Author: admin

  • پنجابی ڈھولے ، قسط نمبر 13

    پنجابی ڈھولے
    قسط نمبر 13

    ڈھولا نمبر 1

    اس ڈھولے مین ڈاکؤں کے سردار لوھار کی موت کا قصّہ بیان کیا گیا ہے. سُوجا کھتری بظاہر ان ڈاکؤں کا دوست تھا، لیکن درہردہ پولیس سے ملا ہُوا تھا.ایک دن لوھار اس کے گھر آیا. سُوجے نے اُسے سُلا کر اس کی بندوق کی گولیان کا پٹہ چھپا دیا، اور پولیس کو اطلاع کر دی.

    قال پیُ نت بلیندی، نارد اُتھیا ای پیر جما کے
    سُوجا کیڈا راضی ہویا، جدوں لوہار بُوہوں وڑ پیا آ کے
    اُس اگلی کوٹھڑی وچ منجیاں چا ڈاہیاں، دارُو لے آیا ڈھیر پوا کے
    اس ساز گولیاں دا چُک لیا جدوں گیا آہی لوہار آگھلا کے
    دتیاں کُنڈیان مارے جندرے، آپ گیا ای پیر جما کے
    اوہ بھنّاں گیا قصور پٹھاناں دے، اوتھے نرایُن سنگھ تھانیدار نوں لیا مٹھّی بھر جگا کے
    آہندا اے تُون ڈھونڈ دا آہیں مُہری ڈاکؤں دا، اج میں آیا آں اپنے گھر سنوا کے
    نرایُن سنگھ آکھیا اوہدے کول دو نالی بندوق اے، اوہ کسب رسالے دا جان دا اے ساڈی پُلس دے دیسی منہ بھنوا کے
    سُوجے آکھیا قسم دے اُتّے وس پہو، بندوق سرہانے خالی رہ گیُ اے میں ساز گولیاں دا آیا آں دور لُکا کے
    اُس ویلے پُلس اندر چُوڑے چین تے شادیاں،گھُمّے چڑہے نی آن سپاہ دے
    مہُرے گھوڑیاں دھروڑی آوندے دو سکھ،، اک سپاہی ، سردار شاہ اوہ چارے انعاماں دی چا تے
    اونہاں دی بُوہے ناھی ڈُھکّی، مگھّو لیُو نے بندوق وگا کے
    سُتّے لوہار نوں آیُ جاگ، آہندا اے سُوجیا ! مینوں دھوکا دے کے ماریا ای میری سناہی پاڑی آ گھت کے وچ دریا دے
    جے تینوں چوکھی لوڑ آہی انعاماں دی، تینوں دیندا میں مُلک دا مال چھپا کے
    ایہ تقدیر اونہاں توں وی نہیں ٹلی، جنہاں کیتیاں گلّاں نال خدا دے
    ایہ تقدیر اونہاں توں وی نہیں ٹلی، جنہاں دے تخت اڈُے نال ہوا دے
    اُس ویلے کوٹھے توں لہہ پیا پیر گھُلیرڑا ، اوہ بُوہے ولؤں گیےُ نی آ کے
    لوہار آکھیا پیرا ! نانے تیرے دے جھنڈے ہیٹھوں لنگھنا ایں مت جاوے منہ شرما کے
    سردار شاہ آکھیا لوہارا ! تینوں ُپھڑنا ایں میڈھیوں لے جانا اگّے سرکار دے
    اوتھے 5 مربعے لینی ایں زمین اپنے نام لوا کے
    لوہار آکھیا تہاڈے چاراں دے ناں دی اک ہوایُ پرچی. مگروں مُٹھ چا گھُٹّی اُنہاں چواں نوں لیا گلّاں دونہہ دے وچ بھنوا کے
    دتّی لت رکابےاگّوں سردل لگّی متھّے وچ، لوتھ لوھار دی ڈگ پییُ کلّے تے جا کے
    موےُ لوہار تے ڈُھکنوں رہ گیُ اونہاں دی، دُور کھلے نے اپنی اپنی مل بنا کے
    لوتھ لوہار دی لے گیےُ قصور پٹھاناں دے اوتھے رُنّی دھی حاکم دی، کُونج دے وانگ کُرلا کے
    آہندی سُوجیا آہیں لایُق پھاھی دے، آندا ای کیڈا سوہنا جوان مروا کے
    لوہارا ! جے کدی جیوندا متھّے لگ جاندیوں، تینوں 36 ضلعیاں تے افسر چا کریندی، نالے دیندی ہتھّیں مہُر لوا کے
    اُس دیہاڑے بیلیاں 160 لُنگیاں تانیاں، کُجھ ملاحضے نوں آ کے
    لوہار دی ست ویہان ( 140) صف بنی، اوہ پڑھن صلواتاں کھلے آپو آپ ثواب پہنچا کے
    اُتّوں آ گیُ ماں لوہار دی ، اوہ چُمّے داڑھی، مُچھ تے متھاّ آکھاں نُوری ذرا کفن دا لڑ ہتا کے.

    اردو ترجمہ :

    تقدیر روزانہ بلاتی تھی، تدبیر بھی اپنے پاؤں جما کر اُٹھی.
    سُوجے کھتری نے جب ڈاکؤں کے سردار لوہار کو اپنے گھر داخل ہوتے دیکھا ، تو بہت خوش ہؤا. ( کہ شکار آ پھنسا . یہ سُوجا بظاہر ڈاکؤوں کا دوست بنا ہؤا تھا، لیکن درپردہ پولیس کا مخبر تھا ).
    اس نے مکان کے آخری کمرے میں چارپایُ بچھا دی، لوہار کو پلانے کے لیےُ ڈھیر ساری شراب لے آیا.
    شراب پینے کے بعد جب لوہار اونگھنے لگا تو سُوجے نے لوہار کے پاس سے بندوق کی گولیوں کا پٹہ اٹھا کر کسی اور جگہ چھپا دیا.
    سوجے نے کمرے کے باہر کی کنڈی لگا کر اس میں تالا لگا دیا. اپنی طرف سے پکّا انتظام کیا کہ لوہار بھاگ نہ سکے.
    سوجا تیزی سے قصور شہر میں پولیس ہیڈ کوارتر پہنچا. اور نرایُین سنگھ تھانیدار کو جا جگایا.
    اسے کہنے لگا تم ڈاکؤوں کے سردار کو ڈھونڈتے تھے، آج میں اسے اپنے گھر سُلا کر آیا ہوں.
    نارایُین سنگھ کہنے لگا اُس کے پاس دو نالی بندوق ہے ، وہ بڑا پکّا نشانہ باز ہے ، ہماری پولیس کے منہ پھیر دے گا.
    سوجا کہنے لگا میری قسم پر اعتبار کرو، اس کے پاس صرف بندوق رہ گیُ ہے، بندوق کی گولیوں والا پٹہ میں اس سے دور چھپا کر آیا ہوں.
    یہ سُن کر کہ لوہار نہتّا ہے پولیس والے بڑے خوش ہُوےُ ، لوہار کو پکڑنے کے لیےُ سپاہیوں کا ایک جتھّہ چل پڑا.
    ان سب سے آگے دو سکھ سپاہی، ایک اور سپاہی، اور چوتھا سردار شاہ گھوڑے دوڑاتے آ رہے تھے. اس لالچ پر کہ ہم لوہار کو پکڑ کر ( اس کی گرفتاری پر مقرر ) انعام حاصل کریں گے.
    پولیس کے پورے جتھّے میں سے کسی کی ہمّت نہ پڑھی کہ دروازے سے داخل ہو کر لوہار کو پکڑیں. وہ مکان کی چھت پر چڑھ گیےُ. اور ہوا کے لیےُ بناےُ گیےُ سوراخ سے فایُر کرنے لگے. ( دیہات میں مکانوں کی بناوٹ عمومآ اس طرح ہوتی ہے کہ سامنے ایک لمبا برآمدہ ہوتا ہے، اس کے پیچھے اتنی ہی لمبایُ کا ایک بڑا کمرہ ہوتا ہے ،جسے ” پسار ” کہتے ہیں. اس کا ایک دروازہ اور اس کے دایُیں اور باییُیں طرف ایک ایک کھڑکی ھوتی ہے. اس پسار کے پیچھےعمومآ دو کمرے ہوتے ہیں جنہیں ” کوٹھڑی ” کہا جاتا ہے. ان کوٹھڑیوں کا صرف ایک ایک دروازہ ہوتا ہے. اور چاروں طرف سے بند ہوتی ہیں. ان کوٹھڑیوں میں ہوا کی آمد و رفت کے لیےُ کوٹھڑیوں کی چھت پر گول سوراخ رکھا جاتا ہے، جسے پنجابی زبان میں ” مگھ ” کہتے ہیں ).
    بندوق کی گولیاں لگنے سے لوہار کا خمار ٹوٹا، وہ سُوجے کی ساری چال کو سمجھ گیا، کہنے لگا سوجے ! تم نے مجھے دھوکا دیا، میری مشک اُس وقت پھاڑ دی جب میں اس کے سہارے تیرتا ہُوا دریا کے بیچ میں تھا. ( خا،ص چمڑے کو پھولے ہُوےُ لمبوترے غبارے کی شکل میں سی لیتے ہیں. اس میں ہوا بھرنے کے لیےُ اس کے ایک سرے کی شکل بوتل کے منہ جیسی رکھی جاتی ہے، اسے پنجابی زبان میں ” مشک ” کہتے ہیں. دریا پار کرنے کے لیےُ کشتیاں نہ ہوں، اکیلا آدمی مشک میں ہوا بھر کر اس کا منہ بند کر لیتے ہے. پھر دریا میں اُتر کر مشک کو اپنے جسم کے نیچے رکھ کر دریا میں تیرتے ہُوےُ اسے عبُور کر لیتے ہیں. مشک میں ہوا بھری ہوتی ہے اس لیےُ یہ آدمی کو ڈوبنے نہیں دیتی. ) . ذہن میں رہے کہ اس لفظ ” مشک ” مین م کے اوپر زبر ہوتی ہے.
    اگر تمہیں انعام کی اتنی ہی چاہت تھی تو مجھے بتاتے، میں لوگوں کا مال چوری کر کے تمہارا گھر بھر دیتا.
    لیکن تقدیر کا لکھا اُن سے بھی مٹ نہ سکا جو خدا کے ساتھ باتیں کرتے رہے. ( موسے علیہ سلام کی طرف اشارہ ہے )
    تقدیر میں جو لکھا تھا وہ اُن کے ساتھ بھی ہو کر رہا جن کے تخت ہوا میں اُڑا کرتے تھے. ( سلیمان ع کا تخت اللہ کے حکم سے ہوا میں اڑا کرتا تھا )
    اتنے میں سردار شاہ چھت سے اُتر کر دروازے کے سامنے آ گیا.
    لوہار نے کہا اے سیّد ! قیامت کے دن ہم تمہارے نانا ( رسول اللہ ) کے جھنڈے کے نیچے جمع ہوں گے، کہیں وہ تمہاری ان کرتوتوں سے شرمندہ نہ ہوں.
    سردارشاہ نے کہا لوہارا ! میں تمہیں سر کے بالوں سے پکڑ کر حکومت کے پاس لے جاؤں گا اور انعام میں 5 مربعے زمین حاصل کروں گا.
    لوہار نے کہا تمہارے چاروں کے نام کی ایک ہوایُ پرچی میرے پاس ہے. یہ کہہ کر بندوق کی لبلبی دبایُ، چاروں وہیں ڈھیر ہو گیےُ.
    پھر لوہار گھوڑے پر بیٹھا اور اُسے ایڑ لگایُ. کافی خون نکل جانے کی وجہ سے اپنے آپ کو سنبھال نہ سکادروازے کی چوکھت کا اوپر والا حصُہ پیشانی پر لگا( اور سر تقریبآ چکنا شُور ہو گیا ) اور مرگیا. اس کی لاش مکان سے تقریبآ 200 فٹ دور گھوڑے سے گر گیُ.
    سپاہی اس کی لاش کے نزدیک جانے سے ڈرتے تھے. دور کھڑے ہو کر ہر کویُ کہتا اسے میں نے مارا ہے.
    پھر لوہار کی لاش قصور شہر لے گیےُ. وہاں اُسے دیکھ کر حاکم کی بیٹی ایسے رویُ جیسے غم کی ماری کویُ کُونج کُرلاتی ہے.
    کہنے لگی ” سوجیا ! تم تو اس قابل ہو کہ تمہیں پھانسی پر چڑھا دیا جاےُ، تم نے کتنا خوبصورت جوان مروا دیا ہے. اے لوہار ! اگر تم مجھے کبھی اُس وقت ملتے جب تم زندہ تھے ، تو میں تمہیں 36 ظلعوں کا حاکم بنوا دیتی ، زبانی نہیں اس حاکمیّت کا تحریری پروانہ تمہیں دلواتی.
    دوستوں نے لوہار کے کفن کے لیےُ 160 چادریں دیں.
    اس کے جنازے کی 140 صفیں بنیں . ( جو کسی شخص کے انتہایُ مقبول ہونے کی علامت ہے ) سب نے درود پڑھ کر اسے ثواب پہنچایا .
    اتنے میں لوہار کی ماں آ گیُ. وہ اس کی پیشانی، داڑھی اور منہ چومتے ہوےُ کہتی رہی کہ بیٹا ! چہرے سے کفن ہٹا کر ایک دفعہ میرے گلے لگ جاؤ.

    نُوری کیموں کی والے کے اور ڈھولے بھی ہیں جن میں ڈاکؤون کی کہانیاں ہیں ، اس ڈھولے کا صحیح لطف اٹھانے کے لیےُ “پنجابی ڈھولے- قسط نمبر 12” ضرور پڑھیےُ .

    اگلی قسط میں غلام اکبر کے ڈھولے پیش کیےُ جاییُں گے ، جس میں سسّی پنّوں کی کہانی میں سسّی اور اس کی ماں کے سوال و جواب ضرور پڑھیےُ.

    جاری ہے.

  • پنجابی ڈھولے – قسط نمبر 12

    پنجابی ڈھولے
    قسط نمبر 12

    ڈھولوں سے پہلے پنجابی اکھان آپ ناظرین کا سب سے زیادہ پسندیدہ موضوع تھا، جو اس موضوع کی عوامی پسندیدگی کا اظہار تھا. ادارہ اپ کی پسندیدگی کا شکر گزار ہے. اب سب سے زیادہ پسند کیےُ جانے والی سیڑھی پر ” پنجابی ڈھولے آ گیےُ ہیں. اس کی وجہ سمجھ میں آتی ہے. ہر انسان جبلّی طور پر دلیری، بہادری اور بے خوفی کو پسند کرتا ہے. اور ڈاکؤں کی کہانیوں میں یہ تینوں صفات ملتی ہیں اسی لیےُ یہ ہمیں زیادہ پسند ہوتے ہیں.
    اب جو ڈھولا آپ پڑھنے جا رہے ہیں اس میں ان ڈاکؤں کے ایل ساتھی نایُ کی موت کا ذکر ہے.

    :عنوانات

    ڈھولا نمبر 1 – نایُ کی موت کا ذکر
    ڈھلے کا اردو ترجمہ                   

    ڈھولا نمبر 1

    قال پییُی نت بلیندی، نارد اُٹھیا ای جوڑ دمامہ
    قال آکھیا بہییےُ مل دروازہ، لہیُیے ویکھ ہنگامہ
    اوہ قادر قضا نہیں کردا، جیہڑا لکھ چکیا اے ان، پانی ، بھورا اتے طعامہ
    چودھویں صدی وچ ڈاکؤواں دتیاں کر کہانیاں، ہُن تلی تے دھریں جند جواناں
    لوہار آکھیا نایُیا لاٹاں دوزخ دیاں، ہُن صدی دا گیا اے پرت زمانہ
    ںایُ دی ہتھُیں سگناں دی مہندی، بدّھا سو موت دا گانہ
    موت جنہاں نوں گھتّے جھاتیاں، وحی گھلیا لکھ پروانہ
    ڈاکو مارن گیےُ اُداییُں رہے، نُوری پیا آہندا اے اگّوں مارے سد جواناں

    اردو ترجمہ

    ( تقدیر روزانہ بلاتی تھی، نارد ( تدبیر ) بھی اُٹھی.
    تقدیر کہنے لگی بیٹھو، ذرا تماشہ دیکھتے جایُیں .
    خدا نے ہماری قسمت میں جو دانہ پانی لکھا ہے، وہ ہمیں ضرور ملے گا.
    چودھویں صدی میں ڈاکؤوں نے بہت لُوٹ مار کی، ان کے مقابلے کے لیےُ تم بھی تیار ہو جاؤ.
    لوہار نے نایُ سے کہا “ذرا ہوشیار رہنا، زمانہ بدل گیا ہے ، اب لوگ مقابلہ کرتے ہیں.”
    نایُ کے ہاتھ پر شادی کی مہندی بھی نہیں سوکھی تھی، مقابلے میں مارا گیا.
    موت کا فرشتہ جن لوگوں کی موت کا پروانہ لے آےُ، اُسے بھلا کون بچا سکتا ہے.
    نُوری کہتا ہے کہ ڈاکو گیےُ تو تھے مارنے، لیکن مقابلہ میں دلیر جوان تھے، نتیجہ یہ ہؤا کہ ڈاکؤوں کا ایک ساتھی ( نایُ ) مارا گیا).

    چند الفاظ کی تشریح :
    بھورا = روٹی کے نہایت ہی چھوٹے ٹکڑے کو بھورا کہتے ہیں.
    جند = جان، زندگی
    سگناں – سگن کی جمع ہے. شادی پر رسومات کو شگن کہتے ہین.
    گانہ = بھایُ کی شادی پر بہنیں بھایُ کے داہنے ہاتھ پر پھولوں کا گول گلدستہ باندھتی ہین ، اسے گانا کہتے ہیں. پھول نہ ملیں تو مختلف رنگوں کے چھوٹے چھوٹے گول کپڑوں کو کسی گول الاسٹک میں پرو کر گانا بنا لیا جاتا ہے.
    سد = آواز، للکار ، بُلانا .
    اس سے پہلے آپ نے ” پنجابی ڈھولے ، قسط نمبر 11 ” پڑھ چکے ہوں گے. آیُندہ ڈھولے میں ڈاکؤں کے اس جتھّے کے سربراہ لوہار اپنی زندگی کی بازی کس طرح ہارا کی تفصیل بیان کی جایےُ گی. انتظار فرمایےُ.

    جاری ہے

  • پنجابی ڈھولے – قسط نمبر 11

    پنجابی ڈھولے

    قسط نمبر – 11

    پنجابی ڈھولے پنجابی زبان کی ایک معروف شاخ ہے . ماہیا نوجوانوں کا پسندیدہ لوک گیت ہے تو “ڈھولا” ادھیڑ عمر کے لوگوں کا پسندیدہ لوک گیت ہے. گاؤں میں کسی لڑکی کی بارات آیُ ہو، اور ان کا رات ٹہرنے کا پروگتام ہو، تو رات کھانے کے بعد ڈھولوں کی محفل جمتی ہے. بارات اور دوسرے لوگ چارپایُیؤں پر بیٹھے ہوتے ہیں، کچھ لیٹے ہُوےُ ہیں. چارپاییُوں کی شروع کی قطار میں ڈھولے سنانے والا کھڑا ہو کر ڈھولے سناتا ہے.
    فہرست مضامین،
    تعارف
    پنجابی ڈھولا نمبر 11

    ڈھولے کا اردو زبان میں ترجمہ

    پنجابی ڈھولے ، قسط نمبر 10 میں وعدہ کیا گیا تھا کہ پنجابی ڈھولوں کی اگلی قسطوں میں وہ پنجابی ڈھولے پیش کیےُ جایُیں گے جن میں ڈاکؤوں کا ذکر ہوگا. حسب وعدہ اس سلسلے کا پہلا ڈھولا حاضر ہے.

    تعارف

    نُوری کیموں والے کے ڈھولے ذیادہ تر ڈاکؤوں کے متعلق ہیں. اور ان کی کہانیاں بیان کرنے میں اسے ملکہ حاصل ہے. ان ڈاکؤوں کا جتھّہ بارہ افراد پر مشتمل تھا. یہ غریبوں کے ہمدرد اور ظالم سماج کے دشمن تھے. غریبوں کی مدد کرنا ان کا ہمیشہ شیوہ رہا. یہ تمام کے تمام سماج کے ٹھکراےُ ہوےُ آدمی تھے. مظلوم تھے. کمّیں تھے. آخر انہوں نے سماج سے بغاوت کر دی. سماج نے انہیں ڈاکو کا خطاب دیا. حقیقتآ یہ لوگ اُن ڈاکؤوں سے بہتر تھے جنہیں ظالم امیر کہا جاتا ہے. اور جو غریبوں کا خُون چُوس کر اپنی تجوریاں بھرتے ہیں. یہ ڈاکو جسے ایک دفعہ بہن کہتے، اُسے ہمیشہ بہن ہی کا درجہ دیتے. جسے ایک دفعہ بھایُ کہتے اُسے ہمیشہ سگّے بھایُ کی طرح چاہتے.انہی ڈاکؤوں کے متعلق نُوری کہتا ہے:

    ڈھولا نمبر – 1

    قال پییُ نت بلیندی، نارد اُٹھیا ای ٹھپ کے تھان نوں
    گدھیاں آلے پُل توں بھنّا بندہ، اُس خبر چا کیتی کپتان نوں
    آہندا اے اُٹھ حاکما سُتیا، لکھ لے میرے اس بیان نوں
    بارہ چور نٹھّے ، اونہاں کھاہدا اےلُٹ جہان نوں
    گورا اُٹھیا آہندا اے پیڑو گھوڑیاں، پاؤ وردیاں لہو چھک لگام نوں
    گھوڑا لایا نہر دی پٹڑی، اوہ مارے ظُلم دیاں اڈیاں، کیڈے سوہنے دیندا اے تاُء لگام نوں
    چھیڑؤاں تو پیا پچھدا ، ڈاکو لنگھ گیےُ کس اُتام نوں
    اوہ پیےُ آہندے، اونہاں چھیاں (6) دے سر تے پنڈاں بھاریاں، تک ذخیرے دی لاہم نوں
    اُنہاں جٹُّو دی بانہ ٹالی ، کیڈا لایا نے غم جوان نوں
    اُنہاں سُوجے کراڑ نال انج کیتی، جیوں کولہُو پیڑ کے کڈھدا اے گھان نوں
    نایُ ایس گلّوں منکھیندا رہ گیاکھاہڑے بیٹھا اے گھل نظام نوں
    لوہار آکھیا ناییُا ! بھیڑ پیاں دل مُحکم رکھیےُ، چُتّو گیےُ نی چھڈ میدان نوں.

    ڈھولے کا اردو ترجمہ

    ( تقدیر راوزانہ بلاتی تھی، تدبیر بھی آ گییُ .
    گدھیاں والے پُل سے ایک آدمی دوڑا، اور اُس نے سپرٹنڈنٹ پولیس کو اطلاع دی.
    کہنے لگا ” اے سوےُ ہویےُ حاکم! اُٹھو اور جلدی سے میرے اس بیان کو لکھ لو.
    وہ بارہ چور ہیں جنہوں نے لُوٹ مار مچا رکھی ہے، وہ اس طرف جا رہے ہیں.”
    ایس پی اُٹھا سپاہیوں سے کہا، اُٹھو ، فورآ وردیاں پہنو، گھوڑوں پر زینیں کس لو اور گھوڑے دوڑا دو.
    انہوں نے اپنے گھوڑے نہر کی پٹڑی پر دوڑا دےُ ،گھوڑوں کو تیز دوڑانے کے لیےُ گھوڑوں کو ایڑیاں مارتے، ان کی لگاموں کو سنبھالتے اُڑتے ہوےُ جانے لگے.
    راستے میں چرواہوں سے پوچھتے جاتے کہ ڈاکو کس طرف گیےُ ہیں.
    وہ جواب میں کہتے کہ اُن میں سے 6 ڈاکو سروں پر بھاری گٹھڑیاں اٹھاےُ ہویےُ ہیں اور وہ سامنے والے جنگل کی طرف گیےُ ہیں.
    جٹّو نے انہیں روکنا چاہا تو اس کے بازو توڑ دےُ ، جوان آدمی تھا بے کار ہو گیا.
    سُوجا کھتری ملا، اسے بھی مار مار کر اس کا کچومر نکال دیا، جس طرح کولہو رایُ کو پیس کر اس کا تیل نکال کر باقی پھوگ چھوڑ دیتا ہے ( یہ سُوجا وُہی ہے جس نے بعد میں دھوکے سے ڈاکؤوں کے سردار لوہار کو مروا دیا)،
    نایُ کو یہ افسوس رہا کہ وہ نظام کو پہلے کسی دوسری مہم پر بھیج چکا ہے ورنہ مقابلہ خوب ہوتا.
    لوھار نے نایُ سے کہا ” مشکل وقت میں اپنے دل کو مظبوط رکھا کرو. دیکھو! بزدل بھاگ رہے ہیں.)

    ڈھولا نمبر -2

    قال پیُ نت بلیندی، نارد سد پیا ماردا
    باراں چور نٹھّے جیل خانہ بھن سرکار دا
    لبھُّو، لوہار، پریماں، گھُمّاں، مان، چراکُو ماچھی، سعی اونہاندے نال دا
    جیرُو تے لچھُّو ، لہنا، رحماں نایُ، بھولا کمہار جیہدا بھٹ بھگیاڑ دا
    اونہاں کپور سنگھ بیلی نوں آ جگایا، آہندے سانوں جھُگاّ وکھا کسے چنگے ساہوکار دا
    اُنہاں سُتّے کھتری نوں جا جگایا، آہندے اُٹھ کراڑا ڈُھکّی جنج کویلے تُوں کویُ فکر نہیں کیتا روٹی تے دال دا
    کراڑ آکھیا پراں ہٹ جاؤ چورو، میرے کول وٹّہ دوسیری دا متے ماراں تے ہو جاےُ کم وگاڑ دا
    نایُ آکھیا گھُمیاں مار گنڈاسہ، ایویں چُتّو کراڑ ہتھ نکمّے وٹیاں تے پیا ماردا
    کھترانی سُنیا تے بولی ، دے چھڈ کنجیاں ، ایتھے سودا نہیں ادھار دا
    کھتری آکھیا ایہہ لو کنجیاں تے بُوہا کھول لو ایس ہٹ پسار دا
    لوھار آکھیا سانوں کنجیاں دی لوڑ نہ کویُ ، میرے کول اے اک دھاگہ ڈہڑھ ہزار دا
    لوھاڑ گھوڑے توں لہہ کے پیٹی تے انج اپڑیا جیُوں چک توں لوٹا لہہ لیندا اے پُتّر کمہار دا
    اونہاں پیٹی نوں وڈھ کے ترے ( 3 ) ٹکڑے چا کیتے، پورا تول بنایا سر دے بھار دا
    نایُ آکھیا تُسی بنھوں پنڈان، میں کھڑک رکھساں ایس بازار دا
    جس تے اُتّے میرا وی سایہ پے جاوے، اوہ سُتّا سیں جاندا اے بھا ویں ہووے پُتر سرکار دا         نُوری کیموں کا آہندا اے، بھلکے لُٹنا ایں بُہڑوال نوں چانن کر مثال دا.

    اردو میں ترجمہ

    ( تقدیر روزانہ بلاتی تھی، تدبیر بھی آواز دے کر اٹھی.
    بارہ چور سرکاری جیل خانہ کی دیواریں توڑ کر بھاگ گیےُ.
    ان میں لبھُّو،لوھار، پریماں،گھُمّاں، مان،، چراکُو ماچھی اور ان کا ساتھی سعی بھی تھا.
    اس کے علاوہ جیرُو، لچھُّو، لہنا ، رحماں نایُ اور بھولا کمہار بھی تھاجس کا پنجہ بھیڑییےُ کے پنجے کی طرح سخت ہے.
    انہوں نے اپنے ایک دوست کپور سنگھ کو سوتے میں اُٹھایا اور کہا کہ کسی دولت مند ساہوکار کے گھر کا پتہ بتاؤاس نے انہیں ایک ساہوکار مہاجن کے گھر کا پتہ بتایا.
    انہوں نے ہندو ساہوکار کو نیند سے اٹھایا اور کہا کہ اُٹھو ، تمہارے گھر بارات بے وقت آیُ ہے ، تم نے ان کے لیےُ روٹی دال کا بندوبست نہیں کیا.
    ساھوکار نے کہا ” چورو ! پرے ہٹ جاؤ، میرے پاس دوسیر وزنی باٹ ہے، ایسا نہ ہو میں تمہیں یہ باٹ مار دوں اور تم زخمی ہو جاؤ.
    نایُ نے گھُمّے سے کہا” دیکھتے کیا ہو، اس پر کلہاڑی کے وار کرو، یہ بزدل ہمیں دو سیر کا باٹ دکھا کر ڈرا رہا ہے.
    ساہوکار کی بیوی نے یہ باتیں سُنیں تو کہنے لگی “تم انہیں تجوری کی چابیاں دے دو، یہاں ادھار نہیں چلے گا”.
    ساہوکار نے کنجیاں ان کے حوالے کر دیں. اور کہا کہ ان سے دکان کا دروازہ کھول لو، تجوری دکان کے اندر ہے.
    لوہار کہنے لگا ” ہمیں چابیاں نہیں چاہییُں ، میرے پاس ایک ڈیڑھ ہزاری دھاگا ہے جو سارے تالے کھول لیتا ہے.
    لوہار گھوڑے سے اُتر کر تجوری پر اس تیزی سے پہنچا جیسے کمہار چک سے برتن تیزی سے اتار لیتا ہے.
    انہوں نے تجوری میں سامان کے تین برابر برابر حصے کیےُ تا کہ اٹھانے میں آسانی رہے.
    نایُ نے کہا ‘ تم گٹھڑیاں باندھو، میں اس بازر کی طرف دھیان رکھتا ہوں کہ اس طرف سے کویُ آ نہ جاےُ.
    جس پر میرا سایہ پڑ جاےُ وہ وہیں مر جاتا ہے چاہے کتنے ہی بڑے افسر کا بیٹا ہو.
    نُوری کہتا ہے کہ ڈاکؤوں نے صلاح کی کہ کل بہڑوال ساہوکار کو لوٹیں گے ، اور وہ بھی اس طرح کہ مشعلوں کی روشنی کر کے، نہ کہ اندھیرے میں.

    ایک وضاحت :
    ان ڈھولوں میں تمام مثالیں دیہاتی زندگی سے لی گیُ ہیں. قیام پاکستان سے پہلے ہر قسم کی تجارت ہندؤں کے ہاتھ میں تھی. خصوصآ دیہات میں تو تمام دکاندار ہندؤ ہُوا کرتے تھے. دولت مند ہندؤں کو ساہوکار یا مہاجن کہ کر پکارتے تھے. بعض علاقوں میں امیر ہندؤں کو شاہ جی کہ کر بھی پکارتے تھے. ان پڑھ زمین دار ان سے اپنی ضرورت کے لیُے روپیہ ادھار لیتے تھے. جو سوُد در سوُد کی شکل میں اتنا بڑھ جاتا کہ قرض لینے والا ان مہاجنوں کے شکنجے سے نکل ہی نہ سکتا تھا. نقد روپیہ واپس نہ ملنے پر یہ لوگ مقروض زمیندار کی فصل سے معتد بہ حصہ لے لیتے. بارہ ڈاکؤں کا جتھُہ عمومآ ایسے ھی ظالم ساہوکاروں کو لُوٹے.
    ڈھولے کا وہ حصہ دوبارہ پڑھیےُ جہان ساہوکار ڈاکؤں کو جواب دیتا ہے. یہاں بنیےُ کی ذہنیّت بڑے خوبصورت انداز میں بیان کی گیُ ہے. جب وہ اپنے جواب میں ناپ تول کے باٹ کا زکر کرتا ہے. ساھوکار کی بیوی کا جواب بھی قابل غور ہے، وہ بھی اپنی راےُ کے مطابق “سودا ” اور “نقد” اور “اُدھارُ کا زکر کرتی ہے..گویا ان کی زیدگی انہی الفاظ کے گرد گھومتی ہے.
    آپ نے کبھی کسی کمہار کو اپنے “چک ” پر برتن بناتے دیکھا ہے ؟ لکڑی کے 3 یا 4 فت قطر کے دو گول پہیےُ ہوتے ہیں ، یہ پہیےُ ایک مضبوط لکڑی جو عمومآ 3 انچ موٹی اور تقریبآ 3 فت لمبی کے دونوں سروں پر مضبوتی سے جُڑے ہوتے ہیں اس کی شکل اس خالی ڈرم جیسی ہوتی ہے جس پر سے تار اتار لی گیُ ہو. زمین میں ایک گول گڑھا کھود کر اس ڈرم کو عمودی طور پر رکھ کر اسے لکڑی کے تختوں کی مدد سے قابو کیا جاتا ہے . کمہار اس گڑھے سے باہر بیٹھ کر پاؤں سے نچلے پہیےٰ کو گھماتا ہے تو اوپر والا پہیہ بھی گھومتا ہے جس پر وہ اپنے برتن بناتا ہے. اس سارے سیٹ اپ کو ” چک ‘ کہتے ہیں.
    جب برتن چک پر تیار ہو جاتا ہے تو اس کے پیندے سے ایک باریک دھاگا اس طرح گزارا جاتا ہے کہ برتن چک سے جُدا ہو جاتا ہے. اب یہاں بڑی تیزی دکھانی پڑھتی ہے. اگر برتن کو فورآ ہی چک سے اُتارا نہ جاےُ تو وہ چک پر رہ گیُ مٹّی سے پھر سے جُڑ جاتا ہےاسی تیزی کا ذکر اس ڈھولے میں کیا گیا ھے.

    جاری ہے.

  • پنجابی ڈھولے – قسط نمبر 10

    پنجابی ڈھولے.

    قسط نمبر – 10

    آپ نے “ پنجابی ڈھولے، قسط نمبر – 9 ” تک پڑھ لیےُ. آج جو پنجابی ڈھولا آپ پڑھنے جا رہے ہیں، وہ ڈھولا ہے جس کا ذکر قسط نمبر 9 میں کیا گیا تھا. یہ ڈھولا اپنے خیال اور مضمون میں غالباّ دنیا کا اپنی طرز کا واحد ڈھولا ہے جو صرف پنجابی زبان میں ہی ملتا ہے.

    دیہاتی لڑکی اپنے محبوب کے متعلق سوچتی ہے ، سوچتے سوچتے اسے اپنے محبوب پر غُصّہ آ جاتا ہے، اس کے جذبات کو اس ڈھولے میں بڑی خوبی سے بیان کیا گیا ہے:

    ڈھولا نمبر – 1

    سُوہا چولا اُتّے مُنّی ہور دھرایُیے
    بیلی دی ساجنی روٹی ،آٹا مہمون والے گھُرٹے توں چل پہاییےُ
    بیلی ھووے کھانے دا کھاؤ، لڈؤاں تھال بھراییےُ
    بیلی ہووے نیندر دا بھُکھا، پنگھُوڑا پٹ دا، وچ لوری دے سواییےُ
    بیلی ہووے عشق دا بھُکھا، سد کے نار نُورانی، اوہدے نال حق نکاح پڑھاییےُ
    بیلی ہووے حُقّے دا چھیکا، حُقّہ جھنگ دا، نڑی گنڈیرے دی، حویجہ پاک پتنی، تمباکو کوٹ ٹہلی دا، گُڑ ڈربی، اگ سکڑی جنڈ دی،بیلی نوں دھر چھکاییےُ
    جے چڑھ جاوے بیلی نوں کیف، مجھ ہووے نیلی دی پنج کلان، مُونگر ساھی وال دا، بھر بیلی دے مُنہہ لاییےُ
    ویکھو نی سییّو ، کیہا گیا اے بھیں طور زمانے دا ، اج رُٹھڑے بیلی دا کی بناییےُ
    بیلی ہووے ہُٹھ بلوچاں دا،اوہدی ننگی کنڈی لُون ڈھواییےُ
    بیلی ھووے واہک جٹّاں دا، اونہوں چوا کے گڈھڑی واہنا وچ رُلاییےُ
    بیلی ہووے جے اڑہک وہڑ ، اونہوں چاہڑ کے عشقے ماہلے دے کھوپے، پڑانے وچ پھرااییےُ
    بیلی ہووے حلوانی بکرا، اونہوں ذبح چا کراییےُ
    اوہدیان کر کے بوٹیاں، کُنّی وچ چا پاییےُ
    اندر وڑدی تے باہر نکلدی، جھوکا نمڑا سیک دواییےُ
    اج پکا کے پتلے پتلے پھُلکے ، بیلی دے نال ٹیم ٹیم کے کھاییےُ
    ایہ دو چار گلّاں دُ کھ توں کیتیاں نے، بیلی میرا بہشتی میوہ، اگاں جا کے پھُلاں نال تُلاییےُ.

    ( میرے کُڑتے کا رنگ سُرخ ہے، اس پر ایک پھول بنا لُوں، خوبصورت لگے گا.
    آج میرے محبوب کی دعوت ہے، روٹی پکانے کے لیےُ آٹا مہموں والی پن چکّی سے پسوا کر لاؤں گی.
    اگر محبوب کھانے کا زیادہ ہی شوقین ہُؤا، تو اُسے لڈّووں سے بھرا تھال کھانے کو دُوں گی.
    اگر محبوب نیند کا شوقین ہُؤا تو اُسے ریشمی پنگھوڑے میں لوری دے کر سلاؤں گی.
    اگر محبوب عاشق مزاج ہُؤا تو تو ایک نہیایت خوبصورت عورت سے اس کا نکاح کرا دوں گی.
    اگر میرا محبوب حُقہ پینے کا شوقین ہُؤا تو جھنگ شہرکا بنا ہُؤا حقہ ، جس کی نڑی گنڈھیرے کی ہو، اس کی ٹوپی (مٹّی کا بنا ہُؤا پیالہ سا جس میں تمباقو رکھ کر اوپر آگ کے کویُلے رکھے جاتے ہیں ) پاک پٹن کی بنی ہُویُ ہو، تمباکو کوٹ ٹہلی والے گاؤں کا، اس پر ڈربی گُڑ، جنڈ کے درخت کی چھال سے بنی ہُویُ آگ رکھ کر اسے حقہ پلاؤں گی.
    حقہ پیتے پیتے اگر محبوب کو نشہ سا چڑھ جاےُ، تو ساھی وال شہر کے بنے ہوےُ گلاس میں، نیلی بار کی پنج کلان بھینس ( وہ بھینس جس کے چاروں پیر اور دُم سفید ہو اور اس کی پیشانی کے بال سفید ہوں، پنج کلان کہلاتی ہے. ایسی بھینس بڑی خوبصورت سمجھی جاتی ۃے ).کا دودھ بھر کر اسے پلاؤں.
    سہیلیو ! غور تو کرو زمانہ کتنا بدل گیا ہے، میں اپنے روٹھے ہُوےُ ساجن کو کیسے مناؤں!.
    جی چاہتا ہے اگر میرا ساجن بلوچوں کا اونٹ ہو تو اس کی ننگی پیٹھ پر نمک لاد کر اُسے دوڑاؤں.
    اگر میرا ساجن زمیندار کا مزارع ہو تو اس کے سر پر بھاری گٹھڑی رکھ کر اُسے تازہ جوتی ہُویُ زمین ، جس کی سطح ٍغیر ہموار ہوتی ہے اور جس میں چلنا مشکل ہوتا ہے، دوڑاؤں.
    اگر میرا ساجن نوجوان بیل ہو تو اُس کی آنکھیں عشق کے ” کھوپوں ‘ سے باندھ کر اُسے رہٹ کے دایُرے میں پھراؤں.
    میرا محبوب اگر بکرا ہو اُسے آج ذبح کر دوں.
    اس کی چھوٹی چھوٹی بوٹیاں کر کے ہانڈی میں ڈال کر چولہے پر رکھ دُوں.
    اندر باہر نکلتےچولہے کی آگ کو مدہم رکھوں، حتےّ کہ سالن تیار ہو جاےُ.
    پتلی پتلی روٹیاں پکا کر ساجن کے گوشت سے تیار کردہ سالن کے ساتھ مزے لے لے کر کھاؤں.
    میں نے جو یہ دو چار باتیں کی ہیں محض افسوس اور دُکھ کی وجہ سے کہی ہیں، ورنہ میں بھلا اپنے محبوب سے اس طرح کا سلوک کر سکتی ہوں . میرا محبوب تو بہشت کا میوہ ہے، وہ تو پھولوں سے تولنے کے قابل ہے. )

    مندرجہ بالا ڈھولے میں چند الفاظ کی تشریح ضروری ہے. ان الفاظ کا مطلب سمجھ کر یہ ڈھولا دوبارہ پڑھیےُ، اس کا لطف دوبالا ہوگا. الفاظ کی تفصیل یوں ہے :

    گھُرٹ = پہلے زمانے میں نہروں پر پن چکیاں بنی ہوتی تھیں، جہاں سے لوگ گندم پسواتے تھے. ان پن چکیوں کو ” گھُرٹ یا گھُراٹ ” کہتے تھے.
    حقہ = حُقّہ پینے والوں کے مطابق جھنگ شہر کے بنے ہوےُ حقّے بہترین ہوتے ہیں. یہ چمڑی اور پیتل سے بنے ہوتے ہیں اور ان میں ڈالا گیا پانی کافی دیر تک ٹھنڈا رہتا ہے.
    نڑی = حقہ کا اہم جز ” نڑی ‘ ہوتی ہے. بڑی نڑی عربی زبان کے ہندسہ دو کی شکل کے مشابہ ہوتی ہے اس کا ایک سرا حقہ کے اندر رہتا ہے اور دوسرے سرے کو منہ سے لگا کر کش لیا جاتا ہے. گنڈھیرے کی لکڑی سے بنی ہویُ نڑی بہترین ہوتی ہے. اس لکڑی کی اپنی خوشبو ہوتی ہے جو حقہ کی اپنی بدبو کو زایُل کر دیتی ہے. گنڈیرے کی سیدھی لکڑی کو اندر سے کھوکھلا کر لیا جاتا ہے اور پھر اسے کویُلوں کی نرم آنچ کے زریعے خم دے کر نڑی کی سکل بنا لی جاتی ہے. نڑی کے اوپر کپڑا لپیٹ کر اوپر پیتل کی باریک تار لپیٹ دی جاتی ہے. تاکہ کپڑا نکل نہ جاےُ. چھوٹی نڑی سیدھی ہوتی ہے اور اس کا نچلا حصہ حقہ کے اندر پانی میں ڈوبا رہتا ہے. . چھوتی نڑی کے اوپر والے حصہ پر حویجہ یا ٹوپی رکھی جاتی ہے. گنڈیرے کا پودا پشاور کے علاقہ میں پایا جاتا ہے. آج کل گنڈیرے کی جگہ بانس کی پتلی ٹہنی استعمال کی جا رہی ہے.
    حویجہ = مٹّی سے بنا ہُؤا پختہ پیالہ سا جو اوپر سے کھلا ہوتا ہے. نیچے سے بہ تدریج پتلا ہوتا ہے. نچلا حصّہ اس طرح بنایا جاتا ہے کہ وہ چھوٹی نڑی کے اوپر والے سرے پر ٹھیک بیٹھتا ہے. اسے حقے کی ” ٹوپی ” بھی کہتے ہیں. اس ٹوپی کے پیندے میں بختہ اینٹ سے کاٹا ہُؤا گول ٹکڑا رکھتے ہیں.اسے ” روڑ ” کہتے ہیں. اس کے اوپر ہاتھ کی ہتھیلی پر باریک کیا ہُؤا تمباکو رکھتے ہیں. اس تمباکو کے اوپر تھوڑا سا گُر رکھتے ہیں. تمباکو وہ اچھّا ہوتا ہے جس کا کش لینے پر نہ تو کھانسی ہو اور نہ تلخ لگے، اس میں تھوڑی سی مٹھاس بھی ہو. اسے پینے پر تھوڑا سا دھوآں نکلے اور دس بارہ گھنٹوں تک ایک جیسا ذایُقہ دے.
    سکڑی = حقہ کے حویجے میں آگ کے جو کویُلے رکھے جاتے ہیں، وہ کویُلے ایسے ہونے چاہییُں جو جلدی نہ بجھ جایُیں .جنڈ کے درخت کی چھال کی آگ کے کویُلے بڑی دیر تک دہکتے رہتے ہیں، اسی لیُے اسے حقے کے لیےُ آگ کو بہترین مانا جاتا ہے. دوسرے نمبر پر شیشم کے درخت کی چھال کی آگ بہترین مانی جاتی ہے.
    پنج کلان = بھینسوں کا رنگ عموماّ کالا ہوتا ہے. بعض بھینسوں کے چاروں پاؤں، دُم کے نچلے نصف حصّے اور پیشانی کے درمیان کے بالوں کا رنگ سفید ہوتا ہے، ایسی بھینس کو ” پنج کلان ” کہتے ہیں، ایسی بھینسیں بڑی خوب صورت اور زیادہ دودھ دینے والی ہوتی ہیں.
    واہن = فصل کٹ جانے کے بعد زمین عموماّ ہموار اور خشک ہوتی ہے. اس زمیں میں اگر ہل جوتا جاےُ تو زمین چھوٹے بڑے ٍغیر ہموار ان گھڑے ٹکڑوں میں بدل جاتی ہے، اس غٍیر ہموار زمین کو ” واہن : کہتے ہیں اور اس میں چلنا مشکل ہوتا ہے.
    کھوپے = رہٹ چلانے کے لیےُ جب بیلوں کو جوتا جاتا ہے تو ان کی آنکھوں پر چمڑے کے بنے ہوےُ ، نصف دایُرے کی شکل کے کور چڑھا دیےُ جاتے ہیں، انہیں ” کھوپے ” کہتے ہیں. ان کا فایُدہ یہ ہوتا ہے کہ بیلوں کی آنکھیں تو کھُلی رہتی ہیں، لیکن وہ ادھر اُدھر دیکھ نہیں سکتے ، اور اس طرح وہ صرف چلنے پر ہی دھیان دیتے ہیں.
    پڑانا = رہٹ مین جوتے ہُوےُ بیل ایک دایُرے میں چلتے رہتے ہیں، اس دایُرے میں ایک راستہ سا بن جاتا ہے، جسے ” پڑانا ” کہتے ہیں.
    ڈربی گُڑ = حویجے میں تمباکو رکھنے کے بعد اس کے اوپر تھوڑا سا گُڑ رکھتے ہیں، گُڑ کو تمباکو کے اوپر ایک ڈھیلے کی شکل میں رکھنے کی بجاےُ اسے اتنا پھیلا لیا جاتا ہے کہ گڑ کی پتلی تہ سارے تمباکو کو ڈھانک لیتی ہے ، اسے ڈربی کرنا کہتے ہیں،
    دُنیا کی باقی زبانوں کا تو پتہ نہیں لیکن ہماری قومی زبان اردو میں اس قسم کی خیالات کی شاعری نہیں ملتی. اس ضمن میں ایسی شاعری کا سہرہ پنجابی زبان کے سر پر ہی ہے.

