پنجابی اکھان – ردیف ” چ ” نمبر 9 1 – 11

پنجابی اکھان. ردیف ” چ ” نمبر 19 – 11

 

پچھلی دفعہ ہم نے ردیف ” چ” کے نمبر 10 تک پڑھ چکے ہیں . آج ہم اس سے آگے بڑھتے ہیں. کسی بھی ملک کے لوک اکھان اُس ملک کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں. ہر ملک ایسے قیمتی اثآثوں کی حفاضت کرتے ہیں، انہیں زندہ رکھنے کے لیےُ ان کی اشاعت کا بندوبست کرتے ہیں. اور اس طرح اپنے بزرگوں کے چھوڑے ہُوے قیمتی خزانے کی حفاظت کرتے ہیں.
پنجابی اکھان ردیف چ، نمبر 10-6 کا مطالعہ کرنا چاہیں تو اس لنک ہر کلک کریں.

اب ردیف چ کے اکھان کی اگلی قسط پڑہیےُ،

نمبر – 11          چوراں دے کپڑے            ڈانگان دے گز
چورون نے کپڑا چوری کیا. برابر حصؤں میں تقسیم کرنے کے لیےُ گز کہاں سے لاتے ؟ انہون نے اپنی لاٹھی کو گز مان کر ، اس سے ناپ کر کپڑون کے برانر حصّے کر لیےُ. یاد رہے لاٹھی عموماّ 6 فٹ سے کم نہیں ہوتی.
اردو زبان کا محاورہ ” مال مفت، دل بے رحم ” اس پنجانی کہاوت کا مفہوم ادا کرتا ہے.

نمبر – 12           چوران نالوں               پنڈ کاہلی
چوروں نے چوری کا مال ایک گٹھڑی میں باندھا. چوروں کی بہ نسبت اس گٹھڑی کو زیادہ جلدی ہے کہ گٹھڑی اٹھا کر یہاں سے جلدی نکلو.
اردو زبان کا محاورہ ” مدعی سست، گواہ چست” مندرجہ بالا کہاوت کے نزدیک تر ہے.

نمبر – 13            چھولے لبھ گیےُ نے                دند وی لبھ جان گے
کھانے کو چنے مل گیےُ ہیں، انہیں کھانے کے لیےُ دانت بھی مل جایُں گے. دنیا امید پر قایُم ہے.
چنے کھانے کے لیےُ ( پکے ہوےُ نہیں ) مضبوط دانتوں کا ہونا ضروری ہے. ایک شخص کے دانت نہیں تھے. اسے کہیں سے بھنے ہوےُ چنے مل گیےُ. اس نے کہا ” چلو چنے مل گیےُ ہیں، انہیں کھانے کے لیےُ دانت بھی مل ہی جایُں گے. ”
جھوتی امید پر جینا، یا ایسی امید رکھنا جس کا پورا ہونا نا ممکن ہو، کسی ایسی ہی امید کے لیےُ یہ کہاوت کہی گیُ ہے.

نمبر – 14          چور چوری چھڈ دیندا اے                ہیرا پھیری نہیں چھڈ سکدا
چور کوشش کر کے چوری کرنے کی عادت تو چھوڑ سکتا ہے، لیکن ہیرا پھیری سے باز نہیں رہ سکتا.
کسی چیز کو تواتر سے کرتے رہنے سے وہ عادت بن جاتی ہے ، اور پھر فطرت ثانیہ. فطرت کو تبدیل کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے. چور کوشش کر کے چوری کرنا تو چھوڑ سکتا ہے، لیکن چوری کرنے کی فطرت ثانیہ ہیرا پھیری مین تبدیل ہو جاتی ہے.

نمبر – 15             چور دا ساتھی              گرہ کٹ
چوری کرنا یا کسی کی جیب کاٹنا ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں. چور کا دوست وہی ہو گا جس کا پیشہ اس کے پیشے سے ملتا جلتا ہو. اور وہ کویُ گرہ کٹ یا جیب کترا ہی ہو سکتا ہے.

نمبر – 16         چھیتی پھانسی دیہو             میریاں نلیاں پیاں سکدیاں نے
مجھے جلدی جلدی پھانسی دے دو،تا کہ اس کام سے فارغ ہو کر میں کپڑا بننا شروع کر دوں، میری نلیاں خشک ہو رہی ہیں.
کسی جولاہے کو کسی جرم میں پھانسی کی سزا ہو گیُ. اسے پھانسی چڑھانے میں کچھ دیر ہو گیُ. جولاہا کہنے لگا ” مجھے جلدی جلدی پھانسی دے دو، میری کپڑا بننے والی نلکیاں خشک ہو کر بے کار ہو جایُں گی. ”
دیسی کپڑا بننے کے لیےُ دھاگے کو گندم کے ناڑ پر لپیٹ لیا جاتا ہے. اور اسے پانی سے بھگو لیا جاتا ہے . ناڑ پر لپٹے ہوےُ دھاگے کو ” نلیاں ” کہتے ہیں .

نمبر – 17          چوہڑیاں دیاں دعاواں نال بھیڈاں کدی نہیں مویاں
وہ لوگ جو ان جانورون کا گوشت کھاتے ہیں جو بغیر ذبح کیےُ مر جایُں، انہیں عموماّ ” چوہڑے” کہا جاتا ہے. اگر چوہڑے دعایُں مانگیں کہ نہت ساری بھیڑیں مر جایُں تاکہ انہیں ان کا گوشت کھانے کو مفت مل جاےُ ، تو ایسی دعایُن قبول ھونے سے رہیں.
قیام پاکستان سے پہلے دیہات میں ایک غیر مسلم قوم ہوتی تھی جسے ” ساہنسی ” کہتے تھے. یہ عموماّ ہر جانور زندہ ہا مردہ کھا جاتے تھے. (ظاہر ہے پکا کر کھاتے تھے ) گاؤں میں کسی کی بھینس، گاےُ،بکری یا کویُ اور جانور مر جاتا تو یہ اٹھا لاتے اور اسے پکا کر کھا جاتے. اس قوم کے لوگوں کو عموماّ ” چوہڑے ” کہا جاتا تھا.

نمبر – 18           چوپڑی ہویُ            نالے دو دو
ایک تو روٹی پر بہت سا دیسی گھی لگا ہے، یہ تو بہت ہی مزیدار اور طاقت دینے والی ہے، اس پر طرّہ یہ کہ دو دو روٹیاں.
آتے کے پیڑے سے روٹی بناتے وقت عورتیں آتے میں دیسی گھی ملا لیتی ہیں. اس طرح روٹی خستہ بنتی ہے. روٹی پک چکنے کے بعد اس پر مزید دیسی گھین یا مکھّن لگاتی ہیں. ایسی روٹی اگر ایک بھی کھا لی جاےُ تو پیٹ بھر جاتا ہے. اس میں دیسی گھی شامل ہونے کی وجہ سے یہ جسم کو طاقت بھی دیتی ہے. خصوصاّ جب یہ روٹی کسی تندور میں پکایُ گیُ ہو. کسی کو کھانے کے لیےُ ایسی دو روٹیان مل جایُن تو کیا کہنے.
اس کہاوت کا دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک تو تمہیں دیسی گھی سے چپڑی ہویُ کھانے کو مل رہی ہے ، اب تم ایسی ہی ایک اور روٹی کا تقاضا کر رہے ہو.
اردو زبان کا محاورہ ” انگلیاں گھی میں، سر کڑاہی میں ” اس کہاوت کا کچھ مفہوم ادا کرتا ہے.

نمبر -19                    چور         نالے چلترّ
ایک تو تم نے چوری کی، دوسرے مختلف بہانوں سے اپنے بے گناہی کا یقین دلا رہے ہو.
اپنا قصور مان لینا بڑے دل گردے کا کام ہے. لوگ عموماّ مختلف تاویلوں سے اپنے آپ کو بے قصور ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے وہ اپنے قصور یا غلطی کے مزید ثبوت فراہم کر دیتے ہیں.
چلترّ عموماّعورتوں کے زیادہ مشہور ہیں.

جاری ہے.


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *