پنجابی اکھان – ردیف “ڈ ” نمبر 9 – 1

 پنجابی اکھان ، ردیف ” ڈ ” نمبر 9 – 1

پنجابی اکھان بعض حقایُق کو بڑی بے رحمی سےآشکارا کرتے ہیں. جنہیں جھُٹلایا نہیں جا سکتا. ااس کی مثال نیچے دیےُ گیےُ پنجابی اکھان کا پہلا اکھان ہے. جس میں بتایا گیا ہے کی طاقتور اپنا حُکم کیسے مناتا ہے. اس قسم کے واقعات موجودہ سرداری نظام میں ملتے ہیں. . قبایُلی نظام مین یہ جرگہ کی صورت میں موجود ہے،

آگے بڑھتے ہُوےُ ردیف ڈ کے یپنجابی اکھان پڑھیے:

 

نمبر 1 – ڈاڈھیاں دا ستّیں وینہہ سو
طاقتور اور بارسوخ شخص کہے کہ سات دفعہ بیس تک گنیں تب 100 بنتا ہے اس کی ماننی پڑتی ہے.
پہلے زمانے میں لوگ اتنے پڑھے لکھے نہیں ہوتے تھے تو ان کے لیےُ 100 تک گنتی کرنا مشکل ہوتا تھا. وہ زیادہ سے زیادہ 20 تک گنتی کر سکتے تھے. اس طرح 2کی گنتی کو پانچ دفعہ گن لیتے اور کہتے کہ پورا 100 ہو گیا.
کسی طاقتور شخص نے ایک دوسرے شخص کو 100 روپے ادھار دیےُ. ادھار واپس کرتے وقت اس شخص نے پانچ دفعہ بیس روپےُ گن کر دیےُ. طاقتور شخص نے کہا ” تم غلط کر رہے ہو. سو روپے تب بنیں گے جب تم مجھے بیس بیس روپے سات دفعہ گن کر دو گے “.
طاقتور کی بات ماننی پڑتی ہے چاہے وہ غلط ہو.

نمبر -2 ڈنگیاں لتّاں پلس مقابلے
تمہاری ٹانگیں تو ٹیڑھی ہیں ، صحیح طرح بھاگ نہیں سکتے. اور شیخی بھگار رہے ہو کہ تم نے پولیس کے ساتھ کیُ مقابلے کیےُ ہیں. اور ہر دفعہ ان کے گھیرے سے صحیح سلامت نکلے ہو.
دوسرا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ پولیس کا مقابلہ کرنے کے لیےُ ٹانگوں کا تندرست اور صحیح ہونا ضروری ہے تا کہ بوقت ضرورت بھاگا جا سکے.
یہ کیاوت شیخی خور پر خوب سجتی ہے.

نمبر 3 – ڈلّہے بیراں دا اجے کجھ نہیں گیا
زمین پر گر جانے والے بیروں کا ابھی کچھ نہین بگڑا. انہین اکٹّھا کر کے اور دھو کر دو بارہ کھاےُ جا سکتے ہیں.
کسی شہر کے حاکم کی بیٹی نے اپنی رازدار نوکرانی کے ذریعے ایک شخص کو پیغام بھیجا کہ میں تم سے محبت کرتی ہوں اور تم سے ملنا چاہتی ہوں. اس شخص جواب دے بھیجا کہ میں ابھی مرنا نہیں چاہتا. حاکم کی بیٹی نے اسے ایک ثابت روٹی بھیجی . وہ شخص سمجھ گیا کہ لڑکی کہ رہی ہے کہ یہ راز صرف مجھ تک ہے. کسی اور کو اس کا پتہ نہیں. اس شخص نے روٹی کے دو ٹکڑے کر کے واہس بھیج دیےُ کہ میرے دو ٹکڑے بھی کر دیےُ جایُں ، تب بھی نہیں مانوں گا . لڑکی نے روٹی کے چار ٹکڑے کر کے واہس بھیج دیےُ کہ اگر میرے چار ٹکڑے بھی کر دیےُ جایُں تب بھی تمہاری محبت میرے دل میں رہے گی. اس شخص نے روٹی کے آٹھ ٹکڑے کر کے واپس بھیج دیےُ کہ اگر میرے جسم کے آٹھ ٹکڑے کر دیےُ جایُں تب بھی میری طرف سے نہ ہی ہو گی. سہر کے حاکم کو اس معاملے کی کچھ بھنک پڑ گیُ . حاکم نے اس شخص کو بلا کر اس سے کچھ اگلوانے کی کوشش کی ، مگر وہ اس شخص نے انکار کر دیا کہ ایسی کویُ بات نہیں. حاکم شہر نے جلّاد کو حکم دیا کہ اسے قتل کر دو. جلّاد اسے مقتل کی طرف لے چلا. اس وقت لڑکی کی نوکرانی نے اس سخص کے سامنے بیروں سے بھری ہویُ تھالی زمیین پر گرا دی. سارے بیر بکھر گیےُ. نوکرانی نے سارے بیر اکٹّھے کر کے تھالی میں ڈال لیےُ اور واپس چلی گیُ. وہ شخص سمجھ گیا کہ لڑکی نے پیغام بھیجا ہے. کہ ابھی کچھ نہیں بگڑا ، ساری بات سمیٹ لی جاےُ گی. تم حاکم شہر کو ساری بات بتا دو. اس شخص نے کہا کہ مجھے حاکم شہر کے پاس لے چلو. اور پھر اس نے ساری بات سچ سچ بتا دی.

نمبر 4 – ڈگّا کھوتے توں دکھ کمہار تے
ایک آدمی نے کسی کمہار سے اس کا گدھا لیا. اس پر سواری کرتے ہوےُ وہ آدمی گدھے سے گر پڑا. گدھے کو وہ کیا کہتا گدھے کے مالک کمہار سے لڑنے لگا کہ تمہارے گدھے نے مجھے زمین پر گرا دیا.
دیہات میں کمہار عموماّ گدھے رکھتے ہیں. جن سے وہ مٹّی یا اینٹیں ڈھونے کا کام لیتے ہیں. غاؤں کے دوسرے لوگ بوقت ضرورت ان سے گدھا مستعار لے لیتے ہیں.
یہ کہاوت ایسے موقعوں پر کہی جاتی ہے جب کویُ شخص کسی دوسرے شخص سے ایسے کام کے متعلق جھگڑنے لگےجو اس نے کیا ہی نہ ہو یا اس کام کے ہونے میں اس کا کویُ ہاتھ ہی نہ ہو.

نمبر 5 – ڈوماں کدوں ہلّاں سہیڑیاں
مراثیوں کو عرف عام میں ” ڈوم ” بھی کہتے ہیں. یہ قوم بڑی آرام طلب ہوتی ہےباتٰیں کر کے ہی کھاتے ہیں. ہل جوتنے جیسا مشقّت کا کام ان کے بس کی بات نہیں. ہل جوتنے کے لیےُ کسان فجر سے پہلے اٹھتا ہے، جبکہ مراثی گیارہ بارہ بجے دوپہر سے پہلے سو کر ہی نہیں اٹھتا. کویُ شخص صبح دیر تک سوتا رہے تو اسے کہتے ہیں کہ مراثیوں کی طرح دوپہر تک سوتے رہتے ہو.
اس کہاوت میں یہ حقیقت بیان کی گیُ ہے کہ مراثیوں نے ہل جوتنے جیسے مشکل کام کب کیےُ ہیں. یہ لوگ باتوں سے رقم اینٹھنے کے لیےُ کافی بدنام ہیں. ان سے کچھ رقم مانگین تو تو ایسی باتیں بنایُں گے کہ بجاےُ کچھ لینے کے آپ انہیں اپنے پلّے سےکچھ دے دیں گے. بزرگوں نے سچ ہی کہا ہے کہ ” ملّاں، جاٹ، برہمن اور ڈوم دینے کے دن پیدا نہیں ہوےُ “.

نمبر 6 – ڈوماں دے گھر سوہلے جیوں دل ای پیا گا
گیت، گانے تو مراثیوں کے گھر کی کھیتی ہیں، جیسے ان کی مرضی ہو گا لیتے ہیں.
” سوہلے کے معنی ہیں گیت، گانا خصوصاّ مدح، تعریف.

نمبر 7 – ڈوماں دے گھر گنجی کد کد بھنّے منجی
مراثی کی بیٹی کسی بیماری کی وجہ سے گنجی ہو گیُ. گنجی کہلواےُ جانے کے ڈر سے وہ گھر سے باہر نہ نکلے، گھر کے اندر ہی چارپایوں پر کودتی پھرے.

نمبر 8 – ڈھایُ بوٹیاں پھتّو باغبان
کھیت میں صرف دو تین پودے ہیں جن کے بل پر پھتّو اپنے آپ کو باغبان کہتا ہے.
کسی تھوڑی سی چیز پر اترانے والے شخص پر یہ کہاوت خوب سجتی ہے.

نمبر 9 – ڈورو نہ وجایےُ تے منڈے اکٹھٹّے نہیں ہوندے
تماشہ دکھانے کے لیےُ لڑکوں کو اکٹھّا کرنے کے لیےُ ڈگ ڈگی بجانی پڑتی ہے.
مداری تماشہ دکھانے سے پہلے مجمع اکٹھّا کرنے کے لیےُ ڈگ ڈگی بجاتا ہے وہ ڈگ ڈگی نہ بجاےُ تو لڑکوں کو کیسے پتہ چلے گا کہ مداری تماشہ دکھانے والا ہے.
ڈگ ڈگی کو پنجابی زبان میں ڈورو کہتے ہیں.

جاری ہے.

Leave a Reply