پنجابی اکھان ردیف “الف” نمبر – 30 – 26

26-  پنجابی اکھان ، ردیف 1لف،نمبر   – 30

اس سے پہلے پنجابی اکھان ردیف آ، 25-21 پیش کیےُ جا چکے ہیں. امید کی جا سکتی ہے کہ آپ کو وہ پسند آےُ ہوں گے. پنجابی اکھان دراصل بزرگوں کے تجربات اور مشاہدات کا نچوڑ ہیں. جو کسوٹی پر اپنا لوہا منوا چکے ہٰیں اس قسط میں ردیف آ کے 30-26 تک کے اکھان پیش کیےُ جا رہے ہیں،

  – نمبر 26 :  ان ہلے نوں ہلایےُ نہ          ہلے ہوےُ دا بھا ونجاٰٰیُے نہ

کوئ آدمی کسی چیز کا عادی نہ ہو تو اسے اس کا عادی نہ بنایا جاےُ. کسی چیز کے عادی شخص کو وہ چیز مہیا کر دینی چاہےُ.
یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ کویُ کام کچھ عرصہ تک کرتا رہے تو یہ عادت اس کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہے. روزانہ سیر کا عادی شخص اپنی طبیعت گری گری محسوس کرے گا جس دن اس نے سیر نہ کی ہو. وہ یہ محسوس کرے گا جیسے روز مرہ زندگی میں کویُ خلا رہ گیا ہے. اس کہاوت میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے.

–  نمبر 27 :   انڈے کدھرے          کڑ کڑ کدھرے

مرغی نے انڈہ تو کسی اور جگہ دیا لیکن کڑ کڑ کی آواز کسی دوسری جگہ پر جا کر نکال رہی ہے.
دیسی مرغیاں جب انڈہ دے چکتی ہیں تو زور زور سے کڑ کڑ کی آواز نکالتی ہیں. گھر والوں کو پتہ چل جاتا ہے کہ مرغی نے انڈہ دے دیا ہے اور وہ اسے اٹھا لیتے ہیں. اب اگر مرغی نے انڈہ تو مقام الف پر دیا ، لیکن کڑ کڑ کی آواز مقام ج پر کھڑے ہو کر نکال رہی ہو تو گھر والے مقام ج پر انڈہ ڈھونڈیں گے، جو ظاہر ہے وہاں سے نہیں ملے گا.
جب کویُ کام کسی غلط جگہ پر کیا جا رہا ہو یا کسی کی محنت کا پھل کسی دوسرے کو ملے تو ایسے موقعوں پر یہ کہاوت کہی جاتی ہے.

– نمبر 28:     اوہ دیہاڑا ڈباّ           جس دن گھوڑی چڑھیا کُباّ

وہ دن نرالا ہی ہو گا جس دن کبڑا آدمی اپنے آپ گھوڑی پرچڑھ کر بیٹھ سکے گا.
گھوڑی پر خود چڑھ کر بیٹھنے کے لےُ کمر کا سیدھا اور طاقتور ہونا ضروری ہے. اور یہ دونوں طاقتیں کسی کبڑے شخص کے پاس نہیں ہوتیں. کبڑے کے لےُ یہ انتہایُ مشکل بلکہ ناممکن ہے کہ وہ کسی سہارے کے بغیر گھوڑے پر چڑھ کر بیٹھ سکے. جب کویُ شخص جو کام بھی کرے بگاڑ دے یا کویُ ایسا کام شروع کر دے جو وہ نہ کر سکتا ہو تو ایسے موقع پر یہ کہاوت بولی جاتی ہے.

–  نمبر 29 :      اوہو بُوڑی کھوتی       اوہو رام دیال

یہ تو اپنا وہی رام دیال ہے جو ٹوٹے ہوےُ دانتوں والی گدھی کے ساتھ کھڑا ہے.
رام دیال کو اس کے باپ نے گاؤں سے شہر بھیجا کہ وہ دکان کے لےُ سودا سلف لے آےُ. رام دیال سے سارے پیسے کسی طرح ضایع ہو گےُ. اور وہ خالی ہاتھ گھر واپس آ گیا. یہ کہاوت ایسے موقعوں پر بولی جاتی ہے جب کسی کو کویُ کام سونپا جاےُ اور وہ اپنی نالایُقی سے اس میں کامیاب نہ ہو.

–  نمبر 30      آیُ نوں دوجا          مریندی نوں تریجا

تمہیں آےُ ہوےُ تو صرف دو دن ہوےُ ہیں . تم کہتی ہو تین دن سے مار کھا رہی ہوں.
ایک پھوہڑ عورت کو اپنے سسرال آےُ ہوےُ دو دن ہی گزرے تھے. اس کا خاوند اس کے پھعہڑ پن کی وجہ سے اسے جھڑکتا . دوسرے دن وہ اپنی ساس سے کہنے لگی کہ میرا خاوند مجھے تین دن سے روزانہ جھڑک رہا ہے . ساس نے کہا تمہیں تو آےُ ہوےُ صرف دو دن ہوےُ ہیں تم تیں دن جھڑکیں کیسے کھا رہی ہو.
جب کسی بات میں مبالغہ کیا جاےُ تو ایسے موقع پر یہ کہاوت خوب جچتی ہے.

جاری ہے.

Leave a Reply