پنجابی ڈھولے ، قسط نمبر 13

پنجابی ڈھولے
قسط نمبر 13

ڈھولا نمبر 1

اس ڈھولے مین ڈاکؤں کے سردار لوھار کی موت کا قصّہ بیان کیا گیا ہے. سُوجا کھتری بظاہر ان ڈاکؤں کا دوست تھا، لیکن درہردہ پولیس سے ملا ہُوا تھا.ایک دن لوھار اس کے گھر آیا. سُوجے نے اُسے سُلا کر اس کی بندوق کی گولیان کا پٹہ چھپا دیا، اور پولیس کو اطلاع کر دی.

قال پیُ نت بلیندی، نارد اُتھیا ای پیر جما کے
سُوجا کیڈا راضی ہویا، جدوں لوہار بُوہوں وڑ پیا آ کے
اُس اگلی کوٹھڑی وچ منجیاں چا ڈاہیاں، دارُو لے آیا ڈھیر پوا کے
اس ساز گولیاں دا چُک لیا جدوں گیا آہی لوہار آگھلا کے
دتیاں کُنڈیان مارے جندرے، آپ گیا ای پیر جما کے
اوہ بھنّاں گیا قصور پٹھاناں دے، اوتھے نرایُن سنگھ تھانیدار نوں لیا مٹھّی بھر جگا کے
آہندا اے تُون ڈھونڈ دا آہیں مُہری ڈاکؤں دا، اج میں آیا آں اپنے گھر سنوا کے
نرایُن سنگھ آکھیا اوہدے کول دو نالی بندوق اے، اوہ کسب رسالے دا جان دا اے ساڈی پُلس دے دیسی منہ بھنوا کے
سُوجے آکھیا قسم دے اُتّے وس پہو، بندوق سرہانے خالی رہ گیُ اے میں ساز گولیاں دا آیا آں دور لُکا کے
اُس ویلے پُلس اندر چُوڑے چین تے شادیاں،گھُمّے چڑہے نی آن سپاہ دے
مہُرے گھوڑیاں دھروڑی آوندے دو سکھ،، اک سپاہی ، سردار شاہ اوہ چارے انعاماں دی چا تے
اونہاں دی بُوہے ناھی ڈُھکّی، مگھّو لیُو نے بندوق وگا کے
سُتّے لوہار نوں آیُ جاگ، آہندا اے سُوجیا ! مینوں دھوکا دے کے ماریا ای میری سناہی پاڑی آ گھت کے وچ دریا دے
جے تینوں چوکھی لوڑ آہی انعاماں دی، تینوں دیندا میں مُلک دا مال چھپا کے
ایہ تقدیر اونہاں توں وی نہیں ٹلی، جنہاں کیتیاں گلّاں نال خدا دے
ایہ تقدیر اونہاں توں وی نہیں ٹلی، جنہاں دے تخت اڈُے نال ہوا دے
اُس ویلے کوٹھے توں لہہ پیا پیر گھُلیرڑا ، اوہ بُوہے ولؤں گیےُ نی آ کے
لوہار آکھیا پیرا ! نانے تیرے دے جھنڈے ہیٹھوں لنگھنا ایں مت جاوے منہ شرما کے
سردار شاہ آکھیا لوہارا ! تینوں ُپھڑنا ایں میڈھیوں لے جانا اگّے سرکار دے
اوتھے 5 مربعے لینی ایں زمین اپنے نام لوا کے
لوہار آکھیا تہاڈے چاراں دے ناں دی اک ہوایُ پرچی. مگروں مُٹھ چا گھُٹّی اُنہاں چواں نوں لیا گلّاں دونہہ دے وچ بھنوا کے
دتّی لت رکابےاگّوں سردل لگّی متھّے وچ، لوتھ لوھار دی ڈگ پییُ کلّے تے جا کے
موےُ لوہار تے ڈُھکنوں رہ گیُ اونہاں دی، دُور کھلے نے اپنی اپنی مل بنا کے
لوتھ لوہار دی لے گیےُ قصور پٹھاناں دے اوتھے رُنّی دھی حاکم دی، کُونج دے وانگ کُرلا کے
آہندی سُوجیا آہیں لایُق پھاھی دے، آندا ای کیڈا سوہنا جوان مروا کے
لوہارا ! جے کدی جیوندا متھّے لگ جاندیوں، تینوں 36 ضلعیاں تے افسر چا کریندی، نالے دیندی ہتھّیں مہُر لوا کے
اُس دیہاڑے بیلیاں 160 لُنگیاں تانیاں، کُجھ ملاحضے نوں آ کے
لوہار دی ست ویہان ( 140) صف بنی، اوہ پڑھن صلواتاں کھلے آپو آپ ثواب پہنچا کے
اُتّوں آ گیُ ماں لوہار دی ، اوہ چُمّے داڑھی، مُچھ تے متھاّ آکھاں نُوری ذرا کفن دا لڑ ہتا کے.

اردو ترجمہ :

تقدیر روزانہ بلاتی تھی، تدبیر بھی اپنے پاؤں جما کر اُٹھی.
سُوجے کھتری نے جب ڈاکؤں کے سردار لوہار کو اپنے گھر داخل ہوتے دیکھا ، تو بہت خوش ہؤا. ( کہ شکار آ پھنسا . یہ سُوجا بظاہر ڈاکؤوں کا دوست بنا ہؤا تھا، لیکن درپردہ پولیس کا مخبر تھا ).
اس نے مکان کے آخری کمرے میں چارپایُ بچھا دی، لوہار کو پلانے کے لیےُ ڈھیر ساری شراب لے آیا.
شراب پینے کے بعد جب لوہار اونگھنے لگا تو سُوجے نے لوہار کے پاس سے بندوق کی گولیوں کا پٹہ اٹھا کر کسی اور جگہ چھپا دیا.
سوجے نے کمرے کے باہر کی کنڈی لگا کر اس میں تالا لگا دیا. اپنی طرف سے پکّا انتظام کیا کہ لوہار بھاگ نہ سکے.
سوجا تیزی سے قصور شہر میں پولیس ہیڈ کوارتر پہنچا. اور نرایُین سنگھ تھانیدار کو جا جگایا.
اسے کہنے لگا تم ڈاکؤوں کے سردار کو ڈھونڈتے تھے، آج میں اسے اپنے گھر سُلا کر آیا ہوں.
نارایُین سنگھ کہنے لگا اُس کے پاس دو نالی بندوق ہے ، وہ بڑا پکّا نشانہ باز ہے ، ہماری پولیس کے منہ پھیر دے گا.
سوجا کہنے لگا میری قسم پر اعتبار کرو، اس کے پاس صرف بندوق رہ گیُ ہے، بندوق کی گولیوں والا پٹہ میں اس سے دور چھپا کر آیا ہوں.
یہ سُن کر کہ لوہار نہتّا ہے پولیس والے بڑے خوش ہُوےُ ، لوہار کو پکڑنے کے لیےُ سپاہیوں کا ایک جتھّہ چل پڑا.
ان سب سے آگے دو سکھ سپاہی، ایک اور سپاہی، اور چوتھا سردار شاہ گھوڑے دوڑاتے آ رہے تھے. اس لالچ پر کہ ہم لوہار کو پکڑ کر ( اس کی گرفتاری پر مقرر ) انعام حاصل کریں گے.
پولیس کے پورے جتھّے میں سے کسی کی ہمّت نہ پڑھی کہ دروازے سے داخل ہو کر لوہار کو پکڑیں. وہ مکان کی چھت پر چڑھ گیےُ. اور ہوا کے لیےُ بناےُ گیےُ سوراخ سے فایُر کرنے لگے. ( دیہات میں مکانوں کی بناوٹ عمومآ اس طرح ہوتی ہے کہ سامنے ایک لمبا برآمدہ ہوتا ہے، اس کے پیچھے اتنی ہی لمبایُ کا ایک بڑا کمرہ ہوتا ہے ،جسے ” پسار ” کہتے ہیں. اس کا ایک دروازہ اور اس کے دایُیں اور باییُیں طرف ایک ایک کھڑکی ھوتی ہے. اس پسار کے پیچھےعمومآ دو کمرے ہوتے ہیں جنہیں ” کوٹھڑی ” کہا جاتا ہے. ان کوٹھڑیوں کا صرف ایک ایک دروازہ ہوتا ہے. اور چاروں طرف سے بند ہوتی ہیں. ان کوٹھڑیوں میں ہوا کی آمد و رفت کے لیےُ کوٹھڑیوں کی چھت پر گول سوراخ رکھا جاتا ہے، جسے پنجابی زبان میں ” مگھ ” کہتے ہیں ).
بندوق کی گولیاں لگنے سے لوہار کا خمار ٹوٹا، وہ سُوجے کی ساری چال کو سمجھ گیا، کہنے لگا سوجے ! تم نے مجھے دھوکا دیا، میری مشک اُس وقت پھاڑ دی جب میں اس کے سہارے تیرتا ہُوا دریا کے بیچ میں تھا. ( خا،ص چمڑے کو پھولے ہُوےُ لمبوترے غبارے کی شکل میں سی لیتے ہیں. اس میں ہوا بھرنے کے لیےُ اس کے ایک سرے کی شکل بوتل کے منہ جیسی رکھی جاتی ہے، اسے پنجابی زبان میں ” مشک ” کہتے ہیں. دریا پار کرنے کے لیےُ کشتیاں نہ ہوں، اکیلا آدمی مشک میں ہوا بھر کر اس کا منہ بند کر لیتے ہے. پھر دریا میں اُتر کر مشک کو اپنے جسم کے نیچے رکھ کر دریا میں تیرتے ہُوےُ اسے عبُور کر لیتے ہیں. مشک میں ہوا بھری ہوتی ہے اس لیےُ یہ آدمی کو ڈوبنے نہیں دیتی. ) . ذہن میں رہے کہ اس لفظ ” مشک ” مین م کے اوپر زبر ہوتی ہے.
اگر تمہیں انعام کی اتنی ہی چاہت تھی تو مجھے بتاتے، میں لوگوں کا مال چوری کر کے تمہارا گھر بھر دیتا.
لیکن تقدیر کا لکھا اُن سے بھی مٹ نہ سکا جو خدا کے ساتھ باتیں کرتے رہے. ( موسے علیہ سلام کی طرف اشارہ ہے )
تقدیر میں جو لکھا تھا وہ اُن کے ساتھ بھی ہو کر رہا جن کے تخت ہوا میں اُڑا کرتے تھے. ( سلیمان ع کا تخت اللہ کے حکم سے ہوا میں اڑا کرتا تھا )
اتنے میں سردار شاہ چھت سے اُتر کر دروازے کے سامنے آ گیا.
لوہار نے کہا اے سیّد ! قیامت کے دن ہم تمہارے نانا ( رسول اللہ ) کے جھنڈے کے نیچے جمع ہوں گے، کہیں وہ تمہاری ان کرتوتوں سے شرمندہ نہ ہوں.
سردارشاہ نے کہا لوہارا ! میں تمہیں سر کے بالوں سے پکڑ کر حکومت کے پاس لے جاؤں گا اور انعام میں 5 مربعے زمین حاصل کروں گا.
لوہار نے کہا تمہارے چاروں کے نام کی ایک ہوایُ پرچی میرے پاس ہے. یہ کہہ کر بندوق کی لبلبی دبایُ، چاروں وہیں ڈھیر ہو گیےُ.
پھر لوہار گھوڑے پر بیٹھا اور اُسے ایڑ لگایُ. کافی خون نکل جانے کی وجہ سے اپنے آپ کو سنبھال نہ سکادروازے کی چوکھت کا اوپر والا حصُہ پیشانی پر لگا( اور سر تقریبآ چکنا شُور ہو گیا ) اور مرگیا. اس کی لاش مکان سے تقریبآ 200 فٹ دور گھوڑے سے گر گیُ.
سپاہی اس کی لاش کے نزدیک جانے سے ڈرتے تھے. دور کھڑے ہو کر ہر کویُ کہتا اسے میں نے مارا ہے.
پھر لوہار کی لاش قصور شہر لے گیےُ. وہاں اُسے دیکھ کر حاکم کی بیٹی ایسے رویُ جیسے غم کی ماری کویُ کُونج کُرلاتی ہے.
کہنے لگی ” سوجیا ! تم تو اس قابل ہو کہ تمہیں پھانسی پر چڑھا دیا جاےُ، تم نے کتنا خوبصورت جوان مروا دیا ہے. اے لوہار ! اگر تم مجھے کبھی اُس وقت ملتے جب تم زندہ تھے ، تو میں تمہیں 36 ظلعوں کا حاکم بنوا دیتی ، زبانی نہیں اس حاکمیّت کا تحریری پروانہ تمہیں دلواتی.
دوستوں نے لوہار کے کفن کے لیےُ 160 چادریں دیں.
اس کے جنازے کی 140 صفیں بنیں . ( جو کسی شخص کے انتہایُ مقبول ہونے کی علامت ہے ) سب نے درود پڑھ کر اسے ثواب پہنچایا .
اتنے میں لوہار کی ماں آ گیُ. وہ اس کی پیشانی، داڑھی اور منہ چومتے ہوےُ کہتی رہی کہ بیٹا ! چہرے سے کفن ہٹا کر ایک دفعہ میرے گلے لگ جاؤ.

نُوری کیموں کی والے کے اور ڈھولے بھی ہیں جن میں ڈاکؤون کی کہانیاں ہیں ، اس ڈھولے کا صحیح لطف اٹھانے کے لیےُ “پنجابی ڈھولے- قسط نمبر 12” ضرور پڑھیےُ .

اگلی قسط میں غلام اکبر کے ڈھولے پیش کیےُ جاییُں گے ، جس میں سسّی پنّوں کی کہانی میں سسّی اور اس کی ماں کے سوال و جواب ضرور پڑھیےُ.

جاری ہے.

Leave a Reply