انتضامات ان فُحش چینلز کو بلاک کرنے لیےُ بھی کیےُ جا سکتے ہیں. کوشش کرنے سے ان فُحش چھینلز کو بلاک کیا جا سکتا ہے. اگر ایسا ہو جاےُ تو انسانیّت کی بہت بڑی خدمت ہو گی.

    شیطان کے چیلے

    ایسا لگتا ہے کہ شیطان ملعون نے اپنے سارے چیلے ہمارے ملک میں بھیج دیےُ ہیں. آپ کویُ بھی اخبار پڑھ لیں . ہر اخبار میں شیطانی کاموں کے بے شمار واقعات پڑھنے کو ملیں گے. سب سے زیادہ ہولناک ان چھوٹی بچیوں کی خبریں ہوتی ہیں، جنہیں درندگی کا نشانہ بنایا گیا ہو. بات یہیں تک نہیں رہتی، بلکہ پکڑے جانے کے خوف سے شیطان کے پُجاری انہیں گلہ گھونٹ کر مار دیتے ہیں. ایسے درندے یقینآ اپنی زندگی میں ہی اپنی سزا پاییُں گے، اور آخرت میں ان کے ساتھ جو کچھ ہوگا اس کا تصور ہی رُونگٹے کھڑے کر دیتا ہے. ایسے مجرم کو پھانسی کی سزا ملنی چاہیےُ. ایسے مجرم کی لاش کو کسی چوراہے میں سات دن تک لٹکا رہنا چاہیےُ.

    پاکستان کا قومی پرچم

    پاکستان کا قومی پرچم کیسا ہو ؟ اس پر اپنے ملک کی پہلی قومی اسمبلی میں بحث ہوُیُ. سب ممبران نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پاکستان کا قومی پرچم کا رنگ سبز ہو گا ، جس کے باییُں طرف سفید رنگ کی پٹی ہوگی، جو پرچم میں اقلیتوں کی نمایُندگی ظاہر کرے گی. پرچم کے سبز رنگ کے حصہ میں چاند اور ستارہ ہوگا. چاند کی دونوں نوکیں باییُں طرف ہوں گی ، چاند کی یہ کیفیت چاند کی پہلی تاریخ سے لے کر چودھیں یا پندھرویں تک ہوتی ہے، ان دنوں میں چاند عروج کی طرف جا رہا ہوتا ہے . یعنی چاند ہلال سے بڑھتا ہُؤا مکمل چاند تک ( بدر تک ) پہنچتا ہے. قومی اسمبلی ممبران نے اس بات پر خصوصآ توجہ دی کہ پرچم میں چاند کو مکمل ہونے کی طرف بڑھتا ہُؤا دکھایا جاےُ. مرکزی یا کسی صوبایُ ھکومتوں کے لیٹر ہیڈ پر چاند کی نوک باییُں طرف ہیں اور بیچ میں ستارہ ہوتا ہے.

    اب آپ ذرا ہر جگہ لہرانے والے قومی پرچم کو دیکھیں. اس میں چاند کی دونوں نوکیں داییُں طرف ہیں، چاند جب گھٹنا شروع ہوتا ہے تو اس کی دونوں نوکیں داییُں طرف ہوتی ہیں. یہ اس کے زوال کی نشانی ہے. پاکستان کے قومی پرچم پر چاند کی پوزیشن یہ ظاہر کرتی ہے کہ گویا ( نعوذ باللہ ) جس ملک کا یہ پرچم ہے ، وہ زوال کی طرف جا رہا ہے.

    میں نے 23 جولایُ 2020 کو ایک آرٹیکل “ میری آواز سُنو- لا علمی یا جہالت ” اسی ویب سایُٹ پر پبلش کیا تھا ، جس میں تصاویر کے ساتھ یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ پاکستان کے قومی پرچم میں چاند کو رو بہ زوال دکھایا جا رہا ہے. اس سے ذہن میں یہ تصور اُبھرتا ہے کہ ہم لا علمی میں یا جہالت میں دُنیا کو یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جس ملک کا یہ پرچم ہے ، وہ زوال کی طرف جا رہا ہے . ہو سکتا ہے کہ میری یہ تاویل صحیح نہ ہو. لیکن مجھے یوں محسوس ہوتا ہے اپنے ملک کی نمایُندگی کرنے والا زوال پذیر چاند ہم پر اپنا بُرا اثر ڈال رہا ہے.

    ہم نے بہت عرصہ زوال پذیر چاند کو اپنا قومی نشان بنا رکھا ہے. اب ذرا اس کی سمت کو بدل کر دیکھنا چاہیےُ. یعنی اپنے قومی پرچم میں چاند کی دونوں نوک بایُیں طرف ہوں، جس سے یہ تاثر اُبھرے کہ چاند عروج کی طرف جا رہا ہے.

    کرنے کا ایک کام

     آپ نے بھی محسوس کیا ہوگا کہ ملک میں عُریانی بڑھ رہی ہے. صنف نازک نے حیا کے محافظ، اللہ کے حُکم ، سر اور سینے کو چادر یا دوپٹہ سے ڈھانکے رکھنے کو ، محدود تعداد کو چھوڑ کر، رد کر کے اللہ کی نافرمانی کی ہے. ٹی وی پر عورتیں اپنے سینے کی نمایُش کر رہی ہیں، استغفراللہ، اس رجحان کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے.

    اللہ تعالے سے دُعا ہے کہ وہ ہم سب کو سیدھے راستے پر چلنے کی ہدایت اور توفیق عطا فرماےُ، آمین، ثم آمین.

  • ہمارے سُلگتے مسایُل نمبر 17،  مہنگایُ- Our burning issues # 17- Dearness

    ہمارے سُلگتے مسایُل نمبر 17، مہنگایُ- Our burning issues # 17- Dearness

    ہمارے سُلگتے مسایُل نمبر 17- مہنگایُ
    Our burning Issues # 17 – Dearness

    Our burning issues- dearness

    ہمارا ملک امیر ممالک میں شمار نہیں ہوتا. اس کی بہت ساری وجوہات ہیں. جو ہم ذرا تفصیل سے بیان کرنے کی کوشش کریں گے. یہاں میں صرف یہ بتانے کی کوشش کروں گا کہ مہنگایُ کا رونا رونے سے کچھ نہیں ہوگا. مہنگایُ صرف حکومت ختم نہیں کر سکتی. ٰیہ صحیح ہے کہ مہنگایُ کم کرنے کے لیےُ حکومت کچھ اقدامات کر سکتی ہے. جسے ہم تھوڑی دیر میں زیر بحث لاییُں گے. اس کے ساتھ کچھ ذمہ داری عوام پر بھی پڑتی ہے . دونوں کی کوششوں سے ہی مہنگایُ پرقابو پایا جا سکتا ہے.

    عنوانات

    خود کشی مہنگایُ کا حل نہیں ہے .
    حکومت کے کرنے کے کام.
    مہیگی سبزیاں
    یہاں ہم مجبور ہیں.
    اشیا کی قیمتوں پر کنٹرول
    مرکزی مارکیتیں
    جان چھُڑا لیں

    خودکُشی مہنگایُ کا حل نہیں ہے.

    کون نہیں جانتا کہ اس وقت ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی منہ زور مہنگایُ سے تنگ ہے. بعض بُزدل لوگ اس مہنگایُ سے چھُٹکارہ پانے کے لیےُ انتہایُ قدم اُٹھاتے ہُوےُ خود کُشی کر رہے ہیں. خودکُشی مہنگایُ کا حل نہیں ہے. کسی کو زندگی دینا یا موت دینا یہ صرف اور صرف اللہ تعالے کا اختیار ہے. خود کُشی کرنے والا اپنی زندگی کو ختم کر کے گویا اللہ تعالے کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے، جو شرک ہے اور اللہ تعالے سب گناہ بخش سکتا ہے، لیکن شرک کے گناہ کو نہیں بخشے گا. اسی لیےُ خودکُشی کرنا حرام ہے ، اور اس کی بڑی سخت سزا کی وعید دی گییُ ہے. یہ درست کہ مہنگایُ بہت ہے ، اس کا مقابلہ جواں مردی سے کرنا ہوگا. چلییےُ ، ہم دیکھتے ہیں کہ مہنگایُ کیسے کم کی جا سکتی ہے.

