پنجابی اکھان – ردیف ” ک ” نمبر 16 – 7

پنجابی اکھان، ردیف ” ک ” نمبر 16 – 7

پنجابی کے بعض اکھان ایسے ہیں جنہیں سُن کر ہونٹوں پر بے اختیار مسکراہٹ آ جاتی ہے. ایسے پنجابی اکھان دوسروے اکھان کی طرح اپنے اندر اختصار، معنویت لیےُ ہوتے ہیں. لوگ ایسے اکھان سُن کر مسکرانے لگتے ہیں اور سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ دریا کیسے کُوزے میں بند کر دیا گیا ہے. ایسے ھی پنجابی اکھان ردیف ک میں پیش کیےُ جا رہے ہیں.

ردیف ک کے مزید اکھان پڑھیےُ :

ردیف ” ک “

نمبر – 7 کھان پین نوں بھاگ بھری دھون بھنان نوں جمعہ
مسمات بھاگ بھری دکان سے ادھار چیزیں لے کر کھاتی رہی ، کہ میرا خاوند جمعہ ادایُگی کر دے گا. جمعہ کے پاس پیسے نہیں تھے. دکاندار نے پھینٹی لگا دی.
یہ کہاوت اس وقت بولی جاتی ہے جب کویُ آدمی کسی دوسرے کا نام لے کر پیسے یا چیزیں بٹوڑتا رہے اور وہ شخص ایک نا کردہ گناہ میں پکڑا جاےُ.

نمبر 8 – کھا گےُ ست راہاں دے منڈے ناں بھولو دا
گھر کا اناج تو دور دیس کے لڑکے کھا گےُ، ذمہ دار بھولو کو ٹھہرایا کہ اس نے سارا اناج کھا کر ختم کر دیا.
اردو زبان کا محاورہ ” طویلے کی بلا بندر کر سر ” اس کہاوت کا مفہوم صحیح طور پر ادا کرتا ہے.

نمبر 9 – کھیر کھاوے باہمنی سولی چڑھے کراڑ
ہندو حلوایُ سے برہمن کی بیوی ہنس کر بولتی تھی.حلوایُ اسے کھیر مفت کھلاتا رہا. کھیر سے فایُدہ کی بجاےُ نقصان ہؤا، جس پر حلوایُ کے باپ نے حلوایُ کو مارا.
پہلے وقتوں میں ہندوؤں کو ” کراڑ ” بھی کہتے تھے.
مندرجہ بالا پانچوں کہاوتیں ہم معنی ہیں. مگر ہر ایک کا طرز بیان الگ ہے ، اور مزہ بھی الگ ہے.

نمبر 10 – کویُ مرے بھانویں جیوے ستھرا گھول پتاسے پیوے
کویُ مر جاےُ یا زندہ رہے، ہمیں کسی سے غرض نہیں، اپنے حال میں مست ہیں.
یہ کہاوت ایسے مرنجاں مرنج قسم کے انسان کے متعلق کہی گیُ ہے جو اپنے حال میں مست ہو. کسی کی غمی خوشی میں حصہ نہ لیتا ہو. کسی کے ساتھ نیکی کرتا ہو نہ بدی.
اس کہاوت کا سارا حسن صرف ایک لفظ ” ستھرا ” میں ہے. یہ لفظ مندرجہ بالا قسم کے شخص کے اوصاف بیان کرتا ہے. اس ایک لفظ کو کہاوت سے نکال دیں، باقی کہاوت قطعآ بے لطف ہو جاےُ گی.

نمبر 11 – کھوتا مویا جھاویان مکان منگووال
گدھا تو موضع جھاوریاں میں مرا، اس کے مرنے کا افسوس کرنے کے لیےُ منگووال چلے گیےُ.
موضع جھاوریاں ضلع سرگودھا میں واقع ہے. اور منگووال ضلع گجرات میںہے. دونوں مقامات کے درمیان کم از کم 100 کلو میٹر کا فاصلہ ہے،اگر غم کا کویُ واقعہ موضع جھاوریان میں ہؤا ہو تو افسوس کرنے کے لیےُ وہیں جانا چاہیےُ، نہ کہ کسی اور مقام پر.
لفظ ” مکان ” کی تشریح کرتا چلوں. کسی آدمی کی وفات پر رشتہ دار اور جاننے والے تعزیت کے لیےُ آتے ہیں. ان کی آمد ” مکان ” کہلاتی ہے. مکان لفظ کا ایک دوسرا مطلب بھی ہے یعنی ” ختم کرنا”.

نمبر 12 – کتّا کتے دا ویری
کتے آپس مین دشمنوں کی طرح لڑتے رہتے ہیں.

نمبر 13 – کھسریاں دے گھر منڈا ہویا اونہاں چم چم کے مار دتا
ایک ہیجڑے کے ہاں بیٹا پیدا ہؤا. ہیجڑوں کی ساری برادری اس انہونی بات پر بڑی خوش ہویُ. جو بھی آتا بچّے کو چومنا شروع کر دیتا . اور دیر تک چومتا رہتا. بچّے کی ننھی سی جان اتنا پیار برداشت نہ کر سکی اور بچّہ مر گیا.

نمبر 14 – کدوں مینہ وسّے دا کدوں ببیرا پانی پیےُ دا
پتہ نہیں کب مینہ برسے گا اور ببیرا اپنی پیاس بجھاےُ گا.
ببرا ایک چھوٹا سا کیڑا ہوتا ہے جو زمین کے اندر رہتا ہے. برسات کے موسم میں آپ نے دیکھا ہوگا کہ بعض جگہوں پر زمین یوں دکھایُ دیتی ہے جیسے نیچے سے کسی کیڑے نے باہر نکلنے کی کوشش میں تقریبآ ایک مربع فت زمین بھربھری کر دی ہے. یہی کیڑا ” ببیرا ” کہلاتا ہے.
یہ کہاوت اس وقت کہی جاتی ہے جب کسی انتہایُ ضرورت کی چیز کے ملنے کی امید میں بہت دیر ہو.

نمبر 15 – کراڑ دا پتّر اے کجھ ویکھ کے ڈگّا ہووے دا
وہ ہندو بنیے کا بیٹا ہے ، اگر گرا ہے تو اسے کویُ چیز نظر آیُ ہوگی جس پر وہ گر پڑا.
بنیے کا بیٹا جا رہا تھا . اسے زمین پر ایک روپیہ پڑا نظر آیا. اس نے اپنے ارد گرد دیکھا. لوگ موجود تھے .وہ جھجکا کہ لوگوں کے سامنے روپیہ کیسے اٹھاےُ. وہ زمین پر اس طرح گرا کہ دیکھنے والے یہ سمجھیں کہ ٹھوکر لگنے سے گر گیا ہے. اٹھتے ہوےُ اس نے وہ روپیہ اس طرح اٹھایا کہ کسی کو اس کی اس حرکت کا پتہ نہ چل سکا. وہاں پر موجود لوگوں میں سے ایک نے شام کو اکٹھے بیٹھے ہوےُ دوستون اور بزرگوں کو یہ واقعہ سنایا کہ فلاں بنیے کا بیٹا چلتے چلتے ٹھوکر کھا کر گر پڑا. ایک جہاندیدہ بزرگ کہنے لگے ” وہ بنیے ہندو کا بیٹا ہے، گرا ہے تو کسی چیز پر ہی گرا ہوگا “.

نمبر 16 – کیہڑا تے کیہڑا ای سہی
تم نے مجھے “کون ہے ” کہ کر بلایا ہے، اچھا اب میں کون ہو گیا ہوں. اب میں تجھے کون بن کر دکھاؤں گا.
ایک شخص کسی عزیز کی شادی میں مدعو تھا. پہلے وقتوں میں دستور تھا کہ شادی میں مدعو مہمان کھانے سے فارغ ہو کر باری باری صاحب خانہ کو کچھ رقم دیتے تھے.اس رقم کا انحصار دو باتوں پر ہوتا تھا. ایک یہ کہ دینے والے کی حیثیت کیا ہے؟ دوسرے صاحب خانہ نے دینے والے کے بیٹے، یا بیٹی کی شادی پر کتنی رقم دی تھی. مثلآ الف نے ب کے لڑکے کی شادی پر 100 روپے دیےُ تھے. تو اب الف کے بیٹے یا بیٹی کی شادی پر ب 100 روپے کے ساتھ کچھ اضافہ کر کے دے گا. جس کا مطلب یہ لیا جاتا تھا کہ کہ ب اپنے مراسم کو جاری رکھنا چاہتا ہے. اگر ب نے صرف 100 روپیہ دیےُ تو یہ سمجھ لیا جاتا تھا کہ ب اپنا لین دین ختم کرنا چاہتا ہے. اس لین دین کو پنجابی زبان میں ” نیوندرہ” کہتے تھے. یہ امداد باہمی کی ایک عمدہ مثال ہے. آج کل بھی ” نیہندرہ ” کی یہ شکل “سلامی ” کے نام سے موجود ہے.
تو بات ہو رہی تھی ایک شخص کی جو ایک شادی میں مدعو تھا. اس شخص کے پاس نیوندرہ میں دینے کے لیےُ پیسے نہیں تھے. وہ کھانا وغیرہ کھاتا رہا اور سوچتا رہا کہ کیا کیا جاےُ. نیوندرہ دینے کے وقت وہ صاحب خانہ کے گھر کی چھت پر چڑھ گیا. اور اپنے پاؤں چھت پر مارنے لگا. جس سے دھمک پیدا ہونے لگی. صاحب خانہ نے آواز دی ” ارے بھایُ! کون ہے ؟ “اوپر والا بولا ” اچھا. اب میں کون ہو گیا ہوں، تمہاری نظریں بدل گیُ ہیں، اب تم مجھے پہچانتے بھی نہیں ہو “یہ کہ کر وہ چھت سے اترا اور ناراض ہو کر نیوندرہ دےُ بغیر پنے گھر چلا گیا.
جب کویُ نامعقول عذر بنا کر کسی ذمہ داری سے بچنے کی کوشش کی جاےُ تو ایسے موقعوں پر یہ کہاوت کہی جاتی ہے.

پنجابی اکھان ، ردیف ک. نمبر 6-  1 پڑھنے کے لیےُ اس لنک پر کلک کریں .

جاری ہے.


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *