پنجابی اکھان، ردیف ” ک ” نمبر 41 -36
پنجابی اکھان انسانی زندگی کے تقریبآ تمام پہلیؤں کا احاطہ کرتے ہیں. جن میں عادات، رہایُش، جذبات، رویّیہ آپس کے اختلافات ، جنگ و جدل ، رہن سہن، امن اور جنگ غرض زندگی کے ہر پہلو پر راہنمایُ کرتے دکھایُ دیتے ہیں. کیوں نہ کریں پنجابی اکھان ہمارے بزرگوں کے تجربات اور مشاہدات کا نچوڑ ہیں.اور ہمیں ان پر فخر کرنا چاہیےُ.
ردیف ک کے مزید پبجابی اکھان پڑھیےُ؛
ردیف ” ک “
نمبر 36 – کمہار نوں لعل ملیا اس کھوتے گل پا دتّا
کمہار کو راستے میں پڑا ہیرا ملا، اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا چیز ہے. چنانچہ اس نے ہیرے کو اپنے گدھے کے گلے میں باندھ دیا.
جب کویُ قیمتی چیز کسی ایسے آدمی کے ہاتھ لگےجو اس کی قدر و قیمت نہ جانتا ہو، اور وہ اسے اس طرح استعمال کرے کہ اس قیمتی چیز کی مٹی پلید ہو جاےُ تو ایسے موقعوں پر یہ کہاوت بولی جاتی ہے.مزید تشریح کے لیےُ یوں سمجھیےُ جیسے کسی متمول دیہاتی نے قیمتی کار خریدی، اب وہ اس میں اپنے جانوروں کا چارہ ڈھو رہا ہو.
نمبر 37 – کھاواں تے ہوواں کوہڑا چھڈّاں تے لگے لیک
اسے کھاؤن تو مجھے کوہڑ کا مرض لاحق ہو جاےُ گا، نہ کھاؤں تو سب کی آنکھوں میں نکّو بن جاؤں گا.
ایک سانپ نے ایک چھپکلی کو پکڑ لیا، منہ میں دبایا تو اسے محسوس ہؤا کہ یہ تو نہایت زہریلی ہے. اب اگر وہ اسے کھاتا ہے تو خدشہ ہے کہ وہ چھپکلی کے زہر سے یا تو مر جاےُ گا یا پھر زندگی بھر کے لیےُ معذور ہو جاےُ گا. اگر اسے منہ سے باہر پھیک دے تو سب کہیں گے کہ اتنا زہریلا ہوتے ہوےُ چھپکلی سے ڈر گیا.
فارسی زبان کا محاورہ ” نہ جاےُ ماندن، نہ جاےُ رفتن ” اس کہاوت کا ہم مہنی ہے.
نمبر 38 – کھوہ دی متی کھوہ نوں لگ گیُ
کنواں لگانے کے لیےُ جو مٹی کھودی تھی، وہی مٹی کنویں کی دیواریں بنانے میں کام آ گیُ.
نمبر 39 – کسّو آلے نوں لیف سکھاندا اے
بخار میں مبتلا آدمی کو یہ پسند ہوتا ہے کہ وہ لحاف اوڑھ لے.
پنجابی زبان میں بخار کو ” کس” اور لحاف لو ” لیف ” کہتے پیں.
نمبر 40 – کھیت اجاڑن باہرلے ڈانگاں کھان بکریاں
کھیت تو سور اجاڑ گیےُ، کسان سمجھا کہ کھیت بکریوں نے اجاڑا ہے. چنانچہ اس نے بکریوں کو مارنا شروع کر دیا.
کسی شخص کو اس کے کسی ناکردہ گناہ کی سزا دی جاےُ تو ایسے موقعوں کے لیےُ یہ کہاوت بولی جاتی ہے.
سور ایک نہایت غلیظ اور بے غیرت جانور ہے. اسلام میں اس کا گوشت کھانے کو حرام قرار دیا ہے. پاکستان کے دیہاتی لوگ اس کا نام لینا بھی گناہ سمجھتے ہیں اور اسے ” باہرلے ” کہ کر پکارتے ہیں، یعنی وہ جانور جو گاؤں کی حدود سے باہر رہتے ہیں. ان کا ٹھکانا عمومآ جنگلوں میں ہوتا ہے اور یہ رات کو نزدیکی فصلوں کو اجاڑ دیتے ہیں
اردو زبان کا محاورہ ” طویلے کی بلا بندر کے سر ” اس کہاوت کا مفہوم ادا کرتا ہے.
نمبر 41 – کھوتی تھانے تون ہو آوے تے دوجیاں کھوتیاں نال نہیں چُگدی
اگر کسی گدھا یا گدھی کو ایک دفعہ کسی تھانے میں جانے کا موقع ملے تو اس کے بعد وہ دوسرے گدھوں کے ساتھ چرنا اپنی توہیں سمجھتا یا سمجھتی ہے. وہ یہ سمجھتا یا سمجھتی ہے کو میں نے وہ کارنامہ سرانجام دیا ہے جو دوسروں نے ابھی تک نہیں کیا.
تھانے سے ہو آنا کویُ اتنا بڑا کارنامہ نہیں کہ اس پر فخر کیا جاےُ. اور اگر کوُٰ فخر کرے تو اسے کہتے ہیں . ” یہ تو گدھا ہے ” .
پنجابی اکھان ردیف ک، نمبر 35-26 پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں.