پنجابی “ڈھولے”
تعارف:
“ڈھولا ” مدتوں پنجاب کے دیہات کا مقبول لوک گیت رہا ہے. ” ماہیا ” نوجوانون کا گیت ہے اور ڈھولا ان لوگوں کو زیادہ پسند ہے جو اپنی جوانی کی عمر گزار کر بڑھاپے کی حدود میں قدم رکھ رہے ہوتے ہیںعنوانات
نمبر 1 – ڈھولے اور ڈھول
نمبر 2 – ڈھولا کیا ہے ؟
نمبر 3 – ڈھولا کے موضوعات
نمبر 4 – ڈھولےڈھولا کے معنی:
لفظ ” دھولے” ڈھولا کی جمع ہے. لفظ ” ڈھولا” “ڈھول” سے نکلا ہے. ڈھول کے دو معنی ہیں :
نمبر 1 – آپ نے شادیوں میں ڈھول والوں کو ڈھول بجاتے دیکھا ہو گا. یہ
ڈھولچی دیہات سے شہروں میں آ گےُ ہیں. شہروں کے مصروف
چوراہوں پر اپنے ڈھولوں سمیت رنگ برنگے کپڑے پہنے ، طرّہ
نکالے گاہکوں کے انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں. ان میں زیادہ تر
ضلع میانوالی سے آےُ ہوےُ ہوتے ہیں، کسی شادی کے گھر والے ان
کو شادی والے گھر ڈھول بجانے کے لیےُ لے جاتے ہیں.
نمبر 2 – ڈھول کے دوسرے معنی ہین ” محبوب ، ساجن ، دل کا جانی ” وغیرہ.
ڈھولوں میں زیادہ تر بین الاقوامی موضوع ” محبوب ” کا ہی
ذکر ہوتا ہے. غالباُ اسی لیےُ اس کا نام “ڈھولا ” پڑ گیا ہے. سن 1965
کی پاک بھارت جنگ کے دوران صوفی غلام مصطفے تبسم کا ایک
گیت یا ترانہ بہت مشہور ہؤا تھا جس کا پہلا مصرعہ یوں تھا :
میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھّاں
اس مین لفظ “ڈھول” پیارا، محبوب، عزیز کے معنوں میں استعمال
ہؤا ہے.ڈھولا کیا ہے ؟:
آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے آج کی طرح ایک دن میں شادی کا رواج نہیں تھا. بارات میں 100 سے زیادہ باراتی ہوتے تھے اور دولھا کے سسرال میں کم از کم ایک رات ( بعض علاقوں میں تین رات ) ضرور ٹھہرتے تھے. رات کا کھانا کھا کر باراتی ایک جگہ اکٹھے ہو جاتے. یہی وقت ہوتا تھا جب ڈھولے سننے کی محفل جمتی. ڈھولے سنانے والا ہجوم کے سامنے “سوٹے” ( لاٹھی) کی ٹیک لگا کر ڈھولے سناتا. اس وقت وہ بعینہ دھلی کا قصّہ گو دکھایُ دیتا.
ڈھولے کے آخری الفاظ ہم قافیہ ہوتے ہیں. اردو زبان کی آزاد نظم سے کافی مماثلت رکھتا ہے. بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ڈھولا پنجابی زبان کی آزاد نظم ہے. اس میں بعض مصرعے چھوٹے ہوتے ہیں اور بعض لمبے ہوتے ہیں. ڈھولے سنانے والا انہیں تحت الفظ میں پڑھتا ہے. یا اپنی مرضی سے کسی سر میں پڑھتا ہے. وہ اس مولوی کی طرح جو اپنا خطبہ کبھی تحت الفظ اور کبھی سُر کے ساتھ پڑھتا ہے. .ڈھولے سنانے والا کچھ مصرعے تحت الفظ میں پڑھتا ہے اور ہر مصرعے کے آخری لفظ پر خاصا زور دیتا ہے. اور پھر ایک دو مصرعے لمبی تان کے ساتھ پڑھتا ہے، پھر پہلے کی طرح. آخری مصرعہ اونچی تان کے ساتھ آہستہ آہستہ ختم کرتا ہے. بعض آدمی آخری لفظ اسطرح ادا کرتے ہیں جیسے بڑے زور سے ہچکی لی ہو.
آزاد نظم سے مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا. گجرات شہر کے مشہور شاعر استاد امام دین گجراتی ایک دفعہ اہنے شاگردوں کے ساتھ گجرات سے جلال پور جٹّاں جانے والی سڑک پر جا رہے تھے . ایک شاگرد نے کویُ شعر سنانے کی فرمایُش کی . استاد صاحب نے فوراُ شعر پڑھ دیا :
یہ سڑک
جاتی ہے سیدھی جلال پور جٹّاں کو
شاگرد نے گزارش کی ” استاد صاحب ! پہلا مصرعہ چھوٹا ہے اور دوسرا لمبا ہے “. استاد امام دین نے جواب دیا ” بھیُ پہلے مصرعے میں سڑک بھی تو لمبی ہے “.ڈھولے کے موضوعات:
لوک گیت ” ماہیا” کی طرح ڈھولا کا دامن بھی بڑا وسیع ہے. یہ ہر قسم کے موضوع کو اپنے اندر سمیٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے. ڈھولا چونکہ خالص دیہاتی گیت ہے اس لیےُ اس میں دیہاتی ماحول زیادہ ملتا ہے. استعارے اور تشبیہات دیہاتی ماحول کے گہرے مشاہدہ کی عکاس ہیں. اللہ تعالے کی حمد و ثنا، اللہ کے رسول کی اطاعت، آخرت کے لیےُ توشہ بنانے کی ہدایت، ارکان اسلام کی پابندی کی ہدایت کے موضوع پر کیُ ڈھولے ملتے ہیں. عشق و محبت، فراق، جدایُ کا درد خاص موضوع ہیں. دیہات میں پارٹیوں کے درمیان دشمنیاں عام ہیں جن کی جڑیں زیادہ تر زر، زن اور زمین کی کھاد سے ھی پھیلتی ہیں. ایسی ہی دشمنیوں پر بھی ڈھولے ملتے ہیں. اس کے علاوہ نعض ڈاکؤوں کے قصے ڈھولوں کی شکل میں ملتے ہیں.
اکثر ڈھولوں میں بعض الفاظ شہری لوگون کے لیےُ اجنبی ہو سکتے ہیں. ایسے الفاظ یا استعاروں کے متعلق معلومات اسی ڈھولے کے اردو ترجمہ کے بعد دیےُ گیےُ ہیں، انہیں پڑھنے کے بعد آپ ڈھولے پڑھنے کا صحیح لطف اٹھا سکیں گے.
ڈھولے کیُ شاعروں کے مشہور ہیں، جن میں غلام اکبر، میاں غلام، نوری کیموں کے والا، فقیر، راجہ زیادہ مشہور ہیں. بعض ایسے ڈھولے بھی سننے کو ملتے ہیں جن کے شاعر نا معلوم ہیں.
یہ تھا ڈھولوں کا مختصر تعارف، اگلی مجلس ڈھولا نمبر 1 سے شروع ہو گی. اس سے پہلے ” پنجابی اکھان” کا سلسلہ اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے. جو اس ویب سایُٹ کا مقبول ترین سلسلہ ہے. اس کے لیےُآپ کی پسندیدگی کا بہت بہت شکریہ. براہ کرم اس سلسلے کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار ہر ہوسٹ کے آخر میں “comments ” کے نیچے ضرور کریں.
جاری ہے
.
آ