پنجابی ڈھولے :
قسط نمبر : 1
حسب وعدہ ” پنجابی لوک گیت” کے تحت “ڈھولوں کی پہلی قسط حاضر ہے. ڈھولوں کو ہم کیُ موضوعات میں تقسیم کر سکتے ہیں.
نبر 1 – اللہ کی تعریف اور اس کے رسولوں کی اطاعت
نمبر 2- بعض چیزوں کی تعریف و توصیف
نمبر3 – عشق و محبت کی کیفیات
نمبر 4 – ہجر کے دکھڑے
نمبر 5 – ڈاکوؤں کے قصّے
نمبر 6 – مشہور رومانوی کہانیاں
اللہ کی تعریف ، اور اس کے رسولوں کی اطاعت
تحصیل پھالیہ، ضلع منڈی بہاؤالدین کا ایک شاعر زیادہ کہتا ہے :
اللہ توں منگاں ، نبی نوں نت پیا گاواں، جیہدی کُل تے ہے سرداری
اس ہر جونوں جون بنایُ، لکھّی سو تھوڑی تے بہلی
اک در در دا بھچھیا پیےُ منگدے، اک کردے بہہ سرداری
اکناں نوں اوہ لڈّو کھواندا ، اکناں دی چھڈدا اے لہہ خماری
اوہ جوگاں آپے بناندا اے، اگّے کھیتی واہ کے ٹر گیےُ نے واری
صدی ہن چوہدویں ، اگّے تیرھویں گزر کیُ اے ساری
گیا بھیں طور زمانے دا ، گناہ بدھّی آن کے تاری
انہاں لباں دے مان ودھ گیےُ ، گبھروؤاں نوں لگدی ایہو گل پیاری
اک دیہاڑے تیری وی جھوک لدی جانی ویلے ڈیگر دے، بوہے اتّے آن کے جھُک پونا اے ماری
ترے سو سٹھ سوال سوال میانے قبر توں اُراں پے دسدے نے، اووی گٹھڑی اے ہمت توں بھاری
سوڑی سامی وچ سُٹ گھتنا ایں، جتھُتے مٹُی وی چڑھ جاندی اے قہاری
فضلیں اک واری فیر جگانا سو، ہر شے اکتھُی کر لینی سو ساری
اگُوں پل صراط وی لگھنا اے اوہ وال توں پتلی، جیوں ہوندا اے منہ تلواری
اوتھے ہتھ تے پیر گواہی دہسن، ، آپے لیسن کر اقراری
اگُے نیکی تے بدی ترکڑے تُلینے، جے مولا کرسی آپ ستُاری
آکھ زیادہ نصیب ہووے کلمہ، چھتُے نال اکھُیں ویکھے ، ہن چٹُی ہو گیُ اے داڑھی
ترجمہ – میں خدا اور اس کے رسول کی تعریف میں گاتا ہوں، جو تمام مخلوق کے سردار ہیں.
خدا نے کیُ قسم کی مخلوق بنایُ، ہر کام دیکھ کر اس کی بے شمار تعریف کرتا ہوں.
وہ ہر ایک کا روزی رسان ہے، کسی کو ناپ تول کر دیتا ہے تو کسی کو بے حد و حساب دیتا ہے.
بعض ہر دروازے سے مانگ کر کھاتے ہیں اور کچھ بیٹھ کر حکم چلاتے ہیں.
بعض لوگوں کی قسمت اچھّی بنا دیتا ہے اور وہ منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوتے ہیں .جو اپنی دولت کے خمار میں بدمست ہو تے ہیں، وہ جب چاہے ان کی یہ خماری اتار دیتا ہے.
وہ ہر قسم کے جوڑے بناتا ہے. اس سے پہلے بھی ،اس کے حکم کے مطابق ، لوگ اپنا اپنا کام ختم کر کے جا چکے ہیں. ( تشریح = ہل جوتتے وقت دو بیل ہل کے آگے جوتے جاتے ہیں اس جوڑی کو “جوگ” کہتے ہیں )
آج کل چوہدویں صدی کا زمانہ ہے . اس سے پہلے تیرہویں صدی گزر چکی ہے. (تشریح = یہ ڈھولا پچھلی صدی کا ہے )
زمانے کے اطوار بدل چکے ہیں ہر طرف گناہ کے کام ہو رہے ہیں.
نوجوانوں نے داڑھی منڈوا کر بڑی بڑی مونچھیں رکھ لی ہیں( جو خلاف شرع ہیں ) اور وہ ان مونچھوں پر بڑا فخر کرتے ہیں.
ایک دن آےُ گا جب تمہاری عمر کا دن ڈھلنے لگے گا. اور تم اس دنیا کو یوں چھوڑ جاؤ گے جیسے ّعصر کے بعد سورج غروب ہو جاتا ہے.
مولوی صاحبان ہمیں پہلے ہی بتا رہے ہیں کہ مرنے کے بعد آدمی سے قبر میں 360 سوال پوچھے جایُں گے ، ان کے جواب دینا بڑا ہی مشکل نظر آ رہا ہے.
تمہیں تنگ سامی میں رکھ کر اوپر منوں مٹُی ڈال دی جاےُ گی ( تشریح = قبر کا گڑھا (شمالاُّ – جنوباّ)جب تقریبآ 4 فٹ گہرا کھود چکتے ہیں تو اس کے بغل میں مشرق کی جانب ایک اور گڑھا اسی سایُز کا لیکن گہرا کھودتے ہیں .اس میں مردے کر لٹا دیتے ہیں. اس گڑھے کو ” سامی ” کہتے ہیں ).
خدا ایک دفعہ پھر سب کو زندہ کرے گااور تمام مخلوق کو ایک جگہ اکٹھّا کرے گا. اور ہر ایک کا ھساب کتاب ہوگا.
پل صراط پر سے بھی گزرنا ہو گا، جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہوگی.
میدان حشر میں ہمارے کیےُ گیےُ کاموں کی گواہی ہمارے ہاتھ اور پاؤں دیں گے. اور ہمارے لیےُ اقرار کے سوا کویُ چارہ نہ ہوگا.
پھر نیکیاں اور بدیاں میزان پر تولی جایُں گی. بدیوں کا پلڑا بھاری ہونے کی صورت میں خدا نے رحم کیا تو بخشش کی امید ہے.
زیادہ (ڈھولے کا مصنف) کہتا ہے کہ خدا ہمیں کلمہ پڑھنے کی توفیق دے . اپنی آنکھوں سے ہم نے پہلا زمانہ بھی دیکھا ہے اور اب داڑھی بھی سفید ہو گیُ ہے. (یعنی بوڑھے ہو گیےُ ہیں) جتنا بُرا وقت آج کل کا ہے ، اتنا پہلے کبھی نہ تھا.
اس ڈھولے کے مصرعہ نمبر 8 میں پنجابی کا ایک لفظ ” تاری ” آیا ہے. یہ لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے ؛
نمبر 1 – کویُ شخص یہ کہے کہ میں “تاری لا لواں’ تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ” میں نہا لوں ” .
نمبر 2 – اگر کویُ شخص کسی کام پر جانے کے لیےُ تیار بیٹھا ہو ، یا کسی کو کسی کام کے لیےُ تیار کرنا ہو تو اسے کہیں گے ” توں تاری وٹ یا تاری بنھ ” یعنی تم تیاری پکڑو. امید ہے آپ اس لفظ کے معنی سمجھ گیےُ ہوں گے.
اگلی قسط تک کے لیےُ اللہ حافظ.
جاری ہے.