پنجابی اکھان – ردیف الف ، نمبر 35 – 31

پنجابی اکھان ، ردیف الف نمبر 35 – 31

پنجابی اکھان ردیف الف کی نیُ قسط حاضر ہے. اس سے پہلے پنجابی اکھان ردیف ا – 30-26 پیش کی گییُ تھی. پنجانی اکھان سُننے ہوں تو دیہات کی کسی بیٹھک میں جایُں ، وہاں پر محفل جمی ہوگی. حُقّے کا دور چل رہا ہوگا. بڑے بُوڑھے باتوں باتوں میں موضوع اور موقع محل کے مطابق کویُ نہ کویُ پنجابی اکھاں کہہ دیں گے. ایسا اکھان پوری بات کو چند الفاظ میں نہایت خوبی سے ادا کر دے گا.
اب آپ پ نجابی اکھان ردیف ا – 35-31 تک کے اکھان پڑھیےُ.
ا.

نمبر 31 : اوہو ترنگڑ کھتیاں       اوہو کالی رات

آسمان پر ترنگڑ اور کھتیاں بھی وہی ہیں اور رات بھی پہلے کی طرح ویسی ہی سیاہ ہے. کویُ فرق نہیں پڑا.
آدھی رات کو خصوصآ سردیوں میں جب کہ چاند ابھی نہ نکلا ہو یا ڈوب چکا ہو، آسمان کی طرف دیکھیں تو ٰآپ کو چھوٹے چھوٹے ستارون کی ایک لمبی سی سڑک دکھایُ دے گی.دیہاتی اسے “کھتّی ” کہتے ھیں. فلکیات میں اسے ملکی وے
کیتے ھیں. اس کے پاس ہی ایک دوسرے کے نزدیک تیں روشن ستارے نظر آیُں گے. انہیں ” ترنگڑ ” ( تیں ستاروں کا جھرمٹ) کیتے ھیں. یہ کھتی اور ترنگڑ ایک مقررہ راستے پر سفر کرتے ھیں. اور ایک خاص وقت پر ایک خاص مقام پر
نظر آتے ہیں. ان کی جگہ میں کویُ تبدیلی نہیں ہو گی. مثلآ آپ نے15 نومبر کو رات 12 بجے انہیں ایک مقام پر دیکھا، اب اگر آپ دس سال بعد 15 نومبر کی رات 12 بجے انہیں دیکھیں، یہ آپ کو اسی مقام پر نظر آیُں گے جہاں آپ نے دس سال پہلے دیکھا تھا.
یہ کہاوت ایسے موقعوں پر بولی جاتی ہے جب کسی شخص کی حالت مدت گزرنے کے بعد بھی پہلے جیسی ہو اور اس میں کویُ بہتری نہ آیُ ہو. حبیب جالب کا یہ شعر تھوڑے سے اضافے کے ساتھ اس کہاوت کا مفہوم ادا کرتا ہے.
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے

نمبر 32 ” اپنا گھر ہگ ہگ بھر         بیگانہ گھر تھکے دا ڈر

اپنے گھر میں جتنی چاہے گندگی پھیلا لو باہر کا آدمی کچھ نہیں کہے گا. دوسرے کے گھر میں تھوکتے ہوےُ بھی ڈر لگتا ہے کہ کہیں یہ نہ سننا پڑے ” ارے ! گھر کے اندر تھہک رہے ہو “.

– نمبر 33 : انہّے تے ہوےُ آں        سونے دیان موجاں نیں

ہم اندھے تو ہوےُ ہیں لیکن ایک فایُدہ بھی ہے. سونے کے لےُ آنکھیں بند نہیں کرنی پڑتی.
سونے کے لےُ آنکھوں کو بند کرنا پڑتا ہے تا کہ آنکھوں سے روشنی کا گزر نہ ہو. اندھے کی آنکھیں ویسے ہی بے نور ہوتی ہیں .سونے کے لےُ وہ آنکھیں بند کرے یا کھلی رکھے اسے کویُ فعق نہیں پڑتا.

نمبر 34 : اگلے کولوں بھجن نہیں ہوندا         پچھلے کولوں رلن نہیں ہوندا

آگے دوڑنے والا تیز دوڑ نہیں سکتا، اسے پکڑنے والا بھی سست ھے. یعنی دونوں ہی نکمے ہیں.

نمبر 35 : اکھیوں اوہلے گھت بھڑولے

آنکھ سے اوجھل شخص کی مثال ایسی ہے جیسے اسے کسی بھڑولے میں ڈال دیا جاےُ.
دیہات میں گندم یا کویُ دوسری جنس محفوظ رکھنے کے لےُ اسے بھڑولے میں رکھنے کا رواج ہے. ٹین سے بنا ہؤا سلنڈر نما یہ بھڑولا تقریبآ 3 فٹ قطر اور 6 سے 8 فٹ اونچا ہوتا ہے. اوپر ایک ڈھکن ہوتا ہے جسے بوقت ضرورت اٹھایا اور بند کیا جا سکتا ہے. نچلے کنارے پر ایک چوکور سوراخ رکھا جاتا ہے جہاں سے بوقت ضرورت گندم یا دوسری جنس نکالی جا سکتی ہے. اس سوراخ کو بند بھی کیا جا سکتا ہے.
اردو زبان میں اس کہاوت کا ہم معنی محاورہ “آنکھ اوجھل، پہاڑ اوجھل ” ہے.

جاری ہے.


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *