پنجابی ڈھولے —- قسط نمبر 15
عنوانات:
ڈھولا نمبر – 1
اردو ترجمہ
ڈھولا نمبر – 2
اردو ترجمہ
ڈھولا نمبر -1
سسی نے اپنے جواب مین تھل صحراؤں کے قصیدے بتاےُ. جن کے جواب میں سسی کی ماں جواب میں کہتی ہے :
رہو نی دھیےُتینوں سُدھ نہ کویُ، تُوں امّاں نوں آن ستایا
نہ کر تعریف بلوچاں دی، جنہاں چت پردیس تے لایا
اینہاں پُتّر یعقوب دا تھگ لیا، نبی نوں 40 برس رُلایا
راتیں رہندے وچ جنگلاں دے، اینہاں درخت خوراک بنایا
کرہیوں کسے دے نہ سکّے ہوندے، اساں کییُ وار آزمایا
اینہاں لُٹ کے کھاہدے مُلک خدا دے، نیکاں نوں بہت ستایا
بلوچ وفادار کدی نہ ہوندے، غلام اکبر تینوں کتنی وار سمجھایا
اردو ترجمہ:
بیٹی! تُم ذرا صبر کرو، تمہیں ان اُونٹوں والوں کے متعلق کچھ پتہ نہیں
تم ان بلوچوں کی تعریف نہ کرو، جو ہمیشہ پردیس میں ہی خوش رہتے ہیں
ان کے کرتُوت سنو، انہوں نے یعقوب علیہ سلام کے بیٹے کے ساتھ کیا کیا، اور اللہ کا نبی اپنے بیٹے کی جُدایُ میں چالیس سال تک روتے رہے
یہ بستیوں سے دُور جنگلوں کے باسی ہیں، درختوں کے پتّے ان کی خوراک ہے
یہ اونٹوں والے کسی کے وفادار نہیں ہوتے، یہ بات کتنی ہی بار آزمایُ جا چکی ہے
انہوں نے بہت سارے لوگوں کو لُوٹا، نیک آدمیوں کو بڑا تنگ کیا
بیٹی ! تمہیں کتنی بار سمجھا چکی ہُوں، اُونٹوں واکے کبھی بھی کسی کے وفادار نہیں ہوتے، تُم ان کے پیچھے اپنی جان کیوں گنواتی ہو.
ڈھولا نمبر 2
سسی اپنی ماں کو جواب دے رہی ہے :
زور نہ لا کرہییوں تے امّاں، تیری عقل تے پے گیےُ نی پردے
کرہییوں ذات صراف قدیمی . معلوم لہندے تے چڑدے
کرپییوں مال بنیےُ دا، پیر سُنبھبل کے دھردے
ایُوب فیض کرہییوں توں پایا، کرہییوں بازی مُول نہ ہردے
رب ہر دم جنگلاں تے راضی ، کرہییوں وچ جنگلاں دے چردے
عیسے جمیا وچ جنگلاں دے، عابد عبادت وچ جنگلاں دے کردے
حُسین پسند جنگل نوں کیتا، عاشق وچ جنگلاں دے مردے
اوڑک مکان وچ جنگل دے،غلام اکبر کرییہوں بھاڑے جنگلاں دے بھردے
اردو ترجمہ:
امّاں ! آپ ان اونٹوں والوں پر اتنا لعن طعن کیوں کرتی ہیں، آپ کی عقل پر پردہ پڑ گیا ہے ( یاد رہے کہ پُنّوں کے اونٹ کا نام ” کریہل ” تھا، جسے کرییہوں بھی کہتے ہیں ) .
یہ اونٹوں والے صرافوں کی طرح بڑے عقلمند ہوتے ہیں، ان کی دانایُ کا شہرہ چاروں اطراف میں ہے. اور یہ کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتے.
ایوب علیہ سلام نے بھی فیض انہی سے پایا، یہ کبھی بازی نہیں ہارتے.
خداوند کریم جنگلوں پر ہر وقت راضی رہتا ہے، اور یہ اونٹ جنگلوں میں ہی چرتے ہیں.
عیسےُ علیہ اسلام کی پیدایُش بھی جنگل ( صحرا) میں ہُویُ. پرہیزگار لوگ یکسُویُ سے عبادت کرنے کے لیےُ جنگل ہی کو پسند کرتے ہیں.
حُسین علیہ السلام نے بھی جنگل یعنی صحرا کو پسند کیا، اپنا ڈیرہ وہیں لگایا اور اللہ کی راہ میں شہید ہُوےُ.
غلام اکبر کہتا ہے کہ آخر کو ہم بھی جنگل یعنی صحرا میں ہی جایُیں گےانہی جنگلوں اور صحراؤں میں ، جہاں یہ اونت خوش رہتے ہیں.
اس کے علاوہ غلام اکبر کے ڈھولے حُسین علیہاسلام کی شہادت کے بارے میں بھی ہیں، جن میں اُن کی شہادت کا پُورا واقعہ بیان کیا گیا ہے.
اس وقت جتنے ڈھولے لوگوں کے پاس ہیں، انہیں اکٹھّا کرنا نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے. ضلع منڈی بہاؤالدین کی تحصیل پھالیہ اور ضلع سرگودھا ڈھولوں کی سرزمین ہے، آپ کسی بھی گاؤں میں چلے جاییُں ، آپ کو ایک آدھ آدمی ضرور مل جاےُ گا جس کے پاس ڈھولوں کا ذخیرہ ہو گا ، اور اُسے یہ سب زبانی یاد ہوں گے.