    حکومت کے کرنے کے کام

    مہنگایُ کو ختم کرنے کے لیےُ حکومت اور عوام دونوں کو کام کرنا ہوگا. حکومت کے کرنے کام یہ ہیں

    کفایت شعاری

    مہنگایُ کم کرنے کے لیےُ کفایت شعاری پہلا اور لازمی قدم ہے. اپنی حکومت کے اخراجات بڑے شاہانہ ہیں. چھوٹے سے چھوٹا افسر بھی نیےُ ماڈل کی نییُ گاڑی چاہتا ہے. ہمارا ملک 1947 سن عیسوی میں جب آزاد ہُؤا تو قایُد اعظم کی وفات کے بعد اقتدار کی رسہ کشی شروع ہو گییُ. پاکستان بنانے کا مقصد پس پشت چلا گیا. عہدہ حاصل کرنے کا مقصد آسایُشوں کا حصول تھا. اس کے برعکس انڈیا میں کفایت شعاری کی مہم شروع ہویُ. اُس زمانے میں سوزوکی موٹر کمپنی ایک کار بناتی تھی، جس کا نام ” ماروتی ” تھا. انڈیا کے وزیر اعظم سے لے کر تمام افسروں کو، جنہیں گاڑی مہیا کرنا ضروری تھا، صرف ماروتی گاڑی ہی دی جاتی تھی. اس وقت ماروتی گاڑی کی قیمت بہت کم تھی. انڈیا والوں نے اس طرح بہت پیسہ بچایا. ادھر ہماری طرف نیےُ ماڈل کی گاڑیوں کی بہتات سے بہت سارا پیسہ ضایُع کر دیا گیا. یہ چلن آج تک جاری ہے. پچھلے دنوں قومی اسمبلی کی ایک قایُمہ کمیٹی کے چیُرمین نے نیُ گاڑی کی فرمایُش کی تھی. اس وقت قومی اسمبلی کے تمام اراکین کے پاس اپنی اپنی ذاتی گاڑیاں ہیں. کیا وہ اپنے مُلک ، پاکستان کے لیےُ اتنی قربانی نہیں دے سکتے کہ حکومت سے نییُ گاڑی لینے کی بجاےُ اپنی ذاتی گاڑی استعمال کریں ! اس ملک نے آپ کو بہت عزّت دی ہے. کیا آپ اپنے وطن عزیز کے لیےُ اتنی قربانی بھی نہیں دے سکتے

    حکومت ایک قانون بنا لے کہ کسی بھی مجاز افسر کو 1300 سی سی طاقت کی گاڑی ہی دی جاےُ گی. اسی طرح ماہانہ پٹرول کی مقدار بھی کم کر دی جاےُ. دیکھا گیا ہے کہ جو گاڑیاں افسران کو حکومتی فرایُض انجام دینے کے لیےُ دی جاتی ہیں، وہ گاڑیاں ان افسران ( چند ایک کو چھوڑ کر ) کے بچوں کو سکول چھوڑنے اور انہیں واپس گھر لانے کے لیےُ استعمال ہوتی ہیں. اس کے بعد افسران کی بیگمات اور ان کے بچوں کی شاپنگ پر جانے کے لیےُ پابند ہوتی ہیں. گاڑیوں کا یہ استعمال ” امانت میں خیانت ” کے زُمرے میں آتا ہے. کچھ دن پہلے کی بات ہے، ایک ٹی وی چینل کا نمایُندہ دفتری اوقات کے بعد سبز رنگ کی پلیٹ نمبر کی گاڑیوں کے ڈراییوروں سے یہ سوال کر رہا تھا کہ کیا آپ اس وقت کسی سرکاری ڈیوٹی پر ہیں ؟ جو یہ سرکاری گاڑی استعمال کر رہے ہیں؟ بعض لوگوں نے اقرار کیا کہ وہ اپنے ایک نجّی کام کے لیےُ اس گاڑی پر آےُ ہیں. بعض نے صرف گھُور کر دیکھا. جواب نہیں دیا. اکثریت کا جواب تھا کہ وہ اپنے ایک چھوتے سے نجی کام کے لیےُ اس گاڑی پر آےُ ہیں. ایک آدھ نے جواب دیتے ہوُےُ شرم بھی محسوس کی. افسران جب سرکاری گاڑی کو اپنے ذاتی استعمال کے لیےُ کہیں لے جاتے ہیں ، تو گاڑی کی لاگ بُک ( اگر کویُ ہو ) میں کیا لکھتے ہیں، وہ جانیں اور ان کا خُدا جانے.

    کفایت سعاری کے کییُ طریقے اپناےُ جا سکتے ہیں.

    نمبر 1 = ھکومتی افسران کے کمرے عمومآ ایُر کنڈیشنڈ ہوتے ہیں. دفتر میں کام کرتے ہُوےُ اگر کہیں باہر جانا پڑ جاےُ، تو ایُر کندیشنرز کو آف کر دیا جاےُ.

    نمبر 2 = کمرہ اگر کافی دیر تک خالی رہنا ہو تو کمرہ کی تمام لایُٹس بند کر دی جایُیں.

    نمبر 3 = ًمحکمہ تعلیم میں ہزاروں گھوسٹ ٹیچرز کا سراغ لگایا گیا ہے، جو گھر بیٹھے محکمہ سے تنخواہ وصول کر رہے ہیں. یہ ایک سخت قسم کی بے ایمانی ہے. ایسے لوگوں کو اور اُن کے پُشت پناہوں کو کڑی سزا دی جاےُ.

    نمبر 4 = ایسی اطلاعات بھی اخبارات میں شایُع ہُوی ہیں کہ کچھ حکومتی افسران کی بیگمات ” بے نظیر انکم سپورٹ ” سے ماہانہ امداد وصول کرتی رہی ہیں یا وصول کر رہی ہیں. ایسی اطلاعات کی سخت تفشیش ہونی چاہیےُ. اور قصورواروں کو نوکری سے نکال دینا چاہیےُ. چور چوری چھوڑ دیتا ہے، ہیرا پھیری سے باز نہیں آتا.

    نمبر 5 = حکومت کے مُختلف ٹھیکوں میں کرپشن کے مختلف طریقے ایجاد ہیں. ایسے کرپشن زدہ ٹھیکوں میں ٹھیکیدار میٹیریل کی منظور شدہ کوالٹی سے گھٹیا کوالٹی کا سامان لگاتا ہے. جس سے تیار شدہ منصوبہ جلد ہی مرمت طلب ہو جاتا ہے. واپڈا کا ایک پاور پلانٹ ایسے ہی کمالات کا ایک مظہر ہے جو ہر چھ ماہ بعد کسی نہ کسی خرابی سے بند ہو جاتا ہے. ماہرین نے سارے معاملے کو کھوج کر یہ اندازہ لگایا ہے کہ جہاں پاور پلانٹ لگایا گیا ہے وہان کی مٹّی بھُر بھُری ہے جو پاور پلانت کا بوجھ سہار نہیں سکتی . سارا پیسہ ضایُع ہو گیا.

