چھوٹی چھوٹی باتیں

   ( Small things )   چھوٹی چھوٹی باتیں

ہم روزانہ ہی ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں  دیکھتے ہیں جو توجّہ کے قابل نہیں سمجھی جاتی. در حقیقت یہی چھوٹی چھوتی باتیں اس بات کا پیمانہ ہیں کہ ہم کتنے مہذّب ہیں. لوگ ان چھوٹی چھوٹی باتوں   کو اہمیّت نہیں دیتے. اگر کسی شخص کی ان باتوں کی طرف توجّہ دلایُ جاےُ تو اُس کا جواب ہوتا ہے ” سبھی ایسا ہی کرتے ہیں “. کوٰیُ بھی شخص اپنے آپ کو سدھارنے کی کوشش نہیں کرتا. ذیل میں ہم ایسی ہی چھوٹی چھوٹی باتوں کی نشان دہی کریں گے.

عنوانات :

نمبر 1– آدمیوں کے نام.
نمبر 2 — اشتہارات میں صرف عورت ہی کیوں ؟.
نمبر 3 –بُرے نام سے پُکارنا.
نمبر 4 — بد کلامی.
نمبر 5 — بے صبرے موٹر سایُکل سوار.
نمبر 6 — گفتگو میں گالیاں بکنا.
نمبر 7 — سکن ٹایُٹ لباس.
نمبر 8 — گلیوں میں کرکٹ کھیلنا. انہیں کون سمجھاےُ ؟
نمبر 9 — گھروں میں اونچی آواز سے میوزک بجانا.
نمبر 10 — کیا ہم تلنگے ہیں ؟.
نمبر 11 — میک اپ سے لدی خواتین.
نمبر 12 –نوجوان طبقہ.
نمبر 13 — ٹی وی پر خُوبصورت نظر آنے کے استہار.
نمبر 14 — وعدہ خلافی.

ذیل میں ہم ان موضوعات پر تفصیل سے بات کریں گے.

آدمیوں کے نام :

آج کل یہ رواج چل نکلا ہے کہ والدین اپنی اولاد کا نام ایسا رکھتے ہیں جو منفرد ہو. ایسے نام عمو مآ بے معنی ہوتے یئں . بہترین نام وہ ہیں جو اللہ کے کسی پیغمبر کے نام پر رکھا جاےُ. یہ عقیدہ عام ہے کہ نام کا اثر نام رکھنے والی شخصیت پر ضرور پڑھتا ہے. ایسی کیُ مثالیں موجود ہیں کہ کسی شخص نے اپنا نام بدلا تو اُس کے حالات بہتر ہو گیےُ. پیغمبروں کے نام پر اپنا نام رکھنے کا ایک فایُدہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے نام کو بگاڑ کر بُلانے والا کییُ دفعہ سوچے گا. ویسے بھی اللہ تعالے نے کسی نام کو بگار کر بُلانے سے منع کیا ہے. تفصیل کے لیےُ پڑھیےُ قرآن مجید کی آیت نمبر 11، سورہ الحجرات.

اشتہارات میں صرف عورت ہی کیوں ؟

آج کل زمانہ پبلسٹی کا ہے. تاجر حضرات اپنی مصنوعات کی پبلستی اشتہارات کے ذریعے کرتے ہیں. یہ اشتہارات اخبارات کے ذریعے شایُع کیےُ جاتے ہیں. اس کے علاوہ پبلسٹی کا مؤثر ذریعہ الیکٹرانک میڈیا ہے. ان اشتہارات مٰیں کویُ بھی اشتہار ایسا نہیں ہوتا جس میں کسی عورت کو نہ دکھایا گیا ہو. چند ماہ پہلے جناح ہسپتال کے پاس چوراہے میں ایک بہت بڑا اشتہاری بورڈ تھا ، جو کسی ہاؤسنگ سوسایُٹی کا تھا. اس بورڈ پر سوسایُ کے زمینی پلاٹ براےُ فروخت دکھاےُ گیےُ تھے اور بورڈ پر سب سے اوپر کشادہ سینے والی ایک عورت کی تصویر تھی. جو سراسر غیر ضروری تھی. ( آج کل یہ بورڈ ہٹا دیا گیا ہے ). عورت ماں ہے، بہن ہے ، بیٹی ہے ، اور یہ سب رشتے قابل احترام ہیں. ان رشتوں کا احترام کریں اور عورت کو یُوں ذلیل نہ کریں. اشتہارات میں عورت کی جگہ مرد کو بھی دکھایا جا سکتا ہے. صرف سوچ بدلنے کی ضرورت ہے.

