ہنسنا منع نہیں ہے
عنوانات
1- آرزو
2- خریداری
3- اعتراض
4- کورا کاغذ
5 – پیر صاحب اور ہوٹل
6< strong>میرا چن اُٹھیا
7پنجابی زبان اور گورمکھی رسم الخط.
پاکستان اور ہندوستان کے موسم تقریبآ ایک جیسے ہیں. گرمیوں میں بہت گرمی اور سردیوں میں جما دینے والی سردی ہوتی ہے. گرمیوں میں گوبند سنگھ کام کرتے کرتے پسینے میں نہا گیا. ایک درخت کے ساےُ میں بیٹھ کر کہنے لگا ” میریا ربّا ! اگر تو گرمیوں میں سردی کر دے اور سردیوں میں گرمی کر دے تو مزہ ہی آ جاےُ “.
خریداری
ایک شخص حلوایُ کی دکان پر آیا . حلوایُ سے جو گفتگو ہویُ وہ کچھ اس طرح تھی
خریدار : ایک کلو لڈّو تول دو. حلوایُ نے ایک کلو لڈّو تول دیےُ
خریدار : ایک کلو برفی تول دو. حلوایُ نے ایک کلو برفی تول دی
خریدار : ایک کلو جلیبی تول دو. حلوایُ نے ایک کلو جلیبی تول دی
خریدار : ایک کلو پیٹھے کا حلوہ تول دو. حلوایُ نے ایک کلو پیٹھے کا حلوہ تول دیا
خریدار : اب ان سب کو آپس میں اچھّی طرح ملا دو. حلوایُ نے ان سب کو آپس میں ملا دیا
خریدار : اب اس آمیزے میں سے مجھے 100 گرام دے دو
حلوایُ نے اپنا سر پیٹ لیا. لیکن خریدار تو آخر خریدار ہی ہوتا ہے
اعتراض
ایک آدمی نے کسی جاؤں جانا تھا لیکن راستہ بھول گیا. سامنے آتے ہوےُ ایک دوسرے شخص سے پوچھا ” بھایُ صاحب ! میں نے چونیاں ( فرضی نام ہے ) جانا ہے” وہ شخص کہنے لگا ” چلے جاؤ. مجھے کویُ اعتراض نہیں “.
کورا کاغذ
مراثی کا لڑکا رنگ کا کچھ سفید تھاجبکہ مراثی خود کالے رنگ کا تھا. کسی نے اس سے پوچھا ” تمہارا رنگ تو کالا ہے، تمہارے بیٹے کا رنگ سفید ہے، اس کی وجہ کیا ہے ” ؟. مراثی نے جواب دیا ” سفید کاغذ پر آپ کالی سیاہی سے لکھیں تو وہ کاغذ کالا ہو جاتا ہے. میری بھی ایسی ہی حالت ہے. وقت نے کالی سیاہی سے لکھ لکھ کر میرا رنگ کالا کر دیا ہے. میرا بیٹا ابھی کورا کاغذ ہے. اس لیےُ اس کا رنگ سفید ہے “.
پیر صاحب اور ہوٹل
ایک پیر صاحب رات ٹھہرنے کے لیےُ ایک ہوٹل پہنچے. ہوٹل کے کلرک نے کہا ” اپنا نام بتایُں تا کہ میں رجسٹر میں اندراج کر سکوں ” . پیر صاحب کے چیلے نے کہا ” پیر ظریقت، رہبر انسانیّت، مجموعہ اخلاق، ظل سبحانی، حضرت ًحترم سجّادہ نشین، ظل الہی، پیر و مرشد ٍظل الہی صاحب، نقشبندی، سہروردی، گیلانی، سرحدی…” کلرک نے اپنا رجسٹر بند کیا اور کہا ” بس بس، ہمارے پاس اتنے آدمیوں کے لیےُ کمرے نہیں ہیں “.
میرا چن اٹھیا
مراثی عمومآ صبح جلدی نہیں اٹھتے. مقولہ مشہور ہے ” مراثیوں کی طرح دوپہر تک سوتے رہتے ہو “. مراثی کا لڑکا صبح 8 بجے اٹھ بیٹھا اس کی ماں بڑی خوش ہویُ ، ” بسم اللہ، بسم اللہ، میرا چاند آج جلدی اٹھ گیا ہے. ” لڑکا کہنے لگا ” ًماں! اتنی خوش نہ ہو، یہ چاند تو پیشاب کر کے پھر سونے جا رہا ہے “.
ولی اللہ
جولاہے عمومآ بہت بھولے ہوتے ہیں. ایک جولاہے کا خاندان شام کو اکٹھے کھانا کھانے لگے، تو جولاھے کی جوان بیٹی کہنے لگی ” کل ہم میں سے ایک آدمی کم ہو جاےُ گا “. رات کو وہ اپنے آشنا کے ساتھ بھاگ گیُ. صبح ناشتہ کرتے ہوےُ لڑکی کا باپ کہنے لگا ” ہماری بیٹی تو کویُ ولی اللہ تھی. اسے پہلے ہی پتہ چل گیا کہ آج ہم میں سے ایک آدمی کم ہو جاےُ گا “.
پنجابی زبان اور گورمکھی رسم الخط
پنجابی زبان کے الفاظ کو آپ اردو رسم الخط میں لکھ سکتے ہیں مثلآ پنجابی میں کانوں سے بہرے کو” بولا” کہتے ہیں. آپ جب اسے پڑھیں گے تو “بولا” یعنی “کہا” کا مطلب لیا جاےُ گا. جب یہی لفط “بولا” بمعنی بہرہ گورمکھی رسم الخط میں لکھا جاےُ گا تو پڑھتے وقت صحیح تلفظ ادا ہو گا. یہ خوبی صرف گورمکھی رسم الخط میں ہے کہ الفاظ کی ادایُگی کے لحاظ سے علیحدہ علیحدہ حروف موجود ہیں. جو صحیح مفہوم ادا کرتے ہیں. اس کے ساتھ ساتھ اس مین یہ خرابی بھی ہے کہ کہ ایک شخص کی گورمکھٰی رسم الخط میں لکھّی ہویُ تحریر جب کویُن دوسرا پڑھتا ہے تو وہ کچھ اور ہی مطلب نکال سکتا ہے. میں اسے ایک واقعہ کے ذریعے بیان کرتا ہوں.
رنجیت سنگھ ( پنجاب کا حکمران) ایک سیانا حکمران تھا. اس کی دفتری زبان فارسی تھی. اس کے چیف سیکٹری کا نام عزید الدین تھا. جو ایک قابل آدمی تھا. کچھ سکھ رنجیت سنگھ کے سامنے پیش ہوےُ اور عرض کیا کہ پنجابی ہماری قومی زبان ہے . ہماری مذہبی کتاب پنجابی میں ہے. جو گورمکھی رسم الخط میں لکھی ہویُ ہے. فارسی مسلمانوں کی زبان ہے. سکھوں کی حکمرانی میں ہماری قومی زبان پنجابی کو سرکاری دفتری زبان قرار دیا جاےُ اور سارے سرکاری احکام گورمکھی رسم الخط میں لکھّے جایُں. رنجیت سنگھ نے اپنے چیف سیکریٹری عزید الدین کو بلایا اور اسے سکھوں کا مطالبہ بتایا. عزید الدین نے ان سکھوں سے کہا کہ آپ لوگ کسی ایسے سکھ کو بلایُں جو گورمکھی رسم الخط میں لکھایُ کرنے میں ماہر ہو. ایک سکھ کو بلایا گیا عزید الدین نے اس سے کہا ” گورمکھی رسم الخط میں لکھو، ” قطب الدین سلم اللہ تعالے ” سکھ نے لکھ دیا. جسے عزید الدین نے رنجیت سنگھ کے پاس رکھوا دیا. لکھنے والے کو باہر بھیج دیا مطالبہ کرنے والے گروہ سے کہا گیا کہ اب تم ایسا سکھ بلاؤ جو گورمکھی پڑھنے میں ماہر ہو. چنانچہ ایک مانے ہوےُ قابل سکھ کو لایا گیا . رنجیت سنگھ نے اسے وہ لکھا ہؤا کاغذ پڑھنے کو دیا. اس نے یوں پڑھا ” کتّا بے دین ” پھر چپ ہو گیا. رنجیت سنگھ نے کہا پڑھو. اس نے عرض کیا ” جان کی امان پاوُن تو پڑھوں’. رنجیت سنگھ نے کہا ‘ تھیک ہے تم پڑھو ، تمہیں کچھ نہیں کہا جاےُ گا” اس نے جو کچھ پڑھا وہ کچھ یوں تھا ” کتّا ،بے دین، توں میرا سالا ، میں تیرا سالا “.
عزید الدین نے رنجیت سنگھ سے کہا ” آپ جو فرمان گورمکھی میں لکھوایُں گے، اسے پڑھنے والے کچھ سے کچھ بنا دیں گے “. رنجیت سنگھ نے فارسی زبان ہی اپنی دفتری زبان برقرار رکھی.
سکھ بھایُ ناراض نہ ہوں. ہربولی جانے والی زبان کی لکھایُ اور اس کے تلفظ میں کچھ فرق ہوتا ہے. جیسے میں نے اوپر کی مثال میں واضح کیا ہے. یہ فرق بیان کرنے میں کسی کی دل آزاری مطلوب نہیں.
جاری ہے.