پنجابی اکھان – ردیف “گ” نمبر 21-11

پنجابی اکھان ، ردیف ” گ ” نمبر 21 – 11

بعض پنجابی اکھان ایسے ہیں کہ ان پر ” وحی ” کا گمان ہوتا ہے. پنجابی اکھان ردیف گ کے اکھان نمبر 11 کو پڑھیےُ. اس میں کہی گییُ بات الہامی معلوم ہوتی ہے. یہ بات کییُ دفعہ کے تجربے میں آ چُکی ہے کہ کسی دُور یا نزدیک کے سفر پر جاتے ہوےُ اگر گھر سے کھانا کھا کر نکلیں، تو جہاں آپ اپنی منزل پر پہنچیں گے، وہاں پر بھی آپ کو کھانا ضرور ملے گا. اس اکھان میں یہی بات کہی گییُ ہے.

اگر پنجابی اکھان ردیف گ نمبر 10-1     نہ پڑھ سکے ہوں تو اس لنک پر کلک کریں.

ردیف گ کے باقی ماندہ پنجابی اکھان پڑھیےُ؛

 

نمبر 11 – گھروں جاییےُ کھا کے اگوں ملن پکا کے
گھر سے کھانا کھا کر نکلو، تو جہاں جاؤ گے، وہ بھی بغیر پوچھے کھانا ضرور کھلایُیں گے. گھر سے بھوکے نکلے تو جہاں جاؤگے ، وھاں بھی بھوکے رہو گے.
یہ کہاوت لمبے مشاہدہ کے بعد کہی گیُ ہے. آپ بھی کبھی اس پر عمل کر کے اس کی سچایُ کو پرکھیں.

نمبر 12 – گھر ودھنی پھوٹاں بھیرہ دیاں
تم رہنے والے تو موضع ” ودھنی ” کے ہو، جہاں کے سارے باسی غریب ہیں. شیخی اس طرح بھگار رہے ہو جیسے تم موضع ” بھیرہ ” کے امیر ہو.
یاد رہے کہ موضع بھیرہ ظلع سرگہدھا کے لوگ کافی خوشحال ہوتے ہیں.

نمبر 13 – گھی سنوارے سالنا وڈّی نونہہ دا ناں
ھانڈی میں دیسی گھی زیادہ ڈالنے سے سالن مزیدار بن گیا. گھر والے کہنے لگے ” بڑی بہو نے سالن بڑا مزیدار بنایا ہے ” حالانکہ سارا کمال دیسی گھی کا ہے.
خالص دیسی گھی صرف سالن کو ہی مزیدار نہیں بناتا ، اس کے ساتھ یہ جسم کو بھی طاقت دیتا ہے. بڑے بوڑھے اس کی طاقت بخش خاصیت کو ایسے ہی بیان نہیں کرتے.

نمبر 14 – گجّر نالوں اجّڑ چنگا ، اجّڑ نالوں اجاڑ
جتھے گجّر لبھّے اوتھے دیہو مار
گجّر کی بہ نسبت اجڑا ہؤا ( غریب) شخص بہتر ہوتا ہے. یہ اور بھی بہتر ہے کہ گجّر کی دوستی کی بجاےُ آدمی کسی اجاڑ جگہ پہ رہ لے. گجّر جہاں بھی ملے اسے وہیں مار دو.
گجّر یا گوجر عمومآ بھیسیں پال کر ان کا دودھ بیچتے ہیں. اور وہ بھینس کے تھنوں سے دودھ کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیتے ہیں. دودھ میں پانی ملا دیتے ہیں. اپنے فایُدے کے لیےُ دودھ کا آخری قطرہ تک نچوڑ لینا، دودھ میں ملاوٹ کر لینا ان کا روزمرہ کا معمول ہے. اور یہی چیزیں ان کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہیں. کییُ گوالے دودھ میں صاف پانی کی بجاےُ جوہڑ یا نہر کا پامی ملا لیتے ہیں، اس طرح دودھ گاڑھا ہو جاتا ہے. جو پینے والے کو نقصان پہنچاتا ہے. جس کی انہیں پرواہ نہیں ہوتی. غالبآ گجروں کی انہی عادات کے پیش نظر یہ کہاوت کہی گیُ ہے.

نمبر 15 – گجر تے ڈوگر متر نہیں بھتیجا پتّر نہیں
گجر اور ڈوگر ذات کے لوگ کسی کے دوست نہیں ہوتے، بالکل ایسے جیسے بھتیجا سگّا بیٹا نہیں ہو سکتا.
ایک انگریز مصنف ” ڈینزل ایبستن ” Danzel Ibbetsen نے ایک کتاب مرتب کی جس کا نام ہے ” پنجاب کی ذاتیں ” Punjab Costs , جس کا اردو ترجمہ یاسر جواد نے کیا ہے. کتاب کے صفحہ نمبر 422 پر وہ گجروں کے متعلق لکھتا ہے ” پنجاب کی ساری تاریخ میں گجر شورش پسند رہے ہیں. وہ شہنشہان دہلی کے پہلو میں ایک مستقل کانٹا تھے. علاقایُ محاورات میں ان کا کردار اعلے نظر نہیں آتا. کتّا، بلّی، راہنگڑ، اور گجر، یہ چار نہ ہوتے تو آپ دروازے کھلے چھوڑ کر سو سکتے تھے” وہ مزید لکھتا ہے کہ ؟ جب باقی سب ذاتیں مر جاییُں تب ہی گجروں کو دوست بناؤ”.
فارسی زبان کے ایک محاورہ کا ترجمہ کچھ یوں ہے ” ڈوگر، بھٹّی، وٹّو اور کھرل باغیانہ طبیعت کے مالک اور قتل کر دیےُ جانے کے قابل ہیں “.
ڈوگروں کے متعلق اسی کتاب کے صفحہ نمبر 407 پر سر ایچ لارنس کی رپورٹ میں درج ہے ” ڈوگر ذات کے لوگ دراز قد، خوبصورت، کسرتی اور تقریبآ بلا استثنا کافی بڑی طوطے جیسی ناک رکھتے ہیں. وہ خیالی پلاؤ پکانے والے اور متشدد ہیں . گجروں کی طرح وہ بھی بڑے چور ہیں. گلہ بانی کو زراعت سے بہتر سمجھتے ہیں. مویشی چوری کرنا ان کا پسندیدہ ترین جرم ہے. تاہم ان میں کچھ باوقار لوگ بھی ہین “.
نوٹ ؛ مندرجہ بالا رہورٹوں سے مرتب کا متفق ہونا ضروری نہیں.
مندرجہ بالا کہاوت بہت پرانی ہے ، اور اب زمانہ کافی بدل گیا ہے.

نمبر 16 – گھوڑی چڑھیا تے نہیں گھوڑی چرھدیاں تے ویکھیا اے
میں خود سہرا باندھ کر گھوڑی پر نہیں بیٹھا تو کیا ہؤا، ایسے کیُ آدمیوں کو دیکھا تو ہے.
پہلے وقتوں میں شادی کے موقع پر دولہا سہرا باندھ کر گھوڑے پر بیٹھ کر دلہن کے ہاں جاتا تھا. اس طرح گھوڑی چڑھنے سے مراد شادی ہوتی تھی. آج کل گھوڑی کی جگہ کار نے لے لی ہے.
جب کسی شخص کو ایسا کام کرنے کو کہا جاےُ جو اس نے پہلے کبھی نہ کیا ہو اور اس سے پوچھا جاےُ کہ تم یہ کام کر سکتے ہو تو جواب میں وہ یہ کہاوت کہ سکتا ہے.

نمبر 17 – گھوڑے دی پچھاڑی تے افسر دی اگاڑی سے بچو
گھوڑے کے پیچھے سے ہو کر کبھی نہ گزرو، گھوڑا دولتّی مار دے گا. اسی طرح افسر کے سامنے آنے سے بچو، پتہ نہیں اس کا موڈ کیسا ہو. اور وہ یونہی جھاڑ پلا دے. ( ایسا اس صورت میں ہو سکتا ہے جب صاحب بیگم سے لڑ کر آیا ہو )

نمبر 18 – گھوڑیاں تے منصفاں نک نانکیاں تے
اچھے گھوڑے اور اطھے منصف کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ انہیں یہ صفات یقیناُ اپنے ننہال سے ملی ہیں.
آپ نے بھی مشاہدہ کیا ہوگا ، جب بچہ لایُق ہو تو ماں فخر سے کہتی ہے ” اپنے ماموں پر گیا ہے “.

نمبر 19 – گھر دا پیر ہولا ہوندا اے
پیر کی اپنے گھر میں ایسی قدر و منزلت نہیں ہوتی جیسے گھر سے دور رہنے والے مرید کرتے ہیں.
اردو زبان کا محاورہ ” گھر کی مرغی دال برابر ” اس کہاوت کا ہم معنی ہے.

نمبر 20 – گدڑاں باہج جھاڑیاں وچ کویُ نہیں ہگدا
یہ گیدڑوں کا ہی کام ہے جو جھاڑیوں میں پاخانہ کرتے رہتے ہیں، کویُ دوسرا جانور ایسا نہیں کرتا.
یہ کہاوت ایسے موقعوں پر کہی جاتی ہے جب یہ بتانا مقسود ہو کہ یہ برا کام وہی خاص آدمی ہی کرتا ہے.

نمبر 21 – گل اصل تے مکدی

ہر شخص کی حرکتوں سے پتہ چل جاتا ہے کہ اس کا اصل نسب کیا ہے.
دیہات میں ایک ذات کے لوگ رہتے ہیں جنہیں ” مصلّی ” کہتے ہیں. قیام پاکستان کے بعد یہ ” مسلم شیخ ” کہلانے لگے. ان کا رنگ عمومآ کالا ہوتا ہے. زمیندار انہیں اپنے کاموں کے لیےُ بلا لیتے ہیں. اور ربیع اور خریف کی فصلوں سے ان کا مقررہ حصہ مفت دیتے ہیں.
اسی طرح کا ایک مصلّی کسی طرح پولیس میں تھانیدار بن گیا وہ جس گاؤں میں جاتا، وہاں کے مصلیوں کو اکٹھا کر کے انہیں کہتا کہ اس کے سامنے جھمّر (ایک رقص) ڈالیں. جھمعر دواصل “جھومر” کا پنجابی ایڈیشن ہے. وہ تھانیدار ایک گاؤں میں گیا اور مصلیوں کو جھمر ڈالنے کو کہا. ان مصلیوں میں ایک سیانا مصلّی بھی تھا. جھمعر کے گول دایُرے میں حرکت کرتا ہؤا جب وہ تھانیدار کے سامنے آتا تو کہتا ” گل اصل تے مکدی” .وہ شخص پہچان گیا تھا کہ تھانیدار ذات کا مصلّی ہے. خود تو جھمّر میں شامل نہیں ہو سکتا، دوسروں کا جھمّر دیکھ کر خوش ہوتا رہتا ہے.
یہ سچ ہے کہ آدمی کی پہچان اس کی گفتگو اور حرکتوں سے ہو جاتی ہے

Leave a Reply