Our education. A boy is working in a shop instead of going to school.

ہمارے سلگتے مسایُل نمبر 8- ہماری تعلیم – Our burning issues #8, Our Education

ہمارے سُلگتے مسایُل # 8
ہماری تعلیم

Our burning issues # 8
Our Education

ہمارے سلگتے مسایُل # 8 میں ہم ” ہماری تعلیم ” پر بحث کریں گے. کسی قوم کو بگاڑنے اور سنوارنے میں تعلیم ایک بنیادی جزو ہے. اپنے ملک کے صوبہ پنجاب میں اندازآ 1 کرور 11 لاکھ بچے سکول نہیں جاتے. صوبہ سندھ میں 70 لاکھ سے زیادہ بچے سکول نہیں جاتے . روزنامہ جنگ، لاہور مورخہ 22 جنوری 2024 کے اخبار میں سکول نہ جانے والون کے تازہ اعداد و شمار دیےُ گیےُ ہیں، جو یہ ہیں. ” پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن  کے مطابق پاکستان میں 2 کروڑ 62 لاکھ کے قریب بچے سکول نہیں جاتے “. سکول نہ جانے کی مُختلف وجوہات ہیں. جن میں غُربت سر فہرست ہے. صوبہ بلوچستان اور صوبہ سندھ کے دور دراز علاقوں میں لوگ زیادہ پسماندہ ہیں. ان کے ذرایُع آمدن بہت محدود ہیں.سانس کی ڈور کو قایُم رکھنے کے لیےُ انہیں بہت تگ و دو اور دوڑ دھوپ کرنی پڑتی ہے. خالی پیٹ تو نیند بھی نہیں آتی. ُپنجابی زبان کا ایک محاورہ ہے :

پیٹ نہ پیُیاں روٹیاں
سبھّے گلّاں کھوٹیاں

اردو ترجمہ

پیٹ میں اگر روٹی نہ ہو یعنی پیٹ خالی ہو
تو سب باتیں جھُوٹ معلوم ہوتی ہیں.

بات ہو رہی تھی صوبہ بلوچستان اور سندھ کی جہاں غربت بہت زیادہ ہے. روزمرہ کھانے کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیےُ بچوں کے والدین بچوں کو جیسا بھی کام ملے اس پر لگا دیتے ہیں. پچھلے مہینے تیلی ویژن پر ایک نو عمر لڑکی کی کہانی دکھایُ گیُ تھی، جو اپنی ماں کا ہاتھ بٹانے کے لیے ایک نو عمر لڑکےکا رُوپ اختیار کر کے پختہ اینٹوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے دکھایا گیا تھا. جہاں اُسے سارا دن کام کرنے کی مزدوری 600 روپے ملے. اس وقت لڑکی کی آنکھوں میں آنسو آ گیے. اس لڑکی کی عمر سکول جانے کی تھی. لیکن مجبوریاں بہت کچھ کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں.

پتہ نہیں اس لڑکی جیسے کتنے بچے مجبوری کی وجہ سے نہایت کم اُجرت پر کام کر رہے ہیں. موٹر سایُکل مرمت کرنے والوں کی دکانوں پر آٹھ دس سال کے بچے گریس اور تیل میں لتھڑے کپڑے پہنے کام کر رہے ہوتے ہیں ، جنہیں ان کے استاد ” چھوٹے ” کہہ کر پکارتے ہیں. انہیں روزانہ کتنا محنتانہ ملتا ہوگا ؟. کہنے کو چایُلڈ پروٹیکشن کا محکمہ قایُم ہے . کاغذات میں ان کی کار کردگی بھی دکھایُ جاتی ہو گی. پھر یہ چایُلڈ لیبر ؟ کویُ ہے جو اس کا جواب دے ! یہ چھوٹے بچّے ہمارا مستقبل ہیں. انہیں اس عُمر میں کسی سکول میں ہونا چاہیےُ.
کیا ہم اپنا مستقبل غیر تعلیم یافتہ لوگوں کے حوالے کرنے کا خطرہ مول لے سکتے ہیں ؟

عنوانات

ہماری تعلیم کا معیار.
تعلیمی سلیبس.
تعلیم بالغاں.

ہماری تعلیم کا معیار.

یہ بات نہایت افسوس ناک ہے کہ ہمارا تعلیمی نصاب کچھ اس طرح استوار کیا گیا ہے جو صرف کلرک پیدا کرتا ہے. عام لوگ بی اے یا ایم اے کرنے کے بعد کسی دفتر میں کلرک کی نوکری ڈھونڈنے میں لگ جاتے ہیں. آج کل زمانہ سفارش یا رشوت کا ہے. عام آدمی کے پاس ان دونوں میں سے ایک بھی نہیں تو وہ ہر طرف ناکامئ کا منہ دیکھتا ہے. امیر لوگوں کی بات دوسری ہے. امیر لوگ تو باہر کے ملکوں میں جا کر پڑھتے ہیں. ان کی تعلیمی ڈگریوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اور وہ اعلے عہدوں پر تعینات ہو جاتے ہیں. مسلہ عام لوگوں کا ہے. عام لوگوں کے پاس اپنے بچوں کی اعلے تعلیم کے اخراجات پورا کرنے کی سکت نہیں ہوتی. غریب اور امیر کا یہ فرق دو طبقات کو جنم دیتا ہے. اس تفریق کو ختم کیےُ بغیر ” تعلیم ، سب کے لیےُ ” کا خواب پورا نہیں ہو سکتا.

تعلیمی سلیبس

اپنے ملک کو ترقی یافتہ بنانے کے لیےُ ہمیں اپنا تعلیمی سلیبس بدلنا ہو گا. یہ کام پہلی جماعت کے سلیبس سے شروع کرنا ہوگا. سلیبس میں یہ باتیں ضرور شامل ہوں ؛

نمبر 1 . کردار

بچوں کے ذہن میں شروع سے ہی اعلے کردار کے نقوش ثبت کرنے کی کوشش کی جاےُ. اس سلسلے میں درج ذیل موضوعات پر روزانہ لیکچر دیےُ جایُیں.

نمر 1 === جھوٹ نہ بولنے پر خصوصی توجہ دی جاےُ. بچوں کے ذہن میں یہ نقش کر دیا جاے کہ ہمارا رب جھوٹ بولنے والے کو پسند نہیں کرتا. اور یہ کہ جھوٹ بولنا ایک گناہ کبیرہ ہے. صرف لیکچر دینا کافی نہیں ہوگا. دوسرے دن پچھلے دن میں پڑھاےُ جانے والے مضامین کا زبانی ٹیسٹ لیا جاےُ.

نمبر 2 === چوری کرنا ایک بہت بڑا گناہ ہے. ہم سب مسلمان ہیں، اور ایک اللہ پر یقین رکھتے ہیں. اس کا ہر حُکم بجا لانا ہم پر فرض ہے. اللہ تعالے نے چوری ثابت ہونے پر چور کے ہاتھ کاٹ دینے کی سزا مقرر کی ہے. غور کریں چوری کرنے کی کتنی سخت سزا مقرر ہے. بچوں کے ذہن میں یہ پختہ ارادہ بٹھانے کی کوشش کی جاےُ کہ وہ کبھی بھی چوری نہیں کریں گے.
ڈاکہ زنی بھی چوری کی ہی ایک قسم ہے بلکہ چوری سے زیادہ گناہ کا کام ہے. اسے بھی روزانہ کے لیکچروں میں شامل کیا جاےُ.

نمبر 3 === بد کلامی زیادہ تر فساد کی جڑ ہوتی ہے. ہر کسی سے مہزب طریقے سے بات کرنے کی ضرورت پر زور دیا جاےُ. گالی گلوچ سے پرہیز کی تلقین کی جاےُ.

نمبر 4 === بڑوں کا احترام کرنے کی تلقین کی جاےُ. اختلاف کی صورت میں ان سے نرم لہجے میں اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کی ضرورت پر روزانہ لیکچر دیےُ جاییُں. دوسرے دن اس موضوع پر بچوں سے سوالات کیےُ جاییُں.

نمبر 5 === بچون کو روزانہ نیکی کا ایک کام کرنے کی تلقین کی جاےُ. دوسرے دن بچوں سے پوچھا جاے کہ انہوں نے کون سا نیکی کا کام کیا ہے.

نمبر 6 === کسی پر بھی تہمت نہ لگانے کی اہمیت پر بچوں کو سمجھایا جاےُ.

نمبر 7 === بچوں کو سمجھایا جاےُ کہ صرف اپنے فایُدے کے لیےُ دوسروں کو نقصان پہنچانا بہت بڑا گناہ ہے ، جس سے بچنا چاپییےُ.

نمبر 8 ===آپ اخبارات میں آپ روزانہ ایسا کویُ نہ کویُ واقعہ پڑھتے ہوں گے کہ ایک بد بخت نے اپنی ماں یا اپنے باپ کو مارا یا اُسے قتل کر دیا. وجوہات کیُ ہو سکتی ہیں، لیکن اپنے والدین کے ساتھ نازیبا سلوک کسی طرح بھی جایُز نہیں. چھوٹے بچوں کے تعلیمی نصاب میں والدین کے ساتھ نیک سلوک اور اُن کی خدمت کرنا شامل ہونا چاہیےُ. جماعت میں سب سے پہلا سبق قُرآن کی سورہ بنی اسرایُل کی آیات نمبر 23-24 کی تلاوت سے شروع کیا جاےُ اور پھر اس کا اردو زبان میں ترجہ کیا جاےُ. دونوں آیات کا اردو میں ترجمہ یہ ہے؛

” اور تمہارے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تُم اُس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو. اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو.اگر ان میں سے کویُ ایک یا دونوں بُڑھاپے کو پہنچ جایُیں، تو تُم انہیں اُف بھی نہ کرو. اور نہ اُنہیں جھڑکو. اور اُن سے احترام کے ساتھ بات کرو. اور اُن کے حضور اپنے پہلو عاجزی سے جھکاؤ، شفقت کی بنا پر. اور اُن کے حق میں دُعا کرو کہ اے میرے رب، ان پر رحم فرما، اس طرح جیسے انہوں نے مجھے بچپن میں پالا. “

نمبر 9 === بچوں کو اپنے غصہ پر قابو پانے پر زور دیا جاےُ. غصہ آنے پر آپے سے باہر ہو جانے کے نقصانات کی تفصیل روزانہ بیان کی جاےُ.

نمبر 10 === بچوں سے یہ پوچھا جاےُ کہ کسی پر طعنہ زنی کرنا کیسا ہے ِ، بچون کو موقع دیا جاےُ کہ وہ اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کریں. بحث کے آخر میں بچوں کے خیالات کو پرکھا جاےُ . اور کسی پر طعنہ زنی کی خصلت کو بُرایُ کی صف میں شامل کر کے بچوں کی ذہن میں اس کے خلاف نفرت کا جذبہ ابھارا جاےُ.

بچوں سے روزانہ پچھلے دن کے سبق کے بارے میں مختصر خُلاصہ لکھوایا جاےُ. اس سے یہ اندازہ ہو سکے گا کہ بچوں کو کل کا سبق یاد ہے یا نہیں. اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکے گا کہ کل کو پڑھاےُ جانے والا سبق کتبے بچوں کو یاد ہے.
/p>

نمبر 2 . آیُ ٹی کی تعلیم

آج کل آیُ ٹی کا زمانہ ہے. چھوٹے چھوٹے بچے بھی سمارٹ فون کا استعمال جانتے ہیں. بلکہ بعض بچے تو سمارٹ فون کے متعلق بڑوں سے زیادہ جانتے ہیں. سکول کے بچوں کو شروع کی جماعتوں میں آیُ ٹی کے متعلق ابتدایُ تعلیم کے اسباق ہونے چاہییُں. بچے ان میں زیادہ دلچسپی لیں گے. اس طرح امید کی جا سکتی ہے کہ کل کلاں کو انہی بچوں میں سے آیُ ٹٰی کے ماہر بنیں ، جو اپنے ملک کی معیشت میں مثبت کردار ادا کریں.

تعلیم بالغاں

اپنے ملک مین ایسے جوان مرد اور عورتوں کی خاصی تعداد موجود ہے ، جو بچپن میں ، بعض وجوہات کی بنا پر، کسی سکول میں تعلیم حاصل نہیں کر سکے. ایسے مردوں اور عورتوں کے لیےُ تعلیم بالغاں کے مراکز کھولے جاییُں، جہاں یہ لوگ اپنے فارغ وقت یا شام کے بعد بنیادی تعلیم حاصل کر سکیں. پچھلی صدی کی ساٹھ کی دہایُ میں یُونیسکو کے تحت ملک کے کچھ حصوں میں تعلیم بالغاں کے مراکز کھولے گیےُ تھے. جہاں جوان ان پڑھ لوگ شام کے بعد مُفت تعلیم حاصل کرتے تھے.آن مراکز کے نتایُج بڑے حوصلہ افزا تھے. یہ مراکز صرف مردوں کے کیےُ تھے. ان مراکز سے تعلیم یافتہ کییُ مردوں نے اپنا کاروبار شروع کیا، جس کا حساب کتاب وہ خُود لکھتے تھے.
اس کام کے لیےُ منصوبہ بندی کی ضرورت ہے. دیہات میں پڑھانے کے لیےُ جگہ کا کویُ مسُلہ نہیں. بالغوں کو پڑھانے کے لیےُ پڑھے لکھے بے روزگار نو جوان آسانی سے مل سکتے ہیں، جنہیں ایک دو ماہ کا تعلیم بالغاں کا کورس کرا کر تعینات کیا جا سکتا ہے. بالغوں کے لیےُ تدریسی کتب کے لیےُ کسی ماہر پروفیسر سے رابطہ کر کے کتابیں لکھی جا سکتی ہیں. شروع میں محدود تعداد ، مخصوص علاقوں یہ مراکز کھولے جاییُں . پڑھانے کے لیےُ مقامی افراد کو ترجیح دی جاےُ.
تعلیم بالغاں کے مراکز کھولنے کی یہ ایک تجویز ہے. منصوبہ پر غور و خوض کر کے اس کے خدوخال کو بہتر بنایا جا سکتا ہے.

موجودہ زمانے میں جو قومیں تعلیم کے میدان میں ہیچھے ہیں وہ اج کل کی تیز رفتار ترقی میں پیچھے رہ جایُیں گی.

کیا آپ یہ پسند کریں گے کہ پم بہ حیثیت قوم دوسروں کے مقابلے میں پسماندہ شمار کیےُ جاییُں ؟.


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *