Impatience, People trying to get a seat in a bus.

ہمارے سلگتے مسایُل، قسط 7، بے صبرا پن – Our burning Issues- Impatience

ہمارے سلگتے مسایُل قسط 7
بے صبرا پن.

Our Burning Issues Part 7
Impatience

ہم میں ایک عمل بہت ہی ناپسندیدہ ہے. دوسرے الفاظ میں اسے ” بے صبرا پن ” کہتے ہیں. آج کل روٹی پکانے کے لیےُ آٹے کی قلت ہے. کنٹرول ریٹ پر آٹا لینے کے لیےُ مہذب طریقہ یہ ہے کہ قظار بنا لی جاےُ، اپنی باری آنے پر آٹا خرید لیا جاےُ. لیکن یہاں جو دھکم پیل نظر آتی ہے ، اسے دیکھ کر شرم آتی ہے. آج سے چالیس پچاس سال پہلے سینما گھروں کی ٹکٹ کی کھڑکی پر ایسی ہی دھما چوکڑی نظر آتی تھی. اس دھکم پیل میں کیُی لوگوں کی جیبیں کٹ جاتی تھیں. ہمارے اس طرز عمل کی وجہ کیا ہے ؟ کیا ہم ایک مہزب قوم کی طرح ایک قطار مٰیں لگ کر اشیا نہیں خرید سکتے؟ کیا ہم ہمیشہ اسی طرح بد تہزیبی کا مظاہرہ کرتے رہیں گے؟

اصل میں ہم ہر کام میں بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہیں. اپنی مطلوبہ چیز جلد حاصل کرنے کی خواہش ہمیں بے صبری پر مجبور کر دیتی ہے. ہمیں یہ خوف ہوتا ہے کہ قطار میں لگ کر ہماری باری آنے تک ہماری مطلوبہ چیز ختم نہ ہو جاےُ. حالانکہ ایسا امکان کم ہی ہوتا ہے. ہمیں کویُ بھی چیز خریدنی ہو ، ایک قطار میں لگ کر اپنی باری کا انتظار کرنا چاہیےُ. مہذب قوموں کا یہی طریقہ ہے.ہمارے سلگتے مساُیُل کے سلسلہ کی قسط قسط 6، بے ایمانی پڑھنے کے لیےُ ” ہمارے سُلگتے مسایُل ،قسط 6، بے ایمانی ” پر کلک کریں.

عنوانات

تنمبر 1 ؛ ہم میں بے صبرا پن کیؤں

ٰ
Impatience

ہم میں بے صبرا پن کیوں ؟

بہ حیثیت قوم ہم میں جبلی طور پر بے صبرا پن کے جراثیم پاےُ جاتے ہیں. ہم ہر چیز سب سے پہلے حاصل کرنا چاہتے ہیں. ہسپتال میں پرچی لینے کے لیےُ قطار کی پرواہ کیےُ بغیر سب سے پہلے نمبر پر آنے کی کوشش کرتے ہیں. اس کے لیےُ ہمارے پاس کییُ بہانے ہوتے ہیں. ” یہ ایمرجینسی ہے ” ” مریض کو سخت تکلیف ہے ” ” مریض تکلیف سے تڑپ رہا ہے ” ” مریض کا ایکسیڈنٹ ہُؤا ہے ” وغیرہ وغیرہ. ہم یہ نہیں سوچتے کہ قطار میں لگے تمام اشخاص تفریح کے لیےُ قطار میں اپنی باری کا انتظآر نہیں کر رہے. ہم یہ نہیں سوچتے کہ قطار میں کھڑے اشخاص کے مریض کتنی تکلیف میں ہوں گے. ہم تو بس سب سے پہلے پرچی لینے کی کوشش کرتے ہیں ، یہ بے صبرا پن آپ ہر جگہ دیکھیں گے. اس ” صفت ” کی جڑیں بچپن سے ہی ہماری گھُٹّی میں پرورش پاتی ہیں. چھوٹی عمر کے بچّے بھی بے صبرا پن کا مظاہرہ کرتے ہیں. حالانکہ یہی وہ وقت ہے جب یہ بات بچے کے ذہن نشین کرایُ جاےُ کہ ہر جگہ صبر کا مظاہرہ کیا جاےُ اور دوسروں کی حق تلفی نہ کی جاےُ.
آپ کو روزانہ ہی بے صبرا پن کی کیُ مثالیں ملیں گی. ہم ایسے واقعات کو دیکھ کر اپنی آنکھیں مُوندھ لیتے ہیں. در اصل مہزّب لوگ یا سمجھدار لوگ ایسی بے صبری کے کام نہیں کرتے. ایسا کییُ دفعہ دیکھا گیا ہے کہ کویُ بے صبرا آدمی قطار میں کھڑے لوگوں کو نظر اندازکرتے ہُوےُ قطار میں سب سے پہلے نمبر پر آ کر کھڑا ہو گیا. قطار میں کھڑے کسی شخص نے اعتراض کیا تو بے صبرا آدمی لڑنے لگا. شریف اور مہذب آدمی عمومآ ایسے جھگڑوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں . بے صبرے آدمی سمجھے لگتے ہیں کہ یہ ہم سے ڈر کر خاموش ہو جاتے ہیں. اس بات کو کسی نے پنجابی زبان کے ایک محاورے میں یُوں بیان کیا ہے :

عزتوں ڈردا  اندر  وڑیا
مُورکھ آکھے میتھوں ڈریا

اردو ترجمہ
عزّت والا شخص جھگڑے کی رُسوایُ کے ڈر سے اندر جا بیٹھا
مُورکھ سمجھنے لگا کہ یہ مُجھ سے ڈر کر اندر جا بیٹھا ہے

در اصل ہم ہیں بہت سارے لوگ ایسے ماحول میں رہ کر پلے بڑھے ہیں جہاں خودغرضی ان کی جڑوں میں سرایُت کر چُکی ہے. بُردباری تو انہیں چھُو کر نہیں گُزری. ایسے لوگوں کو تو برداشت کرنا ہی پڑے گا. ہمیں اپنی اگلی پود کی فکر کرنی ہوگی. جس کے لیےُ مکمل جد و جہد کرنی پڑے گی. اس مقصد کے لیےُ مندرجہ ذیل اقدام اٹھانے ہوں گے.

نمبر 1
ابتدایُ طور پر سکولوں کی پہلی جماعت سے پانچویں جماعت کے سلیبس میں ” صبر” کو لازمی مضمون کے طور پر شامل کیا جاےُ.
نمبر 2
ہر جماعت کے لیےُ صبر کا ایک گھنٹہ کا پیریڈ روزانہ ہو، جس میں بچّوں کے ذہنوں میں صبر کرنے کی اہمیت پر زور دیا جاےُ.
نمبر 3
صبر کے پیریڈ کے لیےُ وہ اساتذہ مقرر کیےُ جایہُں جو اس قابل ہوں کہ وہ بچوں کے ذہنوں میں صبر کی اہمیت کو واضح طور پر اُجاگر کر سکیں.
نمبر 4
آج کل تیلی ویژن کا زمانہ ہے. ہر ٹی ؤی چینل کو پابند کیا جاےُ کہ وہ روزانہ ایک گھنٹے کا پروگرام ٹیلی کاسٹ کرے جس میں صبر کے فوایُد ، اور ضرورت کو دلچسپ پیراےُ میں دکھایا جاےُ. ایسی کہانیاں دکھایُ جایُیں جس میں بے صبری کے نقصانات اور صبر کے فوایُد نظر آییُں.
نمبر 5
صبر کرنے کی تلقین کو مذہبی نقطہ نظر سے مؤثر پہیراےُ میں بیان کیا جاےُ. لوگ عمومآ مولوی صاحبان کے طرز تخاطب سے اتنے متاثر نہیں ہوتے. کویُ خوبصورت کہانی دکھایُ جا ےُ جس میں کویُ ایک کردار ایسا ہو جو صبر کرتا ہے اور کہانی ہی کہانی میں صبر کی تلقین بھی کرے.
نمبر 6
ٹی وی پر ہر کہانی میں قطار بنانے کے فوایُد اور دھما چوکڑی کے نقصانات کے مناظر اس پیراےُ میں دکھاےُ جاییُں کہ ناظریں قظار بنانے کی طرف مایُل ہوں.
نمبر 7
ہمارے مُلک میں غریب اور امیر کی تفریق بہت پایُ جاتی ہے. امیر بہت زیادہ امیر ہے اور غریب بہت زیادہ غریب ہے. امیر لوگوں کو کویُ چیز خریدنے کے لیےُ کسی قطار میں کھڑے ہونے کی ضرورت نہیں پڑتی. ان کے سارے کام اُن کے نوکر کرتے ہیں. امیر اور غریب کی تفاوت کو مٹانے کی ضرورت ہے. یہ کام سیاسی لوگ ہی کر سکتے ہیں جو اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں. مشکل یہ ہے کہ یہ امیر لوگ اگر غریب اور امیر کا فرق مٹا دیں تو ان کی حکمرانی کیسے چلے گی. حکمرانی کا اپنا ایک نشہ ہوتا ہے . اوراس نشہ کے عادی یہ لوگ کب برداشت کریں گے کل کا غریب آج ان کے برابر بیٹھا ہے !.

لیکن کچھ تو کرنا پڑے گا.


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *