پنجابی ڈھولے، قسط نمبر 16
آخر میں مجھے آنکھوں کے متعلق ایک ڈھولا درج کرنے کی اجازت دیجیےُ . یہ ڈھولا بھی غلام اکبر کا ہے ؛
ڈھولا نمبر – 1
کراں ذکر خدا دا ، اکھّیں ہین لنگ تے پردہ
جنہاں گال اکھیاں دا ڈٹھّا، اونہاں نوں رنگ پریم دا چڑھدا
وگڑیاں اکھّاں تُوں آپ سنواریں، جیوں کوکا قلم تے جڑدا
ڈٹھّا وچ میدان برہوں دے، جنہاں تیر اکھیاں دا اڑدا
اونہاں نوں ماندری گیےُ نی چھڈ کُرلاندے، جنہوں ناگ اکھیاں دا لڑدا
آ کھ غلام میں صدقے واری اوس توں، جیہڑا گھاڑ اکھیاں دے گھڑدا
اردو ترجمہ:
اللہ کے نام سے شروع کرتا ہُوں، جس نے آنکھیں بناییُں، آنکھیں ہی شرم و حیا کی آیُینہ دار ہیں. ( جبھی نے شرم کے متعلق کہتے ہیں کہ اس کی آنکھوں کا پانی مر گیا ہے )
جس کسی نے کسی کی آنکھوں میں ڈُوب کر دیکھا، وہ ان کے ہی تصوّر میں ڈوب گیا.
بے باک آنکھوں کو اللہ ہی ہدایت دے سکتا ہے
جسے آنکھوں کا تیر لگ گیا، اُسے ہجر کے میدان میں ہی تڑپتے دیکھا ہے
آنکھوں کے سانپ کے ڈسے ہوےُ کو ماندری ( سانپ کے کاٹے کا علاج کرنے والے ) بھی جواب دے جاتے ہیں کہ اس کا علاج ہم سے نہیں ہو سکتاغلام اکبر کہتا ہے کہ میں قُربان جاؤں ..اُس ذات پر جس نے آنکھوں جیسی پیاری چیز بناُٰیُ.
یہ ڈھولا اس لحاظ سے بھی قابل تعریف ہے کہ ڈھولے کی تان ہر چیز کے خالق کی تعریف پر ہی ٹوٹتی ہے.
یہاں پر پنجابی پنجابی ڈھولوں کی محفل ختم ہو رہی ہے. آپ سب حضرات کا پسندیدگی کا بہت بہت شکریہ،
کل سے ہم ” پنجابی دوہے ” کا سلسلہ شروع کر رہے ہیں. امید کی جاتی ہے کہ یہ سلسلہ بھی ” پنجابی بولیاں “، ” پنجابی اکھان ” اور ” پنجابی ڈھولے ” کی طرح
آپ کی پسند پر پورا اترے گا. پسند آنے پر کمینتس کے تحت اپنے خیالات اور تجاویز لکنا نہ بھولیےُ گا.