    نمبر 6 = بعض اطلاعات کے مطابق پنجاب اسمبلی کے حال ہی میں تیار شدہ چھت بارش میں ٹپکنے لگی. یہ ہے کمال تھیکہ پر کام کروانے کا ، اور پھر اس پر نگرانی کا نہ ہونا. ایک پرایُیویٹ بلڈر کمپنی بحریہ ٹاؤن کے نام سے مشہؤر ہے. اس کی رہایُشی سکیموں میں لوگ پلاٹ لے کر اپنے مکانات بناتے ہیں. یہ مکانات عمومآ وہاں پر موجود ٹھیکیدار بناتے ہیں. بحریہ ٹاؤن کے انسپیکٹر مکانوں کی تعمیر میں استعمال ہونے والے ہر میٹیریل کو جانچتے ہیں . اگر میٹیریل مقررہ معیار سے کم تر ہو تو وہ میٹیریل رد کیا جاتا ہے ، اور نیا میٹیریل منگوا کر اس کو اس کو ٹیست کیا جاتا ہے. معیار پر پُورا اترنے والے میٹیریل کو ہی مکان کی تعمیر میں استعمال کی اجازت ہوتی ہے. یہ انسپکٹر مکان کی تعمیر میں استعمال ہونے والے سیمنٹ اور ریت کی نسبت بھی اپنے سامنے ڈلواتے ہیں. اینٹوں کی پختگی کو بھی جانچا جاتا ہے. مکان کی تعمیر مکمل ہونے پر آخری معایُنہ ہوتا ہے. ہر چیز معیار کے مطابق ہونے پر سرٹیفیکیٹ دیا جاتا ہے کہ یہ مکان رہایُش کے قابل ہے. اتنی سخت چانچ پڑتال حکومتی ٹھیکوں میں بنننے والے پروجیکٹ میں نہیں ہوتی. اس لیےُ جلد ہی ان میں تعمیراتی نقایُص ظاہر ہونے لگتے ہیں. حکومت اپنے پروجیکٹ میں جانچ پڑتال پر سختی سے عمل کرے تو تعمیر کے بعد ہونے والے نقایُص پر اُٹھنے والے اخراجات بچاےُ جا سکتے ہیں.

    نمبر 7 = اپنے مُلک کا کسان دن رات محنت کرتا ہے. گندم کی کٹایُ کے بعد کسان کو گندم فروخت کرنے میں مشکل پیش آتی ہے. آڑھتی لوگ گندم کی بہت کم قیمت خرید لگاتے ہیں. بّعض خریدار گندم اُدھار پر خریدنا چاہتے ہیں. یعنی کسان ہر طرف سے خسارے میں دکھای دیتا ہے. اکثر کسانوں نے گندم کا بیج اور کھاد ادھار پر لی ہوتی ہے. اب اگر کسان کی گندم اچھی قیمت پر نہ بکے اور وہ اسے کھیت میں ہی پڑی رہنے مجبور ہو جاےُ، گندم کی کٹایُ اور گہایُ ، دیسی طریقے سے ہو یا مشین کے ذریعے، کے بعد اسے محفوظ طریقے سے ذخیرہ کرنا ضروری ہوتا ہے. کیونکہ ان دنوں میں اچانک بادل چھا جاتے ہیں اور بڑی زوردار بارش شروع ہو جاتی ہے. بھیگی ہویُ گندم کا خریدار کم ہی ملتا ہے. اگر کویُ خریدار مل بھی جاےُ تو وہ انتہایُ کم قیمت دیتا ہے ،اور شایُد وہ بھی اُدھار پر. کسان کو اس کی فصل کی قیمت اچھی اور بروقت نہ ملے تو وہ اگلے سال اتنی ہی گندم اُگاےُگا جو اس کے خاندان کے سال بھر کے لیےُ کافی ہو. اگر بہت سارے کسان زیادہ گندم نہ اُگاییُں تو ایکسپورت کے لیےُ گندم کہاں سے لاییُں گے!. حکومت کو ایسا انتظام کرنا چاہیےُ کہ کسان کو اس کی فروخت کی ہویُ گندم کی جایُز قیمت بروقت مل جاےُ.

