پنجابی اکھان، ردیف ” ب ” نمبر 26 – 21
آس سے پہلی قسط میں پنجابی اکھان، ردیف ب، نمبر 20-11 پیش کی جا چکی ہے، جسے ناظرین نے بہت پسند کیا ہے. آپ کی حوصلہ افزایُ کا شکریہ.
ً
مجھے پنجابی اکھان جمع کرنے میں بڑی مشکل پیش آیُ. میں نے جب بھی کسی دیہاتی سے کہا ” پنجابی کا کویُ اکھان سُنا دیجیےُ “. ہمیشہ یہی جواب ملا ” یاد نہیں “. پھر میں نے محفلوں، لڑاییُوں اور چوپالوں میں جانا شروع کیا. قلم اور کاپی ساتھ رکھتا. جہان کسی نے کویُ اکھان کہا اُسے فورآّ لکھ لیا. یہ ایک صبر آزما کام تھا. اور مجھے یہ اکھان جمع کرنے میں بہت عرصہ لگ گیا. مجھے اعتراف ہے کہ میں سارے پنجابی اکھان جمع نہیں کر سکا. اور یہ کام تقریباّ ناممکن ہے. اس کے لیےُ صوبہ پنجاب کے ہر گاؤں میں کم از کم دو ہفتے ٹھہرنا ضروری ہے ان دو ہفتوں میں رات کو منعقد ہونے والی محفلوں، عدالتوں ( جرگہ ) ، جھگڑوں میں جانا ضروری ہے. اس کام کے لیے بڑا عرصہ اور کافی نقدی ضروری ہے.
اب آپ ردیف ب کے اکھان نمبر 26-21 پڑھیےُ:
نمبر 21 – بیری والے گھر ڈھمّاں آؤندیاں نے
جس گھر میں بیری کا درخت ہو گا ، لوگ بیر توڑنے کے لیےُ اس پر ڈھیلے تو ماریں گے جو ظاہر ہے گھر میں گریں گے.
بیری سے بیر توڑنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ بیروں پر مٹّی کے ڈھیلے مارے جایُں ، اس سے بیر نیچے گر پڑتے ہیں . اب اگر بیری کا درخت کسی گھر کے صحن میں ہو تو ڈھیلے تو صحن میں ہی گریں گے.
کسی گھر جوان بیٹی ہو تو اس کا رشتہ پوچھنے کے لیےُ کیُ لوگ آ جاتے ہیں. یہ کہاوت ایسے ہی موقعوں پر بولی جاتی ہے. ان بیریوں کے بارے میں علی کوثر
جعفری کا یہ خوبصورت شعر بھی سن لیجےُ
دوسروں کے گھر میں پتھر پھینکنے سے پہلے
اپنے گھر میں بھی لگی تم بیریوں کو دیکھنا
نمبر 22 – باری ورہیں روڑی دی وی سنی جاندی اے
روڑی جیسی حقیر شے کی فریاد بھی بارہ برس بعد سن ہی لی جاتی ہے.
کویُ مقصد یا حاجت بہت دیر کے بعد پوری ہو تو ایسے موقعوں پر یہ کہاوت کہی جاتی ہے.
نمبر 23 – بھانڈے دا منہ موکلا ہووے تے کتّا ای چا شرم کرے
اگر کتّے کو کھانے کی چیز ایسے برتن میں مل جاےُ جس کا منہ بہت کھلا ہوتو کتّے کو ہی شرم آ جانی چاہےُ کہ وہ سارے کا سارا ہی نہ کھا جاےُ.
دینے والا جب کسی شخص کو بہت سارا دے دے تو لینے والا کچھ شرم کرے اور زیادہ لالچ نہ کرے.
نمبر 24 – بلّی بچیاں نوں ست گھر پھراندی اے
بلّی اپنے نو زایُدہ بچوں کو ایک گھر میں لے جاےُ گی، پھر دوسرے گھر میں ، پھر تیسرے میں حتّے کہ وہ یکے بعد دیگرے سات گھروں میں اپنے بچّوں کو لے جاتی ہے.
بلّی جہاں بچّے دیتی ہے دوستے یا تیسرے دن اپنے بچّوں کو منہ میں دبا کر کسی دوسرے گھر لے جاتی ہے. پھر تیسرے، حتّے کہ بیت سارے گھروں میں لے جاتی ہے. وہ ایسا کیوں کرتی ہے ؟ اس راز سے ابھی تک پردہ نہیں اٹھ سکا.
یہ کہاوت ایسے موقعوں پر کہی جاتی ہے جب کویُ شخص اپنے بچّوں کا پیٹ پالنے کے لیُے مختلف جگہوں پر پرکام کر رہا ہو.
نمبر 25 – بھکھ بھنگڑے تے عشق بنیرے
گھر میں فاقے پڑ رہے ہوں اور عشق ہے کہ لب بام کو چھو رہا ہے. یہ کہاوت اس وقت کہی جاتی ہے جب کسی کے پاس سرمایہ تو نہ ہو لیکن وہ بڑے بڑے منصوبے بنا رہا ہو.
اس کہاوت کا ایک دوسرا مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ گھر میں فاقے پڑ رہے ہوں تو عشق کو کسی کونے میں رکھ دیا جاےُ.
نمبر 26 – بھولا کٹّا دو تھن چگھدا اے
بھینس کے کٹّے کو عموماّ بھینس کے ایک تھن سے دودھ پینے کی اجازت دی جاتی ہے. کٹّے نے دو تھنوں سے دودھ پی لیا. بھیس کے مالک نے کہا کہ کٹّا بڑا بھولا ہے، ایک کی بجاےُ دو تھنوں سے دودھ پی گیا.
جب کویُ شخص اپنے حصّے سے زیادہ لے لے اور شرمندہ بھی نہ ہو تو اسے بھولے کٹّے سے تشبیہ دی جاتی ہے.
جاری ہے