پنجابی اکھان ردیف ‘ر- نمبر 5 – 1. “
جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا جا چکا ہے کہ پنجاجبی زبان کے بعض الفاظ سے شروع ہونے والے اکھان بہت کم ملے ہیں. یا میری ان تک رسایُ نہیں ہُویُ. وجہ کویُ بھی ہو بعض پنجابی زبان کے حروف سے شروع ہونے والے ، جس کی وجہ کویُ بھی ہو سکتی ہے. حرف ” ر ” شروع ہونے والے پنجابی اکھان صرف پانچ کلے ہیں اور لفظ ” ز ” کے صرف دو اکھان ملے ہیں.
پنجابی اکھان ردیف د، نمبر 9- 1 سے دلچسپی تکھنے والے حضرات اس لنک پر کلک کریں،
ردیف ر اور ز سے شروع ہونے والے پنجابی اکھان حاضر خدمت ہیں:
نمبر 1 – رب نیڑے یا گھسن
خدا نزدیک ہے یا گھونسہ.آپ کا کیا جواب ہو گا؟.
ہمارا ایمان ہے کہ خدا ہماری شہ رگ سے بھی نزدیک ہے. ایک شخص نے ایک مولوی سے ناراض ہو کر اسے گریبان سے پکڑا اور کہا ” بتاؤ، تمہارا خدا نزدیک ہے یا میرا گھونسہ “.
ہمارا اعتقاد اپنی جگہ، اگر آپ پر کویُ ایسا موقع آ جاےُ تو آپ کا کیا جواب ہو گا ؟.
نمبر 2 – راوی راٹھاں جھناں عاشقاں
بڑے بڑے سردار راوی دریا کے آس پاس ہی ملین گے. اور دریاےُ چناب کے آس پاس عاشقوں کی بستیاں ہیں.
اس کہاوت کا مآخذ غالباّ ہیر رانجھا اور مرزا صاحباں کے قصّے ہیں. رانجھا اور مرزا دونوں کے گاؤں دریاےُ چناب کے آس پاس تھے. اور ہیر اور صاحباں کے سردار والدین دریاےُ راوی کے آس پاس رہتے تھے.
نمبر 3 – رجیا ہویا جٹ وی کلّا اجاڑ دیندا یے
پیٹ بھرے جاٹ کو کھانے کو کچھ دیا جاےُ، تو پیٹ بھرے ہوےُ ہونے کے باوجود بہت سا اناج کھا جاتا ہے.
ایک ایکڑ زمین کو پنجابی زبزن مین ایک کلّہ کہتے ہیں.
نمبر 4 – رب دا بھانا کدھروں پٹیا، کدھرے لانا
سارے کام اللہ ہی کے حکم سے ہوتے ہیں. وہ ایک طرف کویُ چیز اکھاڑ لیتا ہے ، اور دوسری طرف لگا دیتا ہے. ہم روزانہ یہ دیکھتے ہیں کہ کسی کے گھر فوتیدگی ہو گیُ، کسی کے گھر لڑکا پیدا ہو گیا. کویُ اجڑ گیا، کویۃ بس گیا. یہ سب کچھ اللہ ہی کے حکم سے ہوتا ہے.
نمبر 5 – رچھّاں دا ول قلندر ای جانن
ریچھ کو قابو کیسے کیا جاتا ہے، یہ ہنر قلندر ہی جانتے ہیں.
دیہات میں ایک قبیلہ یا ذات ہے جنہیں ” قلندر ” کہتے ہیں. ان کے لوگ عموماّ ریچھ اور بندر کے چھوٹے طھوٹے بچّے لے کر پال لیتے ہیں. انہیں سدھاتے ہیں. بڑا ہو کر انہیں ساتھ لے کر گاؤں گاؤں جا کر ان کا تماشہ دکھا کر پیسے مانگتے ہیں. ریچھ اور بندر ان کے سامنے فرماں بردار رہتے ہیں. اور ان کے اشارون پر کرتب دکھاتے ہیں.
پنجابی اکھان ، ردیف ذ . نمبر 2-1
نمبر 1 – ذات دی کوہڑ کرلی چھتیراں نوں جپھّے
ذات کی تو چھپکلی ہے، ( نیچ ذات، نے وقعت ) لیکن شہتیر کے کلاوے لگ کر یہ ظاہر کر رہی ہے کہ میرا تعلق اونچی ذات سے ہے.
نچلی ذات کا آدمی جب بڑے بڑے دعوے کرے کہ پدرم سلطان بود ،تو ایسے موقعوں پر یہ کہاوت حالات کی صحیح عکاسی کرتی ہے.
آج کل ذات پات کے خلاف بڑے زور و شور سے ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے ، لیکن یہ سب دکھاوے کی باتیں ہیں. خاندان کی اپنی اہمیّت ہے جو کبھی کم نہیں ہو گی. خاندانی آدمی کی عادات چھچھوری نہیں ہوتیں. اسے اپنے خاندان کی عزّت کا بڑا خیال رہتا ہے. ہمارے معاشرہ میں دو تین صدیوں تک تو یہ ناممکن ہے کہ ایک معزّز خاندان، ذات پات کی پرواہ نہ کرتے ہوےُ ، اپنی بیٹی کی شادی کسی نایُ، موشی یا مصلّی سے کر دے.
فارسی زبان کا محاورہ ” چہ نسبت عالم خاک را با عالم پاک ” اس کہاوت کا کچھ مفہوم ادا کرتی ہے.
نمبر 2 – ذات دا جولاہا نام فتح خاں
یہ ذاے کا تو جولاہا ہے ( یعنی بزدل ہے ) اس کا نام تو دیکھو فتح خاں.
جولاہوں کے متعلق عام خیال ہے کہ یہ بزدل ہوتے ہیں. اور یہ حقیقت بھی ہے. اب اگر بزدل اپنا نام شیر خاں یا فتح خاں رکھ لے تو ہے نا مذاق کی بات.
.