پنجابی ڈھولے. قسط نمبر 6
ڈھولا نمبر – 1.
کنّاں میریاں نوں بُندے سر تے چھتیاں دے ڈیرے
عشق تے جوبن دی پے گیُ بھنڈی، اوتھے جھگڑے کون نبیڑے
عشق آکھیا جوبنا ! تینوں بہوں توفیقاں نے، کولوں مار کے لگھنا ایں پھیرے
میرا وی پتہ لینا ہووی ترے مقام مقررہ نے میرے
ویلے دھمّی دے جانا آں وچ ترنجناں چکّی خانے نی ڈیرے
ہتھّاں نال ہتھ جوڑ کے اپنی ہتھّیں پتھر نے گیڑے
ویلے ڈیگر دے جانان آن مڈھلے کھوہ تے اوتھے تیں جیہے طالب نے میرے
شامیں جاناں آں تپدے تندور تے ، اوتھے اکھّاں نال کرنا آں اشارتاں ، ہتھاں نال ٹُک کے دینا آن پیڑے
میں اگّے بہوں گھر اجاڑے ، سیال، چدھڑ تے کھیڑے
میں مجھّیں والے نون پٹیا بلخ بخاریوں ، اوس کھوتے کمہاراں دے چھیڑے
میں سُتی سوہنی نوں چا جگایا، اوہ ڈُب کے مویُ واہندی نے دے وچ، جتھے پوندے نے گھمّن تے گھیرے
میں شیخ صنعان نوں واہ بلایا ، جس اجّڑ ساہنسیاں دے چھیڑے
میں پُنّوں نوں واہ بلایا، جنہے پتّن تے رکھے نے ڈیرے
میں سسّی نوں چا غرق کرایا وچ تھل دے، جس نے باغے وچ رکھّے نے ڈیرے
میں ہیر ویاہ کے رانجھے نوں دے دتّی، شگن مناندے رہ گیےُ نی کھیڑے
میں فرہاد نوں واہ رلایا جس نیر دریا نے چھیڑے
شیریں دھی بادشاہ دی آہی، اوہ اُچیاں محلاں توں ترٹ کے مویُ آکھے لگ کے میرے
میں صاحباں نوں چاہڑیا مرزے دی بہل تے، جنج ڈھُکّی رہ گیُ چدحڑان دی سیالاں دے ویہڑے
میں دونوں لعل چا کوہاےُ جنڈ دے بوٹے ہیٹھ ، جدوں میتھوں لنگھ گیےُ ذرا اگیرے
عشق آکھیا جوبنا ! جیہڑے تیتھوں مُنکر رہندے، اوہ لا دیہہ اگّے توں میرے
فقیر آہندا اے نصیب ہووے کلمہ، جھگڑے عاشقاں دے رب آپ نبیڑے.
( میرے کانوں میں جھُمکے اور سر پر گھنے بال ہیں .
عشق اور جوبن آپس میں جھگڑ پڑے. ان دونون میں طاقتور کون ہے ؟ اس کا فیصلہ کون کرے !
عشق کہنے لگا جوبن! تم اپنے آپ کو بہت طاقتور خیال کرتے ہو، اسی غرور میں تم کیُ بار میرے پاس سے اکڑتے گزرے ہو.
اگر مجھے ڈھونڈنا ہو تو میں تین جگہوں پر مل سکتا ہوں.
سحری کے وقت چکّی خانے جاتا ہوں، ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چکّی کے پتھر گھماتا ہوں.
عصر کے وقت گاؤں کے ساتھ والے کنؤیُں پر پانی بھرنے جاتا ہوں. جہاں پر تم جیسے کیُ میرے طلب گار ہوتے ہیں.
شام کو تندور پر روٹیاں لگوانے جاتا ہوں. وہاں آنکھیں تو اشارے کر رہی ہوتی ہیں اور ہاتھوں سے آٹے کے پیڑے بنا کر دیتا ہوں.
اس سے پہلے بھی میں نے کییُ گھر اجاڑے ہیں، جن میں سیال، چڈھڑ اور کھیڑے مشہور ہیں.
میں نے بلخ بخارا سے عزت بیگ کو بلایا ، اور وہ عشق کی خاطر کمہاروں کے گدھے چراتا رہا.
میری ہی وجہ سے سوہنی گہرے دریا کے بھنور میں ڈوب مری.
میں نے شیخ صنعان کو ساہنسیوں ( ایک غیر مسلم قوم ) کے ڈھور ڈنگروں کو چرانے پر مجبور کیا.
پُنّوں اتنی دور سے آ کر پتّن پر پھیرے لگاتا تھا. اسے میں نے ہی ایسا کرنے پر مجبور کیا.
سسی بڑے ناز سے اپنے باغوں میں پھرتی تھی، اسے تھل میں غرق کرانے میں میرا ہی ہاتھ تھا.
میں نے ہیر کو رانجھے کے حوالے کر دیا، اور کھیڑے ایسے ہی شادی کے شگن مناتے رہ گیے.
فرہاد میری ہی وجہ سے دن رات روتا رہتا تھا.
شیریں بادشاہ کی بیٹی تھی، وہ میری ہی وجہ سے محلوں سے چھلانگ لگا کر مر گییُ.
میں نے صاحباں کو عین شادی والے دن مرزے کی گھوڑی پر بٹھا دیا ، اور چدھڑوں کی بارات سیالوں کے گھر سے خالی ہاتھ واپس گییُ.
پھر میں نے مرزا اور صاحباں کو جنڈ کے درخت کے نیچے ذبح کرا دیا، جب میں نے دیکھا کہ وہ مجھ سے آگے نکل گیےُ ہیں.
اے جوبن ! اگر کویُ تمہارے بس میں نہیں آتا ، تو اسے میرے حوالے کر دو، پھر تماشہ دیکھنا.
فقیر کہتا ہے کہ دعا کرو ہمیں کلمہ پڑھنا نصیب ہو، ان عاشقوں کے جھگڑے اللہ خود ہی نمٹاےُ.
یہاں تک وہ ڈھولے تھے جن میں کانوں کے آویزوں اور سر کے بالوں کا ذکر تھا. اگلی نشست میں وہ ڈھولے آییُں گے جن مین چرخہ کا زکر ہو گا.
اس ڈھولے میں ایک لفظ”چکّی خانے ” آیا ہے، جسے غالباّ موجودہ پود نہیں جانتی ہوگی. اس کی تشریح کچھ یوں ہے :
آج سے ساٹھ ستّر سال پہلے اکثر دیپات میں بجلی نہیں ہوتی تھی. گندم کے دانوں کو پیسنے کے لیےُ بعض لوگوں نے اپنے گھروں میں ہاتھ سے چلانے والی چکیاں لگایُ ہویُ تھیں. جہاں وہ اپنے گھر کے لیےُ اناج پیس لیا کرتے تھے. باقی لوگ کیا کرتے ؟. اس کا علاج گاؤں کے کمہار خاندان نے ڈھونڈا. وہ اپنے ایک علیحدہ کمرے میں اس کی وسعت کے مطابق ہاتھ سے چلانے والی آٹھ دس چکیاں نصب کر دیتے. جسے ” چکی خانہ” کے نام سے پکارتے تھے. جن گھرانوں میں اپنی چکیاں نہیں ہوتی تھیں، ان کی عورتیں ان چکی خانوں میں جا کر اپنے دانے پیس لیتی تھیں ، اس کے عوض وہ چکی خانی کی مالک عورت کو ایک دو روٹی کے برابر پسا ہؤا آٹا دے دیتیں.
جاری ہے.