پنجابی ڈھولے.
قسط نمبر 8.
محترم ناظرین ! اس سے پہلے “پنجابی اکھان ” کا سلسلہ بہت پسند کیا گیا. کویُ بھی شخص دنیا کے کسی حصّے میں بھی جاےُ، وہ اپنی مادری زبان بولنا اور سننا پسند کرتا ہے. پنجابی اکھان کا سلسلہ پنجابی زبان بولنے والے بے شمار دوستوں ، چاہے وہ دنیا کے کسی حصہ میں رہایُش پذیر ہیں، نے بہت پسند کیا. اسی طرح ” پنجابی ڈھولے ” بھی پسندیدگی کی بلندیوں کو چھُو رہے ہیں. آپ حضرات کا بہت بہت شکریہ. اب ہم قسط 8 کے پہلے ڈھولے کی طرف بڑھتے ہیں.
لفظ “ڈھولا ‘ کیا ہے، ڈھول کا کیا مطلب ہے؟، یہ ساری معلومات لینے کے لیےُ آپ ہمارا آرتیکل “ پنجابی ڈھولے- تعارف “ ضرور پڑھ لیں، اس کے بعد آپ پنجابی ڈھولوں سے صحیح معنوں میں لطف اندوز ہو سکیں گے.
ڈھولا نمبر 1.
گھُوک وے رانگلیا چرخیا، تیرے مُنّے نے کری دے
سانوں اگّے دُکھ بہتیرے، ہُن نویں ناہنی جری دے
بدّل بن کے کھرے ہو گیےُ ، میل بدلاں دی جھڑی دے
روڑھاں دا پانی رُڑھ نوانی جانا، مُنہ سُکّے رہ گیےُ نی رڑی دے
بول بھراواں تے پھٹ شریکاں، داغ نہیں لاہندے سڑی دے
آکھ غلام نصیب ہووی کلمہ، گھاگے جانے نے بھج توہیں دی گھڑی دے
( رنگیلے چرخے ! تُم گھوں گھوں کی آواز پیدا کرو. تمہرے منّے کری کی لکڑی سے بنے ہیں.
ہم تو پہلے ہی دُکھی ہیں، اب مزید دُکھ سہنے کی ہمت نہیں.
بادل جھوم جھوم کر آےُ، مینہہ برسا، گویا بادل اور پانی کا ملاپ ہؤا، پھر مطلع صاف ہو گیا.
بہتا ہؤا پانی تو ہمیشہ ڈھلوان کی طرف ہی جاےُ گا، اونچی زمین ویسے ہی پیاسی رہ جاےُ گی.
بھایُوں کے دیےُ ہوےُ طعنے ، دشمنوں کے لگاےُ ہوےُ جسمانی زخم کبھی مندمل نہیں ہوتے، جیسے آگ سے جلی ہویُ جلد کا داغ نہیں مٹتا.( کیا گہرہ مشاہدہ ہے).
غلام! خدا کرے مرتے وقت تمہیں کلمہ شہادت پڑھنا نصیب ہو، تمہاری زندگی کے گھڑے کے بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جایُیں گے.
بعض علاقوں میں زمین کو رڑی کہتے ہیں
قبرستانوں میں عمومآ جھاڑی کے درخت ہوتے ہیں. ان درختون کو ” کری ” بھی کہتے ہیں.
ڈھولا نمبر 2.
گھوک وے رانگلیا چرخیا، تینوں آندا اے رنگ چڑھا کے
کتنا نال نصیباں، تُوں کتتیں تند پکا کے
وہندیاں تے قُرب نہیں ہوندا، جیہڑا آندا ای داج رنگا کے
صاحباں کُونج دے وانگ کُرلاندی، مرزا خان کُہا کے
آکھ غلام پیہنگاں ہر اک دیاں بھُویُیں تے آونیاں، بھاویں جاہنی چڑھ ہوا تے
( رنگیلے چرخے! تم گھُوں گھُوں کرو، تمہیں کل ہی تو نیا رنگ چڑھایا ہے.
سُوت تو تُم اپنے نصیب سے کاتو گیمگر جو کاتو، خوب پختہ کر کے کاتو.
تمہاری عزت اس وجہ سے نہیں ہوگی کہ تُم خوبصورت ہو، تمہاری عزت تو تمہارے اچھُے کاموں پر منحصر ہے.
صاحباں اپنے محبوب مرزا خاں کو قتل کروا کر اب روتی ہے، اب کیا فایدہ.
غلام کہتا ہے کہ ہر ایک کے اقبال کی پتنگ خواہ وہ ہوا میں کتنی ہی اونچی اُڑ رہی ہو، آخر ایک نہ ایک دن زمین پر گرے گی ( زمین ہر گریں گے آخر اونچی اُڑان والے )
یہاں تک وہ ڈھولے لکھے گیےُ جن میں چرخے کا ذکر تھا اب متفرق ڈھولے پیش کیےُ جاییُں گے.
ڈھولا نمبر 3.
واہنڈا ڈھول ٹُراؤ میرا، چھڈّی جاندا اے کنّی دیس دی
ایہ ماہلے جگُی پاہلے، انہاں نوں رہندی یے لا ہمیش دی
جاندے بیلی دی کنڈ پییُ دسدی، اندر بن گییُ اے ڈھیری بالُو ریت دی
جے کدی ولانگن ھوندی، ونگاں شہر تیرے جا کے ویچ دی
جیوندا وتنا ایں تے رسّی موڑ مہاراں دی، کیڈی لگ گییُ آ چنگی گل پردیس دی
( میرا محبوب اپنا وطن چھوڑ کر پردیس جا رہا ہے .
یہ اونٹوں والے ایسے ہی ہوتے ہیں، ہمیشہ سفر میں رہنا انہیں پسند ہے.
جاتے ہوےُ ساجن کی پیٹھ نظر آ رہی ہے، اس غم سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے دل پر منوں ریت کا بوجھ پڑ گیا ہے.
اگر میں چُوڑیاں بیچنے والی ہوتی، تو چُوڑیاں بیچنے کے بہانے تمہارے شہر چلی جاتی.
اگر تم زندہ ہو تو تو خدا را کبھی واپس آؤ، لگتا ہے پردیس تمہیں بھا گیا ہے.)
بعض عورتیں ایک بڑے ٹوکرے میں مختلف چُوڑیاں رکھ کر گلی گلی اور دیہات میں جا کر چُوڑیان بیچتی ہیں ، انہیں ” ولانگن ” کہتے ہیں.
اس ڈھولے کے دوسرے مصرعے میں ایک فقرہ ” مہلے، جگُی پہلے ” آیا ہے. ان کا لفظی مطلب کچھ نہیں، دُکھ اور غُصہ کے اظہار کے اظہار کے لیےُ ایسے ہی بے معنی الفاظ ہیں.
جاری ہے.