بُرے نام سے پکارنا:

فی زمانہ نک نام رکھنے کا غلط رواج پڑ گیا ہے. ایسا نک نام عمومآ اصل نام کی بگڑی ہُویُ شکل ہوتا ہے یا کویُ ایسا نام ہوتا ہے جو غیر مسلم رکھتے ہیں. اپنے ملک پاکستان میں ایک سیاسی پارٹی اپنے مخالفین کو بگڑے ناموں سے پُکارنے میں بڑی مشہُور ہے. اس پارٹی کا سربراہ اپنے جلسوں میں اپنے مخالفین کے ناموں کو بگاڑ کے بیان کرنے میں بہت مشہور ہے. جو اللہ کے احکام کے صریحآ خلاف ہے. اللہ تعالے نے مسلمانوں کو ایک دوسرے کو بگڑے ہُوےُ ناموں سے پکارنے سے منع کیا ہے. تفصیل کے لیےُ قرآن مجید کی سورہ الحجرات کی آیت نمبر 11 پڑھیےُ. جس میں اللہ اللہ تعالے مسلمانوں کو حکم دیتا ہے ” اور نہ عیب لگاؤ ایک دوسرے پر، اور نہ یاد کرو ایک دوسرے کو بُرے القاب سے “.

بد کلامی

اپنے وطن عزیز پاکستان میں 2013 سے پہلے تک اتنی اخلاق باختگی نہیں تھی جتنی آج کل ہے. گالی گلوچ کا رواج اتنا نہ تھا. عام لوگ بھی مہذّب طریقے سے گفتگو کرتے تھے. بد کلامی کا رواج عمران نیازی نے کیا. نیازی کی پارٹی کا پہلا منشور یہ تھا کہ اپنے مخالفین کی پگڑیاں اُچھالو. اُن پر جھوٹے الزام لگاؤ. ان کے نام بگاڑ کر بُلاؤ. عمران خود اپنے جلسوں میں اپنے مخالفین پر بغیر ثبوت الزام لگاتا رہا ہے. اور اپنے مخالفین کے نام بگاڑ کر لیتا رہا ہے. اور اس طرح عوام میں بھی بد کلامی عروج پا رہی ہے. ایک زمانہ تھا ، صوبایُ اور قومی اسمبلی میں ممبران تہذیب کے دایُرے میں رہ کر گفتگو کرتے تھے. آج کل سمبلیوں میں اپنے مخالفین کو گالیاں دی جاتی ہیں. یہ سب کچھ ایک خاص منظم ایجنڈے کے تحت کیا جا رہا ہے، جس کی نشان دہی بہت پہلے حکیم محمد سعید شہید نے کر دی تھی. ضرورت اس امر کی ہے کہ بد کلامی کو روکنے کے کیےُ سخت قوانین بناےُ جایُیں اور ان پر سختی سے عمل کرایا جاےُ. بد کلامی اخلاقی گراوٹ کی ابتدا ہے ، اسے اگر روکا نہ گیا تو اس کے نتایُج بہت بُرے نکلیں گے.

Traffic Jam
Un Organized Traffic Jam

بے صبرے موٹر سایُکل سوار.

موٹر سایُکل عوامی سواری ہے. بہت سارے ادارے موٹر سایُکل قسطوں پر ادایُگی کے عوض دے رہے ہیًں. اس طرح یہ عوامی سواری ہر کسی کی دسترس میں آ گییُ ہے. موٹر سایُکل متوسط طبقے کی سواری ہے. موٹر سایُکل نے جہاں متوسط طبقے کو سستی ٹرانسپورٹ مہیا کی ہے وہیں پر بے ہنگم ٹریفک کے مسایُل بھی پیدا کیےُ ہیں. موتر سایُکل سوار عمومآ ٹریفک قوانین کی پابندی نہیں کرتے. ٹریفک جام کی صورت میں موٹر سایُکل سوار بایُیں طرف چلو کے اصول کو روندتے ہُوےُ دایُیں طرف آ جاتے ہیں. اس طرح ٹریفک مزید جام ہو جاتی ہے. موٹر سایُکل چلانا بہت آسان ہے. اسی لیےُ چھوٹی عمر کے بچے بھی اسے چلاتے نظر آتے ہیں. موٹر سایُکل پر عمومآ دو سواریوں کی اجازت ہے. میں نے اس پر چھ چھ سواریوں کو بیٹھے دیکھا ہے. ایسا عمومآ سکول یا کالج میں چھُتی کے بعد ہوتا ہے. یا پھر کیُ گھریلو فیملی اس سواری سے بھرپُور فایُدہ اٹھاتے ہُوےُ دیکھا گیا ہے. یہ ایک خطرناک قدم ہے. اس طرح کسی حادثہ کی صورت میں خطرناک نتایُج وقوع پزیر ہو سکتے ہیں.
اندازآ 80 فی صد موٹر سایُکل چلانے والوں کے پاس ڈراییُونگ لایُسنس نہیں ہوتے. ٹریفک پولیس بھی رحم دلی کا مظاہرہ کرتی ہے. یہ ایک خطرناک رُجحان ہے اور اسے درست کرنے کی ضتورت ہے..
دُنیا کے تمام مہذب ممالک میں یہ قانؤن رایُج ہے کہ ٹریفک قانون کی خلاف ورزی پر چالان کر دیا جاتا ہے. اور متعلقہ فرد پر عدالت جُرمانہ کرتی ہے. یہ خلاف ورزی اس کے ڈرایُونگ لایُسنس پر لکھ دی جاتی ہے. ڈریُونگ لایُسنس پر ایسے 5 اندراجات کے بعد وہ ڈرایُونگ لایُسنس معطل کر دیا جاتا ہے. ہمارے ملک میں بھی ایسا قانون ہونا چاہیےُ.

گفتگو میں گالیاں بکنا.

ہمارے ملک کے زیادہ تر لوگ گفتگو کے درمیان بلا سوچے سمجھے گالیوں کا بے محل اضافہ کرتے رہتے ہیں. ایسی گالیاں عمومآ بے نشانہ ہوتی ہیں. گالیاں دینا کویُ اچھا فعل نہیں. گالیاں دینے والے شخص کی شخصیت میں کویُ ٹیڑھا پن ہوتا ہے. ایسے شخس کی اگر تحلیل نفسی کی جاےُ تو اس کی بچپن کی تربیت میں خامیاں ظاہر ہوں گی. غیر مہذب ماحول بھی اس کی ایک وجہ ہے. گالیاں بکنے کی عادت ایسے ہی نہیں پڑ جاتی. بچپن میں گالیان دینے کی عادت آہستہ آہستہ پُختہ ہو جاتی ہے، اور پھر یہ عادت انسان کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہے. اور فطرت کو بدلنا آسان نہیں ہوتا.
گالیاں دینے کی عادت کو بدلنے کے لیےُ اپنے غُصّہ کو کنٹرول کریں. اپنے کسی ساتھی سے کہیں کہ میرے منہ سے جب کویُ گالی نکلے وہ آپ کو ٹوک دے. اور پھر آپ گفتگو کو وہیں سے شروع کرین جہاں آپ نے گالی نکالی تھی، لیکن اس دفعہ گالی نہ نکالیں. اس طرح آہستہ آہستہ آپ اس ناپسندیدہ عادت سے چھُٹکارہ حاصل کر سکیں گے.

Skin tight Dress.
Skin tight dress for women

سکن ٹایُٹ لباس

بُرا ہو اس فیشن کا جس میں کپڑے پہنے ہُوےُ شخص بھی ننگا لگتا ہے. سکن ٹایُٹ لباس لازمی طور پر کسی شیطانی ذہن کی پیداوار ہے. اس لباس کی وجہ سے زیادہ گند اُس وقت پھیلتا ہے جب عورتیں ایسا لباس پہن کر گھروں سے باہر نکلتی ہیں. ہم ایک ایسے ملک کے باسی ہیں جس کی بنیاد لا الہ ال للہہ محمد رسُول اللہ پر رکھی گیُی ہے. بہ حیثیت مسلمان، ہمارا مذہب ہمیں سکن ٹایُٹ لباس پہننے کی اجازت نہیں دیتا. خصوصآ عورتوں کو. انسان فطرتآ بُرایُ کی طرف زیادہ لپکتا ہے. اور سکن ٹایُٹ لباس اس ذہنیت کو اُبھارنے میں بہت مددگار ہے. یہ لباس چلتا پھرتا بدی کا اشتہار ہے. میری اس بات پر کییُ لوگ ناک بھون چڑہاییُں گے. ایسے لوگ تھوڑی دیر کے لیےُ سوچیں کہ وہ ایسا لباس پہن کر ، اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہُوےُ ،دُنیا میں کب تک جییُں گے. پچاس سال، سو سال. اور پھر ؟.
ترقی کے نام پر اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالیےُ. اصل بات یہ ہے کہ ہم میں خوف خدا رہا ہی نہیں.

اپنا قومی لباس پہنیےُ. خصوصآ عورتیں. شلوار، قمیض اور دوپٹّہ ایک مکمل لباس ہے. عزّت اور وقار کی علامت ہے. سکن ٹایُٹ لباس پہن کر اللہ کے غضب کو دعوت نہ دیجیےُ.

گلیوں میں کرکٹ کھیلنا. انہیں کون سمجھاےُ ؟

Boys playing in the street.
Boys playing in the street.

قانون کے مطابق ہر ہاؤسنگ سوسایُٹی اپنے منصوبوں میں کھیل کے میدان بنانے کی پابند ہے. اور وہ اس پر عمل پیرا بھی ہیں. ایسے منصوبوں کے درمیان میں پُرانے قصبات کو اُن کی پرانی حالت میں چھوڑ دیا جاتا ہے. ان قصبات کے لڑکے کھیل کے اُن میدانوں میں جا کر کھیلتے ہیں جو کسی ہاؤسنگ سوسایُٹی نے بناےُ ہیں. یہاں تک تو اچھی بات ہے لیکن کیا کیا جاےُ جب گاؤں کے لڑکے کھیل کے میدان میں جاتے ہی نہ ہوں اور گلیوں میں ہی کرکٹ کھیلنا شروع کر دیں !. میں جہاں رہتا ہُوں وہاں کچھ ایسی ہی صورت حال ہے.

ہمارے گھر کے سامنے والے مکان میں درزی خاندان رہایُش پزیر ہے . ان کے بچوّں کی تعداد ایک کرکٹ ٹیم کے برابر ہے. یہ بچےّ جب بولتے ہیں تو ان کی آواز اتنی اونچی ہوتی ہے کہ پورا محلہ اپنے کانوں میں اپنی اُنگلیاں ٹھونس لیتے ہیں. اور جب یہ پُورا بریگیڈ شور مچاتا ہے تو الامان. ان کے گھر والے انہیں شور مچانے سے منع نہیں کرتے. ہمارے ساتھ والے مکان میں راجپوت خاندان رہتا ہے جن کے بچّے گلی میں کرکٹ کھیلتے ہیں. اور ہر وقت فُل والیوم پر شور مچاتے رہتے ہیں. یہ بچے عمومآ 2 بجے بعد دوپہر کرکٹ کھیلتے اور شور مچاتے ہیں . یہ وہ وقت ہے جب اڑوس پڑوس کے لوگ آرام کر رہے ہوتے ہیں.

میں ان بچوں کو سمجھاتا ہُوں کہ وہ پلے گرؤنڈ میں جا کر کھیلیں، مگر ان کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگتی. تنگ آ کر میں نے انہیں کچھ کہنا ہی چھوڑ دیا ہے. ان شور مچانے والے لڑکوں سے تنگ آ کر میں اپنا مکان بیچ کر کسی دوسری جگہ جانے کا سوچ رہا ہُوں.

گھروں میں اونچی آواز سے میوزک بجانا.

کہا جاتا ہے کہ موسیقی رُوح کی غذا ہے. پتہ نہیں یہ بات کہاں تک صحیح ہے . لیکن موسیقی کی زیادہ سے زیادہ کتنی مقدار روح کی غذا کے لیےُ کافی ہے ؟. بعض لوگ دوسرے انسانوں کی روحوں کو موسیقی کی مطلوبہ غذا بلا معاوضہ پہنجانے کے لیےُ اپنے گھروں میں اُونچی آواز میں میوزک بجا تے ہیں. وہ یہ نہیں سوچتے کہ پڑوس میں کویُ بیمار اس میوزک سے پریشان ہو سکتا ہے. کسی طالب علم کی پڑھایُ میں خلل پڑ سکتا ہے. کسی کی نیند خراب ہو سکتی ہے. ایسے افراد کے متعلق کسی شاعر نے کہا ہے

  دریا کو اپنی موج کی طغیانیو سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درنیاں رہے

لیکن انسان دریا نہیں. انسان سوچ سکتا ہے ، محسوس کر سکتا ہے، مستقبل کی منصوبہ بندی کر سکتا ہے، اچھے بُرے میں تمیز کر سکتا ہے وغیرہ وغیرہ. انہی صفات کی بنا پر اسے اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے. ان سب صفات میں ” دوسروں کا خیال رکھنا ” ایسی خُوبی ہے جو حضرت انسان کو اشرف المخلوقات بناتی ہے. دوسروں کا خیال رکھیےُ. میوزک بجایےُ، لیکن میوزک کی آواز اتنی اونچی نہ رکھیں کہ پڑوسی یہ کہنے پر مجبور ہو جاییُں ” کیسا بد تمیز آدمی ہے، دوسروں کے آرام کا خیال ہی نہیں “.

کیا ہم تلنگے ہیں ؟

سن 1913 عیسوی تک ہم اخلاقی طور پر اتنے گرے ہُوےُ نہیں تھے جتنے گرے ہُوےُ آج کل ہیں. کسی قوم کو کمزور کرنا ہو تو اس قوم کا اخلاق بگاڑ دیں. انسان فطری طور پر بُرایُ کی طرف میلان رکھتا ہے. یہ مزہب ہی ہے جو انسان کو بُرایُوں سے روکے رکھتا ہے. مزہب سے دُوری انسان کو نے راہ روی کی طرف لے جاتی ہے. اپنے وطن عزیز مٰیں مزہب سے دوری کا پراپوگنڈا ایک منظم طریقے سے کیا جا رہا ہے. جس کے لیےُ بھاری بیرونی فنڈنگ پاکستان کی ایک سیسی جماعت کے ذریعے کی گییُ ہے. یہ جماعت اخلاقی دیوالیہ پن پھیلا رہی ہے. اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چُکی ہے کہ قومی، صوبایُ اسمبلیوں کے ممبران اسمبلیوں کے اجلاس میں اپنے مخالفین کو سر عام ماں بہن کی گالیاں دیتے ہیں. جو ٹی وی پر بھی دکھایُ گییُ تھیں. اب اس سے زیادہ تلنگا پن کیا ہو سکتا ہے !. روزنامہ جنگ لاہور کے 26 ستمبر 2022 کے صفحہ نمبر 12 ایک خبر چھپی ہے جو کچھ یُوں ہے ” لندن – پی ٹی آیُ کارکنوں نے مریم اورنگ زیب کو گھیر لیا، الزامات، گالیاں”. یہ ہے اخلاقی گراوٹ کا وہ پودا جسے نیازی نے لگایا ہے. جب اشرافیہ اتنی گرے ہُوےُ اخلاق کا مظاہرہ کرے گی تو عوام کو کون منع کرے.

میک اپ سے لدی خواتین :

ہر عورت فطری طور پر خُوبصورت نظر آنے کی کوشش کرتی ہے. اس کے لیےُ وہ لاکھ جتن کرتی ہے. جن میں سر فہرست میک اپ ہے. سلیقے سے کیا گیا میک اپ عورت کے حُسن کو بڑھا دیتا ہے. لیکن بعض عورتیں میک اپ کے ذریعے خوبصورت نظر آنے کی کوشش کرتی ہیں. وہ اپنے چہرے پر میک اپ کی اینی دبیز تہ لگاتی ہیں جو سراسر مصنوعی لگتی ہیں. . اپنے ملک کے قدرتی ماحول اور آب و ہوا کی وجہ سے ہمارے رنگ برفانی علاقوں کے رہنے والوں کے سفید رنگ کی طرح نہیں ہو سکتے. بعض خواتین زیادہ سفید نظر آنے کے شوق میں چہرے پر میک اپ کی دبیز تہہ لگا لیتی ہیں جو دیکھنے پر مصنوعی لگتا ہے. ہونٹوں کا ایک اپنا ہی رنگ ہوتا ہے . جو حسیں نظر آتا ہے. اگر ہونٹوں پر لپ سٹک سے بھڑکتا ہُؤا گہرا گلابی رنگ جما لیا جاےُ تو وہ مصنوعی نظر آےُ گا. ہلکا میک اپ جو باقی جسم کے رنگ سے ملتا جُلتا ہو آپ کے حُسن کو دو آتشہ کر دے گا. میک اپ کو اپنے مُنہہ پر تھوپیےُ نہ.

نوجوان طبقہ :

اپنے آپ کو نمایاں کرنے کی جبلّت ایک ایسا جذبہ ہے جو آج کل ضرورت سے زیادہ ہی اُبھر کر سامنے آ رہا ہے. ہمارا نوجوان طبقہ اس خبط میں کچھ زیادہ ہی مُبتلا نظر آتا ہے. اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیےُ یہ طبقہ عجیب و غریب حرکتیں کرتے ہیں. ٹک ٹاک اس کی ایک مثال ہے. منفرد نظر آنے کی کوشش میں وہ عام روش سے ہٹ کر حرکتیں کرتے ہیں. جو بعض اوقات مضحکہ خیز لگتی ہیں. جس سے انہیں اپنے آپ کو ” دوسروں سے الگ ” نظر آنے کے جذبہ کو تسکین ملتی ہے. لاف زنی اس کی ایک عمدہ مثال ہے.

ایک بات یاد رکھیں. ہم جو ہیں اس سے زیادہ نظر آنے کی کوشش میں ہم اپنے آپ کو تماشہ بنا لیں گے. ” کوّا چلا ہنس کی چال ، اپنی بھی بھُول گیا ” کو ذہن میں رکھیےُ. ہم جو ہیں اسے مہذب طریقے سے بہتر بنانے کی کوشش کیجیےُ. اپنے آپ کو تماشہ بنانے سے گریز کریں.

ٹی وی پر خوبصورت نظر آنے کے اشتہار.

آج کل کا زمانہ پبلسٹی کا زمانہ ہے. تاجر لوگ اپنی مصنوعات کی پبلسٹی کرتے ہیں. اشتہارات کے ذریعے اپنی مصنوعات کی پبلسٹی کے لیےُ آج کل سب سے مؤثر ذریعہ الیکٹرانک میڈیا ہے. فی زمانہ ہر گھر میں ٹی وی ضرور ہوتا ہے اور اس طرح ٹی وی پر دیا گیا اشتہار اندازآ 22 کروڑ لوگ ضرور دیکھتے ہیں.

اگر آپ ان اشتہارات کی نوعیّت کو دیکھیں تو 50 فی صد سے زیادہ اشتہارات ” استعمال سے حوبصورت نظر آنے والی مصنوعات ” کی ہوں گی. یہ اشتہارات عمومآ مستورات کو زیادہ اپیل کرتے ہیں. کیونکہ فطرتآ عورت کو خوبصورت نظر آنے کا زیادہ ہی شوق ہے. اور عورتیں ہی ایسی مصنوعات کی خریدار ہوتی ہیں. مالدار گھرانوں کے لیےُ ان کی خریداری کویُ مسلہ نہیں. لیکن متوسط طبقہ کیا کرے ؟ ٹی وی دیکھنا چھوڑ دے‌، جہاں ایسے اشتہارات کی بھرمار ہوتی ہے ؟. اشتہار دیکھ کر خوبصورت نظر آنے کی خواہش، اپنی کم مایُگی کا خیال، ٹھنڈی سانس بھر کر ایسی خواہشات کو دفن کر دینا . غُربت کی سرزمین میں کتنی ہی خواہشات دفن کرنی پڑتی ہیں. اہل ثروت کیا جانیں.

اشتہارات کو کم کرنا ہمارے بس میں نہیں. لیکن ہم مشتہرین سے اتنی اپیل تو ضرور کر سکتے ہیں کہ اشتہارات میں اسلامی اقدار کو ضرور مد نظر رکھا جاےُ. مستورات کا سر کو دوپٹّہ سے نہ ڈھانکنا اور غیر محرم کے سامنے آنا اللہ تعاللے کے حکم کی صریحآ خلاف ورزی ہے. اللہ تعالے معاف فرماےُ. اللہ تعالے کے کسی حکم کی، جانتے ہُوےُ خلاف ورزی کرنا، نافرمانی کے زُمرے میں آتا ہے. جس کے لیےُ سخت سزا کی وعید ہے.

وعدہ خلافی:

آج کل یہ چلن عام ہے کہ ہر کویُ نلا سوچے سمجھے کویُ وعدہ کر لیتا ہے اور پھر وہ اپنا وعدہ بھُول جاتا ہے. جیسے وعدہ کی کویُ اہمیت ہی نہ ہو.

ایک سچّا مسلمان وعدے کی اہمیت کو جانتا ہے. وہ ایسا کویُ وعدہ نہیں کرتا جسے وہ نبھا نہ سکتا ہو. للہ تعالے نے مسلمانوں کو خبردار کیا ہے کہ ” اور پُورا کرو عہد کو بےشک عہد کے بارے میں جواب دہی ہوگی ” آیت نمبر 34، سورہ بنی اسرایُل . ذرا سوچیں ہم دں میں کتنے وعدے ( عہد ) کر دیتے ہیں جنہیں بعد میں ہم بھُول جاتے ہیں، یا یہ وعدے ہوایُ سمجھ کر پُورے نہیں کرتے. اگر وعدہ پورا کرنے کا ارادہ نہ ہو تو یا وعدہ ایفا کرنے میں کویُ مشکل ہو تو وعدہ کیا ہی نہ جاےُ، کویُ عذر پیش کیا جا سکتا ہے ، یا وعدہ ایفا کرنے میں پیش آنے والی مشکلات کا عُذر پیش کیا جا سکتا ہے.

آج کل کا نوجوان طبقہ وعدہ پُورا کرنے کی اہمیت کو نہیں سمجھتا. یہ سب مذہب سے دوری کی وجہ سے ہے. نوجوان طبقہ کی اکثریت نے اللہ کا آخری پیغام ترجمہ کے ساتھ نہیں پڑھا ہوگا. ضرورت اس امر کی ہے کہ سکولوں اور کالجوں میں قرآن پاک کو با ترجمہ پڑھایا جاےُ. .


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *