ًمُچھ نہیں تے کُچھ نہیں – No mustache Nothing left

مُچھ نہیں تے کُچھ نہیں
No mustache Nothing left

مُچھ نہیں تے کُچھ نہیں پنججابی زبان کا مشہور مقالہ ہے. ابتداےُ آفرینش سے مونچھ کو مرد کے چہرے کا زیور سمجھا جاتا رہا ہے. مُونچھ کا اونچا ہونا عزّت اور رُعب کی علامت سمجھا جاتا ہے. پُرانے وقتوں کے لوگ اب بھی مُونچھ کو مرد کی شان سمجھتے ہیں. پُرانے وقتوں کے نوابوں اور ریُیسوں کی تصاویر دیکھییےُ ، بڑی بڑی مونچھیں ان کے چہرے پر سجتی ہیں، اور شخصییت کو با رعب بناتی ہیں. پاکستان کے صوبہ بلوچستان اور سندھ کے ” وڈیرے ” آج بھی بڑی بڑی مُونچھیں رکھتے ہیں بلکہ پالتے ہیں.

عنوانات

مُونچھوں کے سٹایُل

زمانہ گزرتا گیا. کیُ صدیوں تک لوگ داڑھی اورمُونچھ رکھتے رہے. پھر آہستہ آہستہ لوگوں نے بڑھی ہویُ داڑھی اور مُونچھ کو چھوتا کرنا شروع کر دیا. جب ہم پانچ چھ صدیاں پہلے کے لوگوں کی تصاویر دیکھتے ہیں. تو مہزب اقوام کے لوگ تراشیدہ داڑھی اور مونچھ میں نظر آتے ہیں. ان تصاویر میں ہمیں مُونچھوں کے مختلف سٹایُل نظر آتے ہیں.

سٹایُل نمبر1

اس سٹایُل میں مُونچھیں بڑی اور ان کے کنارے اوپر کو اُٹھے ہوتے ہیں. اس سٹایُل کی مونچھیں رکھنے کا ایک مقصد اپنے چہرے کو با رُعب بنانا ہوتا ہے. اٹھارہویں صدی کے بادشاہ اور ریاستوں کے نواب اور راجے اس سٹایُل کو پسند کرتے تھے. آج کل پاکستان میں ” کچّے ” کے علاقہ میں چھُپے ہُوےُ ڈاکو اسی گیٹ اپ میں ملتے ہیں.

Upwards Mustache

سٹایُل نمبر 2

ایسی مُونچھوں کے کناروں کا رُخ نیچے کی طرف ہوتا ہے. بعض لوگ ایسی مونچھیں رکھنے والے کو کم ہمّت ، شکست خوردہ ذہنیت یا اپنی ہار مان لینے والا سمجھتے ہیں.      نفسیاتی طور پر مندرجہ بالا تجزیہہ کچھ درست معلوم ہوتا ہے.

Long Mustache
Long Mustache

سٹایُل نمبر 3

بعض لوگ اپنی مونچھوں کو اعتدال میں رکھنا پسند کرتے ہیں. نہ نہت چھوٹی نہ بہت بڑی. ایسی مونچھیں رکھنے والے عمومآ اعتدال پسند ہوتے ہیں. اپنے رکھ رکھاؤ کا خاص خیال رکھتے ہیں. وہ اپنی عزت نفس کا خاص خیال رکھنے والے ہوتے ہیں.

Standard Mustache

سٹایُل نمبر 4

اس سٹایُل میں مونچھیں لمبی ہوتی ہیں. چہرے پر دایُیں بایُیں ایک سیدھ میں چہرے کی جلد سے اوپر اُٹھی ہُویُ ہوتی ہیں. ایسا شخص اپنا حکم چلانا پسند کرتا ہے. اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ہر شخص ان کے آگے جھُک کر رہے.

Nawab of Bengal
Nawab of Bengal

سٹایُل نمبر 5

بعض لوگوں کی یہ شدید خواہش ہوتی ہے کہ لوگ ان کی طرف متوجہ ہوں، انہیں دیکھیں. اس کے لیےُ وہ ایسا طریقہ اختیار کرتے ہیں جو انہیں دوسرے لوگوں سے الگ دکھایُ دینے میں مددگار ہو. اس سٹایُل میں اس آدمی نے داڑھی اور مونچھ کو آپس میں اس طرح گُڈ مُڈ کر دیا ہے کہ دونوں کو علیحدہ کرنا مشکل ہو گیا ہے. یہ ایک ایسا منفرد سٹایُل ہے کہ لوگ اس طرف دیکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں.

Mustache or a Bush?
Mustache or a Bush?

سٹایُل نمبر 6

اس سٹایُل میں مونچھیں اس قدر گھنی اور لمبی ہوتی ہیں کہ وہ منہہ کو ڈھانپ لیتی ہیں. ان مونچھوں کا حامل جب تک منہہ سے نہہ بولے ، اس کے منہہ کا پتہ نہیں چلتا.

Bushy Moustache
Bushy Moustache

سٹایُل نمبر 7

آج کل کے نوجوانوں کا پسندیدہ سٹایٌل ہے. اسلام میں مردوں کو داڑھی رکھنے اور مونچھیں کتروانے کی ہدایت کی گییُ ہے. مختلف فرقوں نے اس تاکید کی اپنے اعتقاد کے مطابق تشریح کر لی ہے. اسی تشریح کے مطابق آج کل کے نوجوان چھوٹی سی داڑھی اور چھوٹی چھوتی مونچھیں رکھ لیتے ہیں. مسلمانوں کے کٹّر پیروکار لمبی داڑھی رکھتے ہیں اور مونچھوں کو قینچی سے کتروا دیتے ہیں ٰیا استرے، بلیڈ سے مُوندھ دیتے ہیں.

Mustache
Modern Mustache

آج کل داڑھی اور مونچھ رکھنے کی بجاےُ کلین شیو کا رواج بڑھ گیا ہے. جو خاص طور پر نوجوانوں میں زیادہ مقبول ہے. متحدہ ہندوستان میں کلین شیو کا رواج لارڈ کرزن کے زمانے میں شروع ہُوا. لارڈ کرزن متحدہ ہندوستان کے گورنر جنرل یا وایُسراےُ ہُوا کرتے تھے. موصوف خیر سے کلین شیو ہُؤا کرتے تھے. ولایُتی خربوزے کو دیکھ کر دیسی خربوزوں نے بھی رنگ پکڑنا شروع کر دیا. بہت سارے لوگ کلین شیو ہو گیےُ. پچھلی صدی کے مشہور شاعر اکبر الہہ آبادی نے جب مردوں کو کلین شیو دیکھا تو بے ساختہ کہہ اُ ٹھے .

کرزن نے کر زن ہی دیا، مردوں کی صُورت دیکھیےُ
آبرُو چہرے کی سب ، فیشن بنا کر پُونچھ لی

یعنی مردوں نے اپنے چہرے کی آبرُو مونچھ کو فیشن زدہ ہو کر مُونڈ ڈالا. یہ لارڈ کرزن کا کیا دھرا ہے. مونچھ کو مونڈنے کے بعد پتہ ہی نہیں چلتا کہ ہمارے سامنے مرد ہے یا عورت.

لارڈ کرزن نے ہمیں کلین شیو کا فیشن تو دے دیا، مگر اس کے بادشاہ قیصر کی بڑی بڑی مُونچھیں تھین. ان بڑی بڑی مونچھوں کو اکبر الہہ آبادی نے جھینگر کی مونچھوں سے تشبیہہ دی تھی ، آپ بھی سۃنیےُ؛

جھینگر کا جنازہ ہے ذرا دھُوم سے نکلے
قیصر کا یہ پیارا ہے ، اسے توپ پہ کھینچو

وفات کے بعد کسی کی عزت افزایُ کر نے کے لیےُ اس کے جنازہ کو کاندھوں پر اُٹھا کر لے جانے کی بجاے اسے کسی توپ کے اوپر یا توپ کے پیچھے باندھ کر جناز گاہ تک لے جایا ہے.

آحری بات.

اللہ تعالے نے حضرت انسان کو بالکل ہی بے مہار نہیں چھوڑا. شروع میں سب لوگ دین فطرت ہر چلتے تھے. اللہ تعالے کے بھیجے ہُوے انبیاُ کرام کی رحلت کے بعد کافی لوگ ایک خُدا کو چھوڑ کر بتوں کی پُوجا کرنے لگے. اللہ نے گمراہ قوموں کو راہ راست پر لانے کے لیےُ کییُ پیغمبر بھیجےان سب انبیا کرام کی داڑھیاں ہوتی تھیں. گویا داڑھی رکھنا لازمی تھا. اللہ تعالے کے آخری پیغمبر کی داڑھی تھی. لیکن وہ مونچھیں کٹواتے تھے. اب بھی بہت سارے لوگ داڑھی رکھنے کو سُنّت قرار دے کر داڑھی رکھتے ہیں.

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہر مسلمان داڑھی رکھے ؟ اور مونچھ کترواےُ یا اُسے استرے دے شیو کرا دے. مسلمانو کا ایک فرقہ جن کی اکژیت عرب ممالک میں ہے وہ داڑھی نہیں رکھتے. اُن کا استدلال ہے کہ اللہ کے آخری پیغمبر کے زمانے میں داڑھی رکھنا ایک رواج تھا. جس وجہ سے ہر شخص کی داڑھی ہوتی تھی. آج زمانہ بدل گیا ہے اور داڑھی نہ رکھنا رواج بن گیا ہے. اس لیےُ داڑھی نہ رکھنے میں گناہ نہیں. واللہ اعلم

داڑھی مونچھ رکھی جاےُ یا نہ رکھی جاےُ. اس پر آپس میں لڑنے کی ضرورت نہیں. اگر داڑھی نہ رکھی جاےُ جب کہ داڑھی رکھنا ضروری تھا تو اس کا حساب کتاب قیامت کے دن ہو جاےُ گا. اور اس کا فیصلہ اللہ کریم کے ہاتھ میں ہے.


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *