پنجابی لوک گیت، پنجابی دوہے، قسط نمبر 8

Folks singers with their instruments.

پنجابی لوک گیت ، پنجابی دوہے.

قسط نمبر 8 

پنجابی لوک گیتوں میں پنجابی دوہے اردو زبان کی ” رُباعی ” کی طرز پر لکھے گیےُ ہیں. پنجابی دوہے اپنے دامن میں ہر قسم کے موضوع کو سمیٹ لینے کی اہلیّت رکھتے ہیں. پنجابی دوہے، شعرا کو خیالات کے گھوڑے دوڑانے کے لیےُ بڑا وسیع میدان مہیّا کرتے ہیں. پنجابی دوہوں میں حُسن و عشق کے کمالات کا ذکر نہایت فراخ دلی سے کیا گیا ہے. بلکہ اکثر پنجابی دوہے پڑھ کر یُوں محسوس ہوتا ہے جیسے دنیا میں ھسن و عشق کے علاوہ کچھ نہیں. آپ کو میرے اس خیال سے متفق ہونا ضروری نہیں. ہر شخص کی اپنی اپنی راےُ ہوتی ہے. آپ ذرا “ پنجابی لوک گیت، پنجابی دوہے، قسط نمبر 7 ” پڑھیےُ ، یا دوسری اقساط پڑھیے، آپ کو حسن و عشق کا تذکرہ غالب نظر آےُ گا.

عنوانات:

پنجابی دوہا نمبر 1 . اردو ترجم، پنجابی دوہا نمبر 1
پنجابی دوہا نمبر 2 . اردو ترجمہ، پنجابی دوہا نمبر 2
پنجابی دوہا نمبر 3 . اردو ترجم، پنجابی دوہا نمبر 3
پنجابی دوھا نمبر4 . اردو ترجمہ، پنجابی دوہا نمبر 4
پنجابی دوہا نمبر 5 . اردو ترجمہ ، پنجابی دوہا نمبر 5

حیات شاہ، پنجابی زبان کے مایہ ناز شاعر ہاشم شاہ کے پوتے تھے. ان کے کلام میں خاندانی اثرات کی وجہ سے صوفیانہ رنگ جھلکتا ہے. لیکن اس میں شوخی اور چُلچلا پن بھی پایا جاتا ہے.جو دوسرے شعراء کے کلام میں بہت کم پایا جاتا ہے. حیات شاہ کو دیہات کے مخصوص ماحول کی ترجمانی میں بڑی قدرت حاصل ہے. مثال کے طور پر اس نے ایکی دیہاتی دوشیزہ کے دلی تاثرات کو ، جس کا محبوب اُسے چھوڑ کر جا چکا ہے، اٹھوڑے کی شکل میں منظوم کیا ہے . ان دوہوں کا اصل لطف ہم قافیہ الفاظ کی تکرار ہے اور ہر لفظ اپنی جگہ اپنا الگ مزہ دیتا ہے :

پنجابی دوہا نمبر 1 :

سنیچر وار :
چڑھدے روز سنیچروار، گیا تُوں یار، لییُ نہ سار، مُڑ آےُ کے
میں دم دم ماراں آہیں، بھڑکن بھاییُں، گیا گراہیں، پریت لگاےُ کے
کدی آ مل میرے یار، دیویں دیدار، کلیجے ٹھار، ملیں گل لاےُ کے
تُوں آ بہو میرے کول، زبانوں بول، دلاں دیاں کھول، نہ رکھ چھُپاےُ کے

اردو ترجمہ پنجابی دوہا نمبر 1

ہفتہ کا دن آ گیا، میرا محبوب مجھے چھوڑ کر چلا گیا ہے، اس نے آ کر میرا حال تک نہ پوچھا.
میں ہر آن آہیں بھرتی ہُوں، میرے سینے میں آتش فراق بھڑک رہی ہے، محبت کے عہد و پیمان باندھ کر نہ جانے کہاں چلا گیا.
میرے محبوب! تُو میرے پاس آ، اپنا چہرہ دکھا، مجھے گلے لگا کر میرے دل میں بھڑکتی آگ کو بُجھا.
میرے پاس بیٹھو، کُچھ میٹھے بول بولو، تمہارے دل میں جو کُچھ ہے کھول کر بتا دو، کویُ بھی بات چھُپا کر نہ رکھنا.

پنجابی دوہا نمبر 2

اتوار :
اگّوں چڑھیا روز اتوار، ہویُ بیمار، گییُ بھُل کار، آ کے ویکھ تُوں
کر گیوں سفر چلانا، ٹُٹ گیا ماناں، رب دا بھاناں، رونی آں لیکھ نوں
بہت رہی ہتھ جوڑ، نہ کر انجوڑ، گیا کر زور، لا رنگ فقیری بھیکھ نوں
ایسا کویُ نہ نظری آوے، یار ملاوے، آس پہنچاوے، دھوے لیکھ نوں

اردو ترجمہ پنجابی دوہا نمبر 2 :

اتوار کا دن آیا، میں تو کب سے بیمار پڑی ہُوں، سب کام کاج بھُول گیےُ، کیا اچھّا ہوتا تم خُود آ کر میرا حال دیکھتے.
تُم تو مجھے چھوڑ کر چلے گیےُ، مجھے کتنا مان تھا کہ تم ایسا نہیں کرو گے، خدا کو ایسا ہی منظور تھا، اب میں اپنی قسمت کو رو رہی ہُوں.
میں نے بہت ہاتھ جوڑےکہ یہ سنگ نہ توڑو، مگر تم تو زبردستی چلے گیےُ، اور یہ شکل بنا لی کہ فقیروں والا بھیس بنا لیا.
مجھے کویُ ایسا نظر نہیں آتا جو مجھے تم سے ملا دے، اور قسمت میں لکھی جُدایُ کو مٹا کر میرے دل کی مُراد پُوری کرے.

پنجابی دوہا نمبر 3 :

سوموار :
اگّوں آیا روز سوموار، ہویُ بیمار، نصیباں ہار دتّی مُڑ آےُ کے
کر جوگیاں والا بھیس، کھُلے گل کیس، پھراں کُل دیس، بھبُوت لگاےُ کے
جویں باہج عمل دے عملی، پھراں میں کملی، پُچھدی رملی، رمل کڈھاےُ کے
بہہ دس مینوں فال، پُجا ہُن کال، مراں ات حال، میں جان کھپاےُ کے

اردو ترجمہ پنجابی دوہا نمبر 3 :

سوموار کا دن آیا، میں بیمار ہو گییُ ہُوں، میرے نصیب مجھے ہار دے چکے ہیں.
جوگیوں کی طرح راکھ میں اٹے بال بکھراےُ، ساری جگہوں پر تمہیں تلاش کر رہی ہُوں.
نشے میں لڑکھڑاتے کسی نشییُ کی طرح دیوا نی پھر رہی ہُوں، نجُومیوں سے تمہارا پتہ ٹھکانا پوچھتی پھرتی ہُوں.
فال نکالنے والوں سے بھی پُوچھتی ہُوں کہ بتاؤ کیا میں اس حال میں تُمہیں پکارتے پکارتے مر جاؤں گی ؟.

اسی طرز پر مہر بخش کے پنجابی دوہے بھی کافی مشہور ہیں. اس کے دو پنجابی دوہے پڑھیےُ اور سر دُھنیےُ.

پنجابی دوہا نمبر 4 :

ح حقیقت عشقے والی، جیہڑا اس نوں جانے، نہ رہیا ٹھکانے
سسّی پنّوں یار کھڑا کے، روندی ویکھ ، کراہ نے بنھ سدھانے
عشقے سوہنی نوں غوطے دتّے، ڈُب ماری وچ واہنے کردے بھانے
مہر بخشا عشق مریندا، قاضی تے ملوانے، سُگھڑ سیانے

اردو ترجمہ پنجابی دوہا نمبر 4 “

جسے عشق کی حقیقت کا پتہ چلا، وہ اپنے ہوش و حواس میں نہ رہا.
سسّی پُنّوں کو گنوا کر روتی آہیں بھرتی اونٹوں کے پیچھے دوڑتی رہی، مگر اونٹوں والے تو اپنے دیس سدھارے.
وضاحت : پنّوں یا پُنن کے اونت کا نام ” کریہل ” تھا جسے لوگ ” کراہ ” اور ” کریہوں ” بھی کہنے لگے ہیں.
سوہنی بھی میہنوال کے عشق میں اُس سے ملنے کے لیےُ بے خطر دریا میں کُود گییُ اور پھر اسی دریا میں غرق ہو گییُ.
مہر بخش کا کہنا ہے کہ عشق میں بڑے بڑے صوفی اور سیانے لوگ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے.

وضاحت : پنجابی دیہات میں امام مسجد کے خاندان کو ” ملوانے ” کہہ کر بھی پُکارا جاتا ہے. اور انہیں کافی عزّت دی جاتی ہے.

پنجابی دوہا نمبر 5 :

خ خوبی ایہہ عشقے والی، پتھّر دب نہ ساہندے، گےُ بھُرڑاندے
جنہاں نوں عشق توجّہ ملیا، ہر دم نام پکاندے، پھرن جھُٹلاندے
شاہ منصور وی چڑھ کے سُولی، کیتے سُخن گُٹانگے، رُل گیا ساہنگے
مہر بخشا ایہ دل میرا، ہر دم یار دی تاہنگے، ملساں واہندے

اردو ترجمہ پنجابی دوہا نمبر 5 :

عشق کی ایکم خوبی یہ بھی ہے کہ اس کا زور پتھر بھی نہیں سہہ سکتے، اور ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں. جنہیں عشق کی توجہ ملتی ہے ، وہ ہر وقت اپنے محبوب کا نام پکارتے، بے دم سے پھرتے رہتے ہیں.
شاہ منصور نے بھی کچھ ایسی ہی باتیں کیں اور اُسے سُولی پر چڑھا دیا گیا.
مہر بخش کہ رہا ہے میرا دل ہر وقت یہی چاہتا ہے کہ میں اپنے محبوب کے پاس جاؤں اور اُسے ملوں.

حسن و عشق کی کہانیوں سے متعلق تو بے شمار پنجابی دوہے مختلف پنجابی شعرا کے ملتے ہیں. ہم نے یہاں کچھ پنجابی دوہے پیش کیےُ ہیں. امید کی جاتی ہے آپ حضرات کو ہماری یہ کاوش پسند آیُ ہوگی.

اگلی قسط میں کچھ ایسے پنجابی دوہے پیش کیےُ جاییُنگے جو عام موضوعات سے ہٹ کر ہوں گے. اور دلچسپ بھی ہوں گے . انتظار فرماییےُ .

جاری ہے.

Leave a Reply