    پنجابی ڈھولوں کی دُنیا بڑی وسیع ہے اور پورے پنجاب میں موجود سارے ڈھولوں کو جمع کرنا تقریباّ نا ممکن ہے. چیدہ چیدہ ڈھولے پیش کیےُ گیے ہیں. ڈھولوں کی اگلی اقصاط میں ڈاکؤوں کے قصے ہیں. جو بہت مشہور ہیں. تیّار رہیےُ.

    جاری ہے.

  • پنجابی ڈھولے – قسط نمبر 9

    پنجابی ڈھولے 
    قسط نمبر – 9

    اس سے پہلے آپ ” پنجابی ڈھولے ، قسط نمبر 8 ” تک پڑھ چکے ہیں. قسط نمبر 9 حاضر ہے. اس ڈھولے کو پڑھنے کے بعد غور کیجیےُ، یہ ڈھولا کتنی مشکل زمین میں کہا گیا ہے. دنیا میں شایُد ہی کویُ شعر ایسی مشکل زمین میں سننے کو ملے. ملاحظہ کیجیےُ :

    ڈھولا نمبر : 1آ

    پار جھناں توں پراں، ٹھٹ چا بدّھا اے جوانہہ
    دل طلبیندا رہندا اے، ونج کے ڈھولے نوں مل آوانہہ
    اوہ بھیڑا جپھیاں گھت کے ملن نہیں دیندا، توڑے اکھیاں نال تک آوانہہ
    اکھّیں مُول تکنّ نہ دیندیاں، گل لگن نہ بانہہ
    ساڈے آون توں بھاگا پانا ایں، اسی آون وی چھوڑ وسانہہ
    جے تُوں اپنی صورت دا مان کریناں ایں، اسی لے کے کورا کاغذ اُتّے چھاپے چا چڑسانہہ
    جے تیرے ملن دی تاہنگ ہویُ، اسی اوہو کاغذ لے بسانہہ
    پر تُوں وی ہڈّوں سُکھ نہ سونسیں، جدوں اسی یاد تینوں پُسانہہ
    جیوندا وتنا ایں تے موڑ مہاراں، بھیڑیا مت دووے گھر وچھڑے مر جوانہہ

    ( چناب دریا کے اُس پار جوانہہ کے جھُنڈ ہیں( جوانہہ ایک کانٹے دار چھوٹا سا پودا ہوتا یے، جو عموماّ گندم کے کھیتوں میں اس کے ساتھ ہی اگتا ہے. سخت گرمی میں بھی سرسبز رہتا ہے )
    تمہیں ملنے کی ہر وقت خواہش رہتی ہے، جی چاہتا ہے جا کر تمہیں مل آؤں.
    وہ گلے لگ کر ملنے نہیں دیتا، چلیں اُسے دور سے ہی دیکھ آؤں.
    تُم اتنے دور ہو کہ نہ تو تمہیں آنکھیں دیکھ سکتی ہیں ، نہ گلے مل سکتے ہیں.
    اگر تم میرے آنے سے ناراض ہوتے ہو تو ہم آنا بھی چھوڑ دیں گے.
    تمہیں اپنے خوبصورت ہونے کا بڑا گھمنڈ ہے، ہم کورے کاغذ پر تمہاری تصویر بنا لیں گے.
    جب کبھی تم سے ملنے کو جی چاہا، تو اس تصویر کو دیکھ لیا کریں گے.
    لیکن یہ یاد رکھنا، تُم بھی سکھ کی نیند نہ سو سکو گے جب کبھی ہماری یاد آ گیُ .
    اگر تم زندہ ہو تو ایک دفعہ ضرور واپس آؤ، ایسا نہ ہو کہ ہم دونوں بچھڑے ہی مر جایُیں ).

    اتنی مسکل زمین میں کویُ پنجابی زبان کا شاعر ہی شعر کہ سکتا ہے.

    ڈھولا نمبر – 2

    واہنڈا نت ٹُراؤ، بھیڑا لنگھدا اے کولوں مار کے پھیریاں
    اک میں تاپ رنجانی، دوجا مار سُٹیا اے لٹکاں تیریاں
    ڈھینی ساڈی چھڈ کے اگاں جا لایُ آ، اوتھوں وی شالا رہ کے آ جاہن تیریاں
    ترُٹ گییُ دی اک مثال ہور دسّاں، جیوں ویلے دھمّی دے پکیاں تُوتاں تے جاندیاں گھُل انہیریاں

    ( میرا محبوب روز کا پردیسی ہے، آج بھی جانے والا ہے، دو تین دفعہ یہاں سے گزر چکا ہے.
    ایک تو مجھے تمہاری جُدایُ کا بخار چڑھا ہے، اس پر تُمہاری چال، قربان جاؤں.
    مجھے رنجیدہ چھوڑ کر تم نے کسی اور جگہ دل لگا لیا ہے، اللہ کرے وہاں بھی تمہاری دوستی ٹوٹ جاےُ.
    جس کی یاری ٹوٹ جاےُ، اس کی مثال ایسی ہے جیسے سحری کے وقت آندھی آےُ اور شہتُوت کے درختوں کے سارے پکے ہُوےُ شہتوت جھڑ جاییُں اور درخت پھل کے بغیر کھڑے رہ جاییُں )

    مالی سارا سال شہتوت کے درختوں کی دیکھ بھال کرتا ہے ان کی گوڈی کرتا ہے، ان کی جڑوں میں کھاد ڈالتا ہے صرف اس آس پر کہ سال کے بعد ان پر پھل لگے گا ، جسے توڑ کر وہ کچھ مالی فایُدہ حاصل کر سکے گا، جس دن اس کا ارادہ شہتوت توڑنے کا ہوتا ہے اسی دن سحری کے وقت تیز آندھی آ جاےُ، اور سارے شہتوت درختوں سے جھڑ کر زمین پر ادھر اُدھر بکھر جایُیں اور درخت بے ثمر کھڑے رہ جایُیں تو مالی کی کیا حالت ہو گی. میری حالت بھی ایسی ہی ہے ).

    کسی کی امیدوں کی تباہی کی مثال کا یہ ایک عمدہ نمونہ ہے، جو اس ڈھولے کے آخری مصرعہ میں بیان کیا گیا ہے.

    اگلی قسط میں آپ کو ایک ایسا ڈھولا ملے گا ، جس میں ایک اچھوتا خیال پیش کیا گیا ہے. ڈنیا کی کسی شاعری میں غالباّ ایسا خیال پیش نہیں کیا گیا، اگلی قسط کا انتظار کیجیےُ.

    جاری ہے.

  • پنجابی ڈھولے –  قسظ نمبر 8

    پنجابی ڈھولے – قسظ نمبر 8

    پنجابی ڈھولے.
    قسط نمبر 8.

    محترم ناظرین ! اس سے پہلے “پنجابی اکھان ” کا سلسلہ بہت پسند کیا گیا. کویُ بھی شخص دنیا کے کسی حصّے میں بھی جاےُ، وہ اپنی مادری زبان بولنا اور سننا پسند کرتا ہے. پنجابی اکھان کا سلسلہ پنجابی زبان بولنے والے بے شمار دوستوں ، چاہے وہ دنیا کے کسی حصہ میں رہایُش پذیر ہیں، نے بہت پسند کیا. اسی طرح ” پنجابی ڈھولے ” بھی پسندیدگی کی بلندیوں کو چھُو رہے ہیں. آپ حضرات کا بہت بہت شکریہ. اب ہم قسط 8 کے پہلے ڈھولے کی طرف بڑھتے ہیں.
    لفظ “ڈھولا ‘ کیا ہے، ڈھول کا کیا مطلب ہے؟، یہ ساری معلومات لینے کے لیےُ آپ ہمارا آرتیکل “ پنجابی ڈھولے- تعارف ضرور پڑھ لیں، اس کے بعد آپ پنجابی ڈھولوں سے صحیح معنوں میں لطف اندوز ہو سکیں گے.

    ڈھولا نمبر 1.
    گھُوک وے رانگلیا چرخیا، تیرے مُنّے نے کری دے
    سانوں اگّے دُکھ بہتیرے، ہُن نویں ناہنی جری دے
    بدّل بن کے کھرے ہو گیےُ ، میل بدلاں دی جھڑی دے
    روڑھاں دا پانی رُڑھ نوانی جانا، مُنہ سُکّے رہ گیےُ نی رڑی دے
    بول بھراواں تے پھٹ شریکاں، داغ نہیں لاہندے سڑی دے
    آکھ غلام نصیب ہووی کلمہ، گھاگے جانے نے بھج توہیں دی گھڑی دے

    ( رنگیلے چرخے ! تُم گھوں گھوں کی آواز پیدا کرو. تمہرے منّے کری کی لکڑی سے بنے ہیں.
    ہم تو پہلے ہی دُکھی ہیں، اب مزید دُکھ سہنے کی ہمت نہیں.
    بادل جھوم جھوم کر آےُ، مینہہ برسا، گویا بادل اور پانی کا ملاپ ہؤا، پھر مطلع صاف ہو گیا.
    بہتا ہؤا پانی تو ہمیشہ ڈھلوان کی طرف ہی جاےُ گا، اونچی زمین ویسے ہی پیاسی رہ جاےُ گی.
    بھایُوں کے دیےُ ہوےُ طعنے ، دشمنوں کے لگاےُ ہوےُ جسمانی زخم کبھی مندمل نہیں ہوتے، جیسے آگ سے جلی ہویُ جلد کا داغ نہیں مٹتا.( کیا گہرہ مشاہدہ ہے).
    غلام! خدا کرے مرتے وقت تمہیں کلمہ شہادت پڑھنا نصیب ہو، تمہاری زندگی کے گھڑے کے بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جایُیں گے.
    بعض علاقوں میں زمین کو رڑی کہتے ہیں
    قبرستانوں میں عمومآ جھاڑی کے درخت ہوتے ہیں. ان درختون کو ” کری ” بھی کہتے ہیں.

    ڈھولا نمبر 2.

    گھوک وے رانگلیا چرخیا، تینوں آندا اے رنگ چڑھا کے
    کتنا نال نصیباں، تُوں کتتیں تند پکا کے
    وہندیاں تے قُرب نہیں ہوندا، جیہڑا آندا ای داج رنگا کے
    صاحباں کُونج دے وانگ کُرلاندی، مرزا خان کُہا کے
    آکھ غلام پیہنگاں ہر اک دیاں بھُویُیں تے آونیاں، بھاویں جاہنی چڑھ ہوا تے

    ( رنگیلے چرخے! تم گھُوں گھُوں کرو، تمہیں کل ہی تو نیا رنگ چڑھایا ہے.
    سُوت تو تُم اپنے نصیب سے کاتو گیمگر جو کاتو، خوب پختہ کر کے کاتو.
    تمہاری عزت اس وجہ سے نہیں ہوگی کہ تُم خوبصورت ہو، تمہاری عزت تو تمہارے اچھُے کاموں پر منحصر ہے.
    صاحباں اپنے محبوب مرزا خاں کو قتل کروا کر اب روتی ہے، اب کیا فایدہ.
    غلام کہتا ہے کہ ہر ایک کے اقبال کی پتنگ خواہ وہ ہوا میں کتنی ہی اونچی اُڑ رہی ہو، آخر ایک نہ ایک دن زمین پر گرے گی ( زمین ہر گریں گے آخر اونچی اُڑان والے )

    یہاں تک وہ ڈھولے لکھے گیےُ جن میں چرخے کا ذکر تھا اب متفرق ڈھولے پیش کیےُ جاییُں گے.

    ڈھولا نمبر 3.

    واہنڈا ڈھول ٹُراؤ میرا، چھڈّی جاندا اے کنّی دیس دی
    ایہ ماہلے جگُی پاہلے، انہاں نوں رہندی یے لا ہمیش دی
    جاندے بیلی دی کنڈ پییُ دسدی، اندر بن گییُ اے ڈھیری بالُو ریت دی
    جے کدی ولانگن ھوندی، ونگاں شہر تیرے جا کے ویچ دی
    جیوندا وتنا ایں تے رسّی موڑ مہاراں دی، کیڈی لگ گییُ آ چنگی گل پردیس دی

    ( میرا محبوب اپنا وطن چھوڑ کر پردیس جا رہا ہے .
    یہ اونٹوں والے ایسے ہی ہوتے ہیں، ہمیشہ سفر میں رہنا انہیں پسند ہے.
    جاتے ہوےُ ساجن کی پیٹھ نظر آ رہی ہے، اس غم سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے دل پر منوں ریت کا بوجھ پڑ گیا ہے.
    اگر میں چُوڑیاں بیچنے والی ہوتی، تو چُوڑیاں بیچنے کے بہانے تمہارے شہر چلی جاتی.
    اگر تم زندہ ہو تو تو خدا را کبھی واپس آؤ، لگتا ہے پردیس تمہیں بھا گیا ہے.)

    بعض عورتیں ایک بڑے ٹوکرے میں مختلف چُوڑیاں رکھ کر گلی گلی اور دیہات میں جا کر چُوڑیان بیچتی ہیں ، انہیں ” ولانگن ” کہتے ہیں.
    اس ڈھولے کے دوسرے مصرعے میں ایک فقرہ ” مہلے، جگُی پہلے ” آیا ہے. ان کا لفظی مطلب کچھ نہیں، دُکھ اور غُصہ کے اظہار کے اظہار کے لیےُ ایسے ہی بے معنی الفاظ ہیں.

    جاری ہے.

  • پنجابی ڈھولے ، قسط  نمبر  – 7

    پنجابی ڈھولے ، قسط نمبر – 7

    پنجابی ڈھولے.

    قسط نمبر – 7.
    یہاں سے ڈھولوں میں چرخہ کا ذکر آےُ گا. آج سے پچاس ساتھ سال پہلے تک چرخہ ہر لڑکی کے جہیز کا لازمی حصّہ ہؤا کرتا تھا. اوپر کی تصویر میں ایک لڑکی چرخہ پر سوت کاتتی نظر آ رہی ہے . چرخہ کے گھومنے پر گھوں گھوں کی آواز آتی ہے جسے چرخے کی ” گھُوک ” کہتے ہیں. ان ڈھولوں میں چرخے کے کچھ حصوں کا ذکر آےُ گا ، ان کی تشریح کچھ یوں ہے :

    1 – ً منّا – چرخے کے ڈھانچے پر تقریباّ ڈھایُ فت اونچے دو گول ستون ہوتے ہیں . یہ ستون کہیں سے موٹے اور کہیں سے پتلے ہوتے ہیں. ان ستونوں پر خونصورتی کے لیےُ مختلف رنگ چڑہاےُ جاتے ہیں. ان ستونوں کے درمیان میں تقریبآّ ایک انچ قطر کا سوراخ ہوتا ہے .
    2 – لٹھ. – لکڑی کی یہ لٹھ انداناّ دو فٹ لمبی ہوتی ہے. درمیان میں چار انچ کا حصہ گول ہوتا ہے .
    3 – پہیےُ – پہیےُ چرخے کا سب سے بڑا حصہ ہوتے ہیں. یہ پہیےُ تقریباّ 3 فٹ قطر کے گول پہیےُ ہوتے ہیں، جن کا باہر کا حصہ بڑا رنگ دار ہوتا ہے. سجاوٹ کے لیےُ اس پر مختلف رنگوں سے سجے چھوٹے چھوٹے گول پہیےُ لگاےُ جاتے ہیں. دونون پہیؤں کے درمیان لٹھ گزاری جاتی ہے، لٹھ کا درمیانی حصہ موتا ہونے کی وجہ سے پہیوں کے درمیان کچھ فاصلہ رہتا ہے. دونوں پہیوں کو دونوں منّوں کے درمیان لٹھ کے ذریعے فٹ کر دیا جاتا ہے. دونوں پہیّوں کے کناروں پر تھوڑے سے گہرے کٹ لگاےُ جاتے ہیں ، سامنے کی طرف لٹھ کے ساتھ ہتھّی لگایُ جاتی ہے . اب ایک باریک دھاگے کو دونوں پہیّوں کے کٹ میں اس طرح گزارا جاتا یے کہ پہلے دھاگہ کسی ایک پہیےُ کے کٹ سے گزار کر دورے پہیےُ کے نمبر 2 کٹ سے گزرتا ہے ، اور پھر پہلے پہیےُ کے کٹ نمبر 3 سے گرے گا. اس طرح دھاگا ” زگ زیگ ” کی شکل میں دونوں پہیؤں کو آپس میں باندھ دے گا.
    4 – چرخہ کے ڈھانچے کی دوسری طرف چھوٹے چھوٹے تین ” منّے ” مزید ہوتے ہیں. درمیان والے منّے کے درمیان میں ایک لمبا سا کٹ لگایا جاتا ہے، جب کہ باقی دونوں منّوں کے درمیان میں گول سوراخ ہوتا ہے.
    5. – چمرخ – موٹے چمڑے کے دو عدد گول ٹکڑے جن کے کسی ایک طرف کا حصہ تقریباّ 3 انچ لمبا باریک اور لمبا ہوتا ہے. ان باریک حصوں کو دونوں چھوٹے منوّں کے سوراخوں میں دال دیا جاتا ہے.
    5 – ترکلہ — لوہے کی ایک پتلی اور لمبی سلاخ جو ایک سرے سے باریک ہوتی جا رہی ہو اسے ” ترکلہ ” کہتے ہیں اس سلاخ کو تینوں چمرخ سے اس طرح گزارا جاتا ہے کہ سلاخ کا پتلا حصہ سامنے کی طرف رہے.
    6 – ماہل -ایک مضبوط لمبے سوتی دھاگے کو دونوں پہیوں پر بنے زگ زیگ پر سے گزار کر دوسری طرف کے درمیانی چھوتے منّے کے سوراخ سے باہر نکال کر ترکلے کے گرد دو یا تین بل دے کر اسی سوراخ سے باہر نکال کر چرخے پر لپتاےُ ہوےُ دھاگے کے آخری سرے کے ساتھ باندھ دیتے ہیں. اب ہتھی
    کو گھمایا جاےُ تو ترکلہ بھی گھومے گا. رویُ سے دھاگا بنا کر اس ترکلہ پر لپیٹا جاتا ہے. اردو زبان میں اسے ” تکلہ ” کہتے ہیں.
    اب ہم ان ڈھولوں کی طرف چلتے ہیں جن کے شروع میں چرخہ کا لفظ آتا ہے

    ڈھولہ نمبر 1

    گھُوک وے رانگلیا چرخیا تیرے مُنّے نے چیل دیار دے
    کتّن والی دی ہتھّیں ونگاں، کنّیں پھُل انار دے
    کھیڈن گییُ دے جھڑ پیےُ وچ بازار دے
    کُجھ چن لےُ نال دیاں سیّاں ، کجھ پیراں ہیٹھ لتاڑ دے
    آکھ غلام سُک سنگلی ہویُ آں ، جیوں کالے ناگ پہاڑ دے

    ( رنگیلے چرخے ! تم گھوں گھوں کی آواز پیدا کرو.تمہارے پاےُ دیارکی لکڑی سے بناےُ گیےُ ہیں.
    چرخے پر سوت کاتنے والی کی باہوں میں چُوڑیاں اور کانوں میں انار کے پھول ہیں.
    کھیلتے کھیلتے اس کے کانوں سے وہ پھول گر گیےُ.
    کچھ پھول تو ساتھ والی سہیلیوں نے چُن لیےُ، اور کچھ پیروں تلے روندے گیےُ.
    غلام کہتا ہے کہ تمہیرے ہجر میں سُوکھ کر کانٹا ہو گیُ ہوں بالکل اس طرح جیسے پہاڑوں کے سیاہ ناگ ، جن کی ہڈیاں تک گنی جا سکتی ہیں).

    آخری مصرعہ میں پہاڑوں کے کالے ناگ کی تشبیہ بڑی نادر ہے. پہاڑی ناگ کا رنگ سیاہ ہوتا ہے جیسے کویُ چیز جلی ہویُ ہو. ان کی ہڈیاں زنجیر کی طرح صاف علیحدہ علیحدہ نظر آتی ہیں. ہجر کی ماری لڑکی نے اپنی حالت کو پہاڑی کالے ناگ سے تشبیہہ دے کر یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ فراق کی آگ نے اسے جلا کر سیاہ کویُلہ کر دیا ہے.کچھ کھاتی پیتی نہیں، جس سے اس کا بدن اس طرح سوکھ گیا ہے کہ اس کی ہڈیاں نکل آیُ ہیں.
    اتنی جامع تشبیہ وہی دے سکتا ہے جس کا مشاہدہ گہرا ہو.

    جاری ہے.

  • پنجابی ڈھولے – قسط نمبر 6

    پنجابی ڈھولے. قسط نمبر 6
    ڈھولا نمبر – 1.

    کنّاں میریاں نوں بُندے سر تے چھتیاں دے ڈیرے
    عشق تے جوبن دی پے گیُ بھنڈی، اوتھے جھگڑے کون نبیڑے
    عشق آکھیا جوبنا ! تینوں بہوں توفیقاں نے، کولوں مار کے لگھنا ایں پھیرے
    میرا وی پتہ لینا ہووی ترے مقام مقررہ نے میرے
    ویلے دھمّی دے جانا آں وچ ترنجناں چکّی خانے نی ڈیرے
    ہتھّاں نال ہتھ جوڑ کے اپنی ہتھّیں پتھر نے گیڑے
    ویلے ڈیگر دے جانان آن مڈھلے کھوہ تے اوتھے تیں جیہے طالب نے میرے
    شامیں جاناں آں تپدے تندور تے ، اوتھے اکھّاں نال کرنا آں اشارتاں ، ہتھاں نال ٹُک کے دینا آن پیڑے
    میں اگّے بہوں گھر اجاڑے ، سیال، چدھڑ تے کھیڑے
    میں مجھّیں والے نون پٹیا بلخ بخاریوں ، اوس کھوتے کمہاراں دے چھیڑے
    میں سُتی سوہنی نوں چا جگایا، اوہ ڈُب کے مویُ واہندی نے دے وچ، جتھے پوندے نے گھمّن تے گھیرے
    میں شیخ صنعان نوں واہ بلایا ، جس اجّڑ ساہنسیاں دے چھیڑے
    میں پُنّوں نوں واہ بلایا، جنہے پتّن تے رکھے نے ڈیرے
    میں سسّی نوں چا غرق کرایا وچ تھل دے، جس نے باغے وچ رکھّے نے ڈیرے
    میں ہیر ویاہ کے رانجھے نوں دے دتّی، شگن مناندے رہ گیےُ نی کھیڑے
    میں فرہاد نوں واہ رلایا جس نیر دریا نے چھیڑے
    شیریں دھی بادشاہ دی آہی، اوہ اُچیاں محلاں توں ترٹ کے مویُ آکھے لگ کے میرے
    میں صاحباں نوں چاہڑیا مرزے دی بہل تے، جنج ڈھُکّی رہ گیُ چدحڑان دی سیالاں دے ویہڑے
    میں دونوں لعل چا کوہاےُ جنڈ دے بوٹے ہیٹھ ، جدوں میتھوں لنگھ گیےُ ذرا اگیرے
    عشق آکھیا جوبنا ! جیہڑے تیتھوں مُنکر رہندے، اوہ لا دیہہ اگّے توں میرے
    فقیر آہندا اے نصیب ہووے کلمہ، جھگڑے عاشقاں دے رب آپ نبیڑے.

    ( میرے کانوں میں جھُمکے اور سر پر گھنے بال ہیں .
    عشق اور جوبن آپس میں جھگڑ پڑے. ان دونون میں طاقتور کون ہے ؟ اس کا فیصلہ کون کرے !
    عشق کہنے لگا جوبن! تم اپنے آپ کو بہت طاقتور خیال کرتے ہو، اسی غرور میں تم کیُ بار میرے پاس سے اکڑتے گزرے ہو.
    اگر مجھے ڈھونڈنا ہو تو میں تین جگہوں پر مل سکتا ہوں.
    سحری کے وقت چکّی خانے جاتا ہوں، ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چکّی کے پتھر گھماتا ہوں.
    عصر کے وقت گاؤں کے ساتھ والے کنؤیُں پر پانی بھرنے جاتا ہوں. جہاں پر تم جیسے کیُ میرے طلب گار ہوتے ہیں.
    شام کو تندور پر روٹیاں لگوانے جاتا ہوں. وہاں آنکھیں تو اشارے کر رہی ہوتی ہیں اور ہاتھوں سے آٹے کے پیڑے بنا کر دیتا ہوں.
    اس سے پہلے بھی میں نے کییُ گھر اجاڑے ہیں، جن میں سیال، چڈھڑ اور کھیڑے مشہور ہیں.
    میں نے بلخ بخارا سے عزت بیگ کو بلایا ، اور وہ عشق کی خاطر کمہاروں کے گدھے چراتا رہا.
    میری ہی وجہ سے سوہنی گہرے دریا کے بھنور میں ڈوب مری.
    میں نے شیخ صنعان کو ساہنسیوں ( ایک غیر مسلم قوم ) کے ڈھور ڈنگروں کو چرانے پر مجبور کیا.
    پُنّوں اتنی دور سے آ کر پتّن پر پھیرے لگاتا تھا. اسے میں نے ہی ایسا کرنے پر مجبور کیا.
    سسی بڑے ناز سے اپنے باغوں میں پھرتی تھی، اسے تھل میں غرق کرانے میں میرا ہی ہاتھ تھا.
    میں نے ہیر کو رانجھے کے حوالے کر دیا، اور کھیڑے ایسے ہی شادی کے شگن مناتے رہ گیے.
    فرہاد میری ہی وجہ سے دن رات روتا رہتا تھا.
    شیریں بادشاہ کی بیٹی تھی، وہ میری ہی وجہ سے محلوں سے چھلانگ لگا کر مر گییُ.
    میں نے صاحباں کو عین شادی والے دن مرزے کی گھوڑی پر بٹھا دیا ، اور چدھڑوں کی بارات سیالوں کے گھر سے خالی ہاتھ واپس گییُ.
    پھر میں نے مرزا اور صاحباں کو جنڈ کے درخت کے نیچے ذبح کرا دیا، جب میں نے دیکھا کہ وہ مجھ سے آگے نکل گیےُ ہیں.
    اے جوبن ! اگر کویُ تمہارے بس میں نہیں آتا ، تو اسے میرے حوالے کر دو، پھر تماشہ دیکھنا.
    فقیر کہتا ہے کہ دعا کرو ہمیں کلمہ پڑھنا نصیب ہو، ان عاشقوں کے جھگڑے اللہ خود ہی نمٹاےُ.
    یہاں تک وہ ڈھولے تھے جن میں کانوں کے آویزوں اور سر کے بالوں کا ذکر تھا. اگلی نشست میں وہ ڈھولے آییُں گے جن مین چرخہ کا زکر ہو گا.

    اس ڈھولے میں ایک لفظ”چکّی خانے ” آیا ہے، جسے غالباّ موجودہ پود نہیں جانتی ہوگی. اس کی تشریح کچھ یوں ہے :
    آج سے ساٹھ ستّر سال پہلے اکثر دیپات میں بجلی نہیں ہوتی تھی. گندم کے دانوں کو پیسنے کے لیےُ بعض لوگوں نے اپنے گھروں میں ہاتھ سے چلانے والی چکیاں لگایُ ہویُ تھیں. جہاں وہ اپنے گھر کے لیےُ اناج پیس لیا کرتے تھے. باقی لوگ کیا کرتے ؟. اس کا علاج گاؤں کے کمہار خاندان نے ڈھونڈا. وہ اپنے ایک علیحدہ کمرے میں اس کی وسعت کے مطابق ہاتھ سے چلانے والی آٹھ دس چکیاں نصب کر دیتے. جسے ” چکی خانہ” کے نام سے پکارتے تھے. جن گھرانوں میں اپنی چکیاں نہیں ہوتی تھیں، ان کی عورتیں ان چکی خانوں میں جا کر اپنے دانے پیس لیتی تھیں ، اس کے عوض وہ چکی خانی کی مالک عورت کو ایک دو روٹی کے برابر پسا ہؤا آٹا دے دیتیں.

    جاری ہے.

  • پنجابی ڈھولے – قسط نمبر 5

    پنجابی ڈھولے ، قسط نمبر 5

    سب سے پہلے میں اپنی لمبی غیر حاضری کی معافی چاہتا ہوں. دراصل میں ایک مہینہ کورونا کا مہمان رہا. کورونا سے صحت یاب ہونے کے بعد جسمانی کمزوری حد درجہ تھی. اپنے ٹریک پر واپس آنے میں کچھ عرصہ لگ گیا. اب میں اللہ کے فضل سے ٹھیک ہوں اور آپ کی خدمت میں حاضر ہؤا ہوں.

    ڈھولا نمبر 1

    کنّاں نوں سوہنے بندے سر تے چھتیاں دے جھانجے
    میں نت چپڑیندی، رکھّے پاناں توں رہندے
    اگّے سانوں انہاں ٹھگ لیا اے، بھگوے بھیس جنہاں دے
    لا کے یاری مکھّاں جا ملیاں نی، ودھ جاہن بودی ساڈی دے ساہنگھے
    جس پاسے مینوں دس ڈھول دی پوے، دل میرا ادایُں پیا تاہنگے
    اسی صورت تیری دے بھکھّے آہے، بھیڑیا نالوں لاہ کے کجھ نہ کھاندے
    ایہہ ناری بھر کستوری پاہنان توں پتلے، اتّوں آؤندے دھڑ ڈھلاندے
    ترٹ گیُ دی اک مثال چا دیواں، جیوں ماکھیوں لاہ لیندے شکاری، پچھّے گھن نے پیےُ کرلاندے
    جیوندا وتنا ایں تے اک واری موڑ مہاراں، اساں دھمّی ویلے ٹر جانا اے ترنگنیں گھت کے بھانڈے

    ( میرے کانوں میں خوبصورت آویزے ہیں، سر پر بڑے بڑے لمبے بال ہیں.
    میں روزانہ چپڑی ہویُ روٹی کھاتی ہوں، پردیس میں اسے شاید سوکھی روٹی کھانے کو ملتی ہوگی.
    ہمیں ان بھگوے لباس والے ٹھگوں نے پہلے ہی ٹھگ لیا ہے.
    دوستی لگا کر پردیس چلے گیےُ ہو، اتنا عرصہ لگا دیا، تمہیں کچھ اندازہ ہے اس عرصہ میں میرے سر کے بال کتنے لمبے ہو گیےُ ہیں !.
    جب کبھی مجھے معلوم ہوتا ہے کہ تم فلاں جگہ پر ہو، جی چاہتا ہے ادھر جا کر تمہیں دیکھوں.
    ہم تو صرف تمہاری صورت دیکھنا چاہتے ہیں، تمہاری صورت سے کچھ کاٹ کر کھا تو نہیں جایُں گے.
    یہ عورتیں کستوری کے کٹورے جیسی ہیں، درمیان میں پتلی کمر، اوپر سے سر یوں ڈولتا ہے جیسے نشہُ جوانی میں مخمور ہوں.
    جس کی یاری ٹوٹ جاےُ اس کی مثال ایسی ہے جیسے شکاری شہد کے چھتے سے شہد نکال لیں، اور پیچھے شہد کی مکھیاں بے قرار ہو کر بھنبھناتی رہیں.
    اگر تم زندہ ہو ایک دفعہ ضرور واپس آؤ، ہم بھی کل صبح اپنا بوریا بستر سمیٹ کر جا رہے ہیں )
    مندررجہ بالا ڈھولے کے دو الفاط کی تشریح کچھ یوں ہے :
    1 – بھگوا رنگ = آپ نے صحرایُ اونٹ دیکھا ہو گا ، اس کا رنگ ایسے ہوتا ہے جیسے کچھ جلا ہؤا بادامی رنگ ہو. یہی رنگ بھگوا رنگ ہے
    2 – ترنگڑ = موٹی رسیوں سے بنا ہوا جال ، جس کا ہر خانہ چار مربع انچ کا ہوتا ہے، اس کے چاروں سروں پر باندھنے کے لیےُ رسیاں ہوتی ہیں. کسان کھیت میں سے چارہ کاٹ کر اس میں باندھ لیتے ہیں. یہ ترنگڑ عمومآّ 4 گز لمبا اور 3 گز چوڑا ہوتا ہے. اس ترنگڑ میں کویُ بھی چیز بزندھی جا سکتی ہے.

    ڈھولا نمبر 2

    کنّاں میریاں نوں بُندے ، سر تے چھتیاں دیاں دھجّاں
    میں لیا وٹ لنگوٹ ، مگر توہیں ڈھولو ٹھگ دے بھجّاں
    نمڑے وین کریندی، نال درداں دے سدّاں
    توہیں بے درد ہو کے تیر مارے، ٹھوکراں جھل لیّاں ساڈے کچ دیاں ہڈّاں
    جے کدی میں بدّل ہوندی ساون دا، دیساں تیریاں دے جا کے گجّاں
    جیوندا وتنا ایں تے پرتا گھت مہاراں نوں، توہیں ٹر گیےُ دے پچھّے میں لالچ کیہڑے لگّاں

    ( میرے کانوں میں آویزے ہیں، اور سر پر لمبے لمبے بال اپنی دھج دکھا رہے ہیں.
    میں نے لنگوٹ کس لیا اور تمہارے پیچھے دوڑ پڑی.
    آہستہ آواز سے بین کرتی، درد بھری آواز سے تمہیں پکارتی رہی.
    تم نے ظالموں کی طرح تیر مارے جو میرے نازک بدن کی ہڈیوں نے سہہ لیےُ.
    اگر میں ساون کے مہینے کا بادل ہوتی، تو تمہارے دیس جا گرجتی اور اپنے دل کی بھراس نکالتی.
    اگر تم زندہ ہو تو ایک دفعہ واپس آؤ، اور مجھے بتاؤ کہ تم تو چلے گیےُ، اب میں کس چیز کے لالچ میں زندہ رہوں )

    ڈھولا نمبر 3.

    بندے کنّاں نوں، سر تے چھتیاں دیاں پالیاں
    یاری لانی ہووے تے لاہیےُ ناری ویکھ کنواریاں
    لشکن اونہاں دے بندے، اکھّیں کال چنگاریاں
    سرمہ کڈّھے لاٹ، بندوقاں اینہاں بھر کجلے دیاں ماریاں
    دھرنی پیر مروڑ کے، ٹرن وانگ ہزاریاں
    دنے ڈردیاں سکیاں ککھّاں توں راتی لین وچ جھناں دے تاریاں
    اونہاں سوہرے جا کے کی وسناں، جیہڑیاں پیکے بہن لا کے یاریاں
    آکھ فقیرا راجیا، دوزخ جا اونہاندی جیہڑیاں کیتے قولاں توں ہاریاں.

    (میرے کانوں میں آویزے ہیں، اورسر پر بڑے بڑے بال ہیں.
    اگر دوستی کرنی ہو تو کنواری لڑکی سے کرو.
    ان کنواری لڑکیوں کے جھمکے جگمگاتے ہیں، اور آنکھیں چنگاریاں برساتی ہیں.
    سرمہ سے بھری آنکھیں جیسے اندھیری رات میں روشن چراغ، جو دو نالی بندوق کے فایُر کی طرح زخمی کر دیتی ہیں.
    پیر بڑی نزاکت سے اٹھاتی ہیں، پیروں کو مروڑ مروڑ کر رکھتی ہیں، گویا ہرنیاں چل رہی ہیں.
    دن کے اجالے میں سوکھے پتّوں سے درتی ہیں، اور رات کو چناب دریا میں بے خوف تیرتی ہیں (سوہنی کی طرف اشارہ ہے ).
    جن لڑکیوں نے اپنے میکے میں کسی سے دوستی کر لی، وہ اپنے سسرال میں کیا گھر بساییُں گی.
    راجہ کہتا ہے کہ جو اپنے کیےُ ہوےُ اقراروں اور وعدوں سے پھر گییُں ، ان کا ٹھکانا دوزخ ہو گا.)
    اس ڈھولے میں ایک بڑی برایُ کا ذکر کیا گیا ہے. جو لڑکیاں اپنے میکے میں دوستی گانٹھ لیتی ہیں، اور کسی دوسرے سے شادی کی صورت میں ان کی شادی عموماّ ناکام ثابت ہوتی ہے.

    جاری ہے.

  • پنجابی ڈھولے  –  قسط نمبر  4

    پنجابی ڈھولے – قسط نمبر 4

    پنجابی ڈھولے – قسط نمبر 4

    بعض ڈھولے طویل ہوتے ہیں اور بعض مختصر. لیکن ان کا اختصار وہ مزا دیتا ہے جو طویل ڈھولوں میں نہیں ہوتا. مختصر ڈھولے کی ایک مثال یہ ڈھولا ہے:

    ڈھولا نمبر 1

    چڑھیا ای تارا نال چڑھی آ مُنّی
    میرا ڈھول ٹراؤ میں ساری رات وی رُنّی
    لاہماں توں بھج گیا اُتلا نالے بھج گیُ لک دی لُنگی                                                                    آکھو نی سہیلیو اج دی رات رہ جاےُ بھلکے ٹُر جاےُ سویلے دھمُی

      اردو ترجمہ –

    صبح کا ستارہ نکلا ہے اس کے ساتھ دوسرا ستارہ ” منّی ” بھی ہے.
    آ میرا محبوب جانے والا ہے، اسی غم میں میں ساری رات روتی رہی ہوں.
    میرے آنسووں سے میرے دوپٹُے کا پلّو اور میری لُنگی بھی بھیگ گیُ.
    میری سہیلیو ! اسے کہو کہ وہ صرف آج کی رات رک جاےُ، اور کل صبح سویرے ہی چلا جاےُ.
    یہاں لفظ “ڈھول” محبوب کے معنوں میں استعمال ہؤا ہے. ” ڈھول ” اور ” ڈھولا ” کے متعلق معلومات کے لیےُ دیکھیےُ “ پنجابی ڈھولے – تعارف

    چمکدار ستارہ” زہرہ ” عموماُ سورج نکلنے سے بہت پہلے دکھایُ دیتا ہے، اس کے ساتھ ایک دوسرا نسبتاُ کم روشن ستارہ بھی ہوتا ہے . دیہات میں اسے ” منّی ” کا نام دیا گیا ہے. جب کویُ یہ کہتا ہے کہ تارہ نکلا ہؤا ہے تو اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ ستارہ زہرہ طلوع ہو چکا ہے. اس ڈھولے میں بھی تارہ سے مراد ستارہ زہرہ ہی ہے. جو عموماّ سبح صادق کے وقت طلوع ہوتا ہے.
    مندرجہ بالا ڈھولے کے چار مصرعوں میں پوری کہانی بیان کی گیُ ہے. جو کچھ اس طرح ہے؛ لڑکی کا محبوب آج صبح جانے والا ہے. (یہ نہیں بتایا گیا کہ لڑکی کا محبوب کویُ پردیسی ہے جو آج واپس اپنے وطن جا رہا ہے یا کسی دور دراز مقام پر اپنی ملازمت پر جا رہا ہے ) میں اسی غم میں ساری رات سو نہیں سکی، اور صبح کا ستارہ بھی طلوع ہو چکا ہے. اپنے محبوب کے چلے جانے کے غم میں میں ساری رات روتی رہی ہوں، میرے آنسووں سے میرے دوپٹے کے دونوں پلُؤ بھیگ گیےُ. اور میری ” لنگی ” بھی بھیگ گیُ. ( آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے دیہات میں شلوار کی جگی دھوتی، چادر یا رنگ دار ” لنگی ” پہنتے تھے ) میری سہیلیو، میرے محبوب سے کہو کہ وہ صرف آج کی رات نہ جاےُ. کل صبح چلا جاےُ.
    محبوب کی جدایُ کے غم میں رونے والی دوشیزہ کے آنسووں سے مجھے ایک شعر یاد آ گیا. شاعر کے نام کا پتہ نہیں. شعر کچھ یوں ہے :
    ہم رونے پہ آیُں تو دریا ہی بہا دیں
    شبنم کی طرح ہمیں رونا نہیں آتا
    یہاں بھی کچھ ایسی ہی حالت دکھایُ دیتی ہے.
    یہاں ایک لفظ ” اُتلا ” آیا ہے ، پنجابی زبان کے اس لفظ کے معنی ہیں ” وہ چیز یا کپڑا جو سر کے اوپر ڈالا جاتا ہے. آج کل اسے دوپٹّہ کہتے ہیں. دیہات میں بڑی عمر کی عورتیں اب بھی دوپٹے کو ” اُتلا ” ہی کہتی ہیں.

    یہاں سے ہم اُن پنجابی ڈھولوں کا سلسلہ شروع کر رہے ہیں جن میں کانوں کے بُندوں اور سر کے بالوں کا ذکر ہے. یہ ذکر عمومآ پہلے مصرعے مین ہی ملتا ہے. باقی ڈھولے مین مضمون علیحدہ علیحدہ ہیں ا ور ہر ڈھولے کا تاثّر مختلف ہے.

    ڈھولا نمبر – 2

    کنّاں میریاں نوں بُندے ، سر تے چھتیاں دیاں چھنّیں
    اگّے تینوں بہوں ہوڑیا اے گلی ساڈی وی توہیں نہ ونجیں
    تیریاں بہوں وچاراں ہوندیاں نیں کل سُن آیُ آں میں اپنی کنّیں
    گواہڈ ای میرا بھیڑا ، لُوتی ویہڑا، ماپے نی ظنّی
    حق نکاح دلاں دے ہوندے کی کرنیاں نی ڈھو کے بُوہے تے کُوڑیاں جنجیں
    سٰیّاں چا ماری تاڑی کیڈا ٹھٹ چا بدھّا اے سمّی
    پھُلاں دی میں سیج وچھایُ، وچ لونگاں دی پایُ آ بنّی
    ساری رات میں رہی ساں اڈیکدی، میریاں جُڑ گیاں ویلے دے دھمّی
    جیوندا وتنا ایں تے پرتا گھت مہاراں نوں ، کیڈی ڈھل لایُ آ پردیس دی لمّی

      اردو ترجمہ –

    میرے کانوں میں آویزے ہیں اور سر پر لمبے لمبے بال ہیں
    اس سے پہلے بھی تمہیں کتنی دفعہ کہہ چکی ہُوں کہ ہماری گلی میں احتیاطآ نہ آیا کرو.
    تمہارے بار بار آنے پر گلی میں کیُ چہ میگویُاں ہو رہی ہیں، کچھ تو کل میں اپنے کانوں سے سن آیُ ہوں.
    میرے پڑوسی بہت بُرے ہیں، اردگرد والے لگایُ بجھایُ میں ماہر ہیں ،اور نیرے ماں باپ تو بہت ہی شکّی مزاج ہیں ( ایسا نہ ہو ان کے کانوں میں ہمارے پیار کی بھنک پڑ جاےُ )
    اصل نکاح تو دلوں کے ہوتے ہیں، یہ بارات ورات سب فضول رسمیں ہیں.
    کل رات) سہیلیوں نے تالی بجانی شروع کی، اور سمّی ( عورتوں کا ایک لوک رقص) شروع ہو گیا.بڑا مزا آیا.
    میں نے اپنے بستر پر پھولون کی چادر بچھایُ، درمیان میں لونگوں سے حد بندی کی.
    میں ساری رات تمہارا انتظار کرتی رہی. ( مگر تم نہ آےُ ) پھر صبح کے وقت میرے آنکھ لگ گیُ.
    اگر تم زندہ ہو تو ایک دفعہ ضرور واپس آؤ. کافی مدّت ہو گیُ تمہیں پردیس گےُ ہوےُ.

    جاری ہے.