پنجابی اکھان ردیف ” س” ، نمبر 28 – 21
ردیف س کے اکھان نمبر 21 میں وہ اٹل حقایُق بیان کیےُ گیےُ ہیں جو آج بھی مستند مانے جاتے ہیں. ہمارے بزرگوں نے یہ حقایُق طویل مشاہدے کے بعد ہی بیان کیےُ ہیں. اور ان پر آج بھی عمل کیا جاتا ہے.
پنجابی اکھان ردیف س نمبر 20-11 پڑھنا چاہیں تو اس لنک پر کلک کریں.
ردیف س سے شروع ہونے والے مزید پنجابی اکھان پڑھیےُ:
نمبر 21 – سوہرے گھر جوایُ
بھین دے گھر بھایُ
اوہدی ذات نہ پچھّے کایُ
سسرال میں رہنے والا داماد، اور بہن کے گھر رہنے والا بھاٰ یُ اپنی شناخت کھو بیٹھتے ہیں. ان دونوں کے متعلق تو کویُ یہ بھی نہیں پوچھتا کہ یہ کون ہیں یا ان کا تعلق کس ذات سے ہے.
دیہات میں بیٹی اور بہن کے تقدس کا بہت خیال رکھّا جاتا ہے. کسی ایک گھر کے داماد کو پورا گاؤں عزّت دیتا ہے. گاؤں میں سسرال کے ہاں رہنے یا بہن کے گھر بھاُٰیُ کے رہنے کو بہت معیوب سمجھا جاتا ہے. مندرجہ بالا کہاوت مین یہی بیان کیا گیا ہے.
نمبر 22 – سیانا کاں گونہہ کھاندا اے
کوّا جسے عقلمند سمجھا جاتا ہے، گندگی ہی کھاتا ہے.
پریدوں میں کوّے کو عقلمند سمجھا جاتا ہے. انسانوں میں کسی عقلمند کے متعلق تشبیہ دینی ہو تو کہا جاتا ہے کہ وہ تو سیانا کاں ہے. ( پنجابی زبان میں کوّے کو کاں کہتے ہیں ) تو یہ عقلمند پرندہ گندگی ہی کھاتا ہے.
عقلمند کوّے سے ایک بات یاد آ گیُ. ایک بوڑھا کوّا مرنے لگا تو اس نے اپنے پوتوں، نواسوں کو جمع کیا . انہیں نصیحت کی کہ جب تم کسی آدمی کو دیکھو کہ وہ جھک رہا ہے، تو سمجھو کہ وہ مارنے کے لیےُ ڈھیلا اٹھانے کے لیےُ جھکا ہے. تم فورآ اپنی جگہ سے اڑ کر کہیں دور جا بیٹھو. تا کہ یا ڈھیلے کی پہنچ سے دور ہو جاؤ. بوڑھے کوّے کا ایک چھوٹا سا پوتا بولا ” دادا! اگر اس آدمی کے ہاتھ میں پہلے ہی ڈھیلا ہو تو ؟ ” بوڑھا کوّا بولا ” بیٹا ! تمہیں نصیحت کی ضرورت نہیں . تم پہلے ہی بہت سیانے ہو “.
بڑی سوچ بچار کے بعد کویُ کام کرنے پر اس میں گھاٹا پڑ جاےُ تو ایسے موقعوں پر یہ کہاوت کہی جاتی ہے.
نمبر 23 – سالی ادھے گھر والی
سالی بیوی تو نہیں ہو سکتی. لیکن جس طرح وہ برتاؤ کرتی ہے ، لگتا ہے وہ آدھے گھر کی مالک ہے.
نمبر 24 – سو لتر وی کھاہدا سو گنڈھا وی کھاہدا
کسی شخص پر حاکم وقت کسی بات پر ناراض ہو گیا. حاکم نے اسے سزا سنایُ کہ اس شخص کو 100 جوتے مارو یا یہ 100 پیاز کھاےُ. اس شخص نے سوچا جوتے کھا لیتا ہوں، پیاز تو پانچ بھی نہیں کھاےُ جایُں گے. دس جوتے کھانے کے بعد وہ درد سے بے حال ہو گیا. اس نے دہایُ دی کہ میں سو عدد پیاز کھا لوں گا. اس کے سامنے سو عدد پیاز رکھے گیےُ . 10 پیاز کھانے کے بعد ہی اس کے منہ کی بری حالت ہو گیُ. کہنے لگا ” میں پیاز نہیں کھا سکتا، آپ مجھے 100 جوتے مار لیں “. چنانچہ جوتے مارنے کی گنتی نےُ سرے سے شروع ہویُ. دس بارہ جوتے کھانے کے بعد دہایُ دینے لگا کہ مجھے جوتے نہ مارو ، میں 100 پیاز کھا لوں گا. اسی طرح باری باری کبھی جوتے پڑتے اور کبھی پیاز کھانے لگتا. اس طرح اس نے 100 جوتے بھی کھاےُ اور 100 پیاز بھی کھاےُ.
نمبر 25 – سڑیا ہویا گوشت وی دال نالوں سوادی ہوندا اے
پکاتے پکاتے گوشت جل بھی جاےُ، پھر بھی مزہ اور طاقت میں دال سے بہتر ہی ہوتا ہے.
بات تو صحیح ہے . گوشت اور دال کا آپس میں کیا مقابلہ. بعض لوگ اس کہاوت کو انگریزی زبان کے محاورے Blood is thicker than water کا پنجابی ترجمہ گردانتے ہیں.
نمبر 26 – سایاں کدھرے ودھایاں کدھرے
رشتہ کی بات تو الف کے ہان چل رہی تھی، لیکن ڈھول ڈھمکا اور مبارک باد کی آوازیں ب کے گھر سے آ رہی ہیں.
پنجابی زبان میں سایاں کے دو معنی ہیں
نمبر 1 – سایّں ہا سایاں = مالک
نمبر 2 سایاں = تعلق ، میل جول
نمبر 27 – سُکّے تے مل ماہیا
جب کسی کام میں کویُ مشقّت نہ ہو، کویُ خرچ نہ ہو، یا کسی کام کا کویُ معاوضہ نہ ہو تو ایسے موقعوں پر یہ کہاوت بولی جاتی ہے.
نمبر 28 – سنگھ جانے تے ٹٹّو جانے
ھرنام سینگھ اور اس کے ٹٹّو کے ساتھ لیا بیتی ہے ، یہ ہرنام سینگھ جانتا ہے یا اس کا ٹٹّو.
ہرنام سنگھ کی گاؤں میں کریانے کی دکان تھی. اس کے پاس ایک ٹٹّو تھا ( گھوڑے کا قد چھوٹا رہ جاےُ تو اسے ٹٹّو کہتے ہیں ) وہ صبح صبح اپنے ٹٹّو پر بیٹھ کر نزدیکی شہر نما قصبے میں جاتا، سودا سلف خرید کر ٹٹّو پر لادتا اور اس پر بیٹھ کر اپنے گاؤں آ جاتا. ایک دن لوگوں نے دیکھا کہ ہرنام سنگھ ٹٹّو کی باگ پکڑے پیدل چلا آ رہا ہے. کیُ لوگوں نے پوچھا کہ کیا ہؤا ؟. ہرنام سنگھ عرف سنگھ نے کویُ جواب نہ دیا. ایک سیانے نے کہا کہ تم لوگ کیوں بار بار پوچھتے ہو جب کہ سینگھ کویُ جواب نہیں دے رہا. اصل بات تو سنگھ اور ٹٹّو کے درمیان ہے. تم چھوڑو اس بات کو، سنگھ جانے تے ٹٹّو جانے.
یہ کہاوت عمومآ دو موقعوں پر بولی جاتی ہے
نمبر 1 – جب کبھی دو آدمی لڑ پڑیں اور لوگوں کے بیچ بچا کرنے پر بھی لڑایُ سے باز نہ آیُں تو لوگ کہ دیں گے ” چھڈّو یار، سنگھ جانے تے ٹٹو جانے”.
نمبر 2 – آدمی برا کام کر بیٹھے اور اس کا نتیجہ سامنے آ جاےُ تو لوگ کہیں گے ” چھڈّو یار ، سبگھ جانے تے ٹٹّو جانے”.
جاری ہے.