پنجابی اکھان، ردیف الف – نمبر – 54-41

پنجابی اکھان ، ردیف الف، نمبر  54 – 41

پنجابی اکھان ، ردیف الف ، 40 – 36 تک آپ کی نظر سے گزر چکی ہیں . اب اس سے اگلی قسط ملاحظہ کریں.
پنجابی اکھان آپ کو کتابوں میں مشکل سے ہی ملیں گے. پنجابی ادب بورڈ ، لاہور نے پبجابی اکھان کا ایک مجموعہ شایُع کر رکھا ہے. حقیقت یہ ہے کہ پنجابی اکھان جمع کرنے کے لیےُ آپ کو صوبہ پنجاب کے ہر گاؤں جانا پڑے گا. اور ہر گاؤں میں کم ازکم دو ہفتے ٹھہرنا پڑے گا.
مختصر تعارف کے بعد اس قسط کے پنجابی اکھان پڑھیےُ.

نمبر 41 : آٹا گندھی ہلدی کیوں اے
ذرا دیکھو تو ! آٹا گوندھتے ہوےُ یہ ہل کیوں رہی ہے ؟
عورتیں آٹا گوندھتے وقت ( بشرطیکہ ہاتھ سے گوندھا جاےُ، پاؤں سے نہیں) آگے پیچھے ہلتی رہتی ہیں، اس طرح جھکے بغیر زور نہیں لگتا. گویا آگے آگے پیچھے ہلنا ان کی مجبوری ہے. اور اس میں کسی کا نقصان بھی نہیں. ناراض ہونے کے لےُ یہ بہانہ ڈھونڈنا کہ عورت آٹا گوندھتے ہوےُ ہل کیوں رہی ہے ، محض موقع دھوندھنے والی بات ہے.

نمبر 42 : اگّاں لگیاں مینہ نہیں وسدے
کسی جگہ آگ لگنے پر یہ دعا ماںگی جاےُ کہ یا اللہ! مینہ برسا تاکہ آگ بجھ جاےُ، تو ایسے تو مینہ نہیں برستا.

نمبر 43 : آہ کوہ تے آہ میدان
سامنے کھلا میدان ہے، اس میں ایک کوس ناپ لو.
پنجابی زبان میں کوس کو کوہ کہتے ہیں. کچھ لوگوں میں بیٹھا ایک شخص ڈینگیں مار رہا تھا کہ میں بہت تیز دوڑتا ہوں ایک کوس کا فاصلہ پانچ منٹ میں طے کر لیتا ہوں . دوسرے نے کہا تم جھوٹ بول رہے ہو. میں شرط لگاتا ہوں تم ایسا نہیں کر سکتے. تیسرے نے کچھ اور کہا . لوگ جھگرنے لگے. ایک سیانے شخص نے کہا تم آپس میں کیون جھگڑتے ہو . یہ سامنے کھلا میدان ہے . ایک کوس کا فاصلہ مقرر کر لو.اس شخص سے کہو اپنے دعوے کو سچ ثابت کرنے کے لےُ ایک کوس کا فاصلہ پانچ منٹ میں طے کر کے دکھا دے.

نمبر 44 : اس بابل دا کویُ اعتبار نہیں ڈولی پایُ ہویُ کڈھ لوے
اس باپ کا کویُ اعتبار نہیں، غصہ میں آ گیا تو بعید نہیں کہ ڈولی میں بیٹھی وداع ہوتی ہویُ بیٹی کو ڈولی سے نکال کر واپس گھر لے جاےُ
بے اعتبار شخص کی ذہنیت کی ّعکاسی کرنے کے لےُ یہ ایک بے مثال کہاوت ہے.

<-p style=”text-align: right;”> نمبر 45″ اپنے مارن تے چھاویں سٹدے نے
کسی دشمنی کی وجہ سے اگر کویُ اپنے کسی رشتہ دار کو قتل کر دے، تو وہ کم از کم یہ تو کرتا ہے کہ لاش کو کسی سایہ میں ڈال دیتا ہے تاکہ دھوپ سے بچا رہے. اپنے پھر اپنے ہوتے ہیں.

نمبر 46 : اللہ دتیاں گاجراں وچّے رنبہ رکھ
کھرپہ کو رنبہ بھی کہتے ہیں. جس سے پودوں کی گوڈی کی جاتی ہے. اسی کھرپے کی مدد سے زمین سے گاجریں بھی نکالی جاتی ہیں. ایک لالچی آدمی کو کسی نے تھوڑی سی گاجریں نکالنے کی اجازت دی. اس نے اس اجازت کو لمبا کر لیا اور ڈھیر ساری گاجریں نکال لیں.

نمبر 47 اکھیں ویکھیاں موہرا کویُ نہیں کھاندا
زہر کو پنجابی زبان میں موہرا کہتے ہیں. جب یہ پتہ ہو کہ میرے سامنے زہر ہے تو اسے کویُ بھی شخص نہیں کھاےُ گا.
یہ دیکھتے ہوےُ کہ سامنے گہری کھایُ ہے کویُ بھی شخص جان بوجھ کر اس میں چھلانگ نہیں لگاےُ گا.اسے پتہ ہے کہ اس طرح میں مر جاؤں گا. اسی طرح اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوےُ کہ یہ زہر ہے اور اس کے کھانے سے میں مر جاؤں گا، کویُ بھی شخص زہر نہیں کھاتا.

نمبر 48 اسبغول تے کجھ نہ پھول
اسنغول کا اگر پوسٹ مارٹم کریں گے تو اس میں سے کچھ بھی نہیں نکلے گا. اسبغول کا دانہ تو ویسے ہی بہت باریک ہوتا ہے.

نمبر 49 ” اپنی منجی ہیٹھ ڈانگ پھیر
کسی کے عیب بتانے سے پہلے اپنے آپ میں جھانکو کہ کہیں یہی عیب مجھ میں بھی تو نہیں. لفظی ترجمہ کچھ یوں ہے کہ کسی کو یہ بتانے سے پہلے کہ اسکی چارپایُ کے نیچے کیا کیا چھپا پؤا ہے (یا اس میں کیا کیا عیب ہیں) اپنی چارپایُ کے نیچے بھی نگاہ ڈال لو.

نمبر 50: اپنا منہ تے اپنی چپیڑ
منہ بھی اپنا ہے اور چپت بھی اپنی ہے . اپنے منہ پر چپت مارنے سے خود ہی کو درد ہو گا، اور کسی دوسرے پر افسوس بھی نہیں ہو گا کہ اس نے مجھے چپت ماری ہے.

نمبر 51 ” اجاڑے نوں اجاڑ ہی ڈکدا اے
کویُ شخص آپ کا نقصان کرے اور منع کرنے پر بھی ناز نہ آےُ، تو اسے اس جیسا ہی نقصان پہنچایُں تو وہ باز آ جاےُ گا.
دو اشخاص الف اور ب کے کھیتوں کی حد آپس میں ملتی تھی. الف کا کویُ نہ کویُ جانور بے کے کھیت میں داخل ہو کر اس کی فصل اجڑ دیتا. کیُ بار منع کرنے پر بھی الف نے اپنے جانوروں کو باندھ کر نہ رکھا. اور وہ جانور الف کی فصل کو اجاڑتے رہتے. تنگ آ کر ب نے اپنے جانور الف کی فصل میں چھوڑ دیُے ، جنہوں نے الف کی فصل اجاڑ دی دی. جس کا الف کو بڑا دکھ ہؤا. اسے احساس ہؤا کہ دوسرے بھی اپنی اجڑنے پر ایسا ہی دکھ محسوس کرتے ہوں گے. آُٰیُندہ کے لیےُ وہ اپنے جانور باندھ کر رکھنے لگا.
اردو زبان کا محاورہ ” جیسے کو تیسا : اس کہاوت کے معنی کے قریب تر ہے.

نمبر 52 : انّہے ہتھ ڈانگ
( اندھے آدمی کے ہاتھ میں لاٹھی آ گیُ ہے، وہ یہ نہیں دیکھے گا کہ لاٹھی کس کو لگ رہی ہے . یہ لاٹھی قصوروار اور بے قصور کو بھی لگ سکتی ہے.)
بے وقوف ، جاہل یا نا اہل کو اقتدار مل جاےُ ، تو وہ یہ نہیں دیکھے گا کہ عوام میں کون سچا اور کون قصوروار ہے. وہ تو سب کو اندھی لاٹھی سے مارتا چلا جاےُ گا.

نمبر 53- آلو وکن نہ وکن کھوتا شہر ویکھ آیا یے
آلو بکین یا نہ بکیں، پرواہ نہیں، خوشی کی بات یہ ہے کہ میرا گدھا شہر کی سیر کر آیا ہے.
جلال دین کمہار گاؤں میں آلو بیچتا تھا. ایک دین اس نے سوچا کہ گدھے پر آلو لاد کر نزدیکی شہر میں جا کر بیچے جایُں. اس نے گدھے پر آلو لادے اور شہر کو چل پڑا. شہر میں سارا دن گھومتا رہا، مگر کویُ خاص بکری نہ ہویُ. شام کو گھر واپس آ گیا. دوسرے دن پڑوسی نے پوچھا ” ہاں بھیُ، کل تم آلو بیچنے شہر گےُ تھے کیا حالات رہے”. جلال دین کہنے لگا ” آلو بکیں یا نہ بکیں، خوشی کی بات یہ ہے کہ میرے گدھے نے شہر کی سیر کر لی ہے “.
یہ کہاوت اس وقت کہی جاتی ہے جب کسی نا اہل شخص کو اس کی قابلیت سے زیادہ والی پوسٹ مل جاےُ اور وہ اس میں ناکام ہو جاےُ.اور بعد میں وہ یہ ڈینگ تو مار سکتا ہے کہ میں نے فلاں اونچی پوسٹ پر کام کیا ہے.

نمبر 54 – آکڑ کے مر جاں دا ، پر دلیہ نہیں کھاواں گا
سارا جسم اکڑا ہؤا ہے. ہاتھ پیر ہلا نہیں سکتا. لیکن میں دلیہ نہیں کھاؤں گا.
ایک ضدی شخش کو کویُ ایسی بیماری لگ گیُکہ اس کا سارا جسم اکڑ گیا. ہاتھ پاؤں تک ہلا نہیں سکتا تھا. علاج کے لیےُ ایک حکیم صاحب کو بلایا گیا. انہوں نے سارے حالات پوچھے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ مریض کی طاقت بالکل زایُل ہو چکی ہے. انہوں نے تجویز کیا کہ مریض کو جو کا دلیا کھلایا جاےُ. ضدّی شخص کہنے لگا ” نہیں، میں اکڑ کر مر جانا پسند کروں گا، مگر دلیا نہیں کھاؤں گا “.
یہ کہاوت ایسے شخص کے لیےُ کہی گیُ ہے جو پرلے درجے کا ضدّی اور ہٹ دھرم ہو. اور اپنی ضد یا ہٹ دھرمی کسی قیمت پر بھی چھوڑنے پر راضی نہ ہو. چاہے کتنا ہی نقصان ہو جاےُ.
اردو زبان کی کہاوت ہے ” کتّے کی دُم دس برس نلکی میں رہی، باہر نکالی تو ٹیڑھی کی ٹیڑھی ہی رھی ” اس پنجابی کہاوت کے مدہوم کے قریب تر ہے.

جاری ہے.

Leave a Reply