    مہنگی سبزیاں

    کھانا ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے. یہ ٹھیک ہے کہ انسان کچھ کھاےُ پیےُ بغیر کچھ دن زندہ رہ سکتا ہے. لیکن کب تک ! کھانا کھانے کے لیےُ کچھ ایسی چیز چاہیےُ جو اگر روٹی کے ساتھ کھایُ جاےُ ، تو وہ روٹی کو مزیدا ر بنا دے. اس کے لیےُ سبزیوں کو مُختلف نُسخہ جات کے ذریعے لذیذ اور خوش ذایُقہ بنایا جاتا ہے. ہمارے ملک کے پکاےُ ہوےُ کھانے دُنیا بھر میں پسند کیےُ جاتے ہیں.

    لیکن اب حالت مہگایُ کی وجہ سے یہاں تک پہنچ چُکی ہے کہ لوگ مجبورآ بہت کم مقدار میں سبزیاں پکاتے ہیں. لوگ کیا کریں، گھر کے پاچ چھے افراد کے لیےُ سبزیاں لینے جاییُں تو سات آٹھ سو روپیہ خرچ ہو جاتا ہے. دکاندار سے کچھ کہیں تو وہ مہنگایُ کا رونا لگ جاتا ہے.

    مہنگایُ کا ایک علاج ہے، جو چیز مہنگی ہے اسے نہ خریدیں، یا اس کا استعمال بہت کم کر دیں. چھے سات سال ہُوےُ، اپنے مُلک میں پیاز بہت مہنگا ہو گیا. یہی پیاز 1970 میں 4 روپے کا ایک من بکتا تھا. اب جو پیاز مہنگا ہُؤا تو اپنے ملک میں ” پیاز نہ کھاو‌” کی تحریک شروع ہو گییُ،
    لوگوں نے پیاز خریدنا بند کر دیا. عورتوں نے ہانڈی پکاتے وقت پیاز کی جگہ دہی ڈالنا شروع کر دیا. پیاز کے بیوپاریوں نے جب دیکھا کہ پیاز کی فوخت بند ہو گیُ ہے، تو انہوں نے پیاز سستا کر دیا. اس تحریک کے بارے میں ہمارا آرٹیکل پڑھیےُ ” Together we can

    ایک بات ذہن میں رکھیں. اتفاق میں بہت برکت ہے. موجودہ وقت میں اس کی ایک مثال بنگلہ دیش کی ہمارے سامنے آیُ ہے. جہاں طلبا نے متحد ہو کر 16 سال سے برسر اقتدار سخت گیر وزیراعظم حسینہ واجد کو انڈیا فرار ہونے پر مجبور کر دیا. فرض کریں ، کویُ ایک سبزی بہت مہنگی ہو جاتی ہے. عوام وہ سبزی خرید کر کھانا چھوڑ دیں ، 15 دن کے اندر اندر وہی سبزی بہت سستی ہو جاےُ گی. عوام متحد ہو جاییُں تو ہر دفعہ کویُ ایک مہنگی سبزی خریدنا ااور کھانا چھوڑ دیں، چند ہی دنوں میں اس سبزی کی قیمت نصف سے بھی کم ہو جاےُ گی. مسُلہ صرف یہ ہے کہ ” کُنڈی کون کھولے گا

    یٰہاں ہم مجبور ہیں.

    ایک آدمی نے اللہ کے رسول کے صحابی علی علیہ السلام سے پوچھا کہ انسان کس حد تک آزاد ہے اور کہاں تک مجبور ہے. آپ نے فرمایا ” اپنا ایک پاؤں اوپر اُٹھا لو” سوالی نے اپنا ایک پاؤں اُوپر اُٹھا لیا، ّعلی علیہالسلام نے فرمایا ” دیکھو، یہاں تک تم آزاد تھے. ” پھر فرمایا ” اپنا دوسرا پاؤں بھی اوپر اُٹھا لو ” وہ شخص کہنے لگا ” اگر میں نے اپنا دوسرا پاؤں اوپر اُٹھایا تو میں گر پڑوں گا ” ّعلی علیہ السلام نے فرمایا ” یہاں سے تمہاری مجبوری کی ابتدا ہوتی ہے “.

    جہاں تک کھانے پینے کی چیزوں کا تعلق ہے ، وہاں تک تو ہم اپنی مرضی کر سکتے ہیں. لیکن ایک چیز ایسی ہے جس پر ہمارا کنٹرول نہیں. آج کل کپڑا خریدنے جاییُں ، تو کپڑوں کی قیمتیں سُن کر دن میً تارے نظر آنے لگتے ہیں. کپڑا ایک ایسی چیز ہے جس کا بایُکاٹ نہیں کیا جا سکتا. یہاں ہم مجبُور ہیں. باقی اشیاُ کا بایُکاٹ کیا جا سکتا ہے. مہنگایُ ختم کرنے کے لیےُ مختلف اشیا کا بایُکاٹ ضرور کرنا چاہیےُ ، تاکہ مہنگایُ کم ہو سکے.

    اشیا کی قیمتوں پر کنٹرول

    مختلف علاقوں کی مارکیٹ کمیٹیاں تقریبآ 10 بجے صبح سبزیوں کی دکانوں پر ہر سبزی کی اُس دن کے لیےُ خوردہ قیمتوں کی ایک فہرست تقسم کی جاتی ہے. جسے سبزی فروش ایک طرف رکھ دیتے ہیں. اورسبزیاں اپنی مقرر کردہ قیمت پر فروخت کرتے ہیں. یعنی اس بات پر کویُ کنٹرول نہیں کہ سبزیاں مقرر کردہ قیمت پر فروخت ہو رہی ہیں یا نہیں. حکومت اگر سختی سے کنٹرول کرے کہ سبزیاں مقرر کردہ قیمت پر فروخت ہوں، تو مہنگایُ بڑی حد تک موجودہ سطح سے نیچے آ جاےُ گی.

    مرکزی مارکیٹیں

    ہمارے ملک میں دکانوں کا کسی ایک جگہ مرکوز ہونے کا رواج نہیں . ہر شخص جب چاہے، جہاں چاہے ، اپنی دکان کھول سکتا ہے. اور جو چاہے فروخت کر سکتا ہے. یہ ایک بے ہنگم طریقہ ہے. بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہر یونین کونسل میں آبادی کو مدنظر رکھتے ہُوےُ چار یا پاںچ مارکیٹیں بنایُ جاییُں. جو اوپر سے کورڈ ہوں. ان مرکزی مارکیٹوں میں مناسب رقبہ پر دکانیں بنایُ جاییُں. وہاں ہر قسم کی دکانوں ہوں. مثلا سبزی کی سب دکانیں ایک جگہ، فروٹ کی دکانیں ایک جگہ گوشت کی دکانیں ایک جگہ پر ہوں. یعنی گاہک کو اگر گوشت لینا ہو تو وہ ادھر ادھر گھومنے کی بجاےُ مقررہ جگہ پر جاےُ اور گوشت خرید لے. ہر دکاندار اپنی دکان اور دکان کے سامنے والی کھلی جگہ کی صفایُ کا ذمہ دار ہو. مارکیٹ کےکسی ایک کونے میں کوڑا ڈالنے کے لیےُ جگہ مُختص کی جاےُ.

    مرکزی مارکیٹ میں اتنی جگہ ہو کہ اس میں دکانوں کی چار قطاریں لمبایُ میں بنایُ جا سکیں. ہر قطار کے درمیان پارٹیشن کےلیےُ ایک دیوار ہو، جس کے دونوں طرف دکانیں ہو. یہ صرف ایک آیُڈیا ہے، اس میں ضرورت کے مطابق جمع تفریق کی جا سکتی ہے.

    ایسی مرکزی مارکیٹیٹوں کے بننے کے بعد علاقہ میں جگہ بہ جگہ کھُلی ہویُ دکانوں کو ان مرکزی مارکیٹوں میں جگہ دی جاےُ.

    مہنگایُ کو صرف حکومت یا صرف عوام ختم نہیں کر سکتے. مہنگایُ سے نمٹنے کے لیےُ ایک مربُوط لایُحہ عمل کی ضرورت ہے. جہاں تک میں سمجھا ہُوں، حکومت کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ ہم مہنگایُ پر کس طرح قابو پایُیں. اس میں کویُ حرج نہیں اگر ہم کسی ایسے ملک کے کسی ماہر سے مشورہ کر لیں، جس نے اپنے ملک میں مہنگایُ پر قابو پایا ہو.

    ہمارے ملک کا معاشی ڈھانچہ عجیب گورکھ دھندا ہے. ہر شخص زیادہ منافع کمانے کے چکر میں ہیں. نعض کام ایسے ہیں ،جو ملک پر بوجھ ہیں.

    مہنگایُ کم کرنے کے لیےُ چند تجاویز ہیں.

    جان چھُڑا لیں.

    نمبر 1 = وہ ادارے جو غیر فعال ہیں، اور ملکی خزانہ پر محض بوجھ ہیں، ان سے جان چھڑا لی جاےُ.
    نمبر 2 = پی آیُ اے کسی زمانے میں منافع بخش ایُر لایُن تھی. اب یہ کروڑوں کی مقروض ہے. اسے کس نے اس حالت تک پہنچایا ؟. کیا یہ دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکتی ہے ؟. اگر ایسا ممکن ہے تو اسے اپنے پاؤن پر کھڑا ہونے میں مدد دیں. اس کے لیےُ اس میں ایک بے رحم آپریشن کی ضرورت ہے. فالتو عملہ سے جان چھُڑانی ہوگی. اس کی فلاُیُٹ سروس بہتر کرنی ہوگی. آخراجات کم کرنے پڑیں گے. یہ سب کچھ کرنے میں اگر مونچھ داڑھی سے بڑھ جاےُ تو اس سے جان چھڑانے کے لیےُ کچھ کرنا پڑے گا.
    نمبر 3 = آیُ پی پی سے بجلی پیداواری کے معاہدے ایسے ہیں کہ ان سے جان چھُڑانی مشکل ہے. ان معاہدوں کے کچھ خدو خال کچھ یُوں ہیں ؛

    نمبر 1 = بے نظیر بھٹّو نے 1994 سن عیسوی میں ، جب وہ ملک کی وزیر اعظم تھی ، آیُ پی پی ( انڈیپینڈینٹ پاور سپلایُرز) سے بجلی پیدا کرنے اور ملک کو سپلایُ کرنے کے معاہدے کیےُ.
    نمبر 2 = آیُ پی پی معاہدے کے مطابق 43،000 میگا واٹ بجلی سپلایُ کریں گے.
    نمبر 3 = ہمارے ملک کا بجلی ترسیلی نظام پرانا ہے جس کے ذریعے صرف 13،000 میگا واٹ کی بجلی کی ترسیل ممکن ہے.
    نمر 4 = آیُ پی پی ہم سے ہر سال تقریبآ 2000 ارب روپیہ ” کیپیسیٹی چارجز ” کے نام پر وصول کر رہے ہیں. آیُ پی پی والے کہتے ہیں کہ یہ 2000 ارب روپے ان یُونٹوں کی پیداواری لاگت ہے جو ہم نے استعمال ہی نہیں کیےُ.

    ان معاہدوں کے مطابق ہم 43،000 میگا واٹ یونٹ کی قیمت ادا کرنے کے پابند ہیں چاہے ہم یہ ساری بجلی استعمال کریں یا نہ کریں. یہ معاہدے ایک گورکھ دھندا ہیں، مندرجہ بالا مندرجات میں غلطی کی گنجایُش ہے. یہ مندرجات محترم ڈاکٹر اختیار بیگ کے ایک مضمون ” آیُ پی پی معاہدے – ناؤ ڈبو سکتے ہیں ” سے لیےُ گیےُ ہیں، جو روزنامہ جنگ، لاہور کے 12 اگست 2024 کے شمارے میں شایُع ہوےُ ہیں.

    اللہ تعالے سے دُعا ہے کہ وہ ملک کے عوام کے لیےُ سہولتوں کے دروازے کھول دے.